عن ابن عمر قال: وجه عمر جيشا وأمر عليهم رجلا يدعى سارية فبينما عمر يخطب يوما جعل ينادي: يا سارية الجبل - ثلاثا، ثم قدم رسول الجيش فسأله عمر، فقال: يا أمير المؤمنين! لقينا عدونا فهزمنا، فبينا نحن كذلك إذ سمعنا صوتا ينادي: يا سارية الجبل - ثلاثا، فأسندنا ظهورنا إلى الجبل فهزمهم الله، فقيل لعمر: إنك كنت تصيح بذلك. "ابن الأعرابي في كرامات الأولياء والديرعاقولي في فوائده وأبو عبد الرحمن السلمي في الأربعين وأبو نعيم عق معا في الدلائل واللالكائي في السنة، كر، قال الحافظ ابن حجر في الإصابة: إسناده حسن".
ترجمہ :حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے آپ نے فرمایا: حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک لشکر کو روانہ فرمایا: اور حضرت ساریہ رضی اللہ عنہ کو اُس لشکر کا سپہ سالار بنایا ، ایک دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ کے درمیان یہ نداء دی کہ یا ساریۃ الجبل ، ائے ساریہ پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ یہ آپ نے تین دفعہ فرمایا ۔ جب لشکر کی جانب سے قاصد آیاتو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہاں کا حال دریافت کیا ؟ اُس نے کہا : ائے امیر المؤمنین ہم نے دشمن سے مقابلہ کیا تو وہ ہمیں شکست دے ہی چکے تھے کہ اچانک ہم نے ایک آواز سنی ، ائے ساریہ پہاڑ کے دامن میں ہوجاؤ ۔ پس ہم نے اپنی پیٹھ پہاڑ کی جانب کرلی تو اللہ تعالی نے دشمنوں کو شکست دے دی ۔ عمر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی عرض کیا گیا کہ بیشک وہ آواز دینے والے آپ ہی تھے ۔
(دلائل النبوة للبيهقي،حديث نمبر:2655)
(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال لعلي المتقي الهندي،حرف الفاء ، كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، حديث نمبر:35788)
(الإصابة في معرفة الصحابة،لابن حجر العسقلاني،القسم الأول ،السين بعدها الألف)
اس روایت کوحافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب الإصابة في معرفة الصحابة میں ذکر کرنے کے بعد اس کی سند کو حسن قرار دیا ہے ۔
واللہ اعلم بالصواب