خبریں

نیویارک: امریکا کی معروف کولمبیا یونیورسٹی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دباؤ کے بعد اپنی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیوں پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ یونیورسٹی نے مظاہروں، سیکیورٹی اقدامات اور مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنی پالیسی کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اسے بہتر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، کولمبیا یونیورسٹی نے نئے اقدامات کے تحت 36 اسپیشل افسران تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو کیمپس میں لوگوں کو گرفتار کرنے اور بے دخل کرنے کے اہل ہوں گے۔ اس کے علاوہ، شناخت کو واضح رکھنے کے نام پر کیمپس میں چہرے کا ماسک پہننے پر بھی پابندی عائد کی جائے گی، تاہم مذہبی اور صحت کے معاملات میں ماسک لگانے کی اجازت ہوگی۔ یونیورسٹی نے یہودیوں سے نفرت کی باضابطہ تعریف و تشریح طے کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ یہ اقدامات اس وقت سامنے آئے ہیں جب ٹرمپ انتظامیہ نے کولمبیا یونیورسٹی پر الزام لگایا تھا کہ وہ یہودی طلبہ اور فیکلٹی ممبران کو ہراساں کیے جانے سے روکنے میں ناکام رہی ہے۔ انتظامیہ نے کہا تھا کہ یونیورسٹی کے 400 ملین ڈالر کے وفاقی فنڈز میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے اس فیصلے پر امریکا کے صف اول کے کالج ایڈمنسٹریٹرز نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خطرناک رجحان ہے جس کے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یونیورسٹیوں کو حکومتی دباؤ کے آگے جھکنا نہیں چاہیے، کیونکہ اس سے تعلیمی آزادی اور اداروں کی خودمختاری کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ کولمبیا یونیورسٹی کے نئے اقدامات کے تحت کیمپس میں سیکیورٹی کو مزید سخت کیا جائے گا اور مظاہروں پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ یونیورسٹی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ یہودی طلبہ اور فیکلٹی ممبران کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔ یہ فیصلہ کولمبیا یونیورسٹی کے لیے ایک اہم موڑ ہے، جس نے ماضی میں تعلیمی آزادی اور طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی پالیسیوں پر سختی سے عمل کیا ہے۔ تاہم، وفاقی فنڈز کی بندش کے خدشے نے یونیورسٹی کو حکومتی دباؤ کے آگے جھکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی کے یہ اقدامات طلبہ اور فیکلٹی میں کس طرح ردعمل پیدا کرتے ہیں اور کیا یہ فیصلے یونیورسٹی کی تعلیمی آزادی اور خودمختاری کو متاثر کرتے ہیں۔
ڈی آئی خان: ضلع ڈی آئی خان کے علاقے پاراچنار کے قریب طوری قبرستان کے پاس ایک زیر تعمیر گھر میں منشیات کے عادی افراد کے درمیان معمولی تکرار کے بعد ایک شخص نے دستی بم سے حملہ کر دیا، جس کے نتیجے میں 3 افراد جاں بحق ہو گئے جبکہ ایک شخص زخمی ہو گیا۔ پولیس کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ او) اشتیاق حسین نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دستی بم کے پھٹنے سے تین افراد ہلاک ہو گئے اور ایک شخص زخمی ہوا۔ زخمی شخص کو فوری طور پر ڈی ایچ کیو اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں اس کی شناخت سید جواد کے نام سے ہوئی ہے۔ ایس ایچ او اشتیاق حسین نے بتایا کہ دھماکے میں متاثر ہونے والے تمام افراد منشیات کے عادی تھے۔ زیر تعمیر عمارت میں موجود افراد کے درمیان معمولی تکرار کے بعد ایک شخص نے باقیوں پر دستی بم سے حملہ کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ جائے وقوعہ سے شباب نامی نوجوان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جو اس واقعے میں ملوث ہے۔ پولیس نے مزید تفتیش کا عمل شروع کر دیا ہے اور واقعے کے تمام پہلوؤں کو جاننے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ گرفتار ملزم سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے تاکہ واقعے کی اصل وجہ اور اس کے پیچھے کارفرما عوامل کا پتہ لگایا جا سکے۔ یہ واقعہ ایک بار پھر منشیات کے استعمال اور اس سے جڑے جرائم کی خطرناک صورت حال کو اجاگر کرتا ہے۔ مقامی حکام نے علاقے میں سیکیورٹی کے انتظامات کو مزید سخت کرنے اور منشیات کے خلاف کارروائی تیز کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ زخمی شخص کو اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے، جہاں اس کی حالت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا گیا ہے، جبکہ پولیس نے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس واقعے کے بعد مقامی سطح پر منشیات کے خلاف آگاہی مہم چلانے اور نوجوانوں کو اس لعنت سے بچانے کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔
کوئٹہ: بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگچر میں نامعلوم مسلح افراد نے ایک تعمیراتی کمپنی کے کیمپ پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں 4 مزدور جاں بحق ہو گئے جبکہ ایک مزدور معجزانہ طور پر محفوظ رہا۔ واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر قلات کیپٹن (ر) جمیل بلوچ نے بتایا کہ حملہ دوپہر تقریباً ڈھائی بجے ہوا، جب نامعلوم افراد نے کیمپ پر گولیاں چلائیں۔ ڈی سی نے مزید کہا کہ لیویز اہلکار واقعہ کے فوراً بعد جائے وقوعہ پر پہنچے اور جاں بحق افراد کی لاشوں کو طبی معائنے کے لیے رورل ہیلتھ سنٹر منڈے حاجی منتقل کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ مزید تفتیش جاری ہے اور واقعے میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا۔ لیویز کے ذرائع کے مطابق، جاں بحق ہونے والے مزدور ٹیوب ویل پر کام کر رہے تھے اور ان کا تعلق پنجاب کے علاقے صادق آباد سے تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے قلات میں مزدوروں کے قتل کے واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ وزیراعظم آفس سے جاری بیان میں شہباز شریف نے جاں بحق ہونے والے مزدوروں کی بلندی درجات کی دعا کی اور ان کے لواحقین سے اظہار تعزیت کیا۔ انہوں نے کہا کہ غم کی اس گھڑی میں مزدوروں کے خاندانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ محنت کش افراد کو نشانہ بنانے والے انسانیت کے دشمن ہیں۔ وزیراعظم نے زخمی افراد کو بہترین طبی سہولتیں فراہم کرنے کی ہدایت دی اور واقعے میں ملوث افراد کے خلاف فوری کارروائی اور قرار واقعی سزا دلوانے کی تاکید کی۔ واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں بلوچستان اور خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ 11 مارچ کو دہشت گردوں نے بولان پاس کے علاقے اوسی پور میں ریلوے ٹریک کو دھماکے سے اڑا کر جعفر ایکسپریس ٹرین پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں 440 کے قریب مسافر یرغمال بنا لیے گئے تھے۔ قلات میں پیش آنے والا یہ واقعہ بھی دہشت گردی کی ایک اور المناک مثال ہے، جس نے ایک بار پھر ملک میں امن و امان کی صورتحال کو سنگین بنایا ہے۔ حکام نے واقعے کی تفتیش کا عمل تیز کر دیا ہے اور ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دلانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ اس واقعے کے بعد بلوچستان میں سیکیورٹی کے انتظامات کو مزید سخت کرنے کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے، تاکہ ایسے واقعات کو مستقبل میں روکا جا سکے۔
کوئٹہ: بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی کال پر کوئٹہ اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی، جس کے دوران تشدد، گرفتاریوں اور جانی نقصان کے واقعات رونما ہوئے۔ یہ ہڑتال پولیس کی جانب سے بی وائی سی کے اراکین پر کریک ڈاؤن کے بعد منعقد کی گئی، جس میں مبینہ طور پر جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ گزشتہ روز پولیس کی کارروائی کے بعد، بی وائی سی نے دعویٰ کیا کہ اس کے تین اراکین ہلاک اور 13 زخمی ہوئے ہیں، جبکہ پولیس کے مطابق تقریباً 10 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ اس واقعے کے ردعمل میں، بلوچ یکجہتی کمیٹی کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے صوبے بھر میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی تھی۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری بیان میں، ماہ رنگ بلوچ نے کہا تھا کہ ہڑتال کا مقصد پولیس کی کارروائی کے خلاف احتجاج کرنا ہے۔ بی وائی سی نے یہ بھی کہا کہ وہ کوئٹہ کے سریاب روڈ پر مبینہ طور پر ہلاک ہونے والوں کی لاشوں کے ساتھ دھرنا دیں گے۔ شٹر ڈاؤن ہڑتال کے دوران، ضلع چاغی کے دالبندین شہر، خضدار، واشوک، سوراب، مستونگ، ڈیرہ مراد جمالی اور تربت میں دکانیں بند رہیں اور سڑکوں پر مظاہرین نے ٹائر جلائے۔ تربت کے علاقے ملک آباد میں نامعلوم افراد نے موٹر سائیکلوں پر سوار ہو کر مظاہرین پر فائرنگ کی، جس سے دو بچے زخمی ہوئے۔ انہیں فوری طور پر اسپتال منتقل کیا گیا۔ کوئٹہ میں ڈان کے نمائندے کے مطابق، صوبائی دارالحکومت میں جمعے کی رات سے موبائل سروس معطل ہے، جبکہ ڈیٹا سروسز جمعرات سے بند ہیں۔ تاہم، ابھی تک موبائل سروسز کی معطلی کا کوئی باضابطہ نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا ہے۔ دریں اثنا، بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ ماہ رنگ بلوچ اور دیگر مظاہرین کو کوئٹہ میں دھرنے سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بی وائی سی کے مطابق، سیکیورٹی فورسز نے صبح ساڑھے 5 بجے دھرنے پر چھاپہ مارا، جہاں خواتین، بچوں اور پرامن مظاہرین پر تشدد کیا گیا۔ دوسری جانب، حکومت بلوچستان کے ترجمان نے دعویٰ کیا کہ مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا، جس سے ایک پولیس اہلکار سمیت 10 اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ بلوچستان بار کونسل اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائی کی شدید مذمت کی ہے۔ بلوچستان بار کونسل نے ایک بیان میں کہا کہ وہ کل کے واقعے کے خلاف احتجاجاً صوبے بھر میں عدالتی کارروائیوں کے بائیکاٹ کا اعلان کرتی ہے۔ بار کونسل نے مطالبہ کیا کہ گرفتار خواتین، بچوں اور طلبہ کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور سریاب سے لاپتا ہونے والے افراد کو عوام کے سامنے لایا جائے۔ بار کونسل نے مزید کہا کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے جبر اور طاقت کا استعمال کرکے آمریت کی بدترین مثال قائم کی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت بلوچستان عوام کے جان و مال کے تحفظ میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ پی ٹی آئی کے انفارمیشن سیکریٹری شیخ وقاص اکرم نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت نے پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کے بے تحاشہ استعمال کی ہے، جو قومی اتحاد اور سالمیت کے لیے خطرناک ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ مظاہرین کی موت اور زخمی ہونے کے ذمہ داروں کو فوری طور پر جوابدہ ٹھہرایا جائے اور تمام لاپتا افراد کو عدالت میں پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جبری گمشدگیاں غیر انسانی، غیر قانونی اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہیں، اور اگر کوئی قصوروار ہے تو اس کے ساتھ قانونی طریقہ کار کے مطابق نمٹا جانا چاہیے۔ یہ واقعات بلوچستان میں سیاسی اور سماجی تناؤ کو مزید بڑھا سکتے ہیں، جبکہ حکومت اور مظاہرین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
کراچی: ڈیفنس کے علاقے میں پیش آنے والے مصطفیٰ عامر قتل کیس کے مرکزی ملزم ارمغان نے کمرہ عدالت میں حیران کن انکشافات کرتے ہوئے اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کو اس واقعے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ملزم نے دعویٰ کیا کہ یہودی لابی اور موساد اسے پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ملزم نے پہلے مصطفیٰ عامر کے قتل کا اعتراف کیا، لیکن بعد ازاں اپنے بیان سے انکار کر دیا۔ کراچی کی جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی سٹی کورٹ میں مصطفیٰ عامر قتل کیس کی سماعت کے دوران ملزم ارمغان کو اعتراف جرم کے لیے پیش کیا گیا۔ عدالت نے ملزم کے 164 کے بیان کی درخواست خارج کر دی، جس کی وجہ ملزم کی ذہنی حالت کو قرار دیا گیا۔ عدالت نے کہا کہ ملزم کی ذہنی حالت ایسی نہیں ہے کہ اس کا بیان ریکارڈ کیا جا سکے۔ ملزم ارمغان نے ابتدائی طور پر مصطفیٰ عامر کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ ذاتی تنازع کی وجہ سے کیا گیا تھا اور اس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی۔ تاہم، بعد ازاں اس نے اپنے بیان سے انکار کر دیا اور کہا کہ وہ کوئی اعتراف جرم نہیں کرنا چاہتا۔ ملزم نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا، "یہودی لابی اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد مجھے پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے۔ موساد کافی عرصے سے میرے پیچھے پڑی ہے۔ مصطفیٰ عامر کی والدہ بھی یہودی لابی کا حصہ ہیں۔" اس کے علاوہ، ملزم نے پولیس پر الزام لگایا کہ انہوں نے اس پر کالا جادو کروایا ہے، جس کی وجہ سے اسے جسمانی درد ہو رہا ہے۔ ملزم نے مزید کہا، "میں نے مصطفیٰ عامر کا قتل نہیں کیا۔ میں نے انہیں گاڑی میں چھوڑ دیا تھا اور گاڑی کے اگلے حصے پر آگ لگا دی تھی۔ مصطفیٰ عامر کی زندگی کا فیصلہ میں نے اللہ پر چھوڑ دیا تھا۔ اگر اللہ چاہتے تو وہ انہیں بچا لیتے۔" عدالت نے ملزم کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس نے کچھ وقفے کے بعد اپنے بیان سے انکار کر دیا اور کہا کہ اس نے براہ راست قتل نہیں کیا۔ ملزم نے یہ بھی کہا کہ مصطفیٰ عامر کی موت ان کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی، اور وہ اس میں صرف تھوڑا بہت شریک ہے۔ ملزم نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں یہودی لابی کا حصہ ہیں، اور وہ ان کے خلاف بات کرنے کی وجہ سے ان کا نشانہ بنا ہوا ہے۔ عدالت نے ملزم ارمغان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت کی، جہاں اسے عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ ملزم کے اعتراف جرم سے انکار کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے اسے اے ٹی سی میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ کیس ابھی تک جاری ہے، اور تفتیشی ادارے ملزم کے خلاف مزید ثبوت اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں۔ ملزم کے بیان میں موساد اور یہودی لابی کے حوالے سے کیے گئے دعووں نے اس کیس کو ایک نئی جہت دے دی ہے، جس پر مزید تحقیقات کی ضرورت ہے۔
راولپنڈی: اسلام آباد پولیس نے راولپنڈی سے گرفتار تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 59 سرگرم کارکنوں کی حوالگی کی درخواست کر دی ہے۔ ان کارکنوں پر راولپنڈی میں 29 مختلف مقدمات میں گرفتاریاں عمل میں لائی گئی تھیں، جبکہ یہ کارکن اسلام آباد کے 8 تھانوں میں بھی نامزد ہیں۔ تفصیلات کے مطابق، اسلام آباد پولیس نے انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت راولپنڈی میں درخواستیں دائر کیں، جن میں گرفتار کارکنوں کو اسلام آباد پولیس کے حوالے کرنے کی استدعا کی گئی تھی۔ عدالت نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، جس کے بعد کارکنوں کو راولپنڈی سے اسلام آباد پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ راولپنڈی ڈویژن پولیس نے ان 59 کارکنوں کو 26 نومبر کے احتجاجی واقعات کے دوران گرفتار کیا تھا۔ ان پر راولپنڈی میں 29 مختلف مقدمات درج ہیں، جبکہ یہ کارکن اسلام آباد کے 8 تھانوں میں بھی مطلوب ہیں۔ نئی درخواستوں کے بعد، ضمانتوں کی منظوری کے باوجود ان کارکنوں کی رہائی عید تک غیر یقینی ہو گئی ہے۔ وکلائے صفائی نے اسلام آباد پولیس کی درخواست پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام غیر قانونی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کارکنوں کو ایک ہی واقعے کے لیے دو مختلف علاقوں میں مقدمات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جو ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ دوسری جانب سرکاری پراسیکیوٹر نے کارکنوں کی اسلام آباد پولیس کے حوالے کرنے کی درخواست کی حمایت کی۔ عدالت نے اسلام آباد پولیس کی درخواستوں کو منظور کرتے ہوئے کارکنوں کو راولپنڈی سے اسلام آباد پولیس کے حوالے کر دیا۔ اب یہ 59 کارکن اسلام آباد انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیے جائیں گے، جہاں ان کے خلاف مقدمات کی سماعت ہوگی۔ یہ واقعہ سیاسی حلقوں میں شدید تنازع کا باعث بنا ہوا ہے، جہاں پی ٹی آئی کی قیادت نے اس اقدام کو سیاسی انتقام کے طور پر قرار دیا ہے۔ دوسری جانب، حکومتی نمائندوں کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے اور کسی کو بھی قانون سے بالاتر نہیں سمجھا جائے گا۔ اب تک کی پیش رفت کے مطابق، تمام 59 کارکنوں کو اسلام آباد پولیس تحویل میں لے کر اسلام آباد روانہ ہو گئی ہے، جہاں ان کے خلاف مقدمات کی سماعت جاری رہے گی۔ صحافی ثاقب بشیر نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ سیاسی ورکرز کا المیہ : 26 نومبر احتجاج میں پی ٹی آئی کی مرکزی لیڈرز میں سے کوئی گرفتار نہیں ہوا تھا سب خوشی خوشی گھروں میں رہ رہے ہیں افطاریاں خوش گپیاں کر رہے ہیں بے چارے پولیٹیکل ورکرز ابھی تک ذلیل ہو رہے ہیں 26 نومبر کو گرفتار ہوئے اب 4 ماہ ہونے کو ہیں پہلے پنڈی سے حسن ابدال تک کے مقدموں میں گرفتار ہوئے تھے وہاں سے تو ضمانتیں ہوں گئیں تو آج اسلام آباد پولیس نے پنڈی کی عدالت سے ان ورکرز کا راہداری ریمانڈ لیکر اسلام آباد کی عدالت میں ابھی پیش کیا اسلام میں انسداد دہشت گردی عدالت نے 86 پی ٹی آئی ورکرز کے 6 دن کے لئے شناخت پریڈ پر بھیج دیا ہے بظاہر ان کی عید بھی جیل میں گزرے گی
کراچی: مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ایک نئی پیش رفت سامنے آئی ہے، جس میں گرفتار ملزمان ارمغان اور شیراز کی سی سی ٹی وی ویڈیو منظر عام پر آ گئی ہے۔ اس ویڈیو میں دونوں ملزمان کو گاڑی میں بیٹھ کر حب سے کراچی واپس آتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تفتیشی حکام کے مطابق، سی سی ٹی وی فوٹیج میں ملزمان ارمغان اور شیراز کو گاڑی میں بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، کچھ دور پیدل چلنے کے بعد دونوں ملزمان نے 3 ہزار روپے ادا کر کے گاڑی سے کراچی تک لفٹ لی تھی۔ ویڈیو میں ملزمان کو ہمدرد چوکی روڈ سے گاڑی میں بیٹھ کر گزرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ ملزمان کی گاڑی ہمدرد چوکی سے فور کے چورنگی کی جانب روانہ ہوئی تھی۔ یہ سی سی ٹی وی ویڈیو ملزمان کے راستوں اور حرکات و سکنات کو واضح کرتی ہے، جو تفتیشی عمل میں اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ تفتیشی ادارے اس ویڈیو کو کیس کی تفتیش میں اہم ثبوت کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ملزمان ارمغان اور شیراز پر مصطفیٰ عامر کے قتل کا الزام عائد ہے، اور تفتیشی حکام ان کے خلاف مضبوط ثبوت اکٹھا کرنے میں مصروف ہیں۔ اس نئی پیش رفت سے کیس میں مزید کھلے گا، اور امید ہے کہ اس سے ملزمان کے خلاف مقدمہ مزید مضبوط ہوگا۔ تفتیشی حکام نے کہا کہ وہ ملزمان کے تمام ممکنہ راستوں اور رابطوں کی تحقیقات کر رہے ہیں، تاکہ واقعے کی مکمل تصویر سامنے لائی جا سکے۔ اس کیس میں مزید پیش رفت کا انتظار ہے، جبکہ عدالتی کارروائی بھی جاری ہے۔
پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولوجی (پی آئی سی) میں بائی پاس سرجری کے منتظر دو ہزار سے زائد مریضوں کی حالت ابتر ہوتی جا رہی ہے، اور کئی مریض گھروں میں اپنی زندگی کی جنگ ہار چکے ہیں کیونکہ انہیں بروقت علاج فراہم نہیں کیا جا سکا۔ اس دوران، اسپتال کے عملے کی ایک تازہ فوٹیج نے سنسنی پھیلا دی ہے جس میں وہ مریضوں کی سرجری کے لیے رشوت کا مطالبہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ محمد حسین، جو اپنے والد سید محمود الحسن کے بائی پاس کی سرجری کے لیے ایک سال سے درخواست دے رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ انہیں پیسے دینے والوں کو ترجیح دی جا رہی ہے اور وہ رشوت کی وجہ سے اپنے والد کی سرجری میں تاخیر کا شکار ہیں۔ محمد حسین نے الزام عائد کیا کہ اسپتال کے ایک افسر، وقار، ان کے والد کے آپریشن کے بدلے رشوت کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس سنگین صورتحال پر فوری طور پر وزیر صحت اور وزیر اعلیٰ پنجاب سے اپیل کرتے ہوئے محمد حسین نے اپنے والد کے بائی پاس کا فوری انتظام کرنے کی درخواست کی ہے۔ دوسری جانب، ایم ایس پی آئی سی ڈاکٹر عامر رفیق بٹ نے فوٹیج سامنے آنے کے بعد اس معاملے کا نوٹس لیا ہے اور کرپٹ عملے کے خلاف سخت کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قسم کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی عمل کے مرتکب افراد کو کسی صورت نہیں بخشا جائے گا۔
کوئٹہ: بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے نکالی جانے والی ریلی کے دوران سڑک کی بندش سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سڑک کھولنے سے انکار پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج، آنسو گیس اور واٹر کینن کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں 10 مظاہرین زخمی ہو گئے اور متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ ریلی کے دوران پولیس کی کارروائی کے بعد، اسپتال انتظامیہ نے بتایا کہ بولان میڈیکل کمپلیکس میں سریاب سے دو لاشیں لائی گئیں، جبکہ ایک لاش اور دس زخمیوں کو سول اسپتال منتقل کیا گیا۔ ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے کہا کہ قومی شاہراہ کی بندش سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر کراچی اور دیگر شہروں سے آنے والے مسافروں کو اذیت ہوئی۔ پولیس نے قانون کے تحت کارروائی کی تو مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ اور تشدد کیا، جس کے نتیجے میں لیڈی پولیس کانسٹیبل اور پولیس اہلکاروں سمیت دس افراد زخمی ہوئے اور انہیں اسپتال منتقل کیا گیا۔ شاہد رند نے مزید کہا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے کس کی میتیں سڑک پر رکھ کر احتجاج کیا، اس کا تعین ابھی باقی ہے۔ جب تک متوفیوں کی لاشیں اسپتال میں لاکر ضابطے کی کارروائی مکمل نہیں کی جاتی، وجوہات کا تعین ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ امن و امان میں خلل ڈال کر افراتفری پھیلائی جارہی ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ کسی کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر کسی نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لیا اور امن و امان کو خراب کیا تو حکومت خاموش نہیں بیٹھے گی۔ عوام کے جان و مال کا تحفظ حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے، جسے ہر صورت میں پورا کیا جائے گا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے مطابق "کوئٹہ پولیس اور انتظامیہ نے بی وائی سی (بلوچ یکجہتی کمیٹی) کے مرکزی رہنما ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ کو ان کے دیگر ساتھیوں سمیت گرفتار کر لیا ہے اور شہید نوجوانوں کی لاشیں بھی اپنی تحویل میں لے لی ہیں۔ اس کے علاوہ، خواتین اور بچوں پر بھی کریک ڈاؤن کیا گیا ہے۔ گزشتہ روز بی وائی سی کے مرکزی رہنما بیبگر بلوچ، ڈاکٹر حمل ڈاکٹر الیاس اور سعید بلوچ سمیت دیگر خواتین کی اغوا نما گرفتاری کے خلاف کوئٹہ سریاب میں ایک پرامن مظاہرہ کیا گیا تھا۔ اس مظاہرے پر پولیس اور ریاستی اداروں نے آنسو گیس، واٹر کینن اور گولیوں کا استعمال کیا، جس کے نتیجے میں تین بلوچ نوجوان شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔"
جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) کے تحصیل نائب امیر، قاری نظام الدین کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ یہ المناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ جامعہ علوم الشریعہ جامع مسجد لوہاراں میں نماز تراویح کی امامت کرنے اور قرآن پاک کی تلاوت کرنے کے بعد موٹر سائیکل پر گھر واپس جا رہے تھے۔ پیپلز کالونی کے قریب واقع خٹک کالونی میں مسلح افراد نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو 1122 کی ٹیم اور تھانہ اٹک سٹی کے ایس ایچ او ملک مجاہد عباس پولیس کی بھاری نفری کے ساتھ موقع پر پہنچ گئے۔ قاری نظام الدین کی لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اٹک منتقل کر دیا گیا، جہاں ان کے خاندان، جے یو آئی کے مقامی رہنماؤں اور بڑی تعداد میں شہریوں نے جمع ہو کر ان کی آخری رسومات میں شرکت کی۔ جمعیت علمائے اسلام کی مرکزی قیادت نے اس ٹارگٹ کلنگ کے خلاف سخت احتجاج کرتے ہوئے اسے امن و امان کے لیے ایک سنگین خطرہ قرار دیا۔ علما اور جے یو آئی کے رہنما اسفند یار بخاری بھی ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال اٹک پہنچے۔ قاری نظام الدین اٹک کے مصروف تجارتی علاقے سول بازار میں واقع جامعہ علوم الشریعہ جامع مسجد لوہاراں میں نماز تراویح کی امامت کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، وہ فاروق اعظم کالونی میں ایک دینی مدرسہ بھی چلاتے تھے، جہاں سینکڑوں طلبہ دینی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ اس واقعے کے بعد پورے ضلع میں خوف و ہراس اور غم و غصے کی فضا پھیل گئی ہے۔ شہریوں اور مذہبی رہنماؤں نے اس بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری اور سخت سزا کا مطالبہ کیا ہے۔
پنجاب کے ضلع تونسہ میں ایک سرکاری اسکول کے گودام سے 43 ہزار سے زائد سرکاری کتابیں چوری ہوگئی ہیں۔ واقعہ تونسہ کے بوائز ہائی اسکول میں پیش آیا، جہاں اسکول کے ویئر ہاؤس سے 43,665 کتابیں غائب ہوگئیں۔ تونسہ پولیس نے اسسٹنٹ ایجوکیشن آفیسر کی شکایت پر تھانہ سٹی میں مقدمہ درج کرلیا ہے۔ پولیس کے مطابق، چوری ہونے والی کتابیں رواں سال کے نصاب کے لیے تیار کی گئی تھیں، جو اسی ماہ سرکاری اسکولوں میں تقسیم ہونی تھیں۔ پولیس نے اسکول کے چوکیدار اور گودام کے ذمہ داروں سمیت 7 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ ابھی تک کتابوں کی چوری کے واقعے کی وجوہات اور مجرمانہ عناصر کے بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔
اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے تین بڑے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس، جن میں عمران خان، تحریک انصاف اور پی ٹی آئی کے سرکاری اکاؤنٹس شامل ہیں، پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان سے منسلک ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ اکاؤنٹس بیرون ملک سے عمران خان کی بہن علمیہ خان کے ذریعے بھیجے گئے پیغامات کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔ سرکاری تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو فوج اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف تنقیدی اور جارحانہ مہمات چلانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ تحقیقات کے مطابق یہ اکاؤنٹس بیرون ملک سے عمران خان کے نامزد کردہ افراد کے ذریعے چلائے جا رہے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق، اگر کسی بھی فوجداری نوعیت کی کارروائی کی جاتی ہے تو اس کے اثرات براہ راست عمران خان پر مرتب ہوں گے، کیونکہ یہ اکاؤنٹس ان کے نام سے چلائے جا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، ماضی میں عمران خان نے خود ایف آئی اے کے سامنے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ یہ اکاؤنٹس ان سے منسلک ہیں۔ اسی طرح، پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں نے بھی یہی معلومات شیئر کی ہیں، جن کی تفتیش اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل کی سربراہی میں تشکیل دی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کر رہی ہے۔ تحقیقات کے مطابق، عمران خان اور ان کی بہن علمیہ خان کے علاوہ، پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ، اور پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم سمیت کسی بھی پارٹی رہنما کا ان اکاؤنٹس پر پوسٹ کیے جانے والے مواد پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ ان اکاؤنٹس کے فالوورز کی تعداد کافی زیادہ ہے، جو انہیں سوشل میڈیا پر اہم اثر و رسوخ دیتی ہے۔ ذرائع نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ جبران الیاس اور اظہر مشوانی نامی افراد بیرون ملک سے عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلا رہے ہیں۔ جبران الیاس امریکا میں مقیم ہیں اور انہیں پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کا سربراہ سمجھا جاتا ہے۔ اظہر مشوانی پہلے پاکستان میں تھے، لیکن 9 مئی کے واقعات کے بعد وہ برطانیہ چلے گئے۔ مزید یہ کہ علمیہ خان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عمران خان کی ہدایت پر پارٹی کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے لیے بیانات تیار کرتی ہیں۔ ان کا جبران الیاس، اظہر مشوانی، اور علی ملک نامی شخص کے ساتھ بھی رابطہ ہے، جو پارٹی کا بیانیہ تشکیل دینے اور سوشل میڈیا مہمات چلانے میں مدد کرتے ہیں۔ ان مہمات میں سے کچھ کو حکومت اور فوج کے خلاف قرار دیا جاتا ہے۔ حکام کے مطابق، پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ریاست اور فوج کے خلاف بیانیے پھیلانے کی وجہ سے زیرِ نظر ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل کی سربراہی میں ایک مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی ہے، جو سوشل میڈیا پر پھیلنے والی بدنیتی پر مبنی مہمات کی تحقیقات کر رہی ہے۔ جے آئی ٹی نے پی ٹی آئی کے 15 ارکان کو نوٹس جاری کیے ہیں، جن میں پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان، حماد اظہر، سلمان اکرم راجہ، رؤف حسن، اسد قیصر، عون عباس، اور وقاص اکرم شامل ہیں۔ دیگر ارکان میں فردوس شمیم نقوی، خالد خورشید خان، عالیہ حمزہ، کنول شزاب، تیمور سلیم خان، شاہ فرمان، شہباز شبیر، اور میاں محمد اسلم بھی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، جے آئی ٹی نے پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے 10 ارکان کو بھی سمن جاری کیے ہیں، جن میں آصف رشید، محمد ارشد، صبغت اللہ ورک، اظہر مشوانی، محمد نعمان افضل، جبران الیاس، سید سلمان رضا زیدی، ذلفی بخاری، موسیٰ ورک، اور علی حسنین ملک شامل ہیں۔ یہ تحقیقات پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے پھیلائے جانے والے مواد کے حوالے سے کی جا رہی ہیں، جسے حکومت اور فوج کے خلاف قرار دیا جاتا ہے
میو ہسپتال میں تنخواہ نہ ملنے پر ہسپتال ورکر کی خود سوزی کی کوشش،سلمان نامی وارڈ اٹنڈنٹ نے ایم ایس آفس کے سامنے خود پر تیل چھڑک لیا۔ سیکورٹی سپروائزر نے بروقت کارروائی کر کے خود سوزی کی کوشش ناکام بنا دی۔ بتایا گیا ہے کہ عثمان کی ہسپتال انتظامیہ نے کئی ماہ سے تنخواہ بند کی ہوئی ہے۔ عثمان نے اپنی تنخواہ کی بحالی کے لیے متعدد بار انتظامیہ سے درخواست کی۔ دل برداشتہ ہو کر عثمان نے خود کو آگ لگانے کی کوشش کی۔ میو اسپتال کے 39 ورکرز کو چار ماہ سے تنخواہیں نہیں ملیں،اس حوالے سے اے ایم ایس ایڈمن کا کہنا ہے کہ تنخواہیں ویری فکیشن کی بنیاد پر روکی گئی ہیں۔ ایم ایس میواسپتال ڈاکٹر احتشام الحق نے معاملے پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں۔ جلد ہی ایسے ملازمین کی تنخواہیں بحال کر دیں گے۔
لاہور کے علاقے جوہر ٹاؤن میں ایک امیر زادے نے کیفے کے عملے پر فائرنگ کردی، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ واقعے کے مطابق، یہ حملہ اُس وقت ہوا جب کیفے کے عملے نے ایک لڑکی کو ہراساں کرنے سے روکنے کی کوشش کی۔ پولیس کے مطابق، دو مشتبہ افراد کالے رنگ کے شیشوں والی گاڑی میں کیفے پہنچے تھے۔ گاڑی پر جعلی نمبر پلیٹ لگی ہوئی تھی۔ حملے کے دوران کیفے کا ایک سیکیورٹی گارڈ زخمی ہوگیا۔ پولیس نے واقعے کا مقدمہ درج کرلیا ہے اور ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ لاہور پولیس کے مطابق ملوث ملزم علی حسن گرفتار کرلیا ہے، جبکہ شریک ملزم فیاض کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران نے واقعے کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر ملزمان کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیم تشکیل دی تھی،
سینئر تجزیہ کار منصور علی خان نے اپنے پروگرام میں مسلم لیگ ن کے رہنما بیرسٹر عقیل سے حسن نواز پر لندن میں عائد جرمانے سے متعلق سوال کیا تو بیرسٹر عقیل نے جواب دیا کہ اگر کسی کے بھائی بہن نے کچھ غلط کیا ہے تو اس میں کسی دوسرے کا کیا قصور ویسے بھی حسن نواز برطانیہ کے شہری ہیں وہ وہاں اس معامے پر قانونی چارہ جوئی کریں گے۔ سینئر تجزیہ کار منصور علی خان نے اپنے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما حسن نواز کے بارے میں کہا کہ موجودہ وزیراعظم کے بھتیجے، سابق وزیراعظم کے بیٹے، اور موجودہ وزیراعلیٰ کے بھائی پر 52 لاکھ پاؤنڈ کا جرمانہ عائد ہونا ایک بڑا اسکینڈل ہے۔ منصور علی خان نے کہا کہ یہ ایک شرمندگی کا مقام ہے۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کے رہنما بیرسٹر عقیل نے کہا کہ توشہ خانہ کے حوالے سے جو ریکارڈ طلب کیا گیا ہے، وہ بلکل سامنے آئے گا اور عوام کو اس بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جائیں گی۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو یہ جاننے کا حق ہے کہ کس نے توشہ خانہ سے کیا لیا اور کس نے کتنی قیمت ادا کی۔ بیرسٹر عقیل نے منصور علی خان کے دوسرے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر وزیراعظم کے کسی رشتہ دار کو جرمانہ ہوتا ہے تو اس کا نواز شریف، شہباز شریف یا مریم نواز سے کوئی تعلق نہیں بنتا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ذمہ داری ان کے اپنے معاملات تک محدود ہے اور کسی اور کے کاروبار یا جرمانے کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حسن نواز نے اپنے ٹیکس کے معاملات مکمل طور پر درست کیے ہیں اور اگر کوئی اضافی جرمانہ عائد کیا گیا ہے تو وہ اس پر قانونی کارروائی کریں گے۔ بیرسٹر عقیل نے یہ بھی واضح کیا کہ حسن نواز نے جو ٹیکس ادا کیا ہے، وہ ان کے ٹیکس مشیروں کی مشاورت سے کیا ہے اور وہ اس بات کو یقین دہانی کے ساتھ کہتے ہیں کہ اگر کوئی بقایا ٹیکس ہے تو وہ ادا کیا جائے گا۔
گزشتہ روز نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی زیر صدارت چینی کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے ہونے والے اجلاس کی اندرونی کہانی سامنے آئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر ملز مالکان نے کمرشل صارفین کے لیے الگ قیمت مقرر کرنے کے حق سے دستبردار ہونے کو تیار نہ ہوئے اور حکومت کے ساتھ ایکس مل قیمت 159 روپے فی کلو صرف ایک ماہ کے لیے مقرر کرنے پر بمشکل رضامند ہوئے۔ اجلاس میں شوگر ملز مالکان نے کہا کہ وہ گھریلو صارفین کے لیے سستی اور کمرشل صارفین کے لیے مہنگی چینی فراہم کریں گے۔ تاہم حکومتی ٹیم کا کہنا تھا کہ 350 روپے فی من گنے کی قیمت کے حساب سے گھریلو صارفین کے لیے فراہم کی گئی چینی کو یقینی بنانا بڑا چیلنج ہے، کیونکہ منڈی والے اس چینی کو کمرشل نرخوں پر بیچ سکتے ہیں، جس سے چینی کی کمی اور قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر ڈیلرز کی جانب سے شوگر ملز کے ڈیلیوری آڈرز پر سٹہ کھیلنے کی وجہ سے چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ ذرائع کے مطابق ملک بھر میں چینی کی گراں فروشی کے خلاف وزیراعظم کی ہدایت پر کراچی سمیت سندھ بھر میں وفاقی اداروں کی مشترکہ ٹیموں نے شوگر مافیا کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن شروع کیا، جس سے چینی کی قیمتوں میں نمایاں کمی ہوئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شوگر ڈیلرز نے فروری میں شوگر ملز سے ایڈوانس میں ڈیلیوری آڈرز حاصل کیے تھے۔ اس کے بعد، چینی کے ذخائر شوگر ملوں میں رہے، لیکن ایجنٹوں نے ان آڈرز کو مختلف ایجنٹس تک فروخت کیا۔ اس عمل کے دوران، ہر ایجنٹ نے اپنی مرضی کا منافع شامل کیا، جس کی وجہ سے چینی مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی مہنگی ہو چکی تھی۔ کسی ایجنٹ نے فی کلو 5 روپے، تو کسی نے 2 یا 3 روپے فی کلو منافع کمایا۔ وفاقی اداروں کے مشترکہ کریک ڈاؤن کے دوران شوگر مافیا نے گھٹنے ٹیک دیے اور فوراً چینی کی قیمتوں میں کمی آنا شروع ہو گئی۔ ایف آئی اے، ایف بی آر اور انٹیلی جنس بیورو کے افسران کے مطابق ان کارروائیوں میں باقاعدہ گرفتاریوں کا عمل شروع نہیں ہوا، لیکن چھاپہ مار کارروائیوں نے چینی کی قیمتوں میں کمی کی راہ ہموار کی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس بحران میں شوگر ملز مالکان سے زیادہ شوگر ایجنٹس نے فائدہ اٹھایا، جنہوں نے کروڑوں روپے کا کاروبار کیا۔ کراچی میں اجناس کی ہول سیل مارکیٹ نیوچالی یا جوڑیا بازار میں ایک ماہ میں چینی کی فی کس ایک ارب روپے سے زائد کی خرید و فروخت کی گئی۔ چینی کی قیمتوں میں کمی کے بعد شوگر ڈیلرز نے حکومتی کارروائیوں کے اثرات کے بعد قیمتوں میں کمی کے ڈیکلریشن جمع کرائے، جس سے چینی کی قیمت معمول پر آنا شروع ہو گئی۔ یہ تمام کارروائیاں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ شوگر مافیا کی گرفتاری اور ان کی سرگرمیوں پر کنٹرول نے چینی کی قیمتوں میں استحکام پیدا کیا ہے۔ شوگر ڈیلرز اور ایجنٹس کے سٹہ کھیلنے نے چینی کی قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ کیا، مگر حکومتی کارروائیوں نے ان مافیا عناصر کو قابو میں لا کر قیمتوں کو معمول پر لایا۔ اس بحران میں شوگر ملز مالکان کی نسبت شوگر ایجنٹس نے زیادہ فائدہ اٹھایا اور کروڑوں روپے کا دھندا کیا۔
پشاور بس رپیڈ ٹرانزٹ (BRT) کے بارے میں ایک گمراہ کن دعویٰ سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر گردش کر رہا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ بی آر ٹی پشاور نے اپنا کرایہ 510 روپے کر دیا ہے۔ یہ دعویٰ پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے بھی اپنی پریس کانفرنس کے دوران دہرایا۔ عظمیٰ بخاری نے کہا تھا کہ "ابھی حال ہی میں ٹی وی پر ایک چینل پر خبر چل رہی تھی کہ بی آر ٹی پشاور کا کرایہ 110 روپے سے بڑھا کر 510 روپے کر دیا گیا ہے۔" انہوں نے اس بات کا موازنہ پنجاب میں الیکٹرک بسوں کے 20 روپے کے کرائے سے کیا۔ یہ دعویٰ حقیقت سے بہت مختلف ہے۔ دراصل، پشاور بی آر ٹی کا کرایہ 510 روپے نہیں ہے، بلکہ اس کا کرایہ 20 روپے سے 60 روپے تک ہے۔ 510 روپے صرف ٹریول کارڈ کی قیمت ہے، جو کہ بی آر ٹی سروس کے لیے ضروری ہے۔ اس میں 400 روپے کارڈ کی قیمت، 100 روپے بیلنس، اور 10 روپے نادرا کے ذریعے بایومیٹرک تصدیق کی فیس شامل ہے۔ ٹرانس پشاور کی ترجمان صدف کامل نے جیو فیکٹ چیک کو بتایا کہ کرایہ کلومیٹرز کی بنیاد پر ہوتا ہے، اور یہ 20 روپے سے شروع ہو کر 60 روپے تک ہوتا ہے۔ عظمیٰ بخاری کا یہ دعویٰ کہ پشاور بی آر ٹی کا کرایہ 110 روپے سے بڑھا کر 510 روپے کر دیا گیا ہے، گمراہ کن ہے۔ حقیقت میں، بی آر ٹی کا زیادہ سے زیادہ کرایہ 60 روپے ہے، جبکہ 510 روپے ٹریول کارڈ کی قیمت ہے، کرایہ نہیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار محمد ملک نے بلوچستان میں لیویز کے نظام پر اپنے تازہ تجزیے میں ایک سنگین سوال اٹھایا ہے: آخر کار 92 ارب روپے سالانہ خرچ ہونے کے باوجود یہ فورس سیکیورٹی کی صورتحال میں بہتری کیوں نہیں لا سکی؟ محمد ملک نے کہا کہ اس وقت بلوچستان میں لیویز کی فورس نہ صرف غیر تربیت یافتہ ہے بلکہ اس کے وسائل اور انتظامات بھی مکمل طور پر ناکافی ہیں۔ محمد ملک نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ بلوچستان میں 83,000 افراد پر مشتمل لیویز فورس کا سالانہ خرچ 92 ارب روپے ہے، لیکن یہ رقم کہاں جا رہی ہے؟ حالیہ دنوں میں فوج کے سربراہ نے کہا تھا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے "سخت ریاست" کی ضرورت ہے۔ تاہم، محمد ملک نے اس بات پر زور دیا کہ اس سخت ریاست کا آغاز لیویز کے نظام کو بہتر بنانے سے ہی ہو گا۔ صوبائی حکومت نے دو ڈویژنوں کی لیویز کو پولیس کے زیر انتظام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاکہ سیکیورٹی کو بہتر بنایا جا سکے، لیکن سوال یہ ہے کہ جب تک لیویز کو تربیت اور بہتر انتظام فراہم نہیں کیا جائے گا، اس فیصلے سے حقیقی تبدیلی ممکن نہیں۔ محمد ملک نے بتایا کہ حیران کن بات یہ ہے کہ بلوچستان میں لیویز فورس کا سربراہ یعنی ڈی جی لیویز ایک تربیت یافتہ سیکیورٹی آفیسر نہیں، بلکہ ایک سول بیوروکریٹ ہے جسے 83,000 افراد کی فورس کی قیادت سونپی گئی ہے۔ اس فورس کے بیشتر افراد تربیت سے محروم ہیں، اور 60 فیصد افراد صرف کاغذ پر دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ، 30 سے 40 فیصد افراد چیفوں اور دیگر اہم شخصیات کے ساتھ وابستہ ہیں، جو ان فورسز کے وسائل کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ محمد ملک کے مطابق، بلوچستان کی سرکاری آبادی تقریباً 150 ملین ہے اور 23 ملین خاندان اس میں شامل ہیں۔ لیکن بلوچستان کے 36 اہم افراد ان تمام لیویز کو کنٹرول کر رہے ہیں، جن میں چیف اور غیر چیف دونوں شامل ہیں۔ ان اہم شخصیات کی وجہ سے 92 ارب روپے سالانہ کا زیادہ تر حصہ ان کی جیبوں میں جا رہا ہے، اور عوامی سطح پر اس رقم کا کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ محمد ملک نے یہ بھی کہا کہ بلوچستان میں سیکیورٹی کے نظام میں بہتری لانے کے لیے لیویز فورس کی اصلاحات ضروری ہیں۔ اس کے لیے تربیت، بہتر انتظامات اور وسائل کا صحیح استعمال کرنا ہوگا تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو سکے اور سیکیورٹی کی صورتحال میں حقیقی تبدیلی لائی جا سکے۔ محمد ملک کے تجزیے کے مطابق، یہ وقت ہے کہ حکومت اور صوبائی انتظامیہ اس نظام کو بہتر بنانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے، تاکہ بلوچستان میں ہونے والی مالی بدعنوانیوں اور سیکیورٹی کی کمی کو ختم کیا جا سکے۔
لاہور: پاکستانی اداکار دانش تیمور کو ایک نجی ٹی وی چینل کے رمضان ٹرانسمیشن پروگرام میں دیے گئے بیان پر شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جس کے بعد انہیں معافی مانگنی پڑی۔ دانش تیمور کی اہلیہ اور اداکارہ عائزہ خان کے ساتھ ہونے والی اس گفتگو میں دانش نے چار شادیوں کے حوالے سے ایک بیان دیا تھا، جس نے سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کر دیا۔ دانش تیمور نے پروگرام میں کہا تھا، "مجھے اللہ کی طرف سے چار شادیوں کی اجازت ہے، میں فی الحال ایسا نہیں کر رہا۔" ان کے الفاظ، خاص طور پر "فی الحال" کے استعمال نے ناظرین اور سوشل میڈیا صارفین کو ناراض کر دیا، جنہوں نے دانش پر اپنی اہلیہ کی بے عزتی کرنے کا الزام لگایا۔ تنقید کے بعد، دانش تیمور نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر ایک ویڈیو شیئر کرتے ہوئے معافی مانگتے ہوئے کہا، "میں جانتا ہوں کہ آپ لوگ مجھ سے ناراض ہیں۔ میرے کچھ پرستاروں کو لگتا ہے کہ میں نے اپنی بیوی عائزہ کی بے عزتی کی، لیکن ایسا نہیں ہے۔ میں اپنی بیوی سے پیار کرتا ہوں۔ میرے الفاظ کا چناؤ شاید صحیح نہیں تھا۔ میں اکثر لفظ 'فی الحال' استعمال کرتا ہوں، جو موجودہ حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے۔" دانش نے مزید کہا، "مجھے یقین ہے کہ ہم سب ایک دن مر جائیں گے۔ الحمدللہ، میں نے زندگی میں کبھی تنازعات نہیں بنائے۔ اس معاملے کو ختم کر دینا چاہیے۔ جب میری نیت ہی ایسی نہیں ہے اور دل ایسا نہیں ہے، تو بات کو بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر لوگوں کو لگتا ہے کہ میری بات سے ان کی دل آزاری ہوئی ہے، تو میں معافی مانگتا ہوں۔ میں آپ کو پریشان نہیں کرنا چاہتا۔ میں نے آپ کو انٹرٹین کرنے کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ آپ سب خوش رہیں، جیسے میں اپنے گھر میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ خوش رہتا ہوں۔" دانش تیمور کا یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا، جہاں صارفین نے ان کے الفاظ پر سخت ردعمل ظاہر کیا۔ کئی صارفین نے کہا کہ دانش کا یہ بیان غیر ضروری تھا اور اس سے ان کی اہلیہ کی عزت کو ٹھیس پہنچی ہے۔ تاہم، دانش کی معافی کے بعد کچھ صارفین نے ان کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کی اور اس معاملے کو ختم کرنے کی اپیل کی۔ یہ واقعہ ایک بار پھر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کس طرح مشہور شخصیات کے بیان سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ دانش تیمور نے اپنے بیان کے بعد معافی مانگ کر اس معاملے کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اس واقعے نے انہیں ایک بار پھر بحث کا مرکز بنا دیا ہے۔
سندھ کے ضلع ٹنڈو محمد خان میں ایک دردناک واقعہ سامنے آیا ہے، جہاں غربت سے مجبور ہو کر ایک باپ نے اپنے ایک دن کے نومولود بچے کو 50 ہزار روپے میں فروخت کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق، والدین نے نجی اسپتال کے بل کی ادائیگی نہ کر پانے کی وجہ سے یہ قدم اٹھایا۔ متاثرہ والدہ نے بتایا کہ نجی اسپتال انتظامیہ نے بل کی ادائیگی کا مطالبہ کیا تھا، جس کے بعد ان کے شوہر نے ادھار رقم لی اور اسپتال کا بل ادا کیا۔ تاہم، ادھار دینے والے شخص نے رقم واپس کرنے کے بدلے بچے کو اپنے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا، جس پر مجبوراً باپ نے بچے کو اس کے حوالے کر دیا۔ DHZDjjONuSu نجی اسپتال کے ڈائریکٹر نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ بچے کو رقم دے کر لینے والے شخص کی تلاش جاری ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اس واقعے کے بعد اسپتال انتظامیہ نے متاثرہ خاتون کا علاج مفت کر دیا ہے، اور اب تک جو بھی ادائیگی ہوئی ہے، وہ واپس کر دی جائے گی۔ یہ واقعہ غربت اور معاشی بدحالی کی وجہ سے خاندانوں پر پڑنے والے دباؤ کی ایک المناک مثال ہے۔ اس معاملے پر مقامی حکام اور سماجی تنظیموں کی جانب سے فوری کارروائی کی ضرورت ہے تاکہ ایسے واقعات کو روکا جا سکے اور متاثرہ خاندانوں کو معاشی اور سماجی تحفظ فراہم کیا جا سکے۔

Back
Top