خبریں

راولپنڈی کی مقامی عدالت نے توہین رسالت اور پیکا قوانین کے تحت 5 افراد کو سزائیں سنا دی ہیں۔ ایڈیشنل سیشن جج محمد طارق ایوب نے توہین رسالت کے مقدمے میں پانچ ملزمان کو سزائے موت، عمر قید اور مجموعی طور پر 100 سال قید کی سزا سنائی۔ ڈان نیوز کے مطابق ملزمان محمد ارسلان، علی عباس، فیصل ریحان، زنیر سکندر اور خرم افضال کو مختلف دفعات کے تحت سزائیں سنائی گئیں۔ ان پر دفعہ 295 سی (توہین رسالت)، 295 بی (توہین قرآن)، 295 اے (دین کے خلاف توہین) اور دفعہ 298 اے (مذہبی عقائد کی توہین) کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔ تفصیلات کے مطابق، ملزمان کو دفعہ 295 سی کے تحت سزائے موت، دفعہ 295 بی کے تحت عمر قید، دفعہ 295 اے کے تحت 10 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ مزید برآں، ملزمان کو دفعہ 298 اے کے تحت تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا بھی دی گئی۔ پیکا آرڈیننس کے تحت ملزمان کو سات سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی۔ اس فیصلے نے توہین رسالت اور مذہبی قوانین کی خلاف ورزی کے معاملات میں عدالت کی سخت کارروائی کو ظاہر کیا ہے، اور یہ سزائیں ملک میں اس نوعیت کے مقدمات کی پیروی میں اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہیں۔
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں ایک اہم انکشاف ہوا ہے کہ ٹھیکیداروں کو ترقیاتی کاموں کے لیے بغیر لیب رپورٹس کے 11 ارب روپے فراہم کیے گئے۔ پی اے سی کا اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں منعقد ہوا، جس میں وزارت ہاؤسنگ اینڈ ورکس کے مالی سال 2022-23 اور 2023-24 کے آڈٹ اعتراضات کا تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔ اجلاس کے دوران پی اے سی نے چینی کی قیمتوں اور برآمدات کے حوالے سے وزارت تجارت کی رپورٹ پیش نہ کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ وزارت تجارت اور صنعت سے چینی کی قیمتوں، برآمدات اور درآمدات کی رپورٹ طلب کی گئی تھی، لیکن وہ فراہم نہیں کی گئی۔ اس پر پی اے سی نے تین وفاقی سیکریٹریز کو طلب کیا، جن میں سیکرٹری صنعت، سیکرٹری تحفظ خوراک اور سیکرٹری تجارت شامل ہیں۔ ہاؤسنگ اینڈ ورکس سے متعلق آڈٹ اعتراضات پر بات کرتے ہوئے، گرانٹ کی رقم کی تاخیر اور لیپس ہونے کے معاملے پر سیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس نے وضاحت دی کہ "ہمارے پاس فائنل ریلیز تاخیر سے آئی"۔ وزارت خزانہ کی جانب سے رقم کی تاخیر سے جاری ہونے پر کمیٹی نے تشویش کا اظہار کیا۔ ممبر کمیٹی نوید قمر نے کہا کہ "یہ تو تماشہ ہوگیا کہ 26 جون کو پیسے دیے جائیں گے۔" چیئرمین کمیٹی نے خزانہ حکام سے استفسار کیا کہ آیا آپ نے لیپس کے لیے پیسے بھیجے تھے؟ نوید قمر نے کہا کہ "سیکرٹری فنانس اور سیکرٹری پلاننگ کو بلا کر پوچھیں کہ طریقہ کار کو ٹھیک کریں"۔ پی اے سی نے پاک پی ڈبلیو ڈی (پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ) سے متعلق بھی سوالات اٹھائے۔ سیکرٹری ہاؤسنگ نے بتایا کہ پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے کا فیصلہ کابینہ نے کیا تھا، مگر اس پر حتمی فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا۔ نوید قمر نے سوال کیا کہ "کیا پی ڈبلیو ڈی ابھی تک فعال ہے؟" سیکرٹری ہاؤسنگ نے جواب دیا کہ "پی ڈبلیو ڈی کی اسکیمیں صوبوں، محکموں اور سی ڈی اے کے حوالے کی جاچکی ہیں۔" جنید اکبر خان نے کہا کہ "اتنا کرپٹ ترین ادارہ شاید ہی کہیں اور ہو گا۔ اتنی زیادہ کرپشن ایک ادارے میں کیوں ہوتی ہے؟" آڈیٹر جنرل نے کہا کہ "کسی محکمے کا مکمل پرفارمنس آڈٹ نہیں ہوا"۔ اجلاس کے دوران ملک بھر میں 952 ترقیاتی منصوبوں کے ٹھیکوں میں طے شدہ معیار کے مطابق کام نہ ہونے کا بھی انکشاف ہوا۔ رپورٹ کے مطابق یہ ایک ملی بھگت کا کیس لگتا ہے جس میں اربوں روپے جاری کر دیے گئے، لیکن رپورٹس کا بروقت جائزہ نہیں لیا گیا۔ سیکرٹری ہاؤسنگ اینڈ ورکس کو کمیٹی اراکین نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مطلوبہ کام مکمل نہ ہونے پر ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ اجلاس کے دوران پی اے سی نے ہدایت کی کہ ایک ماہ میں اس آڈٹ اعتراض کا جواب جمع کروایا جائے، اور متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کر کے کمیٹی کو رپورٹ دی جائے۔
بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی تحقیقات میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ سی ٹی ڈی (کاؤنٹر ٹیرارزم ڈپارٹمنٹ) نے چار مبینہ سہولت کاروں کو حراست میں لے لیا ہے، جن سے تفتیش جاری ہے۔ سی ٹی ڈی کے مطابق حراست میں لیے گئے افراد سے ابتدائی تفتیش کی جارہی ہے، اور پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی نے کہا ہے کہ دیگر اداروں کے ساتھ مل کر تحقیقات کی جا رہی ہیں، اور ملزمان تک جلد پہنچنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سی ٹی ڈی حکام نے مزید بتایا کہ حملہ آوروں کے زیر استعمال اسلحہ اور کمیونیکیشن آلات قبضے میں لے کر فارنزک تحقیقات کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ حملہ آوروں کی شناخت کے لیے نادرا کو ان کے فنگر پرنٹس بھی فراہم کر دیے گئے ہیں۔ سی ٹی ڈی کے مطابق ہلاک حملہ آوروں کے جسمانی اعضا بھی فارنزک سائنس ایجنسی کو بھیجے گئے ہیں تاکہ مزید تحقیقات کی جا سکیں۔ مشکاف کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ جعفر ایکسپریس پر حملے میں 26 مسافر جاں بحق ہوئے، جبکہ 40 دیگر زخمی ہو گئے تھے۔ اس حملے کے دوران ریلوے حکام کے مطابق جعفر ایکسپریس کے انجن سمیت پانچ بوگیاں تباہ ہو گئیں تھیں، اور ریلوے ٹریک کا 382 فٹ کا حصہ بھی نقصان سے دوچار ہوا۔ ترجمان دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ جعفر ایکسپریس پر حملے کے دوران افغانستان سے تعلق رکھنے والے گروپوں کے رابطے کا سراغ ملا ہے، اور یہ حملہ بیرون ملک بیٹھی دہشت گرد قیادت نے کرایا تھا۔ دفتر خارجہ نے ایک بار پھر افغان عبوری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے زیر اثر علاقوں میں دہشت گرد گروپوں کو کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین کے استعمال سے روکے۔
پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک ایڈیشنل جج نے غیرت کے نام پر اپنی بیٹی ماریہ بی بی کو قتل کرنے کے الزام میں اس کے والد عبدالستار اور بھائی فیصل کو سزائے موت سنا دی اور دونوں پر ایک، ایک کروڑ روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔ ماریہ بی بی کو 17 مارچ 2024 کو اس کے والد عبدالستار اور بھائی فیصل نے چک 477-جے بی میں قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد 28 مارچ کو قبرکشائی کر کے ماریہ کی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا تھا، جس سے قتل کی حقیقت سامنے آئی۔ مقدمے کے مرکزی ملزم فیصل نے پولیس کی حراست میں میڈیا کے ذریعے ریکارڈ کروائے گئے بیان میں اعتراف کیا کہ اس نے اپنی بہن کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور اپنے ناجائز تعلقات کو چھپانے کے لیے اس کا گلا دبا کر قتل کر دیا۔ تاہم، ڈی این اے رپورٹ سے یہ ثابت ہوا کہ ماریہ کے ساتھ زیادتی نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ حاملہ تھی، جیسا کہ ابتدائی طور پر الزام عائد کیا گیا تھا۔ پولیس نے بعد ازاں مقدمے میں ایف آئی آر درج کی اور چالان میں بتایا کہ ماریہ کو اس کے والد اور بھائی نے غیرت کے نام پر قتل کیا تھا۔ ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 34، 201 اور 302 کے تحت درج کی گئی تھی، جس کے بعد مقدمے میں دفعہ 311 (غیرت کے نام پر قتل) بھی شامل کر دی گئی تھی۔ فیصل کے بھائی شہباز اور اس کی اہلیہ سمیرہ کو قتل چھپانے کے الزام میں پولیس نے گرفتار کیا۔ شہباز نے پولیس کو بتایا کہ ماریہ نے قتل سے ایک روز قبل اطلاع دی تھی کہ فیصل اور ان کے والد نے اس کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ اس نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس نے اپنی دوسری بہن کوثر کے ساتھ فون پر بات کرنے کے بہانے قتل کی خفیہ ویڈیو بنائی تھی۔ آج ایڈیشنل سیشن جج عبدالحفیظ بھٹہ نے کیس کی سماعت کی اور فیصلہ سنایا۔ فیصلے میں شہباز اور سمیرہ کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے بری کر دیا گیا، جبکہ عبدالستار اور فیصل کو قتل کا مجرم قرار دے کر سزائے موت سنائی گئی۔ عدالت نے انہیں ماریہ کے قانونی ورثاء کو ایک ایک کروڑ روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا۔ اگر یہ جرمانہ نہ ادا کیا گیا تو انہیں مزید 6 ماہ قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ فیصلے کے بعد کیس کا ریکارڈ لاہور ہائی کورٹ کو بھیجا جائے گا تاکہ سزائے موت کی تصدیق کی جا سکے۔ مجرموں کو 30 دن کے اندر فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق بھی دیا گیا ہے۔ پراسیکیوٹرجنل پنجاب سید فرہاد علی شاہ کی جانب سے مقدمے کو ہائی پروفائل قرار دیا گیا تھا۔ انہوں نے کیس کی تفتیش کو انتہائی سنجیدگی سے لیا اور مقدمے کی مؤثر پیروی کے لیے خصوصی پراسیکیوٹر تعینات کیا تھا۔ پراسیکیوٹرجنل پنجاب کا کہنا تھا کہ ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانا پراسیکیوشن کی ذمہ داری ہے، جسے پنجاب کے پراسیکیوٹرز بھرپور طریقے سے نبھا رہے ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں عدالتی کارروائی کے دوران فیکٹ فوکس کی آرمی چیف کی فیملی سے متعلق رپورٹ کا بھی تذکرہ ہوتا رہا جس کی وجہ سے احمد نورانی کی فیملی عتاب کا شکار ہے۔ وکیل سجاد اکرب عباسی نے کہا کہ فیکٹ فوکس کو ریاست مخالف سرگرمیوں پر کالعدم قرار دیا گیا ہے، ی پی ٹی اے کی رپورٹ پر فیکٹ فوکس کو کالعدم قرار دیا گیا، فیک نیوز پھیلانے اور ریاست مخالف مواد دینے پر فیکٹ فوکس کو کالعدم قرار دیا گیا جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے کہا کہ کہ جو لینگویج پی ٹی اے لیٹر میں استعمال کی گئی ہے اسے پڑھ کر لگ رہا ہے کہ فیکٹ فوکس سچ بول رہا ہے۔حضرت علی کا قول ہے کہ یہ نہ دیکھو کون کہہ رہا ہے، یہ دیکھو کیا کہہ رہا ہے انہوں نے زور دیا کہ جن ممالک کا دفاع کمزور ہو یا عوام اپنی مسلح افواج کے ساتھ نہ ہوں، انہیں توڑنا آسان ہوتا ہے۔ عدالت میں وکیل نے کہا کہ "ٹرینڈ آ گیا ہے کہ فوج کے خلاف وی لاگ بنا کر 5 کروڑ روپے کمائے جا رہے ہیں۔" جسٹس نے سوال کیا: "ہم اس نہج پر کیوں آ گئے؟" وکیل نے جواب دیا: "یہ بیانیہ لوگوں کو پسند ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جہاں عوام اپنی افواج کے ساتھ نہیں ہوتے، وہاں دشمن کے لیے راستہ کھلا ہوتا ہے۔
کراچی: پولیس نے بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے احتجاجی اراکین کو منتشر کرتے ہوئے سمی دین بلوچ سمیت 6 کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ ڈی آئی جی ساؤتھ سید اسد رضا کے مطابق کمشنر کراچی کی جانب سے عوامی اجتماعات یا احتجاج پر پابندی کے حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا، جس کے باوجود بی وائی سی اور دیگر گروہوں نے ریڈ زون میں احتجاج کرنے کی کوشش کی۔ پولیس نے بی وائی سی کے احتجاجی اجتماع کو منتشر کر دیا اور سمی دین بلوچ سمیت تقریباً 6 مظاہرین کو ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 کی خلاف ورزی پر گرفتار کر کے ویمن پولیس اسٹیشن میں بند کر دیا۔ ان کے خلاف پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 188 کے تحت ایف آئی آر درج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مظاہرے کے دوران خواتین اور سول سوسائٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد بھی پولیس اسٹیشن کے باہر جمع ہوئی، جہاں مرد و خواتین دونوں کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اپنے احتجاجی کیمپ کے دوران کوئٹہ میں اپنے رہنماؤں کی غیر قانونی حراست کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا تھا، جن میں ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ بھی شامل ہیں۔ کراچی پریس کلب کے باہر ہونے والے احتجاج کے پیش نظر، پولیس نے پریس کلب کے اطراف کی سڑکیں بند کر دیں اور شہر میں دفعہ 144 نافذ کر دی۔ ٹریفک پولیس نے سماجی رابطے کے پلیٹ فارم 'ایکس' پر ایک بیان جاری کرتے ہوئے بتایا کہ دین محمد وفائی روڈ سے فوارہ چوک تک سڑکیں بند کر دی گئی ہیں اور متبادل ٹریفک راستے فراہم کیے گئے ہیں۔ مظاہرین کی جانب سے ایک جوابی احتجاج بھی کیا گیا جس میں پلے کارڈز پر 'را سے تعلق: بی ایل اے اور بی وائی سی' جیسے نعرے درج تھے، جس میں بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' اور کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کا ذکر کیا گیا تھا۔ اسی دوران، سندھ حکومت نے کراچی میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے 5 روز کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی ہے۔ اس کے تحت جلسے، جلوس، دھرنوں اور پانچ یا اس سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی ہوگی۔ یہ پابندی 24 مارچ سے 28 مارچ تک نافذ رہے گی اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس تمام صورتحال کے دوران، بلوچستان کے رہنماؤں نے اس احتجاج کے دوران ہونے والی گرفتاریوں اور پولیس کے اقدامات پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے، جس سے بلوچستان میں سیاسی ماحول مزید کشیدہ ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے اجلاس میں پاکستان نرسنگ کونسل کے خلاف سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ نرسنگ کونسل انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہے اور جعلی ڈگریوں پر نرسز کو بیرون ملک بھیجا جا رہا ہے۔ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین مہیش کمار میلانی کی زیرصدارت ہوا، جس میں نرسنگ کونسل کی بےضابطگیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اجلاس میں آغا رفیع اللہ نے الزام عائد کیا کہ نرسنگ کونسل غیر قانونی طریقے سے جعلی ڈگریوں پر نرسز کو مختلف ممالک میں بھیج رہی ہے، جن کی شناخت اور تعلیم میں جعلسازی کی جاتی ہے۔ کمیٹی کی رکن شازیہ صوبیہ نے بھی اس معاملے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دبئی، قطر اور سعودی عرب سے تین نرسنگ گروپ جعلی ڈگریوں پر واپس بھیجے جا چکے ہیں۔ ان کے مطابق، یہ معاملہ نہ صرف نرسنگ کے شعبے کی ساکھ کو متاثر کر رہا ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ عالیہ کامران نے مزید انکشاف کیا کہ نرسنگ کونسل کی جانب سے کمیٹی کے ممبران کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور عدالت سے اسٹے آرڈر حاصل کیا گیا ہے، جس کے باعث کمیٹی اس پر مکمل تحقیقات کرنے میں مشکلات کا سامنا کر رہی ہے۔ اجلاس میں وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے نرسنگ کونسل کے رویے کی مذمت کی اور آغا رفیع اللہ کے خلاف استعمال ہونے والی نازیبا زبان پر معذرت کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر خاموش نہیں بیٹھیں گے اور نرسنگ کونسل کی بےضابطگیوں کی مکمل تحقیقات کرائیں گے۔ وزیر صحت نے کمیٹی کو بتایا کہ فرزانہ ذوالفقار کی جعلی ڈگری کے معاملے پر ایچ ای سی کو خط لکھا جا چکا ہے اور وہ اس پر مسلسل کمیٹی کو آگاہ رکھتے رہیں گے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ آئندہ اجلاس نرسنگ کونسل کے معاملات پر ہی منعقد کیا جائے گا اور اس کے خلاف ممکنہ کارروائی پر غور کیا جائے گا۔
پشاور: طورخم بارڈر پر اسمگلنگ میں ملوث 50 افغان بچوں کو قبائلی جرگے کے ذریعے افغانستان واپس بھیج دیا گیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، یہ بچے یومیہ 700 سے زائد افغان بچوں میں شامل تھے جو غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ قبائلی جرگے نے جذبہ خیر سگالی کے تحت ان گرفتار بچوں کو رہا کیا اور انہیں براستہ طورخم افغانستان واپس جانے کی اجازت دی۔ ان افغان بچوں کی اکثریت نادانستہ طور پر منشیات اور تخریب کاری کے مواد کی اسمگلنگ میں ملوث تھی۔ پولیس حکام کے مطابق، یہ بچے غیر قانونی طور پر پاکستانی سرحد کو پار کرکے پاکستان میں داخل ہو رہے تھے۔ جرگہ کے ارکان نے کہا کہ بچوں کو ایسے غیر قانونی کاموں میں ملوث کرنا نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی جرم بھی ہے، اور والدین کو اپنے بچوں کو تعلیم دلانے کی ضرورت ہے۔ جرگے کے ممبر علی شینواری نے اس موقع پر کہا کہ بچوں کو اس عمر میں جیل میں قید کرنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغان حکام کے حوالے کیے گئے 50 بچوں میں 17 بچیاں بھی شامل ہیں۔ جرگہ نے فرنٹیئر کور نارتھ اور پولیس کی تعاون پر شکریہ ادا کیا، جنہوں نے اس کارروائی میں مدد فراہم کی۔
کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی زیرصدارت اعلیٰ سطحی انتظامی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ریاست مخالف پروپیگنڈے اور سرگرمیوں میں ملوث سرکاری ملازمین کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ ریاست مخالف عناصر کو فورتھ شیڈول میں شامل کیا جائے گا تاکہ ان کی منفی سرگرمیوں پر قریبی نظر رکھی جا سکے۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے اجلاس میں کہا کہ صوبے کے تمام تعلیمی اداروں میں قومی ترانہ پڑھنے اور قومی جھنڈا لہرانے کی ہدایت کی جائے گی۔ انہوں نے واضع کیا کہ جو تعلیمی اداروں کے سربراہان ان احکامات کی پابندی نہیں کروا سکتے، وہ فوری طور پر اپنے عہدے سے دستبردار ہو جائیں۔ سرفراز بگٹی نے مزید کہا کہ امن و امان کی بحالی صوبائی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور کوئی بھی شاہراہ بند نہیں ہونے دی جائے گی۔ انہوں نے تمام ضلعی افسران کو ہدایت کی کہ وہ اپنے علاقے میں ریاستی رٹ کو قائم رکھیں اور اپنی ذمہ داریوں کو ایمانداری سے ادا کریں۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف ریاست کا نہیں بلکہ ہر فرد اور ادارے کی مشترکہ جنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پالیسی دیتی ہے، لیکن اس پر عمل درآمد فیلڈ افسران کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی افسر پالیسی پر عمل نہیں کر سکتا تو اسے رضا کارانہ طور پر اپنے عہدے سے الگ ہو جانا چاہیے۔ وزیراعلیٰ نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی چیک پوسٹ پر بھتہ خوری کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اجلاس کے دوران فرائض کی انجام دہی کے دوران جام شہادت نوش کرنے والے جوانوں کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔
کراچی: سندھ میں تقریباً 78 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، جبکہ صوبے کے مختلف تعلیمی اداروں میں 3 کروڑ 63 لاکھ بچے پرائمری اور 26 لاکھ بچے ایلیمینٹری اسکولوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ محکمہ اسکول ایجوکیشن کی حالیہ بریفنگ میں یہ اہم معلومات سامنے آئی ہیں۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق محکمہ اسکول ایجوکیشن کے مطابق، سندھ میں 5 سے 16 سال کی عمر کے 1 کروڑ 68 لاکھ 90 ہزار بچے اسکولوں میں داخل ہیں، جن میں سے 52 لاکھ بچے پبلک اسکولوں اور 9 لاکھ 30 ہزار بچے سندھ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیرِ انتظام اسکولوں میں زیرتعلیم ہیں۔ محکمہ کے مطابق، پرائمری اسکولوں میں 3 کروڑ 63 لاکھ بچے اور ایلیمینٹری اسکولوں میں 26 لاکھ بچے زیرتعلیم ہیں۔ اس کے علاوہ، سیکنڈری اسکولوں میں 16 لاکھ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جب کہ 4 لاکھ 90 ہزار بچے ہائر سیکنڈری اسکولوں میں تعلیم لے رہے ہیں۔ محکمہ اسکول ایجوکیشن نے مزید بتایا کہ صوبے کے مدارس میں 10 لاکھ 30 ہزار بچے اور نجی اسکولوں میں 40 لاکھ 10 ہزار بچے زیرتعلیم ہیں۔ غیر رسمی اسکولوں میں 60 ہزار بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ صوبے کی تعلیمی صورتحال کے حوالے سے محکمہ اسکول ایجوکیشن کی شماری کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ 56 لاکھ 60 ہزار بچے اسکولوں میں داخلے سے محروم ہیں۔ اس کے علاوہ، صوبے میں 15 ہزار 742 بوائز اسکول، 5 ہزار 816 گرلز اسکول اور 19 ہزار 420 مخلوط اسکولز موجود ہیں۔ تعلیمی اداروں میں لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے زیادہ ہے، جہاں پرائمری اسکولز میں 32 لاکھ 3 ہزار لڑکے اور 4 لاکھ 48 ہزار لڑکیاں زیرتعلیم ہیں، جبکہ سیکنڈری سطح پر 9 لاکھ 35 ہزار لڑکے اور 6 لاکھ 31 ہزار لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ اس صورتحال میں محکمہ اسکول ایجوکیشن نے رواں مالی سال کے لئے 424 ارب روپے کا بجٹ مختص کیا ہے، تاکہ تعلیمی معیار کو بہتر بنانے اور اسکولوں میں داخلہ لینے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ کیا جا سکے۔
کراچی: ملیر ہالٹ کے قریب واٹر ٹینکر کی ٹکر سے ایک حاملہ خاتون اور ان کے شوہر کی جان چلی گئی، جب کہ خاتون نے زخمی حالت میں نومولود کو جنم دیا، لیکن وہ بھی بچ نہ سکا اور دم توڑ گیا۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق یہ افسوسناک حادثہ ملیر ہالٹ کے قریب پیش آیا جہاں ایک تیز رفتار واٹر ٹینکر نے موٹر سائیکل سوار میاں بیوی کو کچل دیا۔ پولیس نے بتایا کہ خاتون حاملہ تھی اور حادثے کے دوران زخمی حالت میں اس نے بچے کو جنم دیا، تاہم بچہ بھی شدید زخمی ہونے کی وجہ سے زندگی کی جنگ نہیں جیت سکا۔ پولیس کے مطابق واٹر ٹینکر کا ڈرائیور گرفتار کرلیا گیا ہے اور ٹینکر کو تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق حادثہ واٹر ٹینکر کے بریک فیل ہونے کی وجہ سے پیش آیا۔ پولیس نے کہا کہ واٹر ٹینکر ہائی وے کی جانب سے آ رہا تھا اور ملیر ہالٹ پل کے نیچے سے تیز رفتاری کے ساتھ شارع فیصل کی طرف مڑتے ہوئے اس نے موٹر سائیکل سوار میاں بیوی کو ٹکر مار دی۔ یہ واقعہ علاقے میں غم کی لہر دوڑانے کا باعث بن گیا ہے اور پولیس مزید تحقیقات کر رہی ہے۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر قومی غذائی تحفظ رانا تنویر حسین نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارکیٹ میں چینی کی قیمت 162 روپے فی کلو ہے جبکہ یوٹلیٹی اسٹورز پر یہ 153 روپے فی کلو دستیاب ہے۔ تاہم، ملک کے بیشتر شہروں میں چینی 170 سے 180 روپے فی کلو کی قیمت پر فروخت ہو رہی ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق، اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وزیر نے بتایا کہ وزیراعظم نے چینی کی قیمتوں میں اضافے کی اطلاعات کا نوٹس لیتے ہوئے اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، جس کے نتیجے میں 168 روپے کلو قیمت والی چینی اب 162 روپے پر دستیاب ہے۔ رانا تنویر نے کہا کہ حکومت نے شوگر ملز کے ساتھ مل کر ملک بھر میں 274 رمضان اسٹالز قائم کیے ہیں، جہاں چینی 130 روپے فی کلو کی قیمت پر فراہم کی جا رہی ہے۔ یوٹلیٹی اسٹورز پر بھی چینی 153 روپے فی کلو کی قیمت پر دستیاب ہے۔ وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی خبریں افواہیں ہیں اور یہ حقائق سے ہٹ کر ہیں۔ تاہم، ملک کے مختلف شہروں میں چینی کی قیمتیں اب بھی 170 سے 180 روپے فی کلو کے درمیان ہیں۔ اسلام آباد میں چینی 180 روپے فی کلو، راولپنڈی میں 175 روپے، لاہور میں 170 سے 175 روپے، کراچی میں 170 روپے، پشاور میں 170 سے 175 روپے، اور کوئٹہ میں 180 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔ اس سے قبل، اسلام آباد میں ایک اجلاس کے دوران نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ چینی کی قیمت 178 سے 179 روپے فی کلو تک پہنچنے کی خبریں وزیراعظم کے لیے ناقابل برداشت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شوگر ملز کو نقصان پہنچائے بغیر ایک مناسب قیمت تک پہنچنا چاہتے ہیں، اور اس مقصد کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جا رہی ہے جس کی سربراہی رانا تنویر کریں گے۔ اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ کمیٹی 19 اپریل تک شوگر ملز کے دعوؤں پر غور کرے گی اور اس بات کا جائزہ لے گی کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے کا ذمہ دار کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اور شوگر ملز یہ یقینی بنائیں گے کہ چینی کی قیمت 164 روپے فی کلو سے زیادہ نہ ہو، اور اس سلسلے میں مسابقتی کمیشن کے ساتھ مل کر انٹیلی جنس رپورٹس اور ڈیٹا اکٹھا کیا جائے گا۔ چینی کی قیمتوں میں مبینہ دھوکہ دہی کے حوالے سے سی سی پی نے بھی متنبہ کیا ہے کہ اگر کوئی مخالف مسابقتی سرگرمیاں سامنے آئیں تو ان کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔
سیاست ڈاٹ پی کے کے اینکر سہراب برکت کے خلاف ایف آئی اے کو کسی بھی کاروائی کرنے سے روک دیا ۔۔ چیف جسٹس برہم ، ایف آئی اے کو طلب کر لیا اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے صحافی سہراب برکت کو ایف آئی اے کی جانب سے طلب کیے جانے پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ادارے کو فوری طور پر کسی بھی قسم کی کارروائی سے روک دیا۔ چیف جسٹس کے سخت ریمارکس چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے ریمارکس دیے: "یہ کس قسم کے نوٹسز جاری کیے جا رہے ہیں؟ نوجوان صحافیوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دوں گا۔ ایف آئی اے حکام دو ہفتوں میں یہاں آ کر وضاحت دیں۔ پہلے عدالت کو مطمئن کریں۔ انہوں نے واضح کیا کہ سہراب برکت کے خلاف کوئی بھی قانونی کارروائی بغیر عدالتی جائزے کے نہیں کی جا سکتی، اور ایف آئی اے کو فوری طور پر اس معاملے سے پیچھے ہٹنا ہوگا۔ بیرسٹر سعد رسول کے دلائل صحافی سہراب برکت کی جانب سے بیرسٹر سعد رسول عدالت میں پیش ہوئے اور مؤقف اختیار کیا کہ: "یہ معاملہ صرف سہراب برکت تک محدود نہیں، اگر آج اسے خاموش کرایا گیا تو کل ہر صحافی اسی خطرے کا شکار ہو گا۔ یہ ایک خطرناک نظیر (precedent) قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔" عدالت کا دو ٹوک حکم: آزادی صحافت پر کوئی سمجھوتہ نہیں چیف جسٹس نے واضح کیا کہ اس کیس کو ایک مثالی نظیر (precedent) کے طور پر لیا جائے گا، اور آئندہ کسی بھی صحافی کے خلاف پیکا (PECA) قانون کے تحت بلاجواز کارروائی نہیں کی جا سکے گی۔ عدالت نے ایف آئی اے کو سختی سے حکم دیا کہ سہراب برکت کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی فوری طور پر روکی جائے، اور جو حکام اس کارروائی میں ملوث ہیں، وہ خود عدالت میں پیش ہو کر جوابدہ ہوں گے۔ "آزادی صحافت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ اگر کسی نے اختیارات کا غلط استعمال کیا تو اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔" چیف جسٹس سرفراز ڈوگر نے خبردار کیا۔
راولپنڈی: راولپنڈی میں پیکا ایکٹ 2016 کے تحت دوسرا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ یہ مقدمہ ٹریفک وارڈن عمران سکندر کی مدعیت میں تھانہ کینٹ میں درج کیا گیا ہے۔ مقدمہ پیکا ایکٹ 2016 کی دفعہ 21 کی سب سکشن ون ڈی کے تحت درج کیا گیا ہے۔ متن مقدمے کے اندراج کے مطابق، ملزم نے رانگ پارکنگ پر کھڑی گاڑی کو اٹھانے کی ویڈیو بنائی اور اسے سوشل میڈیا پر وائرل کیا۔ گاڑی کا قانون کے مطابق رانگ پارکنگ پر چالان ٹکٹ بھی جاری کیا گیا تھا۔ متن مقدمے میں بتایا گیا کہ گاڑی دکان کے باہر کھڑی تھی، اور دکان مالک نے ویڈیو بنائی۔ دکان مالک نے ٹریفک پولیس کے خلاف عوام میں نفرت اور اشتعال انگیزی پیدا کرنے کے لیے ویڈیو وائرل کی۔ ملزم کا یہ اقدام پیکا ایکٹ 2016 کے تحت قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا ہے پیکا ایکٹ 2016 (پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) سائبر جرائم سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت سوشل میڈیا پر غلط معلومات پھیلانے، نفرت انگیز مواد شائع کرنے اور اشتعال انگیزی پھیلانے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے۔ یہ مقدمہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ حکومت سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت اور اشتعال انگیزی پھیلانے والے عناصر کے خلاف سخت اقدامات کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کرنے کا مقصد سائبر جرائم کو روکنا اور عوام کو محفوظ بنانا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا ملزم کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران کیا ثبوت پیش کیے جاتے ہیں اور کیا ملزم کو سزا دی جاتی ہے۔ یہ مقدمہ سوشل میڈیا کے استعمال کے حوالے سے قانونی حدود کا تعین کرنے میں اہم ثابت ہو سکتا ہے۔
کوئٹہ: بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی کال پر بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال آج بھی جاری رہی، تاہم صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں حالات معمول پر آ گئے ہیں اور چار روز بعد انٹرنیٹ سروس بحال کر دی گئی ہے۔ بی وائی سی کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر 16 کارکنوں کی کوئٹہ میں سریاب روڈ پر احتجاجی کیمپ سے گرفتاری اور مبینہ جبری گمشدگیوں کے خلاف پولیس کے کریک ڈاؤن کے بعد ہڑتال کی کال دی گئی تھی۔ گزشتہ روز پولیس کی جانب سے بی وائی سی کے اراکین پر کریک ڈاؤن کیا گیا تھا، جو مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ ماہ رنگ بلوچ، بیبرگ بلوچ، ان کے بھائی اور بولان میڈیکل کالج کے وائس پرنسپل ڈاکٹر الیاس بلوچ اور ان کے اہل خانہ کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کی قیادت کر رہی تھیں۔ ڈاکٹر الیاس اور ان کے رشتہ داروں کو رات گئے رہا کر دیا گیا تھا، جب کہ کچھ شرکا 13 لاشوں کی شناخت کے بغیر مبینہ طور پر تدفین کے خلاف بھی احتجاج کر رہے تھے۔ ہڑتال کی کال اس وقت جاری کی گئی تھی جب بی وائی سی نے جمعہ کو دعویٰ کیا کہ ان کے 3 کارکنان مبینہ طور پر پولیس فائرنگ سے مارے گئے۔ تاہم، کوئٹہ کے کمشنر حمزہ شفقات نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ اموات بی وائی سی قیادت کے ساتھ مسلح عناصر کی مبینہ فائرنگ سے ہوئی ہیں۔ کمشنر نے بتایا کہ 21 مارچ 2025 کو سانحہ جعفر ایکسپریس میں ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کے حق میں بی وائی سی کے احتجاج کے دوران پرتشدد مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور فائرنگ کی۔ ڈان ڈاٹ کام کے رپورٹرز کے مطابق، صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں گزشتہ روز جزوی شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کے بعد آج صورتحال معمول پر آ گئی ہے۔ گزشتہ روز بھی مرکزی کاروبار اور مارکیٹیں کھلی رہیں، تاہم سریاب روڈ، بریوری روڈ کے ساتھ ساتھ شہر کے مضافات میں کچھ دیگر علاقے بند رہے۔ تاہم، کیچ کے تربت کے علاوہ پنجگور، نوشکی، قلات اور چاغی اضلاع میں شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری رہی۔ بی وائی سی کے حامیوں کی جانب سے کیچ اور حب کے قریب بھوانی میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے گئے، جہاں گزشتہ روز سڑک بند ہونے کی وجہ سے ٹریفک معطل تھی۔ بی وائی سی نے کوئٹہ میں قمبرانی روڈ پر آج شام 4 بجے ایک اور احتجاج کی کال دی ہے اور صوبے کی عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ اس میں بھرپور شرکت کریں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ احتجاج بلوچستان میں ریاستی اقدامات اور ماہ رنگ بلوچ سمیت دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف ہے۔ ماہ رنگ بلوچ کے ایکس اکاؤنٹ پر جاری بیان میں ان کی بہن نے کہا کہ ’ماہ رنگ بلوچ، بیبو بلوچ، بیباگر بلوچ اور ان کے دوستوں کی بحفاظت رہائی کے لیے اپنی آواز بلند کریں۔‘ پوسٹ میں کہا گیا کہ ’جب تک ماہ رنگ بلوچ ریاست پاکستان کی جانب سے غیر قانونی طور پر حراست میں رہیں گی، یہ اکاؤنٹ میں چلاؤں گی اور تازہ ترین معلومات فراہم کرتی رہوں گی۔‘ بی وائی سی کی ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے بلوچستان میں سیاسی اور سماجی تناؤ کو مزید بڑھا سکتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور بی وائی سی کے درمیان مذاکرات کا کوئی راستہ نکلتا ہے یا نہیں، اور کیا اس صورتحال کا کوئی پرامن حل تلاش کیا جا سکتا ہے۔
کوٹری: دریائے سندھ، جو کبھی سندھ کی زرخیزی کی علامت تھا، اب پانی کی شدید کمی کا شکار ہو چکا ہے۔ کوٹری ڈاؤن اسٹریم میں پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے، جس کے باعث ٹھٹھہ اور سجاول پل کے اطراف دریا کی زمینیں خشک ہو گئی ہیں اور زرعی زمینیں بنجر ہونے لگی ہیں۔ رپورٹس کے مطابق، دریائے سندھ میں پانی کی کمی 52 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جبکہ سکھر بیراج پر پانی کی کمی 69 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے۔ گڈو اور سکھر بیراج پر پانی کی سطح میں تشویشناک حد تک کمی دیکھی گئی ہے۔ کنٹرول روم کے انچارج نے کہا کہ دریائے سندھ میں پانی کی اتنی کمی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ پانی اتنا کم ہے کہ نہروں میں پانی چھوڑنے کا نظام درہم برہم ہو گیا ہے۔ گڈو بیراج پر پانی کی سطح 20 ہزار کیوسک اور سکھر بیراج پر 15 ہزار کیوسک رہ گئی ہے۔ سکھر اور دادو کینال میں پانی ختم ہو گیا ہے، جبکہ بیگاری کینال میں ہر طرف زمین خشک نظر آ رہی ہے۔ یہ صورتحال سندھ کے کسانوں کے لیے انتہائی تشویشناک ہے، کیونکہ پانی کی کمی کے باعث زرعی زمینیں بنجر ہو رہی ہیں اور فصلوں کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ دریائے سندھ میں پانی کی کمی کی بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلیاں، بارشوں میں کمی اور پانی کے غیر منصفانہ تقسیم ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو سندھ کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ زرعی ماہرین اور کسانوں نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دریائے سندھ میں پانی کی کمی کے مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ پانی کے ذخائر کو بہتر طریقے سے منظم کرنے، نہروں کی مرمت اور پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی ضرورت ہے۔ دریائے سندھ میں پانی کی کمی نہ صرف زراعت بلکہ پینے کے پانی کی دستیابی کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ اگر صورتحال پر قابو نہ پایا گیا تو سندھ کے لاکھوں افراد کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، جس سے معاشی اور سماجی مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس سنگین مسئلے سے نمٹنے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں اور کس طرح دریائے سندھ کے پانی کو بچانے اور اس کے منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
اسلام آباد: نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) نے یکم اپریل 2024 سے قومی شاہراہوں اور موٹرویز پر ٹول ٹیکس میں ایک بار پھر اضافے کا اعلان کیا ہے۔ یہ رواں مالی سال میں ٹول ٹیکس کا چوتھا اضافہ ہے، جس سے عوام پر معاشی بوجھ میں مزید اضافہ ہو گا۔ این ایچ اے کی ویب سائٹ کے مطابق، نئے ٹول چارجز میں گاڑیوں کے لیے 70 روپے، وینز کے لیے 150 روپے، اور بسوں کے لیے 250 روپے مقرر کیے گئے ہیں۔ دو اور تین ایکسل والے ٹرکوں کے لیے ٹول 300 روپے جبکہ بڑے ٹرکوں کے لیے 550 روپے مقرر کیا گیا ہے۔ این ایچ اے نے ایم 1، ایم 3، ایم 4، ایم 5، ایم 14، اور ای 35 سمیت کئی بڑی موٹرویز پر ٹول ٹیکس میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔ ایم 1 اسلام آباد-پشاور موٹروے پر گاڑیوں کا ٹول 500 روپے سے بڑھا کر 550 روپے کر دیا گیا ہے۔ ایم 3 لاہور-عبدالحکیم موٹروے پر ٹول 700 روپے سے بڑھ کر 800 روپے ہو گیا ہے۔ اسی طرح، ایم 4 پنڈی بھٹیاں-فیصل آباد-ملتان روٹ پر گاڑیوں کے لیے ٹول 950 روپے سے بڑھا کر 1050 روپے، جبکہ ایم 5 ملتان-سکھر موٹروے پر گاڑیوں کے لیے ٹول 1100 روپے سے بڑھ کر 1200 روپے کر دیا گیا ہے۔ ایم 14 ڈیرہ اسماعیل خان-ہکلہ موٹروے پر ٹول 600 روپے سے بڑھا کر 650 روپے، اور ای 35 حسن ابدال-حویلیاں-مانسہرہ روٹ پر گاڑیوں کے لیے ٹول 250 روپے سے بڑھا کر 300 روپے کر دیا گیا ہے۔ بڑی گاڑیوں کے لیے ان موٹرویز پر ٹول ریٹ 850 روپے سے 5750 روپے تک مقرر کیا گیا ہے۔ ٹول ٹیکس میں یہ اضافہ عوام کے لیے ایک اور معاشی چیلنج ہے، خاص طور پر ان خاندانوں کے لیے جو روزانہ کام کاج کے لیے موٹرویز کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ اضافہ ٹرانسپورٹ کے اخراجات میں اضافے کا باعث بنے گا، جس سے اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ این ایچ اے کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ موٹرویز کی دیکھ بھال اور انہیں بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ تاہم، عوام کی جانب سے اس فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے، کیونکہ یہ اضافہ ان کی روزمرہ زندگی کو مزید مشکل بنا دے گا۔ یہ فیصلہ حکومت کی جانب سے عوام پر معاشی دباؤ میں اضافے کی ایک اور کڑی ہے، جس پر سماجی اور سیاسی حلقوں میں تنقید کی جا رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا حکومت عوام کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس فیصلے پر نظرثانی کرتی ہے یا نہیں۔
لاہور/کراچی: پنجاب اور سندھ میں پولیس نے ڈاکوؤں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیاں کرتے ہوئے ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا۔ مختلف علاقوں میں ہونے والے مبینہ مقابلوں کے دوران 12 پولیس اہلکاروں کی شہادت میں ملوث مرکزی ملزم سمیت 4 ڈاکو ہلاک ہو گئے، جبکہ 5 زخمی ہوئے۔ ان واقعات میں ایک بزرگ خاتون سمیت 2 افراد جاں بحق ہوئے اور ایک بچے سمیت 2 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد میں پنجاب پولیس نے ایک بڑی کارروائی کے دوران پولیس اہلکاروں کی شہادت میں ملوث مرکزی ملزم شاہ میر عرف میراکوش کو ہلاک کر دیا۔ اس آپریشن میں بکتر بند گاڑیوں، ایلیٹ کمانڈوز اور پولیس کی بھاری نفری نے حصہ لیا۔ پولیس نے ڈاکوؤں کی کمین گاہیں تباہ کر دیں اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی۔ ضلع وہاڑی کے علاقے بورے والا میں مسلح ملزمان نے 70 سالہ ایک بزرگ خاتون کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کر دیا۔ ملزمان زیورات اور نقدی لوٹ کر فرار ہو گئے۔ ملتان کی خوشحالی کالونی میں 2 موٹرسائیکل سواروں کی لوٹ مار کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آئی، جس میں انہیں ایک شہری کو لوٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ضلع اوکاڑہ کے علاقے دیپالپور میں پولیس نے ایک ڈاکو کو مبینہ مقابلے کے بعد ہلاک کر دیا، جبکہ اس کا ساتھی فرار ہو گیا۔ تحصیل خان پور سے 16 سالہ ایک نامعلوم لڑکے کی لاش برآمد ہوئی، جبکہ تحصیل شجاع آباد سے 40 سالہ محمد بلال کی لاش بھی ملی۔ ضلع بہاول نگر کے شہر چشتیاں میں پرانی رنجش کی بنا پر دو گروپوں کے درمیان جھڑپ ہوئی، جس میں ڈنڈوں اور چھریوں کے وار سے 2 افراد شدید زخمی ہو گئے۔ سندھ کے ضلع شکارپور میں 2 مختلف مقابلوں کے دوران ڈاکوؤں کے ساتھ ہونے والی فائرنگ میں 2 ڈاکو ہلاک اور 5 زخمی ہو گئے۔ ہلاک ہونے والے ایک ڈاکو پر 10 لاکھ روپے کا انعام مقرر تھا۔ ضلع قمبر شہدادکوٹ میں اسپتال کے قریب مسلح ملزمان نے فائرنگ کر کے 25 سالہ ایک نوجوان کو ہلاک کر دیا اور فرار ہو گئے۔ سیہون شریف کے گاؤں کرمپور میں زمینی تنازع پر دو برادریوں کے درمیان دوطرفہ فائرنگ ہوئی، جس میں ایک شخص جاں بحق ہو گیا۔ پولیس کے ترجمان نے کہا کہ ڈاکوؤں اور مجرموں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی اور ان کے گرد گھیرا تنگ کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جائیں گے۔ ان واقعات کے بعد پنجاب اور سندھ میں سیکیورٹی کے انتظامات کو مزید سخت کر دیا گیا ہے، تاکہ عوام کی جان و مال کو محفوظ بنایا جا سکے۔ پولیس نے عوام سے تعاون کی اپیل کی ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی مشکوک حرکت کی فوری اطلاع دی جائے۔
پشاور: پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے پاک افغان سرحد پر خارجی دہشت گردوں کی دراندازی کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، شمالی وزیرستان کے علاقے غلام خان کلے میں 22 اور 23 مارچ کی درمیانی شب خارجی دہشت گردوں نے سرحد پار کرنے کی کوشش کی، جس پر سیکیورٹی فورسز نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 16 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان بار بار افغان عبوری حکومت سے مؤثر بارڈر مینجمنٹ کے لیے درخواست کرتا رہا ہے۔ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ افغان عبوری حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی اور پاکستان کی سرزمین پر دہشت گردی کی کارروائیوں کے لیے اپنی سرزمین کا استعمال روکے گی۔ ترجمان پاک فوج نے زور دے کر کہا کہ سیکیورٹی فورسز اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے پرعزم ہیں اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ہر ممکن اقدامات کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے سرحدی انتظامات کو مزید سخت کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ کارروائی اس وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی تناؤ میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ پاکستان نے کئی بار افغان حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گرد گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بننے سے روکے۔ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے خارجی دہشت گردوں کی دراندازی کو ناکام بنانا پاکستان کی سرحدی حفاظت کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔ پاک فوج نے واضح کیا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنی مہم جاری رکھے گی اور ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔ افغان حکومت سے تعاون کی اپیل کے ساتھ ساتھ، پاکستان نے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے مزید اقدامات کا اعلان کیا ہے، تاکہ دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کو روکا جا سکے۔
لاہور ہائیکورٹ نے وزیراعظم شہباز شریف کے چچا زاد بھائی میاں اسلم بشیر مرحوم اور ان کے قریبی رشتہ داروں کی 759 کنال زمین کو نیلام کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہ فیصلہ برادرز شوگر مل کی جانب سے کسانوں کے تقریباً ایک ارب روپے ادا نہ کرنے کے الزامات کے تناظر میں آیا ہے۔ برادرز شوگر مل نے نجی بینک سے 20 کروڑ روپے کا قرض لیا تھا، لیکن ادائیگی نہ کرنے پر ڈیفالٹ کر گئے۔ اب میاں نواز شریف کے چچا زاد بھائی میاں اسلم بشیر مرحوم، ان کے کزن کے بیٹے فرقان ادریس، عمر فرقان اور دیگر رشتہ داروں کی 9 جائیدادوں کو فروخت کیا جائے گا۔ برادرز شوگر مل شریف خاندان کے کزنز کے حصے میں آئی تھی، جو اتفاق فیملی میں تقسیم کے بعد ان کے پاس منتقل ہوئی تھی۔ 2015 میں، خاندانی اختلافات کی وجہ سے کسانوں کے 80 کروڑ روپے کی ادائیگی نہیں کی گئی، جس کے نتیجے میں علاقے کے کسان مالی مشکلات کا شکار ہو گئے۔ بعد ازاں، مل کو بند کر دیا گیا۔ اسی دوران، فرقان ادریس، جو نواز شریف کی بہن کے داماد ہیں، نے اپنے چچا کے گھر پر فائرنگ بھی کی تھی۔ اس وقت برادرز شوگر مل پر کسانوں کے 88 کروڑ روپے اور بینکوں کے 80 کروڑ روپے کی ادائیگی کی ذمہ داری تھی۔ اب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے مطابق، میاں اسلم بشیر مرحوم، فرقان ادریس، عمر ادریس اور دیگر رشتہ داروں کی 759 کنال زمین کو نیلام کر کے نجی بینک کو ادائیگی کی جائے گی۔ یہ قدم کسانوں اور بینکوں کے قرضوں کی واپسی کے لیے اٹھایا گیا ہے۔

Back
Top