سوشل میڈیا کی خبریں

گزشتہ روز چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوشل میڈیاکو ایک وبا قرار دیا۔انہوں نے کہا کہ آج کل نئی وباء پھیلی ہوئی ہے، سوشل میڈیا کی، اس کا بھی پریشر ہوتا ہے کیس کی سماعت کے دوران انہوں نے دعویٰ کیا کہ تصدیق جیلانی نے سوشل میڈیا کی وجہ سے کمیشن کی سربراہی سے انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر تصدق جیلانی سے متعلق عجیب عجیب باتیں ہوئیں مجھے شرم آئی، مہذب معاشرے میں ایسی باتیں ہوتی ہیں؟مجھے سمجھ نہیں آرہا کہ ہم کس طرف جا رہے ہیں؟ اس پر مطیع اللہ جان نے کہا کہ چیف جسٹس اپنے سابق چیف جسٹس پر سوشل میڈیا کے دباؤ میں آ کر کمیشن کی سربراہی سے انکار کرنے کا الزام لگا رہے ہیں، اب کیا سپریم کورٹ کا یو ٹیوب چینل ڈالروں کے لئیے یہ فیک نیوز نہیں پھیلا رہا؟ سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی نے خط میں واضح طور پر کمیشن سے دستبردار ہونے کی وجہ آئین اور قانون بتائی گئی تھی نہ کہ سوشل میڈیا کا دباؤ۔ انہوں نے مزید کہا کہ دیکھا جو تیر کھا کہ کمین گاہ کی طرف اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی اینکر عمران ریاض نے قاضی فائز عیسیٰ سے سوال کیا کہ قاضی فائز عیسی سے سوال ہے کہ جو ریٹائر جج سوشل میڈیا کے دباؤ سے بھاگ گیا وہ چھ ججز کو دباؤ سے نکالے گا؟ کیسے ممکن ہے؟ اسد طور نے کہا کہ قاضی فائز عیسٰی کہتے ہیں سوشل میڈیا نے ملک تباہ کرنے کا فیصلہ کر لیا،اسد طور نے کہا کہ سوشل میڈیا تو 2010 میں آیا تھا اس سے پہلے ملک کس نے تباہ کیا؟
اسلام آباد ہائیکورٹ نے عمران خان اور بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ نیب کیس میں سزا معطل کر دی گئئ ہے۔ صحافی احتشام کیانی کے مطابق سسٹم ایک بار پھر کھیل کھیل گیا اور جج، وکیل سب بے بس رہ گئے۔ مختلف صحافیوں کے مطابق معاملہ عمران خان کی سزا کالعدم ہونے کی طرف جارہا تھا مگر سزا معطل کردی گئی، اب سزا کالعدم ہونے کی پٹیشن دیر سے سنی جائیں گی اور فیصلہ آنے سے میں ایک سال سے زیادہ بھی لگ سکتا ہے۔ اس حوالے سے صحافی مریم نواز کے کیس کا حوالہ بھی دیتے ہیں جنہیں 2018 میں سزا ہوئی لیکن سزائیں 2022 میں کالعدم ہوئیں، انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے طے کر لیا تھا کہ عمران خان کی سزا یا سزا کا فیصلہ معطلی کی درخواست کی بجائے سائفر اور توشہ خانہ کیسز کی مرکزی اپیلیں سن کر فیصلہ کرینگے۔ انکے مطابق اب دونوں مقدمات کے ٹرائل کس طرح ہوئے اور سائفر اپیل میں کارروائی جس طرف جا رہی ہے سب کے سامنے تھا. سائفر اور توشہ خانہ دونوں مقدمات میں سزا کالعدم ہو جانا کسی طور قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ احتشام کیانی کا کہنا تھا کہ بظاہر اس تمام صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے توشہ خانہ مرکزی اپیل کی شنوائی میں رکاوٹ ڈالنے کیلئے مقابلتاً چھوٹی قربانی دینے کا فیصلہ کیا گیا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کی اس کیس میں سزا معطل کر دی جائے لیکن اپیلیں ابھی سماعت کیلئے مقرر نہ کی جائیں
سرکاری ٹی وی چینل پر رمضان ٹرانسمیشن میں نعت و مذہبی کلام کے نام پر ہونے والی ہلڑ بازی پرسوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آرہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر سرکاری ٹی وی چینل کی رمضان ٹرانسمیشن میں سینئر اداکار و میزبان احسن خان ، رابعہ انعم اور مہمانوں کیجانب سے کی جانے والی ہلڑ بازی کی ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں جس پر سوشل میڈیا صارفین اپنے غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ ان ویڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ احسن خان ایک لڑکی کے ساتھ مشہور کلام "تو کجا من کجا" پڑھتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ پروگرام کی میزبان رابعہ انعم بھی ان کا ساتھ دینے کی بھرپور کوشش کرتی ہیں، دوسری ویڈیو میں ان تمام افراد کو مذہبی کلام پر تقریبا ڈانس کرتے اور ٹک ٹاک کی ویڈیوز بناتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر یہ ویڈیوز وائرل ہونے پر صارفین کی جانب سے سخت ردعمل سامنےآ رہا ہے، صارفین کا کہنا ہے کہ سرکاری چینل کی ٹرانسمیشن کا یہ حال ہے تو پرائیویٹ چینلز پر کیا شوروغوغا ہوگا،ہم کس طرف جارہے ہیں، یہ ہلڑ بازی کس طرف سے رمضان ٹرانسمیشن لگ رہی ہے۔ عامر شیخ نے کہا کہ یہ کون سا اسلام ہے، اسرغف اللہ، نعت رسول ﷺ اس طرح پڑھی جاتی ہے؟ حضور کی شان میں جب کلام پڑھا جاتا ہے تو عقید ت اور عزت اور احترام لازم ہے، ان لوگوں نے مسلمان ہوکر ایسا انداز اپنایا ہے اور رمضان کے برکتوں والے مہینے کی بھی توہین کی ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ان کیلئے مذہب یا رمضان کچھ بھی نہیں، سب کچھ کمرشل اور مال کمانے کے طریقے ہیں۔ فرح علی نے کہا کہ نعت پر بھی تھرکنا اور تقریبا ڈانس والے اسٹیپ کرنے یں تو ایسی نعت پر ثواب ملے گا یا گناہ؟ اسماعیل بیگ نے کہا کہ ہم ڈرامہ اور کھیل کے ہیروز کو حقیقی زندگی میں بھی ہیروز سمجھ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہر شعبے میں پرفیکشن دکھائیں گے،رانگ نمبرز وہی کریں گے جو میڈیا چینلز والے چاہیں گے، سب گول مال ہے۔
شیر افضل مروت کی تحریک انصاف کے 40 ایم پی ایز ٹوٹنے کی خبر غلط ثابت ہوئی، سینٹ الیکشن میں تحریک انصاف کو پورے کے پورے ووٹ پڑگئے کچھ روز قبل شیرافضل مروت نے ثمرعباس کے شو میں دعویٰ کیا تھا کہ پنجاب سے ہمارے 40 ایم پی ایز کو توڑا جا چکا ہے، ن لیگ جو ہمیں آفر کررہی ہے وہ لے لینی چاہئے بجائے اسکے کہ سینیٹ کی سیٹ ہاریں مگر خفیہ رائے شماری میں صنم جاوید کو پڑنےوالے 102 ووٹ اور ڈاکٹر یاسمین راشد کو 106 ووٹوں نے مروت کے بیان کی نفی کر دی صنم جاوید کو کل 107 ووٹ پڑے جن میں سے 5 مسترد ہوئے جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد کو بھی مجموعی طور پر 107 ووٹ پڑے۔ صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے اس پر کہا کہ اب شیر افضل مروت کوبتادینا چاہئے کہ اسکی خبر کا سورس کیا تھا اور یہ خبر اسے کس نے فیڈ کی؟
پی ٹی آئی رہنما صنم جاوید کو جسمانی ریمانڈ دینے والے جج اعجاز بٹر کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ یہ وہی جج ہیں جنہوں نے لاہور اے ٹی سی میں پانچ ماہ تک پی ٹی آئی خواتین کو ضمانت نہیں دی تھی۔ تفصیلات کے مطابق سرگودھا کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں جج اعجاز بٹر نے پی ٹی آئی خواتین کو کمر مشانی تھانے کو جلانے کے کیس میں 14 دن کے جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں اور سوشل میڈیا صارفین نے اس فیصلے پرردعمل دیتے ہوئے جج اعجاز بٹر کے ماضی کے حوالے سے اہم انکشافات کردیئے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما اظہر مشہوانی نے کہا کہ اعجاز بٹر پہلے لاہور اے ٹی سی میں جج تھے جہاں انہوں نے پی ٹی آئی خواتین کو مختلف کیسز میں شامل کرکے 5 ماہ تک ضمانت نہیں دی،اب سرگودھا اے ٹی سی میں اسی جج نے انہی میں سے دو خواتین کو کمر مشانی تھانے کو جلانے کے کیس میں 14 دن کے جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے ، کیا ایسے جج کو آخرت کا ڈر نہیں ہے؟ اس جج کے حوالے سے پی ٹی آئی رہنما طیبہ راجا نے نام لیے بغیر کہا تھا کہ انہوں نے جیل میں آکر کہا تھا کہ "تواڈا لیڈر نسن آلا اے اودا فنانسر آگیا اے، تسی وی لکھ دیو اسی وچ تواڈای بھلائی اے"۔ صحافی شاہد محمود اعوان نے کہا کہ صنم جاوید کا جسمانی ریمانڈ دینےوالے جج وہی ہیں جنہوں نے لاہور اے ٹی سی میں ایک پیشی کے موقع پر صنم جاوید کی تضحیک کی تھی، اس جج نے ایک خاتون وکیل کی بھی تضحیک کی تھی جس کے بعد اس وکیل نے ہائی کورٹ میں تحریری درخواست دیدی تھی جس پر جج اعجاز بٹر کو ٹرانسفر کردیا گیا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب وہی خاتون وکیل صنم جاوید کے مقدمات لڑرہی ہیں اور اس کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں، لگتا ہے اسی وجہ سے صنم جاوید مشکلات کا سامنا کررہی ہیں۔ صحافی محمد عمیر نے کہا کہ تھانہ کمر مشانی کی ایف آئی آر میں پولیس سے تلخ کلامی کی دفعات شامل ہیں، صنم جاوید اور عالیہ حمزہ پر الزام ہے کہ انہوں نے اس کیلئے مجمع کو ابھارا،حالانکہ صنم جاوید اور عالیہ حمزہ نا وہاں تھیں اور نا ہی ان کی ریکوری ہونی تھی، ان دونوں کو اس مقدمے میں ساڑھے دس ماہ بعد ضمنی میں نامزد کیا گیا اور جج نے ان دونوں کا 14 روزہ ریمانڈ دیدیا۔
سوشل میڈیا صارفین نے سپریم کورٹ کے ججز کے خط کے معاملے پر سوموٹو نوٹس لینے کے خلاف غریدہ فاروقی کے ایک ٹویٹ کا پوسٹ مارٹم کرڈالا سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر شہزاد اکبر نے سینئر صحافی و تجزیہ کار غریدہ فاروقی کا ایک ٹویٹ اور واٹس ایپ پر موصول ہونے والے ایک پیغام کا سکرین شاٹ شیئر کیا اور کہا کہ دوگھنٹے پہلے سپریم کورٹ کے سوموٹ نوٹس کے خلاف بیانیہ بنانے کیلئے تحریر بھیجی گئی اور غریدہ فاروقی نے شفافیت کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے یہ تحریری ہو بہو چھاپ دی۔ عمران افضل راجہ نے کہا “تمغے ایویں نہیں کمائے جاتے”اشاروں پر باندری کی طرح ناچنا پڑتا ہے ،کاپی پیسٹ مارنے پڑتے ہیں،ہر دوسرے ٹوئیٹ پر “ختم شد” لگانا پڑتا ہےپھر جا کے تمغوں کے لیے نام فائنل ہوتے ہی غریدہ فاروقی کے اس ٹویٹ اور واٹس ایپ میسج میں کہا گیا کہ حیران کن طور پر سپریم کورٹ کی جانب سے ایک رکنی کمیشن بنانے کے صرف 2 دن بعد ہی نوٹس لے کر سات رکنی بینچ تشکیل دیا گیا ہے، اس سے قبل چیف جسٹس اور وزیراعظم پاکستان کے درمیان معاملات طے پاگئے گھے اور ایک رکنی کمیشن تشکیل دیدیا گیا تھا۔ غریدہ فاروقی نے اپنے تفصیلی ٹویٹ میں کہا تھا چیف جسٹس پاکستان نے چھ ججز کی طرف سے لکھے جانے والے خط پر سپریم کورٹ کا سات رکنی لارجر بینچ بنا دیا - حیران کن طور پر یہ سات رکنی بینچ سپریم کورٹ اور وزیر اعظم کی طرف سے رضا مندی کے بعد ایک رکنی کمیشن بنانے کے صرف دو دن کے بعد بنایا دِیا گیا جبکہ اس سے پہلے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور وزیراعظم پاکستان کے مابین معاملات طے پا جانے کے بعد ایک رکنی کمیشن جسٹس تصدق جیلانی پر مشتمل بنا دیا گیا تھا- اس کمیشن کی تعیناتی کے فوری بعد سپریم کورٹ نے باقاعدہ پریس ریلیز ایشو کی تھی اور اس معاملے پر اچھی طرح سے بیان دیا کہ اس معاملے کے اندر کیا کیا ٹرمز اف ریفرنس کو شامل کیا جائے گا اور وہ کن کن معاملات پر تصدق جیلانی والا کمیشن اپنی انکوائری کرے گا اور ثبوتوں کی روشنی میں حقائق کو سامنے لے کر ائے گا وزیراعظم پاکستان اور چیف جسٹس پاکستان کی ملاقات کے بعد تمام ماہرین اور عوام یہ سمجھ رہے تھے کہ چھ ججز کی جانب سے حساس ادارے پر سنگین الزامات لگائے جانے کے بعد یہ معاملہ اب اپنے منطقی انجام تک پہنچ جائے گا کیونکہ کمیشن کے ٹی او آرز نے جو کہ گورنمنٹ آف پاکستان نے ایشو کیے اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ اس معاملے کی مکمل چھان بین کی جائے گی اور چھ ججز جنہوں نے یہ الزامات لگائے ہیں ان کو ثبوت پیش کرنے پڑیں گے۔۔۔ آج اچانک چیف جسٹس سپریم کورٹ کی طرف سے سات رکنی لارجر بینچ کے بنائے جانے کے اعلان کے بعد جو ایک بات بہت واضح طور پر سامنے اگئی ہے وہ یہ ہے کہ اس لارجر بینچ بنائے جانے کا مقصد ان چھ ججز کو ریلیف دینا مقصود ہے کیونکہ جو کہ ایک رکنی کمیشن تھا اُسکے سامنے اِن تمام چھ ججز کو پیش ہونا تھا اور پیش ہونے کے ساتھ ساتھ ان تمام ججز نے جو اپنے خط کے اندر الزامات لگائے تھے ان الزامات کو ثابت کرنا تھا لیکن اب چونکہ ایک لارجر بینچ سپریم کورٹ کا بنا دیا گیا ہے جہاں پر عمومی بات چیت کی جائیگی اور یہ خدشہ ہے کہ کورٹ کی لارجر بینچ کی سماعت میں اس خط کے اندر لگائے گئے وہ مخصوص specific الزامات جو کہ ان چھ ججز نے لگائے ہیں ان کی کوئی خاطرخواہ انویسٹیگیشن نہیں کی جا سکے گی اور نہ ہی ان ججز کو ثبوت دینے کے لیے مجبور کیا جائے گا۔۔۔ ایک طرح سے یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اعلی عدلیہ نے یہ لارجر بینچ تشکیل صرف اس لیے کیا ہے کہ اپنے چھ ججز کو کوئی ریلیف دیا جائے کیونکہ کمیشن کے سامنے ان ججز کو ثبوت پیش کرنا ان کی مجبوری تھی اور ثبوت پیش کیے بغیر ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جا سکتا تھا لیکن اب آپ یہ دیکھیں گے کہ اس لارجر بینچ کی تشکیل کے بعد کوئی ثبوت نہیں مانگے جائیں گے اور اس کا جو فیصلہ ہوگا وہ بھی موٹی موٹی باتیں کر کے اس کیس کو دفتر داخل کر کے بھگتا دیا جائے گا۔۔۔ جناب چیف جسٹس صاحب، انصاف وہ ہو جو ہوتا نظر بھی آئے۔ بظاہر اپنی برادری اور سیاسی دباؤ کے تحت لیے گئے اقدامات، انصاف کے اُصول پامال نہ کر دیں؛ یہ جناب چیف جسٹس صاحب کی ذمہ داری ہے! جن 6 ججز نے الزامات لگائے ہیں، ان سے ثبوت حاصل کرنا اب چیف جسٹس کی ذمہ داری ہے! ثبوت نہ ہوئے تو بھی ذمہ داری چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کی ہے! خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط کے معاملے پر سپریم کورٹ نے از خود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی بینچ تشکیل دیدیا ہے، بینچ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے۔
سجاول میں اسکول کی تقریب کے دوران جب قومی ترانہ بجایا گیا تو حال میں موجود تمام افراد قومی ترانے کے احترام میں کھڑے ہو گئے لیکن اےسی صاحب نے قومی ترانہ کے احترام میں اٹھنے کی زحمت ہی گوارا نہ کی اے ڈی سی کی جانب سے تقریب میں پاک فوج کے علاوہ اعلیٰ عہدیداران اور مہمان بھی موجود تھے۔ تقریب میں قومی ترانہ بجایا گیا تو تمام افسران اور مہمان روایت کے مطابق ترانے کے ادب میں اُٹھ کر ترانہ سننے لگے لیکن اے ڈی سی سید وجاہت شاہ بیٹھے رہے اور تقریب میں موجود پاک فوج کے افسران اور دیگر مہمانان گرامی اے ڈی سی کی اس نا زیبا حرکت پر حیرت کا اظہار کرتے رہے۔ معاملہ اس وقت پیش آیا جب پاک نیوی کی جانب سے اسکول کے امتحانات کے بعد تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب میں ڈپٹی کمشنر کو دعوت دی گئی تھی جس کی جگہ اے ڈی سے شریک ہوئے۔ معاملے پر اے ڈی سی وجاہت شاہ کے اخبارات، ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا پر چرچے ہو رہے ہیں اور ان پر خوب تنقید ہورہی ہے۔ اس پر ڈپٹی کمشنر سجاول نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ناسازی طبیعت کی وجہ سے قومی ترانہ کے وقت بروقت کھڑا نہیں ہوسکا اور میرے چہرے کے تاثرات بھی اچھے نہیں تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست دشمن عناصر میری ویڈیو وائرل کررہے ہیں، ان سے لاتعلقی کرتا ہوں، میری پاکستان کیلئے جان بھی حاضر ہے۔
نجی چینل اے آروائی کا کہنا ہے خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں پی ٹی آئی کی ریلی میں بدنظمی کا شکار ہو گئی، شیر افضل مروت نے ایک کارکن کو تھپڑ جڑ دیا۔ اے آروائی کے مطابق پشاور میں پاکستان تحریک انصاف کی ریلی میں اس وقت بدنظمی دیکھی گئی جب شیر افضل مروت ریلی میں پہنچے اور کارکنوں نے انھیں گھیر لیا۔ چلتے چلتے شیر افضل مروت کو دھکا لگا تو وہ طیش میں آ گئے، اور انھوں نے مڑ کر دھکا دینے والے کو تھپڑ جڑ دیا۔ اس پر شیر افضل مروت نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اے آر وائے خبر کے مطابق میں نے ورکر کو تھپڑ رسید کیا۔ اس کلپ میں جو ورکر نظر آرہا ہے وہ میرا ذاتی گارڈ حکیم خان ہے جو دہشت گردی کے پیش نظر مجھے کہہ رہا تھا کہ گاڑی میں بیٹھ جاؤں اور ورکرز کو میرے پاس آنے پر دھکے دے رہا تھا جس کو میں نے منع کیا کہ مجھے نہ کھینچے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اے آروائے نے میری ذاتی گارڈ کو پی ٹی آئی کا کارکن بنا دیا۔ ایسی صحافت پر انتہائی افسوس ہوتا ہے۔
معروف عالم دین ابتسام الٰہی ظہیر کی کوششوں سے بچے سے بدفعلی کرنیوالے مولوی ابوبکر معاویہ کی جان خلاصی ہوگئی ہے، ابتسام الٰہی ظہیر اور دیگرعلماء نے بچے کے والدین سے صلح صفائی کرکے اور دباؤ سے کیس واپس لینے پر مجبور کردیا ہے اپنے ٹوئٹر پیغام میں مولانا ابتسام الٰہی ظہیر نے کہا کہ علماء کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والی لابی کو مولانا ابوبکر معاویہ کے بری ھونے پر بہت تکلیف ھے انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا موقف پہلے دن سے واضح تھا کہ اگر مولانا مجرم ھوں تو انکا کڑا احتساب ھونا چاھیے اور اگر بے گناہ ھیں تو انکو باعزت بری ھونا چاھیے۔نہ تو ڈی این اے ٹیسٹ مولانا کے خلاف آیا اور نہ ھی واقعاتی شہادتیں مولانا کے خلاف تھیں مولانا ابتسام کا کہنا تھا کہ مولانا کے پاوں دبانے پر بچے کا والد غصے میں آیا بات تلخی سے ھوتی ھوئی جیل تک پہنچی بچے کے والد نے بھی اعلانیہ اقرار کیا کہ کیس جنسی زیادتی یا ھراسیت کا نہیں انکا کہنا تھا کہ ھم ابھی بھی اپنی بات پر قائم ھیں کہ جنسی زیادتی ثابت کرنے کے لیے ڈی این اے یا واقعاتی شہادت پیش کردیں مولانا کی سزائے موت کا مطالبہ کریں گے لیکن بلاثبوت کسی عالم کے ساتھ زیادتی کی معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں یاد رھے کہ مولانا کا تعلق میری تنظیم سے نہیں نہ ھی میں بچے اور اسکے خاندان سے واقف ھوں علامہ ابتسام نے کہا کہ مفت شور شرابے کا مقصد فقط دین اور علماء کو بدنام کرنا ھے جبکہ لبرل طبقے کے پاس مولانا کو مجرم ثابت کرنے کی کوئی دلیل نہیں ھے یاد رھے کہ جس طرح جنسی زیادتی ایک گھناونا جرم ھے اسی طرح بلاثبوت الزام تراشی بھی قابل نفرت جرم ھے سوشل میڈیا کا اس پر کہنا تھا کہ اگر کوئی بدفعلی نہیں بھی ہوئی تو آپ کون ہوتے ہیں صلح کرانے والے؟ یہ تو عدالت کا کام تھا کہ فیصلہ کرے۔ بچے کا والد کہہ چکا ہے کہ علماء کی محبت میں معاف کیا۔ اگر بدفعلی نہین ہوئی تو بچے کے والد نے معافی کس چیز کی دی ہے۔ ویسے بچے کا ڈی این اے ٹیسٹ کرانا عام لوگوں کا کام نہیں۔
حکومت کیجانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خط میں عائد الزامات کی نفی اور انکوائری کمیشن کی تشکیل کے معاملے پر عوامی ردعمل سامنے آگیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کی جانب سے لکھے گئے خط میں عائد الزامات کی نفی کرتے ہوئے تحقیقات کیلئے ایک خصوصی انکوائری کمیشن تشکیل دیدیا ہےجس اس معاملے کی چھان بین کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ حکومت کے اس فیصلے پر صحافتی وعوامی حلقوں کیجانب سے ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے، ہیومن رائٹس کونسل پاکستان نے بھی حکومتی ردعمل کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ انکوائری شروع ہونے سے پہلے ہی ایسا از خود موقف نہیں دینا چاہیے تھا،یہ تحقیقات پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کے خدشات پر میرٹ پر صاف و شفاف تحقیقات ہونی چاہیے۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار عمران ریاض نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بغیر تحقیقات الزامات کو مسترد کرکے کابینہ نے اپنی نیت دکھادی ہے اور ایک متنازعہ کمیشن تشکیل دے کر بدنیتی کا ثبوت بھی فراہم کردیا ہے،جو راستہ قاضی فائز عیسیٰ نے نکالا وہ حکومتی اقدامات سے غلط ثابت ہوگیا۔ سینئر صحافی ثاقب بشیر نے کہا کہ پھر حکومت نے کمیشن کس چیز کا بنا یا ہے؟ سینئر صحافی خالد جمیل نے کمیشن کے سربراہ تصدق حسین جیلانی پر سوالیہ نشان اٹھاتے ہوئے کہا کہ کمیشن کے قیام سے قبل ہی کابینہ کا الزامات کی نفی کرنا اور خط کو نامناسب قرار دینا حکومتی بدنیتی اور چور کی داڑھی میں تنکے کی عکاسی کرتا ہے۔ محمد عمیر نے کابینہ اجلاس کا اعلامیہ شیئرکرتے ہوئے کہا کہ کمیشن بنانے والوں نے تحقیقات سے قبل ہی ایجنسیوں پر عائد الزامات کو نامناسب قرار دیدیا۔ صحافی اکبر باجوہ نے کہا کہ شروعات ہی ایسے کی جارہی ہے کہ الزامات جھوٹ بھی ہوسکتے ہیں، اگر کسی نے کچھ ایسا کر بھی لیا تو کیا ہوا آئین یہ اختیار دیتا ہے۔ صحافی احمد ابو بکر نے کہا کہ کابینہ نے الزامات کی نفی کرتے ہوئےانہیں نامناسب قرار دیا، کمیشن کے ٹی او آرز بنائے، اس کابینہ نے اپنا مائنڈ ایکسپوز کردیا ہے، تحقیقات کی ساکھ اب مزید مذاق بن جائے گی۔ صحافی شاکر محمود اعوان نے کہا کہ بادی النظر میں یہ کمیشن کا فیصلہ ہے کہ ججز کے الزامات نامناسب ہیں جنہیں مسترد کیا جاتا ہے۔ سجاد بلوچ نے کہا کہ صرف نامناسب قرار دینا کافی نہیں ہے، ججز کے الزامات کو ماورائے آئین، اختیارات سے تجاوز اور مس کنڈکٹ قرار دینا چاہیے ۔ وفاقی کابینہ فاشسٹ اپروچ رکھنے والے ججز کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بننا چاہیے۔ یہ ہوتے کون ہیں اپنی مرضی کے فیصلے کرنے والے ۔ فیصلے تو آئین و قانون کے مطابق ہوتے ہیں۔ پاکستان میں آئین و قانون کون طے کرتا ہے ۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ سراحمد کھوکھر نے کہا کہ حکومت نے نفی ہی کرنی تھی کیونکہ ججز نے حکومت و ان کے ماتحت اداروں پر الزام عائد کیا ہے۔ میاں وحید نے کہا کہ وفاقی کابنہ0 نے بغر کسی انکوائری کے اپنے اعلامےن مںا چھ ججوں کے ایگزیوٹک کی مداخلت سے متعلق خط کو نہ صرف مسترد کاد بلکہ ان کے الزامات کو بھی نامناسب قرار دیا۔
پنجاب پر مسلط ناجائز حکومت نے نواز شریف کا نام لگا کر پراجیکٹ دوبارہ لانچ کرنے کی کوشش کی!: سوشل میڈیا صارف مریم نوازشریف کی پنجاب حکومت کی پھرتیاں، پاکستان تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار کے دور میں شروع ہونے والے کسان کارڈ پراجیکٹ کو چرا کر نوازشریف کارڈ کے نام سےلانچ کر دیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواشریف کی زیرصدارت زرعی اصلاحات پر ہونے والے اجلاس میں طرف سے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دیدی گئی ہے جس کے تحت 5 لاکھ چھوٹے کاشتکاروں کو آسان شرائط پر ایک سال میں ڈیڑھ سو ارب کا قرضہ فراہم کیا جائے گا۔ حکومت کسانوں کو بہترین بیج، کھاد، کیڑے مار ادویات کی خریداری کے لیے 30 ہزار فی ایکڑ قرض فراہم کرے گی، نوازشریف کارڈ کے تحت کسانوں کو مختلف قسم کی سبسڈیز بھی دی جائینگی۔ پنجاب بھر میں نجی شعبے کے اشتراک سے ماڈل ایگریکلچر سنٹرز بھی قائم کیے جائیں گے۔ کسان کارڈ نوازشریف کارڈ کے نام سے دوبارہ لانچ کرنے پر مریم نوازشریف کی پنجاب حکومت پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ اظہر مشوانی نے خبر کے ردعمل میں لکھا: کچھ تو اپنا کر لو ڈاکو رانی! اظہر مشوانی نے ایک اور پیغام میں عمران خان کے دوراقتدار میں جاری کیے گئے کسان کارڈ کے حوالے سے تفصیلات شیئر کرتے ہوئے لکھا: عمران خان نے 2021ء میں ”کسان کارڈ“ لانچ کیا! اس کارڈ کے ذریعے کسانوں کو سبسڈی اور سپورٹ فنڈ ان کے بینک اکاؤنٹ میں براہ راست ملتے تھے، آج پنجاب پر مسلط کی گئی ناجائز حکومت نے اس پر نواز شریف کا نام لگا کر دوبارہ لانچ کرنے کی کوشش کی! عدنان ظہیر خواجہ نے لکھا: فارم 47 کی ناجائز سیاسی پیدوار مریم نوازشریف کا ایک اور جعلی کارنامہ! عمران خان کے منصوبے ”کسان کارڈ“ کو بے شرمی سے نواز شریف کارڈ بنا دیا۔ عظمیٰ بخاری اپنی مالکن کو بولو نیازی کیCopy کرنے سے گیدڑ، لیڈر نہیں بنے گی! ایک سوشل میڈیا صارف نے 2021ء میں کسان کارڈ لانچ کرتے وقت سابق وزیراعظم عمران خان کی تقریر شیئر کرتے ہوئے لکھا: پہلے کسان کو پیسا پہنچانا نہایت مشکل کام تھا، اب "کسان کارڈ" کے ذریعے کسان کو براہ راست کھاد، بیج، دوائی، بجلی پر سبسڈی ملے گی۔ کسان کارڈ کیلئے رجسٹرڈ کاشتکار (پنجاب) = 13 لاکھ 55 ہزار!
سابق وزیراعظم وبانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان کے بیان کا نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کی طرف سے توڑ مروڑ کر پیش کرنے پر سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ عمران خان کی ہمشیرہ علیمہ خان نے ایک صحافی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ: پانامہ کیس میں جج نے غلط فیصلہ دیا تھا، جس کیس میں نوازشریف کو اقامہ پر سزا دی گئیں اصلی کیس پر نہیں، ججز صحیح فیصلہ دیتے تو یہ آج ایسے نہ پھر رہے ہوتے۔ نجی ٹی وی چینل نے اپنے مختلف پلیٹ فارم پر علیمہ خان کے بیان کو مختلف انداز میں شائع کرتے ہوئے لکھا: نوازشریف کو پانامہ کیس میں اقامہ پر سزا دینا غلطی تھی، جس پر سوشل میڈیا صارفین بھڑک اٹھے! سینئر صحافی خرم اقبال نے لکھا: خبر کی مکمل تفصیل۔۔!!پاناما کیس میں جج نے غلطی کی تھی، جس کیس میں سزا دی وہ اقامہ تھا، اصلی کیس پر نواز شریف کو سزا نہیں سنائی گئی، اگر اصل کیس میں سزا ہوتی تو آج یہ ایسے نہ پھر رہے ہوتے: علیمہ خان ایڈووکیٹ عبدالمجید مہر نے لکھا: جیو نیوز ہمیشہ کی طرح جھوٹ پھیلاتے ہوئے ! مکمل خبر یہ تھی کہ پاناما کیس میں جج نے غلطی کی تھی، جس کیس میں سزا دی وہ اقامہ تھا، اصلی کیس پر نواز شریف کو سزا نہیں سنائی گئی، اگر اصل کیس میں سزا ہوتی تو آج یہ ایسے نہ پھر رہے ہوتے: علیمہ خان ملیحہ ہاشمی نے لکھا: جیو نیوز نے پوری بات نہ بتا کر صحافتی بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے! پوری خبر یہ ہے کہ علیمہ خان نے کہا کہ نواز شریف کو "اقامہ" (کے کمزور کیس) پر سزا دے کر جج نے غلطی کی۔ اگر اقامہ کی بجائے اصل مضبوط کیس میں نواز شریف کو بچانے کی بجائے سزا دی جاتی تو یہ آج آزاد نہ پھر رہے بوتے"! محبوب خان نے لکھا: جیو کی آج کی خبر! نواز شریف کو پانامہ کیس میں اقامہ پر سزا دینا غلطی تھی": علیمہ خان ! مکمل خبر یہ ہے کہ: پاناما کیس میں جج نے غلطی کی تھی، جس کیس میں سزا دی وہ اقامہ تھا! اصلی کیس پر نواز شریف کو سزا نہیں سنائی گئی، اگر اصل کیس میں سزا ہوتی تو آج یہ ایسے نہ پھر رہے ہوتے: علیمہ خان ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا: یہ کہلاتی ہے زرد صحافت، جیو کی ہیڈ لائن دیکھیں اور اصل بیان دیکھیں۔ اصل بیان: علیمہ خان نے یہ بھی کہا کہ جس کیس میں سزا دی وہ اقامہ تھا، اصلی کیس پر نواز شریف کو سزا نہیں سنائی گئی، اگر اصل کیس میں سزا ہوتی تو آج یہ ایسے نہ پھر رہے ہوتے! آصف محمود نے لکھا:اصلی اور نقلی خبر میں فرق ، 45 اور 47 جیسا فرق ، جیو نیوز کیا کہنے آپ کے! نواز شریف کو پانامہ کیس میں اقامہ پر سزا دینا غلطی تھی": علیمہ خان، مکمل خبر! علیمہ خان نے کہا: پاناما کیس میں جج نے غلطی کی تھی۔۔ جس کیس میں سزا دی وہ اقامہ تھا۔۔ اصلی کیس پر نواز شریف کو سزا نہیں سنائی گئی۔۔ اگر اصل کیس میں سزا ہوتی تو آج یہ ایسے نہ پھر رہے ہوتے"۔
پارٹی کے مخلص کارکن اور عمران خان کے ورکر کا حق ہم کسی کو مارنے نہیں دینگے: سوشل میڈیا صارف الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے قومی وصوبائی اسمبلی کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخاب کا شیڈول جاری ہو چکا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اس کی تیاریاں کرنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل شروع ہو چکا ہے جس پر تحریک انصاف کے پارٹی کارکنوں ورہنمائوں کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لاہور، عام انتخابات میں حمزشہباز کے خلاف الیکشن لڑنے والے پی ٹی آئی امیدوار محمد مدنی کا ضمنی الیکشن میں ٹکٹ تبدیل کیے جانے کی خبروں پر پی ٹی آئی کارکنوں کا احتجاج رنگ لے آیا محمد مدنی کو ٹکٹ جاری کر دیا گیا۔ ایک سوشل میڈیا صارفعلی رضا نے لکھا کہ: سننے میں آرہا ہے کہ PP-147 لاہور کے حلقے سے محمد مدنی کا ٹکٹ لے کر استحکام پاکستان پارٹی کے ہمایوں اختر کو دیا جارہا ہے۔ فی الحال نیا محاذ کھولنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن اس پر نظر رکھنی چاہیے، پارٹی ٹکٹ کا حقدار محمد مدنی ہے۔ فلک جاوید خان نے لکھا:پی پی 147 سے محمد مدنی کا ٹکٹ کینسل کر کے شاہ رخ جمال کو دیا جا رہا ہے، کل چِھترول کے بعد عمران خان کا نام نہیں لے سکتے تو خان کی بہن عظمیٰ خان کا نام لے کر واردات ڈال رہے ہیں جب کہ عظمیٰ خان سارے معاملے سے بے خبر ہیں! جو یہ سب کر رہا ہے ہمیں معلوم ہے، عوام آواز اٹھائے تاکہ یہ مافیا اپنی مرضی نا کر سکے۔۔!! سید ذیشان عزیز نے لکھا: تحریک انصاف کے کارکنان اور سپورٹرز کا احتجاج کام کر گیا، افضل ڈھانڈلہ کا ٹکٹ وڑ گیا، تحریک انصاف نے ٹکٹ واپس لے لیا! جس پر سینئر صحافی رائے ثاقب کھرل نے ردعمل میں لکھا: دوسری طرف محمد مدنی جیسے پرانے کارکن کی بھی ٹکٹ وڑنے کی خبریں ہیں ۔ ارسلان بلوچ نے محمد مدنی کی گرفتار کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا: کیا محمد مدنی سے ٹکٹ واپس لی گئی ہے؟ وہ میرے کوئی مامے کا پُتر نہیں ہے لیکن ایک مخلص عمران خان کا ورکر ہے یہ اور اس کا حق ہم کسی کو مارنے نہیں دیں گے۔ حماد کو کس نے کہ ہے کہ اس کا ٹکٹ بدلا جائے؟نام بتا دیں یا پھر ہم بتا دیتے ہیں! محمد عمیر نے لکھا:محمد مدنی نے حمزہ کے مقابلے میں اس حلقہ سے 46494 ووٹ لیے جبکہ حمزہ کے ووٹ 51838 تھے! مسلم لیگ ن یہاں شاہدرہ سے ملک ریاض کو ٹکٹ دینے جارہی ہے۔ محمد مدنی متعدد بار یہاں سے لڑ چکے ہیں، ان کو ٹکٹ نہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے، وہ تمام مشکلات کے باوجود پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گل نے لکھا: میں نے پارٹی چیئرمین گوہر خان اور کور کمیٹی سے گزارش کی ہے کہ محمد مدنی کے ٹکٹ کو تبدیل نہ کیا جائے۔ محمد مدنی ہمارا پرانا ورکر ہے اور اسی سیٹ سے الیکشن جیت چکا ہے جسے فارم 47 پر ہرایا گیا، میرے خیال میں اس کا ٹکٹ تبدیل کرنا درست فیصلہ نہیں۔ محمد مدنی مڈل کلاس سے ابھرتا ہوا پارٹی ورکر ہے، میں اس کے لیے بھرپور آواز اٹھاؤں گا۔
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے بھکر سے رجیم چینج آپریشن کے دوران منحرف ہونے والے سابق رکن قومی اسمبلی افضل ڈھانڈلہ کو ٹکٹ دینے کے معاملے پر سوشل میڈیا پر سخت ردعمل سامنے آرہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نےضمنی انتخابات کیلئے پی پی 93 بھکر سے سابق رکن قومی اسمبلی افضل ڈھانڈلہ کو ٹکٹ جاری کردیا ہے جس پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آرہا ہے، سوشل میڈیا صارفین کا موقف ہے کہ یہ وہی شخص ہےجس نےرجیم چینج کے وقت عمران خان سے غداری کی اور کہا تھا کہ عمران خان مجھ سے معافی مانگیں پھر میں پی ٹی آئی واپس آجاؤں گا۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ فیصل خان پی ٹی آئی رہنما حماف اظہر سے جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص کو ٹکٹ کیوں جاری کیا گیا؟ محمد عمیر نے کہا کہ اظہر مشہوانی جو خود اغوا ہوا، جس کا باپ ، بھائی اغوا رہے اس کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے مگر ڈاکٹر افضل ڈھانڈلہ جس نےرجیم چینج کے وقت پارٹی سے دھوکا کیا اس کیلئے جگہ بن گئی۔ انہوں نے مزید کہا کہ رجیم چینج کے کردار محمد افضل خان ان 20 اراکین اسمبلی میں شامل تھے جو منحرف ہوئے ۔ احسن واحد نے کہا کہ منحرف سیاستدانوں کی پی ٹی آئی میں واپسی ہورہی ہے؟ عمران خان کو 2022 میں چھوڑنےوالے آج پی ٹی آئی کی حمایت سے ہی دوبارہ پنجاب اسمبلی کا حصہ بن گئے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تھی اور پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہوئی تھی، اگر ایسے لوگ پارٹی میں واپس آسکتے ہیں تو جن سے بلیک میلنگ کے ذریعے پارٹی چھڑوائی گئی انہیں بھی واپس بلایا جانا چاہیے۔ دانش محمود نے افضل خان کا عمران خان سے معافی کے مطالبے سے متعلق بیان شیئر کرتے ہوئے کہا کہ آج افضل خان پی ٹی آئی کے امیدوار کے طور پر سامنے آئے ہیں ،اس کا مطلب ہے عمران خان نے معافی مانگ لی ہے۔ ایک صارف نے حماد اظہر کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ پہلے ایک لوٹ کو لاہور سے ٹکٹ دلوایا جو جیت کر ن لیگ میں شامل ہوگیا، اب بھکر سے افضل خان کو ٹکٹ دیدیا جو سندھ ہاؤس میں بیٹھا رہا اور عدم اعتماد کی تحریک میں عمران خان کے مخالف ووٹ دیا۔ اسی صارف نے افضل خان کی عمران خان سے متعلق گفتگو کا کلپ بھی شیئر کیا اور کہا کہ جس کو پی ٹی آئی نے بھکر سے ٹکٹ دیا ہے اس کو ملاحظہ کریں۔ ایک صارف نے جس شخص نے رجیم چینج میں عمران خان کی پیٹھ کر چھرا گھونپا ، لوٹا بن گیا اس کو ضمنی الیکشن میں ایک بار پھر ٹکٹ دیدیا گیا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان بلوچستان سے بلامقابلہ سینیٹر منتخب ہوگیےجس پر وہ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے لیکن ساتھ ساتھ اپنی والدہ کی وفات پر اپنے دکھ اور افسوس کا بھی اظہار کردیا۔ ایکس پر ٹویٹ میں ایمل ولی خان نے لکھا نہ الیکٹڈ یہ سلیکٹڈ, اے این پی بلوچستان نے نامزد کیا تھا اور صدر آصف علی زرداری اور میرے بھائی بلاول بھٹو زرداری کی حمایت سے یہ سب ہوا ہے۔ اپنی والدہ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے ایمل ولی خان نے بتایا میں اس وقت غم میں ہوں۔ میری دنیا چلی گئی۔ میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ میں معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ وقت بہترین شفا دینے والا ہے اور اس وقت مجھے اس کی ضرورت ہے۔ آپ کی حمایت، دعاؤں اور خواہشات کے لیے آپ سب کا شکریہ۔ میں اس غم کے 40ویں دن کے بعد اپنے فرائض دوبارہ شروع کروں گا۔ انہوں نے کہا اپنی جدوجہد کو مزید بے خوفی سے جاری رکھوں گا۔ ’’وہ‘‘ جدوجہد یا آواز کو نہیں روک سکتے اور اب سینیٹ میں یہ سب سننے کی ہمت ہونی چاہیے۔ اس میں مصالحہ ملانے کے لیے میں جی ایچ کیوستان سے سینیٹر بن گیا ہوں۔ آپ کو بتایا کہ ممبر بننا مسئلہ نہیں ہے۔ مسائل بنیادی طور پر دو ہیں۔ 1. طاقت عوام کی ہے۔ 2. تمام وسائل عوام کے ہیں اور انہیں ان کے فائدے کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا میں وعدہ کرتا ہوں کہ اپنے بزرگوں کے راستے پر چلوں گا اور عوام کی آواز بنوں گا۔ میں پاکستان میں پختونوں، بلوچیوں اور تمام مظلوم اقوام کی آواز بنوں گا۔ میں پاکستان میں تمام اقلیتوں کی آواز بنوں گا۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ سوشل میڈیا صارفین نے ایمل ولی کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بلوچستان سے سینیٹر منتخب ہونے کے لئے 8 ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اے این پی کے پاس صرف 2 ووٹ ہیں، کیا اے این پی نے دھاندلی سے پیچھے ہٹنے پر ڈیل کرلی؟ ان کا کہنا تھا کہ انقلاب کی کل قیمت ایک سینیٹ کی نشست
نگہبان پیکیج فراڈیوں کے ہاتھ لگ گیا۔۔ مفاد پرست عناصر سرکاری اثرورسوخ استعمال کرکے رمضان نگہبان پیکیج مارکیٹ میں بیچنے لگے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک گودام کے اندر پنجاب حکومت کے "نگہبان" پیکیج کے تھیلے پڑے ہوئے ہیں اور کچھ افراد ان تھیلوں میں سے آٹا، چینی، بیسن، گھی ، چاول اور دیگر اشیاء نکال رہے ہیں۔ یہ افراد ان تھیلوں سے سے چینی نکال کراور انکے شاپر پھاڑ کر پیکنگ کو تبدیل کرکے عام دکانوں والی پیکنگ کررہے ہیں اور بڑی بڑی بوریوں میں بھررہے ہیں، اسی طرح چاول اور بیسن بھی بھر رہے ہیں۔اسکا مقصد انہیں دوبارہ بازار میں فروخت کرکے مال کمانا ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف عبید کیانی نے مریم نواز کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا کہ غریبوں کا مال کیسے ہڑپ کیا جاتا ہے دیکھو غور سے۔ یہ ہے کرپٹ وزیراعلی کے رمضان راشن پروگرام کی شفافیت غریب کے مال پر دن دیہاڑے ڈاکا ڈالا جا رہا ہے کوئ پوچھنے والا نہیں ہے۔ وقاص امجد نے تبصرہ کیا کہ جب تک لالچی زندہ ہے فراڈ ہوتا رہے گا۔۔ پنجاب میں جاری نگہبان پیکج بھی فراڈیوں کے ہتھے لگا ہوا ، پیکجنگ تبدیل کی جارہی ہے۔۔ یادرہے کہ کچھ روز قبل ہی وہاڑی کے ایک گاؤں میں نجی مکان سے 24 لاکھ روپے سے زائد مالیت کے 600 راشن بیگز برآمد ہوئے تھے،جنہیں غریبوں کو دیا جانا تھا مگر یہ فراڈیوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ اس سے قبل بھی گجرات کی ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کا نگہبان رمضان پیکج صرف فوٹو شوٹ تک محدودتھا، سرکاری ملازمین نگہبان پیکج مستحقین کو دینے کی بجائے گھروں کے سامنے راشن کی بوریاں رکھ کر تصاویر بناتے رہے اور اسی تھیلے کو واپس اے سی کے دفتر پہنچادیتے
چھ ججز کے تہلکہ خیز خط کے بعد تحریک انصاف کی لیڈرشپ کے غیرسنجیدہ روئیے پر سوالات اٹھنے لگے۔۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ ایک بہت بڑا ایونٹ ہوا، عمران خان کو غلط سزائیں دی گئیں لیکن پی ٹی آئی لیڈرشپ ہے کہ ستو پی کر سو رہی ہے۔ خاص طور پر صدیق جان نے تحریک انصاف کی لیڈرشپ اور حامد خان پر بڑے سوالات کھڑے کردئیے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں فل کورٹ میٹنگ ہوئی لیکن تحریک انصاف کا ایک بھی وکیل احاطہ عدالت میں موجود نہیں۔ پی ٹی آئی جن کے حق میں کل سب سے بڑی گواہی آئی لیکن پی ٹی آئی کا ایک بھی وکیل عدالت میں پیش نہیں ہوا صدیق جان کا کہنا تھا کہ حامد خان نے بڑی خوبصورتی سے سارا فوکس قاضی فائز عیسیٰ سے ہٹا کر جسٹس عامر فاروق کی طرف کردیا تو حامد خان اور ان کا گروپ کو چاہیے اب جسٹس عامر فاروق کے خلاف ریفرنس لے آئیں۔ اس پر ڈاکٹر شہبازگل نے کہا کہ صدیق جان بالکل درست کہہ رہے ہیں۔ یہ ہمارا فیلیر ہے۔ ہمیں بھرپور آواز اٹھانی چاہئے تھی۔ رائے ثاقب کھرل نے تبصرہ کیا کہ پورے پاکستان کی طرح تحریک انصاف کے وکلاء کی نظریں بھی ٹی وی پر ہیں۔ اوہ بھائیو: وکلاء ونگ کہاں ہیں؟ بس ٹکٹ لینے تھے؟ بس اسمبلیز میں پہنچنا تھا۔ سید ذیشان عزیز نے پی ٹی آئی لیڈرشپ پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ سوئے ہوئے کو جگانا اور جاگے ہوئے کو جگانے میں فرق ہے - تحریک انصاف کی مثال جاگے ہوئے کو جگانے والی ہے - جان بوجھ کر عمران خان کو اندر رکھنے میں اس پارٹی کی گیدڑ شپ کا بہت بڑا ہاتھ ہے ذیشان عزیز کا مزید کہنا تھا کہ مجھے لگتا ہے حامد خان صاحب یہ ججز والا ایشو بہترین طریقے سے کھا گئے ہیں - اب ستو پی کر سو جائیں شاباش شفقت چوہدری نے ردعمل دیا کہ پی ٹی آئی قیادت گھر بیٹھ کر ٹرین مس کر رہی ہے بعد میں باپو نے کہہ بھی دیا کہ "جا سمرن جا جی لے اپنی زندگی" تب بھی ٹرین اتنی دور نکل چکی ہو گی کہ پکڑی نہیں جائیگی سلمان درانی کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی موجودہ قیادت سے کہیں زیادہ اہل جیل سے رہا ہوکر آنے والے کارکنان ہیں۔ دس دس ماہ جیل کاٹ کر آنے والے نوجوان زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کہ کپتان کو نکالنا کتنا ضروری ہے اور اسکی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے۔ انتظار پنجوتھہ نے کہا کہ فوجی آمر نے صرف ایک جج کے بال کھینچے تھے جس پر تحریک چلی تھی آج چھے ججز اور ان کی فیملیز کو ٹارچر بھی کیا گیا ہے اور مختلف دھمکیاں بھی کگائی گئی ہیں، اب اگر تحریک نہیں چلائی جاتی توپھر کبھی بھی نہیں چلائی جائے گی، حامد خان صاحب وکلا آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں قدم بڑھائیں نجیب سانڈ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت کمپرومائز ہے اب اس بات میں کوئی شک نہیں رہا قاضی فائز عیسیٰ کا دوست حامد خان اور بیرسٹر گوہر پاکستان کی سب سے بڑی قومی جماعت اور عمران خان کی 27 سالہ محنت کو تباہ کر رہے ہیں۔ کراچی والی کا کہنا تھا کہ صدیق جان کافی ٹائم سے پی ٹی آئی قیادت کی کمزوریاں ہائی لائٹس کر رہے تھے۔۔۔بار بار بتا رہے تھے کہاں وہ غلطی کر رہے۔۔۔لیکن اس کے باوجود کسی کے کان میں جوں تک نہیں رینگی۔۔۔ سب مسست ہیں اپنی مستی میں چاہے آگ لگے خان کی بستی میں منیب نے کہا کہ تحریک انصاف کے وکلا جو سپریم کورٹ کے معاملات دیکھ رہے ہیں وہ کیا سطو پی کو سو رہے تھے؟ یا آٹھ پہرہ روزہ رکھا ہوا تھا؟ افسوس صد افسوس ، لیڈر جیل میں ہے اور چند وکلا کمپرومائزڈ ہو گئے ہیں
آن لائن کاروبار ہو رہا ہے، مسئلے پر قابو پانے کے بجائے لسانیت پھیلانا زیادہ ضروری ہے: سوشل میڈیا صارف نوجوان آصف اشفاق کے دھاتی تار کی زد میں آکر جاں بحق ہونے کے بعد سے ملک بھر میں پتنگ بازی کے خلاف آپریشن جاری ہے۔ وزیر اطلاعات پنجاب و رہنما مسلم لیگ ن نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ ہمیں بتایا گیا ہے کہ پتنگیں اور ڈوریں خیبرپختونخوا سے پنجاب میں آرہی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے عظمیٰ بخاری کے اس بیان پر شدید ردعمل آیا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ صوبائیت کا زہر پھیلانے والوں کو وزیر لگا دیا ہے۔ عظمیٰ بخاری نے اپنے بیان میں کہا کہ پنجاب کی حد تک پتنگیں اور ڈوریں بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائیاں کی جا رہی ہیں لیکن ہمیں اب اطلاعات مل رہی ہیں کہ خیبرپختونخوا سے یہ دھاتی ڈور پنجاب میں آرہی ہے۔ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے مختلف اقدامات کے ساتھ ساتھ بہت بڑا کریک ڈائون کیا ہے، پتنگیں ڈوریں بیچنے، اڑانے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہو گی۔ احمد وڑائچ نے عظمی بخاری کے بیان پر شدید ردعمل دیتے ہوئے کہ: ٹک ٹاک پنڈی کے پتنگ فروشوں سے بھری پڑی ہے، آن لائن کاروبار ہو رہا ہے، پاکستان پوسٹ سے بھی پتنگیں آ جا رہی ہیں۔ پانڈا ڈور کا گڑھ فیصل آباد ہے لیکن اس سب پر قابو پانے کے بجائے لسانیت پھیلانا زیادہ ضروری ہے۔ سعادت یونس نے لکھا: کوئی انتہائی تعصب، بدتمیزی اور صوبائیت کا زہر پھیلانے والوں کو وزیر بنا دیا گیا ہے، ہر روز پختونخوں کے خلاف زہر اگلنا ہے۔ملک کے طاقتور ٹھیک دشمنی لے رہے ہیں ایسے لوگوں کو بیٹھا کر! ایک سوشل میڈیا صارف نے طنزیہ انداز میں لکھا:پتنگ میں استعمال ہونے والا کاغذ بھی کے پی کے درختوں سے آ رہا ہے! ایک اور صارف نے لکھا:اور پتنگ اڑانے کیلئے ہوا بھی کے پی کے کی طرف سے چلتی ہے! ایک اور صارف نے لکھا: آپ ٹک ٹاک کھولیں تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ پنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد وغیرہ کی بسنت کی ویڈیوز موجود ہیں، ان کو پکڑیں آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ مال کہاں سے آ رہا ہے!
ماضی میں ن۔لیگ کی حمایت میں سوشل میڈیا پر متحرک اداکارہ عفت عمر آج کل ن لیگ پر برستی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں، نجی محفل میں کیے گئے ڈانس کی ویڈیو کو شیئر کرنے پر اداکارہ ایک بار پھر مسلم لیگ ن پر برس پڑیں۔ تفصیلات کے مطابق سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر عفت عمر نے اسی ویڈیو کو شیئر کرنے والی ثنایہ بٹ نامی صارف کی پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے اتنے سالوں ن لیگ والوں کی حمایت کرنے پر شرم آرہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کیسی گھٹیا پوسٹ ہے، افسوسناک بات یہ نہیں کہ یہ لوگ مجھے یوتھیا کہہ رہے ہیں بلکہ شرمناک بات یہ ہے کہ یہ لوگ ایک نجی محفل میں کیے ڈانس کو اس عورت کا مذاق اڑانے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ خیال رہے کہ اداکارہ عفت عمر ماضی میں کھل کر ن لیگ کی حمایت کیا کرتی تھیں جس پر انہیں پی ٹی آئی فالورز کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا، عفت عمر نے حالیہ انتخابات کے بعد ن لیگ کو اپوزیشن میں بیٹھنے کا مشورہ دیتے ہوئے اسے اپنا آخری مشورہ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر ن لیگ اپوزیشن میں نہیں بیٹھی تو وہ عوام میں اپنا اعتبار کھوبیٹھے گی۔
یوم پاکستان کے موقع پر سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں سول اعزازات دینے کی تقاریب ہوئیں جس میں شوبز، سماجی، قانونی ، کاروباری، فنون لطیفہ اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو اعلیٰ سرکاری اعزازات سے نوازا گیا۔ اس موقع پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو تمغہ امتیاز سے نوازا گیا،صدر آصف زرداری نے انہیں تمغہ امتیاز دیا دعویٰ یہ کیا جارہا ہے کہ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو پولیس اصلاحات اور معاشرے کے کمزور طبقات کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے پر ہلال امتیاز عطا کیا گیا۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس موقع پر سوال کیا کہ آئی جی پنجاب کی کیا خدمات ہیں جن کی بنیاد پر انہیں تمغہ امتیاز دیا گیا؟ اگر انکی کارکردگی دیکھیں تو پنجاب میں جرائم میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، امن وامان کی صورتحال خراب ہورہی ہے جبکہ آئی جی پنجاب گزشتہ ایک سال سے تحریک انصاف کو کچلنے پر لگے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا تھا کہ کیا آئی جی پنجاب کو تمغہ امتیاز تحریک انصاف کے بے گناہ، کارکنوں کو اٹھانے، پارٹی چھوڑنے کی پریس کانفرنسز کروانے، خواتین کی بے حرمتی، ضل شاہ جیسے معصوم لوگوں کو مارنے، چادرچاردیواری کا تقدس پامال کرکے خواتین سے بدسلوکی، توڑپھوڑ اور پولیس کے قیمتی اشیاء چوری کرنے پر دیا گیا؟ زہر لیاقت نے سوال اٹھایا کہ آئی جی پنجاب کو کس کارنامے پر تمغہ مل رہا ہے؟ نادربلوچ نے سوال کیا کہ ویسے آئی جی پنجاب کی اصل خدمات کیا تھیں جس پر اسے تمغے سے نوازا گیا؟ محسن بلال نے طنز کیا کہ آئی جی پنجاب عثمان انور کو پنجاب پولیس کو کم سیاسی سے انتہائی سیاسی کرنے، چادر اور چار دیواری کے تقدس کا خیال نہ کرنے اور عمران خان کے دیوانوں تحریک انصاف کے معصوم کارکنان کو فکس کرنے کا اعزاز “ ہلال امتیاز “ دیا جاتا ہے ڈاکٹر شہبازگل نے کہا کہ انسانی حقوق کی پامالی عوام پر ظلم پر ایوارڈ کاشف حسین نے کہا کہ ماؤں بہنوں کی عزت تار تار کرنے پر چادر چار دیواری کا تقدس پامال کرنے پر ماں بہن بیٹیوں کے سر سے دوپٹے کھینچنے پر ائی جی پنجاب کو تمغہ امتیاز سے نوازا گیا وقار ملک کا کہنا تھا کہ ماؤں بہنوں کی عزتوں پہ ہاتھ ڈالنے ضل شاہ کا قتل اور پھر اس کو کور اپ کرنے چادر چار دیواری کا تقدس روندنے ظلم اور جبر میں اسرائیل کو بھی مات دینے پر آئی جی پنجاب کو تمغہ دے دیا گیا! احسان الحق نے کہا کہ آئی جی پنجاب کو اس بنیاد پر تمغہ دیا گیا. ظل شاہ سمیت درجنوں تحریک انصاف کے کارکنان کو شہید کرنے، خواتین کو برہنہ کرنے، سڑکوں پر گھسیٹنے، شہریوں کے گھروں میں غنڈوں کی طرح داخل ہونے، تلاشی کے نام پر گھروں سے قیمتی سامان چوری کرنے اور دوران قید یا پولیس ریڈ مبینہ طور پر خواتین پر جنسی اور جسمانی تشدد کرنے کے اعتراف میں تمغہ دیا گیا.