خبریں

سینیٹ کے اجلاس کے دوران سینیٹر عون عباس بپی کی گرفتاری پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہو گیا۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور سینیٹر منظور کاکڑ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد پی ٹی آئی سینیٹرز نے احتجاجی واک آؤٹ کیا۔ اجلاس کا آغاز ہوتے ہی قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے عون عباس بپی کی گرفتاری پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان کے ایک اور رکن کو آج صبح ساڑھے 8 بجے اٹھا لیا گیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا عون عباس بپی کو اٹھانے سے قبل چیئرمین سینیٹ کو بتایا گیا تھا؟ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عون عباس بپی کی گرفتاری ان کے لیے بھی ایک خبر تھی۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے عون عباس بپی کے خلاف چنکارہ ہرن کے شکار کا مقدمہ درج کیا ہے۔ شبلی فراز نے کہا کہ عون بپی کے گھر کے اندر سے گرفتاری کی ویڈیوز ہمارے پاس ہیں، اور ان کے گھر میں شدید توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد بھی انہیں نہیں لایا جا رہا۔ سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ عون عباس بپی ہمارے کولیگ ہیں، اور جب تک وہ ایوان میں نہیں آتے، کارروائی معطل کر دی جائے۔ ایوان کی کارروائی کے دوران ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر اور سینیٹر منظور کاکڑ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ منظور کاکڑ نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین کو ہاتھ نیچے کر کے تمیز سے بات کرنی چاہیے، کیونکہ وہ بھی ایک سینیٹر ہیں۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے جواب دیا کہ منظور کاکڑ صاحب میٹھے آدمی ہیں، اور انہیں ٹھنڈے رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کو کسی کے دباؤ میں آ کر نہیں چلایا جا سکتا۔ عون عباس بپی کی گرفتاری پر پی ٹی آئی سینیٹرز نے احتجاجی واک آؤٹ کیا اور ایوان سے چلے گئے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر نے کہا کہ حکومتی اراکین جاکر اپوزیشن کو منائیں، اور کسی کے دباؤ میں آ کر اس ایوان کو نہیں چلایا جا سکتا۔ منظور کاکڑ نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ محسن عزیز کے بل پر اپوزیشن کے ووٹ زیادہ تھے، لیکن اس وقت قانون کی بات کیوں نہیں کی گئی؟ انہوں نے کہا کہ ہم خود حکومت میں ہیں، لیکن یہ مناسب نہیں کہ کسی بھی سینیٹر کو اٹھا لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ ہیں جن کے خلاف بڑے بڑے کیسز ہیں، لیکن وہ باہر گھوم رہے ہیں۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر نے کہا کہ ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ اس ایوان کو قانون کے مطابق چلانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کو کسی کے دباؤ کے تحت نہیں چلایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بڑے بڑے نامی گرامی سیاستدان رہے ہیں، لیکن ماضی میں اپوزیشن کا رویہ اس طرح نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ عون عباس بپی کی طرح ہر سینیٹر کی عزت ہے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے وزیر قانون سے کہا کہ وہ عون عباس بپی کی گرفتاری پر مفصل رپورٹ پیش کریں۔ اس واقعے نے سینیٹ میں شدید تناؤ پیدا کر دیا ہے، اور اب دونوں اطراف کے اراکین کی توجہ اس معاملے پر مرکوز ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اس معاملے کو کس طرح نمٹاتی ہیں، اور کیا عون عباس بپی کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی واضح وضاحت پیش کی جاتی ہے۔ اب تک کی صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینیٹ میں سیاسی کشیدگی جاری رہے گی، اور دونوں اطراف کے درمیان مزید بحث و مباحثے ہو سکتے ہیں۔
خضدار: نال ٹاؤن کے مرکزی بازار میں دھماکے سے پانچ افراد جاں بحق، دس زخمی خضدار: خضدار ضلع کے نال ٹاؤن کے مرکزی بازار میں بدھ کے روز ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں پانچ افراد جل کر جاں بحق ہوگئے جبکہ دس دیگر شدید زخمی ہوئے۔ پولیس کے مطابق دھماکا حکومتی حمایت یافتہ قبائلی سردار عبدالصمد سمالانی کی گاڑی کو نشانہ بنا کر کیا گیا۔ بازار میں نصب کیا گیا دھماکہ خیز مواد گاڑی کے گزرنے کے دوران ریموٹ کنٹرول سے فعال کیا گیا۔ سردار عبدالصمد سمالانی تو زخمی ہوئے لیکن ان کے تین ساتھی موقع پر ہی جل کر جاں بحق ہوگئے جب کہ دو بعد میں اسپتال میں زخمیوں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گئے۔ مقامی حکام کے مطابق دھماکا ایک ویلڈنگ کی دکان کے قریب ہوا تھا، جس کے بعد پولیس اور سیکیورٹی فورسز نے فوراً جائے وقوعہ پر پہنچ کر علاقے کو گھیر لیا اور لاشوں اور زخمیوں کو خضدار ڈسٹرکٹ اسپتال منتقل کر دیا۔ "گاڑی میں سوار پانچ افراد جل کر زندہ دفن ہو گئے کیونکہ آگ تیزی سے پھیل گئی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ نال میونسپل کمیٹی میں فائر بریگیڈ یا ریسکیو ورکرز کی کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی،" بہاول خان پولیس اسٹیشن کے ایک سینئر پولیس افسر نے کہا۔ خضدار کے ڈپٹی کمشنر یاسر دشتری نے تصدیق کی کہ اسپتال میں دو شدید زخمیوں کی موت ہو گئی جبکہ تین افراد گاڑی کی آگ میں موقع پر ہی جاں بحق ہوئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دھماکے کی جگہ سے شواہد جمع کر لیے ہیں۔ "ہم دھماکے کی نوعیت کی تحقیقات کر رہے ہیں،" ایک سینئر پولیس افسر نے کہا۔ تاہم، ایک اور افسر نے تجویز کیا کہ یہ دھماکا ممکنہ طور پر ایک بم تھا، جس کا مقصد عبدالصمد سمالانی کو نشانہ بنانا تھا، جو اب زیر علاج ہیں۔ پانچ میں سے چار جاں بحق افراد کی شناخت منیر احمد سمالانی، عبد اللہ سرمستی، نادر خان گرگناری اور مسعود احمد کے طور پر ہوئی ہے۔ زخمیوں میں سالال، عرفان، عبدالصمد سمالانی، ارسلان، محمد اشرف، مہراللہ، عبدالرزاق قمبرانی، سعداللہ، ولید اور محمد رمضان شامل ہیں۔ سیکیورٹی فورسز مزید تحقیقات کر رہی ہیں اور ابھی تک کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
اسلام آباد: لاپتا افراد سے متعلق درجنوں کیسز کی سماعت کرنے والا اسلام آباد ہائی کورٹ کا اسپیشل بینچ ٹوٹ گیا۔ جسٹس ارباب محمد طاہر نے بینچ میں بیٹھنے سے معذرت کر لی ہے۔ اسپیشل بینچ جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں لاپتا افراد کے کیسز کی سماعت کر رہا تھا، جس میں جسٹس طارق جہانگیری بھی شامل تھے۔ جسٹس محسن اختر کیانی کے مطابق، جسٹس ارباب محمد طاہر بینچ سے الگ ہو گئے ہیں۔ بینچ کی تشکیل نو کے لیے فائل قائم مقام چیف جسٹس کو بھجوا دی جائے گی۔ واضح رہے کہ لاپتا افراد کے متعدد کیسز بینچ میں سماعت کے لیے مقرر تھے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ اگر ہم نے دہشتگرد کو امریکا کے حوالے کیا تو کیا ہوا، دہشتگردی کے خلاف پاکستان فرنٹ لائن پر لڑرہا ہے۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ ہم نے شروع نہیں کی تھی، مشرف نے دہشتگردی کے خلاف جنگ نہیں کی تھی، امریکا نے دہشتگردی کا نام لے کر عراق، لیبیا اور افغانستان میں جنگ لڑی، ہم دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم نے دہشتگرد کو امریکا کے حوالے کیا تو کیا ہوا، دہشتگردی کے خلاف پاکستان فرنٹ لائن پر لڑرہا ہے، افغانستان میں امریکا نے ہائی ٹیک اسلحہ چھوڑا، امریکا کہہ رہا ہے کہ اسلحہ واپس لے رہا ہے تو اچھی بات ہے، امریکی اسلحے سے دہشتگردی میں اضافہ ہوا۔ وزیر دفاع نے کہا کہ سیاسی مخالفین نے مفاہمت کی کوئی بات کی؟ تین چار مرتبہ حملے کرچکے ہیں اور عید کے بعد دوبارہ حملے کا کہہ رہے ہیں، اب مفاہمت کے بجائے مزاحمت کی سیاست ہوگی، کے پی حکومت دہشتگردی کے خلاف جنگ کا ملبہ خود بھی اٹھائے، پارا چنار کے حالات سب کے سامنے ہیں، وہ تو ہمارے زیرانتظام نہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے پہلے یہاں خطوط بازی کی پھر عالمی درجہ دیا، خطوط کا حشر جو پہلے ہوا، وہ ہی اب ہوگا، بانی پی ٹی آئی کو کوئی سیاسی لوگ نہیں بلکہ جادوگر مشورہ دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پرویز خٹک کو صوبے سے وفاق میں لانے کے بعد خیبرپختونخوا میں لوٹ مار کی گئی۔ "ن لیگ کہتی تھی کہ پرویز خٹک کرپٹ ہیں، اب وہ وزیراعظم کے مشیر بن چکے ہیں۔ اب وہ کرپٹ ہیں یا نہیں؟" ۔ صحافی کے سوال پر خواجہ آصف جواب ہی گول کر گئے۔۔ پرویز خٹک پر تبصرے سے گریز
پشاور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر فیصل جاوید کو جہاز سے آف لوڈ کرنے پرسرکاری وکیل پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔ جہاز سے آف لوڈ کرنے کے معاملے پر سینیٹر فیصل جاوید اپنے وکیل کے ہمراہ پشاور ہائیکورٹ میں جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ کی عدالت میں پیش ہوئے۔ جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے اسسٹنٹ اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ "ہم نے کل کیس سنا، آپ لوگوں نے کہا کہ انہیں جانے کی اجازت دی جائے گی، جب آپ لوگوں کی اتنی سکت نہیں ہے تو پھر عدالت میں کمٹمنٹ کیوں کرتے ہیں؟ اگر یہ بدمعاشی کرتے ہیں تو پھر آپ ان اداروں کا عدالت میں دفاع کیوں کرتے ہیں؟ اگر وہ آپ کی بات نہیں مانتے تو پھر آپ ان کا دفاع نہ کریں، جب آپ کی بات نہیں سنتے تو پھر ہم اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل آفس کو کیوں سنیں؟" جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے مزید کہا کہ "ہماری دلچسپی صرف آئین و قانون پر عمل درآمد ہے، ہم چاہتے ہیں کہ آئین و قانون کی بالادستی ہو، آپ طاقتور بنیں، ہمیں بھی اطمینان رہے کہ اے جی آفس ہمارے سامنے موجود ہے۔" انہوں نے کہا کہ "آپ نے نئی درخواست دائر کی ہے۔" وکیل درخواست گزار نے کہا کہ "جی، ہم نے توہین عدالت کی درخواست دائر کی ہے۔" اس پر جسٹس صاحبزادہ اسد اللہ نے کہا کہ "وہ درخواست آجائے تو پھر ہم اس کو سنتے ہیں۔" فیصل جاوید نے آف لوڈ کرنے کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست دائر کردی۔قبل ازیں، پی ٹی آئی کے سینیٹر فیصل جاوید نے ایئرپورٹ پر آف لوڈ کرنے کے معاملے پر پشاور ہائیکورٹ میں توہینِ عدالت کی درخواست دائر کی تھی۔ درخواست میں مؤقف اپنایا گیا ہے کہ وہ عمرہ کے لیے جانا چاہتے ہیں اور عدالت نے وزارتِ داخلہ کو ان کا نام پی این آئی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔ درخواست گزار نے کہا کہ عدالتی حکم کے باوجود انہیں عمرہ کی ادائیگی کے لیے جانے نہیں دیا گیا۔ فیصل جاوید کو ایئرپورٹ پر طیارے سے آف لوڈ کر دیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز تحریک انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید کو پشاور ایئرپورٹ پر سعودی عرب جانے سے روک دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق فیصل جاوید کو سعودی عرب کی فلائٹ سے آف لوڈ کر دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔ جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی آئینی بینچ فوجی عدالتوں میں سویلینز کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کر رہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان دلائل دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے تحریری معروضات عدالت میں جمع کراتے ہوئے کہا کہ سویلین کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل نہیں ہونا چاہیے، آرمی ایکٹ کی شقوں کو مختلف عدالتی فیصلوں میں درست قرار دیا جا چکا ہے، اور ان شقوں کو غیر آئینی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان نے دلائل کے آغاز میں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے دور کا حوالہ دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم پرانی کہانی کی طرف نہیں جائیں گے، مرکزی سوال یہ ہے کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں۔ حامد خان نے کہا کہ آرمی ایکٹ مئی 1952 میں آیا، اور جب آرمی ایکٹ آیا، اس وقت پاکستان میں گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ نافذ تھا، جبکہ پاکستان کا پہلا آئین 1956 میں آیا، اور اس آئین میں بنیادی حقوق پہلی بار متعارف کرائے گئے۔
سابق وزیر خزانہ اور ماہر معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا ہے کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر اس وقت 11 ارب ڈالرز سے زائد ہیں، اور ملک ڈیفالٹ کے خطرے سے نکل آیا ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ نیا پیسہ آنے میں کمی آئی ہے، جس کی وجہ سے ملک کی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے خبردار کیا کہ ملک میں حالیہ دہشت گردی کی لہر ملکی معیشت کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر چین اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے حوالے سے یہ منفی اثرات مرتب کر رہی ہے۔ آج ٹی وی کے پروگرام ’اسپاٹ لائٹ‘ میں میزبان منیزے جہانگیر سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ حکومت نے دوسرے ممالک سے کئی معاہدے کیے ہیں، لیکن ان کا ملکی معیشت پر کوئی مثبت اثر نہیں پڑا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شرح نمو ایک فیصد تک گر چکی ہے اور شارٹ فال بڑھتا جا رہا ہے۔ ڈاکٹر پاشا نے حکومت کے اعداد و شمار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بجلی اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہو چکا ہے، جبکہ حکومت ان میں کمی کا دعویٰ کر رہی ہے۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ پاکستان اور دیگر ممالک کو ہوگا، جس سے مہنگائی میں کمی آئے گی اور عوام کو ریلیف ملے گا۔ سابق وزیر خزانہ نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں پراپرٹی پر ٹیکس بہت کم ہیں اور ہمیں پراپرٹی ٹیکس بڑھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے بتایا کہ ملک میں 100 ٹیکسٹائل ملیں بند ہو چکی ہیں، کیونکہ اس شعبے میں منافع نہیں رہا۔
کراچی میں ڈائریکٹوریٹ جنرل آف کسٹمز ویلیوایشن نے چین اور ہانگ کانگ سے درآمد ہونے والی موبائل فون کی اسکرینز کی نئی کسٹمز ویلیو مقرر کر دی ہے۔ اس فیصلے کے بعد، پرانے موبائل فونز کی مرمت کے اخراجات میں اضافے کا امکان ہے، جب کہ پاکستان میں موبائل فونز اسمبلی کرنے والے مینوفیکچررز کی مصنوعات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔ بزنس ریکارڈر کے مطابق، منگل کے روز جاری ہونے والی نئی ویلیوایشن رولنگ نمبر 1979/2025 نے پرانی ویلیوایشن رولنگ نمبر 1576/2021 کو منسوخ کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ مذکورہ اشیا کی کسٹمز ویلیو 2021 کے بعد سے نظرثانی کے بغیر برقرار تھی۔ تاہم، درآمدی ڈیٹا کے تجزیے، موجودہ مارکیٹ رجحانات، قیمتوں میں فرق، اور کسٹمز ویلیو میں تبدیلی کے پیش نظر، کسٹمز ایکٹ 1969 کے سیکشن 25 اور 25A کے تحت ان اشیا کی نئی کسٹمز ویلیو کا تعین کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔ اس عمل کے دوران، متعلقہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی، اور ان کے مؤقف کو تفصیل سے سنا گیا۔ اسٹیک ہولڈرز کو اپنی درآمدی دستاویزات جمع کرانے کی ہدایت کی گئی، تاکہ وہ اپنے مؤقف کو ثابت کر سکیں۔ کسٹمز ویلیو کے تعین کے لیے گزشتہ 90 دنوں کا ڈیٹا حاصل کیا گیا، اور مکمل جانچ پڑتال کے بعد، مخصوص اشیا کی ٹرانزیکشن ویلیو کا تعین کیا گیا۔ اس کے بعد، فیصلہ کیا گیا کہ دی گئی اشیا کی کسٹمز ویلیو ہی ڈیوٹی اور ٹیکسز کے تخمینے کے لیے استعمال ہوگی۔ اس نئی کسٹمز ویلیو کے نتیجے میں، موبائل فونز کی اسکرینز کی درآمدی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے، جس کا اثر مرمت کے اخراجات پر پڑے گا۔ پرانے موبائل فونز کی مرمت کرنے والے مراکز کو اب زیادہ قیمت پر اسکرینز درآمد کرنا پڑیں گی، جس سے مرمت کے اخراجات میں اضافہ ہوگا۔ اسی طرح، پاکستان میں موبائل فونز اسمبلی کرنے والے مینوفیکچررز کو بھی زیادہ قیمت پر اسکرینز درآمد کرنا پڑیں گی، جس کے نتیجے میں اسمبلڈ موبائل فونز کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے۔ یہ اقدام صارفین کے لیے موبائل فونز کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ صنعت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کسٹمز ویلیو میں تبدیلی کا فیصلہ مارکیٹ کے موجودہ رجحانات اور درآمدی ڈیٹا کے تجزیے پر مبنی ہے۔ تاہم، اس کے اثرات صارفین اور صنعت دونوں پر پڑیں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد موبائل فون مارکیٹ پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ صارفین کو موبائل فونز کی مرمت اور خریداری کے لیے زیادہ اخراجات برداشت کرنے پڑ سکتے ہیں، جب کہ مینوفیکچررز کو بھی اپنی مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ صنعت اور صارفین کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کسٹمز ویلیو کے تعین کے عمل میں شفافیت اور توازن برقرار رکھے، تاکہ صنعت کو فروغ مل سکے اور صارفین کو معقول قیمتوں پر مصنوعات دستیاب ہو سکیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے نئے وزراء مملکت اور مشیروں کو قلمدان دینے کے لیے مشاورت مکمل کر لی ہے۔ اے آر وائی نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ذرائع کا کہنا ہے کہ کل نو منتخب وزراء کو قلمدان دینے کا امکان ہے۔ رپورٹ کے مطابق، وزیراعظم کے مشیر محمد علی کو نجکاری کا قلمدان جب کہ وفاقی وزیر علی پرویز ملک کو پیٹرولیم کی وزارت ملنے کا امکان ہے۔ ڈاکٹر مصدق ملک کو ماحولیاتی تبدیلی کی وزارت، جب کہ ڈاکٹر توقیر کو کابینہ و اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے۔ حنیف عباسی کو ریلوے کی وزارت، مصطفیٰ کمال کو سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی وزارت، رضا حیات ہراج کو پارلیمانی امور، خالد مگسی کو وزارت پانی، اور پرویز خٹک کو بین الصوبائی رابطہ کی وزارت ملنے کا امکان ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو وزارت صحت جب کہ شیزہ فاطمہ کو وزارت آئی ٹی کا قلمدان ملنے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے چند روز قبل وفاقی کابینہ میں 25 نئے وزراء، وزرائے مملکت اور مشیروں کو شامل کیا تھا، جس کے بعد کابینہ کی کل تعداد 50 ہو گئی ہے۔ اس وقت وفاقی کابینہ میں 30 وفاقی وزراء، 9 وزرائے مملکت، 4 مشیر، اور 7 معاونین خصوصی شامل ہیں۔ کابینہ میں شامل وزراء میں سے 18 وزراء وزارتیں اور ڈویژنز چلا رہے ہیں، جب کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بھی 5 وزارتوں اور 2 ڈویژنز کے قلمدان سنبھال رکھے ہیں۔ اس کے علاوہ، 2 وزراء کے پاس 3 قلمدان جب کہ 9 وزراء کے پاس 2 وزارتوں کے قلمدان ہیں۔ نئے وزراء کو تاحال قلمدان نہیں دیے گئے ہیں۔ اب وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے نئے وزراء کو قلمدان دینے کا فیصلہ کیا جائے گا، جس کے بعد کابینہ کی کارکردگی میں مزید بہتری کی توقع ہے۔ نئے وزراء کی تقرریوں سے حکومت کے کام کو تیز کرنے اور عوام کی خدمت کے لیے اقدامات کو موثر بنانے میں مدد ملے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نئے وزراء اپنی ذمہ داریوں کو کس طرح نبھاتے ہیں اور حکومت کی ترجیحات کو کس طرح آگے بڑھاتے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں وفاقی کابینہ کے اقدامات سے ملک کی ترقی اور استحکام کے نئے دور کا آغاز ہونے کی توقع ہے۔
حکومت کی جانب سے نجی بینکوں سے بھاری سود پر قرض لینے کے نتیجے میں پاکستان کے بینکوں نے سال 2024 میں پہلی بار 600 ارب روپے سے زائد کا منافع کمایا ہے۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق، بلند شرح سود کی وجہ سے بینکوں کو قرضوں پر زیادہ منافع حاصل ہوا، جب کہ قرضوں کی بڑھتی ہوئی مانگ بھی بینکوں کے زائد منافع کی اہم وجہ بنی۔ ذرائع کے مطابق، حکومت کے مقامی کمرشل بینکوں سے قرضے 35 ٹریلین روپے تک پہنچ گئے ہیں، جب کہ بیرونی قرضوں کا حجم 25.2 ٹریلین روپے ہے۔ بیرونی قرضوں پر اوسط سود کی شرح صرف 1 فیصد ہے، جب کہ مقامی قرضوں پر سود کی شرح تاریخی طور پر 22 فیصد کے قریب رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں مقامی قرضوں پر سود کی شرح 12 سے 13 فیصد تک کم ہو چکی ہے۔ ذرائع وزارت خزانہ نے بتایا کہ بینکوں نے فیس بیسڈ آمدنی میں بھی اضافہ کیا، جس نے ان کے منافع کو مزید بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ میزان بینک نے سب سے زیادہ ایک سال میں 100 ارب روپے کا منافع کمایا، جو بینکاری شعبے میں ایک ریکارڈ ہے۔ تاہم، ذرائع نے خبردار کیا کہ شرح سود میں کمی کے باعث رواں سال بینکوں کے منافع میں کمی متوقع ہے۔ حکومت کی جانب سے شرح سود میں کمی کے اقدامات نے بینکوں کے لیے قرضوں پر منافع کی شرح کو کم کر دیا ہے، جس کا اثر ان کی آمدنی پر پڑے گا۔ بینکاری شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے قرضوں کی بڑھتی ہوئی مانگ اور بلند شرح سود نے بینکوں کو بے پناہ منافع کمانے کا موقع فراہم کیا۔ تاہم، اب جب کہ شرح سود میں کمی کی جا رہی ہے، بینکوں کو اپنی آمدنی کے نئے ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہوگی۔ حکومت کی جانب سے مقامی قرضوں پر شرح سود میں کمی کے اقدامات کو معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ایک مثبت قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم، بینکوں کے لیے یہ تبدیلی ایک چیلنج بھی ہے، کیونکہ انہیں اپنے منافع کو برقرار رکھنے کے لیے نئی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہوگی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بینکاری شعبہ شرح سود میں کمی کے اثرات کو کیسے سنبھالتا ہے اور آیا وہ اپنی آمدنی کو برقرار رکھنے کے لیے نئے طریقے تلاش کر پاتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کے طویل مدتی اثرات بینکاری شعبے پر بھی مرتب ہوں گے۔
نیویارک کے قلب میں واقع تاریخی روزویلٹ ہوٹل، جو فی الحال مہاجرین کی پناہ گاہ کے طور پر استعمال ہو رہا ہے، کے مستقبل کے حوالے سے اہم فیصلے کا وقت قریب آ گیا ہے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی ملکیت میں موجود اس جائیداد کے لیے تین سالہ لیز کا معاہدہ جون 2026 میں ختم ہو رہا ہے، جس کے بعد پاکستان کو اس جائیداد کے مستقبل کے بارے میں اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پی آئی اے نے 2023 میں نیویارک شہر کی انتظامیہ کے ساتھ کیا گیا تین سالہ لیز کا معاہدہ یقینی بناتا ہے کہ یہ جائیداد جون 2026 تک آمدنی کا ذریعہ بنی رہے گی۔ لیز کی شرائط کے تحت، شہری انتظامیہ ہوٹل کی ضروری مرمت اور تزئین و آرائش کی ذمہ دار ہے، جس سے جائیداد کی قیمت میں بہتری متوقع ہے۔ تاہم، لیز کی مدت ختم ہونے کے بعد پاکستان کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا جائیداد کو فروخت کرنا ہے، اسے رہائشی اپارٹمنٹس میں تبدیل کرنا ہے، یا اسے کسی قائم شدہ ہاسپٹلٹی کمپنی کو لیز پر دینا ہے۔ نیویارک کے پراپرٹی ڈویلپر عمران آگرا نے ڈان کو بتایا کہ موجودہ معاہدے کے تحت نیویارک شہر کی انتظامیہ 2026 کے وسط تک کرایہ ادا کرتی رہے گی، حالانکہ وہ جون تک ہوٹل میں مہاجرین کی پناہ گاہ کو بند کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تزئین و آرائش کے بعد ہوٹل کی قیمت میں نمایاں اضافہ متوقع ہے، جو ممکنہ طور پر ایک ارب ڈالر سے ایک ارب 20 کروڑ ڈالر تک ہو سکتی ہے۔ تاہم، آگرا نے خبردار کیا کہ پی آئی اے کے پاس ہوٹل کو براہ راست چلانے کی مہارت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسابقت کے قابل رکھنے کے لیے جائیداد کو باقاعدگی سے بحالی اور پیشہ ورانہ انتظام کی ضرورت ہوگی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ تزئین و آرائش کے بعد ہوٹل کو کسی قائم شدہ ہاسپٹلٹی کمپنی کو لیز پر دینا بہتر ہوگا۔ نیو یارک پوسٹ کے ایک حالیہ مضمون کے مطابق، روزویلٹ ہوٹل کی بندش سے 22 کروڑ ڈالر کی لیز ختم ہو جائے گی، جو پی آئی اے کے لیے آمدنی کا اہم ذریعہ تھی۔ سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ اسلام آباد اس سے قبل روزویلٹ ہوٹل کے لیے کئی آپشنز پر غور کر چکا ہے، جن میں فروخت اور تعمیر نو بھی شامل ہے، لیکن سیاسی حساسیت اور جائیداد کی پیچیدہ ملکیت کے نظام کی وجہ سے یہ کوششیں اکثر منطقی انجام تک نہیں پہنچ سکیں۔ 2023 کے اوائل میں، پاکستان کی نگراں حکومت نے خریداروں اور بحالی کے آپشنز کا جائزہ لینے کے لیے 78 لاکھ ڈالر کے معاہدے کے تحت امریکی کنسلٹنسی جونز لینگ لاسیل (جے ایل ایل) کی خدمات حاصل کی تھیں۔ تاہم، جے ایل ایل کو ہوٹل کی بگڑتی ہوئی حالت کی وجہ سے مناسب خریداروں کو راغب کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ نیو یارک پوسٹ کے مطابق، جے ایل ایل کی جانب سے موسم بہار میں باضابطہ درخواست جاری کیے جانے کا امکان ہے، لیکن مارکیٹ ذرائع کے مطابق متعدد ڈویلپرز کے ساتھ غیر رسمی بات چیت ہو چکی ہے۔ ایک آپشن یہ ہے کہ ہوٹل کو رہائشی اپارٹمنٹ کمپلیکس میں تبدیل کیا جائے، جو پاکستان کو طویل مدتی آمدنی کے ساتھ جائیداد کی ملکیت برقرار رکھنے کی اجازت دے گا۔ تاہم، اس کے لیے نیویارک کے زوننگ اور تعمیراتی حکام کی منظوری کے ساتھ ساتھ کافی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔ سفارتی ذرائع نے بتایا کہ ملک کے موجودہ معاشی بحران کے پیش نظر کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا فیصلہ آسان نہیں ہے، لیکن اتنی تاریخی اور مشہور جائیداد کو بیچنا بھی اتنا ہی مشکل ہے۔ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ روزویلٹ ہوٹل سمیت غیر منافع بخش اثاثوں کی نجکاری کرے۔ نیو یارک پوسٹ کے مطابق، ڈویلپرز کے سامنے ایک اور آپشن یہ ہے کہ وہ پرانے ہوٹل کو توڑ کر تقریباً 42 ہزار مربع فٹ اراضی پر 18 لاکھ مربع فٹ تک کی فلک بوس عمارت تعمیر کریں۔ تاہم، کسی بھی ترقیاتی منصوبے میں تین سے پانچ سال کا وقت لگ سکتا ہے، جس میں یونین کے ساتھ معاہدہ کرنا، زوننگ کی منظوری حاصل کرنا، اور مستقل کرایہ دار تلاش کرنا شامل ہوگا۔ اب پاکستان کو روزویلٹ ہوٹل کے مستقبل کے بارے میں ایک اہم فیصلہ کرنا ہوگا، جو نہ صرف مالی فوائد بلکہ ملکی وقار کے لیے بھی اہم ہے۔
امریکی ری پبلکن رکن کانگریس اسکاٹ پیری نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا نے پاکستان کو اسکول بنانے کی مد میں 136 ملین ڈالر دیے، لیکن یہ اسکول کبھی نہیں بنے۔ انہوں نے یہ بات امریکی ایوانِ نمائندگان کی خارجہ امور کمیٹی کی بریفنگ کے دوران اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہی۔ اسکاٹ پیری نے کہا کہ یو ایس ایڈ (USAID) نے پچھلے 20 سال میں پاکستان کے تعلیمی پروگراموں پر 840 ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان پروگراموں میں سے 136 ملین ڈالر 120 اسکول بنانے کے لیے مختص کیے گئے تھے، لیکن یہ اسکول کبھی تعمیر نہیں ہوئے۔ تاہم، میڈیا رپورٹس کے مطابق، اسکاٹ پیری نے اپنے اس دعوے کے حوالے سے ایوان میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ انہوں نے نہ ہی یہ واضح کیا کہ یہ فنڈز کب اور کس منصوبے کے تحت دیے گئے تھے۔ یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں کئی مسائل موجود ہیں۔ امریکا نے گزشتہ برسوں میں پاکستان کو تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں امداد فراہم کی ہے، لیکن بعض اوقات اس امداد کے استعمال پر تنقید بھی ہوتی رہی ہے۔ پاکستانی حکام نے ابھی تک اسکاٹ پیری کے دعوے پر کوئی سرکاری ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ تاہم، ماضی میں پاکستانی حکومت نے امریکی امداد کے استعمال کے حوالے سے شفافیت پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ تمام فنڈز مناسب طریقے سے استعمال کیے گئے ہیں۔ امریکی کانگریس کے اراکین کی جانب سے ایسے بیانات عام ہیں، جو کبھی کبھار پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات کو متاثر کرتے ہیں۔ تاہم، اسکاٹ پیری کے دعوے کی تصدیق کے لیے مزید ثبوت اور تفصیلات کی ضرورت ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اس معاملے پر کیا ردعمل ظاہر کرتی ہے اور کیا وہ اسکاٹ پیری کے دعوے کی تردید کرتی ہے یا اس کی وضاحت پیش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ، امریکی حکومت کی جانب سے بھی اس معاملے پر مزید تفصیلات فراہم کی جا سکتی ہیں۔ یہ معاملہ پاکستان اور امریکا کے درمیان تعاون کے شعبے میں شفافیت اور جوابدہی کے حوالے سے اہم سوالات اٹھاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ایسے معاملات پر کھلے اور شفاف مکالمے کی ضرورت ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف کا امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر اظہار تشکر اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے افغانستان میں انسداد دہشت گردی کی کوششوں میں پاکستان کے کردار کو سراہنے پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پرعزم رہا ہے اور کسی بھی عسکریت پسند گروہ کو دوسرے ممالک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے اصول پر کاربند ہے۔ انہوں نے کہا، "ہم دہشت گردی کے خلاف اپنی جدوجہد میں ثابت قدم ہیں اور اس راہ میں پاکستان نے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے 80,000 سے زائد بہادر فوجی اور شہری اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔" وزیراعظم نے مزید کہا کہ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے کے لیے پاکستان کی قیادت اور عوام کا عزم غیر متزلزل ہے۔ انہوں نے اس عزم کا بھی اعادہ کیا کہ پاکستان علاقائی امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے امریکا کے ساتھ قریبی شراکت داری جاری رکھے گا۔ واضح رہے کہ امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گرد کا نام لیے بغیر اس کی گرفتاری پر پاکستان سے اظہار تشکر کیا ۔ کانگریس سے خطاب میں امریکی صدر نے کہا کہ ساڑھے 3 سال پہلے داعش نے 13 امریکیوں کو افغانستان میں قتل کیا تھا، ساتھ ہی انہوں نے افغانستان سے بائیڈن دور میں کیے گئے امریکی فوج کے انخلاء کو انتہائی شرم ناک قرار دیا اور کہا کہ مجھے یہ اعلان کر کے خوشی ہو رہی ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کا بڑا ذمے دار پکڑا گیا ہے۔
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک دہشت گرد کی گرفتاری پر پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے، تاہم انہوں نے گرفتاری میں ملوث شخص کا نام نہیں لیا۔ کانگریس سے خطاب کے دوران، صدر ٹرمپ نے کہا کہ ساڑھے تین سال قبل افغانستان میں داعش کے ایک حملے میں 13 امریکی جانیں ضائع ہوئیں۔ انہوں نے بائیڈن انتظامیہ کے دور میں امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا کو "انتہائی شرم ناک" قرار دیا اور اعلان کیا کہ افغانستان میں دہشت گردی کے بڑے ذمہ دار کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ نے مزید کہا کہ افغانستان میں امریکی شہریوں کی ہلاکت میں ملوث اس دہشت گرد کو امریکا منتقل کیا جا رہا ہے، جہاں وہ قانون کا سامنا کرے گا۔ انہوں نے اس کارروائی میں تعاون پر پاکستان کا خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا۔ واضح رہے کہ 2021 میں امریکی افواج کے افغانستان سے انخلا کے دوران کابل ایئرپورٹ پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں 13 امریکی فوجی اور 170 افغان شہری جاں بحق ہوئے تھے۔ اس حملے کے وقت ہزاروں افراد افغانستان سے نکلنے کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے، اور اس واقعے نے واشنگٹن کو شدید سفارتی دباؤ اور شرمندگی سے دوچار کر دیا تھا۔ امریکی خبر رساں اداروں کے مطابق، صدر ٹرمپ نے عہدہ سنبھالتے ہی سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان ریٹکلف کو ہدایت دی تھی کہ کابل ایئرپورٹ کے ایبی گیٹ حملے میں ملوث عناصر کی گرفتاری کو اولین ترجیح دی جائے۔ اس سلسلے میں سی آئی اے ڈائریکٹر نے اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے فوری بعد پاکستانی انٹیلی جنس حکام سے یہ معاملہ اٹھایا تھا۔ بعد ازاں، فروری میں میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے دوران بھی ایک اعلیٰ پاکستانی سیکیورٹی عہدیدار سے اس موضوع پر گفتگو کی گئی۔ اس کے علاوہ، ایف بی آئی کے ڈائریکٹر کاش پٹیل نے بھی پاکستانی حکام سے رابطہ کیا تھا۔ خبر رساں اداروں کے مطابق، محمد شریف اللہ داعش کے ان اہم رہنماؤں میں شامل تھا جن پر اس حملے کی منصوبہ بندی کا شبہ ہے۔ ایک امریکی اہلکار نے دعویٰ کیا کہ شریف اللہ، جو "جعفر" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، اس حملے کا اصل ماسٹر مائنڈ تھا۔ مزید یہ بھی دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی حکام نے دہشت گرد کی گرفتاری کے بارے میں امریکی حکام کو 10 روز قبل مطلع کر دیا تھا۔ جب جیو نیوز کے نمائندے نے واشنگٹن میں پاکستانی سفارت خانے سے اس معاملے پر موقف لینے کی کوشش کی تو ایک سینئر اہلکار نے فوری طور پر کسی بھی ردعمل سے گریز کیا۔
پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات کو فروری 2025 میں ایک بڑا دھچکا لگا ہے، جس کے نتیجے میں جولائی 2024 کے بعد ٹیکسٹائل برآمدات کم ترین سطح پر آ گئی ہیں۔ فروری میں ماہانہ بنیاد پر ٹیکسٹائل برآمدات میں 26 کروڑ ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے، جس کے بعد برآمدات کا حجم ایک ارب 42 کروڑ ڈالر رہ گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، جنوری 2025 میں ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم ایک ارب 68 کروڑ ڈالر تھا، جو فروری میں گِر کر ایک ارب 42 کروڑ ڈالر پر آ گیا۔ یہ کمی ٹیکسٹائل صنعت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، جو ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے اعداد و شمار کے مطابق، دسمبر 2024 میں ٹیکسٹائل برآمدات ایک ارب 48 کروڑ ڈالر تھیں، جب کہ نومبر 2024 میں یہ حجم ایک ارب 46 کروڑ ڈالر تھا۔ اکتوبر 2024 میں ٹیکسٹائل برآمدات ایک ارب 63 کروڑ ڈالر تھیں، جب کہ ستمبر 2024 میں یہ ایک ارب 61 کروڑ ڈالر رہیں۔ اسی طرح، اگست 2024 میں ٹیکسٹائل برآمدات ایک ارب 64 کروڑ ڈالر اور جولائی 2024 میں ایک ارب 27 کروڑ ڈالر تھیں۔ ٹیکسٹائل صنعت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فروری میں برآمدات میں کمی کی بڑی وجہ عالمی منڈیوں میں مسابقت، بین الاقوامی طلب میں کمی، اور مقامی صنعت کو درپیش چیلنجز ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو ٹیکسٹائل برآمدات کو فروغ دینے کے لیے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ صنعت کو درپیش مشکلات کو کم کیا جا سکے۔ ٹیکسٹائل برآمدات میں کمی کا اثر ملکی معیشت پر بھی پڑ رہا ہے، کیونکہ ٹیکسٹائل صنعت پاکستان کی کل برآمدات کا ایک بڑا حصہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر برآمدات میں کمی کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ملکی معیشت کو مزید مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ ٹیکسٹائل صنعت کو درپیش مسائل کو حل کرنے کے لیے جامع پالیسیاں بنائے، تاکہ برآمدات کو بڑھانے میں مدد مل سکے۔ اس کے علاوہ، صنعت کو جدید ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کی سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں، تاکہ وہ عالمی منڈیوں میں مسابقت کر سکے۔ اب صنعت کے اسٹیک ہولڈرز کی توجہ مارچ کے اعداد و شمار پر ہوگی، جو یہ ظاہر کرے گا کہ ٹیکسٹائل برآمدات میں یہ گراوٹ جاری رہتی ہے یا نہیں۔ حکومت اور صنعت کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ مل کر کام کریں، تاکہ ٹیکسٹائل برآمدات کو بحال کیا جا سکے اور ملکی معیشت کو مستحکم بنایا جا سکے۔
کوسٹل ہائی وے پر بزی ٹاپ کے مقام پر مسلح دہشتگردوں نے گاڑیوں پر حملہ کر دیا، جس کے دوران انہوں نے ناکہ بندی کرتے ہوئے ایک درجن سے زائد گیس باؤزر گاڑیاں جلا دیں۔ یہ واقعہ پسنی اور اورماڑہ کے درمیان پیش آیا، جہاں دہشتگردوں نے کوسٹل ہائی وے پر ناکہ لگا کر گاڑیوں کو روکا اور پولیس موبائل کو بھی نذر آتش کر دیا۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز کی بھاری نفری کو جائے وقوعہ پر روانہ کر دیا گیا۔ دہشتگردوں نے حملے کے بعد فرار ہونے میں کامیابی حاصل کی، جب کہ کوسٹل ہائی وے پر عارضی طور پر معطل ٹریفک بحال ہو گئی۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب بلوچستان میں سیکیورٹی فورسز کے خلاف دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ایک روز قبل ضلع قلات میں قومی شاہراہ پر سیکیورٹی فورسز کی گاڑی کے قریب خودکش دھماکے کے نتیجے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کا ایک اہلکار شہید ہو گیا تھا، جب کہ 4 دیگر زخمی ہوئے تھے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق، یہ حملہ قلات کے علاقے مغل زئی کے قریب ہوا تھا۔ ڈپٹی کمشنر قلات بلال شبیر نے بتایا کہ دھماکے میں ایک سیکیورٹی اہلکار شہید اور 4 دیگر زخمی ہوئے تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق، خودکش حملہ آور ایک خاتون تھی۔ وزارت داخلہ کے مطابق، وزیر داخلہ محسن نقوی نے ہدایت کی ہے کہ زخمی ہونے والے 4 ایف سی اہلکاروں کو علاج و معالجے کی بہترین خدمات فراہم کی جائیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز ضلع خضدار میں بھی دہشتگردوں نے جمعیت علمائے اسلام بلوچستان کے دو رہنماوں کو گاڑی پر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا تھا، جب کہ دو دیگر افراد زخمی ہوئے تھے۔ کوسٹل ہائی وے پر ہونے والے حالیہ حملے نے بلوچستان میں سیکیورٹی کی صورتحال پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے، تاکہ دہشتگردوں کو گرفتار کیا جا سکے۔ حکومت کی جانب سے بلوچستان میں سیکیورٹی کے حوالے سے اقدامات کو مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جائے گی، اور ملک کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن اقدام کیا جائے گا۔ اب سیکیورٹی فورسز کی توجہ دہشتگردوں کے خلاف کارروائیوں پر مرکوز ہے، تاکہ امن و امان کو بحال کیا جا سکے۔ عوام سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ سرگرمی کی اطلاع فوری طور پر سیکیورٹی اداروں کو دیں۔ حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں مزید کوششوں کی ضرورت ہے، تاکہ عوام کو تحفظ فراہم کیا جا سکے اور ملک کی ترقی کو یقینی بنایا جا سکے۔
فروری میں پاکستان کی سیمنٹ کمپنیوں نے ملک بھر میں 30 لاکھ 65 ہزار ٹن سیمنٹ فروخت کیا، جو جنوری کے مقابلے میں 3 لاکھ ٹن اور 10 فیصد کم ہے۔ آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (اے پی سی ایم اے) کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، فروری میں سیمنٹ کی مقامی فروخت اور برآمدات دونوں میں ماہانہ بنیاد پر کمی دیکھی گئی، جب کہ سالانہ بنیاد پر اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق، فروری 2025ء میں سیمنٹ کی مقامی فروخت فروری 2024ء کے مقابلے میں 2 لاکھ ٹن اور 7 فیصد زیادہ رہی۔ تاہم، جنوری 2025ء کے مقابلے میں فروری میں مقامی مارکیٹ میں سیمنٹ کی فروخت میں نمایاں کمی آئی، جو 3 لاکھ ٹن اور 10 فیصد کم رہی۔ اعداد و شمار کے مطابق، فروری 2025ء میں سیمنٹ کمپنیوں نے بیرون ملک 5 لاکھ 31 ہزار ٹن سیمنٹ فروخت کیا۔ یہ برآمدات بھی جنوری کے مقابلے میں کچھ کم رہیں، جو سیمنٹ صنعت کے لیے ایک چیلنج کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اے پی سی ایم اے کے ترجمان نے بتایا کہ فروری میں سیمنٹ کی فروخت میں کمی کی بڑی وجہ موسمی حالات اور تعمیراتی سرگرمیوں میں کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سردیوں کے موسم میں تعمیراتی کام عام طور پر سست پڑ جاتے ہیں، جس کا براہ راست اثر سیمنٹ کی طلب پر پڑتا ہے۔ تاہم، سالانہ بنیاد پر سیمنٹ کی فروخت میں اضافہ تعمیراتی شعبے میں بہتری کی نشاندہی کرتا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ حکومتی ترقیاتی منصوبوں اور نجی شعبے کی تعمیراتی سرگرمیوں میں اضافے سے سیمنٹ کی طلب میں بہتری آئی ہے۔ سیمنٹ صنعت کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بیرون ملک سیمنٹ کی برآمدات میں کمی عالمی منڈیوں میں مسابقت اور بین الاقوامی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو سیمنٹ کی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے پالیسی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ فروری کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سیمنٹ صنعت کو مقامی اور بین الاقوامی سطح پر کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ تاہم، سالانہ بنیاد پر فروخت میں اضافہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ صنعت میں بہتری کے امکانات موجود ہیں۔ حکومت اور صنعت کے ذمہ داروں کو چاہیے کہ وہ تعمیراتی شعبے کو فروغ دینے اور سیمنٹ کی برآمدات کو بڑھانے کے لیے مشترکہ کوششیں کریں، تاکہ ملکی معیشت کو مستحکم کرنے میں مدد مل سکے۔ اب صنعت کے اسٹیک ہولڈرز کی توجہ مارچ کے اعداد و شمار پر ہوگی، جو یہ ظاہر کرے گا کہ سیمنٹ کی فروخت میں یہ رجحان جاری رہتا ہے یا نہیں۔
بلوچستان میں آئے روز سڑکوں کی بندش کے باعث فضائی سفر میں نمایاں اضافہ ہو گیا ہے، جس کے نتیجے میں کوئٹہ سے اندرون ملک پروازوں کے ٹکٹ کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں۔ کوئٹہ سے اندرون ملک ہوائی سفر کرنے والے مسافروں کے لیے یہ سفر اب انتہائی مہنگا ہو چکا ہے، جہاں 15 سے 16 ہزار روپے وصول کیے جانے والا کرایہ اب 98 ہزار روپے تک جا پہنچا ہے۔ قومی شاہراہوں کی مسلسل بندش کے باعث کراچی اور دیگر اہم شہروں کو جانے والے مسافروں کے لیے فضائی سفر واحد راستہ رہ گیا ہے، لیکن ہوائی ٹکٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتیں مسافروں کے لیے مشکلات کا باعث بن رہی ہیں۔ اسلام آباد اور کراچی تک یکطرفہ کرایہ جو پہلے 16 ہزار روپے تھا، اب 98 ہزار روپے تک جا پہنچا ہے۔ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو نوٹس لینے کے لیے مراسلہ لکھ دیا ہے۔ چیمبر کے مطابق، کراچی جانے والی سڑک اب تک 76 مرتبہ بند ہو چکی ہے، اور آج بھی سوراب کے مقام پر بند ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کے سڑکیں کھلی رکھنے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ کوئٹہ کے تاجروں اور مسافروں نے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ قومی ائیرلائن کی روزانہ پروازیں شروع کی جائیں، تاکہ کوئٹہ سے اندرون ملک جانے والے مسافر اپنی منزل تک آسانی سے پہنچ سکیں۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ سڑکوں کی بندش کے باعث تجارتی سرگرمیاں بھی متاثر ہو رہی ہیں، اور فضائی سفر کی بڑھتی ہوئی قیمتیں ان کے لیے اضافی بوجھ بن گئی ہیں۔ ہوائی سفر کرنے والے مسافروں نے بھی حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ کوئٹہ سے قومی ائیرلائن کی پروازیں بڑھائے، تاکہ ٹکٹ کی قیمتوں میں کمی لائی جا سکے اور مسافروں کو سفر کرنے میں آسانی ہو۔ ان کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں عام آدمی کے لیے فضائی سفر کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ بلوچستان میں سڑکوں کی بندش کے پیچھے مختلف وجوہات ہیں، جن میں سیکیورٹی کے مسائل اور احتجاجی مظاہرے شامل ہیں۔ تاہم، اس کے نتیجے میں عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت کی جانب سے سڑکوں کو کھولنے اور فضائی سفر کو سستا بنانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے۔ اب تک کی صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے شہریوں کو سفر کے حوالے سے سنگین مشکلات کا سامنا ہے، اور حکومت کو اس مسئلے پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چیمبر آف کامرس اور عوام کے مطالبے کے بعد اب وفاقی حکومت کی جانب سے اس معاملے پر توجہ دینے کی توقع کی جا رہی ہے۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میرانشاہ میں دہشتگردوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں میں 4 سیکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے، جب کہ کم از کم 13 دہشتگرد بھی ہلاک ہوئے۔ آدھی رات کو ہونے والی ان جھڑپوں کے دوران دہشتگردوں نے متعدد سیکیورٹی چوکیوں پر حملہ کیا، جس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کی۔ ذرائع کے مطابق، اتوار کی رات کو ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے لیس دہشتگردوں نے اسپالگا، گوش، ٹپی، باروانا، پیپانا لوئر اور پپانا ٹاپ کی 6 سیکیورٹی چوکیوں پر بیک وقت حملہ کیا۔ سیکیورٹی فورسز نے حملہ آوروں کو موثر جواب دیا، جس کے نتیجے میں 13 دہشتگرد ہلاک ہوئے، جب کہ متعدد زخمی ہو کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ جھڑپوں کے دوران 4 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، جب کہ 13 زخمی ہوئے۔ شہید اور زخمی اہلکاروں کو میرانش
سپریم کورٹ میں ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف دائر انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت جاری ہے۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے اس معاملے کی سماعت کی، جس دوران جسٹس جمال مندوخیل نے اہم ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ "جرم کسی نے بھی کیا ہو، سزا تو ہونی چاہیے۔ ٹرائل یہاں ہو یا وہاں ہو، کیا فرق پڑتا ہے؟" سماعت کے دوران جسٹس محمد علی مظہر نے سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ ملٹری کورٹس سے کتنے لوگ رہا ہوئے ہیں؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ کل 105 ملزمان تھے، جن میں سے 20 ملزمان رہا ہوئے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ 20 کے بعد 19 مزید ملزمان رہا ہوئے ہیں، اور اس وقت جیلوں میں 66 ملزمان موجود ہیں۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ امریکا میں یہ رواج ہے کہ دلائل کے اختتام پر فریقین کو پروپوز ججمنٹ کا حق دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کورٹ مارشل کا بھی متبادل موجود ہے، لیکن ٹرائل کے طریقہ کار میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ایک ٹرائل آزاد ہوتا ہے، جب کہ دوسرا ملٹری کورٹس میں ہوتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جہاں دفاع پاکستان کو خطرہ ہو، وہاں سویلینز کا ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے۔ تاہم، 9 مئی کے واقعات میں زیادہ تر کیسز توڑ پھوڑ کے ہیں۔ درخواست گزار بشریٰ قمر کے وکیل عابد زبیری نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل نے اپیل کا حق دینے کی قانون سازی کا وعدہ کیا تھا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا اٹارنی جنرل ایسی انڈر ٹیکنگ دے سکتے ہیں جو قانون میں موجود نہ ہو؟ عابد زبیری نے جواب دیا کہ اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے ہی عدالت میں مؤقف اپنایا تھا۔ سماعت کے آخر میں عدالت نے مزید دلائل سننے کے لیے سماعت کو کل تک ملتوی کر دیا۔ یہ کیس ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کے حوالے سے اہم قانونی سوالات اٹھاتا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ نہ صرف 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے مستقبل کا تعین کرے گا، بلکہ ملک میں عدالتی نظام کے دائرہ کار اور ملٹری کورٹس کے اختیارات پر بھی اثرانداز ہوگا۔ سپریم کورٹ کی جانب سے اس معاملے پر تفصیلی سماعت سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت اس معاملے کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل کے ریمارکس نے اس بحث کو مزید تقویت بخشی ہے کہ جرم کی سزا ضروری ہے، لیکن ٹرائل کا طریقہ کار بھی منصفانہ اور شفاف ہونا چاہیے۔ اب عدالت کے فیصلے کا انتظار ہے، جو ملک کے عدالتی نظام اور ملٹری کورٹس کے کردار کے حوالے سے ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگا۔

Back
Top