خبریں

راولپنڈی: عدالت نے اربوں روپے کی پراپرٹی کے تنازع پر اپنی امریکی شہریت یافتہ سابقہ اہلیہ کے اغوا اور قتل کے مقدمے میں ملزم شوہر کو سزائے موت کا حکم سناتے ہوئے کہا کہ اسے "مرتے دم تک پھانسی کے پھندے پر لٹکائے رکھا جائے۔" اضافی ضلع اور سیشن جج چوہدری ماجد حسین نے ملزم رضوان حبیب کو قتل کے جرم میں موت کی سزا کے علاوہ 5 لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔ اس کے ساتھ ہی اغوا کے الزام میں 10 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ، جب کہ ثبوت مٹانے کی کوشش پر 7 سال قید اور ایک لاکھ روپے کی سزا سنائی گئی۔ شریک ملزم سلطان کو بھی 7 سال کی سزا اور جرمانہ عائد کیا گیا۔ فیصلہ سناتے وقت امریکی سفارت خانے کے تین اہلکاروں اور ایک ایف بی آئی افسر کی موجودگی نے معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اہم بنا دیا۔ امریکی نمائندوں نے عدالتی حکم کو "انصاف کی فتح" قرار دیتے ہوئے اطمینان کا اظہار کیا۔ سزا سنائے جانے کے بعد رضوان حبیب کو سخت سیکورٹی کے تحت اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ واضح رہے کہ مقتولہ وجیہہ سواتی، جو امریکا میں مقیم تھیں، اپنے سابق شوہر رضوان حبیب کے ساتھ اربوں روپے کی جائیداد کے تنازع میں الجھی ہوئی تھیں۔ تمام پراپرٹی وجیہہ کی ملکیت تھی، جس پر رضوان نے ناجائز قبضہ کر لیا تھا۔ ملزم نے اپنی سابقہ اہلیہ کو "راضی نامہ" کا جھانسہ دے کر 16 اکتوبر 2021 کو پاکستان بلایا، جہاں انہیں قتل کر کے لاش کو مسخ کر دیا گیا اور خیبر پختونخوا میں دفن کر دیا گیا۔ قتل کے بعد رضوان نے وجیہہ کے "گمشدہ ہونے" کا ڈراما رچایا، لیکن پولیس کی تفتیش کے دوران اس نے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے لاش کا پتہ بتا دیا۔ مقتولہ کے بیٹے عبداللہ نے امریکا سے آن لائن ایف آئی آر درج کروائی تھی، جس کے بعد کیس نے سنگین موڑ لیا۔ لاش کو امریکا منتقل کرنے سے قبل دوبارہ پوسٹ مارٹم کیا گیا، جہاں امریکی فورنسک لیبارٹری نے موت کی وجہ "شدید تشدد" قرار دی۔ سرکاری پراسیکیوٹر عفت سلطانہ نے مقدمے کی پیروی کرتے ہوئے مجرم کے خلاف سخت کارروائی کی سفارش کی تھی۔ یہ کیس پہلے بھی ہائی کورٹ میں پیش ہو چکا تھا، جہاں سے ریمانڈ ہونے کے بعد آج دوبارہ سزا سنائی گئی۔ امریکی ایف بی آئی اور سفارتکاروں نے تمام پیشیوں میں دلچسپی لی، جو اس مقدمے کی بین الاقوامی نوعیت کو ظاہر کرتا ہے۔
کراچی میں غیر ملکی فوڈ چین پر 3 روز کے دوران توڑ پھوڑ کا تیسرا واقعہ کراچی سمیت سندھ کے مختلف علاقوں میں غیر ملکی فوڈ چین "کے ایف سی" کی دکانوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ ترین واقعے میں 27 ملزمان کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے، جن پر نجی ریسٹورنٹ پر حملہ، پولیس پر پتھراؤ اور آگ زنی کی کوشش کا الزام ہے۔ سندھ پولیس کے مطابق، بدھ کی رات کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن میں واقع کے ایف سی کی دکان پر مشتعل افراد نے حملہ کیا۔ مشتعل ہجوم نے ریسٹورنٹ کے اندر اور باہر شدید توڑ پھوڑ کی، شیشے توڑے اور دکان کو کافی نقصان پہنچایا۔ پولیس نے جب مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش کی تو مشتعل افراد نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور فائرنگ کی۔ اس دوران ایک سرکاری موٹر سائیکل کو آگ لگا دی گئی اور پولیس موبائل کے شیشوں کو بھی توڑ دیا گیا۔ جواب میں پولیس نے ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کا سہارا لیا۔ اس پرتشدد واقعے میں پتھراؤ کے باعث ڈی ایس پی سیٹلائٹ ٹاؤن اسلم جاگیرانی، انچارج 15 یامین آرائیں، ایس ایچ او غریب آباد سمیت متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوگئے۔ صورتحال پر قابو پانے کے بعد پولیس نے سرکاری مدعیت میں مقدمہ درج کیا، جس میں پولیس سے مقابلہ، سرکاری کام میں مداخلت اور دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔ مقدمہ تعزیراتِ پاکستان اور انسداد دہشت گردی کے قانون کے تحت ٹاؤن پولیس اسٹیشن میں 16 معلوم اور 170 نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا۔ ایس ایس پی میرپورخاص ڈاکٹر سمیر نور چنہ نے ملزمان کی گرفتاری کے لیے متعدد ٹیمیں تشکیل دیں، جو چھاپہ مار کارروائیوں کے ذریعے ملزمان کو پکڑنے میں مصروف ہیں۔ اب تک 27 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے، جبکہ دیگر مفرور ملزمان کی تلاش جاری ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ تین روز میں کراچی میں غیر ملکی فوڈ چین کی دکانوں پر یہ تیسرا حملہ ہے، جو شہر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کی نشاندہی کرتا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہوئی۔ عمران خان کی جانب سے وکیل بیرسٹر سلیمان صفدر ایڈووکیٹ نے دلائل پیش کیے۔ دورکنی بنچ کے روبرو تمام مقدمات کے پراسیکیوٹرز اور تفتیشی افسران پیش ہوئے۔ عدالت نے ضمانت کی درخواستوں پر حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریکارڈ طلب کر رکھا ہے۔ بیرسٹر سلیمان صفدر نے اپنے دلائل میں مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان اس وقت ایک سیاسی قیدی ہیں۔ ایف آئی آرز میں یہ ذکر نہیں کیا گیا کہ کس کے کہنے پر ہنگامہ آرائی ہوئی۔ تمام مقدمات سیاسی نوعیت کے ہیں اور ایف آئی آرز کے متن میں واضح تضاد موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام ایف آئی آرز پولیس کی مدعیت میں درج کی گئیں اور ان کا متن ایک جیسا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ مقدمات منصوبہ بندی کے تحت بنائے گئے۔ ایف آئی آرز کے مطابق پی ٹی آئی نے 9 مئی کی سازش کی، حالانکہ 9 مئی کے روز عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ میں القادر ٹرسٹ کیس میں پیش ہوئے تھے۔ بیرسٹر سلیمان نے مزید کہا کہ ان کیسز میں مزید انکوائری کی ضرورت ہے اور 8 ماہ سے ضمانت کی درخواستوں پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی۔ سلیمان صفدر نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے ایف آئی آر درج ہونے کے 14 ماہ بعد عمران خان کو گرفتار کیا۔ عدت کیس سے بری ہونے کے بعد انہیں ان مقدمات میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ تمام ایف آئی آرز کا مرکزی کردار خود پولیس ہے اور ان مقدمات کا عمران خان سے کوئی تعلق نہیں۔ مقدمات سیاسی اور بدنیتی پر مبنی ہیں۔ وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ایف آئی آرز جھوٹے واقعات کی بنیاد پر پلانٹ کی گئیں۔ جن پولیس اہلکاروں نے یہ ایف آئی آرز درج کیں، ان کے خلاف محکمانہ کارروائی ہونی چاہیے۔ بیرسٹر سلیمان صفدر نے کہا کہ سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کو بھی سیاسی بنیادوں پر 12 مقدمات میں ملوث کیا گیا، تاہم وہ تمام مقدمات میں بری ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اے ٹی سی جج ارشد جاوید نے حقائق کے برعکس عمران خان کی درخواست ضمانتیں مسترد کیں، جبکہ عمران خان ان تمام واقعات کی تردید کر چکے ہیں۔ سلیمان صفدر نے مزید کہا کہ اے ٹی سی جج نے عمران خان کو پیش کیے بغیر جسمانی ریمانڈ دے دیا، حالانکہ ان کیسز میں جسمانی ریمانڈ نہیں بنتا تھا۔ عمران خان کو محض بیان کی بنیاد پر ریمانڈ پر دیا گیا۔ عدالت نے عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں پر سماعت 14 اپریل تک ملتوی کر دی۔ آئندہ سماعت پر پراسیکیوٹرز ملک سعود، رانا نعمان اور رانا احسن علی اپنے دلائل پیش کریں گے۔ جبکہ بانی پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر سلیمان صفدر اپنے دلائل مکمل کر چکے ہیں۔
شہر قائد کے علاقے نارتھ کراچی پاور ہاؤس کے قریب تیز رفتار ڈمپر نے متعدد موٹر سائیکل سوار افراد کو ٹکر مار دی، جس کے نتیجے میں تین افراد زخمی ہوگئے۔ حادثے کے بعد مشتعل افراد نے ڈمپر کے خلاف شدید احتجاج کیا اور مختلف مقامات پر 5 ڈمپرز، ایک واٹر ٹینکر اور ایک ٹرک کو آگ لگا دی۔ ریسکیو ذرائع کے مطابق، زخمی ہونے والے افراد کو فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ حادثے کے بعد مقامی افراد نے ڈمپر کے ڈرائیور کا تعاقب کیا اور اسے منگھوپیر روڈ پر پکڑ لیا۔ عوام نے ڈرائیور پر تشدد کیا، جس کے بعد پولیس نے موقع پر پہنچ کر اسے حراست میں لے لیا۔ مشتعل افراد نے پولیس کی موجودگی میں بھی پرتشدد کارروائیاں جاری رکھی اور متعدد ڈمپرز پر پتھراؤ کیا۔ ڈمپروں کی آگ بجھانے کے لیے آنے والی نیو کراچی فائر اسٹیشن کی گاڑی پر نامعلوم مشتعل افراد نے پتھراؤ کیا، جس کے نتیجے میں فائر بریگیڈ کی گاڑی کے ڈرائیور صابر کا سر پھٹ گیا اور گاڑی کا ونڈ اسکرین ٹوٹ کر چکنا چور ہوگیا۔ پولیس اور ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں اور مشتعل افراد کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ پولیس حکام نے بتایا کہ صورتحال کو قابو کرنے کے لیے مزید نفری بھی طلب کر لی گئی۔ پولیس حکام کے مطابق، مشتعل افراد کو منتشر کر دیا گیا ہے اور علاقے میں صورتحال قابو میں ہے۔ ڈی آئی جی عرفان بلوچ کا کہنا تھا کہ گلیوں اور اہم سڑکوں پر گشت بڑھا دیا گیا ہے اور ایس ایس پی سینٹرل بھی موقع پر پہنچ رہے ہیں۔ جو افراد ملوث ہیں، انہیں گرفتار کیا جائے گا۔ پولیس حکام کے مطابق نارتھ کراچی یوپی موڑ پر 5 ڈمپروں اور ٹرک کو آگ لگانے کے واقعے کے بعد شہر بھر میں پولیس کو الرٹ کر دیا گیا ہے اور تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز کو سڑکوں پر آنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ پولیس حکام نے مزید کہا کہ کسی بھی شخص کو شر انگیزی اور قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اسلام آباد: سوئی گیس کمپنیوں نے آئندہ مالی سال سے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی درخواست کردی ہے۔ جیو نیوز کے مطابق، سوئی ناردرن نے گیس کی قیمت میں اوسطاً 735 روپے 59 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو جبکہ سوئی سدرن نے سابقہ شارٹ فال سمیت 2443 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافے کی درخواست کی ہے۔ اس کے علاوہ، گیس کمپنیوں نے مالی سال 2025-26 کی مالی ضروریات کی درخواستیں بھی جمع کرائی ہیں۔ سوئی ناردرن نے 700 ارب 97 کروڑ روپے کی مالی ضروریات اور 207 ارب 43 کروڑ 50 لاکھ روپے کے شارٹ فال کی وصولی کی درخواست کی ہے۔ اس کے ساتھ ہی سوئی ناردرن نے گیس کی اوسط قیمت 2485 روپے 72 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔ سوئی سدرن نے 883 ارب 54 کروڑ 40 لاکھ روپے کی مالی ضروریات اور 44 ارب 33 کروڑ 20 لاکھ روپے کے شارٹ فال کی وصولی کی درخواست کی ہے، جبکہ سوئی سدرن نے گیس کی اوسط قیمت 4137 روپے 49 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کرنے کی درخواست بھی کی ہے۔ حکام کے مطابق، سوئی ناردرن کی درخواست پر 18 اور 28 اپریل کو لاہور اور پشاور میں سماعتیں ہوں گی، جبکہ سوئی سدرن کی درخواست پر 21 اور 23 اپریل کو کراچی اور کوئٹہ میں سماعتیں ہوں گی۔
**پشاور:** خیبر پختونخوا کے مائنز اینڈ منرلز بل 2025 نے شدید تنقید کو جنم دیا ہے، جس کے بعد پی ٹی آئی بانی عمران خان کی بہن علیمہ خان نے اس تجویزی قانون پر عملدرآمد روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس کی جانب سے انتہائی سخت تنقید کے بعد، وزیراعلیٰ علی امین خان گنڈاپور کو منگل رات ایک بیان جاری کرنا پڑا، جس میں انہوں نے تجویز کیے گئے ترامیم کے حوالے سے "افواہوں اور غلط فہمیوں" کو مسترد کیا۔ علیمہ خان نے منگل کو راولپنڈی میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ بل کے خلاف عوامی غم و غصہ بہت زیادہ ہے، لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ اسے اسمبلی میں پیش نہ کیا جائے جب تک کہ پی ٹی آئی بانی عمران خان جیل سے رہا ہو کر اسے منظور نہ کر لیں۔ یہ بل 4 اپریل کو صوبائی اسمبلی میں پیش کیا گیا تھا، جس پر حکمران اور اپوزیشن دونوں کے اراکین نے سخت تنقید کی۔ سابق وزیر شکیل احمد نے وزیر قانون سے درخواست کی کہ وہ اس بل کو پیش نہ کریں۔ انہوں نے کہا، **"اگر ہم سے کسی کی خاطر یہ غلطی ہوئی تو آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گی،"** اور حکومت سے سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) سے لاتعلقی اختیار کرنے کی اپیل کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ SIFC میں طاقتور حلقوں کا بڑا حصہ ہے، جس نے معدنیات، زراعت، سیاحت، تیل اور گیس کے شعبوں میں پانچ کمپنیاں بنائی ہوئی ہیں۔ بل میں تجویز دی گئی ہے کہ مائنز اینڈ منرلز ڈائریکٹوریٹ میں لائسنسنگ اور ایکسپلوریشن کے شعبے قائم کیے جائیں، نیز صوبے میں ایک مائنز اینڈ منرلز فورس بنائی جائے۔ اگرچہ بل میں زمین مالکان کے حقوق کے تحفظ اور مقامی کمیونٹیز کو تربیت اور دیگر مواقع فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے، لیکن یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کیا ان علاقوں میں کان کنی سے ہونے والی آمدنی میں مقامی لوگوں کا کوئی حصہ ہوگا۔ تاہم، بل میں وفاقی مائننگ ونگ (وزارت توانائی کی ایک ایجنسی) کے کردار نے سب کو حیران کر دیا، کیونکہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد کان کنی کا شعبہ صوبائی اختیارات میں آتا ہے۔ بل کی دفعہ 6(i) میں لائسنسنگ اتھارٹی کے اختیارات اور فرائض کے تحت کہا گیا ہے کہ **"اتھارٹی، معدنی سرمایہ کاری کو آسان بنانے والی اتھارٹی (MIFA) کی سفارشات پر عمل کرے گی اور لائسنسنگ اتھارٹی کے اختیارات کے حوالے سے وفاقی مائننگ ونگ کے مشوروں پر بھی عمل کر سکتی ہے۔"** دفعہ 19 میں معدنی سرمایہ کاری کو آسان بنانے والی اتھارٹی (MIFA) کا ذکر ہے، لیکن موجودہ KP Mines and Mineral Act 2017 کے برعکس، اس بل میں اس اتھارٹی کی تشکیل بدل دی گئی ہے۔ موجودہ قانون میں اس کے 7 اراکین ہیں جبکہ صوبائی وزیر معدنیات اس کے سربراہ ہوتے ہیں۔ تاہم، نئے بل میں اراکین کی تعداد بڑھا کر 14 کر دی گئی ہے، جس میں 5 صوبائی وزراء شامل ہوں گے۔ نیز، دفعہ 19(3) چیئرپرسن کو کسی بھی شخص کو بطور رکن مدعو کرنے کا اختیار دیتی ہے۔ بل میں MIFA کے اختیارات 12 سے بڑھا کر 16 کر دیے گئے ہیں، جبکہ وفاقی مائننگ ونگ کو (f)، (g)، (h)، (i) اور (k) ذیلی دفعات میں مشورہ دینے کا اختیار دیا گیا ہے۔ ذیلی دفعہ (f) کے تحت اتھارٹی خود یا وفاقی مائننگ ونگ کے مشورے پر فیسز، کرایوں اور رائلٹیز کا جائزہ لے سکتی ہے۔ ایک اور دفعہ وفاقی ادارے کو ریزرو قیمت کے تعین، مالی ضمانتوں، ماڈل منرل معاہدے کے جائزے، لائسنسنگ اتھارٹی کے اختیارات، کیڈاسٹر سسٹم کے کام کرنے کے طریقے، کان کنی کے لیے درخواستوں کے رجسٹر، معدنی مخصوص علاقوں کے رجسٹر اور حکومت کو سفارشات دینے کا وسیع اختیار دیتی ہے۔ دفعہ 2 میں تعریفات بیان کی گئی ہیں، جس کے ذیلی دفعہ (kk) میں لارج اسکیل مائننگ (LSM) کی تعریف **"کم از کم 500 ملین روپے کے سرمائے سے کی جانے والی کان کنی"** کے طور پر کی گئی ہے۔ تاہم، ایک شرط یہ بھی ہے کہ سرمایہ کار سرکاری کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبے بنائیں۔ **"مزید یہ کہ LSM میں سرمایہ کار سرکاری کمپنیوں کے ساتھ حکومت کی مقرر کردہ شرائط پر مخصوص شراکتی تناسب کے ساتھ مشترکہ منصوبے بنائیں گے۔"** نیز، بل کے شیڈول I میں معدنیات کو 18 گروپس میں تقسیم کیا گیا ہے، سوائے اسٹریٹیجک اور ریئرتھ معدنیات کے، جن کی فہرست نہیں دی گئی۔ اسٹریٹیجک معدنیات کی تعریف حکومت یا وفاقی مائننگ ونگ (FIMA کے ذریعے) کرے گی، جبکہ ریئرتھ معدنیات کی تعریف صوبائی حکومت یا وفاقی مائننگ ونگ کے مشورے سے ہوگی۔ شیڈول میں ایک نوٹ شامل کیا گیا ہے: **"حکومت کسی بھی معدنی یا گروپ کو مذکورہ گروپس میں شامل یا خارج کر سکتی ہے، جیسا کہ موقع کی مناسبت سے سرکاری گزٹ میں نوٹیفکیشن جاری کر کے مناسب سمجھا جائے۔"** فرنٹیئر مائن اونرز ایسوسی ایشن کے صدیق خان مروت نے کہا کہ یہ بل صوبے کی معاشی خودمختاری پر حملہ ہے، جس میں چھوٹے کان کنوں کو دبا کر بڑی کمپنیوں کو ترجیح دی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹی کان کنی کے لیے 2.5 کروڑ روپے کی بینک گارنٹی کا مطالبہ ناقابل قبول ہے۔ تاہم، محکمہ معدنیات کے ایک عہدیدار نے اصرار کیا کہ یہ بل دنیا بھر کی طرح کان کنی کے شعبے کو منظم کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، "بل کا پہلا مسودہ اسلام آباد سے آیا تھا جس میں چار مرتبہ نظرثانی کی گئی، ہر بار صوبے اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے خیالات اور موقف کو شامل کیا گیا۔" عہدیدار نے دعویٰ کیا کہ تجویز کردہ قانون کا تقریباً 60 فیصد حصہ موجودہ ایکٹ سے مماثل ہے۔ محکمہ معدنیات کے سیکرٹری مطاہر زیب نے نامہ نگار کے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
اسلام آباد میں ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ امریکا کی جانب سے پاکستان پر ٹیرف کے نفاذ کا نوٹس لیا گیا ہے، اور اس معاملے پر غور جاری ہے۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ ٹیرف کا اثر ترقی پذیر ممالک پر بھی پڑ رہا ہے، اس لیے اس معاملے کا باقاعدہ حل نکالا جانا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان ہمیشہ افغان عوام کے ساتھ کھڑا رہا ہے، تاہم اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہماری پالیسی کا بنیادی حصہ ہے۔ حکومت آئی ایف آر پی (Illegal Foreigners Repatriation Plan) کو مرحلہ وار نافذ کر رہی ہے اور تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ رابطے میں ہے۔ غیر قانونی طور پر مقیم افراد کی واپسی پر عملدرآمد ہو رہا ہے، کیونکہ کسی بھی ملک کی طرح پاکستان کو بھی اپنی سرزمین پر قانونی آمد و رفت یقینی بنانے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرحدی معاملات ریگولیشن کا مسئلہ ہیں اور خارجہ پالیسی وفاق کا دائرہ اختیار ہے، جبکہ افغانستان سے متعلق صوبائی سطح پر ہونے والے کسی بھی رابطے کے ٹی او آرز افغان ڈیسک سے چیک کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کے ویزوں پر مکمل پابندی نہیں لگائی گئی۔ یو اے ای میں ایک بڑی تعداد میں پاکستانی ڈائسپورا آباد ہے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے مسلسل رابطے میں ہیں۔ ترجمان نے بگرام ایئر بیس کے حوالے سے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی خبروں کو افواہیں قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ امریکا اور افغانستان کی حکومتوں کے درمیان ہے۔ برطانیہ سے پاکستان لائے جانے والے ایک قیدی کی سماجی تقریبات میں شرکت کی اطلاعات کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تہور رانا کے حوالے سے ریکارڈ کے مطابق انہوں نے گزشتہ دو سال سے اپنی پاکستانی شہریت کی تجدید نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ ایران پاکستان کا ایک اہم ہمسایہ اور قریبی دوست ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی اہم اور خوشگوار ہیں۔ جے سی پی او (Joint Comprehensive Plan of Action) ایک پیچیدہ مسئلے کا بہترین سفارتی حل تھا، اور پاکستان ہمیشہ بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کا حامی رہا ہے۔ امریکا پاکستان کی بڑی برآمدی منڈی ہے، جب کہ چین ہمارا تزویراتی شراکت دار ہے۔ چینی شہریوں کا تحفظ ہماری اہم قومی ذمہ داری ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف 10 سے 11 اپریل کے دوران صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی دعوت پر بیلاروس کا سرکاری دورہ کریں گے۔ وزیراعظم کے ہمراہ وزیر خارجہ اسحاق ڈار، وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز، دیگر وزرا اور اعلیٰ حکام بھی ہوں گے۔ یہ دورہ نومبر 2024 میں صدر لوکاشینکو کے پاکستان کے دورے کے تسلسل میں ہو رہا ہے۔ اس دوران دونوں ممالک کے درمیان باہمی دلچسپی کے شعبوں میں تعاون پر گفتگو ہو گی اور متعدد معاہدوں پر دستخط کی توقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران پاکستان اور بیلاروس کے درمیان اعلیٰ سطحی روابط میں تیزی آئی ہے، جن میں فروری 2025 میں مشترکہ وزارتی کمیشن کا آٹھواں اجلاس اور اپریل 2025 میں ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد کا دورہ شامل ہے۔ یہ سفارتی روابط دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اعتماد اور مضبوط شراکت داری کا مظہر ہیں۔ ترجمان نے بتایا کہ وزیر خارجہ نے سعودی ہم منصب سے ٹیلیفونک گفتگو کی جس میں باہمی تعلقات اور مختلف امور پر بات چیت ہوئی۔ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے بھی رابطہ ہوا جس میں قریبی تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ آذربائیجان کے وزیر اقتصادی امور سے ملاقات میں آئندہ معاہدوں پر گفتگو ہوئی، جو کہ آذربائیجانی صدر کے متوقع دورہ پاکستان کے تناظر میں اہم ہے۔ سیکریٹری خارجہ آمنہ بلوچ اس وقت عمان کے دورے پر ہیں جہاں وہ دوطرفہ سیاسی مشاورت میں پاکستان کی نمائندگی کر رہی ہیں۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ میانمار کے زلزلہ متاثرین کے لیے پاکستان کی جانب سے 35 ٹن امدادی سامان بھی روانہ کیا گیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں جنوری 2024 سے اسلام آباد سے لاپتہ ہونے والے چار افغان بھائیوں کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کی گئی۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد اور آئی جی پنجاب کو 16 اپریل کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم دیا۔ جسٹس محمد آصف کی سربراہی میں درخواست گزار افغان خاتون گل سیما کی درخواست پر سماعت ہوئی، جن کے چار بیٹے گزشتہ ایک سال سے لاپتہ ہیں۔ اس دوران جسٹس محمد آصف نے پولیس حکام سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ آپ کے ساتھ یا میرے ساتھ ہو تو تب ہی احساس ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب میں بلوچستان میں تھا تب بھی ایسا ہی ہوا تھا، پولیس نے پہلے کہا تھا کہ ہمارے پاس نہیں، لیکن بعد میں وہیں سے لوگ برآمد ہوئے تھے۔ کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا؟ جسٹس آصف نے کہا کہ جس کا بندہ لاپتہ ہوتا ہے، وہ ہر پل زندہ رہتا ہے اور ہر پل مرتا ہے۔ اس پر جو گزرتی ہے، اُسی کو پتہ ہوتا ہے کہ کیسے گزر رہی ہے۔ اس موقع پر لاپتہ بیٹوں کی والدہ کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہو گئیں۔ وکیل درخواست گزار نے عدالت کو بتایا کہ ان کے بیٹے ایک سال سے زائد عرصے سے لاپتہ ہیں اور ابھی تک یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کس ریاست مخالف سرگرمی میں ملوث ہیں۔ وکیل نے سوال اٹھایا کہ جو لوگ فوٹیج میں نظر آ رہے ہیں، انہیں تفتیش میں شامل کیوں نہیں کیا جا رہا؟ انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی آر میں نامزد افراد سے پوچھا جائے کہ وہ فوٹیج میں کیوں موجود تھے۔ پولیس حکام نے بتایا کہ گل سیما کو بلایا گیا تھا اور ان کا بیان لیا گیا تھا، تاہم تفتیشی افسر نے اب تک کسی کو گرفتار نہیں کیا۔ وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ جن افراد کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے، انہیں تفتیش میں شامل کیا جائے، کیونکہ فوٹیج میں ان کے چہرے واضح ہیں اور پنجاب پولیس کے اہلکار ملوث نظر آ رہے ہیں۔ پولیس حکام نے اپنے موقف میں کہا کہ ہم ہر اینگل سے تفتیش کر رہے ہیں، سیالکوٹ تک بھی گئے ہیں اور تمام معلومات اکٹھی کر رہے ہیں۔ وکیل نے عدالت سے استدعا کی کہ آئی جی اسلام آباد اور پنجاب کو ذاتی حیثیت میں طلب کیا جائے تاکہ وہ اس کیس کی پیشرفت کے بارے میں وضاحت دے سکیں۔ جس پر عدالت نے حکم دیا کہ دونوں آئی جیز 16 اپریل کو 11 بجے عدالت میں پیش ہوں۔ وکیل درخواست گزار نے سیکرٹری دفاع اور داخلہ کو بھی ذاتی حیثیت میں طلب کرنے کی استدعا کی۔ جس پر عدالت نے کہا کہ پہلے آئی جیز کو بلا لیتے ہیں، ان کو سن کر پھر دیگر فریقین کو بلا لیں گے۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد اور پنجاب کو 16 اپریل کو ذاتی حیثیت میں پیش ہونے کی ہدایت دیتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔
امریکی امیگریشن حکام نے سوشل میڈیا پر یہود مخالف پوسٹس کرنے والوں کے لیے ویزے اور رہائشی اجازت نامے جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اقدام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے آیا ہے، جو یہود دشمن مواد پھیلانے والوں کی نگرانی کرے گی اور ان کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ امریکی حکام کے مطابق، سوشل میڈیا پر یہود دشمنی یا دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کرنے والے افراد کا ویزہ یا رہائشی اجازت نامہ منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ یہود دشمنی کے مواد میں حماس، حزب اللہ اور حوثی گروپوں کی حمایت شامل ہو سکتی ہے، جنہیں امریکہ نے دہشت گرد تنظیموں کے طور پر قرار دیا ہے۔ یہ فیصلہ امریکہ کے آئین کی پہلی ترمیم کے ساتھ ایک پیچیدہ تعلق رکھتا ہے، کیونکہ اس ترمیم کے تحت آزادی اظہار رائے کی ضمانت دی گئی ہے۔ تاہم، حکام کا کہنا ہے کہ یہ آزادی اظہار رائے کے دائرے میں آتا ہے، جب کسی فرد کی سرگرمیاں دہشت گردی، تشدد یا دہشت گرد تنظیموں کی حمایت پر مبنی ہوں۔ محکمہ ہوم لینڈ سیکیورٹی کی سیکرٹری کرسٹی نوم نے اس اقدام کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی شخص جو امریکا آنا چاہے اور یہود دشمن سرگرمیوں کی حمایت کرے، اسے خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔ حکام نے یہ بھی کہا کہ یہ پالیسی فوراً نافذ العمل ہوگی اور اس کا اطلاق طلبا کے ویزوں اور مستقل رہائشی "گرین کارڈز" کی درخواستوں پر ہوگا۔ ویزا منسوخی کی کارروائی:امریکی حکام نے حالیہ دنوں میں تقریباً 300 افراد کے ویزے منسوخ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ان افراد میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ انہیں یہودیوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرنے کے الزام میں نشانہ بنایا گیا، جبکہ کچھ کا ماننا ہے کہ وہ صرف احتجاج میں شریک تھے۔ یونیورسٹیوں کی سرزنش:ٹرمپ انتظامیہ نے سرکردہ امریکی یونیورسٹیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ انہوں نے غزہ تنازعے پر مظاہروں کے دوران یہود دشمنی کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔ اس وجہ سے کئی یونیورسٹیوں کو وفاقی فنڈنگ میں کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ محمود خلیل کا کیس:سب سے نمایاں کیس نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی کے طالب علم محمود خلیل کا ہے، جو امریکا کا مستقل رہائشی ہونے کے باوجود یہود دشمنی کے الزامات کی وجہ سے ملک بدر ہو گئے تھے۔ یہ پالیسی اس بات کی غماز ہے کہ امریکی حکام نے اپنے ملک میں یہود دشمن سرگرمیوں کے خلاف مزید سخت اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے، خاص طور پر جب بات سوشل میڈیا پر ایسی سرگرمیوں کی ہو۔
سعودی عرب اور پاکستان نے ارضیاتی سروے کے شعبے میں مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے، جس کا مقصد دونوں ممالک کے قدرتی ذخائر کی بہتر تحقیق اور استفادہ ہے۔ عرب نیوز کے مطابق، سعودی عرب جیولوجیکل سروے کے سربراہ انجینیئر عبد اللہ مفطر الشمرانی نے کہا کہ اس باہمی تعاون کو تجربات اور علم کی شراکت داری کے ذریعے آگے بڑھایا جائے گا۔ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان اس تعاون کا مقصد زمین کی خصوصیات کے ساتھ ساتھ اس میں موجود قدرتی وسائل کا تجزیہ کرنا ہے، جس سے پاکستان کے معدنی شعبے کو مزید ترقی ملے گی۔ پاکستان میں قدرتی ذخائر کا تخمینہ چھ ٹریلین ڈالر تک ہے، اور اس میں نمک، تانبے، سونے اور کوئلے جیسے اہم ذخائر شامل ہیں۔ حالانکہ پاکستان کے پاس ان وسائل کا کافی ذخیرہ موجود ہے، لیکن عالمی معدنی برآمدات میں اس کا حصہ صرف صفر اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اپنے معدنی ذخائر سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے، اور سعودی عرب کا تعاون اس میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔ پاکستان اور سعودی عرب کے مابین معاشی تعاون کا ایک نیا دور شروع ہو چکا ہے، اور سعودی وزیر سرمایہ کاری کی جانب سے اس کا خیرمقدم کیا گیا ہے۔ سعودی جیولوجیکل سروے کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر انجینیئر عبد اللہ مفطر الشمرانی نے دو روزہ منرلز انویسٹمنٹ فورم کے دوران بتایا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے سروے ڈیپارٹمنٹس کے حکام کے درمیان ملاقات ہوئی ہے اور دونوں ممالک نے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تعاون کے تحت دونوں ممالک اپنے تجربات، مشاہدات اور علوم کو شیئر کریں گے، جس سے دونوں ممالک کی اقتصادی ترقی میں اضافہ ہوگا۔ اس کے علاوہ، سعودی عرب نے منرل سمٹ میں پاکستانی کمپنیوں کے ساتھ مفید بات چیت کی اور مزید مواقع کی تلاش جاری رکھنے کی بات کی۔ پاکستان میں سونے اور تانبے کے وسیع ذخائر موجود ہیں، خاص طور پر جنوب مغربی بلوچستان میں ریکوڈک کی کان میں 5.9 ارب ٹن خام معدنیات موجود ہیں۔ یہ ذخیرہ تانبے کے بڑے ذخائر میں شمار کیا جاتا ہے اور اس کی ترقی سے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔ سعودی عرب اور پاکستان کے اس نئے تعاون سے دونوں ممالک کو اپنے قدرتی ذخائر سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا موقع ملے گا، جس سے نہ صرف اقتصادی تعلقات مزید مضبوط ہوں گے بلکہ عالمی سطح پر دونوں ممالک کی معدنی صنعت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی صدر نون لیگ میاں نواز شریف سے ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ہے۔ اس ملاقات میں نواز شریف نے فوری طور پر بلوچستان کے دورے کا وعدہ نہیں کیا، اور کہا کہ وہ وزیراعظم شہباز شریف کو اعتماد میں لے کر اختر مینگل اور دیگر اسٹیک ہولڈرز سے بات کریں گے۔ ذرائع کے مطابق، میاں نواز شریف نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سے کہا کہ اگر سیاسی حالات میں کوئی تبدیلی آئی تو وہ بلوچستان کا دورہ کریں گے۔ نواز شریف نے یہ بھی بتایا کہ وہ وزیراعظم شہباز شریف سے بات کر کے بلوچستان کے حوالے سے کوئی قدم اٹھائیں گے اور اختر مینگل کے معاملے پر وفاقی حکومت سے بات کریں گے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مہرنگ بلوچ کے حوالے سے بات کی، لیکن نواز شریف نے اس بارے میں کوئی وعدہ نہیں کیا۔ دونوں رہنماؤں نے بلوچستان کے مسائل کے حل کے لئے سیاسی طریقے پر اتفاق کیا اور اس بات پر زور دیا کہ ان مسائل کا حل سیاسی طریقہ کار کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ نواز شریف نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے جو بھی ممکن اقدام اٹھا سکیں گے، کریں گے۔ ملاقات میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کسی بھی قسم کی ڈیمانڈ نہیں رکھی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے سیاسی بات چیت کے منتظر ہیں۔
پاکستان عالمی سلیکان پارٹی میں شمولیت اختیار کرنے والا پہلا ملک نہیں تھا جس کا ہمیں اندازہ ہوتا۔ لیکن 2024 کے آخر تک، یہ خاموشی سے سرفہرست سولر اپنانے والے ممالک میں شامل ہو گیا، ایک سال میں حیران کن طور پر 22 گیگاواٹ کے سولر پینلز درآمد کیے۔ یہ کوئی ٹائپو یا اسپریڈشیٹ کی غلطی نہیں تھی، بلکہ ایک ایسا عدد ہے جو عالمی توانائی ایجنسی کے اجلاسوں میں توجہ کا مرکز بن جاتا ہے اور پالیسی تجزیہ کاروں کو اپنے ڈیٹا بیس دوبارہ چیک کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ جب میں نے 2024 کے وسط میں اس بارے میں سنا، تو میں بھی چونک پڑا۔ یہ کینیڈا کے نصب شدہ سسٹمز سے زیادہ ہے، یہ پچھلے پانچ سالوں میں برطانیہ کے اضافے سے بھی زیادہ ہے۔ پھر بھی، زیادہ تر مغربی میڈیا میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ جب امریکہ گرڈ کنکشن کی قطاروں پر دہائیوں سے جاری بحران میں تھا اور یورپ اجازت ناموں میں اصلاحات پر بحث کر رہا تھا، پاکستان نے صرف سادہ طریقے سے سسٹمز خریدے اور پنل نصب کیے۔ پاکستان کی توانائی کی اس تبدیلی کو سمجھنے کے لیے آپ کو اس کی ابتدا تک جانا ہوگا۔ پاکستان 1947 میں خون اور نقل مکانی کے ساتھ وجود میں آیا۔ برطانوی ہندوستان سے الگ ہو کر بننے والی یہ نئی ریاست خود کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے—مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان—جو ایک ہزار میل کے بھارتی علاقے اور سیاسی انتشار سے جدا تھے۔ یہ تقسیم 1971 میں تب ختم ہوئی جب مشرقی پاکستان نے بنگلہ دیش بننے کے لیے علیحدگی اختیار کی، جس کے بعد ایک خونریز خانہ جنگی اور فوجی کارروائی نے گہرے زخم چھوڑے۔ پھر سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ 1979 میں سوویت یونین کی افغانستان پر فوج کشی کے دوران پاکستان امریکہ کے حمایت یافتہ مجاہدین کا اڈہ بن گیا۔ امریکیوں کے واپس جانے کے بعد، پاکستان میں انتہا پسند گروہ پھیل گئے۔ 2001 میں امریکہ دوبارہ آیا اور پاکستان کو محاذ پر کھڑا کر دیا۔ یہ 30 سال تک ایک ملک تھا جو دوسروں کی جنگوں کا جواب دے رہا تھا، لاکھوں پناہ گزینوں کا سامنا کر رہا تھا اور اپنی خود کی انٹیلی جنس پالیسیوں کے اثرات جھیل رہا تھا۔ اس کے باوجود، صاف توانائی کی منتقلی اس جغرافیائی اور سیاسی تناؤ کے باوجود ممکن ہوئی۔ پاکستان کے مجموعی طور پر گرین ہاؤس گیس کے اخراجات عالمی سطح پر بہت کم ہیں۔ 2010 کی دہائی کے آخر تک پاکستان کا CO₂ اخراج تقریباً 490 ملین ٹن تھا، جو اسے دنیا کے ٹاپ ٹین ممالک میں نہیں رکھتا۔ لیکن یہ اعداد و شمار ایک پیچیدہ کہانی چھپاتے ہیں۔ فی کس اخراج کی بنیاد پر پاکستان کا اخراج 2 ٹن فی شخص کے قریب ہے، جو عالمی اوسط سے نمایاں کم ہے۔ لیکن جب معاشی پیداوار کے لحاظ سے دیکھا جاتا ہے تو پاکستان کی کاربن شدت زیادہ ہے—یعنی ہر ڈالر کی اقتصادی سرگرمی کے لیے زیادہ کاربن خارج ہوتا ہے۔ سولر پاور کی اس کامیابی کو سمجھنے کے لیے آپ کو پاکستان کی حالیہ تاریخ کو جاننا ہوگا۔ 2000 کی دہائی کے آغاز میں پاکستان کی شناخت زیادہ تر دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام کے لیے تھی۔ دہشت گرد حملے روزمرہ کا معمول تھے، بجلی کی کمی ایک عام بات تھی، اور حکومتی عملداری میں مسلسل کمی تھی۔ لیکن پھر کچھ بدلنا شروع ہوا۔ پاکستان نے آہستہ آہستہ اداروں کی تعمیر شروع کی اور دہشت گردی کو قابو کیا۔ ٹیکنکرٹک طبقے نے توانائی کی پالیسیوں میں عملی قدم اٹھایا۔ 2024 تک یہ تبدیلی ایک دھماکے کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ چینی پینلز کی قیمتوں میں کمی اور ڈیزل جنریٹرز کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ، سولر کی جانب رجوع کرنے کی ضرورت واضح ہوئی۔ پاکستان نے اپنے سرکاری ٹیکسٹائل ملز، گوداموں اور کھیتوں میں سولر پینلز لگانے کا راستہ کھول دیا۔ حکومت نے صرف ٹیرف ہٹا دیے، نیٹ میٹرنگ کی منظوری دی اور مارکیٹ کو آزاد کر دیا۔ پاکستان میں سادہ اقتصادی جواز پر سولر توانائی کی مقبولیت بڑھی، لیکن یہ صرف سولر کی کہانی نہیں ہے۔ ہوا، پانی اور شکر کی صنعت سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبے بھی کامیابی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بیٹری اسٹوریج اور ہائبرڈ انورٹرز بھی ملک میں مقبول ہو رہے ہیں۔ پاکستان کی توانائی کی تبدیلی اور الیکٹرک گاڑیوں کی طرف بڑھتا ہوا رجحان ایک مزید اہم تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ چینی کمپنیاں پاکستان میں بڑے پیمانے پر آپریشنز شروع کر رہی ہیں اور مقامی کمپنیاں بھی الیکٹرک موٹر سائیکلوں اور رکشوں کی تیاری کر رہی ہیں۔ یہ سب توانائی کی منتقلی میں نئے افق کے دروازے کھول رہا ہے۔ اب پاکستان کا کم کاربن والی معیشت کی طرف رخ کرنا ایک واضح حکمت عملی بن چکا ہے، جس کے تحت حکومت نے 2030 تک اپنے اخراجات میں 50 فیصد کمی کرنے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر پاکستان نے پاریس معاہدے میں اپنی ذمہ داریوں کو بڑھایا ہے، اور اب اس کے اقدامات دنیا بھر میں توجہ کا مرکز بنے ہیں۔ پاکستان کا سلیکان ویلی بننے کا کوئی ارادہ نہیں ہے، مگر وہ توانائی کی کمی کو سورج کی روشنی اور سلیکان کے ذریعے حل کر رہا ہے۔
وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی نے کہا ہے کہ پاکستان ریلوے میں بہتری لانے کے لیے مسافر ٹرینوں کو مکمل طور پر آؤٹ سورس کرنے کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بات لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی اور کہا کہ حالیہ برسوں میں مسافر ٹرینوں میں مسافروں کی تعداد میں کمی آئی ہے، جس کے حل کے لیے اہم اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ حنیف عباسی نے مزید بتایا کہ فریٹ ٹرینوں کی تعداد کو 31 دسمبر تک دوگنا کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، جس سے ملک بھر میں مال برداری کے نظام کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ متوقع ہے۔ وزیر ریلوے نے کہا کہ حکومت ریلوے کے شعبے میں اصلاحات کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے اور ریلوے کی کارکردگی میں مزید بہتری لانے کے لیے متعدد منصوبے تیار کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 10 مسافر ٹرینوں کو آؤٹ سورس کرنے کا ایک منصوبہ تیار کیا گیا ہے، جس سے ٹرینوں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور مسافروں کو زیادہ بہتر خدمات فراہم کرنے میں مدد ملے گی۔ حنیف عباسی نے اس بات کا اعتراف کیا کہ مسافر ٹرینوں میں کمی کی ایک وجہ سفری سہولتوں کی کمی ہے، جسے بہتر بنانے کے لیے مریم اورنگزیب کے ساتھ ایک طویل میٹنگ میں اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ پاکستان ریلوے کے لیے آنے والے دنوں میں مزید اصلاحات کی جائیں گی، تاکہ عوام کو بہتر اور محفوظ سفری سہولتیں فراہم کی جا سکیں اور ملک بھر میں ریلوے کے نظام کو نیا فروغ مل سکے۔
مشیر سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے واضح کیا ہے کہ پنجاب سندھ کا ایک قطرہ پانی بھی چوری نہیں کرے گا اور اس مسئلے کو تمام فریقین کے درمیان اتفاق رائے سے حل کر لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بعض قوم پرست جماعتیں اس مسئلے کو غلط طریقے سے اُٹھا رہی ہیں اور سیاست میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ رانا ثنا اللہ نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھا رہی ہے، اور اس معاملے کو سیاسی طور پر حل کرنے کے لیے تمام فریقین کو مل کر بات کرنی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ مسائل کا حل صرف اور صرف گفتگو اور مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کے بانی سیاستدانوں نے اس مسئلے پر گفتگو اور مذاکرات کی جانب قدم نہیں بڑھایا تو اس کا حل ممکن نہیں ہوگا۔ اس لیے تمام سیاسی جماعتوں کو آپس میں تعاون کر کے عوام کے مفاد میں فیصلہ کرنا ہوگا تاکہ پانی کے وسائل کا غیر متنازعہ اور منصفانہ استعمال یقینی بنایا جا سکے رانا ثنا اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ایک مشترکہ اور تعمیری کوشش ضروری ہے تاکہ کسی بھی قسم کے تنازعے سے بچا جا سکے اور قوم کے مفاد کو ترجیح دی جا سکے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے 20 رہنماؤں کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جن پر سوشل میڈیا پر ریاست مخالف پروپیگنڈے میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے یہ فیصلہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی جانب سے تحقیقات میں تعاون نہ کرنے پر کیا۔ ڈان نیوز کے مطابق، جے آئی ٹی نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو متعدد بار پیش ہونے کے نوٹس بھیجے تھے لیکن وہ پیش نہیں ہوئے۔ تمام رہنماؤں کے گھروں پر نوٹسز کی تعمیل بھی کروائی گئی۔ ان رہنماؤں میں وقاص اکرم، حماد اظہر، زلفی بخاری، عون عباس، میاں اسلم، فردوس شمیم نقوی، تیمور سلیم، جبران الیاس اور دیگر شامل ہیں، جن کے وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، جے آئی ٹی نے تحقیقات کے دوران پی ٹی آئی کے رہنماؤں سے سوشل میڈیا ہینڈلرز کے حوالے سے سوالات کیے، خاص طور پر پاک فوج اور ریاستی اداروں کے حوالے سے سوشل میڈیا پوسٹس پر سخت سوالات کیے گئے۔ اس دوران پی ٹی آئی نے پارٹی فنڈز سے متعلق تمام ریکارڈ جے آئی ٹی کو پیش کر دیا ہے۔ اس سے قبل، پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر، سینیٹ میں قائد حزب اختلاف شبلی فراز اور عمران خان کی بہن علیمہ خان سمیت دیگر رہنما جے آئی ٹی میں پیش ہو چکے ہیں۔ ان رہنماؤں سے سوشل میڈیا پوسٹس اور پارٹی فنانسنگ کے بارے میں سوالات کیے گئے۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات پیکا ایکٹ 2016 کے سیکشن 30 کے تحت کی جا رہی ہیں، اور اس میں آئی جی اسلام آباد کی سربراہی میں تشکیل دی گئی ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی کے پاس اس معاملے میں ان افراد کے ملوث ہونے کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ جے آئی ٹی نے پیش نہ ہونے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی کی دھمکی بھی دی تھی۔ اب تک کی تحقیقات کے مطابق، پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے خلاف ریاست مخالف پروپیگنڈے کی بناء پر قانونی کارروائی کی جا رہی ہے، اور جے آئی ٹی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ان افراد کو جلد پیش ہونے کی ضرورت ہے تاکہ تحقیقات کو آگے بڑھایا جا سکے۔
انسداد دہشت گردی عدالت میں پیشی کے دوران پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما شاہ محمود قریشی اور پولیس افسران کے درمیان شدید تلخ کلامی ہوئی۔ قریشی نے کہا کہ آج جو ہمیں ہتھکڑیاں لگا رہے ہیں، کل یہی لوگ ہمیں سیلوٹ کریں گے۔ تفصیلات کے مطابق، شاہ محمود قریشی عدالت میں پیشی کے بعد پولیس افسران کی جانب سے ان کے جانے کی کوشش پر برہم ہوگئے۔ پولیس کی جانب سے انہیں فوراً روانہ کرنے کی کوشش کی گئی، جس پر قریشی نے احتجاج کیا اور کہا، "آپ مجھے جانے پر مجبور نہیں کر سکتے۔ اگر میں کچھ دیر یہاں رک جاتا ہوں تو اس میں کیا فرق پڑے گا؟ سندھ سے لوگ مجھے ملنے آئے ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ میں ان سے ملاقات نہ کروں۔" شاہ محمود قریشی نے مزید کہا، "آپ کو کس نے مجھے میرے لوگوں سے ملنے سے روکا ہے؟ آپ اپنے بڑوں کو بلائیں، ایس پی، ڈی آئی جی اور آئی جی کو بلائیں، میں ان سے بات کروں گا۔" انہوں نے یہ بھی کہا، "جو آج ہمیں ہتھکڑیاں لگا رہے ہیں، کل یہ ہمیں سیلوٹ کریں گے۔" یاد رہے کہ شاہ محمود قریشی نے تقریباً دو سال قبل جیل سے باہر پی ٹی آئی قیادت سے ایک درخواست کی تھی کہ وہ باہمی اتفاق برقرار رکھیں اور جیل میں قید پارٹی رہنماؤں کے لیے اقدامات کریں۔ انہوں نے پارٹی قیادت کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا، "جو جیل میں پڑے ہیں، وہ آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ آپ سے استدعا ہے کہ آپ اتفاق اور حسن سلوک برقرار رکھیں، اور جیل والوں کے لیے ضروری اقدامات کریں۔" شاہ محمود قریشی کا یہ بیان اس وقت آیا ہے جب پی ٹی آئی کے رہنما سیاسی کشمکش اور قانونی چیلنجز کا سامنا کر رہے ہیں، اور قریشی نے اپنی تقریر کے دوران پارٹی قیادت سے اتحاد اور مضبوطی کی اپیل کی ہے۔
لاڑکانہ: رخصتی سے انکار پر قتل ہونے والی خاتون ٹیچر صدف کی تدفین، قاتل پولیس اہلکار تاحال گرفتار نہ ہو سکا لاڑکانہ میں رخصتی سے انکار پر قتل کی جانے والی پرائمری اسکول ٹیچر صدف حاصلو کو قمبر میں سپرد خاک کر دیا گیا، مگر پولیس اب تک قاتل پولیس اہلکار فرید حاصلو کو گرفتار نہیں کر سکی۔ تفصیلات کے مطابق مقتولہ کے بھائی رضوان نے تھانہ قمبر میں مقدمہ درج کراتے ہوئے بتایا کہ صدف اور پولیس اہلکار فرید حاصلو کا نکاح 2024 میں ہوا تھا، مگر فرید فوری رخصتی چاہتا تھا۔ ماہِ رمضان کے دوران وہ تیزاب اور پستول لے کر گھر آیا اور زبردستی رخصتی کا مطالبہ کیا۔ صدف نے اس رویے کو ناپسند کرتے ہوئے رخصتی سے انکار کر دیا۔ مقدمے کے مطابق انکار کے بعد فرید نے وین پر فائرنگ کی، جس میں صدف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئی جبکہ ایک راہگیر زخمی ہوا۔ ایس ایس پی قمبر ساجد امیر سدوزئی نے ملزم فرید حاصلو کو معطل کرتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کر دیا ہے اور پولیس کو فوری گرفتاری کا حکم دیا ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ملزم کو جلد گرفتار کر لیا جائے گا۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ نے سماء ٹی وی کے پروگرام "ندیم ملک لائیو" میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میثاق جمہوریت پر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دستخط نہیں تھے اور ان کا اپنا سیاسی ایجنڈا تھا۔ رانا ثناء اللہ کے مطابق مشرف ہمیشہ صدر رہنا چاہتے تھے اور ان کا سیاسی مقصد یہ تھا کہ وہ اقتدار میں برقرار رہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ایسا وقت نہیں ہے، اور اس وقت کی سیاسی صورتحال بالکل مختلف ہے۔ رانا ثناء اللہ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں اپنے مسائل پر بیٹھ کر بات چیت کریں تو انہیں کوئی بھی روکے گا نہیں۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ جنرل مشرف کا تو اپنا پلیٹیکل ایجنڈا تھا وہ تو خود پریزیڈنٹ تھا اور پریزیڈنٹ رہنا چاہتا تھا جب اس کو بھیجے گیا اس وقت بھی وہ چاہتا تھا کہ میں رہوں لیکن اب تو ایسی صورتحال نہیں ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ سے متعلق ذکر کے جواب میں انہوں نے کہا کہ چلیں دیکھیں، اب ایک رواج بن چکا ہے کہ جو شخص چلا جائے، اس کے بعد اگر جنرل باجوہ صاحب اب نہیں ہیں، تو ان کے جانے کے بعد ہر برائی ان کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔ لیکن انہوں نے ایسی کوئی سازش نہیں کی کہ کسی طرح سے خود کو صدر منتخب کروا لیں، ریفرینڈم کرائیں اور اگر اس کا نتیجہ ان کے حق میں ہو تو پانچ سال کے لیے صدر بن جائیں، اور اگر نہیں، تو سال بہ سال صدر رہیں۔ انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار میں رہنے کی خواہش کو تسلیم کیا، مگر اس بات کو بھی واضح کیا کہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی قیادت کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے اور وہ صرف قومی مفادات کی بنیاد پر کام کر رہی ہے۔ اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی قیادت ایسی ہے میں مکمل معلومات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں ہے۔ اگر ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا ہوتا تو وہ ہر وقت ٹی وی پر نظر آتے، 24 گھنٹوں میں سے 22 گھنٹے آپ انہیں دیکھتے۔ لیکن آپ نے کبھی ان کی آواز نہیں سنی ہوگی۔ آپ میری بات کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتیں اپنے مسائل پر بیٹھ کر بات کریں تو انہیں کوئی نہ کوئی روک نہیں سکے گا، اور نہ ہی کوئی ایسی سیاست کرے گا جیسی سیاست پہلے ملک میں فوجی ڈکٹیٹر کرتے رہے ہیں۔
یونائیٹڈ اسٹیٹس ایجوکیشنل فاؤنڈیشن ان پاکستان (یو ایس ای ایف پی) نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ گلوبل انڈر گریجویٹ ایکسچینج (گلوبل یوگراڈ) پاکستان پروگرام 15 سال بعد ختم کر دیا گیا ہے ڈان نیوز کے مطابق، یو ایس ای ایف پی کے زیر انتظام سمسٹر ایکسچینج پروگرام پاکستانی طالب علموں کو امریکی یونیورسٹی یا کالج میں ایک سمسٹر تعلیم (ڈگری کے بغیر) حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتا تھا تاکہ وہ اپنی تعلیم کو بہتر بنا سکیں۔ یو ایس ای ایف پی کے بیان میں کہا گیا ہے، "15 سال بعد گلوبل انڈر گریجویٹ ایکسچینج پروگرام برائے پاکستان کو بند کر دیا گیا ہے"۔ امریکی محکمہ خارجہ نے یو ایس ای ایف پی کو آگاہ کیا کہ اب اس پروگرام کو جاری نہیں رکھا جائے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ "ہم سمجھتے ہیں کہ یہ خبر مایوس کن ہو سکتی ہے، خاص طور پر ان طلبہ کے لیے جنہوں نے رواں سال اس پروگرام کے لیے درخواست دی تھی اور وہ موقع کے منتظر تھے۔" گلوبل یوگراڈ پاکستان پروگرام نے گزشتہ برسوں میں ہزاروں پاکستانی طلبہ کو تعلیمی ترقی، ثقافتی تبادلے اور قائدانہ صلاحیتوں کے حوالے سے مثبت تجربات فراہم کیے ہیں۔ یہ پروگرام امریکی حکومت کی مالی معاونت سے چلتا تھا اور 2010 میں شروع کیا گیا تھا، جس کا مقصد پاکستانی طلبہ کی کمیونٹی کی قائدانہ صلاحیتوں اور شمولیت کو بڑھانا تھا۔ یو ایس ای ایف پی نے بیان میں کہا، "ہم اس پروگرام کے ذریعے شرکا اور کمیونٹیز پر پڑنے والے مثبت اثرات پر بے حد فخر محسوس کرتے ہیں۔" ساتھ ہی انہوں نے پاکستانی طلبہ کی تعلیمی ترقی اور اس پروگرام میں ان کی دلچسپی کے عزم کو سراہا اور ان سے درخواست کی کہ وہ دیگر ایکسچینج پروگرامز اور اسکالرشپ کے مواقع تلاش کریں۔ یہ فیصلہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بیرون ملک ترقیاتی اور امدادی پروگراموں کے بجٹ میں بڑے پیمانے پر کٹوتی کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس میں تمام امریکی غیر ملکی امداد کو 90 دن کے لیے منجمد کر دیا گیا تھا۔ اس کا مقصد انتظامیہ کو غیر ملکی اخراجات کا جائزہ لینے کی اجازت دینا تھا تاکہ ٹرمپ کے "امریکا فرسٹ" ایجنڈے سے ہم آہنگ نہ ہونے والے پروگراموں کو بند کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ اس پروگرام کی بندش کا فیصلہ امریکی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے پس منظر میں آیا ہے جس میں صدر ٹرمپ کو "ایلین دشمن ایکٹ" کو نافذ کرنے کی اجازت دی گئی، جس سے امیگریشن حکام کو ملک بدری کے لیے ہنگامی اختیارات دینے کی اجازت ملی۔
خیبرپختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں گیس اور تیل کے مزید ذخائر دریافت کرلیے گئے ہیں۔ ماڑی انرجیز لمیٹڈ نے ڈیڑھ ماہ کے اندر شمالی وزیرستان سے گیس اور تیل کی چوتھی دریافت کا اعلان کیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، ماڑی انرجیز لمیٹڈ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ یہ نئی دریافت وزیرستان بلاک سے ہوئی ہے۔ اس دریافت کے نتیجے میں یومیہ 7 کروڑ مکعب فٹ گیس حاصل ہوگی، جبکہ یومیہ 310 بیرل خام تیل بھی حاصل ہوگا۔ اس سے قبل، ماڑی انرجیز نے گزشتہ ہفتے وزیرستان بلاک سے تیسری دریافت کا اعلان کیا تھا، جس سے 2 کروڑ 38 لاکھ مکعب فٹ یومیہ گیس اور یومیہ 122 بیرل خام تیل حاصل ہونے کا تخمینہ تھا۔ ماڑی انرجیز نے مارچ 2025 میں وزیرستان بلاک سے دوسری دریافت کا اعلان کیا تھا، جس سے 2 کروڑ 5 لاکھ مکعب فٹ یومیہ گیس اور یومیہ 117 بیرل خام تیل حاصل ہونے کی توقع تھی۔ یاد رہے کہ فروری 2025 میں ماڑی انرجیز نے وزیرستان بلاک سے گیس اور تیل کی پہلی دریافت کا اعلان کیا تھا، جس میں 1 کروڑ 30 لاکھ مکعب فٹ یومیہ گیس اور یومیہ 20 بیرل خام تیل حاصل ہونے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ یہ دریافتیں پاکستان کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے حوالے سے ایک اہم پیشرفت ہیں اور ماڑی انرجیز کی کامیاب دریافتوں سے ملک کے توانائی کے بحران میں کمی آنے کی امید ہے۔

Back
Top