خبریں

اسلام آباد: وفاقی وزارت تخفیف غربت و سماجی تحفظ نے سال 2025 کے لیے زکوٰۃ کا نصاب جاری کر دیا ہے۔ وزارت کے مطابق، یکم رمضان المبارک کو بینک اکاؤنٹس میں ایک لاکھ 79 ہزار 689 روپے یا اس سے زائد رقم موجود ہونے کی صورت میں زکوٰۃ کی کٹوتی کی جائے گی۔ وزارت تخفیف غربت و سماجی تحفظ نے بینکوں کو بھیجے گئے مراسلے میں بتایا کہ زکوٰۃ و عشر آرڈیننس 1980 کے تحت یکم رمضان المبارک کو ایک لاکھ 79 ہزار 689 روپے سے کم بیلنس والے اکاؤنٹس زکوٰۃ کی کٹوتی سے مستثنٰی ہوں گے۔ ان اکاؤنٹس سے زکوٰۃ منہا نہیں کی جائے گی۔ مراسلے میں کہا گیا کہ زکوٰۃ کی کٹوتی یکم یا 2 مارچ کو رمضان المبارک کی پہلی تاریخ کی مناسبت سے کی جائے گی۔ بچت اکاؤنٹس، نفع و نقصان کے اکاؤنٹس، اور اسی طرح کے دیگر اکاؤنٹس پر زکوٰۃ لاگو ہوگی۔ تاہم، کرنٹ اکاؤنٹس سے زکوٰۃ کی کٹوتی نہیں کی جائے گی۔ وزارت نے بینکوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ زکوٰۃ کی کٹوتی کے لیے درست طریقہ کار اپنائیں اور صارفین کو اس بارے میں مناسب معلومات فراہم کریں۔ بینکوں کو یہ بھی یقینی بنانا ہوگا کہ زکوٰۃ کی کٹوتی صرف ان اکاؤنٹس سے کی جائے جو نصاب کے مطابق ہوں۔ زکوٰۃ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک ہے، جو مالدار افراد پر فرض ہے۔ وزارت تخفیف غربت و سماجی تحفظ کا یہ اقدام غریب اور ضرورت مند افراد تک زکوٰۃ کی رقم پہنچانے کے لیے اہم ہے۔ عوام سے گزارش کی گئی ہے کہ وہ اپنے بینک اکاؤنٹس کی بیلنس کی جانچ پڑتال کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کو یقینی بنائیں۔
کراچی: سندھ کے سینئر وزیر اور وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال اور اس کے معاشرے پر تباہ کن اثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ منشیات کی لت میں مبتلا بچے نہ صرف خود تباہ ہو رہے ہیں بلکہ اپنے والدین کو بھی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ شرجیل میمن نے مصطفیٰ قتل کیس کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پچھلے ایک سال سے اس معاملے پر دہائی دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہاتھ جوڑ کر گزارش کرتا ہوں کہ اس پر فوکس کریں۔ والدین سے کہتا ہوں کہ اپنے بچوں کو دیکھیں۔" انہوں نے بتایا کہ ایک اداکار کا بچہ بھی منشیات کے کیس میں ملوث پایا گیا، جس پر انہیں بہت افسوس ہوا۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ منشیات کی لت میں مبتلا بچے اپنے والدین کو بھی مارنے پر اتر آتے ہیں۔ انہوں نے حیدرآباد کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آکاش انصاری کو اس کے بیٹے نے ہی قتل کیا تھا۔ شرجیل میمن نے کہا، "ہم معاشرے میں مونسٹر پیدا کر رہے ہیں۔ منشیات سے دور رہیں اور اپنے بچوں کو بچائیں۔" شرجیل میمن نے بتایا کہ سندھ حکومت عوام کو ہر ممکن ریلیف فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس ہوا، جس میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔ ان فیصلوں میں ڈاؤ سائنس فاؤنڈیشن کے قیام، سندھ کے لیے نئی بسوں کی فراہمی، کینجھر جھیل منصوبے، اور کراچی واٹر سیوریج لائن منصوبے کی منظوری شامل ہیں۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ وفاقی حکومت نے سندھ کو 2025 کے بجٹ میں ایک بھی بس فراہم نہیں کی، جبکہ شہباز شریف نے کراچی کے لیے 180 بسز فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کو خط لکھ کر اس وعدے کو پورا کرنے کی درخواست کی جائے گی۔ شرجیل میمن نے اعلان کیا کہ سندھ حکومت خواتین کو مفت پنک اسکوٹر فراہم کرے گی۔ جن خواتین کے پاس موٹرسائیکل چلانے کا لائسنس ہوگا، انہیں مفت اسکوٹر دیا جائے گا۔ اس سکیم کے تحت ہر ماہ قرعہ اندازی کی جائے گی۔ سندھ کے سینئر وزیر نے ایم کیوایم پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایم کیوایم کی کوئی سیاسی اہمیت نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، "یہ نفرت پھیلانے، لڑائی جھگڑے کرانے، اور ہڑتالوں کی کال دینے والی جماعت ہے۔ یہ وہی فاروق ستار ہیں، جنہوں نے کہا تھا کہ اگر یہ ہوا تو آگ لگا دیں گے۔ لیکن اب وہ لوگ جیلوں میں بیٹھے ہیں۔" شرجیل میمن نے زور دیا کہ معاشرے کو منشیات سے پاک کرنے کے لیے اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت عوام کے ساتھ کھڑی ہے اور ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے تاکہ صوبے کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکے۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پیٹرولیم کے اجلاس میں سوئی گیس کے حکام نے انکشاف کیا کہ وہ جامشورو جوائنٹ وینچر لمیٹڈ (جے جے وی ایل) کے ساتھ ایک معاہدہ کرنے جا رہے ہیں، جس کے تحت گیس کو ایل پی جی میں تبدیل کر کے نجی مارکیٹ میں فروخت کیا جائے گا۔ تاہم، اس معاہدے سے مقامی صارفین کو گیس کی دستیابی میں کمی واقع ہونے کا خدشہ ہے۔ سید مصطفیٰ محمود کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اجلاس میں کمیٹی کو ملک میں گیس اور تیل کے ذخائر پر بریفنگ دی گئی۔ رکن کمیٹی شاہد خان نے سوال اٹھایا کہ خیبر پختونخوا (کے پی) میں قدرتی گیس کے وافر ذخائر موجود ہیں، لیکن کیا ان ذخائر کے حوالے سے کوئی سروے کیا گیا ہے؟ کمیٹی نے اس معاملے پر تفصیلات طلب کرتے ہوئے اگلے اجلاس میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔ اجلاس میں گیس ذخیرہ کرنے کے لیے اسٹوریج منصوبے پر بھی بریفنگ دی گئی۔ حکام نے بتایا کہ ملک میں گیس اسٹوریج کی سہولت بنانے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے، لیکن کمیٹی نے اس منصوبے کو بند کرنے کی سفارش کر دی۔ رکن کمیٹی سردار غلام عباس نے کہا کہ منصوبے بنانے سے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ آیا اس کی ضرورت ہے بھی یا نہیں۔ انہوں نے بلوچستان سے سونے کے ذخائر کے حوالے سے بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ کیا ہے اور کیا نہیں۔ کمیٹی نے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم کی عدم شرکت پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ ارکان نے کہا کہ سیکرٹری پیٹرولیم ملک سے باہر ہیں، لیکن وزیر کو کمیٹی میں شرکت کرنی چاہیے تھی۔ پیٹرولیم حکام نے بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل نے ایک فارمولا طے کیا ہے، جس کے تحت نئی دریافت ہونے والی گیس کا 35 فیصد نجی سیکٹر کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔ حکام نے کہا کہ پیٹرولیم سیکٹر کو ڈی ریگولیٹ کرنے پر کام جاری ہے۔ رکن کمیٹی اسد نیازی نے سوال کیا کہ ڈی ریگولیشن کی صورت میں صوبوں کا کیا ہوگا؟ اس پر حکام نے بتایا کہ سندھ نے یہ معاملہ دوبارہ مشترکہ مفادات کونسل میں اٹھانے کی بات کی ہے۔ رکن کمیٹی شاہد احمد نے کہا کہ ملک میں پہلے ہی گیس کی کمی ہے، اور سوئی سدرن گیس کمپنی جامشورو جوائنٹ وینچر لمیٹڈ (جے جے وی ایل) کے ساتھ معاہدہ کرنے جا رہی ہے۔ سوئی سدرن کے حکام نے تسلیم کیا کہ اس معاہدے سے مقامی گیس کی دستیابی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ جے جے وی ایل گیس کو ایل پی جی میں تبدیل کر کے نجی مارکیٹ میں فروخت کرے گی۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ اس معاہدے سے سوئی سدرن کی اپنی گیس کی دستیابی کم ہو جائے گی۔ اجلاس میں پیٹرولیم مصنوعات کی ڈی ریگولیشن پالیسی اور ڈیلرز کے تحفظات پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ ارکان کمیٹی نے کہا کہ پیٹرولیم ڈیلرز کو اس پالیسی پر تحفظات ہیں، اور انہیں کمیٹی میں بلایا جائے۔ وزارت پیٹرولیم کے حکام نے بتایا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو روزانہ یا ہفتہ وار تبدیل کرنے کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر قیمتیں ڈی ریگولیٹ ہوئیں تو کچھ علاقوں کو نقصان ہو سکتا ہے۔ چیئرمین اوگرا نے کہا کہ پیٹرولیم ڈیلرز کی جانب سے ہڑتال کی کال ایک غلط فہمی پر مبنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیلرز کو خدشہ ہے کہ آئل کمپنیاں انہیں مارجن نہیں دیں گی۔ کمیٹی نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو ڈی ریگولیٹ کرنے کی تجویز پر اگلے اجلاس میں چیئرمین اوگرا اور ڈیلرز کو بلانے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی نے جے جے وی ایل کے ساتھ معاہدے کی تفصیلات اگلے اجلاس میں طلب کر لی ہیں۔ ساتھ ہی، پیٹرولیم مصنوعات کی ڈی ریگولیشن پالیسی پر ڈیلرز کے تحفظات کو بھی اگلے اجلاس میں حل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
بھارتی جارحیت کے کرارے جواب آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کو 6سال مکمل ہوگئے۔ پلوامہ ڈرامے اور کنٹرول لائن پار کرنے کی غلطی پر 6 سال قبل آج ہی کے دن پاک فضائیہ کے شاہینوں نے ایک بھارتی طیارہ مار گرایا تھا اور وِنگ کمانڈر ابھی نندن کو قیدی بنایا تھا۔ چھبیس فروری 2019 کو بھارتی فضائیہ نے جعلی سر جیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ رچایا جس کا بھانڈہ پاکستان نے عالمی میڈیا کو موقع پر لے جا کر پھوڑا۔ اس پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اس پر قوم سے خطاب کیا تھا اور کہا تھا کہ "اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اپ پاکستان پر حملہ کریں گے تو یاد رکھیں۔۔ پاکستان جواب دینے کا سوچے گا نہیں۔ پاکستان جواب دینے کا سوچے گا۔ اس سے اگلے روز ہی بھارت کو پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا۔۔ اور پاکستان نے بھارتی ائیرفورس کے پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرلیا اور 2 دن مہمان بنانے کے بعد اسے واپس کردیا آج بھی بھارتی ونگ کمانڈر کی وردی، جہاز کی باقیات اور چائے کا کپ پی اے ایف میوزیم کراچی کی آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ گیلری میں محفوظ ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ تمام بڑے اخبارات نے آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کا تذکرہ تو کیا لیکن عمران خان کا نام لینے سے گریز کیا۔ پاکستان کی 77 سال تاریخ میں جنگی محاذ پر چھ سال قبل آج کے روز پاکستان کو بڑی کامیابی ملی جب انڈیا کو ہم نے دھول چٹائی۔ عمران خان کی نفرت میں حکومت اور تمام ادارے اس کامیابی کی خوشی منانا ہی بھول گئے۔ مرد مجاہد نے کہا تھا کہ پاکستان جواب دینے کا سوچے گا نہیں جواب دے گا اور پھر جواب دیا گیا تھا۔ مبشر زیدی نے تبصرہ کیا کہ آج سے چھے سال پہلے آج کے دن سابق وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں پاکستانی افواج نے بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اور بھارتی جہاز مار گرایا اور ابھی نندن کو پاکستانی چائے کا مزہ چکھایا
خیبرپختونخوا نے سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس میں اپنے دفاع کیلئے 2 وکلاء رکھ لئے ہیں جن میں ایک وکیل مخدوم علی خان ہیں جنہیں 2 کیسز میں 4 کروڑ 50 لاکھ دئیے گئے جبکہ دوسرے وکیل کو 35 لاکھ روپے دئیے گئے۔ خیال رہے کہ صوبائی حکومتیں اپنے دفاع ایڈوکیٹ جنرلز اور ایڈیشنل ایدوکیٹ جنرلز رکھتی ہیں پشاور سے تعلق رکھنے والے صحافی کامران علی نے تبصرہ کرتےہوئے لکھا کہ ایڈووکیٹ جنرل آفس اور انصاف لائرز فورم میں کوئی ایسا وکیل نہیں جو سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ میں خیبرپختونخوا حکومت کا دفاع کرسکے اسلئے صوبائی حکومت میں دو کیسز کے لیے ایک وکیل کے خدمات 4 کروڑ 50 لاکھ اور دوسرے وکیل کے خدمات 35 لاکھ میں حاصل کرلیے انہوں نے مزید کہا کہ ویسے اے جی آفس کے تقریباً 60 وکلاء کو 5 لاکھ سے لیکر 20 لاکھ ماہانہ تنخواہیں دی جارہی ہے جبکہ ایکسائز محکمے کے اپنے بھی 8 وکلاء ہیں جن کو بھی لاکھوں تنخواہیں مل رہی لیکن کسی میں یہ اہلیت نہیں کہ دو کیسز میں صوبائی حکومت کی پیروی کرسکے تیمور علی خان مہمند نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ مخدوم علی خان، وہ وکیل جنہوں نے سپریم کورٹ میں انتخابی نشان کیس اور مخصوص نشستوں کے کیس میں پی ٹی آئی کی مخالفت کی تھی، کو خیبر پختونخوا حکومت نے ایک آئینی مقدمے میں صوبائی حکومت کی نمائندگی کے لیے 4.5 کروڑ روپے فیس پر مقرر کیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین، بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے آخری دن ہمیں بتایا گیا کہ کسی کے پاس کوئی ڈرافٹ نہیں ہے، اور مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں ووٹ دوں گا، کچھ مجبوریاں ہیں۔ اسلام آباد میں اپوزیشن گرینڈ الائنس کی قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج جو کچھ بھی ہوا، یہ سب پی ٹی آئی نے گزشتہ دو سالوں سے دیکھنا شروع کیا تھا۔ آج ہمیں سب کچھ بھول کر مستقبل کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا، کیونکہ پاکستان میں 175 سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں یہ ضرور لکھا ہے کہ مدت پانچ سال ہوگی، مگر یہ بھی ذکر ہے کہ ملکی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ الیکشن کروائے جا سکتے ہیں۔ اسمبلی کے رولز میں حلف کے حوالے سے واضح لکھا ہے کہ ہم رولز کی پاسداری کریں گے، اور ہمیں یہ تعین کرنا ہوگا کہ ہمیں تاریخ کی کس سمت کھڑا ہونا ہے۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پاکستان تحریک انصاف پاور شیئرنگ پر یقین نہیں رکھتی، بانی پی ٹی آئی عوامی پاور پر یقین رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ جیل میں قید ہیں۔ انتخابات کے دوران ہمیں کنونشنز کرانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ 175 سیاسی جماعتوں میں سے کسی نے بھی ہمارے حق میں بات نہیں کی تھی، جماعت اسلامی وہ واحد جماعت تھی جس نے کراچی میں ہماری سیٹ واپس کی، اور چھبیسویں آئینی ترمیم منظور ہو گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کچھ ہونا چاہیے جس میں سسٹم کی ہار نہ ہو، اور ہم مولانا فضل الرحمان کے کردار کو سراہتے ہیں۔ تاہم، چھبیسویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ہماری کسی شق پر فضل الرحمان سے بات نہیں ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ آئینی ترمیم کے آخری دن ہمیں بتایا گیا کہ کسی کے پاس کوئی ڈرافٹ نہیں تھا، اور مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ میں ووٹ دوں گا، کچھ مجبوریاں ہیں۔ مولانا فضل الرحمان نے ہمیں کہا کہ آپ کہہ دیں کہ ہم طریقہ کار سے متفق نہیں ہیں، اس لیے ووٹ نہیں دے رہے۔ بیرسٹر گوہر نے مزید کہا کہ ہم نے مولانا فضل الرحمان سے کہا کہ ہم ایک سیاسی جماعت ہیں، اور چھبیسویں آئینی ترمیم کا ڈرافٹ کمیٹی میں پیش کیا گیا تھا جو سینیٹ میں پیش کیے گئے ڈرافٹ سے مختلف تھا۔ ہمیں مختلف طریقہ کار کے تحت فیصلے کرنے ہوں گے۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہم نے بانی پی ٹی آئی سے مشاورت کے بعد مذاکرات کا اعلان کیا تھا، اور بانی پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی کو تمام سیاسی جماعتوں سے بات چیت کے لیے اختیار دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ جب تاریخ لکھی جائے گی تو شہباز شریف کا نام بھی شامل ہوگا، لیکن تاریخ میں بانی پی ٹی آئی کا نام سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمیں ایک دوسرے کو پہچاننا اور ہاتھ ملانا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ بطور سابق وزیر اعظم بانی پی ٹی آئی اپنی ذات کے علاوہ عوام کے لیے بھی خط لکھ سکتے ہیں، اور ہم بنگلہ دیش جیسے انجام نہیں چاہتے۔ چیف الیکشن کمیشن اور ایک ممبر کی ریٹائرمنٹ ہو چکی ہے، اور اس حوالے سے ہم نے خطوط لکھے ہیں۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم اپنے لیے کچھ بھی نہیں مانگ رہے، ہم چاہتے ہیں کہ ملک میں قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی ہو۔
مشیرِ خزانہ خیبر پختونخوا، مزمل اسلم نے کہا ہے کہ جنوری کے مہینے میں 63 ہزار افراد نوکری کے لیے ملک سے باہر گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وزیرِ اعظم اور وزراء بیروزگاری کے خاتمے کی مبارک باد دینے میں تھکتے نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پڑھے لکھے اور تربیت یافتہ افراد ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کیا ایسی حالت میں ترقی ممکن ہے؟ مزمل اسلم نے یہ بھی بتایا کہ شہباز شریف کی حکومت میں ملک سے 20 لاکھ لوگ ہجرت کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ترسیلاتِ زر میں اضافہ ملک کی ترقی کی نشانی نہیں، بلکہ یہ پستی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ لگتا ہے انسداد دہشتگردی عدالتوں کے ججز کی انگریزی میں کافی مسائل ہیں۔ جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کمانڈنگ افسرز نے ملزمان کی حوالگی کے لیے درخواستیں دیں، جن کا آغاز اس الفاظ سے ہوا کہ ابتدائی تفتیش میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا جرم بنتا ہے۔ یہ الفاظ درخواست میں اعتراف ہیں کہ تفتیش مکمل نہیں ہوئی تھی۔ انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزمان کی حوالگی کے لیے جو وجوہات فراہم کیں وہ مضحکہ خیز ہیں۔ فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے ایڈمنسٹریٹو جج نے ملزمان کی حوالگی کے احکامات دیے، اور انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزمان کو تفتیش مکمل ہونے سے پہلے ہی قصوروار لکھ دیا۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ راولپنڈی اور لاہور کی عدالتوں کے حکم ناموں کے الفاظ بالکل ایک جیسے ہیں، جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ "لگتا ہے انسداد دہشتگردی عدالتوں کے ججز کی انگریزی میں کافی مسائل ہیں۔" فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزمان کی حوالگی کا حکم عدالت دے سکتی ہے، ایڈمنسٹریٹو جج نہیں۔ آرمی ایکٹ کی سیکشن 59(1) کے تحت فوجی افسران کے قتل یا دیگر جرائم میں سول عدالت سے کسٹڈی لی جا سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ "میرے حساب سے تو 59(4) کا اطلاق بھی ان پر ہوتا ہے جو آرمی ایکٹ کے تحت ہوں، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت حوالگی تفتیش مکمل ہونے کے بعد ہی ممکن ہو گی۔" فیصل صدیقی نے کہا کہ جن مقدمات میں حوالگی کی درخواستیں دی گئیں، ان میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات عائد نہیں تھیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ایک ایف آئی آر میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات بھی عائد تھیں، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ وہ ایف آئی آر مجھے ریکارڈ میں نظر نہیں آئی۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ "حوالگی والی ایف آئی آر پڑھیں، اس میں الزام فوجی تنصیب کے باہر توڑ پھوڑ کا ہے۔" فیصل صدیقی نے مؤقف اپنایا کہ "عدالتیں اسی لیے ہوتی ہیں کہ قانون کا غلط استعمال روکا جا سکے، احمد فراز کو شاعری کرنے پر گرفتار کیا گیا، عدالت نے ریلیف دیا۔" فیصل صدیقی نے احمد فراز کیس میں عدالتی فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ احمد فراز پر الزام تھا کہ شاعری کے ذریعے آرمی افسر کو اکسایا گیا، اور یہ کہ "احمد فراز اور فیض احمد فیض کے ڈاکٹر میرے والد تھے۔" فیصل صدیقی نے کہا کہ "مجھ پر بھی اکسانے کا الزام لگا لیکن میں گرفتار نہیں ہوا۔" جسٹس جمال مندوخیل نے ہلکے پھلکے انداز میں جواب دیا کہ "آپ کو اب گرفتار کروا دیتے ہیں۔" جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ "احمد فراز کی کونسی نظم پر کیس بنا تھا؟ مجھے تو ساری یاد ہیں۔" فیصل صدیقی نے کہا کہ "آپ ججز کے ہوتے ہوئے، مجھے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔" جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ "بطور وکیل کیس ہارنے کے بعد میں بار میں بہت شور کرتی تھی، میں کہتی تھی ججز نے ٹرک ڈرائیورز کی طرح اشارہ کہیں اور کا لگایا اور گئے کہیں اور۔" جسٹس مسرت ہلالی نے فیصل صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ "میری بات کو گہرائی میں سمجھنے کی کوشش کریں۔" جسٹس حسن اظہر رضوی نے جسٹس مسرت ہلالی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ "کیا آپ بھی ٹرک چلاتی ہیں؟" جسٹس مسرت ہلالی نے جواب دیا کہ "ٹرک تو میں چلا سکتی ہوں، میرے والد ایک فریڈم فائٹر تھے، ان کی ساری عمر جیلوں میں گزری۔" انہوں نے مزید کہا کہ "میرے والد جو شاعری کرتے تھے، وہ ان کی وفات کے بعد ایک پشتون جرگہ میں کسی نے پڑھی، جرگے میں میرے والد کی شاعری پڑھنے والا گرفتار ہوگیا۔ شاعری پڑھنے والے نے بتایا کہ کس کا کلام ہے اور اس کی بیٹی آج کون ہے۔" جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ "میرے والد کی شاعری پڑھنے والے کو بہت مشکل سے رہائی ملی۔" جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ "وقت کے حساب سے شاعری اچھی یا بری لگتی رہتی ہے۔" جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ "اب تو چرسی تکہ والے کو بھی اصلی چرسی تکہ لکھنا پڑتا ہے۔" فیصل صدیقی نے کہا کہ "مجھے آپ تمام ججز سے اچھے کی امید ہے۔" جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ "پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھنے والے ہیں۔" جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ "ہلکے پھلکے انداز میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، شاعر احمد فراز نے تو عدالت میں یہ کہہ دیا تھا کہ یہ نظم میری ہے ہی نہیں۔" جسٹس افضل ظُلہ نے احمد فراز سے کہا کہ "آپ کوئی ایسی نظم لکھ دیں جس سے فوجی کے جذبات کی ترجمانی ہو جائے۔" آئینی بینچ کے ججز نے ریمارکس دیے کہ "احمد فراز نے اپنے دفاع میں کہا تھا کہ میرے پاس تو وسائل ہی نہیں کہ اپنی نظم کی تشہیر سکوں، آج کل تو سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، اس دور میں اگر احمد فراز ہوتے تو وہ یہ دفاع نہیں لے سکتے تھے۔" اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
کراچی: مصطفیٰ عامر قتل کیس میں گرفتار ملزم ارمغان کے پولیس ریمانڈ نہ دینے کے معاملے پر انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) کے منتظم جج کو تبدیل کر دیا گیا۔ محکمہ داخلہ سندھ نے سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے تناظر میں اس سلسلے میں نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق، اے ٹی سی 1 کے منتظم جج کے اختیارات ختم کر دیے گئے ہیں۔ اب ان اختیارات کو اے ٹی سی 3 کے منتظم جج کو تفویض کر دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ سندھ ہائی کورٹ کے احکامات کے بعد کیا گیا ہے، جس میں ملزم ارمغان کے پولیس ریمانڈ نہ دینے کے معاملے پر سخت رد عمل ظاہر کیا گیا تھا۔ مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ملزم ارمغان کو گرفتار کیا گیا تھا، لیکن اے ٹی سی 1 کے منتظم جج نے اسے پولیس ریمانڈ دینے سے انکار کر دیا تھا۔ اس فیصلے پر وزیر داخلہ سندھ نے سندھ ہائی کورٹ کو خط لکھ کر اس معاملے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ وزیر داخلہ نے عدالت کو بتایا کہ ملزم کے خلاف شواہد موجود ہیں اور پولیس ریمانڈ نہ دینے سے تحقیقات میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ سندھ ہائی کورٹ نے اس معاملے پر فوری کارروائی کرتے ہوئے محکمہ داخلہ سندھ کو ہدایت دی کہ اے ٹی سی 1 کے منتظم جج کے اختیارات ختم کر کے انہیں اے ٹی سی 3 کے منتظم جج کو منتقل کیا جائے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ ایسے معاملات میں شفافیت اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ضروری ہے۔ اب اے ٹی سی 3 کے منتظم جج کو ملزم ارمغان کے معاملے سمیت دیگر متعلقہ کیسز کی سماعت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس تبدیلی سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ مصطفیٰ عامر قتل کیس میں تحقیقات کو تیز رفتار اور شفاف بنایا جائے گا۔ وزیر داخلہ سندھ نے کہا کہ حکومت کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے اور کسی بھی مجرم کو سزا سے بچنے کا موقع نہ دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ نئے منتظم جج کے تحت کیس کی سماعت میں شفافیت اور انصاف کو یقینی بنایا جائے گا۔
شکارپور: شکارپور کے علاقے کچے میں ڈاکوؤں نے دن دہاڑے چار افراد کو اغوا کر لیا۔ مسلح ملزمان نے چاروں افراد کو اسلحہ کے زور پر اپنے ساتھ لے جانے کے بعد مقامی آبادی میں خوف و ہراس پھیلا دیا۔ پولیس نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملزمان کی شناخت اور ان کی گرفتاری کے لیے کارروائی جاری ہے۔ دوسری جانب خیرپور میں زمین کے تنازعے پر دو گروپوں کے درمیان ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں پانچ افراد زخمی ہو گئے۔ زخمیوں کو فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں انہیں طبی امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ پولیس نے ملوث افراد کی تلاش شروع کر دی ہے اور دونوں گروپوں کے درمیان تنازعے کو حل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ فیصل آباد کے علاقے ڈجکوٹ میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا، جہاں ڈاکوؤں نے پیزا کھانے کے شوقین ہونے کا ثبوت دیا۔ پولیس کے مطابق، تھانہ روشن والا کے علاقے میں پیزا بوائے کو لوٹ کر اس سے نہ صرف رقم بلکہ پیزے بھی لے اڑے۔ واقعے کے بعد پولیس نے ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے۔ پنجاب پولیس کے مطابق، ساہیوال میں گزشتہ روز لاپتہ ہونے والے نوجوان طلحہ کی لاش مل گئی ہے۔ لاش کو عدالتی عمل کے بعد ورثاء کے حوالے کر دیا گیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے۔ حافظ آباد میں ایک فائرنگ کے واقعے میں ایک ملزم ہلاک ہو گیا۔ پولیس کے مطابق، یہ واقعہ ذاتی دشمنی کی وجہ سے پیش آیا۔ مقتول کی شناخت کے بعد پولیس نے مزید تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ ان واقعات کے بعد پولیس نے تمام علاقوں میں سیکیورٹی کے اقدامات بڑھا دیے ہیں۔ شکارپور اور خیرپور میں ملزمان کی گرفتاری کے لیے خصوصی آپریشنز جاری ہیں، جبکہ ڈجکوٹ میں پیزا ڈکیتی کے ملزمان کی تلاش کی جا رہی ہے۔ پولیس نے عوام سے تعاون کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی مشکوک حرکت کی فوری اطلاع دی جائے۔
اسلام آباد: پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی جانب سے 37 ارب روپے مالیت کے 29 کمرشل پلاٹس کی غیر شفاف نیلامی کا انکشاف ہوا۔ اجلاس میں وزارت داخلہ کے ذیلی اداروں کی آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لیا گیا، جس کے دوران آئی جی ایف سی خیبرپختونخوا، ڈی جی رینجرز سندھ، ڈی جی گلگت بلتستان اسکاؤٹس، اور ڈی جی پاکستان کوسٹل گارڈز کی عدم شرکت پر ارکان نے سخت برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرمین پی اے سی نے ان اداروں کے آڈٹ پیراز مؤخر کر دیے۔ اجلاس میں سی ڈی اے کی آڈٹ رپورٹ برائے سال 2023-24 کا جائزہ لیا گیا، جس میں 29 کمرشل پلاٹس کی غیر شفاف نیلامی کا معاملہ سامنے آیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ سی ڈی اے بورڈ نے 37 ارب روپے سے زائد مالیت کے پلاٹس کی نیلامی کو منظور کیا تھا، لیکن 5 پلاٹس کی نیلامی مؤخر کر دی گئی، جبکہ ایک پلاٹ سے متعلق قانونی پیچیدگیاں موجود ہیں۔ چیئرمین پی اے سی نے سوال اٹھایا کہ جب سی ڈی اے بورڈ نے پلاٹس کی نیلامی منظور کی، تو قانونی مسائل کا خیال کیوں نہیں رکھا گیا؟ اجلاس میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ سی ڈی اے نے اپنی فنانشل اسٹیٹمنٹ تیار نہیں کی ہے۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ سی ڈی اے ایکٹ کے تحت چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کی تصدیق کے بعد فنانشل اسٹیٹمنٹ وفاقی حکومت کو پیش کرنا ضروری ہے، لیکن سی ڈی اے نے اب تک ایسا نہیں کیا۔ پی اے سی ارکان نے اس پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین سی ڈی اے کے رویے کو نامناسب قرار دیا۔ کمیٹی نے سی ڈی اے سے 6 ماہ کے اندر فنانشل اسٹیٹمنٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ اجلاس میں گن اینڈ کنٹری کلب کی جانب سے بغیر لائسنس کے اسلحہ اور گولہ بارود رکھنے کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا۔ کمیٹی رکن سید حسین طارق نے سوال اٹھایا کہ ایک سرکاری ادارہ بغیر لائسنس کے اسلحہ کیسے خرید سکتا ہے؟ چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ یہ کلب وزارت بین الصوبائی رابطہ کے ماتحت آنے کو تیار ہی نہیں تھا۔ کمیٹی نے اس معاملے پر ایک ماہ میں انکوائری مکمل کرنے اور رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت دی۔ اجلاس میں وزارت داخلہ کی جانب سے زائد قیمت پر یونیفارم خریدنے سے قومی خزانے کو 4 کروڑ 61 لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کا معاملہ بھی زیرِ غور آیا۔ آئی جی ایف سی خیبرپختونخوا کی کمیٹی میں عدم شرکت پر ارکان نے برہمی کا اظہار کیا۔ چیئرمین پی اے سی نے وزارت داخلہ کو ایک ماہ میں ریکوری کرنے اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔ اجلاس میں بارہ کہو بائی پاس کی تعمیر کے لیے براہ راست ٹھیکے کے ذریعے زیادہ قیمت پر کام دینے کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا۔ آڈٹ حکام نے بتایا کہ تعمیرات کے دوران مختلف حادثات کی وجہ سے دو افراد جاں بحق ہوئے۔ چیئرمین سی ڈی اے نے کہا کہ یہ کام ایمرجنسی کی بنیاد پر وزیر اعظم آفس کے احکامات پر کیا گیا تھا۔ تاہم، آڈٹ حکام نے سوال اٹھایا کہ براہ راست کنٹریکٹنگ کیوں کی گئی؟ چیئرمین پی اے سی نے سی ڈی اے سے ایک ماہ میں تفصیلی رپورٹ طلب کی۔ اجلاس میں ایف سی خیبرپختونخوا کی جانب سے کیمروں کی غیر شفاف خریداری سے قومی خزانے کو 3 کروڑ روپے سے زائد کے نقصان کا معاملہ بھی زیرِ غور آیا۔ پی اے سی نے ایف سی سے متعلقہ تمام آڈٹ پیراز کو یکجا کرکے ریکوری کی ہدایت دی۔ چیئرمین پی اے سی نے تمام معاملات پر سخت کارروائی کی ہدایت دی اور متعلقہ اداروں کو ایک ماہ کے اندر تفصیلی رپورٹس جمع کرانے کا حکم دیا۔ کمیٹی نے زور دیا کہ مالی بے ضابطگیوں کو روکنے اور شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پاور کے اجلاس میں سیکریٹری پاور نے آئی پی پیز (آزاد بجلی پیدا کرنے والے اداروں) کے ساتھ ہونے والے مذاکرات پر تفصیلی بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات میں کسی قسم کا دباؤ نہیں تھا، بلکہ آئی پی پیز کی جانب سے معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ اجلاس کے دوران ایم کیو ایم کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی مصطفیٰ کمال نے سوال اٹھایا کہ آئی پی پیز سے معاہدوں کے تحت ریلیف کیوں نہیں دیا جا رہا؟ سیکریٹری پاور نے جواب دیا کہ مذاکرات کو ابھی صرف دو ماہ ہوئے ہیں، اور ریلیف جلد ہی فراہم کیا جائے گا۔ مصطفیٰ کمال نے یہ بھی پوچھا کہ کیا آئی پی پیز پر دباؤ ڈالا گیا تھا؟ سیکریٹری پاور نے اس بات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات میں کسی قسم کا دباؤ نہیں تھا۔ انہوں نے بتایا کہ تمام آئی پی پیز کو بلایا گیا تھا اور انہیں واضح کیا گیا تھا کہ یا تو بات چیت سے معاملات حل کر لیں، یا پھر فارنزک آڈٹ کروایا جائے گا۔ سیکریٹری پاور نے بتایا کہ ایک یا دو آئی پی پیز نے معاملات کو لندن کی ثالثی عدالت میں لے جانے کی بات کی تھی، لیکن حکومت نے ثالثی عدالت جانے سے متعلق اتفاق نہیں کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اسی معاملے پر وزیر پاور کی آج برطانوی ہائی کمشنر سے ملاقات ہوئی ہے۔ سیکریٹری پاور نے اجلاس میں جنوبی علاقوں میں ایک ہزار میگاواٹ تک کے بیٹری اسٹوریج منصوبے کی تفصیلات بھی شیئر کیں۔ انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کا مقصد ونڈ انرجی (ہوا سے حاصل ہونے والی بجلی) کو اسٹور کر کے گرڈ کو مستحکم کرنا ہے۔ منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 50 کروڑ ڈالر ہے، اور اس کے لیے ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، اور اسلامی ترقیاتی بینک سے بات چیت جاری ہے۔ سیکریٹری پاور نے کہا کہ یہ منصوبہ نہ صرف بجلی کے شعبے میں استحکام لائے گا، بلکہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو بھی فروغ دے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا ہدف بجلی کے شعبے کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے، تاکہ عوام کو بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ اجلاس کے اختتام پر قائمہ کمیٹی نے آئی پی پیز کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو جاری رکھنے اور بیٹری اسٹوریج منصوبے پر تیزی سے کام کرنے کی ہدایت دی۔
" پہلے کوئی جرم کیا نا مستقبل میں کروں گا " پی ٹی آئی کے 26 نومبر احتجاج کے تناظر میں گرفتار ورکرز کی جانب سے ضمانت پر رہائی کے بدلے 'ٹیکنیکل نوعیت کے' بیان حلفی اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایت پر جمع اسلام آباد ہائیکورٹ کی ہدایت پر26 نومبر احتجاج کے مقدمات میں گرفتار 122 پی ٹی آئی کارکنوں کی ضمانت منظور ہونے کے بعد عدالتی حکم پر بیان حلفی اسلام آباد ہائیکورٹ میں جمع کروا دیئے گئے۔ قائم مقام چیف جسٹس کی سربراہی میں ڈویژن بینچ نے ضمانتیں مشروط طور پر منظور کی تھیں وکیل مرتضیٰ حسن طوری نے گزشتہ روز کارکنوں کی جانب سے بیان حلفی جمع کروائے ، بیان حلفی میں کہاگیاکہ بطور وکیل یقین دہانی کراتا ہوں کہ درخواست گزار آئندہ ایسی کوئی سرگرمی نہیں کریں گے درخواست گزاروں پر ایف آئی آرز میں لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔ درخواست گزاروں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ واضح رہے کہ قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر اور جسٹس محمد آصف نے ضمانتیں منظور کی تھیں اور تمام ورکرز کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا تاہم بیان حلفی بھی طلب کیا تھا۔
امریکی کانگریس کے اراکین جو ولسن اور آگسٹ پفولگر نے عمران خان کی رہائی کے لیے سیکرٹری آف اسٹیٹ مارک روبیو کو خط لکھ دیا۔۔ آگسٹ پفلوگر ایک امریکی سیاست دان ہیں، جو ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ ٹیکساس کے 11ویں کانگریشنل ڈسٹرکٹ کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی زندگی سے پہلے امریکی فضائیہ میں خدمات انجام دیں، جہاں وہ ایک تجربہ کار پائلٹ تھے۔ انہوں نے قومی سلامتی اور توانائی کے شعبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آگسٹ پفلوگر اس وقت ری پبلک سٹڈی کے چئیرمین ہیں۔ امریکی کانگریس مین جو ولسن نے اپنے میں ری پبلک سٹڈی کے چیئرمین آگست فولگر کے ساتھ شامل ہونے پر شکر گزار ہوں تاکہ سیکرٹری آف سٹیٹ مارک روبیو سے عمران خان کی رہائی اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے کام کرنے کا مطالبہ کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات اس وقت سب سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں جب ان کی بنیاد آزادی پر ہو واضح رہے کہ عمران خان کی رہائی کیلئے متعدد اراکین کانگریس اور سینیٹرز آواز اٹھاتے رہتے ہیں جن میں ٹرمپ کابینہ کے اراکین بھی شامل ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے کشمیر کے سابق وزیر اور سابق صحافی مشتاق منہاس کی درخواست کو خارج کر دیا ہے، جس میں انہوں نے پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی (فاٹا) کی جانب سے غیرقانونی قبضے کیے گئے پلاٹوں کی واپسی کی کارروائی کو روکنے کی درخواست کی تھی۔ جسٹس جواد حسن نے پیر کو درخواست کی ابتدائی سماعت کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ چونکہ درخواست گزار نے نجی اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے، اس لیے وہ اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں کسی عبوری ریلیف کا حقدار نہیں ہے۔ مشتاق منہاس کو پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی نے میڈیا ٹاؤن، راولپنڈی میں غیرقانونی طور پر قبضے والے پلاٹوں سے تجاوزات ہٹانے کے لیے نوٹس جاری کیا تھا۔ ایجنسی کے نوٹس میں کہا گیا تھا کہ اگرچہ منہاس کے پاس 10 مرلہ کے تین پلاٹ ہیں، لیکن منظور شدہ لے آؤٹ پلان کے مطابق، انہوں نے دو اضافی پلاٹوں کے رقبے پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ ایجنسی نے انہیں تجاوزات رضاکارانہ طور پر ہٹانے کی ہدایت کی تھی اور متنبہ کیا تھا کہ ناکامی کی صورت میں انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مکمل آپریشن کریں گے۔ درخواست گزار کے وکیل توفیق آصف نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 18 فروری 2025 کا نوٹس غیرقانونی تھا، کیونکہ انہیں پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی آرڈیننس 2002 کے سیکشن 32 اور 33 کے تحت سماعت کا موقع فراہم کیے بغیر جاری کیا گیا تھا۔ وکیل نے کہا کہ اتھارٹی کی جانب سے کی گئی کارروائی قانونی دفعات اور مناسب عمل کی خلاف ورزی ہے۔ تاہم، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب عابد عزیز راجوری نے نوٹس کے جاری ہونے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ سابقہ عدالتی احکامات کی تعمیل ہے، جس میں متعلقہ حکام کو تجاوزات کے خاتمے اور پلاٹوں کا قبضہ قانونی الاٹیوں کے حوالے کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔ جسٹس جواد حسن نے فریقین کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ نوٹس پیشگی عدالتی ہدایات کے مطابق جاری کیا گیا تھا۔ انہوں نے درخواست کو خارج کر دیا، جس کے بعد پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی کی جانب سے غیرقانونی قبضے کی کارروائی جاری رہے گی۔ یہ کیس اس وقت سامنے آیا ہے جب وزیراعلیٰ پنجاب نے صوبے بھر میں بڑے پیمانے پر انسداد تجاوزات مہم شروع کی ہے۔ اس مہم کا مقصد غیرقانونی قبضوں کو ختم کرنا اور قانونی الاٹیوں کو ان کے حقوق دلانا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ مشتاق منہاس کے خلاف کارروائی کس طرح آگے بڑھتی ہے اور کیا وہ مزید قانونی چارہ جوئی کریں گے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کے اجلاس میں انکشاف ہوا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے مقرر کردہ مالیاتی مشیر کو سوا ارب روپے کی ادائیگی کے باوجود نجکاری کا عمل مکمل نہیں ہو سکا۔ کمیٹی کا اجلاس چیئرمین ڈاکٹر فاروق ستار کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں سیکریٹری نجکاری کمیشن عثمان باجوہ نے پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے بریفنگ دی۔ سیکریٹری نجکاری کمیشن نے کمیٹی کو بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے مالیاتی مشیر کو مجموعی طور پر 69 لاکھ ڈالر (تقریباً ایک ارب 90 کروڑ روپے) ادا کرنے ہیں۔ اب تک ایک ارب 20 کروڑ روپے (63 فیصد) کی ادائیگی کی جا چکی ہے۔ تاہم، مالیاتی مشیر کو دوسرے مرحلے میں نجکاری کے عمل کی ادائیگی نہیں کی جائے گی، بلکہ باقی ماندہ رقم نجکاری کا عمل مکمل ہونے پر ادا کی جائے گی۔ عثمان باجوہ نے بتایا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے پچھلی بار لگائی گئی بولی قابل قبول نہیں تھی، جس کی وجہ سے نجکاری کا عمل ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کی 26 جائیدادیں ہیں، جبکہ پی آئی اے سی ایل کی 5 جائیدادیں ہیں۔ اسلام آباد کے بلیو ایریا میں واقع پلاٹ کی مالیت 10 سے 12 ارب روپے لگائی گئی ہے، لیکن اس کے بارے میں ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ سیکریٹری نجکاری کمیشن نے مزید بتایا کہ پیرس میں واقع اسکائپ ہوٹل اور روزویلٹ ہوٹل پی آئی اے ہولڈنگ کمپنی کی ملکیت ہیں۔ روزویلٹ ہوٹل کا موجودہ معاہدہ مئی 2024 میں ختم ہو جائے گا، جس کے بعد تین ماہ کا نوٹس دیا جائے گا اور پھر یہ جائیداد کلئیر ہو جائے گی۔ قائمہ کمیٹی کے ارکان نے پی آئی اے کی نجکاری کے عمل میں تاخیر پر تشویش کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ مالیاتی مشیر کو سوا ارب روپے کی ادائیگی کے باوجود نجکاری کا عمل کیوں مکمل نہیں ہو سکا۔ کمیٹی نے نجکاری کمیشن سے مطالبہ کیا کہ وہ پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کو تیز کرے اور اس سلسلے میں واضح حکمت عملی پیش کرے۔ پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ کئی سالوں سے زیر التوا ہے، اور حکومت کی جانب سے اسے ترجیحی بنیادوں پر مکمل کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ نجکاری کمیشن پی آئی اے کی نجکاری کے عمل کو کس طرح آگے بڑھاتا ہے، اور کیا مالیاتی مشیر کو دی گئی بھاری رقم کے باوجود اس عمل کو جلد از جلد مکمل کیا جا سکتا ہے۔
مصطفیٰ عامر قتل کیس نے ایک نئی کروٹ لی ہے، جس میں معروف اداکار ساجد حسن کے فرزند ساحر حسن کا نام بھی سامنے آیا ہے۔ ساحر حسن کو عدالتی تحویل میں جیل بھیج دیا گیا ہے، جبکہ ان کے خلاف منشیات کی فراہمی سے متعلق تفتیشی افسران کے دعوے بھی سامنے آئے ہیں۔ تاہم، ساحر حسن نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ساجد حسن کے وکلاء کی ٹیم کی کوشش ہے کہ ساحر حسن کی ضمانت کرائی جائے اور ان کا نام مصطفیٰ عامر قتل کیس سے الگ کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ مصطفیٰ عامر قتل کیس اور منشیات کی فراہمی کا معاملہ دو الگ پہلو ہیں، اور انہیں آپس میں جوڑنا اصل کیس سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہے۔ اداکار ساجد حسن نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مصطفیٰ عامر کے قتل کی خبر سن کر ان کا دل رنجیدہ ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ مصطفیٰ بھی ان کے بیٹے جیسا تھا، اور جب انہوں نے مصطفیٰ کی والدہ کا ویڈیو کلپ سنا تو رات بھر سو نہیں سکے۔ ساجد حسن نے کہا کہ وہ ایک اداکار ہیں، اور اگر چاہیں تو میڈیا کو اپنے لیے استعمال کر سکتے ہیں، لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے، کیونکہ ان کے بیٹے کا معاملہ عدالت میں ہے، اور انہیں عدالت پر پورا بھروسہ ہے۔ ساجد حسن نے اپنی موجودہ صورتحال پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک اداکار ہیں، کرایے کے گھر میں رہتے ہیں، اور ان کا کام بند پڑا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ محلے والوں نے ان سے قطع تعلق کر لیا ہے، اور معاشرے نے انہیں الگ تھلگ کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیٹے پر صرف الزامات ہیں، اور کچھ ثابت نہیں ہوا ہے، لیکن معاشرے نے انہیں اور ان کے بیٹے کو پہلے ہی مجرم سمجھ لیا ہے۔ ساجد حسن نے اپنے بیٹے ساحر حسن کے بارے میں کہا کہ ان کی شادی ابھی ہوئی ہے، اور ہو سکتا ہے کہ ان سے کچھ غلطیاں ہوئی ہوں، لیکن انہیں مصطفیٰ عامر قتل کیس سے جوڑنا مناسب نہیں ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ان کی توجہ اس وقت صرف اپنے بیٹے کے کیس پر ہے، اور وہ نہیں چاہتے کہ میڈیا پر آ کر ایسی باتیں کریں جن سے وقت ضائع ہو۔ ساجد حسن نے کہا کہ مصطفیٰ عامر قتل کیس ایک بہت بڑا کیس ہے، اور وہ چاہتے ہیں کہ اس کا منصفانہ ٹرائل ہو، تاکہ اصل مجرموں کو سامنے لایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ عدالت انصاف کرے گی، اور دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو جائے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ساحر حسن کے خلاف الزامات کس حد تک ثابت ہوتے ہیں، اور کیا ان کا نام مصطفیٰ عامر قتل کیس سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ ساجد حسن اور ان کے وکلاء کی ٹیم کی کوششوں کے باوجود، کیس کی تفتیش اور عدالتی کارروائی کے نتائج ہی سب کچھ طے کریں گے۔
کراچی کے علاقے ڈیفنس سے اغوا کے بعد قتل کیے گئے نوجوان مصطفیٰ عامر کے قتل کے مقدمے کی تفتیش تیزی سے جاری ہے۔ ملزم ارمغان نے تفتیش کے دوران مصطفیٰ کے قتل کا اعتراف کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے مصطفیٰ کو "ولن کی طرح" قتل کیا۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق، ارمغان نے بتایا کہ اس نے مصطفیٰ کو راڈ (ڈنڈے) سے مارا، جس کے بعد مصطفیٰ زخمی ہو کر فرار ہونے کی کوشش کی، لیکن ارمغان نے اسے روک لیا۔ ملزم ارمغان نے تفتیش میں بتایا کہ اس نے مصطفیٰ کے ساتھ "ٹاس" (سکہ اچھالنے کا کھیل) کھیلا۔ ارمغان نے کہا کہ اگر "ہیڈ" (سر) آتا تو وہ مصطفیٰ کو چھوڑ دیتا، لیکن اگر "ٹیل" (پٹ) آتا تو وہ اسے مارتا۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق، پہلی بار ٹاس میں ٹیل آنے کے باوجود ارمغان نے مصطفیٰ کو راڈ سے مارا۔ دوسری بار بھی ٹیل آیا، لیکن ارمغان نے مصطفیٰ کو نہیں چھوڑا۔ تیسری بار ٹاس جیتنے کے بعد ارمغان نے مصطفیٰ کو جلا دیا۔ تفتیشی ٹیم نے یہ بھی انکشاف کیا کہ ملزم ارمغان نے زوما نامی لڑکی کو بھی انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا۔ زوما 31 دسمبر کو سال نو کی تقریبات کے موقع پر ارمغان کے ساتھ تھی۔ زوما کی حالت غیر ہونے پر ارمغان نے ایک پولیس افسر کو فون کیا تھا۔ تفتیشی ٹیم کی سفارش پر پولیس نے گذری تھانے کے اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) کو حراست میں لے لیا ہے، جو ملزم ارمغان سے رابطے میں تھا۔ یاد رہے کہ مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا۔ اس کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کا مقدمہ درج کروایا تھا۔ 25 جنوری کو مصطفیٰ کی والدہ کو امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہوئی، جس کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کی گئیں۔ مقدمہ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) کو منتقل کر دیا گیا تھا۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے تفصیلات بتائی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ تفتیش کے دوران ڈیفنس پولیس اور 15 دیگر مددگاروں کی سنگین غفلت بھی سامنے آئی ہے۔ مصطفیٰ عامر کے قتل کا یہ واقعہ کراچی میں شدید تشویش کا باعث بنا ہے۔ تفتیشی ٹیم ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے تیزی سے کام کر رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس مقدمے میں مزید کون سے انکشافات سامنے آتے ہیں اور عدالت کیا فیصلہ سناتی ہے۔
موسم گرما میں بھاری بجلی کے بلوں سے پریشان عوام کے لیے حکومت نے ایک خوشخبری سنا دی ہے۔ پاور ڈویژن کے حکام کے مطابق، وفاقی حکومت آئندہ دو ماہ میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 6 سے 8 روپے تک کمی کرنے پر کام کر رہی ہے۔ اس اقدام سے عوام کو کچھ ریلیف ملنے کی امید ہے۔ پاور ڈویژن کے حکام نے بتایا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے بینکوں سے 1300 ارب روپے کا قرض حاصل کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ یہ قرض فکس ریٹ اور مخصوص مدت کے لیے لیا جائے گا، جس سے پاور سیکٹر کے گردشی قرضے (سرکلر ڈیٹ) کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ حکام کے مطابق، حکومت نے پاور سیکٹر میں اصلاحات کے ذریعے پہلے ہی کئی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ آئی پی پیز (انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کے ساتھ بات چیت کے دوران 700 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے، جبکہ 300 ارب روپے کا سود ختم کرایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، 6 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدے ختم کر دیے گئے ہیں، اور 25 آئی پیز کے ساتھ "ٹیک اینڈ پے" کے معاہدے پر بات چیت مکمل ہو چکی ہے۔ پاور ڈویژن کے مطابق، خصوصی ٹاسک فورس سرکاری پاور پلانٹس کے ساتھ بھی بات چیت کر رہی ہے۔ ان کوششوں کے نتیجے میں آئندہ دو ماہ میں بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 6 سے 8 روپے تک کمی متوقع ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس وقت پاور سیکٹر کا گردشی قرض 2300 ارب روپے کے لگ بھگ ہے، جسے جلد سے جلد ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ گردشی قرضے میں کمی سے بجلی کی قیمتوں کو مزید کم کرنے میں مدد ملے گی۔ واضح رہے کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے نے عوام اور صنعت دونوں کو مشکلات میں ڈال دیا تھا۔ بھاری بلوں کے باعث عام شہریوں کو بل ادا کرنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ صنعت کو بھی بجلی کی بلند قیمتوں کے باعث نقصان اٹھانا پڑا۔ اب حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں کمی کے اقدامات سے عوام کو کچھ ریلیف ملنے کی امید ہے۔ حکومت کا یہ قدم نہ صرف عوام کے لیے سکون کا باعث ہوگا، بلکہ صنعت کو بھی بجلی کی کم قیمتوں سے فائدہ ہوگا، جس سے معیشت کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
بھارتی شہر ممبئی کے ایم آر اے مارگ پولیس اسٹیشن میں ایک شخص کو اکثر روایتی لباس میں ملبوس دیکھا گیا، جو مختلف جگہوں پر گھومتا پھرتا، افسران اور مہمانوں کو چائے پیش کرتا، یا اکیلا بیٹھا ٹریفک دیکھتا رہتا۔ رات کو وہ پولیس اسٹیشن میں خالی دفتر میں سو کر اپنی نیند پوری کرتا۔ یہ شخص پاکستانی تاجر نادر کریم خان ہے، جو غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہونے کے جرم میں چھ ماہ قید کی سزا کاٹ چکا ہے اور اب پاکستان واپس جانے کا بے صبری سے انتظار کر رہا ہے۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، نادر کریم خان کا تعلق کراچی سے ہے، جہاں وہ کپڑوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ نومبر 2021 میں وہ کاروبار کی غرض سے نیپال کے شہر کھٹمنڈو گئے، جہاں کچھ مقامی دکانداروں نے ان سے 3 ہزار سے زائد چمڑے کی جیکٹس کا آرڈر دیا، لیکن ادائیگی نہ کر کے انہیں 2.5 کروڑ پاکستانی روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا۔ نادر کریم نے بتایا کہ دھوکہ دہی کرنے والوں نے انہیں ایک چیک دیا، جو باؤنس ہو گیا۔ نیپال میں نادر کریم نے پولیس اور دیگر حکام سے مدد کی درخواست کی، لیکن دھوکے بازوں کو پکڑنے میں ناکام رہے۔ ستمبر 2023 میں ان دکانداروں نے نادر پر حملہ کر کے ان کا پاسپورٹ اور دیگر اہم دستاویزات چھین لیں۔ اس دوران نیپال کے حکام نے نادر پر ملک میں زیادہ دیر قیام کرنے پر تقریباً 1000 ڈالر کا جرمانہ بھی عائد کر دیا۔ بغیر دستاویزات اور جرمانہ ادا کرنے سے قاصر، نادر کریم نے بھارت میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔ وہ سونولی سرحد کے ذریعے بھارتی ریاست اتر پردیش میں داخل ہوئے، جہاں سے انہوں نے گورکھپور کے لیے ٹرین لی اور پھر نئی دہلی پہنچے۔ نادر نے بتایا کہ وہ بھارت میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن بھی گئے، لیکن انہیں بولنے کا موقع نہیں دیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے ممبئی جانے کا فیصلہ کیا۔ یکم نومبر 2023 کو نادر کریم ممبئی کے دادر ریلوے اسٹیشن پہنچے، جہاں سے وہ سی ایس ٹی اسٹیشن کے قریب ڈپٹی کمشنر آف پولیس کے دفتر لے گئے۔ وہاں انہیں ایم آر اے مارگ پولیس اسٹیشن میں رکھا گیا، جہاں انٹیلی جنس بیورو اور بھارتی خفیہ ایجنسی نے ان سے پوچھ گچھ کی۔ 11 اپریل 2024 کو نادر کریم کو غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہونے کے الزام میں گرفتار کیا گیا، اور 8 اکتوبر 2024 کو ایسپلانیڈ کورٹ نے انہیں چھ ماہ قید اور 500 روپے جرمانے کی سزا سنائی۔ 11 اکتوبر 2024 کو نادر کریم کو آرتھر روڈ جیل سے رہا کیا گیا، لیکن انہیں ایم آر اے مارگ پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا گیا، جہاں ان پر "پابندی کا حکم" لگا دیا گیا۔ اس حکم کے تحت، نادر کو ملک بدر ہونے تک اسٹیشن سے باہر قدم رکھنے کی اجازت نہیں تھی، کیونکہ خدشات تھے کہ وہ لاپتہ ہو سکتے ہیں یا غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ایم آر اے مارگ پولیس اسٹیشن کے سینئر پولیس انسپکٹر سنتوش دھنوتے نے بتایا کہ نادر کریم کی شناخت پاکستانی شہری کے طور پر ہو چکی ہے، اور انہیں غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہونے کے الزام میں سزا سنائی جا چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت خارجہ سے رابطہ کر کے نادر کو پاکستان واپس بھیجنے کے لیے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ پولیس اسٹیشن میں موجود افسران نے بتایا کہ نادر کریم اکثر اپنے گھر والوں کو یاد کر کے روتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے، تو انہیں اسپیشل برانچ کے دفتر لے جایا جاتا ہے، جو ملک بدری کے معاملات سنبھالتا ہے۔ نادر کریم نے آخری بار نومبر 2023 میں اپنے گھر والوں سے بات کی تھی، اور اب وہ اپنے اہل خانہ سے دوبارہ ملنے کے لیے بے تاب ہیں۔

Back
Top