سینیٹ کے اجلاس کے دوران سینیٹر عون عباس بپی کی گرفتاری پر اپوزیشن اور حکومتی اراکین کے درمیان شدید تناؤ پیدا ہو گیا۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور سینیٹر منظور کاکڑ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، جس کے بعد پی ٹی آئی سینیٹرز نے احتجاجی واک آؤٹ کیا۔
اجلاس کا آغاز ہوتے ہی قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے عون عباس بپی کی گرفتاری پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ اس ایوان کے ایک اور رکن کو آج صبح ساڑھے 8 بجے اٹھا لیا گیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا عون عباس بپی کو اٹھانے سے قبل چیئرمین سینیٹ کو بتایا گیا تھا؟
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عون عباس بپی کی گرفتاری ان کے لیے بھی ایک خبر تھی۔ انہوں نے بتایا کہ پنجاب وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ نے عون عباس بپی کے خلاف چنکارہ ہرن کے شکار کا مقدمہ درج کیا ہے۔
شبلی فراز نے کہا کہ عون بپی کے گھر کے اندر سے گرفتاری کی ویڈیوز ہمارے پاس ہیں، اور ان کے گھر میں شدید توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اعجاز چوہدری کے پروڈکشن آرڈر جاری ہونے کے بعد بھی انہیں نہیں لایا جا رہا۔
سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ عون عباس بپی ہمارے کولیگ ہیں، اور جب تک وہ ایوان میں نہیں آتے، کارروائی معطل کر دی جائے۔
ایوان کی کارروائی کے دوران ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر اور سینیٹر منظور کاکڑ کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ منظور کاکڑ نے کہا کہ ڈپٹی چیئرمین کو ہاتھ نیچے کر کے تمیز سے بات کرنی چاہیے، کیونکہ وہ بھی ایک سینیٹر ہیں۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے جواب دیا کہ منظور کاکڑ صاحب میٹھے آدمی ہیں، اور انہیں ٹھنڈے رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کو کسی کے دباؤ میں آ کر نہیں چلایا جا سکتا۔
عون عباس بپی کی گرفتاری پر پی ٹی آئی سینیٹرز نے احتجاجی واک آؤٹ کیا اور ایوان سے چلے گئے۔ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر نے کہا کہ حکومتی اراکین جاکر اپوزیشن کو منائیں، اور کسی کے دباؤ میں آ کر اس ایوان کو نہیں چلایا جا سکتا۔
منظور کاکڑ نے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ محسن عزیز کے بل پر اپوزیشن کے ووٹ زیادہ تھے، لیکن اس وقت قانون کی بات کیوں نہیں کی گئی؟ انہوں نے کہا کہ ہم خود حکومت میں ہیں، لیکن یہ مناسب نہیں کہ کسی بھی سینیٹر کو اٹھا لیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے لوگ ہیں جن کے خلاف بڑے بڑے کیسز ہیں، لیکن وہ باہر گھوم رہے ہیں۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان ناصر نے کہا کہ ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ اس ایوان کو قانون کے مطابق چلانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان کو کسی کے دباؤ کے تحت نہیں چلایا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بڑے بڑے نامی گرامی سیاستدان رہے ہیں، لیکن ماضی میں اپوزیشن کا رویہ اس طرح نہیں رہا۔ انہوں نے کہا کہ عون عباس بپی کی طرح ہر سینیٹر کی عزت ہے۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے وزیر قانون سے کہا کہ وہ عون عباس بپی کی گرفتاری پر مفصل رپورٹ پیش کریں۔
اس واقعے نے سینیٹ میں شدید تناؤ پیدا کر دیا ہے، اور اب دونوں اطراف کے اراکین کی توجہ اس معاملے پر مرکوز ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن اس معاملے کو کس طرح نمٹاتی ہیں، اور کیا عون عباس بپی کی گرفتاری کے حوالے سے کوئی واضح وضاحت پیش کی جاتی ہے۔
اب تک کی صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ سینیٹ میں سیاسی کشیدگی جاری رہے گی، اور دونوں اطراف کے درمیان مزید بحث و مباحثے ہو سکتے ہیں۔