Haji Abdul Habib Attari | Ghous e Azam karamat

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)

آپ نے کہا آپ ان بحثوں میں پڑنا نہیں چاہتے لیکن پھر آپ نے اپنا نقطہ نظر بھی بیان کرنا ضروری سمجھا ؟؟؟
کیا یہ کھلا تضاد نہیں
؟؟؟
جواب میں بس اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ میرا پیغمبر عظیم تر ہے

نہیں یہ تضاد بلکل نہیں ہے؟ ذرا دوبارہ سے پڑھنا میں نے کیا کہا تھا؟
کہ میں اکثر ان بحثوں میں نہیں پڑتا ؟ مطلب صرف کبھی کبھی.... اب آپ نے اسے
متضاد کہکر میرے بارے میں لوگوں کو گمراہ
کرنے کی کوشش کی جو ایک غلط بات ہے

جب آپ لوگ بال کی کھال اتارے جا رہے...اتارے جا رہے...اتارے جا رہے؟ تو میں نے کہا
میں بھی اپنا نقطہ نظر کہتا ہوں؟ پھر آپ نے جو سوال پوچھے ،،جب کسی نے بھی
جواب نہیں دیا تو میں نے سوچا میں دیتا ہوں آپکو جواب ...لیکن آپ میں اتنی جرآت نہ ہوئی
که سکو جواب درست ہیں یا غلط؟ ہاہا جب آپ اس طرف اے ہی نہیں تو ظاہر ہے صحیح ہونگے
 

mrlalamusa

MPA (400+ posts)
چلے آپ ص مے جس صحابی کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی پہلے اسکا ذکر کردو بعد کے امتیوں کو تو بعد میں دیکھتے ہیں۔

اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جنات کو کنٹرول کرنے کی طاقت دی تھی اور جنات کو اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی طاقت دی ہے خواہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابی ہو یا کوئی اور جن۔۔ویسے تفاسیر میں آتا ہے کہ وہ کوئی فرشتہ تھے۔۔۔
اسلیے جنات کو عام لوگوں سے نہ ملاؤ یرہ


عن ابن عمر قال: وجه عمر جيشا وأمر عليهم رجلا يدعى سارية فبينما عمر يخطب يوما جعل ينادي: يا سارية الجبل - ثلاثا، ثم قدم رسول الجيش فسأله عمر، فقال: يا أمير المؤمنين! لقينا عدونا فهزمنا، فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتا ينادي: يا سارية الجبل - ثلاثا، فأسندنا ظهورنا إلى الجبل فهزمهم الله، فقيل لعمر: إنك كنت تصيح بذلك. "ابن الأعرابي في كرامات الأولياء والديرعاقولي في فوائده وأبو عبد الرحمن السلمي في الأربعين وأبو نعيم عق معا في الدلائل واللالكائي في السنة، كر، قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن".
ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کو روانہ فرمایا: اور حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو اُس لشکر کا سپہ سالار بنایا ، ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے درمیان یہ نداء دی کہ یا ساریۃ الجبل ، ائے ساریہ پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ یہ آپ نے تین دفعہ فرمایا ۔ جب لشکر کی جانب سے قاصد آیاتو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہاں کا حال دریافت کیا ؟ اُس نے کہا : ائے امیر المؤمنین ہم نے دشمن سے مقابلہ کیا تو وہ ہمیں شکست دے ہی چکے تھے کہ اچانک ہم نے ایک آواز سنی ، ائے ساریہ پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ پس ہم نے اپنی پیٹھ پہاڑ کی جانب کرلی تو اللہ تعالی نے دشمنوں کو شکست دے دی ۔ عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی عرض کیا گیا کہ بیشک وہ آواز دینے والے آپ ہی تھے ۔


(دلائل النبوة للبيهقي،حديث نمبر:2655)
(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال لعلي المتقي الهندي،حرف الفاء ، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، حديث نمبر:35788)
(الإصابة في معرفة الصحابة،لابن حجر العسقلاني،القسم الأول ،السين بعدها الألف)
اس روایت کوحافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب الإصابة في معرفة الصحابة میں ذکر کرنے کے بعد اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب​
 

mrlalamusa

MPA (400+ posts)
چلے آپ ص مے جس صحابی کو اللہ تعالیٰ نے یہ طاقت دی پہلے اسکا ذکر کردو بعد کے امتیوں کو تو بعد میں دیکھتے ہیں۔

اور حضرت سلیمان علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے جنات کو کنٹرول کرنے کی طاقت دی تھی اور جنات کو اللہ تعالیٰ نے ویسے ہی طاقت دی ہے خواہ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے صحابی ہو یا کوئی اور جن۔۔ویسے تفاسیر میں آتا ہے کہ وہ کوئی فرشتہ تھے۔۔۔
اسلیے جنات کو عام لوگوں سے نہ ملاؤ یرہ

صحابہ اور ان کے تابعین اور دیگر صالحین کی کرامات تو بہت زیادہ ملتی ہیں مثلاً اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سورۂ کہف پڑھ رہے تھے تو آسمان سے ایسی چیز اتری تھی جو بادل کا سیاہ سائبان معلوم ہوتا تھا اور جس میں گویا چراغ روشن تھے۔ یہ فرشتے تھے جو کہ ان کی قرأت سننے کے لیے آئے تھے۔
(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، رقم: ۳۶۱۴، مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب نزول السکینۃ رقم: ۱۸۵۹، ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فی سورۃ الکہف، رقم: ۲۸۸۵، مسند احمد ۴؍۲۸۱۔)
سیدناعمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو فرشتے سلام کیا کرتے تھے۔
(مسلم کتاب الحج، باب التمتع، رقم: ۲۹۷۴۔)
سیدناسلمان اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہما جس طشتری میں کھانا کھا رہے تھے کہ وہ طشتری یا وہ چیزیں جو کہ اس میں تھیں، تسبیح پڑھنے لگیں۔ سیدناعباد بن بشر رضی اللہ عنہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ رسول ﷺ کے پاس سے اندھیری رات میں نکلے تھے اور تازیانہ کے کنارے کی شکل کا ایک نور ان کے لیے روشنی کرتا تھا۔ جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو وہ روشنی بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک حصہ ایک کے ساتھ اور ایک حصہ دوسرے کے ساتھ ہوگیا۔
(بخاری، ۳۸۰۵، کتاب مناقب الانصار، باب منقبہ، اُسید بن حضیر و عباد بن بشر، مسند احمد ۳؍۱۳۱)
صحیحین میں سیدناصدیق رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے کہ جب وہ تین مہمانوں کے ہمراہ اپنے گھر کی طرف گئے۔ جو لقمہ کھاتے تھے، اس کے نیچے کھانا بڑھ کر اس سے زیادہ ہو جاتا تھا چنانچہ سب نے پیٹ بھر کر کھا بھی لیا اور کھانا بھی پہلے کی نسبت زیادہ ہوگیا۔ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ کھانا پہلے سے زیادہ ہے تو سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اس کھانے کو رسولﷺکے پاس لے گئے۔ وہاں بہت سے لوگ آئے سب نے کھانا کھایا اور سب سیر ہوگئے۔
(بخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب السمر مع الضیف والاھل رقم: ۶۰۲، مسلم کتاب الاشربہ، باب اکرام الضیف، رقم: ۵۳۶۵)
سیدناخبیب بن عدی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں مشرکین کے پاس قیدی تھے اور ان کے پاس انگور لائے جاتے تھے جنہیں آپ کھایا کرتے تھے، حالانکہ مکہ میں انگور نہیں ہوتے۔
(بخاری ، کتاب الجہاد باب ھل یستاثر الرجل ومن لم یستاثر، ۳۰۴۵)
سیدناعامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔ لوگوں نے ان کی نعش کو ڈھونڈا لیکن نہ ملی۔ بات یوں ہوئی کہ نعش قتل ہوتے ہی اٹھا لی گئی تھی، عامر بن طفیل نے نعش کو ہوا میں اٹھتے ہوئے دیکھا۔ عروہ کہتے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں فرشتوں نے اٹھا لیا تھا۔
سیدہ اُم ایمنrہجرت کر کے نکلیں تو ان کے پاس راستے کا خرچ تھا اور نہ پانی، قریب تھا کہ پیاس سے ہلاک ہو جاتیں۔ روزہ دار بھی تھیں، جب افطار کا وقت قریب آیا تو ان کو اپنے سر پر کوئی آہٹ سنائی دی۔ سر اٹھایا تو کیا دیکھتی ہیں کہ ایک ڈول لٹک رہا ہے۔ چنانچہ آپ نے اس ڈول سے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور زندگی بھر ان کو کبھی پیاس نہیں لگی۔
(ابن سعد ۸/۲۲۴۔ الاصابہ۔ باسناد رجالہ ثقات ولکنہ منقطع (ازھر عفی عنہ))
رسول اللہﷺکے غلام سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر کو خبر دی کہ میں رسول اللہﷺکا غلام ہوں تو شیر ان کے ساتھ چل پڑا حتیٰ کہ انہیں منزل مقصود پر پہنچا دیا۔
(مستدرک حاکم ۳؍۶۰۶، مجمع الزوائد ۹؍۳۶۶، والبیہقی فی الدلائل ۶؍۴۶)
براء بن مالک رضی اللہ عنہ جب اللہ کو قسم دیتے تھے تو ان کی قسم سچی کر دی جاتی تھی۔
(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب براء بن مالک، رقم: ۳۸۵۴)
جب جہاد میں جنگ کا زور مسلمانوں پر آپڑتا تھا تو صحابہ رضی اللہ عنہم فرمایا کرتے تھے، اے براء رضی اللہ عنہ اپنے پروردگار کو قسم دو۔ آپ کہا کرتے تھے ''اے میرے پروردگار میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے کندھے ہمیں بخش دے۔ (یعنی ان کی مشکیں باندھ کر ہمارے حوالے کر دے) تو پھر دشمن کو شکست ہوجاتی تھی چنانچہ جب یوم قادسیہ میں آپ نے کہا کہ اے میرے پروردگار! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے کندھے ہمیں بخش دے اور مجھے پہلا شہید بنا تو کفار کو شکست ہوگئی اور سیدنابراء رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔
سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب ایک مستحکم قلعہ کا محاصرہ کر لیا، تو کفار سے کہاکہ اسلام قبول کرو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک اسلام نہیں لائیں گے جب تک تو زہر نہ پی لے۔ سیدناخالد رضی اللہ عنہ نے زہر پی لیا لیکن انہیں کچھ نقصان نہ ہوا۔
(مجمع الزوائد، ۹؍۳۵۰، طبرانی)
سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس درجہ مستجاب الدعوات تھے کہ جو دعا بھی کرتے تھے، منظور ہوجاتی تھی۔ آپ ہی نے کسریٰ کی فوجوں کو ہزیمت دی اور عراق فتح کیا۔
(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب سعد بن ابی وقاص، رقم: ۳۷۵۱)
سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب ایک لشکر بھیجا تو ساریہ نامی ایک شخص کو اس کا امیر بنایا۔ اس لشکر کی روانگی کے بعد ایک مرتبہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ منبرپر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ بڑے زور سے چلانے لگے (یا ساریۃ الجبل یا ساریۃ الجبل) ''اے ساریہ پہاڑ کی طرف۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف'' اس کے بعد لشکر کا قاصد آیا، اس سے حال پوچھا تو اس نے عرض کیا اے امیرالمومنین! دشمن سے جب ہمارا مقابلہ ہوا تو اس نے ہمیں شکست دے دی۔ اتنے میں ہمیں ایسی آواز آئی گویا کوئی چلانے والا یوں چلا رہا ہے۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف، اس پر ہم نے پہاڑ کی طرف پیٹھیں کر لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دے دی۔
(اس کو واقدی نے نقل کیا اور بیہقی نے دلائل النبوۃ ۶؍۳۷۰ میں الاصابہ لابن حجر قال الالبانی وقد خرجۃ فی الصحیحہ ۱۱۱۰۔)
زنیرہ رضی اللہ عنہ کو اسلام لانے کی وجہ سے عذاب دیا گیا لیکن اس نے اسلام نہ چھوڑا اور اس کی بینائی جاتی رہی۔ مشرکوں نے کہا، اس کی بینائی لات و عزیٰ لے گئے۔ زنیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ''واللہ ہرگز نہیں'' اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔
(الاصابہ: ۴/۳۱۲۔)
سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے ارویٰ بنت حکم کے خلاف بددعا کی اور وہ اندھی ہوگئی۔ واقعہ یوں ہے جب کہ ارویٰ نے سعید پر کوئی جھوٹا الزام لگایا تو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ! اگر وہ جھوٹی ہے تو اسے آنکھ سے اندھی کر دے یا اسے اسی زمین میں ہلاک کر دے، چنانچہ وہ اندھی ہوگئی۔ اور اپنی زمین کے ایک گڑھے میں گر کر مر گئی۔
(مسلم کتاب المساقاۃ، باب تحریم الظلم، وغصب الارض وغیرھا، رقم: ۱۶۱۰)
علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نبیﷺکی طرف سے بحرین کے حاکم تھے اور اپنی دعا میں کہا کرتے تھے۔ یاعلیم، یا حلیم، یا علی، یاعظیم، تو ان کی دعا قبول ہوجایا کرتی تھی۔ایک مرتبہ ان کے کچھ آدمیوں کو پینے اور وضو کرنے کے لیے پانی نہ ملا تو آپ نے دعا کی اور قبول ہوگئی۔ ایک دفعہ سمندر ان کے سامنے آگیا اور وہ گھوڑوں کے ذریعہ اسے عبور کرنے پر قادر نہ تھے۔ آپ نے دعا کی تو ساری جماعت پانی پر سے گزر گئی اور ان کے گھوڑوں کی زینیں بھی تر نہ ہوئیں۔ پھر آپ نے دعا کی کہ میں مرجائوں تو یہ لوگ میری نعش نہ دیکھنے پائیں۔ چنانچہ ان کی نعش لحد میں نہ پائی گئی۔
 

Nice2MU

President (40k+ posts)



عن ابن عمر قال: وجه عمر جيشا وأمر عليهم رجلا يدعى سارية فبينما عمر يخطب يوما جعل ينادي: يا سارية الجبل - ثلاثا، ثم قدم رسول الجيش فسأله عمر، فقال: يا أمير المؤمنين! لقينا عدونا فهزمنا، فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتا ينادي: يا سارية الجبل - ثلاثا، فأسندنا ظهورنا إلى الجبل فهزمهم الله، فقيل لعمر: إنك كنت تصيح بذلك. "ابن الأعرابي في كرامات الأولياء والديرعاقولي في فوائده وأبو عبد الرحمن السلمي في الأربعين وأبو نعيم عق معا في الدلائل واللالكائي في السنة، كر، قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن".
ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کو روانہ فرمایا: اور حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو اُس لشکر کا سپہ سالار بنایا ، ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے درمیان یہ نداء دی کہ یا ساریۃ الجبل ، ائے ساریہ پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ یہ آپ نے تین دفعہ فرمایا ۔ جب لشکر کی جانب سے قاصد آیاتو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہاں کا حال دریافت کیا ؟ اُس نے کہا : ائے امیر المؤمنین ہم نے دشمن سے مقابلہ کیا تو وہ ہمیں شکست دے ہی چکے تھے کہ اچانک ہم نے ایک آواز سنی ، ائے ساریہ پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ پس ہم نے اپنی پیٹھ پہاڑ کی جانب کرلی تو اللہ تعالی نے دشمنوں کو شکست دے دی ۔ عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی عرض کیا گیا کہ بیشک وہ آواز دینے والے آپ ہی تھے ۔


(دلائل النبوة للبيهقي،حديث نمبر:2655)
(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال لعلي المتقي الهندي،حرف الفاء ، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، حديث نمبر:35788)
(الإصابة في معرفة الصحابة،لابن حجر العسقلاني،القسم الأول ،السين بعدها الألف)
اس روایت کوحافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب الإصابة في معرفة الصحابة میں ذکر کرنے کے بعد اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب​

ضعیف حدیث ہے یرہ۔۔۔۔ کسی صحابی کیساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ وصف پیغمبروں کا تھا نہ کہ انکے صحابہ کا۔ اس واقعے کی کتاب کا علم ہے؟
 

Nice2MU

President (40k+ posts)

صحابہ اور ان کے تابعین اور دیگر صالحین کی کرامات تو بہت زیادہ ملتی ہیں مثلاً اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سورۂ کہف پڑھ رہے تھے تو آسمان سے ایسی چیز اتری تھی جو بادل کا سیاہ سائبان معلوم ہوتا تھا اور جس میں گویا چراغ روشن تھے۔ یہ فرشتے تھے جو کہ ان کی قرأت سننے کے لیے آئے تھے۔
(بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام، رقم: ۳۶۱۴، مسلم کتاب صلوٰۃ المسافرین، باب نزول السکینۃ رقم: ۱۸۵۹، ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ماجاء فی سورۃ الکہف، رقم: ۲۸۸۵، مسند احمد ۴؍۲۸۱۔)
سیدناعمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو فرشتے سلام کیا کرتے تھے۔
(مسلم کتاب الحج، باب التمتع، رقم: ۲۹۷۴۔)
سیدناسلمان اور ابوالدرداء رضی اللہ عنہما جس طشتری میں کھانا کھا رہے تھے کہ وہ طشتری یا وہ چیزیں جو کہ اس میں تھیں، تسبیح پڑھنے لگیں۔ سیدناعباد بن بشر رضی اللہ عنہ اور اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ رسول ﷺ کے پاس سے اندھیری رات میں نکلے تھے اور تازیانہ کے کنارے کی شکل کا ایک نور ان کے لیے روشنی کرتا تھا۔ جب وہ ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو وہ روشنی بھی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ ایک حصہ ایک کے ساتھ اور ایک حصہ دوسرے کے ساتھ ہوگیا۔
(بخاری، ۳۸۰۵، کتاب مناقب الانصار، باب منقبہ، اُسید بن حضیر و عباد بن بشر، مسند احمد ۳؍۱۳۱)
صحیحین میں سیدناصدیق رضی اللہ عنہ کا قصہ ہے کہ جب وہ تین مہمانوں کے ہمراہ اپنے گھر کی طرف گئے۔ جو لقمہ کھاتے تھے، اس کے نیچے کھانا بڑھ کر اس سے زیادہ ہو جاتا تھا چنانچہ سب نے پیٹ بھر کر کھا بھی لیا اور کھانا بھی پہلے کی نسبت زیادہ ہوگیا۔ سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی رضی اللہ عنہا نے جب دیکھا کہ کھانا پہلے سے زیادہ ہے تو سیدناابوبکر رضی اللہ عنہ اس کھانے کو رسولﷺکے پاس لے گئے۔ وہاں بہت سے لوگ آئے سب نے کھانا کھایا اور سب سیر ہوگئے۔
(بخاری ، کتاب مواقیت الصلاۃ، باب السمر مع الضیف والاھل رقم: ۶۰۲، مسلم کتاب الاشربہ، باب اکرام الضیف، رقم: ۵۳۶۵)
سیدناخبیب بن عدی رضی اللہ عنہ مکہ مکرمہ میں مشرکین کے پاس قیدی تھے اور ان کے پاس انگور لائے جاتے تھے جنہیں آپ کھایا کرتے تھے، حالانکہ مکہ میں انگور نہیں ہوتے۔
(بخاری ، کتاب الجہاد باب ھل یستاثر الرجل ومن لم یستاثر، ۳۰۴۵)
سیدناعامربن فہیرہ رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔ لوگوں نے ان کی نعش کو ڈھونڈا لیکن نہ ملی۔ بات یوں ہوئی کہ نعش قتل ہوتے ہی اٹھا لی گئی تھی، عامر بن طفیل نے نعش کو ہوا میں اٹھتے ہوئے دیکھا۔ عروہ کہتے ہیں لوگوں کا خیال ہے کہ انہیں فرشتوں نے اٹھا لیا تھا۔
سیدہ اُم ایمنrہجرت کر کے نکلیں تو ان کے پاس راستے کا خرچ تھا اور نہ پانی، قریب تھا کہ پیاس سے ہلاک ہو جاتیں۔ روزہ دار بھی تھیں، جب افطار کا وقت قریب آیا تو ان کو اپنے سر پر کوئی آہٹ سنائی دی۔ سر اٹھایا تو کیا دیکھتی ہیں کہ ایک ڈول لٹک رہا ہے۔ چنانچہ آپ نے اس ڈول سے خوب سیر ہو کر پانی پیا اور زندگی بھر ان کو کبھی پیاس نہیں لگی۔
(ابن سعد ۸/۲۲۴۔ الاصابہ۔ باسناد رجالہ ثقات ولکنہ منقطع (ازھر عفی عنہ))
رسول اللہﷺکے غلام سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ نے شیر کو خبر دی کہ میں رسول اللہﷺکا غلام ہوں تو شیر ان کے ساتھ چل پڑا حتیٰ کہ انہیں منزل مقصود پر پہنچا دیا۔
(مستدرک حاکم ۳؍۶۰۶، مجمع الزوائد ۹؍۳۶۶، والبیہقی فی الدلائل ۶؍۴۶)
براء بن مالک رضی اللہ عنہ جب اللہ کو قسم دیتے تھے تو ان کی قسم سچی کر دی جاتی تھی۔
(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب براء بن مالک، رقم: ۳۸۵۴)
جب جہاد میں جنگ کا زور مسلمانوں پر آپڑتا تھا تو صحابہ رضی اللہ عنہم فرمایا کرتے تھے، اے براء رضی اللہ عنہ اپنے پروردگار کو قسم دو۔ آپ کہا کرتے تھے ''اے میرے پروردگار میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے کندھے ہمیں بخش دے۔ (یعنی ان کی مشکیں باندھ کر ہمارے حوالے کر دے) تو پھر دشمن کو شکست ہوجاتی تھی چنانچہ جب یوم قادسیہ میں آپ نے کہا کہ اے میرے پروردگار! میں تجھے قسم دیتا ہوں کہ تو ان لوگوں کے کندھے ہمیں بخش دے اور مجھے پہلا شہید بنا تو کفار کو شکست ہوگئی اور سیدنابراء رضی اللہ عنہ شہید کر دئیے گئے۔
سیدناخالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جب ایک مستحکم قلعہ کا محاصرہ کر لیا، تو کفار سے کہاکہ اسلام قبول کرو۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت تک اسلام نہیں لائیں گے جب تک تو زہر نہ پی لے۔ سیدناخالد رضی اللہ عنہ نے زہر پی لیا لیکن انہیں کچھ نقصان نہ ہوا۔
(مجمع الزوائد، ۹؍۳۵۰، طبرانی)
سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اس درجہ مستجاب الدعوات تھے کہ جو دعا بھی کرتے تھے، منظور ہوجاتی تھی۔ آپ ہی نے کسریٰ کی فوجوں کو ہزیمت دی اور عراق فتح کیا۔
(ترمذی، کتاب المناقب، باب مناقب سعد بن ابی وقاص، رقم: ۳۷۵۱)
سیدناعمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب ایک لشکر بھیجا تو ساریہ نامی ایک شخص کو اس کا امیر بنایا۔ اس لشکر کی روانگی کے بعد ایک مرتبہ سیدناعمر رضی اللہ عنہ منبرپر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ بڑے زور سے چلانے لگے (یا ساریۃ الجبل یا ساریۃ الجبل) ''اے ساریہ پہاڑ کی طرف۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف'' اس کے بعد لشکر کا قاصد آیا، اس سے حال پوچھا تو اس نے عرض کیا اے امیرالمومنین! دشمن سے جب ہمارا مقابلہ ہوا تو اس نے ہمیں شکست دے دی۔ اتنے میں ہمیں ایسی آواز آئی گویا کوئی چلانے والا یوں چلا رہا ہے۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف۔ اے ساریہ پہاڑ کی طرف، اس پر ہم نے پہاڑ کی طرف پیٹھیں کر لیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو شکست دے دی۔
(اس کو واقدی نے نقل کیا اور بیہقی نے دلائل النبوۃ ۶؍۳۷۰ میں الاصابہ لابن حجر قال الالبانی وقد خرجۃ فی الصحیحہ ۱۱۱۰۔)
زنیرہ رضی اللہ عنہ کو اسلام لانے کی وجہ سے عذاب دیا گیا لیکن اس نے اسلام نہ چھوڑا اور اس کی بینائی جاتی رہی۔ مشرکوں نے کہا، اس کی بینائی لات و عزیٰ لے گئے۔ زنیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا ''واللہ ہرگز نہیں'' اللہ تعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹا دی۔
(الاصابہ: ۴/۳۱۲۔)
سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے ارویٰ بنت حکم کے خلاف بددعا کی اور وہ اندھی ہوگئی۔ واقعہ یوں ہے جب کہ ارویٰ نے سعید پر کوئی جھوٹا الزام لگایا تو سعید رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ! اگر وہ جھوٹی ہے تو اسے آنکھ سے اندھی کر دے یا اسے اسی زمین میں ہلاک کر دے، چنانچہ وہ اندھی ہوگئی۔ اور اپنی زمین کے ایک گڑھے میں گر کر مر گئی۔
(مسلم کتاب المساقاۃ، باب تحریم الظلم، وغصب الارض وغیرھا، رقم: ۱۶۱۰)
علاء بن حضرمی رضی اللہ عنہ نبیﷺکی طرف سے بحرین کے حاکم تھے اور اپنی دعا میں کہا کرتے تھے۔ یاعلیم، یا حلیم، یا علی، یاعظیم، تو ان کی دعا قبول ہوجایا کرتی تھی۔ایک مرتبہ ان کے کچھ آدمیوں کو پینے اور وضو کرنے کے لیے پانی نہ ملا تو آپ نے دعا کی اور قبول ہوگئی۔ ایک دفعہ سمندر ان کے سامنے آگیا اور وہ گھوڑوں کے ذریعہ اسے عبور کرنے پر قادر نہ تھے۔ آپ نے دعا کی تو ساری جماعت پانی پر سے گزر گئی اور ان کے گھوڑوں کی زینیں بھی تر نہ ہوئیں۔ پھر آپ نے دعا کی کہ میں مرجائوں تو یہ لوگ میری نعش نہ دیکھنے پائیں۔ چنانچہ ان کی نعش لحد میں نہ پائی گئی۔

کیا کاپی پیسٹ ماری ہے۔۔ ایسے واقعات اگر کسی صحابہ کیساتھ ہوئے بھی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوئے تھے۔۔۔ بعد میں نہیں۔

اور یہ الساری الجبل والی حدیث ضعیف ہے ۔۔

اور اگر صحابہ کیساتھ تھی تو غیر صحابہ کیساتھ ہونا کوئی ثبوت نہیں۔
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)

آپ نے کہا آپ ان بحثوں میں پڑنا نہیں چاہتے لیکن پھر آپ نے اپنا نقطہ نظر بھی بیان کرنا ضروری سمجھا ؟؟؟
کیا یہ کھلا تضاد نہیں
؟؟؟
جواب میں بس اتنا ہی کہنا چاہوں گا کہ میرا پیغمبر عظیم تر ہے

ہاہاہا...جیسےکہ حضور صرف تمھارے پیغمبر ہیں؟
وہ رحمت ال عالمین ہیں؟ تمھارے، میرے سب کے پیغمبر؟
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
نہیں یہ تضاد بلکل نہیں ہے؟ ذرا دوبارہ سے پڑھنا میں نے کیا کہا تھا؟
کہ میں اکثر ان بحثوں میں نہیں پڑتا ؟ مطلب صرف کبھی کبھی.... اب آپ نے اسے
متضاد کہکر میرے بارے میں لوگوں کو گمراہ
کرنے کی کوشش کی جو ایک غلط بات ہے

جب آپ لوگ بال کی کھال اتارے جا رہے...اتارے جا رہے...اتارے جا رہے؟ تو میں نے کہا
میں بھی اپنا نقطہ نظر کہتا ہوں؟ پھر آپ نے جو سوال پوچھے ،،جب کسی نے بھی
جواب نہیں دیا تو میں نے سوچا میں دیتا ہوں آپکو جواب ...لیکن آپ میں اتنی جرآت نہ ہوئی
که سکو جواب درست ہیں یا غلط؟ ہاہا جب آپ اس طرف اے ہی نہیں تو ظاہر ہے صحیح ہونگے
ہاہاہا...جیسےکہ حضور صرف تمھارے پیغمبر ہیں؟
وہ رحمت ال عالمین ہیں؟ تمھارے، میرے سب کے پیغمبر؟
اصل میں دوسرے ممبر کا جواب آنے کے لئے چوبیس یا اڑتالیس گھنٹے تو انتظار کرنا چاہیے اور میں ابھی تک ان انتظار ہی کر رہا تھا
آپ کا کمنٹ اتنے غور سے نہیں پڑھا تھا کہ بال کی کھال اتارنے کا تاثر ملے ، سرسری پڑھنے کی وجہ سے "اکثر اور اس بار" کا فرق نہیں سمجھ سکا ، اور آپ نے تو خود اپنے کمنٹ کے آخر میں ایسی بحثوں میں نہ الجھنے کی تلقین کی تھی تو مجھے لگا کہ آپ بس اپنا نقطہ نظر بیان کرنا چاہتے ہیں اور بحث نہیں چاہتے
لیکن خیر اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے نقاط کا جواب دوں تو پہلے اپنی پیش کر دہ آیات کا مکمل ترجمہ لکھیں تاکہ درست مطلب سمجھا جا سکے
 

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)

(دلائل النبوة للبيهقي،حديث نمبر:2655)
(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال لعلي المتقي الهندي،حرف الفاء ، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، حديث نمبر:35788)
(الإصابة في معرفة الصحابة،لابن حجر العسقلاني،القسم الأول ،السين بعدها الألف)
اس روایت کوحافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب الإصابة في معرفة الصحابة میں ذکر کرنے کے بعد اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب​
I have started a new thread : "The Tragic Event of Bir al-Mauna (بئرمعونہ کاالمناک واقعہ)"

This thread has answers to all the questions being raised in this thread:

The Event proves three Aqaid (عقائد):

  • Aqeeda e ilm ul Ghaib (علم الغیب), that Prophet Muhammad ﷺ did not know what is going to happen with 70 Companion (رضي الله عنه), he was sending to Bir Al-Mauna. Otherwise, he ﷺ would never send them, if he ﷺ knew that most of them would be killed.
  • Aqeeda-e-Hazir-o-Nazir (حاضر و ناظر), Shahaba (رضي الله عنه) had no Aqeeda that Prophet Muhammad are hazir spiritually and watching them, nor was he listening to them. Otherwise they would have just say Ya Rasool Allah ﷺ Madad, یا رسول اللہ مدد
  • Mas’ala e Istianat (استعانت), i.e., Madad only from Allah. They said Ya Allah convey this message to our Prophet ﷺ, because they knew they could not communicate with the Prophet ﷺ directly.
Sahih Bukhari – 4095 (Islam360)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے لیے جنہوں نے آپ کے معزز اصحاب ( قاریوں ) کو بئرمعونہ میں شہید کر دیا تھا۔ تیس دن تک صبح کی نماز میں بددعا کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبائل رعل، بنو لحیان اور عصیہ کے لیے ان نمازوں میں بددعا کرتے تھے، جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تھی۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر انہی اصحاب کے بارے میں جو بئرمعونہ میں شہید کر دیئے گئے تھے، قرآن مجید کی آیت نازل کی۔ ہم اس آیت کی تلاوت کیا کرتے تھے لیکن بعد میں وہ آیت منسوخ ہو گئی ( اس آیت کا ترجمہ یہ ہے ) ”ہماری قوم کو خبر پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے آ ملے ہیں۔ ہمارا رب ہم سے راضی ہے اور ہم بھی اس سے راضی ہیں۔“
ہاہاہا...جیسےکہ حضور صرف تمھارے پیغمبر ہیں؟
وہ رحمت ال عالمین ہیں؟ تمھارے، میرے سب کے پیغمبر؟
کیا کاپی پیسٹ ماری ہے۔۔ ایسے واقعات اگر کسی صحابہ کیساتھ ہوئے بھی ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ہوئے تھے۔۔۔ بعد میں نہیں۔

اور یہ الساری الجبل والی حدیث ضعیف ہے ۔۔

اور اگر صحابہ کیساتھ تھی تو غیر صحابہ کیساتھ ہونا کوئی ثبوت نہیں۔
زندہ اور حاضر کی بحث کے لئے میری بات چیت ممبر ستارہ گزار سے دیکھیں

[/QUOTE]
سکو پتہ ہے جب تک میں ایسی باتیں لوگوں میں نہیں کرونگا میری دکان نہیں چلے گی۔۔۔۔
 
Last edited:

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)


اصل میں دوسرے ممبر کا جواب آنے کے لئے چوبیس یا اڑتالیس گھنٹے تو انتظار کرنا چاہیے اور میں ابھی تک ان انتظار ہی کر رہا تھا
آپ کا کمنٹ اتنے غور سے نہیں پڑھا تھا کہ بال کی کھال اتارنے کا تاثر ملے ، سرسری پڑھنے کی وجہ سے "اکثر اور اس بار" کا فرق نہیں سمجھ سکا ، اور آپ نے تو خود اپنے کمنٹ کے آخر میں ایسی بحثوں میں نہ الجھنے کی تلقین کی تھی تو مجھے لگا کہ آپ بس اپنا نقطہ نظر بیان کرنا چاہتے ہیں اور بحث نہیں چاہتے
لیکن خیر اگر آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے نقاط کا جواب دوں تو پہلے اپنی پیش کر دہ آیات کا مکمل ترجمہ لکھیں تاکہ درست مطلب سمجھا جا سکے
mein nay ayaat 1-62 ka tarjma hi to likha hay? Kuch apnay pass se add nahin kia?
Issi pr tabsra kar den afar aap chahen to?
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
mein nay ayaat 1-62 ka tarjma hi to likha hay? Kuch apnay pass se add nahin kia?
Issi pr tabsra kar den afar aap chahen to?
جی ضرور
الله نے قرآن کی صرف ایک آیت کو جاننے ماننے کا حکم نہیں دیا بلکے قرآن کی کئی آیات کا علم رکھنے کا عہد لیا گیا ہے . اکثر و بیشتر قرآن کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے . آپ کی پیش کر دہ آیت بھی مطلب کے لحاظ سے ایک بڑی آیت ہے اور اس کے مکمل مطلب کے لئے دوسری آیات سے استفادہ کرنا پڑے گا
. .. .
مثلا قرآن کہتا ہے سچوں کے ساتھ ہو جاؤ ، اولی الامر کی پیروی کرو ، سابقون الاولون کی پیروی کرو وغیرہ وغیرہ
لہٰذا آپ کو شیعہ سنی اختلاف کو اپنی عقل کے مطابق پرکھنا ہو گا اور اپنے ضمیر کے مطابق سچوں ، اولی الامر ، سابقون الاولون ، امام مبین کی پیروی کرنی ہو گی . . . .. لاتعلق رہنے سے کام نہیں چلے گا
 

Saboo

Prime Minister (20k+ posts)

جی ضرور
الله نے قرآن کی صرف ایک آیت کو جاننے ماننے کا حکم نہیں دیا بلکے قرآن کی کئی آیات کا علم رکھنے کا عہد لیا گیا ہے . اکثر و بیشتر قرآن کی ایک آیت دوسری آیت کی تفسیر کرتی ہے . آپ کی پیش کر دہ آیت بھی مطلب کے لحاظ سے ایک بڑی آیت ہے اور اس کے مکمل مطلب کے لئے دوسری آیات سے استفادہ کرنا پڑے گا
. .. .
مثلا قرآن کہتا ہے سچوں کے ساتھ ہو جاؤ ، اولی الامر کی پیروی کرو ، سابقون الاولون کی پیروی کرو وغیرہ وغیرہ
لہٰذا آپ کو شیعہ سنی اختلاف کو اپنی عقل کے مطابق پرکھنا ہو گا اور اپنے ضمیر کے مطابق سچوں ، اولی الامر ، سابقون الاولون ، امام مبین کی پیروی کرنی ہو گی . . . .. لاتعلق رہنے سے کام نہیں چلے گا
شکریہ
خیر میں آپکی اس بات سے بلکل اتفاق کرتا ہوں کہ قران کی کسی بھی آیات کو
اکیلے میں نہیں بلکہ اسی ٹوپک پر آئ دوسری آیات کے ساتھ ملا کر پڑھنے سے
ہی مطلب واضح ہوتا ہے .میں شیخ عمران حسین کو اکثر سنتا ہوں اور وہ اپنے
شاگردوں کو ہمیشہ یہی مشورہ دیتے ہیں. کہ قرآن کو صحیح سمجھنے کا
یہی طریقہ ہے.