
پبلک نیوز کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ٹک ٹاک پر پابندی اور سوشل میڈیا رولز کیخلاف دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی جائیگی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ نئے سوشل میڈیا رولز مرتب کر لئے گئے ہیں۔ عدالت نے استفسار کیا کہ نئے قوانین کو بھی انہی درخواستوں میں دیکھ سکتے ہیں، ہم جاننا چاہتے ہیں کہ عالمی سطح پر کیا ہو رہا ہے؟
عدالت نے کہا کہ اٹارنی جنرل جواب دیں سوشل میڈیا قوانین میں ترمیم کیلئے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی ہے یا نہیں؟ میڈیا میں رپورٹس آئی ہیں کہ عدلیہ کیخلاف ٹرینڈ چل رہا ہے، اس سے فرق کیا پڑتا ہے؟ عدلیہ کیخلاف ٹرینڈ چل رہا ہے تو کیا ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو بھی بند کر دیں گے؟
عدالت نے پوچھا کہ ہمیں بتایا جائے سوشل میڈیا قوانین پر کیا اعتراض تھے اور انہیں دور کیسے کیا گیا؟ نفرت انگیز تقاریر اور چائلڈ پورنوگرافی نہیں ہونی چاہیے۔ اداروں اور پبلک آفس ہولڈرز پر تنقید ہو سکتی ہے۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کو آئین کا کون سا سیکشن یہ اختیار دیتا ہے کہ پوری ویب سائٹ یا ایپ کو بلاک کردیں؟ پی ٹی اے تو صرف قابل اعتراض مواد کو بلاک کر سکتا ہے، پوری ویب سائٹ یا ایپ کو نہیں؟
عدالت نے واضح کیا کہ یہ ایپ تو غریب عوام کیلئے ایک انٹرٹینمنٹ ہے تو آپ اس پوری ایپ کو کیسے بند کر سکتے ہیں؟ اگر شکایت آئے کہ کوئی چیز قابل اعتراض ہے تو اس کا متعلقہ فورم ہی طے کریگا، آپ خود سے اس کا تعین کیسے کر لیتے ہیں کہ فلاں مواد قابل اعتراض ہے۔
عدالت نے کہا صرف ایک فیصد قابل اعتراض مواد پر آپ 99 فیصد کو بھی بلاک کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ اختیار کا غلط استعمال ہے۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے سماعت 22 نومبرتک ملتوی کر دی۔
کچھ عرصہ قبل کے عدالت کے ریمارکس۔
- Featured Thumbs
- https://www.siasat.pk/data/files/s3/khan-aaaaa.jpg
Last edited: