عدالتیں بھی غلط فیصلے دے دیتی ہیں تو کیا ججوں پر بھی آرٹیکل 6لگایا جائے گا؟

15aitzaaahasaartcle6.jpg

آرٹیکل 6 کو مذاق نہ بنایا جائے، بعض اوقات عدالتیں بھی غلط فیصلے دے دیتی ہیں، کسی جج کا فیصلہ کالعدم ہو جائے تو کیا اس پر بھی آرٹیکل 6 لگنا چاہیے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کی جانب سے سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی 3 اپریل کو رولنگ کے خلاف ازخود نوٹس کے تفصیلی فیصلے میں جسٹس مظہر عالم میاں خیل کے اضافی نوٹ پر نجی ٹی وی چینل 92 نیوز کے پروگرام نائٹ ایڈیشن میں پروگرام کی میزبان شازیہ ذیشان کے سوال کہ فیصلے کے بعد اضافی نوٹ میں آرٹیکل 6 کی جو بات کی گئی ہے کیا اس کے تحت کارروائی ہونی چاہیے؟ کے جواب میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما اعتزاز احسن نے کہا کہ آرٹیکل 6 کو مذاق نہ بنایا جائے، بعض اوقات عدالتیں بھی غلط فیصلے دیتی ہیں، کسی جج کا فیصلہ کالعدم ہو جائے تو کیا اس پر بھی آرٹیکل 6 لگنا چاہیے۔


انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں اضافی نوٹ کے حوالے سے میں وفاقی وزیر فواد چودھری کی باتوں سے متفق ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی ہر خلاف ورزی پر آرٹیکل 6 لگنا شروع ہو گیا تو ہائیکورٹ کے جج جو روزانہ فیصلے دیتے ہیں جنہیں سپریم کورٹ کالعدم قرار دے دیتی ہے کہ یہ آئین کے خلاف فیصلہ ہے۔ کیا ان ہائیکورٹ کے ججوں پر بھی آرٹیکل 6 لگنا چاہیے۔ اور یہ جو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کسی ملزم کو سزائے موت دیتے ہیں اور ہائیکورٹ خلاف قانون کہہ دیتا ہے اور خلاف قانون آرٹیکل 5 کے تحت خلاف آئین بھی ہے تو کیا ان پر بھی آرٹیکل 6 لگا دیں گے؟

انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر میں فواد چودھری کے اس بیان پر کہ " آرٹیکل چھ پر مقدمے بننے شروع ہو گئے تو گلے بہت زیادہ ہیں، رسے کم پڑ جائیں گے" سے متفق ہوں۔ یہ آئین نہ ہو گیا قتل گاہ ہو گئی۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی خلاف ورزی ہر روز پاکستان میں ہزار ہا مرتبہ ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ اکثریتی رائے نہیں بلکہ صرف ایک اضافی نوٹ ہے، اگر ایسے ہونے لگے کہ آئین کی خلاف ورزی پر آرٹیکل 6 لگنا شروع ہو جائے تو کوئی نہیں بچے گا۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی صحیح تشریح نہیں کی جا رہی۔ 1993 میں اسمبلی توڑے جانے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق صدر غلام اسحق خان نے 17 اپریل 1993 کو نوازشریف کابینہ اور پوری اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔ سپریم کورٹ نے 26 مئی کو اسمبلی بحال کر دی تھی اور کہا تھا کہ یہ فیصلہ خلاف آئین ہے۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ: کیا کسی نے کہا تھا کہ صدر اسحق خان کے خلاف آرٹیکل 6 لگائو؟

سابق ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی 3 اپریل کو رولنگ کے خلاف ازخود نوٹس کے تفصیلی فیصلے پر جسٹس مظہر عالم میاں خیل کے اضافی نوٹ پر دو روز قبل وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کا اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے آرٹیکل 6 کے تحت ریفرنس دائر کرنے پر کام شروع کر دیا ہے۔ سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق آئین کی کھلی خلاف ورزی کی گئی بلکہ آئین کے ساتھ فراڈ بھی کیا گیا جو سب سے بڑا جرم ہے۔

پاکستان کے سابق وزیرِ اطلاعات و نشریات اور پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے بھی شدید ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ "جہاں تک ایک جج صاحب کے اضافی نوٹ کا سوال ہے تو اس کی کوئی قانون حیثیت نہیں ہے لیکن انہوں نے کوئی بندہ نہیں چھوڑا جس پر وہ آرٹیکل چھ لگانا چاہتے ہوں، جج صاحب کو بتانا چاہتا ہوں کہ آرٹیکل چھ پر مقدمے بننے شروع ہو گئے تو گلے بہت زیادہ ہیں، رسے کم پڑ جائیں گے۔"

وفاقی وزیر نے کہا تھا کہ’جب ہماری حکومت آئے گی تو ہم اس فیصلے کو پارلیمان میں لے جا کر ختم کروا دیں گے اور پارلیمان فیصلہ کرے گی کہ آرٹیکل 69 کی خلاف ورزی پر آرٹیکل 6 لگتا ہے یا نہیں۔‘ ’اگر جج آئین توڑیں تو اس کی کیا سزا ہونی چاہیے اور اگر ججوں کے آئین توڑنے پر سزا ہو گئی تو پھر تو معاملہ بڑا خراب ہو گا۔