خبریں

کراچی (بیورو رپورٹ): متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رکن سندھ اسمبلی عامر صدیقی نے سندھ کے تعلیمی نظام پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ افغانستان کے تعلیمی نظام سے بھی پیچھے جا چکا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ وزیر تعلیم گزشتہ سات سالوں سے اپنے حلقے کے اسکولوں کی حالت بہتر نہیں کروا سکے۔ پٹیل پاڑہ میں ایک سرکاری اسکول کا دورہ کرتے ہوئے عامر صدیقی نے کہا کہ تعلیم بنیادی حق ہے اور جب تک عوام تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے، ملک کی ترقی ممکن نہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ سندھ میں تعلیم کے شعبے کے لئے 300 ارب روپے کہاں خرچ ہو رہے ہیں؟ عامر صدیقی نے وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے مطالبہ کیا کہ وہ صوبے میں تعلیم کی بدترین صورتحال کا نوٹس لیں اور اس میں بہتری لانے کے لئے فوری اقدامات کریں۔ پٹیل پاڑہ کے اسکول سے متعلق بات کرتے ہوئے عامر صدیقی نے کہا کہ یہ اسکول 4 ایکڑ رقبے پر قائم ہے اور اس کے لیے فنڈز بھی موجود ہیں، مگر یہ فنڈز جاری نہیں کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس اسکول سے ہاکی کے لیجنڈ ظہیر عباس، اولمپئن سمیع اللہ اور کلیم اللہ نے تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسکول میں شدید گرمی کے باوجود بجلی نہیں ہے، اساتذہ اور طلبہ کے بیٹھنے کے لیے فرنیچر کی کمی ہے، ایک ہی عمارت میں کئی اسکول قائم ہیں اور یہاں تک کہ خواتین اساتذہ کے لئے بھی الگ باتھرومز نہیں ہیں۔ عامر صدیقی نے اسکول کی گلی میں 4 ماہ سے جاری سیوریج لائن کے کام کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کام ادھورا پڑا ہے جس کے باعث اہل علاقہ اور طلبہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسکول میں پینے کا صاف پانی تک موجود نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسکول قیام پاکستان کے بعد قائم ہوا تھا اور محکمہ تعلیم نے اس عمارت کو خطرناک قرار دے دیا ہے، جبکہ ڈی سی کمیٹی نے بھی اسے خطرناک قرار دیا ہے۔ عامر صدیقی کا کہنا تھا کہ جان بوجھ کر کراچی کی تعلیمی صورتحال کو تباہ کیا جا رہا ہے۔
لاہور (بیورو رپورٹ): لاہور کے علاقے مناواں میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ پیش آیا ہے، جہاں ایک دکاندار نے عید کی زیادہ چھٹیوں کے معاملے پر اپنے 18 سالہ ملازم کو تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق، عبداللہ نام کا نوجوان، جو دودھ دہی کی دکان پر 800 روپے روزانہ پر کام کرتا تھا، عید کی تعطیلات کے بعد واپس دکان پر آیا تو دکان کے مالک آصف عرف حسنین نے شدید تشدد شروع کر دیا۔ مقتول کے والد نے بتایا کہ ان کے بیٹے کی حالت بگڑنے پر وہ مختلف ہسپتالوں کے چکر لگاتے رہے، لیکن عبداللہ جانبر نہ ہو سکا۔ مقامی پولیس کو اطلاع ملنے پر فوراً کارروائی کرتے ہوئے ملزم آصف کو گرفتار کر لیا۔ پولیس نے مقتول کی لاش کا پوسٹ مارٹم کرایا اور اسے ورثا کے حوالے کر دیا۔ تفتیشی عمل کے لئے مقدمہ انویسٹی گیشن برانچ کے حوالے کر دیا گیا ہے، جہاں مزید تحقیقات جاری ہیں۔ یہ افسوسناک واقعہ معاشرتی ذمہ داریوں کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے، اور اس کے نتیجے میں شدید غم و غصہ پایا جا رہا ہے۔
علامہ اقبال انٹرنیشنل ائیر پورٹ پر خواتین پر تشدد کا ایک اور واقعہ، کسٹم حکام کے مطابق خواتین نے سامان چیکنگ پر جھگڑا شروع کیا تھا۔ کسٹم حکام خاتون کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے رہے۔ لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر ہنگامہ آرائی کا واقعہ ہوا ہے جہاں کسٹم اہلکاروں نے خاتون مسافر کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق لاہور کے علامہ اقبال ائیر پورٹ میں بد نظمی ہوئی اور خاتون پر بہیمانہ تشدد کیا گیا، اس دوران کسٹم آفیسر خاتون نے مسافر خاتون کو لاؤنج میں بالوں سے گھسیٹا، مسافر خاتون کے اہل خانہ چیخ و پکار کرتے رہے لیکن کسی نے ان کی ایک نہ سنی۔ واقعے سے متعلق کسٹم حکام کا کہنا ہے کہ خواتین نے سامان چیکنگ پر جھگڑا شروع کیا، چیکنگ کے دوران خاتون مسافر نے اپنا لہنگا کلیئر نہ ہونے پر کسٹم اہلکاروں سے جھگڑا کیا/ ابوظہبی سے آنے والی خواتین مسافروں نے سامان کی کلیئرنس نہ ہونے پر احتجاج کیا جس کے نتیجے میں ہاتھا پائی ہوئی
گزشتہ روز پی ٹی آئی کے رہنما اعظم سواتی نے عمران خان سے متعلق قرآن پر حلف کے ساتھ بیان دیا اور کہا کہ آرمی چیف سے عارف علوی کے ذریعے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن دروازے نہ کھلے، پارٹی رہنماؤں نے مجھے گھر سے اٹھایا اور 22 اگست کا جلسہ ملتوی کروانے کا کہا۔ انہوں نے مزید کہ اک بیرسٹر گوہر میرے گھر آئے اور مجھے اڈیالا جیل لے کر گئے، بانی پی ٹی آئی سے کہا عارف علوی اور ساتھیوں سے مل کر اسٹیبلشمنٹ سے بات کروں گا۔ اعظم سواتی کے مطابق بائیس اگست کا جلسہ علی امین گنڈاپور، شبلی فراز اور عمر ایوب کے کہنے پر عمران خان کیساتھ ملاقات کے بعد ملتوی کیا۔ ادارے کی کسی بندے نے ملاقات نہیں کی تھی، قیادت اب تک جھوٹ بول رہی تھی۔ صحافی ثمینہ پاشا نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ اعظم سواتی طوطے کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی زبان بول رہے ہیں۔ پورا اسکرپٹ اچھا یاد کروایا ہے پر یہ نہیں بتایا کہ عمر ایوب ، شبلی کے کہنے پر اڈیالہ کے دروازے کیسے کھل گئے۔ اور جب بہنوں کی ملاقات نہیں ہو پا رہی تھی تب ان کی ملاقات کیسے ہو گئی کون اتنا مہربان تھا؟ انہوں نے مزید کہا کہ اور بیرسٹر گوہر کے کہنے پر ہی اڈیالہ کے دربان نے صبح سات بجے گیٹ بھی کھول دیا؟ حمید خان نے لکھا کہ بہتر ہے کہ اعظم سواتی صاحب خاموش رہے۔ جناب اگر اپ لیڈر شپ کے کہنے پر اڈیالہ جیل گیا تھا تو صبح 7 بجے اڈیالہ جیل کے دروازے کس نے کھولے تھے ۔؟؟؟؟ ایک طرف اعظم سواتی کہتے ہیں آرمی چیف سے بات کی کوشش کی لیکن دروازے نہیں کُھلے لیکن دوسری جانب حیرت انگیز طور پر اڈیالہ جیل کے دروازے اُن کےلئے باآسانی کُھل جاتے ہیں، حالانکہ خان کی فیملی اِس شرف سے فی الحال محروم ہے ڈاکٹر معید پیرزادہ نے تبصرہ کیا کہ حیران کن طور پر بیرسٹر سیف، علی امین اور اعظم سواتی کو عمران خان سے ملنے دیا گیا جبکہ ان کی فیملی اور باقی ٹیم کو ملنے کی اجازت نہیں تھیاعظم سواتی نے عمران خان سے ملنے کے بعد جو الزامات بابر سلیم سواتی پر لگاۓ وہ حیران کُن تھے بابر سواتی نے پچھلے ایک سال سے بڑا شاندار کام کیا ہے امجد خان کا کہنا تھا کہ قرآن پر ہاتھ رکھ کر کسے یقین دلانے کی کوشش کر رہے ہیں ؟ اعظم سواتی اور ہینڈلرز جانتے ہیں کوئی ان کی بات نہیں مانے گا اسی لیے قرآن پر ہاتھ رکھوایا گیا ۔
سیہون شریف کی یونین کونسل جھانگارا کے رہائشی سوشل ورکر تنویر خاصخیلی کو سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کرنا مہنگا پڑا، جب بااثر افراد نے اس پر تشدد کر کے شدید زخمی کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق، تنویر خاصخیلی نے کچھ دن قبل یونین کونسل کے چیئرمین اور وڈیرے کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹ شیئر کی تھی، جس پر چیئرمین نے اپنی نجی اوطاق پر سوشل ورکر کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہو گئے۔ زرائع کے مطابق، تین دن گزرنے کے باوجود متاثرہ نوجوان تنویر خاصخیلی کے تشدد کے خلاف ابھی تک مقدمہ درج نہیں کیا جا سکا ہے، حالانکہ میڈیکل رپورٹ بھی آ چکی ہے۔ متاثرہ نوجوان کے والدین نے پولیس سے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے بیٹے پر تشدد کرنے والے بااثر چیئرمین و وڈیرے سمیت تمام ملزمان کے خلاف فوری طور پر مقدمہ درج کیا جائے اور انہیں گرفتار کیا جائے۔ دوسری جانب، چیئرمین جھانگارا نے اس تشدد کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا اس واقعے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ خاصخیلی برادری کے افراد کے درمیان آپس میں جھگڑے چل رہے ہیں اور متاثرہ نوجوان کی خاصخیلی برادری کے افراد ان کے ملازم ہیں۔ تشدد کا شکار نوجوان تنویر خاصخیلی کے اہل خانہ نے ڈی آئی جی حیدرآباد اور وزیراعلیٰ سندھ سے اپیل کی ہے کہ انہیں انصاف فراہم کیا جائے اور مقدمہ درج کر کے ملزمان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
ملتان: پولیس نے تحصیل جلال پور پیروالا میں ایک عامل کے قتل کے واقعے میں ملوث 5 افراد کو گرفتار کر لیا، جن میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ ملزمان کا کہنا ہے کہ مقتول ان کی نازیبا ویڈیوز بنا کر انہیں بلیک میل کر رہا تھا۔ 24 مارچ کو جلال پور پیروالا کے علاقے ظاہر پیر چوک کا رہائشی ریاض حسین لاپتہ ہو گیا تھا۔ اس کے بیٹے غضنفر نے تھانہ سٹی پولیس میں اغوا کا مقدمہ درج کروایا۔ بعد ازاں ریاض حسین کی لاش چاہ یوسف والا کے قریب سے برآمد ہوئی، جس کے بعد پولیس نے مقدمے میں قتل کے الزامات شامل کر دیے۔ سی پی او ملتان صادق علی ڈوگر کی ہدایت پر پولیس نے خصوصی ٹیم تشکیل دی، جس نے تفتیش کے دوران ایک مشتبہ شخص نادر کو حراست میں لیا۔ نادر نے اعتراف کیا کہ اس نے اپنے کزنز عامر، جمیل، شہناز اور آسیہ کے ساتھ مل کر ریاض حسین کو قتل کیا تھا۔ ملزم نادر کے مطابق، ریاض حسین کالے جادو کا کام کرتا تھا اور اس نے ان کی کزنز کی نازیبا ویڈیوز بنا کر انہیں بلیک میل کرنا شروع کر دیا تھا۔ ریاض نے خواتین سے ویڈیوز حذف کرنے کے لیے بھاری رقم کا مطالبہ کیا تھا۔ نادر نے بتایا کہ اس نے اپنے کزن جمیل کے ساتھ مل کر ریاض کو گھر بلایا، جہاں انہوں نے پہلے اس کے موبائل سے تمام ویڈیوز حذف کیں، پھر اس کا گلا گھونٹ کر لاش کو ایک ویران جگہ پر پھینک دیا۔ سی پی او ملتان نے بتایا کہ پولیس نے ملزمان کے موبائل فون سے ان ویڈیوز کو بھی برآمد کیا ہے، جنہیں عامل بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ تمام ملزمان کو عدالت میں پیش کر دیا گیا ہے، جہاں سے انہیں ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مقدمے کی مزید تفتیش جاری ہے اور ممکنہ طور پر مزید انکشافات ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ کے دوران تعمیراتی سرگرمیاں سست رہیں جس کے نتیجے میں مقامی سیمنٹ کی فروخت میں کمی واقع ہوئی۔ آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (اے پی سی ایم اے) کے مطابق، اس عرصے میں سیمنٹ کی فروخت 6.6 فیصد کم ہوکر 27.46 ملین ٹن رہی، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 29.4 ملین ٹن تھی۔ ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق، سیمنٹ کی برآمدات میں 28 فیصد کا اضافہ دیکھنے کو ملا، جو 5.1 ملین ٹن سے بڑھ کر 6.53 ملین ٹن تک پہنچ گئی۔ تاہم، سیمنٹ کی مجموعی ترسیل میں بھی کمی آئی، اور یہ جولائی سے مارچ کے دوران 33.99 ملین ٹن رہی، جو گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 34.5 ملین ٹن تھی، یعنی 1.48 فیصد کی کمی۔ شمال میں واقع سیمنٹ ملوں نے 9 ماہ میں 22.79 ملین ٹن کی مقامی ترسیل کی، جو گزشتہ سال کے 24.24 ملین ٹن کے مقابلے میں 6 فیصد کم ہے۔ تاہم، شمال کی برآمدات 7.8 فیصد اضافے کے ساتھ 1.12 ملین ٹن تک پہنچ گئیں۔ اس دوران، شمال سے کل ترسیل 5.4 فیصد کم ہو کر 23.91 ملین ٹن رہ گئی۔ جنوب میں سیمنٹ کی مقامی ترسیل 9.6 فیصد کم ہو کر 4.76 ملین ٹن رہی، جو گزشتہ سال 5.17 ملین ٹن تھی۔ اس کے برعکس، جنوب سے سیمنٹ کی برآمدات 33.3 فیصد اضافے کے ساتھ 5.42 ملین ٹن تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال 4.06 ملین ٹن تھیں۔ جنوبی ملوں سے مجموعی ترسیل 9.3 فیصد اضافے کے ساتھ 10.08 ملین ٹن ہو گئی۔ مارچ 2025 میں سیمنٹ کی مقامی ترسیل 11.3 فیصد کم ہو کر 2.96 ملین ٹن رہی، جب کہ مارچ 2024 میں یہ 3.34 ملین ٹن تھی۔ برآمدات کا حجم 608,614 ٹن رہا، جو مارچ 2024 میں 605,142 ٹن تھا۔ تاہم، مہینے کے لیے کل ترسیل میں 9.5 فیصد کمی آئی اور یہ 3.57 ملین ٹن ہو گئی، جو کہ گزشتہ سال کے مارچ میں 3.94 ملین ٹن تھی۔ اے پی سی ایم اے کے ترجمان نے سیمنٹ کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک کی اقتصادی سرگرمیوں کا بنیادی محرک ہے اور کئی شعبوں میں براہ راست اور بالواسطہ روزگار فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ سیمنٹ کی قیمتوں میں کمی لانے کے لیے پالیسی ساز آئندہ بجٹ میں سیمنٹ پر ٹیکسوں اور ڈیوٹیوں میں کمی پر غور کریں تاکہ عوام کے لیے سیمنٹ سستی ہو اور گھریلو ترقی میں اضافہ ہو سکے۔
اسلام آباد میں راولپنڈی پولیس کے اہلکار اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث پائے گئے ہیں، جس پر تھانہ سنگجانی پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ایک اغوا کار کو گرفتار کر لیا ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق اغواکاروں کے گروہ میں ایک خاتون اور تین مرد شامل ہیں، جن کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق ان اغواکاروں نے دو شہریوں، مزائن اور ملوک کو اغوا کیا تھا۔ پولیس کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اس واردات میں ملوث ایک ملزم شاہد اقبال کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جبکہ دیگر ملزمان، راولپنڈی پولیس کے اہلکار زاہد عثمان، آفاق طارق طاہر اور ان کی ساتھی خاتون نادیہ فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ اغواکار خاتون شہریوں کو بلا کر انہیں اغوا کرنے کی وارداتیں انجام دیتی تھی۔ پولیس نے ملزمان کے خلاف مزید تحقیقات شروع کر دی ہیں اور فرار ہونے والے اہلکاروں کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
بلوچستان حکومت نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ اگر بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اپنے لانگ مارچ کے دوران کوئٹہ کی طرف پیش قدمی کی، تو انہیں فوری طور پر گرفتار کر لیا جائے گا۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق، حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے بی این پی کی جانب سے کیے جانے والے لانگ مارچ پر اپنے ردعمل میں کہا کہ اگر اختر مینگل نے کوئٹہ کا رخ کیا تو انہیں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ صوبائی حکومت نے اختر مینگل کو ایم پی او آرڈر کے تحت گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور صبح 6 بجے انہیں اس بارے میں آگاہ کر دیا گیا تھا، لیکن اختر مینگل نے گرفتاری دینے سے انکار کر دیا۔ شاہد رند نے بی این پی کی جانب سے قومی شاہراہوں کی بندش کی کال کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اس سے عوام کو مشکلات کا سامنا ہوگا۔ انہوں نے واضح کیا کہ تمام ضلعی انتظامیوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ قومی شاہراہوں کی بندش کو روکنے کے لئے ضروری اقدامات کیے جائیں۔ یاد رہے کہ بلوچستان حکومت نے صوبے میں دفعہ 144 نافذ کر رکھی ہے، جس کے تحت چار یا اس سے زیادہ افراد کا ایک جگہ جمع ہونا، جلسے جلوس اور دھرنے دینا ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ بی این پی مینگل نے بلوچستان یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی چیئرپرسن ماہ رنگ بلوچ اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ مارچ کا آغاز 25 مارچ کو وڈھ سے ہوا تھا، لیکن اس وقت شرکاء مستونگ کے علاقے لکپاس میں دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ بی این پی کے رہنماؤں سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین نے اعلان کیا ہے کہ وہ اس لانگ مارچ کو روکے جانے کے خلاف کل پورے بلوچستان میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کریں گے۔
پنجاب حکومت نے چکن کے گوشت کی قیمتوں پر کنٹرول ختم کرتے ہوئے ایک متنازعہ فیصلہ کیا ہے جس کے تحت اب صرف زندہ مرغی کے ریٹس جاری کئے جائیں گے، جبکہ گوشت کی قیمت کا تعین دوکانداروں اور صارفین کے درمیان "مباحثے" پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق مارکیٹ کمیٹیاں اب صرف زندہ مرغی کا ہول سیل اور پرچون ریٹ جاری کریں گی، اس فیصلے کے اطلاق کے بعد گوشت کی قیمت کا کوئی سرکاری ریٹ طے نہیں کیا جائے گا۔ پنجاب حکومت کی جانب سے مرغی کے گوشت کی مصنوعی قلت اور غیر معقول قیمتوں کے بحران پر قابو پانے میں ناکامی نے عوامی غم و غصے کو جنم دے دیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، پولٹری مافیا نے مارکیٹ میں مصنوعی طور پر گوشت کی کمی پیدا کر کے قیمتیں آسمان سے باتیں کرادی ہیں، جبکہ حکومتی اقدامات ناکافی ثابت ہو رہے ہیں۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق، مرغی کے گوشت کی قیمت **780 روپے فی کلو** تک پہنچ چکی ہے، جبکہ حکومت کی جانب سے مقرر کردہ قیمت 720 روپے فی کلو ہے۔ اس صورتحال نے غریب عوام کو شدید مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پولٹری فارمز اور سپلائرز کی ملی بھگت سے یہ بحران پیدا کیا گیا ہے، جس پر کنٹرول کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت نے مرغی کے گوشت کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے کئی بار پولیس چھاپے مارے اور پولٹری دکانداروں کے خلاف کارروائی کا اعلان کیا، لیکن یہ کوششیں بے اثر ثابت ہوئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، پولٹری مافیا نے اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کی ہے، تاکہ من مانی قیمتیں وصولی جا سکیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ حکومت کی نااہلی کی وجہ سے عام آدمی بنیادی ضرورت کی چیزوں سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ ایک صارف نے شکایت کرتے ہوئے کہا، "780 روپے میں تو ایک وقت کا کھانا مل جاتا ہے، لیکن اب صرف ایک کلو مرغی خریدنے کے لیے یہ رقم بھی کم پڑ رہی ہے۔" معاشی ماہرین کے مطابق، اگر حکومت نے فوری طور پر پولٹری مافیا کے خلاف سخت اقدامات نہ اٹھائے تو یہ بحران مزید بڑھ سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سپلائی چین کو بہتر بنانے، ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی اور قیمتوں پر موثر کنٹرول کے بغیر اس مسئلے کا حل ممکن نہیں۔ اب تک پنجاب حکومت کی جانب سے کوئی واضح پالیسی یا عملی اقدام سامنے نہیں آیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک مبہم بیان میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ "صورتحال پر نظر رکھی جا رہی ہے"، جبکہ عوام کے لیے ریلیف کے کوئی ٹھوس اقدامات نظر نہیں آتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پنجاب حکومت واقعی پولٹری مافیا کے سامنے گھٹنے ٹیک چکی ہے؟ یا پھر اس بحران کے پیچھے کسی اور کی سازش کارفرما ہے؟ عوام کو جواب چاہیے، اور وہ بھی فوری!
دنیا نیوز کے صحافی ذیشان یوسفزئی کے مطابق وفاقی حکومت نے بجلی صارفین کو 7 روپے 41 پیسے فی یونٹ تک ریلیف دینے کا اعلان کیا ہے، تاہم حقیقت میں بجلی کے نرخوں میں صرف 6 روپے کی کمی کی گئی ہے، جب کہ 1 روپے 41 پیسے کا "گھوسٹ ٹیکس" بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ یہ ٹیکس اس صورت میں لاگو کیا گیا تھا کہ اگر بجلی کی قیمت میں کمی نہ کی جاتی تو صارفین کو یہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 1 روپے 41 پیسے کا ریلیف محض اعداد و شمار کی تبدیلی تک محدود ہے اور اس کا صارفین پر کوئی حقیقی اثر نہیں پڑے گا۔ وزارت توانائی کے حکام نے بتایا کہ فی یونٹ بجلی کی قیمت میں 1 روپے 71 پیسے کی کمی پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں کی گئی ہے، اور یہ کمی صرف تین ماہ کے لیے ہے، مستقل نہیں۔ یہ وہ رقم تھی جو پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی سے عوام کو نہیں مل سکی تھی، اور اب وہ بجلی کے بلوں میں دی جا رہی ہے۔ اس درخواست پر نیپرا میں گزشتہ روز سماعت ہوئی۔ اس کے علاوہ، دوسری سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ کی مد میں 1 روپے 90 پیسے فی یونٹ کمی کی گئی ہے، اور یہ کمی بھی تین ماہ کے لیے ہوگی۔ اس کے بعد فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹ کے تحت 46 پیسے فی یونٹ کمی ہوئی ہے، جس میں نیپرا نے کچھ بقایاجات بھی شامل کیے ہیں، جو 90 پیسے فی یونٹ بنتے ہیں۔ یہ کمی بھی تین ماہ کے لیے ہے۔ یہ تمام ریلیف دراصل وہ رقم ہے جو صارفین کو پہلے ہی ملنا تھی۔ حکومت کا خیال ہے کہ آنے والی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ میں ایک روپے سے زیادہ کی کمی ہو سکتی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کمی 6 روپے فی یونٹ تک بنتی ہے، اور اس کے بعد 1 روپے 41 پیسے کا کوئی ریلیف نہیں ہے، کیونکہ یہ صرف ٹیکسز کے پیسے ہیں، جن کا حساب کتاب کیا گیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم نواز شریف آئندہ ہفتے لندن روانہ ہونے والے ہیں، جہاں وہ اپنا طبی معائنہ کرائیں گے۔ ان کے اس دورے میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز، صاحبزادے حسین نواز اور ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق نواز شریف لندن میں تین روز تک اپنے معمول کے میڈیکل چیک اپ میں مصروف رہیں گے۔ وہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب عام پرواز کے ذریعے برطانیہ کے لیے روانہ ہوں گے۔ یہ دورہ نواز شریف کی اکتوبر 2023 میں وطن واپسی کے بعد ان کا پہلا غیر ملکی سفر ہوگا۔ اس سے قبل وہ نومبر 2023 میں اپنی بیٹی مریم نواز کے ہمراہ سوئٹزرلینڈ گئے تھے، جہاں مریم نواز کی سرجری کے بعد فالو اپ چیک اپ کروایا گیا تھا۔ ادھر وزیر اعظم شہباز شریف بھی آئندہ ہفتے غیر ملکی دورے پر روانہ ہوں گے۔ وہ جمعہ کے روز بیلاروس کے دارالحکومت منسک پہنچیں گے، جہاں صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی دعوت پر دو روزہ دورہ کریں گے۔ اس دورے کے بعد شہباز شریف لندن جائیں گے اور وہاں اپنے بڑے بھائی نواز شریف سے ملاقات کریں گے۔
پنجاب میں محکمہ ماحولیات نے صوبے میں نئے کار واش اسٹیشنز بنانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے جس میں فوری طور پر اس فیصلے پر عملدرآمد کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ صوبے میں پانی کی قلت اور ممکنہ خشک سالی کے پیش نظر کیا گیا ہے تاکہ پانی کے ضیاع کو روکا جا سکے اور اس کی بچت کی جا سکے۔ محکمہ ماحولیات نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس پابندی کی خلاف ورزی کی گئی تو پاکستان پینل کوڈ کے تحت سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے تحت غیر قانونی طور پر نئے کار واش اسٹیشنز کھولنے والوں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ یہ فیصلہ ماحول کی بہتری اور پانی کے وسائل کے بہتر استعمال کے لیے کیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں پانی کی کمی کے مسائل سے بچا جا سکے۔
سعودی عرب نے حج سیزن کے دوران پاکستان سمیت 14 ممالک پر عارضی ویزہ پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس کا اطلاق عمرہ، بزنس اور فیملی ویزوں پر ہوگا۔ اس پابندی کا مقصد سعودی عرب میں آنے والے افراد کی تعداد کو محدود کرنا اور حج کے انتظامات کو بہتر بنانا ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ ویزہ پابندیاں جون کے وسط تک جاری رہنے کا امکان ہے، اور عمرہ ویزہ ہولڈرز 13 اپریل تک سعودی عرب میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد ان ممالک کے شہریوں کو سعودی عرب آنے کے لیے عارضی طور پر ویزہ جاری نہیں کیا جائے گا۔ ویزہ پابندی کی فہرست میں پاکستان کے علاوہ بھارت، بنگلادیش، مصر، انڈونیشیا، عراق، نائیجیریا، اردن، الجزائر، سوڈان، ایتھوپیا، تیونس اور یمن شامل ہیں۔ ان ممالک کے شہریوں کو سعودی عرب کے سفر کے لیے اس عارضی پابندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ذرائع کے مطابق، سعودی عرب میں ویزہ پابندی کے باوجود قیام کرنے والوں کو پانچ سال تک سعودی عرب میں داخل ہونے کی پابندی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سے واضح طور پر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سعودی حکومت اس اقدام کو بہت سنجیدگی سے لے رہی ہے تاکہ حج سیزن کے دوران انتظامات میں خلل نہ پڑے۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جون کے وسط میں یہ پابندی ختم ہو جائے گی اور اس کے بعد معمول کے مطابق ویزوں کا اجرا شروع کر دیا جائے گا۔ سعودی حکام کی جانب سے مزید تفصیلات کا انتظار ہے تاکہ ویزہ پابندی کے خاتمے کے حوالے سے واضح اعلان کیا جا سکے۔
کراچی: گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے کراچی کے علاقے سرجانی ٹاؤن میں ڈمپر تلے کچلے گئے افراد کے لواحقین کے لیے اہم اعلان کیا ہے۔ انہوں نے 12 اپریل کو گورنر ہاؤس میں متاثرہ افراد کے ورثا کو مدعو کرنے کا فیصلہ کیا اور ان کے لیے پلاٹس دینے کا وعدہ کیا۔ کامران ٹیسوری نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سرجانی ٹاؤن کے رہائشی نذر عباس کے خاندان کی حالت دیکھ کر انہوں نے 80 گز کا پلاٹ اسمارٹ سٹی میں دیا ہے۔ نذر عباس کی اہلیہ 23 جنوری کو اس حادثے میں جاں بحق ہو گئی تھیں اور ان کی تین معصوم بچیاں بھی اس سانحے کے بعد مشکل زندگی گزار رہی ہیں۔ گورنر سندھ نے ان بچیوں کی تعلیم کی ذمہ داری بھی اٹھانے کا اعلان کیا اور کہا کہ انہیں انگلش میڈیم اسکول میں تعلیم دلوائی جائے گی، جہاں سوئمنگ پول کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔ کامران ٹیسوری نے مزید کہا کہ وہ نذر عباس کی تین بچیوں کی اگلے 12 سال تک تعلیم کا خرچ اٹھائیں گے۔ اس کے علاوہ، ہر مہینے ان بچیوں کو پانچ، پانچ ہزار روپے بھی دیے جائیں گے تاکہ ان کی ضروریات پوری ہو سکیں۔ گورنر سندھ نے یوسف گوٹھ کے علاقے کے مسائل پر بھی بات کی اور کہا کہ یہ علاقہ 1985 سے ایم کیو ایم پاکستان کے حامی رہا ہے، مگر ان لوگوں کو بنیادی سہولتیں فراہم نہیں کی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ بجلی، گیس، نکاسی آب اور سڑکوں کی سہولت سے محروم ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو یہ علاقے پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ کامران ٹیسوری نے نذر عباس کے معاملے پر پولیس کی طرف سے عدم تعاون کی بھی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ جب نذر عباس سچل تھانے جاتے تھے تو ان کے ساتھ غیر مناسب سلوک کیا جاتا تھا اور انہیں دھتکارا جاتا تھا۔ گورنر سندھ نے وعدہ کیا کہ وہ اب نذر عباس کو تھانے میں یہ بتانے کا حق دیں گے کہ وہ گورنر کا بھائی ہیں، اور ان کے ساتھ کوئی بھی برا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ گورنر سندھ نے 12 اپریل کو گورنر ہاؤس میں ایک خصوصی اجلاس بلایا ہے، جہاں ڈمپر یا ٹینکر تلے کچلے گئے افراد کے لواحقین کو مدعو کیا جائے گا۔ وہ ان افراد کے ساتھ کھانا کھائیں گے، ان کے کوائف جمع کیے جائیں گے اور انہیں پلاٹ دینے کا عمل شروع کیا جائے گا۔ کامران ٹیسوری نے اس بات کا عہد کیا کہ ان کا مقصد عوام کو صرف باتوں سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے فائدہ پہنچانا ہے۔ کامران ٹیسوری نے کہا کہ اس شہر کے وسائل اور سیاست میں وہ تبدیلی لائیں گے جو عام لوگوں کے لیے فائدہ مند ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ 77 سال میں پہلی بار گورنر ہاؤس میں مہاجر کلچر ڈے منانے کا اعزاز حاصل کر چکے ہیں، جو کہ ایک بڑی پہچان ہے۔ گورنر سندھ کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کے جھوٹے وعدوں کے بجائے عملی طور پر لوگوں کی مدد کریں گے اور ان کے لیے وسائل پیدا کریں گے تاکہ ان کی زندگی میں بہتری آ سکے۔
کراچی کے علاقے عیسیٰ نگری میں ایک خاتون نے ٹریلر سے ٹکرا جانے کے بعد غصے میں آ کر ٹریلر کے ڈرائیور پر گولیاں چلائیں، جس کے بعد پولیس نے دونوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق، پولیس حکام نے بتایا کہ خاتون اور ٹریلر کے ڈرائیور کو گرفتار کر کے تھانے منتقل کر دیا گیا ہے اور دونوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ ایک ہی ایف آئی آر میں خاتون اور ڈرائیور کو ملزم کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔ مقدمے کے مطابق، خاتون اور ٹریلر کا ڈرائیور دونوں غفلت اور لاپرواہی سے گاڑی چلا رہے تھے، جب ٹریلر نے آگے نکلنے کی کوشش کی تو اس کی گاڑی کا بیک حصہ خاتون کی کار سے ٹکرا گیا۔ اس پر خاتون غصے میں آ گئیں اور پستول نکال کر ہوائی فائرنگ کر دی۔ پولیس افسر کے مطابق، خاتون نے فائرنگ شروع کرتے ہوئے ٹریلر کے ڈرائیور کو دھمکایا، جس پر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ڈرائیور ظفر اقبال کو گرفتار کر لیا۔ خاتون کا نام علیشہ بتایا گیا ہے، جنہوں نے موقع پر ہی نائن ایم ایم پستول کا لائسنس پیش کیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون کا اسلحہ لائسنس ایکسپائر ہو چکا تھا، اور یہ لائسنس خالد بن ولید روڈ پر واقع اسلحہ ڈیلر کے ذریعے جعفرآباد بلوچستان سے جاری کرایا گیا تھا، جو کہ آلہ پاکستان کے تحت نہیں تھا۔ پولیس اس اسلحہ لائسنس کے اصل یا جعلی ہونے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر رہی ہے۔ پولیس نے دونوں کی گاڑیاں ضبط کر کے خاتون کو وومن تھانے اور ڈرائیور کو پی آئی بی پولیس اسٹیشن منتقل کر دیا ہے۔ خاتون کے خلاف دفعہ 337 کے تحت کارروائی کی جارہی ہے، جبکہ فائرنگ کے واقعے میں اسلحہ کی غیر قانونی حیثیت بھی زیر تفتیش ہے۔ یہ واقعہ کراچی میں بڑھتی ہوئی ٹریفک کی خرابی اور سڑکوں پر غفلت کے واقعات کی عکاسی کرتا ہے، جس میں لوگوں کا غیر ذمہ دارانہ رویہ اکثر سنگین حالات کو جنم دیتا ہے۔ پولیس نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ ٹریفک قوانین کی پیروی کریں اور غصے یا ہوش سے کام لے کر حادثات سے بچیں۔
عید الفطر کے موقع پر وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے لاہور کے متعدد اسٹیج تھیٹرز پر اچانک چھاپے مارے اور اداکاروں کی جانب سے نامناسب لباس اور رقص کی شکایات پر سخت ایکشن لیا۔ وزیر اطلاعات نے اپنی فیس بک پوسٹ میں بتایا کہ انہوں نے چھاپوں کے دوران 6 تھیٹرز کے اداکاروں کو نوٹسز جاری کیے ہیں۔ عظمیٰ بخاری نے نہ صرف تھیٹرز کی پرفارمنس کا جائزہ لیا بلکہ ان تھیٹرز میں موجود کیفیٹیریاز، ڈریسنگ رومز، میک اپ ایریاز اور ہالز کا بھی تفصیلی معائنہ کیا۔ انہوں نے رات گئے یہ چھاپے مارے اور تھیٹرز کی مجموعی صورتحال کا بھی جائزہ لیا۔ وزیر اطلاعات پنجاب نے اس دوران تھیٹرز میں ہونے والے رقص اور اداکاروں کے لباس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فحاشی اور بے حیائی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ وہ تھیٹرز کو "خاندانی تفریح" کے طور پر پیش کرنے کی خواہاں ہیں اور اس میں کسی قسم کی بے ہودگی کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ عظمیٰ بخاری نے ان تھیٹرز کو خبردار کیا کہ اگر وہ رہنما اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں تو انہیں ہمیشہ کے لیے بند کردیا جائے گا۔ اس حوالے سے انہوں نے مزید کہا کہ وہ جلد پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی اس طرح کے اچانک دورے کریں گی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہر تھیٹر فیملی کے لیے مناسب تفریح فراہم کر رہا ہے۔ عظمیٰ بخاری نے اس موقع پر یہ بھی اعلان کیا کہ وہ اسٹیج تھیٹرز میں عریانی اور فحاشی کے خاتمے کے لیے ایک نیا قانونی مسودہ تیار کر رہی ہیں، جسے جلد پنجاب اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ نئے قانون کے مطابق اسٹیج تھیٹرز کی مانیٹرنگ کے اختیارات ضلعی انتظامیہ سے واپس لے کر محکمہ اطلاعات پنجاب کو تفویض کیے جائیں گے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ نئے تھیٹرز ایکٹ میں اس بات کا اہتمام کیا جائے گا کہ اگر تھیٹرز ایس او پیز پر عمل نہیں کریں گے تو ان پر سخت سزائیں، جرمانے اور حتیٰ کہ لائف بین کی سزا بھی دی جائے گی۔ اس ایکٹ میں بھارتی گانے چلانے اور فحاشی کے فروغ پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ اداکاروں کو شوکاز نوٹس عید الفطر کے موقع پر کیے گئے چھاپوں کے دوران، وزیر اطلاعات نے 6 اداکاروں کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیے، جنہوں نے تھیٹرز میں نامناسب لباس پہنا تھا اور غیر اخلاقی رقص کیا تھا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان اداکاروں کے لیے واضح اصول اور حدود متعین کی جائیں گی تاکہ تھیٹرز میں پرفارمنس کا معیار بہتر ہو اور عوام کو مناسب تفریح فراہم کی جا سکے۔ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب میں اسٹیج تھیٹرز کو ایک مثبت، اخلاقی اور ثقافتی سرگرمی بنانا ان کی اولین ترجیح ہے۔ ان کے مطابق، یہ اقدام اس بات کو یقینی بنائے گا کہ تھیٹرز میں پیش کی جانے والی سرگرمیاں عوامی اخلاقیات اور ثقافتی اقدار کے مطابق ہوں۔
پاکستان کی حکومت نے واضح طور پر تسلیم کیا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں حالیہ کمی عارضی ہے اور اس میں مستقل بہتری کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ وزیر توانائی اویس احمد خان لغاری نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ بجلی کے نرخوں میں کمی عالمی مارکیٹ کے اتار چڑھاؤ اور ملکی مالی حالات سے جڑی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک روپے 90 پیسے فی یونٹ کی کمی کا اطلاق عارضی بنیادوں پر کیا گیا ہے، اور اس میں مزید کمی کے امکانات محدود ہیں۔ وزیر توانائی کے مطابق، بجلی کی قیمتوں میں کمی کا فیصلہ بعض مالیاتی اصلاحات اور عالمی اقتصادی دباؤ کے نتیجے میں کیا گیا، تاہم مستقبل میں ان قیمتوں میں مزید کمی کی توقع نہیں ہے جب تک کہ حکومت توانائی کے شعبے میں ضروری اصلاحات مکمل نہ کر لے۔ اویس لغاری نے کہا کہ حکومت نے پیٹرولیم لیوی میں اضافے کے باوجود عوام کو ایک روپیہ 71 پیسے فی یونٹ ریلیف فراہم کیا ہے، جو آئندہ مالی سال تک برقرار رہے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ عالمی مالیاتی ادارے اور دیگر ترقیاتی شراکت دار توانائی کی قیمتوں میں کمی کے حق میں نہیں ہیں، کیونکہ یہ اصلاحات کے عمل میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق، پیٹرولیم لیوی میں 10 روپے فی لیٹر اضافے کے باوجود، اپریل سے جون تک بجلی کی قیمتوں میں 1 روپے 71 پیسے فی یونٹ کمی کی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ، ایک روپے 90 پیسے فی یونٹ کی منفی سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ بھی ان تین مہینوں میں شامل کی جائے گی۔ وفاقی وزیر نے اس بات پر زور دیا کہ توانائی کے شعبے میں درپیش مسائل کا حل صرف قیمتوں کی کمی سے نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے بجلی کی قیمتوں میں ممکنہ کمی کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں، لیکن ان اصلاحات کا اثر طویل مدتی ہوگا۔ وزیر توانائی کا کہنا تھا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی پالیسیوں میں مزید بہتری لائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے توانائی کے مسائل کا حل مقامی کوئلے کے استعمال میں ہے، جس پر کام جاری ہے۔ اگر مقامی سطح پر کوئلے کا استعمال بڑھایا جائے تو درآمدی کوئلے کی قیمتوں پر انحصار کم ہو گا اور بجلی کی پیداوار میں مزید بہتری آئے گی۔ وزیر توانائی نے گردشی قرضوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت گردشی قرضوں میں کمی لانے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مالی سال 25 کے دوران گردشی قرضوں کا تخمینہ 2 ہزار 429 ارب روپے لگایا گیا تھا، لیکن حکومت نے اس میں 9 ارب روپے کی کمی کی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے ڈسکوز کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے نجی شعبے کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ گورننس میں بہتری لائی جا سکے۔ اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ نجی شعبے کو ڈسکوز کی منتقلی کا عمل جلد مکمل کیا جائے گا، جس سے نہ صرف بجلی کی قیمتوں میں استحکام آئے گا بلکہ توانائی کے شعبے میں بہتری بھی نظر آئے گی۔ وزیر توانائی نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ پیٹرولیم لیوی میں اضافہ بجلی کی قیمتوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ تاہم، ان کا کہنا تھا کہ یہ اضافہ توانائی کے شعبے میں جاری اصلاحات کے لیے ضروری ہے تاکہ گردشی قرضوں کی صورتحال میں بہتری لائی جا سکے۔ وزیر توانائی نے کہا کہ بجلی کے نرخوں میں کمی کی پائیداری کا انحصار اصلاحات کی تکمیل پر ہے۔ اس کے علاوہ، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ عالمی مالیاتی ادارے اور ترقیاتی شراکت دار پاکستان کے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کی حمایت کر رہے ہیں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت اپنے اہداف پر ثابت قدم رہے۔ آئندہ مالی سال میں مزید اصلاحات کے نفاذ کے بعد حکومت توانائی کے شعبے میں پائیدار بہتری کی کوششیں جاری رکھے گی۔ وزیر توانائی نے کہا کہ حکومت نے اپنی توانائی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی منصوبہ بندی کی ہے، جس سے نہ صرف بجلی کی قیمتوں میں کمی ہوگی بلکہ صارفین کو بھی زیادہ سہولتیں فراہم کی جا سکیں گی۔ مجموعی طور پر، وزیر توانائی نے واضح کیا کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کا موجودہ ریلیف عارضی ہے اور اس کے نتائج کا انحصار ملک کی توانائی پالیسیوں میں اصلاحات اور عالمی اقتصادی صورتحال پر ہے۔
بلوچستان: ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں انٹیلی جنس آپریشن کے دوران 2 دہشت گرد ہلاک اسلام آباد: پاک فوج کے شعبہ برائے تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، ضلع کیچ کے علاقے بلیدہ میں انٹیلی جنس کی بنیاد پر کیے گئے آپریشن کے دوران شدید فائرنگ کے تبادلے میں 2 دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، سیکیورٹی فورسز کو دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع ملی تھی جس پر فورسز نے بلیدہ میں آپریشن شروع کیا۔ شدید فائرنگ کے تبادلے میں دونوں دہشت گرد مارے گئے جو علاقے میں دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں میں ملوث رہے تھے۔ ترجمان پاک فوج نے کہا کہ سینی ٹائز آپریشن کا سلسلہ جاری ہے تاکہ کسی بھی دوسرے ممکنہ دہشت گرد کو فوری طور پر ختم کیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیکیورٹی فورسز بلوچستان کے امن کو سبوتاژ کرنے کی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
کراچی کی شہری انتظامیہ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد سے تقریباً 16 ہزار 138 افغان سٹیزن شپ کارڈز (اے سی سی) رکھنے والوں کی ’جبری وطن واپسی‘ شروع کردی جبکہ اب تک 150 سے زائد کو حکومت پاکستان کی پالیسی کے تحت حراست میں لیا گیا ہے۔ حکام نے ڈان کو بتایا کہ وفاقی کابینہ کے فیصلے کے مطابق غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکیوں کی وطن واپسی کا منصوبہ (آئی ایف آر پی) یکم نومبر 2023 سے جاری ہے، منصوبے کے پہلے مرحلے یعنی تمام غیر قانونی غیر ملکیوں کی وطن واپسی کی تکمیل کے بعد اب وزیر داخلہ نے وزیرِ اعظم کی ہدایت سے سندھ حکومت کو آگاہ کیا کہ وہ تمام اے سی سی ہولڈرز کو ان کے آبائی ملک میں واپس بھیجیں۔ 15 فروری سے 31 مارچ 2025 تک افغان شہریوں کی رضاکارانہ واپسی کی مدت ختم ہو چکی ہے اور اب یکم اپریل 2025 سے ’جبری وطن واپسی‘ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔ افغان شہریوں کی وطن واپسی کے لیے مرکزی کیمپ امین ہاؤس سلطان آباد، کیماڑی میں قائم کیا گیا ہے۔ ڈی آئی جی جنوبی سید اسد رضا نے ڈان کو بتایا کہ اب تک 162 اے سی سی ہولڈرز کو کیمپ میں لایا گیا، جبکہ ان میں سے کچھ کو پی او آر (رجسٹریشن کا ثبوت) ہونے پر چھوڑ دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 3 اپریل کو مختلف علاقوں سے کل 196 افغانوں کو کیمپ لایا گیا تھا، جن میں سے 20 کو پی کیو آر رکھنے پر چھوڑ دیا گیا تھا، مزید کہا کہ اسی طرح 4 اپریل کو کل 90 افغانی کیمپ لائے گئے، جن میں سے 10 کو رہا کیا گیا، اس طرح کل 242 افغان باشندوں کو افغانستان واپسی کے لیے لایا گیا ہے۔ ڈی آئی جی جنوبی سید اسد رضا نے کہا کہ پولیس کی اسپیشل برانچ کی جانب سے قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے مطابق کراچی میں مجموعی طور پر اے سی سی رکھنے والے افغانیوں کی تعداد 16 ہزار 138 ہے، جن کی تعداد مشرقی اور مغربی اضلاع میں سب سے زیادہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ضلع شرقی میں کل 11233، ضلع غربی میں 2792، کورنگی میں 910، ملیر میں 396، وسطی میں 406، کیماڑی میں 203، جنوبی میں 120 اور سٹی ڈسٹرکٹ میں 78 اے سی سی ہولڈرز تھے۔ تاہم، وکیل اور ’جوائنٹ ایکشن کمیٹی برائے مہاجرین‘ کی بانی رکن محترمہ مونیزا کاکڑ نے ڈان کو بتایا کہ ان کے پاس اطلاعات ہیں کہ اب تک شہر کے مختلف علاقوں میں ’کریک ڈاؤن‘ میں 500 سے 600 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔

Back
Top