حکومت نے 10 بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگانے کا اعلان کردیا جن میں سیمنٹ، چینی، تیل و گیس، کھاد، ایل این جی ٹرمینل، ٹیکسٹائل، بینکنگ، آٹوموبائل، سگریٹ، اسٹیل، کیمیکل، بیوریجز شامل ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ بجٹ سے متعلق اہم فیصلے کیے ہیں، کوئی سبز باغ نہیں دکھاؤں گا، بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگایا جائے گا۔ یہ ٹیکس غربت کے خاتمے کیلئے لگایا گیا ہے۔
معروف تجزیہ کار اور صحافی اس ٹیکس کی مخالفت کرتے نظرآتے ہیں لیکن بعض تجزیہ کاروں نے اسکی حمایت کی ہے اور جواز فراہم کیا ہے کہ یہ ٹیکس امیروں پر لگایا گیا ہے۔ یہ اربوں روپیہ منافع کماتے ہیں اور نظام کے سب سے بڑے بینیفشری ہیں۔
کامران یوسف جو ایکسپریس نیوز پر شہبازرانا کیساتھ ملکر پاکستانی معیشت پر تجزیہ کرتے ہیں، وہ سپرٹیکس کی حمایت کرتےہیں۔
ان کاکہنا تھا کہ پاکستان کیوں ترقی نہیں کر سکتا کیونکہ ایک طرف ہم کہتے ہیں کہ امیروں پر ٹیکس لگنا چاہیے جب امیروں پر ٹیکس لگتا ہے تو پھر ہم رونا شروع کر دیتے ہیں کہ اس سے معاشی ترقی رک جائے گی وغیرہ وغیرہ کیا سیمنٹ، چینی، ٹیکسٹائل، اسٹیل، مشروبات اور گاڑیاں بنانے والے ارب پتیوں پر ٹیکس ناجائز ہے؟
تحریک انصاف پر لفظی وار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور ان کے حمایتی آج ارب پتی صنعتکاروں کے ترجمان بن گئے ہیں اشرافیہ پر ٹیکس لگانے پر ایسے رو رہے ہیں جیسے یہ ارب پتی اپنا سارا منافع ان کے ساتھ شیئر کرتے تھے۔ سپر ٹیکس منافع پر یے اس لیے یہ عام آدمی سے وصول نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جتنا منافع بڑھے گا اتنا ٹیکس بھی بڑھے گا
انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی جو ہر وقت مافیا مافیا کرتی رہتی تھی آج مافیا پر ٹیکس لگانے پر سوگ میں ہے، آج ان کے حمایتی یہ کہہ رہے ہیں ارب پتی کمپنیوں اور افراد پر ٹیکس لگے گا تو معیشت تباہ ہو جائے گی!
شہبازرانا کا کہنا تھا کہ حکومت نے کمپنیوں پر 4 سے 10 فیصد اضافی انکم ٹیکس عائد کرنے کا درست قدم اٹھایا ہے۔
جنگ، جیو کے صحافی انصار عباسی نے تبصرہ کیا کہ پیسہ والے کروڑ پتیوں ارب پتیوں سے ٹیکس لیں چاہیے وہ جتنا مرضی شور کریں۔
امیروں اور ارب پتی صنعت کاروں پر سپر ٹیکس کا حکومتی اقدام بہت خوش آئند ہے۔ یہ ہمیشہ سے پاکستانی عوام کا مطالبہ رہا ہے۔
آج نیوز کے صحافی عثمان عبداللہ کا کہنا تھا کہ سپر ٹیکس لگانے کی جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ اس ملک کے عوام نے ہمیشہ اپناخون پسینہ دیاہے، اگر اشرافیہ کی جیبوں سے چند لاکھ نکل جائیں توقیامت نہیں آتی۔ حیرت ان صحافیوں پر ہورہی ہے جو اشرافیہ کے ترجمان بن کر ایسی قیامت ڈھارہے ہیں جیسے ان کو ملنے والے حصے میں سے کٹوتی ہورہی ہو۔
ن لیگی سوشل میڈیا ٹیم کے اہم رکن فیصل رانجھا نے لکھا کہ دہائیوں سے رو رہے تھے کہ امیروں پر ٹیکس نہیں لگاتے پر دفعہ غریبوں اور تنخواہ دار کلاس پر ٹیکس لگتا اب جب امیروں پر ٹیکس لگا تو ان کے پیڈ حواری سوشل اور الکٹرانک میڈیا پر رو رو کر کپڑے پھاڑ رہے ہیں
عمران وسیم کا کہنا تھا کہ بجٹ میں غریب پر ٹیکس لگے تو اشرافیہ نہیں بولتی، آج حکومت نے اشرافیہ پر سپر ٹیکس لگایا تو اشرافیہ کی چیخیں نکل گئی، کہتے ہیں ٹیکس بڑھانے سے پراڈیکٹس مہنگی ہوجائے گی، غریب پر ہی بوجھ پڑے گا، اوہ بھائی حکومت نے ٹیکس پراڈیکٹس پر نہیں اشرافیہ کی آمدن پر لگایا ہے اس لیے چیخ رہے ہیں
سپرٹیکس کی حمایت کرنیوالے صحافیوں کو جواب۔
جنید ایک سوشل میڈیا صارف ہیں جو پاکستانی مسائل پر مدلل گفتگو کرتے ہیں۔ عمران وسیم کے ٹویٹ کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں کو کمپنی اور انسان میں فرق سیکھنا ہوگا کمپنی ہرگز اشرافیہ نہیں ہوتی
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور opinion maker صحافیوں کو ایک کارپوریٹ کمپنی اور ذاتی ملکیت میں فرق تک معلوم نہیں ہوگا اور یہ لوگ اس ملک کے کرتا دھرتا بنے ہوئے ہیں جو ٹیکس آپ کارپویٹ کمپنیوں پر لگا رہے ہیں، وہ کسی ایک شخص یا گروہ کی ذاتی جاگیر نہیں ہیں کارپوریٹ کمپنی، گاڑی نہیں ہوتی