خبریں

کوئٹہ: بلوچستان کے 28 سرکاری محکموں میں کام کرنے والے 428 ملازمین کی دہری ملازمت کا انکشاف ہوا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد افسران کے تبادلے کے بعد بھی سرکاری گاڑیاں واپس نہ کرنے کی اطلاعات سامنے آئی ہیں۔ سیکریٹریز کمیٹی کے اجلاس میں، جو وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی صدارت میں ہوا، ان سنگین انکشافات پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے فوری قانونی کارروائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ متاثرہ ملازمین کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں اور بیڈا ایکٹ کے تحت سخت اقدامات اٹھائے جائیں۔ سرکاری گاڑیوں کا غلط استعمال سیکریٹری ایکسائز ڈپارٹمنٹ سید ظفر شاہ بخاری نے اجلاس میں 9,882 سرکاری گاڑیوں کا ریکارڈ پیش کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کئی افسران اپنے تبادلے کے بعد بھی گاڑیاں واپس نہیں کر رہے، جس پر وزیر اعلیٰ نے سخت ناراضی ظاہر کی۔ انہوں نے ہدایت دی کہ گاڑیاں واپس نہ کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ سول سروس ایکٹ میں ترمیم کی ضرورت وزیر اعلیٰ نے کہا کہ سول سرونٹ ایکٹ میں ترمیم کرکے غیر فعال افسران کو جبری ریٹائر کرنے کا اختیار حاصل کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ کی مدد سے سرکاری ملازمین کی ڈیٹا بیس تیار کی گئی ہے، جس کے ذریعے وہ براہ راست حاضری مانیٹر کریں گے۔ ریاستی بیانیے کی پاسداری لازم وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ کوئی بھی سرکاری ملازم یا افسر ریاستی پالیسی کے خلاف کام نہیں کر سکتا۔ انہوں نے کہا کہ بدانتظامی ریاست مخالف عناصر کو تقویت دیتی ہے، اس لیے اس کا سدباب انتہائی ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان مشکل دور سے گزر رہا ہے، اور ہر سرکاری ملازم کو عوامی مسائل کے حل پر مکمل توجہ دینی ہوگی، تاکہ صوبے کے عام شہریوں کو سردی اور گرمی کی شدت سے نجات دلائی جا سکے۔
واشنگٹن: امریکا نے پاکستان سمیت مختلف ممالک کی 80 کمپنیوں کو برآمدات کی بلیک لسٹ میں شامل کردیا۔ غیرملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق جن ممالک کی کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے ان میں پاکستان، چین، ایران، متحدہ عرب امارات اورجنوبی افریقا شامل ہیں جبکہ بلیک لسٹ میں شامل کمپنیوں میں 50 سے زائد چینی کمپنیاں ہیں۔ برطانوی میڈیا کے مطابق امریکی پابندی کی زد میں آنے والی کمپنیوں میں 19 پاکستانی کمپنیاں بھی شامل ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات اور ایران کی 4، 4 کمپنیوں پربھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ پابندی کا شکار کمپنیوں میں چین کی معروف کلاؤڈ کمپیوٹنگ اور بگ ڈیٹا سروس فراہم کرنے والی کمپنی انسپرگروپ کی 6 ذیلی کمپنیاں بھی شامل ہیں، انسپرگروپ کی کمپنیوں کے علاوہ بھی دیگر چینی اداروں کو برآمداتی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ امریکی محکمہ تجارت کا کہنا ہے کہ انسپر گروپ کی یہ کمپنیاں چینی فوج کے لیے سُپر کمپیوٹرز کی تیاری میں معاونت فراہم کر رہی تھیں۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق انسپرگروپ کو پہلے ہی 2023 میں اس فہرست میں شامل کیا جاچکا ہے، پابندیوں کا مقصد چین کی ہائی پرفارمنس کمپیوٹنگ، کوانٹم ٹیکنالوجیز، جدید مصنوعی ذہانت اور ہائپرسونک ہتھیاروں کے پروگرام کی ترقی کو روکنا ہے۔ امریکی وزیر تجارت کا کہنا ہے کہ حریف ممالک کو امریکی ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کرکے فوجی طاقت بڑھانے اور امریکی شہریوں کوخطرے میں ڈالنےکی اجازت نہیں دیں گے۔ امریکا میں چینی سفارت خانے نے امریکی اقدامات کی سختی سے مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا فوجی امورکوبہانہ بناکر تجارت اور ٹیکنالوجی کے معاملات کو سیاسی رنگ دینے اور انہیں بطور ہتھیار استعمال کرنے سے باز رہے۔ غیر ملکی خبررساں ایجنسی کے مطابق امریکا ایران کے ڈرونز اور دیگر دفاعی سامان کے حصول کو روکنے اور ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام اور غیر محفوظ جوہری سرگرمیوں کی ترقی کو محدود کرنے کے لیے بھی اقدامات کر رہا ہے۔ خیال رہےکہ امریکی محکمہ تجارت کسی بھی کمپنی کو قومی سلامتی یا خارجہ پالیسی کےخدشات کی بنیاد پر اینٹیٹی لسٹ میں شامل کرسکتا ہے، اس فہرست میں شامل کمپنیوں کو امریکی مصنوعات خریدنے کے لیے خصوصی لائسنس درکار ہوتا ہے جو عام طور پر جاری نہیں کیے جاتے۔
لمبے عرصے کے بعد محسن نقوی منظر عام پر، امریکہ کی قائم مقام سفیر نیٹلی بیکر کی ملاقات، دوطرفہ تعلقات اور باہمی دلچسپی کے امور سمیت دو طرفہ تعاون بڑھانے پر تبادلہ خیال، طلال چوہدری بھی موجود تھے۔۔!! وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے امریکا کی قائم مقام سفیر نیٹلی بیکر کی ملاقات ہوئی، جس دوران قائم مقام امریکی سفیر نے جعفر ایکسپریس اور دیگر دہشت گردانہ حملوں کی شدید مذمت کی اور شہداء کے خاندانوں سے دلی تعزیت کا اظہار کیا۔ نیٹلی بیکر نے کہا کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں جاں بحق ہونے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ امریکہ کی گہری ہمدردی ہے۔ ملاقات میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات، باہمی دلچسپی کے امور اور دو طرفہ تعاون بڑھانے پر گفتگو کی گئی۔ اس کے علاوہ دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اقدامات بڑھانے کے حوالے سے بھی بات چیت کی گئی۔ ملاقات میں اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ رواں سال جون میں ایک کاونٹر ٹیررازم ڈائیلاگ منعقد کیا جائے گا۔ اس موقع پر وزیر مملکت داخلہ طلال چوہدری، امریکا کے پولیٹیکل قونصلر زیک ہارکن رائیڈر اور وفاقی سیکریٹری داخلہ خرم آغا بھی موجود تھے۔ قائم مقام امریکی سفیر نیٹلی بیکر نے طلال چوہدری کو وزیر مملکت داخلہ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی۔ محسن نقوی نے کہا کہ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جس کا مقابلہ عالمی سطح پر یکجہتی کے ساتھ کیا جانا چاہیے۔ حکومت پاکستان دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائیاں کر رہی ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے ایک جامع پالیسی تیار کی جا رہی ہے۔ وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوششوں کو سراہا۔ پاکستان امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم اپنے شہریوں کی واپسی کے معاملے میں مکمل تعاون فراہم کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاک امریکا کاکس کا اجلاس 30 اپریل کو نیو یارک میں منعقد کیا جائے گا۔ وزیر مملکت طلال چوہدری نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں اور امریکا اس کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔ امریکی قائم مقام سفیر نیٹلی بیکر نے اسلام آباد میں جاری ترقیاتی منصوبوں کی بھی تعریف کی۔
معروف اسلامی اسکالر مولانا طارق جمیل کے صاحبزادے، یوٹیوبر مولانا یوسف جمیل نے والد کے ذرائع آمدن سے متعلق اہم انکشافات کیے ہیں۔ مولانا یوسف جمیل نے حال ہی میں ایک پوڈکاسٹ میں انٹرویو دیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ مولانا طارق جمیل افطار میں صرف ایک کھجور اور چائے کا کپ لیتے ہیں، اور اگر سر میں درد ہو تو عشاء کی نماز سے قبل یا بعد میں کھانا کھا لیتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مولانا طارق جمیل کی سحری میں صرف ابلے ہوئے انڈے اور چائے ہوتی ہے۔ مولانا یوسف کا کہنا ہے کہ ہم نے والد سے سیکھا ہے کہ جب کبھی گھر میں کوئی بیمار ہو تو سب سے پہلے صدقہ کرنا چاہیے۔ پوڈکاسٹ میں مالی معاملات سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں مولانا یوسف جمیل نے بتایا کہ ہم بنیادی طور پر زمیندار لوگ ہیں، اور مولانا طارق جمیل کے اثاثے وراثتی ہیں۔ زمینیں بھی ان ہی وراثتی سلسلے کا حصہ ہیں۔ مولانا طارق جمیل کو تلنبہ کی حویلی اور زمینیں وراثت میں ملی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ نہیں ہے کہ مولانا طارق جمیل کو شہرت ملی تو پیسہ آیا، اور پھر ہم نے یہ ساری زمینیں اور جائیداد بنائی۔ مولانا یوسف جمیل نے انکشاف کیا کہ مولانا طارق جمیل تقریباً 300 ایکٹر اراضی کے مالک ہیں، اور اس زمین پر کاشت کاری کی جاتی ہے، جو ایک بڑا ذریعہ آمدنی بھی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم سب گھر والے بھی اپنی چیریٹی فاؤنڈیشن کو صدقہ و خیرات دیتے ہیں۔ مولانا یوسف جمیل نے یہ بھی کہا کہ لوگ اکثر میرے والد کی طرزِ زندگی پر سوال اٹھاتے ہیں، اور ہم کیا کریں؟ کیا ہم ساری وراثتی دولت کسی کو دے دیں؟
کراچی: وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی کارکردگی نے آئی ایم ایف کو حیران کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مخالفین نے ڈھنڈورے پیٹے تھے کہ منی بجٹ آ رہا ہے، لیکن حالیہ ادوار میں پہلی بار چیلنجنگ حالات کے باوجود منی بجٹ نہیں آیا۔ کابینہ اجلاس میں آج خصوصی طور پر معاونین خصوصی کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس موقع پر آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی والدہ کے انتقال پر کابینہ ارکان نے اظہار ہمدردی کیا اور دعائے مغفرت کی۔ وزیراعظم نے بتایا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے، جس میں آرمی چیف کا کلیدی کردار رہا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں صوبوں کا وفاق کے ساتھ بھرپور تعاون قابل قدر ہے اور دن رات کی محنت اور ٹیم ورک کے نتیجے میں یہ کامیابی حاصل ہوئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف معاہدے کے حوالے سے اغیار کے اوچھے ہتھکنڈوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ دہشت گردی اور مہنگائی کے باوجود معاہدہ طے پانا حکومت کی سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری قوم نے اس ہدف کے حصول میں بے پناہ قربانیاں دیں، جبکہ عام آدمی کا بھی اس کامیابی میں انتہائی اہم کردار ہے۔ وزیراعظم نے زور دے کر کہا کہ آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ پاکستان کی معیشت کو استحکام دینے کے لیے ایک بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زرعی ٹیکس کے بغیر آئی ایم ایف آگے نہیں بڑھتا، جس میں صوبوں نے اہم کردار ادا کیا۔ صوبہ پنجاب نے سب سے پہلے اپنی اسمبلی میں زرعی ٹیکس منظور کرایا۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام میں 1.3 بلین ڈالر ایس ایف کی مد میں بھی شامل کیے گئے ہیں۔ ہدف سے زائد محصولات کی وصولی قابل ستائش ہے، جبکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں محصولات میں 26 فیصد اضافہ خوش آئند ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ تنخواہ دار طبقے نے محصولات کی وصولی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس وقت محصولات کی شرح گزشتہ چار سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ عدالتوں میں ٹیکس مقدمات کے نتیجے میں قومی خزانے میں 34 ارب روپے واپس آ چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر میں ڈیجیٹلائزیشن کے اقدامات تیزی سے جاری ہیں، جبکہ فیس لیس انٹریکشن پر بھی کام ہو رہا ہے۔ کارپوریٹ لائرز اور پروفیشنل چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس بھی اب نظام کا حصہ بنیں گے۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اب تک 12 ارب روپے اضافی وصول کیے جا چکے ہیں۔ وزیراعظم نے چینی کے شعبے کی نگرانی کا خود جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چینی کی سیلز ٹیکس چوری پر قابو پانے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ گزشتہ سال کے مقابلے میں اس سال شوگر مِلز سے 12 ارب روپے زائد وصول ہوئے ہیں، جبکہ 60 ارب روپے کا ہدف رکھا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو معاشی استحکام کی منزل تک پہنچانا ایک لمبی جدوجہد ہے۔ انتھک محنت اور لگن سے کام کرتے رہیں تو پاکستان ضرور ترقی کرے گا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب ہر شعبے کو ٹیکس کے دائرے میں لانا ہوگا اور قرضوں سے نجات حاصل کر کے ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہوگا۔ وزیراعظم نے کہا کہ امن اور ترقی لازم و ملزوم ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے قیام سے ہی ترقی کا عمل آگے بڑھ سکتا ہے۔ انہوں نے سکیورٹی فورسز کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کرنے والوں کی پذیرائی قوم پر لازم ہے۔ ہمارے جوانوں کی قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے یوٹیلیٹی اسٹورز کو ملک کے بدترین کرپٹ اداروں میں سے ایک قرار دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ رمضان میں 7 ارب روپے مختص کیے گئے تھے۔ اب کرپشن کو ختم کرتے ہوئے ملکی تاریخ میں پہلی بار رمضان پیکیج کے تحت ڈیجیٹل والٹ متعارف کرایا گیا ہے، جس کے ذریعے مستحقین تک شفاف انداز میں امداد پہنچائی جا رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 20 ارب روپے کے پیکیج میں سے 60 فیصد رقم تقسیم کی جا چکی ہے۔ وزیراعظم نے امید ظاہر کی کہ مسلسل محنت اور اصلاحات سے پاکستان جلد ہی اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے گا۔
اسلامی نظریاتی کونسل (سی آئی آئی) نے فیصلہ دیا ہے کہ سپریم کورٹ کا ایک سے زائد شادیوں کے حوالے سے دیا گیا فیصلہ شریعت کے اصولوں کے مطابق درست نہیں ہے۔ سی آئی آئی نے اپنے فیصلے میں کہا کہ پہلی بیوی کو یہ اختیار دینا غیر اسلامی ہے کہ وہ بغیر اجازت کے دوسری شادی کرنے پر شوہر کی شادی کو منسوخ کر دے۔ یہ فیصلہ 25 اور 26 مارچ کو سی آئی آئی کے چیئرمین ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کی صدارت میں ہونے والے 241 ویں اجلاس میں کیا گیا۔ سی آئی آئی نے اس اجلاس میں 23 اکتوبر 2024 کو سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر تبادلہ خیال کیا، جس میں مسلم فیملی لاز آرڈیننس 1961 کی خلاف ورزی اور شادی کے تنازع کو موضوع بنایا گیا تھا۔ سی آئی آئی کے سامنے پیش کیے گئے ورکنگ پیپر میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ میں ایک شوہر کی درخواست زیر غور آئی تھی، جس نے اپنی پہلی بیوی سے اجازت لیے بغیر دوسری شادی کی تھی، جو کہ 1961 کے مسلم خاندانی قانون کی خلاف ورزی تھی۔ پہلی بیوی نے اس بنیاد پر نکاح ختم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ورکنگ پیپر میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے بیوی کی درخواست کو اس بنیاد پر برقرار رکھا تھا کہ شوہر نے 1961 کے آرڈیننس کی خلاف ورزی کی تھی، اور عدالت نے اس خلاف ورزی کو شادی کو تحلیل کرنے کا جواز سمجھا تھا۔ تاہم، سی آئی آئی نے مشاہدہ کیا کہ عام حالات میں مسلمان مرد اور عورت کے لیے شادی ختم کرنے کے دو آپشنز ہوتے ہیں: خلع اور طلاق۔ سی آئی آئی نے اپنے اجلاس میں یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ نے شادی میں قانونی طریقہ کار کی اہمیت پر زور دیا تھا، خاص طور پر تعدد ازدواج کے معاملے میں۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ 1961 کا قانون بیوی کے شادی توڑنے کے حق کا تحفظ کرتا ہے، جبکہ اس کے دیگر حقوق کی حفاظت کو بھی یقینی بناتا ہے۔ سی آئی آئی کے اراکین نے کونسل کے کچھ سابقہ فیصلوں کو دہراتے ہوئے کہا کہ مردوں کو شریعت کے مطابق اگلی شادی کے لیے موجودہ بیوی یا بیویوں کی اجازت کی ضرورت نہیں، اور اس بات پر زور دیا کہ 1961 کا قانون شریعت کے اصولوں کے مطابق نہیں ہے، کیونکہ مرد ایک وقت میں چار شادیاں کر سکتے ہیں بغیر کسی جوابدہی کے۔ اجلاس میں مختلف معروف شخصیات نے شرکت کی، جن میں ظفر اقبال، عبدالغفور رشید، صاحبزادہ پیر خالد سلطان، محمد جلال الدین، فریدہ رحیم، ریٹائرڈ جسٹس الطاف ابراہیم، عزیر محمود، پیر شمس الرحمان، علامہ یوسف اعوان، مفتی محمد زبیر، سید افتخار حسین نقوی، مفتی انتخاب احمد، حسن حسیب الرحمان، شفیق پسروری، صاحبزادہ حافظ محمد امجد، سعید الحسن اور عتیق الرحمان شامل تھے۔ دریں اثنا، سی آئی آئی کے اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ شادی سے قبل تھیلیسیمیا یا دیگر متعدی بیماریوں کے طبی ٹیسٹ کی حمایت کی جائے، تاہم کونسل نے کہا کہ یہ ٹیسٹ نکاح نامہ کا اختیاری حصہ ہو سکتا ہے، اور متعلقہ فریقین کو ان ٹیسٹس کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فیصلہ اس سوال کے جواب میں آیا ہے کہ بعض سرکاری محکمے نکاح نامے میں ایسے ٹیسٹ کو لازمی قرار دینے کی تجویز دے رہے ہیں، جیسا کہ کچھ مسلم ممالک میں ہوتا ہے۔ سی آئی آئی کے اجلاس میں یہ بھی مشاہدہ کیا گیا کہ گردے، جگر اور دیگر اعضا کو عطیہ کنندہ کی زندگی کو خطرے میں ڈالے بغیر کسی دوسرے شخص میں ٹرانسپلانٹ کیا جا سکتا ہے۔
خریف سیزن کے آغاز میں چند دن باقی ہیں، اور پانی کی غیر معمولی قلت کے خدشات کی وجہ سے آبپاشی کے ماہرین کے لیے پورے سیزن کے دوران پانی کی فراہمی کی منصوبہ بندی کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، ایک عہدیدار نے بتایا کہ "ڈیموں میں پانی کی کمی ہے، دریاؤں کا بہاؤ کم ہوگیا ہے، اور پہاڑوں پر برف کے ذخائر بھی کم ہیں، جس کے باعث بہتر بہاؤ کی توقع نہیں کی جا رہی۔" اس صورتحال سے فصلوں کی پیداوار پر سنگین اثرات مرتب ہونے کا امکان ہے۔ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اپریل کے مہینے میں صرف "پینے کے پانی" کی فراہمی کی جائے گی، اور بعد میں صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔ یہ نایاب واقعہ ہے کہ واٹر ریگولیٹر نے ماہانہ بنیادوں پر پانی کے اخراج کے پیرامیٹرز مقرر کیے ہیں، حالانکہ ماضی میں ایک سیزن میں تین حصوں میں پانی کی تقسیم کی مثالیں ملتی ہیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ تینوں آبی ذخائر میں پانی کی کمی کے باعث ریم اسٹیشنوں پر پانی کے اخراج میں 51 فیصد کی کمی آئی، اور صوبائی کینال ہیڈز تک یہ کمی 60 فیصد سے تجاوز کر گئی۔ ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ ارسا ایڈوائزری کمیٹی (آئی اے سی) نے غیر واضح آب و ہوا کے پیرامیٹرز اور محکمہ موسمیات (پی ایم ڈی) کی پیش گوئیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے صرف اپریل کے مہینے کے لیے پانی کی دستیابی کی منظوری دی، جس میں 43 فیصد سسٹم شارٹ فال ہے۔ ارسا کے چیئرمین، خیبر پختونخوا کے رکن صاحبزادہ محمد شبیر کی زیر صدارت آئی اے سی کا اجلاس منعقد ہوا، جس میں یکم اپریل سے 30 ستمبر تک خریف سیزن کے دوران پانی کی متوقع دستیابی کا جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں ارسا کے تمام اراکین، چیف انجینئرنگ ایڈوائزر، صوبائی سیکریٹری آبپاشی اور دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں ربیع 2024 (اکتوبر سے مارچ) سیزن کے آپریشن کا جائزہ بھی لیا گیا، جس میں مجموعی طور پر 16 فیصد کمی کے مقابلے میں 18 فیصد کمی پر اطمینان کا اظہار کیا گیا۔ سرکاری اعلامیے میں بتایا گیا کہ اپریل، مئی اور جون کے مہینوں میں ملک کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں کم بارشیں اور زیادہ درجہ حرارت رہنے کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ پی ایم ڈی نے سندھ اور جہلم کے آبی علاقوں میں موسم سرما کی برفباری میں کمی کی بھی اطلاع دی ہے، جو معمول کے 49.7 انچ کے مقابلے میں 26.8 انچ ریکارڈ کی گئی، جو معمول سے کم ہے۔ سندھ اور پنجاب دونوں نے صرف اپریل کے مہینے کے لیے پانی مختص کرنے پر اتفاق کیا، تاکہ اپنی آبی طلب کا بہتر طور پر استعمال کیا جا سکے، اور پھر صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیا جا سکے۔ تاہم، سندھ نے متنازعہ تھری ٹیئر واٹر ڈسٹری بیوشن فارمولے کے تحت پانی کی تقسیم پر اعتراض کیا اور مطالبہ کیا کہ آبی معاہدے کے پیرا 2 کے مطابق پانی کی تقسیم کی جائے، جس کے تحت اپریل میں پانی کی کمی کا تخمینہ 55 فیصد سے زیادہ لگایا گیا تھا۔ خریف فصل کا سیزن اپریل میں شروع ہوتا ہے اور ستمبر تک جاری رہتا ہے، جس میں چاول، گنا، کپاس، مکئی اور ماش اہم فصلیں شامل ہیں۔
کراچی میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات اور شہریوں کی ہلاکتوں پر گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری آبدیدہ ہوگئے اور کہا کہ "اگر مجھے گورنر شپ سے ہٹانا ہے تو ہٹادو، ایسے شہر میں گورنر رہنے کا کیا فائدہ جہاں لوگ ٹینکروں کے نیچے کچلے جا رہے ہوں۔" تفصیلات کے مطابق، کراچی میں روزانہ کے ٹریفک حادثات اور شہریوں کی ہلاکتوں پر گورنر سندھ کا یہ جذباتی ردعمل سامنے آیا۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس شہر میں گورنر رہنے کی کوئی حقیقت نہیں دیکھتے جب تک شہریوں کی حفاظت اور جانوں کا تحفظ نہیں ہوتا۔ کامران خان ٹیسوری نے میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "میں تمہیں اب کوئی جواب نہیں دوں گا، مگر تمہیں اللہ کے سامنے جواب دینا ہوگا کیونکہ یہ منصب اللہ کی طرف سے دیا گیا ہے۔" ملیر میں حالیہ سنگین ٹریفک حادثے کا ذکر کرتے ہوئے گورنر سندھ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اپنے جذباتی خطاب کے دوران، خواتین سیکیورٹی حصار توڑ کر ان کے قریب پہنچ گئیں اور اپنی فریادیں پیش کیں۔ انہوں نے شہریوں کو یقین دلایا کہ وہ عوام کے مسائل کے حل کے لیے اپنی آخری حد تک جائیں گے، لیکن ساتھ ہی افسوس کا اظہار کیا کہ ان کے پاس اختیارات اور وسائل کی کمی ہے۔ گورنر سندھ نے چیف جسٹس سے ہیوی ٹریفک حادثات کا نوٹس لینے کی اپیل بھی کی اور اعلان کیا کہ وہ ٹریفک حادثات پر چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھیں گے تاکہ اس سنگین مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔
ہنگو میں پولیس کے مبینہ جعلی مقابلے میں بے گناہ شہری سعید الرحمان کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا کمانڈر قرار دے کر قتل کر دیا گیا، جس پر صوبائی اسمبلی کے رکن شاہ ابو تراب خان نے سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایم پی اے شاہ ابو تراب نے آئی جی خیبرپختونخوا سے فوری طور پر اس واقعے کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے، اور کہا کہ اگر فوری کارروائی نہ کی گئی تو وہ یہ معاملہ وزیراعلیٰ کے سامنے اور اسمبلی کے فلور پر اٹھائیں گے۔ گزشتہ رات ہنگو پولیس نے سعید خان کے قتل کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا، تاہم مقتول کے والد حاجی سنت خان نے پولیس کے دعوے کو جھوٹا قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بیٹے کو کلینک سے اغوا کیا گیا تھا اور پھر ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا۔ حاجی سنت خان نے انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پولیس نے ان کے بے گناہ بیٹے کو جعلی مقابلے میں قتل کیا اور اس کی شفاف تحقیقات کی جائیں۔ سعید الرحمان کے ورثا نے پولیس کے دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کے بھائی کو 28 جنوری 2025 کو مقامی ایس ایچ او فیاض خان نے ان کے کلینک سے اٹھایا تھا اور وہ پولیس کی تحویل میں تھا۔ ورثا کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی کو دہشت گرد قرار دے کر مارا جانا سراسر ظلم ہے، اور اس خبر کو ناقابل قبول قرار دیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ سعید الرحمان ایک کاروباری شخص تھا اور اس کا کسی دہشت گرد گروہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ورثا نے وزیراعظم پاکستان، چیف آف آرمی اسٹاف، وزیر اعلیٰ اور دیگر متعلقہ اداروں سے مطالبہ کیا کہ جعلی پولیس مقابلے میں سعید الرحمان کے قتل کا نوٹس لیا جائے اور اس میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ اس موقع پر رکن صوبائی اسمبلی شاہ ابو تراب خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سعید الرحمان ان کے قریبی دوست تھے، اور وہ لواحقین کو انصاف فراہم کرنے کے لیے ہر فورم پر آواز اٹھائیں گے۔ اس سے قبل خیبرپختونخوا کے علاقے ہنگو میں سی ٹی ڈی اور پولیس کی کارروائی کے دوران پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی کے کمانڈر سعید الرحمان کو ایک دہشت گردوں کے ساتھ مقابلے میں ہلاک کر دیا گیا۔ پولیس کے مطابق ہنگو کے علاقے شناوڑی میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر سی ٹی ڈی اور پولیس نے مشترکہ آپریشن کیا، جس کے دوران سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ ہلاک ہونے والے دہشت گرد کا تعلق کالعدم ٹی ٹی پی سے تھا اور وہ پولیس اہلکار قدرت اللہ کی شہادت میں ملوث تھا۔ پولیس کے مطابق ہلاک دہشت گرد کے قبضے سے کلاشنکوف، ہینڈ گرنیڈ اور افغانستان کے سم کارڈ برآمد ہوئے تھے۔ پولیس نے اس کے ساتھی کو گرفتار کرنے کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔ ہنگو میں پولیس کے مبینہ جعلی مقابلے میں سعید الرحمان کے قتل کے بعد ورثا نے اس کو پولیس کے جھوٹے دعوے اور ماورائے عدالت قتل قرار دیا ہے۔ رکن صوبائی اسمبلی شاہ ابو تراب خان نے فوری کارروائی کی بات کی ہے اور حکومت سے انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان میں پیشہ ور بھکاریوں کا مسئلہ اب سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، جس پر حکام نے اندرون و بیرون ملک سخت کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے مطابق رواں سال کے ابتدائی تین مہینوں میں 7,000 سے زائد افراد کو مختلف ایئرپورٹس پر بیرون ملک روانگی کی کوشش میں روک لیا گیا، جن میں 300 سے زائد پیشہ ور بھکاری بھی شامل ہیں۔ ایف آئی اے کے حکام کے مطابق پیشہ ور بھکاری زیادہ تر ان ممالک کا رخ کرتے ہیں جہاں پاکستانیوں کی انٹری آسان ہو، جیسے سعودی عرب، دبئی اور قطر۔ ان بھکاریوں کی تنظیمیں ان کی نقل و حرکت کو منظم کرتی ہیں اور بیرون ملک جانے کے اخراجات بھی انسانی سمگلنگ کرنے والے اٹھاتے ہیں۔ پاکستانی حکام نے یہ بھی بتایا کہ مختلف ممالک سے بھیک مانگنے کے الزام میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق ملائیشیا، سعودی عرب اور امارات سے 200 سے زائد پاکستانی بھکاریوں کو بے دخل کیا جا چکا ہے۔ ان بھکاریوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، جن میں سے بیشتر کا تعلق سندھ اور پنجاب کے پسماندہ علاقوں سے ہے۔ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی نے کہا کہ وہ پیشہ ور بھکاریوں کے خلاف سخت کارروائیوں کو تیز کر رہی ہے، اور ان افراد کے خاندانوں کو بھی بلیک لسٹ کرنے کی تجویز زیر غور ہے تاکہ آئندہ ان کے رشتہ داروں کو بھی بیرون ملک جانے کی اجازت نہ مل سکے۔ پیشہ ور بھیکاریوں کے خلاف پاکستان میں قانون سازی کی جا رہی ہے، جس میں منظم بھیک مانگنے کو فراڈ قرار دیتے ہوئے اس کے لیے سات سال تک قید اور 10 لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے بین الاقوامی سطح پر بھی اقدامات کر رہے ہیں تاکہ پیشہ ور بھکاریوں کے بیرون ملک جانے کا راستہ روکا جا سکے اور ملک کی بدنامی کا تدارک کیا جا سکے۔
ا امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی پاکستان اور بھارت کے خلاف سنگین سفارشات، پاکستان میں حکومتی اداروں پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی (یو ایس سی آئی آر ایف) نے پاکستان اور بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بڑھتے ہوئے بدترین سلوک پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے دونوں ممالک کے خلاف مختلف پابندیوں کی سفارش کی ہے۔ کمیشن نے پاکستان میں حکومتی اداروں اور سرکاری عہدیداروں پر پابندیاں عائد کرنے کی تجویز دی ہے، جبکہ بھارت کی جاسوس ایجنسی 'را' پر سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف مبینہ سازشوں میں ملوث ہونے کی بنا پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف کی رپورٹ کے مطابق، 2024 میں پاکستان میں مذہبی آزادی کی صورتحال میں مزید بگاڑ آیا ہے۔ پاکستان میں عیسائی، ہندو، شیعہ مسلمان اور احمدی اقلیتی برادریاں توہین رسالت کے قانون کے تحت ظلم و ستم اور مقدمات کا شکار رہی ہیں، جس سے ان کے خلاف تشدد اور امتیازی سلوک میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مذہبی اقلیتی برادریوں کے خلاف ہجوم کے تشدد کے واقعات بڑھ گئے ہیں اور ان واقعات میں ملوث افراد کو شاذ و نادر ہی سزا ملتی ہے۔ رپورٹ میں احمدی برادری کے خلاف جاری "تشویشناک" حملوں اور منظم ہراسانی کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں کئی افراد کی ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ، پاکستانی مسیحی اور ہندو خواتین کے ساتھ جبری مذہب کی تبدیلی کے واقعات میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یو ایس سی آئی آر ایف نے تجویز کیا ہے کہ امریکی حکومت پاکستانی حکام اور سرکاری ایجنسیوں پر ہدفی پابندیاں عائد کرے، جن میں ان کے اثاثے منجمد کرنا اور امریکا میں داخلے پر پابندی شامل ہے۔ کمیشن نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مذہبی آزادی کی خلاف ورزیوں کے خلاف سخت اقدامات کرے اور توہین رسالت کے قوانین کو اصلاح کرے تاکہ مذہبی آزادی کی پامالیوں کو روکا جا سکے۔ رپورٹ میں بھارت کے حوالے سے بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ بھارت میں مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) پر الزام ہے کہ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں اور دیگر اقلیتی برادریوں کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی کی۔ بھارتی وزارت خارجہ نے یو ایس سی آئی آر ایف کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے "جانبدار" اور "سیاسی طور پر محرک" قرار دیا ہے۔ بھارت نے کہا کہ کمیشن کی رپورٹ میں بھارت کے کثیر الثقافتی معاشرے کی حقیقت کو نظرانداز کیا گیا ہے اور اس میں غلط معلومات پیش کی گئی ہیں۔ اگرچہ کمیشن نے بھارت کے خلاف 'خاص تشویش والے ملک' کی تجویز دی ہے، لیکن اس بات کا امکان کم ہے کہ امریکی حکومت بھارت کی جاسوسی ایجنسی 'را' پر پابندیاں عائد کرے گی، کیونکہ امریکی حکومت کمیشن کی سفارشات پر عمل کرنے کی پابند نہیں ہے۔ تاہم، یو ایس سی آئی آر ایف نے سکھ علیحدگی پسندوں کے خلاف بھارتی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کیا ہے، جس سے امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ یہ رپورٹ اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ بین الاقوامی برادری میں مذہبی آزادی کی صورتحال کے بارے میں تشویش بڑھتی جا رہی ہے، اور پاکستان و بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
ایک ایسا دل دکھا دینے والا واقعہ سامنے آیا ہے جہاں ایک 13 سالہ معصوم بچی کو "نکاح" کا جھوٹا ڈراما دکھا کر اغوا کر لیا گیا اور پھر 3 ماہ تک اس کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔ پولیس کے مطابق، مرکزی ملزم نے نہ صرف خود اس بچی کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا بلکہ اپنے 3 دوستوں کو بھی اس پر ظلم کرنے دیا۔ سرگودھا کے نواحی گاؤں 132 جنوبی کی رہائشی اس بچی کو گاؤں کے رہائشی **کامران** نامی شخص نے اغوا کیا۔ ملزم نے اس معصوم بچی کے ساتھ **فرضی نکاح** کا ڈراما کیا اور اسے لاہور لے گیا، جہاں اس نے اور اس کے 3 دوستوں نے مسلسل 3 ماہ تک اس کے ساتھ وحشیانہ سلوک کیا۔ ظالموں نے نہ صرف اس کی عصمت لوٹی بلکہ اس کی ویڈیوز بھی بنائیں تاکہ وہ کسی کو بتانے سے ڈرتی رہے۔ 3 ماہ تک ظلم سہنے کے بعد، بچی کسی طرح اپنے قیدیوں سے بھاگ نکلی اور **سلا نوالی ویگن اڈے** پر پہنچ گئی، جہاں سے اس کے والدین کو اطلاع ملی۔ والد نے فوری طور پر پولیس میں شکایت درج کروائی، جس کے بعد **سرگودھا پولیس** نے مقدمہ درج کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنا شروع کر دیے ہیں۔ پولیس کے مطابق، مرکزی ملزم **کامران** اور اس کے ساتھی ابھی تک فرار ہیں، لیکن انہیں جلد از جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔ پولیس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ اس سنگین نوعیت کے واقعے میں انصاف یقینی بنایا جائے گا۔ یہ واقعہ سن کر سماجی حلقوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔ لوگوں کا مطالبہ ہے کہ ایسے درندہ صفت مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ آنے والے وقتوں میں کوئی کسی معصوم کے ساتھ ایسا وحشیانہ سلوک کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ اب تمام تر توجہ اس بات پر ہے کہ پولیس ملزمان کو کیسے گرفتار کرتی ہے اور عدالت انصاف کیسے کرتی ہے۔ عوام کی نظر اس مقدمے پر ہے، اور امید کی جا رہی ہے کہ اس بچی کو انصاف ضرور ملے گا۔
محکمہ تعلیم سندھ نے اسکولوں کے اساتذہ کے لیے نیا کوڈ آف کنڈکٹ جاری کیا ہے، جس میں اساتذہ کے لیے لباس اور دیگر اخلاقی اصولوں کے حوالے سے اہم ہدایات دی گئی ہیں۔ ان ہدایات کے تحت خواتین اساتذہ کو زیادہ میک اپ، زیورات اور اونچی ہیلز پہننے سے منع کیا گیا ہے، جبکہ مرد اساتذہ کو جینز اور ٹی شرٹ پہننے سے گریز کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ محکمہ تعلیم سندھ نے خواتین اساتذہ کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اسکول میں آتے وقت روایتی لباس اختیار کریں اور گاؤن پہننا ترجیح دیں۔ اس کے علاوہ، انہیں زیادہ میک اپ کرنے اور اونچی ہیلز پہننے سے اجتناب کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، ساتھ ہی زیادہ زیورات پہننے سے بھی گریز کرنے کو کہا گیا ہے۔ مرد اساتذہ کو اسکول میں ٹی شرٹ اور جینز پہن کر آنے سے منع کیا گیا ہے، تاکہ اسکول کا ماحول رسمی اور تعلیم کے مطابق برقرار رکھا جا سکے۔ محکمہ تعلیم نے اساتذہ کے لیے ایک اور اہم ہدایت دی ہے کہ اسکول میں گٹکا، نسوار، ماوا کھانے یا سگریٹ پینے کی قطعی اجازت نہیں ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی، اساتذہ کو طلبہ سے ذاتی نوعیت کے کام کرانے کی بھی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ یہ نئے ضوابط اساتذہ کے طرز عمل کو بہتر بنانے اور تعلیمی اداروں میں ایک مناسب ماحول قائم کرنے کے لیے متعارف کرائے گئے ہیں تاکہ اسکولوں کا ماحول زیادہ پیشہ ورانہ اور اخلاقی بنیادوں پر استوار ہو۔
پاکستان کے وزیر داخلہ محسن نقوی کی زیر قیادت ملک کو ہارڈ اسٹیٹ بنانے کے لیے ایک اہم کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں وفاقی اور صوبائی حکام سمیت اہم اداروں کے نمائندگان کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کمیٹی کا مقصد مختلف اہم امور پر قابو پانا ہے، جن میں افغان شہریوں کی وطن واپسی، اسمگلنگ کی روک تھام، تجاوزات کا خاتمہ اور سعودی عرب جانے والے پاکستانی فقیروں کا تدارک شامل ہے۔ یہ کمیٹی 15 ارکان پر مشتمل ہے، جس کی سربراہی وزیر داخلہ محسن نقوی کریں گے۔ کمیٹی میں تمام صوبوں کے چیف سیکریٹریز، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ہوم سیکریٹریز، حساس اداروں کے نمائندے اور سی ٹی ڈی حکام بھی شامل ہیں۔ کمیٹی افغان باشندوں کی پاکستان سے واپسی کے عمل کی نگرانی کرے گی اور غیر قانونی پیٹرول کی اسمگلنگ کے خلاف سخت کارروائیاں کرے گی۔ اس کے علاوہ، سعودی عرب میں پاکستانیوں کے بھیک مانگنے کے رجحان کو روکنے کے لیے بھی حکمت عملی مرتب کی جائے گی۔ کمیٹی صوبوں میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ڈیجیٹلائزیشن کے عمل کا بھی جائزہ لے گی تاکہ ٹیکس کے نظام کو مزید شفاف بنایا جا سکے۔ کمیٹی تمام معاملات میں موجود نقائص کی نشاندہی کرکے ان کے حل کے لیے سفارشات مرتب کرے گی۔ ایف بی آر نے غیر قانونی پیٹرول کی فروخت کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی ہیں تاکہ اس کی اسمگلنگ اور منفی اثرات پر قابو پایا جا سکے۔ کمیٹی ان اقدامات کی نگرانی کرے گی تاکہ ان پر مؤثر طریقے سے عمل درآمد ہو سکے۔ یہ کمیٹی پاکستان کو ایک مضبوط اور مستحکم ریاست بنانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لائے گی، تاکہ عوام کے لیے ایک محفوظ اور ترقی یافتہ ماحول فراہم کیا جا سکے۔
صحافی فرحان ملک کے وکیل عبدالمعیز جعفری کےمطابق عدالت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کل پورا دن حراست میں رکھنے کے بعد، ایف آئی اے نے ایک نئے ایف آئی آر کے ساتھ فرحان ملک کو ملیر کورٹ میں پیش کر کے سب کو حیران کر دیا۔ نئے ایف آئی آر کے مطابق: کل صبح جب ایف آئی اے پرانے ایف آئی آر کے تحت فرحان ملک کو پیش کرنے اور مزید ریمانڈ کے لیے درخواست دینے کی تیاری کر رہا تھا—جس کے انکار ہونے کا انہیں علم تھا—تو ایک "حسنِ اتفاق" سے انہیں کریڈٹ کارڈ فراڈ کرنے والے دو افراد مل گئے جو ایک کال سینٹر سے چلنے والی جعلی کمپنی چلاتے ہیں۔ یہ لوگ "جعلسازی والی کالز" کر کے لوگوں کے کریڈٹ کارڈ کے خفیہ تفصیلات اور پیسے چراتے ہیں۔ ان ملزموں کو صبح ہی یہ احساس ہوا کہ جس دن فرحان ملک کو عدالت میں پیش ہونا تھا، اُسی دن انہیں پتا چلا کہ ان کا پورا نیٹ ورک دراصل فرحان ملک چلا رہا ہے! لہٰذا، ایف آئی اے کو اب اس کی تفتیش کرنی ہے۔ ہم وقت پر عدالت پہنچ گئے اور اس مضحکہ خیز الزام سے اس کی بریت کی وکالت کی۔ ایف آئی اے کے وکیل نے فرحان ملک کو مزید حراست میں رکھنے کی درخواست کی کیونکہ انہیں "کچھ مواد ملا ہے جس کی تفتیش ہونی ہے۔" جج صاحب نے خوشدلی سے ایف آئی اے کو فرحان ملک کو پانچ دن کے لیے حراست میں رکھنے اور تفتیش کرنے کی اجازت دے دی۔ فرحان ملک کی عید برباد ہو گئی۔ "کامیابی" حاصل ہو گئی۔ یہ 2025 میں ریاستی طاقت کے استعمال کا 90ء کی دہائی والا "بھینس چوری" یا "بستر کے نیچے سے غیرقانونی ہتھیار برآمد" والا ورژن ہے۔ یاد رکھیں، انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ پییکا میں ترمیم صحافیوں کے خلاف نہیں ہو گی۔ وہ نہیں ہوئی۔ یہ ترمیم ہر کسی کے خلاف ہوئی ہے۔ اگر آپ ان کے "مقدس راستے" سے ہٹ گئے، تو چاہے آپ صحافی ہوں، وکیل ہوں یا پروفیسر—ہم آپ پر کریڈٹ کارڈ فراڈ کا الزام لگا دیں گے تاکہ عدالتی عمل کو سزا کے طور پر استعمال کر سکیں۔
قومی احتساب بیورو (نیب) پشاور نے بی آر ٹی پشاور منصوبے سے متعلق مبینہ کرپشن کے متعدد کیسز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کے تحت سابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور موجودہ وزیراعظم کے مشیر پرویز خٹک، موجودہ چیف سیکریٹری شہاب علی شاہ، اور دیگر اہم عہدیداروں کے خلاف تحقیقات ختم کر دی گئی ہیں۔ تاہم، کچھ دیگر افراد کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔ نیب نے احسن رفیق اور مامون الرشید کے خلاف معاملہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (سیکپ) کو ریفر کر دیا۔ ٹرانس پشاور کے سابق سی ای او فیاض احمد، صفدر شبیر، وقاص صالحین، محمد عمران، اور LMKR کے سی ای او عاطف رئیس کو بھی تمام الزامات سے بری کر دیا گیا۔ نیب چیئرمین نے ایگزیکٹو بورڈ میٹنگ (EBM) میں قانونی ماہرین کی رائے کے بعد کیسز بند کرنے کی منظوری دی۔ نیب کے خط (نمبر 1/34/1153/IW-I/NAB(KP) کے مطابق، جن شخصیات کے خلاف تحقیقات بند کی گئی ہیں، ان میں سابق وزیراعلیٰ پرویز خٹک، سابق چیف سیکریٹری عابد سعید، موجودہ چیف سیکریٹری اور سابق سیکریٹری پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ شہاب علی شاہ دیگر اہم افراد بشمول عمران لطیف، عامر لطیف، سید مسعود حسین شاہ، شیخ میاں محمد یونس، محمد ایوب شیخ، اور چینی کنٹریکٹرز ژانگ چینگ، ژیاؤ ہواپنگ، اور گاؤ جیان ہیں۔ نیب نے اپنے فیصلے میں کہا کہ تفصیلی قانونی جائزے اور شواہد کی کمی کی بنیاد پر یہ کیسز بند کیے گئے ہیں۔ تاہم، کچھ معاملات کو مزید کارروائی کے لیے متعلقہ اداروں کو بھیج دیا گیا ہے۔
کراچی کی رہائشی خاتون کا لاہور سمیت پنجاب بھر میں 400 سے زائد افراد کیساتھ انویسٹمنٹ کے نام پر 4 ارب کا فراڈ کراچی کی رہائشی خاتون فاطمہ سلیم نے کراچی کے بعد لاہور سمیت پنجاب بھر میں 400 سے زائد افراد کیساتھ انویسٹمنٹ کے نام پر چار ارب کا فراڈ کرلیا۔ خاتون اپنے مبینہ شوہر سہیل عدنان اور بیٹے عمر عمران کے ہمراہ روپوش ہوگئی۔ فراڈ بحریہ کوزین کمپنی کے نام پر کیا گیا۔ خاتون نے دفتر کے ملازموں تک کو نہ بخشا۔ https://www.instagram.com/newsonepakistan/reel/DHo0VFDBag-/ خاتون نے ایک ہی کمپنی کے افسران سے 63 کروڑ کا فراڈ کیا جبکہ دیگر افراد سے تقریباً چار ارب روپے کا فراڈ کیا، مذکورہ خاتون 65ایف آئی ار درج ہونے کے باوجودساتھیوں سمیت دو ماہ گزرنے کے باوجود گرفتار نہ ہو سکی۔ رونامہ جنگ کے مطابق دستاویزات کے مطابق بفرزون نارتھ کراچی کی رہائشی سلیم فاطمہ نامی خاتون کیخلاف 2020ء میں ایف آئی AHTC کراچی میں ایک فراڈ کا مقدمہ درج ہوا مگر وہ فرار ہو کر لاہور بھاگ گئی۔ لاہور میں رہتے ہوئے اس نے پچھلے فراڈ کے پیسوں اور دیگر پیسے جمع کر کے 2024 میں پانچ آئؤٹ لیٹس اور ایک بیوٹی پارلر بھی کھولا۔ پھر لوگوں کو بھاری منافع دینے کی لالچ میں سرمایہ کاری کرنے کی ترغیب دی۔ اسکی ترغیب پر 300 سے زائد لوگ جن میں ریٹائرڈ افسران، ایک ہی کمپنی کے حاضر سروس اعلی افسران نے 10 لاکھ سے لیکر ایک کروڑ تک کی سرمایہ کاری کی اور غائب ہو گئی۔
لندن/اسلام آباد: برطانیہ نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (پی آئی اے) سمیت دیگر پاکستانی ایئرلائنز پر عائد پابندیوں کو فی الحال برقرار رکھا ہے۔ برطانوی وزارت نقل و حمل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ایئرلائنز اب بھی یورپی یونین کی ایئر سیفٹی فہرست میں شامل ہیں اور پابندی ہٹانے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ برطانیہ اور پاکستان کی سول ایوی ایشن اتھارٹیز کے درمیان اس معاملے پر مسلسل رابطہ جاری ہے۔ تاہم، پاکستانی حکومتی ذرائع کے مطابق، برطانوی ایئر سیفٹی اتھارٹی نے ایک بار پھر اپنا فیصلہ ملتوی کر دیا ہے۔ اصل میں آڈٹ کے بعد 20 مارچ کو فیصلہ ہونا تھا، لیکن اب اسے 25 مارچ تک کے لیے مؤخر کر دیا گیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق، پی آئی اے کے ایک جہاز کا ٹائر گرنے کے واقعے نے اس معاملے میں تاخیر پیدا کی ہے۔ ورلڈ ایئر سیفٹی اور ایئربس اس حادثے کی تفتیش کر رہے ہیں، اور پابندی کا فیصلہ تحقیقات مکمل ہونے تک مؤخر کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ جولائی 2020 میں برطانیہ اور یورپی یونین نے پاکستانی پائلٹوں کے جعلی لائسنس اسکینڈل کے بعد پاکستانی ایئرلائنز پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے بعد سے پاکستانی حکام نے ایئر سیفٹی کے معیارات کو بہتر بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں، لیکن ابھی تک پابندی مکمل طور پر نہیں ہٹائی جا سکی۔ حکومت پاکستان کو امید ہے کہ جلد ہی تمام ضروری معیارات پورے ہونے کے بعد پابندی اٹھا لی جائے گی، جس سے پی آئی اے کو یورپ اور برطانیہ کے اہم راستوں پر دوبارہ پروازیں شروع کرنے میں مدد ملے گی۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی و عوامی امور رانا ثناء اللہ نے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل کے ٹوئٹ کے جواب میں کہا کہ حکومت ان کے تحفظات کو حل کرنے کے لیے تیار ہے اور وہ ان کے ساتھ بیٹھ کر ان مسائل کو بات چیت کے ذریعے سلجھانے کے لیے تیار ہیں۔ اختر مینگل نے اپنے ٹوئٹ میں وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا، جو بیٹیوں کی گرفتاری اور ماؤں بہنوں کی بے حرمتی کے خلاف تھا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مارچ ان کے قومی وقار، غیرت اور وجود کا سوال ہے، اور وہ اس میں تمام بلوچ بھائیوں، بہنوں، نوجوانوں اور بزرگوں کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس مارچ میں ان کے ساتھ شامل ہوں۔ رانا ثناء اللہ نے اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ جعفر ایکسپریس واقعے کے بعد دہشتگردوں کی لاشوں پر جھگڑے کی اطلاعات مل رہی ہیں، لیکن اس پر کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ان مسائل کو سلجھانے کے لیے حکومت کو آگے بڑھنا چاہیے اور مسئلے کے حل کے لیے بات چیت جاری رکھنی چاہیے۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے احتجاج کی قیادت کرنے والے افراد کی گرفتاری کی مذمت کی اور کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے حکمت عملی اختیار کی جانی چاہیے تاکہ حالات بہتر ہوں۔ انہوں نے کہا کہ لاپتا افراد کے مسئلے پر بات کی جانی چاہیے اور کرپشن کا خاتمہ کیا جانا چاہیے۔ رانا ثناء اللہ نے اس بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ الیکشن متنازع ہوں، لیکن نواز شریف ہمیشہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے تیار ہیں، بشرطیکہ کوئی بات کرنے کو تیار ہو۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے لاپتا افراد کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں بازیاب کیا جائے اور جن افراد کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں ہے، انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں اس قسم کی طاقت کے استعمال سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ پیچیدہ ہے اور اسے حل کرنے کے لیے تین فریقوں کو ساتھ بیٹھنا پڑے گا، تاہم کسی بھی فریق کو ساتھ بیٹھنے کی رضا مندی نہیں ہے۔ آخر میں، رانا ثناء اللہ نے کہا کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل بات چیت کے ذریعے نکل سکتا ہے، اور انہوں نے عبدالمالک بلوچ کے مسئلے کو وزیراعظم تک پہنچانے کی یقین دہانی کرائی۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اس پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
ملک بھر کے دریاؤں میں پانی کی کمی ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے اور دریائے سندھ کی سکڑتی ہوئی حالت اس بحران کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہے۔ کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی کی شدید کمی کے باعث انسانی زندگی اور آبی حیات شدید متاثر ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں سیکڑوں لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ دریائے سندھ، جو پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہے، پانی کی کمی کے باعث ان دنوں صحرائے تھر کی مانند نظر آ رہا ہے۔ ڈاؤن اسٹریم میں پانی کی کمی اور اس کے مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے دریا خشک ہو کر سکڑ چکا ہے، جس سے آبی حیات اور انسانی آبادی کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ٹھٹھہ سجاول پل کے مقام پر دریائے سندھ کے کناروں پر ریت کے ٹیلے پھیل گئے ہیں، اور پورا علاقہ خشک سالی کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ زرعی پانی فراہم کرنے والی نہریں سوکھ چکی ہیں اور کاشتکار پانی کی بوند بوند کے لیے ترس رہے ہیں۔ دریائے سندھ میں پانی کی کمی نہ صرف ماحولیاتی بحران کا سبب بن رہی ہے بلکہ سندھ کے کئی اضلاع میں زرعی زمینوں پر بھی اس کا منفی اثر پڑ رہا ہے۔ سمندر کے بڑھتے ہوئے پانی نے سجاول، ٹھٹھہ اور بدین کے اضلاع کی زرعی زمینوں کو متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں تقریباً 50 لاکھ ایکڑ زرعی زمین سمندر کی نذر ہو چکی ہے۔ اس سنگین بحران سے نمٹنے کے لیے فوری طور پر حکومت، ماہرین اور متعلقہ اداروں کو مشترکہ طور پر مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ اس مسئلے کا مستقل حل نکالا جا سکے اور متاثرہ علاقوں کے لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جا سکے۔

Back
Top