نیویارک: امریکا کی معروف کولمبیا یونیورسٹی نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے دباؤ کے بعد اپنی پالیسیوں میں بڑی تبدیلیوں پر آمادگی ظاہر کر دی ہے۔ یونیورسٹی نے مظاہروں، سیکیورٹی اقدامات اور مشرق وسطیٰ سے متعلق اپنی پالیسی کا باریک بینی سے جائزہ لے کر اسے بہتر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، کولمبیا یونیورسٹی نے نئے اقدامات کے تحت 36 اسپیشل افسران تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جو کیمپس میں لوگوں کو گرفتار کرنے اور بے دخل کرنے کے اہل ہوں گے۔ اس کے علاوہ، شناخت کو واضح رکھنے کے نام پر کیمپس میں چہرے کا ماسک پہننے پر بھی پابندی عائد کی جائے گی، تاہم مذہبی اور صحت کے معاملات میں ماسک لگانے کی اجازت ہوگی۔
یونیورسٹی نے یہودیوں سے نفرت کی باضابطہ تعریف و تشریح طے کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ یہ اقدامات اس وقت سامنے آئے ہیں جب ٹرمپ انتظامیہ نے کولمبیا یونیورسٹی پر الزام لگایا تھا کہ وہ یہودی طلبہ اور فیکلٹی ممبران کو ہراساں کیے جانے سے روکنے میں ناکام رہی ہے۔ انتظامیہ نے کہا تھا کہ یونیورسٹی کے 400 ملین ڈالر کے وفاقی فنڈز میں کٹوتی کی جا رہی ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کی جانب سے ہتھیار ڈالنے کے اس فیصلے پر امریکا کے صف اول کے کالج ایڈمنسٹریٹرز نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ خطرناک رجحان ہے جس کے دور رس نتائج نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ یونیورسٹیوں کو حکومتی دباؤ کے آگے جھکنا نہیں چاہیے، کیونکہ اس سے تعلیمی آزادی اور اداروں کی خودمختاری کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
کولمبیا یونیورسٹی کے نئے اقدامات کے تحت کیمپس میں سیکیورٹی کو مزید سخت کیا جائے گا اور مظاہروں پر پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ یونیورسٹی نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ وہ یہودی طلبہ اور فیکلٹی ممبران کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کرے گی۔
یہ فیصلہ کولمبیا یونیورسٹی کے لیے ایک اہم موڑ ہے، جس نے ماضی میں تعلیمی آزادی اور طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی پالیسیوں پر سختی سے عمل کیا ہے۔ تاہم، وفاقی فنڈز کی بندش کے خدشے نے یونیورسٹی کو حکومتی دباؤ کے آگے جھکنے پر مجبور کر دیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ کولمبیا یونیورسٹی کے یہ اقدامات طلبہ اور فیکلٹی میں کس طرح ردعمل پیدا کرتے ہیں اور کیا یہ فیصلے یونیورسٹی کی تعلیمی آزادی اور خودمختاری کو متاثر کرتے ہیں۔