خبریں

راولپنڈی اور اسلام آباد میں وقفے وقفے سے ہونے والی بارش کے بعد اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی چھت ایک بار پھر ٹپکنے لگی ہے۔ ایئرپورٹ انتظامیہ نے مسافروں کو ہونے والی مشکلات کو کم کرنے کے لیے لاؤنج میں ٹپکتی چھت کے نیچے بالٹیاں رکھ دی ہیں۔ انٹرنیشنل اور ڈومیسٹک آرائیول لاؤنج میں مسافروں کو چھت سے پانی ٹپکنے کے باعث مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ مسئلہ بارش کے دوران بار بار سامنے آتا ہے، جس سے ایئرپورٹ کی انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالات اٹھتے ہیں۔ خیال رہے کہ جڑواں شہروں میں وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری ہے۔ واسا (واٹر اینڈ سینیٹیشن ایجنسی) کے ترجمان کے مطابق، اسلام آباد اور راولپنڈی میں اب تک 60 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ کی گئی ہے۔ ترجمان واسا نے بتایا کہ نشیبی علاقوں میں ٹیمیں ہیوی مشینری کی مدد سے نکاسی آب کے کاموں میں مصروف ہیں۔ نالہ لئی اور شہر بھر کے دیگر نالوں کی مسلسل مانیٹرنگ کی جا رہی ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ سیلابی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔ بارش کے دوران اسلام آباد ایئرپورٹ کی چھت کا ٹپکنا ایک بار پھر انتظامیہ کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ مسافروں کا کہنا ہے کہ ایئرپورٹ جیسے اہم مقام پر اس قسم کی لاپروائی ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایئرپورٹ انتظامیہ اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرے تاکہ مسافروں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ واسا کی ٹیمیں شہر بھر میں نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں، لیکن بارش کے دوران اسلام آباد ایئرپورٹ جیسے اہم مقامات پر ہونے والی مشکلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ حکام سے گزارش ہے کہ وہ ایئرپورٹ کی چھت کے مسئلے کو فوری طور پر حل کریں اور مسافروں کو بہتر سہولیات فراہم کریں۔ اس کے علاوہ، شہر کے نکاسی آب کے نظام کو مزید بہتر بنانے کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ بارش کے دوران شہریوں کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پاکستان میں دہشتگردی میں ملوث ایک اور افغان شہری کی شناخت ہو گئی ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق، 28 فروری کو پاکستانی فورسز نے غلام خان کلے کے علاقے میں 14 دہشتگردوں کو ہلاک کیا، جن میں افغان شہری بھی شامل تھے۔ ہلاک ہونے والے دہشتگردوں میں سے ایک کا نام مجیب الرحمان عرف منصور ولد مرزا خان تھا۔ مجیب الرحمان افغانستان کے صوبہ میدان وردک کے ضلع چک کے گاؤں دندار کا رہائشی تھا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق، مجیب الرحمان افغانستان کی نیشنل ملٹری اکیڈمی کی تیسری بٹالین کا کمانڈر بھی رہ چکا تھا۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب پاکستانی فورسز نے دہشتگردی میں ملوث افغان شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔ 30 جنوری کو بھی پاکستانی فورسز نے ڈی آئی خان کے علاقے میں افغان دہشتگرد بدرالدین ولد مولوی غلام محمد کو ہلاک کیا تھا۔ بدرالدین افغان فوج میں لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز رہ چکا تھا اور وہ صوبہ باغدیس کے ڈپٹی گورنر کا بیٹا تھا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق، ہلاک ہونے والے دہشتگردوں میں افغان نائب گورنر کا بیٹا بھی شامل تھا، جو دہشتگردی کی سرگرمیوں میں ملوث تھا۔ پاکستانی فورسز کا یہ آپریشن ملک میں دہشتگردی کے خلاف جاری جنگ میں ایک اہم پیشرفت ہے۔ پاکستانی فورسز نے حالیہ مہینوں میں دہشتگردی کے خلاف متعدد کامیاب آپریشنز کیے ہیں، جن میں درجنوں دہشتگرد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان آپریشنز کا مقصد ملک میں امن و امان کو بحال کرنا اور دہشتگرد گروہوں کی کارروائیوں کو ناکام بنانا ہے۔ افغان شہریوں کی دہشتگردی میں ملوث ہونے کے واقعات پاکستان اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی کے حوالے سے چیلنجز کو اجاگر کرتے ہیں۔ پاکستانی حکام نے بارہا افغانستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشتگرد گروہوں کے خلاف استعمال ہونے سے روکے۔ حالیہ آپریشنز سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فورسز دہشتگردی کے خلاف اپنی جنگ میں سخت اور فیصلہ کن اقدامات کر رہی ہیں۔ حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ملک کے اندر اور سرحدوں کے پار دہشتگردی کے خلاف ہر ممکن کارروائی جاری رکھے گی۔ اب تک کی کارروائیوں کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی فورسز دہشتگرد گروہوں کے خلاف اپنی مہم میں کامیابی حاصل کر رہی ہیں، لیکن اس جنگ میں مزید کوششوں کی ضرورت ہے تاکہ ملک میں مکمل امن و استحکام بحال ہو سکے۔
ماہ رمضان کے دوران لاہور کے رمضان سہولت بازاروں میں چینی کی قیمت 130 روپے فی کلو مقرر کی گئی ہے، لیکن بیشتر بازاروں میں ایک کلو چینی خریدنے کے لیے شناختی کارڈ کی شرط عائد کر دی گئی ہے، جس سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا ہے۔ رمضان سہولت بازاروں میں ایک کلو چینی پر 40 روپے کی رعایت دی جا رہی ہے، لیکن خریداروں کا رش کم ہونے کے بجائے بڑھتا جا رہا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ شناختی کارڈ نہیں رکھتے، وہ ایک کلو چینی بھی نہیں خرید سکتے۔ یہ شرط خاص طور پر ان خاندانوں کے لیے مشکلات کا باعث بن رہی ہے جو اپنے ساتھ شناختی کارڈ نہیں لے کر آتے۔ لاہور کے سہولت بازاروں میں چینی کی وافر مقدار دستیاب ہے، اور شہریوں کو شناختی کارڈ نمبر درج کروا کر 5 کلو چینی دی جا رہی ہے۔ تاہم، ہربنس پورہ سبزہ زار کے سہولت بازاروں میں انتظامات تسلی بخش نہیں ہیں، جہاں شہریوں کو سستی چینی صرف ایک سے دو کلو تک ہی دی جا رہی ہے۔ ڈائریکٹر جنرل فوڈ پنجاب، شعیب جدون کے مطابق، بازاروں میں 10 کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت میں 20 سے 85 روپے تک کی کمی کی گئی ہے، جب کہ ریلیف اسٹالز پر چینی 130 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سستی اشیائے خورونوش کی فراہمی کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ شہریوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت شناختی کارڈ کی شرط کو ختم کرے یا کم از کم اسے آسان بنائے، تاکہ ہر کوئی سستی چینی سے فائدہ اٹھا سکے۔ رمضان کے مقدس مہینے میں غریب اور متوسط طبقے کے لیے سستی اشیاء کی دستیابی انتہائی اہم ہے، لیکن موجودہ شرائط نے کئی لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ حکومت کی جانب سے رمضان سہولت بازاروں میں اشیائے ضرورت کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کیے گئے ہیں، لیکن شہریوں کی شکایات کے پیش نظر مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ چینی کی قیمت کم کی گئی ہے، لیکن شناختی کارڈ کی شرط کے باعث کئی لوگ اس سہولت سے محروم ہو رہے ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ شہریوں کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس پالیسی پر نظرثانی کرے، تاکہ رمضان کے دوران ہر شہری کو سستی اشیاء تک رسائی حاصل ہو سکے۔
مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جس کے مطابق ملزم شیراز نے عدالت کے سامنے اعتراف جرم سے انکار کر دیا ہے۔ اس کیس کی سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کے روبرو ہوئی، جس میں ملزم شیراز نے الزام لگایا کہ ان پر اعترافی بیان دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ملزم شیراز نے عدالت میں بیان دیا، "مجھ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ میں اعتراف جرم کروں۔ مجھے کہا گیا ہے کہ اگر میں اعتراف کروں گا تو مجھے کم سزا ملے گی۔" ان کے بیان پر عدالت نے تفتیشی افسر کی جانب سے ملزم شیراز کا اعترافی بیان ریکارڈ کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ملزم شیراز کا کہنا ہے کہ وہ اس کیس کا گواہ ہے، نہ کہ ملزم۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے سامنے ارمغان نے مصطفیٰ عامر کو قتل کیا، لیکن وہ بے بس اور لاچار تھے، اس لیے کچھ نہیں کر سکے۔ ملزم شیراز نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے پولیس کو جو کچھ بھی بتایا، وہ گواہ بن کر بتایا تھا۔ تفتیشی افسر نے عدالت میں کہا کہ ملزم شیراز کا آج کا بیان ان کے حق میں گیا ہے، کیونکہ انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ قتل ان کی موجودگی میں ہوا۔ تاہم، شیراز نے واضح کیا کہ وہ ملزم نہیں، بلکہ چشم دید گواہ ہیں۔ انہوں نے کہا، "میں واحد چشم دید گواہ ہوں جس کے سامنے ارمغان نے مصطفیٰ عامر کو وحشیانہ انداز میں قتل کیا۔ میں وقوعہ کے وقت بے بس تھا اور مجھے اس کیس میں پھنسایا جا رہا ہے۔" ملزم شیراز نے مزید کہا کہ ارمغان نے لوہے کے راڈ سے مصطفیٰ عامر کو مارا، پھر اسے گن پوائنٹ پر بلوچستان لے گیا اور وہاں گاڑی سمیت جلا دیا۔ انہوں نے زور دیا کہ وہ اس واقعے کا گواہ ہے، نہ کہ ملزم، اور انہیں ناحق پھنسایا جا رہا ہے۔ عدالت نے تفتیشی افسر کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ملزم شیراز کے بیان کو اہمیت دی اور اس کیس کی مزید تفتیش جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ یہ پیش رفت مصطفیٰ عامر قتل کیس میں نئے موڑ کا اشارہ دیتی ہے، جس میں ابھی تک کئی سوالات کے جوابات تلاش کیے جا رہے ہیں۔ اس کیس نے عوامی اور میڈیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رکھی ہے، اور اب عدالتی کارروائی کے نتائج پر سب کی نظر ہے۔ ملزم شیراز کے بیان نے کیس کو ایک نئی جہت دی ہے، جس کے بعد تفتیشی اداروں پر اصل مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا دباؤ بڑھ گیا ہے۔
متحدہ عرب امارات (یو اے ای) نے گزشتہ 16 ماہ کے دوران 10 ہزار 100 سے زائد پاکستانی شہریوں کو ملک بدر کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ، سال 2024 میں 50 ہزار سے زیادہ پاکستانیوں کی ویزا درخواستیں بھی مسترد کی گئی ہیں۔ یہ معلومات وزارت خارجہ کے ذرائع نے فراہم کی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، ستمبر 2023 سے جنوری 2025 تک کے عرصے میں 4 ہزار 740 پاکستانی قیدیوں کو ملک بدر کیا گیا، جو یو اے ای کی مختلف جیلوں میں اپنی سزائیں کاٹ چکے تھے۔ اسی دورانیے میں مزید 5 ہزار 800 پاکستانی شہریوں کو مختلف جرائم کی بنیاد پر ملک بدر کر دیا گیا۔ وزارت خارجہ کے ذرائع نے بتایا کہ یو اے ای نے سال 2024 میں 50 ہزار سے زائد پاکستانی شہریوں کی ویزا درخواستیں مسترد کی ہیں۔ یہ اقدامات پاکستانی شہریوں کے خلاف یو اے ای کی سخت پالیسیوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، دنیا بھر کے کئی ممالک میں پاکستانی شہریوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، لیکن یو اے ای نے اس سلسلے میں سب سے زیادہ پاکستانیوں کو ملک بدر کیا ہے۔ یہ صورتحال پاکستانی شہریوں کے لیے بیرون ملک روزگار اور رہائش کے حوالے سے مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ وزارت خارجہ کے مطابق، یو اے ای کی جانب سے پاکستانی شہریوں کی ملک بدری اور ویزا درخواستوں کی مستردگی کے پیچھے مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں، جن میں غیر قانونی سرگرمیاں، ویزا قوانین کی خلاف ورزی، اور دیگر جرائم شامل ہیں۔ تاہم، اس عمل نے پاکستانی شہریوں کے لیے بیرون ملک کام کرنے کے مواقع کو محدود کر دیا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر یو اے ای کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں، تاکہ پاکستانی شہریوں کے حقوق کے تحفظ اور انہیں درپیش مشکلات کو کم کیا جا سکے۔ وزارت خارجہ نے پاکستانی شہریوں سے اپیل کی ہے کہ وہ بیرون ملک رہائش اور کام کے دوران مقامی قوانین کا سختی سے احترام کریں تاکہ انہیں ایسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ یہ صورتحال پاکستانی شہریوں کے لیے بیرون ملک روزگار کے حوالے سے ایک چیلنج بن گئی ہے، جس پر حکومت پاکستان اور یو اے ای کے درمیان مزید مذاکرات کی ضرورت ہے۔
پاکستان کے معروف اداکار ساجد حسن نے مصطفیٰ عامر قتل کیس میں پولیس کے رویے پر سخت تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا ہے کہ ان کے بیٹے ساحر حسن کو تشدد کا نشانہ بنا کر جبری طور پر بیان دلوایا گیا۔ ساجد حسن نے اس معاملے کو ایک "سوچی سمجھی سازش" قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ ساجد حسن نے ایکسپریس نیوز سے خصوصی گفتگو میں کہا، "میرے بیٹے ساحر کو مار پیٹ کر اپنی مرضی کا بیان دلوایا گیا۔ یہ دوسری بار ہے کہ پولیس نے میرے گھر پر چھاپہ مارا ہے۔ کیا میں اسے اتفاق کہوں یا سازش؟" انہوں نے بتایا کہ چار سال قبل بھی اسی طرح کی کوشش کی گئی تھی، لیکن وہ اس وقت کیس جیت گئے تھے۔ مصطفیٰ عامر قتل کیس میں تحقیقات کے دوران کئی نام سامنے آئے ہیں، جن میں ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کا نام بھی شامل ہے۔ ساحر پر الزام ہے کہ وہ مصطفیٰ عامر اور ارمغان کو منشیات فروخت کرتا تھا۔ تاہم، ساجد حسن کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا بے گناہ ہے اور اس معاملے میں کچھ بڑے نام بالواسطہ یا بلاواسطہ ملوث ہو سکتے ہیں۔ ساجد حسن نے کہا، "مجھے یقین ہے کہ ارمغان قاتل نہیں ہے۔ یہ ایک گورکھ دھندا ہے۔ اصل حقائق کو مسخ کرکے ایک نیا زاویہ بنا دیا گیا ہے۔" انہوں نے پولیس کے کردار کو مشکوک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کے گھر پر دو بار بغیر سرچ وارنٹ کے چھاپے مارے گئے۔ انہوں نے سوال اٹھایا، "کیوں انہیں لگتا تھا کہ ساحر ملوث ہے؟ اور اعترافات کون کر رہا ہے؟" ساجد حسن نے یہ بھی بتایا کہ ان کی جان کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں، اور انہیں لگتا ہے کہ اس کیس کے تانے بانے بنانے والوں نے انہیں بھی ملوث کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ انہوں نے کہا، "میرا بیٹا مصطفیٰ کے قاتلوں کی گرفتاری کی خواہش کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔" ساجد حسن نے بتایا کہ یہ سارا معاملہ ان کے خاندان کے لیے ایک گہرا صدمہ بن گیا ہے۔ ان کی اہلیہ کو مرگی کا عارضہ ہے، اور یہ حالات دیکھ کر وہ بہت گھبرا گئی ہیں۔ انہوں نے کہا، "ذاتی طور پر میرے لیے یہ ایک سانحہ ہے کیونکہ میری بہو اور اس کے والدین گہرے صدمے میں ہیں۔" ساجد حسن نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی شفاف تفتیش کی جائے اور اصل مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انہوں نے کہا، "اس سارے کھیل تماشے میں کچھ بڑے نام ملوث ہو سکتے ہیں۔ بگ باس کو ڈھونڈا جائے۔" ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن نے بھی اپنی بے گناہی پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ مصطفیٰ عامر کے قاتلوں کی گرفتاری چاہتا ہے۔ تاہم، اس سارے معاملے نے ساجد حسن کے خاندان کو گہرے صدمے میں مبتلا کر دیا ہے، اور انہوں نے انصاف کے حصول کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) نے پنجاب کے سرکاری اداروں کی کارکردگی اور شفافیت پر مبنی ایک جامع رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ میں پنجاب حکومت کی شفافیت کی سطح کو وفاقی حکومت کے مقابلے میں بہتر قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، پنجاب کے 253 سرکاری اداروں کا جائزہ لیا گیا، جن میں 43 پنجاب سیکرٹریٹ محکمے، 27 منسلک محکمے، 147 خود مختار ادارے، 23 سرکاری کمپنیاں، اور 13 خصوصی ادارے شامل ہیں۔ رپورٹ میں ان اداروں کی جانب سے معلومات کے انکشاف کی شرح کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔ فافن کی رپورٹ کے مطابق، وفاقی وزارتیں اوسطاً 42 فیصد تک معلومات کا انکشاف کر رہی ہیں، جب کہ پنجاب کے سرکاری ادارے 61 فیصد تک معلومات فعال طور پر عوام تک پہنچا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، پنجاب کے ذیلی ادارے اپنی ویب سائٹس پر 52 فیصد تک معلومات دستیاب کر رہے ہیں، جو شفافیت کے حوالے سے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ رپورٹ میں پنجاب حکومت کی جانب سے معلومات تک عوامی رسائی کو بہتر بنانے کی کوششوں کو سراہا گیا ہے۔ فافن کے مطابق، پنجاب کے اداروں کی کارکردگی اور شفافیت کے معیار نے وفاقی حکومت کے مقابلے میں بہتر نتائج دکھائے ہیں، جو صوبائی حکومت کی اصلاحات کی کامیابی کی عکاسی کرتا ہے۔ فافن کی یہ رپورٹ سرکاری اداروں میں شفافیت اور جوابدہی کو بہتر بنانے کے لیے اہم تجاویز پیش کرتی ہے۔ رپورٹ کے نتائج کے مطابق، پنجاب حکومت کی جانب سے معلومات کے انکشاف میں بہتری نے عوامی اعتماد میں اضافہ کیا ہے، جب کہ وفاقی سطح پر اس معیار کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ فافن نے اس رپورٹ کے ذریعے حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ شفافیت اور جوابدہی کے معیارات کو مزید بلند کریں تاکہ عوامی اداروں کی کارکردگی میں اضافہ ہو سکے۔
کراچی: ڈیفنس میں گاڑی سے کالے شیشے ہٹانے پر خاتون اور پولیس میں تلخ کلامی، ویڈیو وائرل کراچی کے علاقے ڈیفنس میں پولیس کی جانب سے ایک گاڑی سے کالے شیشے ہٹانے پر خاتون غصہ میں آگئیں اور پولیس اہلکاروں سے بدتمیزی کرنے لگیں اور دھمکیاں دینے لگیں، جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ خاتون پولیس سے بدتمیزی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کرتی ہیں کہ ان کی گاڑی کے کالے شیشے کیوں ہٹائے جارہے ہیں۔ انہوں نے پولیس اہلکاروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، "میں نے پولیس کو خریدا ہوا ہے، ایک سال سے کالے شیشے والی گاڑی چلا رہی ہوں۔" اس دوران پولیس افسر نے انہیں تحمل سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ انہیں بہن کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں، لیکن خاتون مسلسل سخت لہجے میں بات کرتی رہیں اور پولیس پر الزامات عائد کرتی رہیں۔ خاتون نے مزید کہا، "تم سب بکے ہوئے ہو، درخشاں اور ساحل تھانے والوں سے پوچھو۔" پولیس حکام کا کہنا ہے کہ خاتون کے رویے اور پولیس اہلکاروں کو دھمکیاں دینے کے معاملے کا جائزہ لیا جارہا ہے، اور اگر اعلیٰ حکام کی ہدایت ملی تو قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ڈی آئی جی ساؤتھ اسد رضا کے مطابق، مذکورہ خاتون مبینہ طور پر نشے کی حالت میں لگ رہی تھیں اور سگریٹ نوشی بھی کر رہی تھیں۔ جب پولیس اہلکاروں نے ان کی گاڑی روکی تو انہوں نے دھمکیاں دینا شروع کردیں اور بدتمیزی کی۔ ڈی آئی جی ساؤتھ نے مزید کہا کہ صورتحال کے پیش نظر ایک ڈی ایس پی کو موقع پر طلب کیا گیا تاکہ معاملے کا جائزہ لیا جاسکے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ کراچی بھر میں کالے شیشوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں اور پولیس کو دھمکیاں دینے پر قانونی چارہ جوئی کی جاسکتی ہے۔
کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان سردار سرفراز بگٹی نے کہا ہے کہ جن ضلعی انتظامیہ کے افسران (ڈی سیز) نے شاہراہیں کھلوانے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا ہے، انہیں فوری طور پر ہٹایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے لیے بلوچستان کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ بیانات دینا افسوسناک ہے۔ کوئٹہ میں مستحق افراد میں راشن تقسیم کی تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ نے کہا کہ اگر کسی کو حکومت سے شکایت ہے تو وہ پرامن طریقے سے احتجاج کرے، لیکن شاہراہیں بند کرنا قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ رمضان المبارک کے دوران شاہراہیں بند ہونے سے بزرگوں، بچوں، خواتین اور دیگر مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ کوسٹل ہائی وے 4 ہزار کلومیٹر طویل ہے، اور ریاست کا فرض ہے کہ وہ اس کے ہر انچ کا دفاع کرے۔ انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی ادارے صورتحال پر جلد قابو پالیں گے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ٹیٹرا ایکٹ قومی اسمبلی سے منظور ہوچکا ہے، اور امید ہے کہ یہ جلد سینیٹ سے بھی منظور ہوجائے گا۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال مکمل طور پر بہتر ہے، لیکن وہ 8 اضلاع سے متعلق عمر ایوب سمیت دیگر افراد کے دعووں کو مسترد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی مقاصد کے لیے بلوچستان کے حوالے سے غیر ذمہ دارانہ بیانات دینا افسوسناک ہے۔ وزیراعلیٰ نے مستحقین کے لیے رمضان راشن اسکیم کا افتتاح کیا، جس سے اڑھائی لاکھ خاندان مستفید ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم اے کو مستحقین میں منصفانہ راشن تقسیم کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ ڈی سیز نے مستحقین کی شارٹ لسٹنگ کی ہے، اور راشن تقسیم کا مقصد مستحقین کی خوشیوں میں اضافہ کرنا ہے۔ تاہم، شاہراہیں بند ہونے سے راشن کی تقسیم میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ میرٹ پر راشن تقسیم کریں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات دیگر صوبوں سے مختلف ہیں، اور دور دراز علاقوں میں لوگوں کے بینک اکاؤنٹس نہیں ہیں، جس کی وجہ سے انہیں کیش پیمنٹ دینا مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی احکامات کے باوجود شاہراہیں بند کر دی جاتی ہیں، اور اگر طاقت کا استعمال کیا جائے تو اس پر ردعمل آتا ہے۔ سرفراز بگٹی نے کہا کہ ڈی سیز کو شاہراہوں کی بحالی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والے خواتین اور شیرخوار بچوں کو ساتھ لاتے ہیں، جس سے صورتحال مزید پیچیدہ ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 144 کے تحت حکومت کو طاقت کا استعمال کرنے کا حق حاصل ہے، لیکن حکومت صبر و تحمل سے کام لے رہی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ کسی کو غائب کرکے حکومت پر دباؤ ڈالنا درست نہیں ہے، اور حکومت ہر صورتحال کو سنبھالنے کے لیے پوری طرح تیار ہے۔
اسلام آباد: موٹروے ایم ون کے سنگجانی انٹرچینج کے قریب نامعلوم شرپسندوں نے موٹروے پولیس کی گاڑی پر اچانک فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں ایک اہلکار زخمی ہو گیا اور گاڑی کو آگ لگنے سے مکمل طور پر تباہ ہو گئی۔ موٹروے پولیس حکام کے مطابق واقعہ اس وقت پیش آیا جب سب انسپکٹر اعجاز گل اور ہیڈ کانسٹیبل محمد ابراہیم بیٹ نمبر 4 میں معمول کی گشت پر تھے۔ جنڈ گاؤں کے قریب پہنچتے ہی جھاڑیوں میں چھپے تین مسلح افراد نے گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ فائرنگ سے گاڑی کے بونٹ اور اطراف کو متعدد گولیاں لگیں، جس سے گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی۔ معجزانہ طور پر دونوں اہلکار جان بچانے میں کامیاب رہے، تاہم ایک اہلکار زخمی ہو گیا۔ حملے کے دوران گاڑی میں موجود سرکاری رائفل، وائرلیس سیٹ، دو آئی فونز اور بلٹ پروف جیکٹس بھی آگ کی نذر ہو گئے۔ آگ اتنی شدید تھی کہ رائفل کے میگزین میں موجود گولیاں بھی دھماکوں سے پھٹتی رہیں۔ حملہ آور فائرنگ کے بعد فرار ہو گئے۔ اطلاع ملتے ہی موٹروے پولیس اور ضلعی پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور علاقے کی ناکہ بندی کر دی گئی۔ زخمی اہلکار کو فوری طور پر طبی امداد کے لیے منتقل کیا گیا۔ حکام کے مطابق ملزمان کی شناخت اور گرفتاری کے لیے سرچ آپریشن شروع کر دیا گیا ہے۔ سب انسپکٹر اعجاز گل کی مدعیت میں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7، اقدام قتل کی دفعہ 324 سمیت دیگر دفعات شامل کی گئی ہیں۔ انہوں نے بیان دیا کہ "ملزمان نے نہ صرف سرکاری گاڑی کو نشانہ بنایا بلکہ ہمیں قتل کرنے کی کوشش کی اور خوف و ہراس پھیلایا۔" پولیس کا کہنا ہے کہ یہ حملہ منظم دہشت گردی کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔ ملزمان کی تلاش کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور خفیہ معلومات کا سہارا لیا جا رہا ہے، جبکہ واقعے کی مکمل تحقیقات بھی شروع کر دی گئی ہیں۔ حکام نے عوام سے اپیل کی ہے کہ مشکوک سرگرمیوں کی اطلاع فوری طور پر پولیس کو دیں۔
راولپنڈی: راولپنڈی کے تھانہ نصیر آباد کے علاقے میں پولیس مقابلے میں 13 سالہ سلمان کی ہلاکت پر اس کے لواحقین نے سخت احتجاج کیا ہے۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پولیس نے سلمان کو 25 فروری کی صبح 3 بجے گھر سے گرفتار کیا تھا اور بعد میں اسے جعلی مقابلے میں قتل کر دیا۔ سلمان کے اہل خانہ نے الزام لگایا کہ پولیس نے ان کے گھر سے 2 لاکھ روپے نقدی اور 5 تولے زیور بھی اٹھا لیا تھا۔ ان کا مؤقف ہے کہ سلمان نہ کسی مقدمے میں مطلوب تھا اور نہ ہی کسی بیماری میں مبتلا تھا۔ انہوں نے کہا کہ سلمان کو پولیس حراست میں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس کے نشانات اس کے جسم پر واضح ہیں، جبکہ اس کی ایک آنکھ بھی ضائع کر دی گئی۔ پولیس نے گزشتہ روز دعویٰ کیا تھا کہ سلمان اور اس کے ساتھی خلیل کو پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا تھا۔ تاہم، لواحقین اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے انصاف کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے ان سے سلمان کی لاش ہسپتال سے وصول کرنے کا کہا اور اب اسے جعلی مقابلہ قرار دے رہی ہے۔ سلمان کے اہل خانہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس مبینہ جعلی پولیس مقابلے کے خلاف بھرپور احتجاج کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے میں انصاف کے لیے ہر ممکن قانونی اور سیاسی جدوجہد کریں گے۔ دوسری جانب، ترجمان راولپنڈی پولیس نے سلمان کے حوالے سے خبر کو بے بنیاد قرار دے دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ خبر حقائق کے منافی اور گمراہ کن ہے، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ترجمان پولیس نے بتایا کہ سلمان خطرناک ڈکیت گینگ کا رکن تھا اور ڈکیتی کی متعدد وارداتوں میں ملوث تھا۔ سلمان کی ہلاکت کے معاملے پر لواحقین اور پولیس کے بیانات میں تضاد پایا جاتا ہے۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ سلمان بے گناہ تھا اور اسے جعلی مقابلے میں قتل کیا گیا، جبکہ پولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ خطرناک مجرم تھا۔ اس معاملے کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ حقائق سامنے آ سکیں اور انصاف کا تقاضا پورا ہو سکے۔
لوئر دیر: ملاکنڈ یونیورسٹی کے لیکچرار عبدالحسیب پر جنسی ہراسانی کے الزامات ثابت ہونے پر انہیں ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ کے اجلاس میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں کیا گیا۔ 4 فروری کو ملاکنڈ یونیورسٹی کے اردو ڈپارٹمنٹ کی ایک طالبہ نے لیکچرار عبدالحسیب پر اغوا اور جنسی ہراسانی کا مقدمہ درج کیا تھا۔ اس کے بعد 5 فروری کو یونیورسٹی انتظامیہ نے ملزم کو معطل کر دیا تھا اور معاملہ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کے حوالے کیا تھا۔ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی نے تفصیلی تحقیقات کے بعد عبدالحسیب کے خلاف الزامات کو ثابت پایا۔ کمیٹی نے سفارش کی کہ ملزم کو ملازمت سے برطرف کیا جائے۔ اس سفارش پر عمل کرتے ہوئے یونیورسٹی کے سینڈیکیٹ نے اجلاس میں عبدالحسیب کو برطرف کرنے کا فیصلہ کیا۔ ملاکنڈ یونیورسٹی کے ذرائع نے بتایا کہ یونیورسٹی ہراسمنٹ کے معاملات پر سخت موقف رکھتی ہے اور ایسے واقعات میں فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے ملزم کو برطرف کر دیا گیا ہے تاکہ یونیورسٹی کا ماحول محفوظ اور پراعتماد رہے۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ طلبہ و طالبات کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے پرعزم ہے۔ اینٹی ہراسمنٹ کمیٹی کی سفارشات پر عمل کرتے ہوئے عبدالحسیب کو برطرف کرنے کا فیصلہ یونیورسٹی کے سخت اصولوں اور اقدار کی عکاسی کرتا ہے۔ اس اقدام سے یونیورسٹی میں ہراسمنٹ کے خلاف صفر رواداری کی پالیسی کو مزید تقویت ملی ہے۔
چترال: چترال کے گول نیشنل پارک میں ایک روسی شکاری نے رواں سال کے سب سے بڑے مارخور کا شکار کر لیا۔ ڈویژنل فاریسٹ آفیسر (ڈی ایف او) رضوان اللہ یوسف زئی کے مطابق، شکار کیے گئے مارخور کی عمر 14 سال تھی، جبکہ اس کے سینگوں کا سائز 55 انچ ہے۔ رضوان اللہ یوسف زئی نے بتایا کہ روسی شکاری الیکسی کمپ نے 71 ہزار امریکی ڈالر (تقریباً 2 کروڑ روپے) ادا کر کے مارخور کا شکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ شکار کیے گئے مارخور کی کھال اور سینگ کو باہر نہیں لے جایا جا سکتا، کیونکہ یہ نان ایکسپورٹیبل (غیر برآمدی) شکار تھا۔ ڈی ایف او نے بتایا کہ رواں سال کے چاروں نان ایکسپورٹیبل شکار مکمل ہو چکے ہیں، اور یہ شکار سب سے بڑا اور نمایاں رہا۔ انہوں نے کہا کہ مارخور کے شکار کے لیے لائسنس جاری کرنے کا عمل سخت نگرانی میں کیا جاتا ہے تاکہ جنگلی حیات کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔ مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے اور اسے بین الاقوامی سطح پر خطرے سے دوچار انواع میں شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مارخور کے شکار کے لیے لائسنس جاری کرنے کا مقصد اس کی نسل کے تحفظ کے لیے فنڈز جمع کرنا ہے۔ شکار کے لیے ادا کی جانے والی رقم جنگلی حیات کے تحفظ اور مقامی کمیونٹی کی ترقی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ چترال کے گول نیشنل پارک میں مارخور کا شکار ایک نایاب اور قیمتی واقعہ ہے۔ روسی شکاری الیکسی کمپ نے جو رقم ادا کی ہے، وہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اہم کردار ادا کرے گی۔ پاکستان کے جنگلاتی محکمے کا کہنا ہے کہ وہ مارخور جیسے نایاب جانوروں کے تحفظ کے لیے پرعزم ہیں اور اس سلسلے میں سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
بہاولپور: چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ جنگ کے جدید رجحانات کے مطابق پاک فوج کی تربیت کا عمل جاری ہے۔ انہوں نے بہاولپور کنٹونمنٹ کے دورے کے دوران بہاولپور کور کے افسران اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے یہ بات کہی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، آرمی چیف نے بہاولپور کور کی آپریشنل تیاریوں اور تربیت کے پہلوؤں پر تفصیلی بریفنگ حاصل کی۔ انہوں نے افسران اور جوانوں کے غیر متزلزل لگن، بلند حوصلے اور حربی تیاریوں کو سراہا۔ جنرل عاصم منیر نے کہا کہ سخت تربیت سپاہی کی پیشہ ورانہ بہتری میں کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ جدید جنگی حربوں کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سخت تربیت کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاک فوج کو ہر قسم کے حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے تاکہ ملک کی سلامتی کو یقینی بنایا جا سکے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، آرمی چیف نے سی ایم ایچ انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز، انووسیٹا چولستان، اور آئی سی ایس ایرینا کا بھی افتتاح کیا۔ انہوں نے سی آئی ایم ایس میں بہاولپور کی جامعات کے طلبہ سے بھی بات چیت کی۔ جنرل عاصم منیر نے طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قومی ترقی کے لیے نوجوانوں کو اپنی صلاحیتوں کو نکھارنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی ترقی اور مستقبل میں نوجوانوں کا اہم کردار ہے۔ آرمی چیف نے نوجوانوں کو حوصلہ دیا کہ وہ تعلیم اور ہنر میں مہارت حاصل کریں تاکہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر سکیں۔ آرمی چیف کے دورے کا بنیادی مقصد پاک فوج کی تیاریوں کا جائزہ لینا اور جوانوں کے حوصلے بلند کرنا تھا۔ جنرل عاصم منیر نے زور دیا کہ پاک فوج کو جدید جنگی چیلنجز کے لیے ہمیشہ تیار رہنا چاہیے۔ انہوں نے نوجوانوں کو ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی تلقین کی اور کہا کہ تعلیم اور ہنر ہی کامیابی کی کنجی ہیں۔
کراچی: کراچی سٹی کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں بوٹ بیسن میں شہری برکت سومرو اور اس کے دوست پر تشدد کے کیس کی سماعت ہوئی، جس کے دوران تفتیشی افسر کی درخواست پر گرفتار 5 گارڈز کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ دے دیا گیا۔ یہ گارڈز بلوچستان کے بااثر خاندان کے سپوت شاہ زین مری کے ملازم ہیں، جو اس واقعے میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیے گئے تھے۔ واقعہ کراچی کے علاقے بوٹ بیسن کی فوڈ اسٹریٹ پر پیش آیا، جہاں شاہ زین مری اور اس کے گارڈز نے شہری برکت سومرو اور اس کے دوست پر تشدد کیا۔ اس واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے 5 گارڈز کو گرفتار کیا تھا۔ شاہ زین مری کی گرفتاری کے لیے کراچی پولیس نے بلوچستان حکومت سے رابطہ کیا ہے۔ سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے سی سی ٹی وی فوٹیج عدالت میں پیش کی، جس میں گرفتار ملزمان کو تشدد کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کا فرانزک تجزیہ کرانا ہے اور ملزمان کو مزید تفتیش کے لیے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کرنا ضروری ہے۔ گرفتار ملزمان کے وکیل نے کہا کہ شاہ زین مری کوئٹہ میں موجود ہے، لیکن اسے گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ سسٹم میں اتنا دم نہیں ہے شاہ زین مری کو گرفتار کرے، شاہ زین مری یہاں بھی آکر کھڑا ہو جائے پولیس اس کو نہیں پکڑے گی، گرفتار افراد صرف گھر پر کام کرنے والے ملازمین ہیں، جو واقعے کے وقت موجود ہی نہیں تھے۔ وکیل نے الزام لگایا کہ میڈیا میں خبریں چلنے کی وجہ سے ان گارڈز کو گرفتار کیا گیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے گاڑی کا ریکارڈ معلوم کر لیا گیا ہے اور ملزمان کی شناخت کی جا چکی ہے۔ واقعے کے بعد پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے 5 گارڈز کو گرفتار کیا تھا۔ شہری پر تشدد کے واقعے کا مقدمہ دفعہ 324/34/147/148/149/506-B/504 کے تحت درج کیا گیا ہے، جس میں غیر قانونی اسلحہ رکھنے، تشدد اور دھمکیوں کے الزامات شامل ہیں۔ عدالت نے تفتیشی افسر کی درخواست کو تسلیم کرتے ہوئے گرفتار 5 گارڈز کو 2 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ اب پولیس مزید تفتیش کے بعد اگلی سماعت میں رپورٹ پیش کرے گی۔ شاہ زین مری کی گرفتاری کے لیے بلوچستان حکومت سے رابطہ جاری ہے، جبکہ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاک بھارت میچ والے روز بھارت میں "پاکستان زندہ باد" کے نعرے لگانے والے مسلمان کباڑیے کے گھر کو مسمار کردیا گیا۔ ملوان، مہاراشٹر: برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق انڈین ریاست مہاراشٹر کے علاقے ملوان میں چیمپیئنز ٹرافی میں پاکستان اور انڈیا کے میچ کے بعد مبینہ طور پر ’پاکستان زندہ باد‘ کا نعرہ لگانے پر ایک مسلمان کباڑیے کا گھر مسمار کر دیا گیا ہے۔ یہ واقعہ 23 فروری کو دبئی میں کھیلے گئے میچ کے بعد پیش آیا، جس میں انڈیا نے پاکستان کو شکست دی تھی۔ میچ کے بعد ملوان میں ایک کباڑ کے کاروبار سے منسلک مسلمان تاجر، ان کی اہلیہ اور 15 سالہ بیٹے پر ’ملک مخالف نعرے‘ لگانے کا الزام لگایا گیا۔ مقامی افراد نے اس پر شدید غصے کا اظہار کیا اور تاجر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ شیو سینا کے رکن ریاستی اسمبلی نلیش رانا نے اس معاملے پر جارحانہ موقف اپناتے ہوئے ملوان میونسپل کونسل کو خط لکھا، جس کے بعد تاجر کا گھر بلڈوزر کے ذریعے مسمار کر دیا گیا۔ ملوان پولیس نے تاجر اور ان کے خاندان کے تین افراد کو گرفتار کر لیا تھا، لیکن بعد ازاں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ شکایت درج کروانے والے شہری سچن سندیپ ورادکر نے دعویٰ کیا کہ تاجر کے بیٹے نے ’پاکستان زندہ باد، انڈیا میچ ہارے گا‘ کے نعرے لگائے تھے۔ شیو سینا کے رکن نلیش رانا نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’گذشتہ روز انڈیا اور پاکستان کے میچ کے بعد کباڑ کے کاروبار سے منسلک ایک پناہ گزین مسلمان تاجر نے انڈیا مخالف نعرے لگائے تھے۔ ہم اسے ضلع بدر کریں گے لیکن اس سے قبل ہم فوری طور پر اس کا کباڑ کا کاروبار تباہ کریں گے۔‘ انہوں نے پولیس اور میونسپل کونسل کا شکریہ بھی ادا کیا۔ ماہرین قانون نے میونسپل کونسل کے اس عمل کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔ ماہر قانون عاصم سروڈے کا کہنا ہے کہ ’گھر کے غیر قانونی ہونے کا پیشگی نوٹس دیے بغیر ایسی کارروائی کرنا غیر قانونی عمل ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایسا تھا تو پہلے کیوں نوٹس نہیں لیا گیا؟‘ ملوان کے سپرنٹینڈنٹ آف پولیس (ایس پی) سوربھ اگروال کا کہنا ہے کہ ’اس کیس کی تحقیقات جاری ہیں۔ ملک مخالف نعرے لگانے کی کوئی ویڈیو موجود نہیں ہے، اور ہم نے تمام کارروائی ایک شخص کی شکایت پر کی ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ گرفتار افراد کا تعلق اتر پردیش سے ہے، لیکن وہ گذشتہ 20 سے 25 سالوں سے سندھودرگ میں رہائش پزیر ہیں۔ یہ واقعہ انڈیا میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتی ہوئی عدم رواداری کی ایک اور مثال ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات میں قانونی کارروائی کے بجائے سیاسی دباؤ کے تحت اقدامات کرنا تشویشناک ہے۔ تاجر کے خاندان کو اب اپنے گھر اور روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا ہے، جبکہ معاملے کی تحقیقات جاری ہیں۔
کمشنر کراچی کی جانب سے جاری کردہ پھلوں اور سبزیوں کے نرخ نامے کا اثر پہلے ہی دن ختم ہوگیا، اور رمضان کے پہلے روزے سے قبل ہی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا۔ ڈان نیوز کے مطابق، کمشنر کی طرف سے جاری کردہ پرائس لسٹ میں پیاز کی قیمت 63 روپے فی کلو مقرر کی گئی تھی، تاہم مارکیٹ میں پیاز 80 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے۔ اسی طرح لہسن 610 روپے کے بجائے 1200 روپے فی کلو میں مل رہا ہے۔ پھلوں کی قیمتوں میں بھی نمایاں فرق نظر آ رہا ہے۔ کیلا 146 روپے کے بجائے 250 روپے فی درجن، سیب 219 کے بجائے 350 روپے فی کلو، اور امرود 138 کے بجائے 200 روپے فی کلو فروخت کیا جا رہا ہے۔ مارکیٹ میں سبزیوں کے نرخ بھی کمشنر کی فہرست سے مختلف ہیں۔ آلو کی قیمت کمشنر کی لسٹ میں 92 روپے ہے، جبکہ دکاندار انہیں 70 روپے فی کلو بیچ رہے ہیں۔ مرچیں 58 روپے کے بجائے 100 روپے فی کلو، دھنیا 5 روپے کے بجائے 30 روپے فی گڈی، اور پودینا 6 روپے کے بجائے 15 روپے فی گڈی میں دستیاب ہے۔ فروٹ کے نرخ بھی انتہائی زیادہ ہیں۔ کیلا 146 روپے کے بجائے 250 روپے فی درجن، سیب 219 روپے کے بجائے 350 روپے فی کلو، امرود 138 روپے کے بجائے 200 روپے فی کلو، موسمی 161 روپے کے بجائے 300 روپے فی درجن، اور اسٹرابیری 161 روپے کے بجائے 450 روپے فی کلو فروخت ہو رہی ہے۔ یاد رہے کہ کمشنر کراچی نے ایک دن قبل رمضان کے دوران اشیاء خوردونوش کی قیمتوں کی فہرست جاری کی تھی، اور انتظامیہ کو ہدایت کی تھی کہ وہ ان قیمتوں پر عمل درآمد کرائیں۔ تاہم، کراچی میں رمضان کے پہلے روزے سے پہلے ہی سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں اچانک اضافہ دیکھنے کو آیا ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ رمضان میں تنخواہ دار طبقہ پہلے ہی پھل خریدنے کی استطاعت سے محروم ہو چکا ہے، اور اب مافیا کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے افطار میں کسی پھل کا لطف اٹھانا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ شہریوں نے انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قیمتوں کو کنٹرول کرے تاکہ متوسط طبقہ بھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ افطار میں کم از کم ایک پھل تو خرید سکے۔
کراچی: مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تفتیش کے دوران منشیات کے مقدمات میں گرفتار ملزم ساحر حسین نے اسپیشلائزڈ یونٹ کے سامنے ہوشربا انکشافات کر دیے ہیں۔ ساحر حسین نے بڑے بزنس مین، سیاستدانوں اور دیگر اہم شخصیات کے نام بتا کر منشیات کے گندے دھندے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ ملزم ساحر حسین نے تفتیشی افسران کو بتایا کہ منشیات کی ترسیل کا طریقہ کار بہت منظم ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ وہ خود تعلیمی اداروں میں جا کر منشیات فروخت کرتے ہیں۔ درحقیقت، کالج اور یونیورسٹی کے طلبا آن لائن موبائل ایپ کے ذریعے منشیات کا آرڈر کرتے ہیں، جس کے بعد مخصوص مقامات پر ڈیلیوری دی جاتی ہے۔ ساحر حسین نے بتایا کہ وہ طلبا سے دوستی کرتے ہیں اور پھر انہیں ویڈ (weed) استعمال کی عادت میں مبتلا کرتے ہیں۔ ابتدا میں ایک یونیورسٹی یا کالج میں چند خریدار ہوتے ہیں، لیکن چند ماہ میں ہی منشیات کے خریداروں کا سرکل بڑھ جاتا ہے۔ ایس ایس پی شعیب میمن نے بتایا کہ شہر میں ویڈ فروخت کے دو بڑے گروپس کام کر رہے ہیں۔ ایک گروپ کیلیفورنیا سے غیر قانونی طریقے سے ویڈ منگواتا ہے، جبکہ دوسرا گروپ ایرانی ویڈ فروخت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مصطفیٰ عامر اور ساحر حسین کے گٹھ جوڑ کے ٹوٹنے سے ویڈ کی 50 فیصد فروخت رک گئی تھی، اور اب منشیات استعمال کرنے والوں کو یہ آسانی سے دستیاب نہیں ہے۔ ایس ایس پی شعیب میمن نے مزید کہا کہ ویڈ فروخت کرنے والے 20 اہم کردار منظر عام سے غائب ہو چکے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس ایرانی ویڈ گروپ کے خلاف گھیرا تنگ کر رہی ہے اور کوئی بھی ملزم ملک سے باہر نہیں گیا ہے۔ ساحر حسین، جو اداکار ساجد حسن کے بیٹے ہیں، کو منشیات کی برآمدگی کے کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ انہوں نے تفتیش کے دوران بتایا کہ وہ 2 سال سے ویڈ فروخت کر رہے تھے اور بازل اور یحییٰ جیسے افراد سے منشیات لے کر فروخت کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کوریئر کمپنیوں کے ذریعے کروڑوں کی منشیات منگواتے تھے اور ہر ہفتے 4 سے 5 لاکھ روپے ادا کرتے تھے۔ ساحر حسین نے یہ بھی بتایا کہ منشیات کی آن لائن رقم ان کے والد کے منیجر کے اکاؤنٹ میں جمع کروائی جاتی تھی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وہ 5 سال سے ماڈلنگ اور 13 سال سے ویڈ کا نشہ کر رہے ہیں۔ تفتیشی حکام نے بتایا کہ ساحر حسین اور مصطفیٰ عامر کراچی کے بڑے منشیات ڈیلرز میں شامل تھے۔ انہوں نے ڈارک ویب کے ذریعے منشیات کی سپلائی کا بھی اعتراف کیا ہے۔ ساحر حسین کے انکشافات نے منشیات کے گندے دھندے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ پولیس اب ان بڑے ناموں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے جو اس غیر قانونی کاروبار میں ملوث ہیں۔ شہر میں منشیات کی فروخت کو روکنے کے لیے مزید اقدامات کی تیاری کی جا رہی ہے۔
اسلام آباد: وفاقی وزارت تخفیف غربت و سماجی تحفظ نے سال 2025 کے لیے زکوٰۃ کا نصاب جاری کر دیا ہے۔ وزارت کے مطابق، یکم رمضان المبارک کو بینک اکاؤنٹس میں ایک لاکھ 79 ہزار 689 روپے یا اس سے زائد رقم موجود ہونے کی صورت میں زکوٰۃ کی کٹوتی کی جائے گی۔ وزارت تخفیف غربت و سماجی تحفظ نے بینکوں کو بھیجے گئے مراسلے میں بتایا کہ زکوٰۃ و عشر آرڈیننس 1980 کے تحت یکم رمضان المبارک کو ایک لاکھ 79 ہزار 689 روپے سے کم بیلنس والے اکاؤنٹس زکوٰۃ کی کٹوتی سے مستثنٰی ہوں گے۔ ان اکاؤنٹس سے زکوٰۃ منہا نہیں کی جائے گی۔ مراسلے میں کہا گیا کہ زکوٰۃ کی کٹوتی یکم یا 2 مارچ کو رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کی مناسبت سے کی جائے گی۔ بچت اکاؤنٹس، نفع و نقصان کے اکاؤنٹس، اور اسی طرح کے دیگر اکاؤنٹس پر زکوٰۃ لاگو ہوگی۔ تاہم، کرنٹ اکاؤنٹس سے زکوٰۃ کی کٹوتی نہیں کی جائے گی۔ وزارت نے بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ زکوٰۃ کی کٹوتی کے لیے درست طریقہ کار اپنائیں اور صارفین کو اس بارے میں مناسب معلومات فراہم کریں۔ بینکوں کو یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ زکوٰۃ کی کٹوتی صرف ان اکاؤنٹس سے کی جائے جو نصاب کے مطابق ہوں۔ زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، جو مالدار افراد پر فرض ہے۔ وزارت تخفیف غربت و سماجی تحفظ کا یہ اقدام غریب اور ضرورت مند افراد تک زکوٰۃ کی رقم پہنچانے کے لیے اہم ہے۔ عوام سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ اپنے بینک اکاؤنٹس کی بیلنس کی جانچ پڑتال کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔
کراچی: سندھ کے سینئر وزیر اور وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال اور اس کے معاشرے پر تباہ کن اثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ منشیات کی لت میں مبتلا بچے نہ صرف خود تباہ ہو رہے ہیں بلکہ اپنے والدین کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ شرجیل میمن نے مصطفیٰ قتل کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پچھلے ایک سال سے اس معاملے پر دہائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہاتھ جوڑ کر گزارش کرتا ہوں کہ اس پر فوکس کریں۔ والدین سے کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو دیکھیں۔" انہوں نے بتایا کہ ایک اداکار کا بچہ بھی منشیات کے کیس میں ملوث پایا گیا، جس پر انہیں بہت افسوس ہوا۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ منشیات کی لت میں مبتلا بچے اپنے والدین کو بھی مارنے پر اتر آتے ہیں۔ انہوں نے حیدرآباد کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آکاش انصاری کو اس کے بیٹے نے ہی قتل کیا تھا۔ شرجیل میمن نے کہا، "ہم معاشرے میں مونسٹر پیدا کر رہے ہیں۔ منشیات سے دور رہیں اور اپنے بچوں کو بچائیں۔" شرجیل میمن نے بتایا کہ سندھ حکومت عوام کو ہر ممکن ریلیف فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔ ان فیصلوں میں ڈاؤ سائنس فاؤنڈیشن کے قیام، سندھ کے لیے نئی بسوں کی فراہمی، کینجھر جھیل منصوبے، اور کراچی واٹر سیوریج لائن منصوبے کی منظوری شامل ہیں۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ کو 2025 کے بجٹ میں ایک بھی بس فراہم نہیں کی، جبکہ شہباز شریف نے کراچی کے لیے 180 بسز فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو خط لکھ کر اس وعدے کو پورا کرنے کی درخواست کی جائے گی۔ شرجیل میمن نے اعلان کیا کہ سندھ حکومت خواتین کو مفت پنک اسکوٹر فراہم کرے گی۔ جن خواتین کے پاس موٹرسائیکل چلانے کا لائسنس ہوگا، انہیں مفت اسکوٹر دیا جائے گا۔ اس سکیم کے تحت ہر ماہ قرعہ اندازی کی جائے گی۔ سندھ کے سینئر وزیر نے ایم کیوایم پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایم کیوایم کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، "یہ نفرت پھیلانے، لڑائی جھگڑے کرانے، اور ہڑتالوں کی کال دینے والی جماعت ہے۔ یہ وہی فاروق ستار ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ اگر یہ ہوا تو آگ لگا دیں گے۔ لیکن اب وہ لوگ جیلوں میں بیٹھے ہیں۔" شرجیل میمن نے زور دیا کہ معاشرے کو منشیات سے پاک کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے تاکہ صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔

Back
Top