سوشل میڈیا کی خبریں

جیو پر تابش ہاشمی کے شو "ہنسنا منع ہے" کا ایک کلپ سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہورہا ہے جس پر ن لیگی سپورٹرز شدید غم وغصے میں ہیں اور تابش ہاشمی کو چینل سے فارغ کرنے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کررہےہیں۔ اس شو میں تابش ہاشمی نے دو مہمانوں کو بٹھایا ہوا ہے اور انکی آنکھوں پرپٹی بندھی ہوئی ہے اور سامنے شہبازشریف کی تصویر ظاہر کرکے پوچھتے ہیں کہ یہ کون ہے؟ اس پر مہمان کبھی چیز، کبھی جانور کہتے ہیں، کبھی کہتے ہیں یہ کھانیوالی چیز ہے ۔ تابش ہاشمی کہتے ہیں کہ وہ کھانے کے شوقین بھی ہیں جس پر مہمان اندازے لگاتے لگاتے یہ تک کہتے ہیں کھاتے تو جانور بھی ہیں۔ تابش ہاشمی کہتے ہیں کہ وہ جانور نہیں انسان ہیں وہ کھاتےہیں۔ اس پر مہمان کہتے ہیں کہ کھانے کے شوقین پھر نوازشریف ہونگے جس پر تابش ہاشمی کہتے ہیں کہ ہر کھانیوالی چیز نوازشریف نہیں جس پر مہمان کہتے ہیں کہ پھر شہبازشریف ہونگے۔ اس کلپ کے وائرل ہونے پر ن لیگ سپورٹرز غصے میں آگئے اور عطاء تارڑ، مریم اورنگزیب سے تابش ہاشمی کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ تابش ہاشمی کوچینل سے نکالا جائے ورنہ ہم جیو نہیں دیکھیں گے، کبھی نے تو تابش ہاشمی پر لعنت تک بھیج دی اور اسے پی ٹی آئی سپورٹر قرار دیا۔ عامر قریشی نے ردعمل دیا کہ تابش ہاشمی کے پروگرام "ہنسنا منع ہے" کا وہ ایپیسوڈ دیکھنے کے بعد جس میں اس نے وزیراعظم پاکستان اور میاں نواز شریف صاحب کی توہین کی, میں جیو اور انکا کوئی بھی دوسرا ٹی وی چینل نہ دیکھنے کا اسوقت تک عہد کرتا ہوں جب تک اس کو چینل سے نکالا نہیں جاتا- ساتھ ہی جیو کے مالکان, پروگرامز ڈائریکٹر اور اس شو کے پروڈیوسر سمیت اس پروڈکشن میں شامل ہر فرد پر بیشمار لعنت بھیجتا ہوں ایک لیگی سپورٹر نے کہا کہ تابش ہاشمی جیسا تھرڈ کلاس مراثی بھی 25 کروڑ عوام کے وزیراعظم کی ٹرولنگ کر رہا ہے اگر اس نے آرمی چیف کی ٹرولنگ کی ہوتی تو اسکو ایجنسیوں نے پکڑ لینا تھا اور اگر چیف جسٹس کی توہین کی ہوتی تو اس پر توہین عدالت لگ جانی تھی طارق مسعود بٹ نے ردعمل دیا کہ جیو پر تابش ہاشمی نامی لونڈے کے پروگرام میں کبھی بے حیائی کو فروغ دیا جاتا ہے، تو کبھی بدتہذیبی کو، حالیہ پروگرام میں شہباز شریف اور نواز شریف کی ذلت آمیز کردار کشی کی گئی ہے، جس کا سہرا بلاشبہ عطاء تارڑ، مریم اورنگزیب، جیو کو باندھنا چاہئے، جو اس کے مکمل ذمہ دار ہیں ثمینہ قاسم نے کہا کہ تابش ہاشمی نےاپنےپروگرام "ہنسنامنع ہے”میں وزیراعظم شہبازشریف اورنوازشریف صاحب کی توہین کی ہے۔یہ شخص پکایوتھیاہے۔ہمیں اپنےرہنماؤں کی بےعزتی کسی طوربرداشت نہیں۔میں عطا اللہ تارڑصاحب اورجیونیوزکے مالکان سےگزارش کرتی ہوں کہ اس پروگرام کوفوری طورپر بین کیاجاۓاورتابش کےخلاف ہتک عزت کامقدمہ کیاجاۓ۔ محسن کمال نے کہا کہ تابش ہاشمی کے خلاف قانونی کارروائی کرنے چائے اگر ایسا نہں ہوا تو ہم پارٹی کے خلاف سخت ردعمل اپنائیں گے کیوں تابش جیسے دوٹکے آدمی نے میری قائدین کے توہین کی ہے جس پر اس معافی مانگتے چائے اگر ایسا نہں ہوا تو پھر ہم اپنا راستہ اختیار کریں گے
پاکستان تحریک انصاف کے بانی چئیرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان اب بھی عوام میں مقبول ہیں, ایک سال سے عرصے سے جیل میں رہنے کے باجود ان کے سوشل میڈیا حامیوں میں کوئی کمی نہیں, پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ہونے والے تیسرے اور آخری ٹیسٹ میچ میں ایک غیر ملکی سیاح نے ایکس پر پیغام میں عمران خان سے محبت کا اظہار کیا۔ سیاح کا کہنا تھا کہ انہوں نے پاکستان اور انگلینڈ کا میچ دیکھنے کے لیے عمران خان انکلوژر کا ٹکٹ مانگا جس کے جواب میں ٹکٹ آفس نے انہیں کہا کہ سارے ٹکٹ بک چکے ہیں جبکہ انہوں نے عمران خان انکلوژر میں اپنی چند تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں جس میں انکلوژر کو بالکل خالی دیکھا جا سکتا ہے۔ سیاح نے تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کی تو پی ٹی آئی کے حامی صارفین عمران خان کے حق میں سامنے آ گئے ان کا کہنا تھا کہ عمران خان انکلوژر کو اس لیے سولڈ آؤٹ قرار دیا گیا تاکہ لوگ وہاں بیٹھ کر میچ نہ دیکھ سکیں۔ پی ٹی آئی کے آفیشل ایکس ہینڈل نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے صحیح کہا تھا کہ یہ لوگ جب عمران خان کا نام سنتے ہیں تو ان کی ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ انہوں نے غیر ملکی سیاح کی ٹوئٹس شیئر کرتے ہوئے کہا پاکستان اور انگلینڈ کے میچ کے دوران حکومت نے عمران خان انکلوژر کو ’سولڈ آؤٹ‘ قرار دے دیا تاکہ لوگ وہاں بیٹھ کر میچ نہ دیکھ سکیں۔ تاہم ایک غیر ملکی سیاح نے اس جھوٹ کا پردہ فاش کر دیا۔ احمد فرہاد کہتے ہیں کہ غیرملکیوں سے جھوٹ بولا گیا کہ عمران خان انکلوژر کے سارے ٹکٹس فروخت ہوچکے ہیں تا کہ کوئی عمران خان انکلوژر میں نہ بیٹھ جائےلیکن غیر ملکی سیاح بھی ٹکٹ لے کر ہی ٹلے۔ ایک صارف نے لکھا عمران خان انکلوژر کے ٹکٹ جان بوجھ کر فروخت ہی نہیں کیے گئے,بغض عمران خان میں یہ سسٹم اور کتنا گرے گا؟ تابندہ نامی صارف نے لکھا کہ ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ یہ لوگ ڈر گئے ہیں۔ راولپنڈی کرکٹ اسٹیڈیم میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان 3 ٹیسٹ میچز کی سیریز کے آخری اور فیصلہ کن میچ کے دوسرے دن کا کھیل جاری ہے۔ میچ کے پہلے دن انگلینڈ کے پہلی اننگز میں 267 رنز کے جواب میں پاکستان کی بیٹنگ جاری ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے الوداعی ریفرنس کی تقریب کے بعد بنیادی انسانی حقوق کی یادگار کا افتتاح کیا جس کی تعمیر پچھلے ایک سال سے جاری تھی اور اب آخری مراحل میں ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی یادگار میں مختلف بلاکس میں مختلف عبارتیں اور شعر درج ہیں جیسے کہ اجتماع کا حق، بلاتفریق عوامی مقامات تک رسائی، ملکیت کا حق، تجارت کی آزادی جینے کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی اور غیرقانونی حراست کی ممانعت جیسے الفاظ درج ہیں۔ الوداعی ریفرنس کی تقریب ختم ہونے کے بعد وکلاء نے ان سے ملاقات کی اور بعدازاں قاضی فائز عیسیٰ کے انسانی حقوق کی یادگار کا افتتاح کرنے کے موقع پر کچھ صحافیوں نے ان سے سوالات کیے وہ کوئی جواب دیئے بغیر چلے گئے۔ قاضی فائز عیسیٰ کا دور ختم ہو گیا ہے تاہم انسانی حقوق کی یادگار کا افتتاح کرنے کے بعد ان پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کی یادگار کا افتتاح کرنے کے موقع پر سینئر صحافی مطیع اللہ جان اور اسد طور نے بھی قاضی فائز عیسیٰ سے سوالات پوچھے جن کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ احمد وڑائچ نے ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا: 6ججز کا خط بھی انسانی حقوق کے مقبرے میں دفن ہے، اسد طور کا قاضی فائز عیسیٰ سے سوال! صحافی بینظیر شاہ نے لکھا: میرے نزدیک جسٹس فائز عیسی کا دور بطور چیف جسٹس ان کی اہم معاملات میں خاموشی کے لیے یاد رکھا جائے گا! شہریوں کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل، چھ ججز کے خط کا معاملہ اور آئینی ترمیم پر ان کا رد عمل! ان کے دور میں کیے گئے فیصلوں اور الفاظ سے زیادہ ان کی خاموشی تاریخ میں شاید یاد رکھی جائے گی۔ صحافی ماجد نظامی نے لکھا: اگرچہ ثاقب نثار اور فائز عیسیٰ کے خیالات اور شخصیات میں کئی متضاد باتیں ہیں تاہم قدر مشترک یہ رہی کہ بطور چیف جسٹس دونوں نے اپنے اپنے دور کے حاضر سروس صاحبانِ شجاعت کی خواہشات کے عین مطابق اہم فیصلے دئیے! اپنے اپنے دور میں سٹیبلشمنٹ کی "ناپسندیدہ" سیاسی جماعتوں کے پر کاٹنے کے لیے اپنی عدالتی خدمات پیش کیں! مزمل اسلم نے لکھا: قاضی صاحب کا اختتام بطور قاضی ہر صاحب اقتدار اور سرکاری ملازم کیلئے نہایت سبق آموز ہے اور وہ کیا ہے؟ (1)کرسی عارضی ہے (2)اقتدار ایک امانت ہے نا کہ اپنی زاتی ملکیت (3)عزت اور زلت اللہ کے بعد عوام فیصلہ کرتی ہے۔ (4)اخلاق اور عاجزی ایک بہترین اثاثہ ہے۔ (آخری)ایک فیصلہ آپ کا ہے اور ایک اللہ کا! اظہر مشوانی نے لکھا: آج جسٹس یحییٰ آفریدی نے قاضی کو “غصیلے ریچھ” سے تشبیہ دی! کاش یہ غصیلہ ریچھ سپریم کورٹ میں لا کر عوام کی امیدوں کی چیر پھاڑ کرنے کی بجائے محلوں میں کتوں سے لڑائی کے لیے ہی رکھا جاتا! بابر اعوان نے لکھا: وہ چیف جسٹس سے زیادہ کوتوال تھا! سائلین کے منہ پڑتا، معزز وکلاء سے مسلسل بدتمیزی کرتا، آزاد صحافیوں سے چھپتا پھرتا، بنچ پر بیٹھ کر بے تکی سیاسی تقریریں کرتا، عمران خان فوبیا میں جلتا رہا، اس طرزِ چیف جسٹسی نے آئین کو دفنایا! شہید صحافی ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے لکھا: آج دو سہولت کار گمنامی میں چلے گئے لیکن عوام اور ڈونٹس ان کی زندگیاں پررونق رکھیں گے! صدیق جان نے لکھا: قاضی تھا۔۔۔عمران ہے! سینئر صحافی مطیع اللہ جان نے لکھا: چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے الوداعی عدالتی ریفرنس میں پانچ ججز کی عدم شرکت جانے اور آنے والے قاضیوں اور دیگر ججوں کے لیے سبق آموز ہونا چاہئے۔ جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس ملک شہزاد احمد آج کے فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔ انہوں نے لکھا: یہ وہ قاضی فائز عیسیٰ ہیں جو عہدہ سنبھالتے ہی فل کورٹ بلا کر سپریم کورٹ کے ججوں میں یکجہتی بحال کرنے کا دعویٰ کرتے تھے اور آج اپنے آخری الوداعی ریفرنس میں سپریم کورٹ کی یکجہتی ہی نہیں ملک اور قوم کو بھی سیاسی انتشار کا شکار کر کے جا رہے ہیں۔ صحافی اجمل جامی نے لکھا: انہیں ویسے "بنیادی حقوق یادگار" کا افتتاح زیب دیتا تھا؟ کچھ اور کر لیتے بھلا۔۔ کچھ تو ذہن میں ندامت ہوئی ہوگی، کچھ تو لجاجت محسوس ہوئی ہوگی، بنیادی حقوق اور میں؟ کچھ تو۔۔! رتی برابر بھی نہیں۔۔؟! واقعی۔۔؟ یعنی حد ہے۔۔!
صحافی اے وحید مراد نے دعویٰ کیا ہے کہ صحافی عمرچیمہ نے اپنا یوٹیوب چینل "ٹاک شاک" بیچ دیا ہے اور ان پیسوں سے اسلام آباد کلب کی ممبر شپ لے لی ہے۔ جسٹس یحیٰی آفریدی کی بطور چیف جسٹس سپریم کورٹ تعیناتی پر عمرچیمہ نے کہا کہ جسٹس یحییٰ آفریدی کا چیف جسٹس بننا بہترین فیصلہ ہے اور عدالتی یوٹیوبرز کی آمدن میں کمی متوقع ہے اس پر صحافی اے وحید مراد نے طنز کیا کہ یوٹیوب چینل بیچ کر اسلام آباد کلب کی ممبرشپ لینے والے سے بہتر یہ بات کون جان سکتا ہے عمرچیمہ کے دفاع میں صحافی عمران وسیم بھی میدان میں آگئے اور کہا کہ عمر چیمہ نے اپنا یوٹیوب بیچا ہے اس کو فروخت کرکے وہ ممبر شپ لے یا پیسہ لٹا دے اسکی مرضی یاد رہے کہ عمر چیمہ اور اعزاز سید نے مل کر ایک یوٹیوب چینل ٹاک شاک کے نام سے شروع کیا تھا جس پر دونوں۔ مل کر پروگرام کیا کرتے تھے ۔۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد اس پر دونوں کی ویڈیو انا بند ہو گئیں اور اور کچھ عرصے کے بعد اعزاز سید نے اکیلے ہی اس پر انٹرویو کرنے شروع کیے ۔ ذرائع نے مطابق عمر چیمہ نے تن تنہا ہی اس چینل کو جیو ڈیجیٹل کو فروخت کر دیا ۔اور اپنے ساتھی اعزاز سید کیساتھ دھوکا کیا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ سلیم صافی اور ٹاک شاک شو اب جیو کنٹرول کررہا ہے اور انکا سیٹ بھی جیو پر ہی لگا ہوا ہے ۔۔اسکے علاوہ عورت کارڈ بھی جیو ڈیجیٹل جی ہی پروڈکشن تھی یادرہے کہ عورت کارڈ نامی یوٹیوب چینل بے نظیرشاہ اور ریما عمر چلاتی ہیں۔
گزشتہ روز بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ 2 کیس میں ضمانت ہوگئی جس کے بعد بشریٰ بی بی رہا ہوگئیں اور رہائی پانے کے بعد پشاور پہنچ گئی ہیں۔ اس ضمن میں صابر شاکر نے سلمان اکرم راجہ کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں وہ کہہ رہے ہیں کہ یہ کیس کچھ بھی نہیں تھا، یہ بالکل واضح ہے جو بھی اس کیس سے متعلق جانتا ہے اسے پتہ ہے کہ اس کیس میں کچھ نہیں ہے۔ صحافی کے سوال کہ پی ٹی آئی مرکزی لیڈرشپ کیوں نہیں آئی ،سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ بشری بی بی کو حکومت نے جلدی جلدی رہا کیا تاکہ عوام جمع نہ ہوسکیں سلمان اکرم راجہ کی اس ویڈیو پر فوادچوہدری سامنے آگئے اور فوادچوہدری پر طنزیہ وار کرتے ہوئے کہا کہ ورنہ راجہ صاحب کی کال پر دس لاکھ لوگ جمع ہو گئے تھے! کیا لوگ ہیں بغیر ضرورت کے جھوٹ؟ سوشل میڈیا صارفین اور صحافیوں نے فوادچوہدری کی اس تنقید کو بلاجواز قرار دیا اور کہا کہ آپ کی اس قسم کی باتیں آپکو تحریک انصاف سے دور لیکر جارہی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ مشکل وقت میں آپ پارٹی کو چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور اب جو پی ٹی آئی میں رہ گئے ہیں انہیں تنقید کا ہدف بنارہےہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ آپ کی یہ تنقید حسد سے بھرپور ہے،آپ باقی رہی سہی عزت بھی گنوارہے ہیں۔ ثمینہ پاشا نے فوادچوہدری کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ چوہدری صاحب سلمان اکرم راجہ کوئی روایتی سیاستدان تو ہیں نہیں جو ان کا کوئی ذاتی ووٹ بینک یا کارکن ہوں۔ان کا قد اس لئے بڑا ہے کہ وہ آئین و قانون کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ باقی ووٹ سپورٹ تو پی ٹی آئی کے کسی لیڈر کی اس وقت اپنی نہیں سب خان کی ہے۔ راجہ صاحب کو ایک لاکھ سے زائد ووٹ پڑا۔ رضوان نے تبصرہ کیا کہ چودھری جی اب ہر کوئی آپ جیسا موقع پرست نہیں ہوتا کہ وکالت سے بھی اور سیاست سے بھی دونوں ہاتھوں سے کمائے۔پہلے آپ پیپلز پارٹی کو سہارا دیتے رہے پھر ایک آمر کے حق میں نعرہ مرتے رہے پھر پی ٹی آئی میں آ کر دوبارہ جمہوری هو گئے۔چودھری جی جان دیو ہن۔۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ اب چوہدری فواد کے ذمہ لگایا گیا ہے کہ سلمان اکرم راجہ کے خلاف اکسائیں اور ان کے خلاف باتیں کریں وقاص اعوان نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ راجہ صاحب پر بلا جواز تنقید بالکل ناجائز ہے ۔ سلمان اکرم راجہ جیسے لوگوں کا اس ماحول میں پاکستانی سیاست مین انا کسی تازہ ہوا کے جھونکے سے کم نہیں راشد عباسی نے فوادچوہدری کو جواب دیا کہ چودھری صاحب جب آپ بھاگے تھے تب بہت سے لوگوں کہ دل ٹو ٹ گے تھے ورکر کمزور پڑ گے تھے پھر ان ہی لوگوں نے حوصلہ دیا آپ کا پی ٹی آئی سے کو تعلق نہیں اب کی ہر ٹویٹ ہر تنقید عسکری یا ن لیگی تنقید سمجھی جاتی ھے سو پلیز ہمیں سب پتہ ھے دور رہو آپ ایک صارف نے کہا کہ چوہدری صاحب آپکی یہی چول چلا کیاں آپکو پی ٹی آئی سے دور لے گئی ہیں میڈی کا کہنا تھا کہ فواد چودھری سیکرٹری جنرل بن کر تحریک انصاف میں واپسی چاہتے تھے ۔سلمان اکرم راجہ صاحب کو بنادیا گیا۔راجہ صاحب قابل آدمی ہیں منہ پھٹ نہیں ہیں۔زیادہ تر سوچ سمجھ کر چلتے ہیں۔ اب چودھری صاحب ساڑ نکالتے رہتے ہیں ان کی ان حرکات پر مثال وہی ہے کہاں راجہ بھوج کہاں گنگو تیلی عبید بھٹی کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری صاحب کے سلمان اکرم راجہ صاحب پر آئے روز طنز کے نشتر اور بھونڈی تنقید آسمان پر تھوکنے کے مصداق ہے۔ چوہدری صاحب کو شاید خوف ہے کہ سلمان اکرم راجہ جیسا اصول پسند، اینٹی اسٹیبلشمنٹ، آئین قانون جاننے والے شخص کے ہوتے فواد چوہدری کی اہمیت اور جگہ کبھی نہیں بن پائیگی یادرہے کہ سلمان اکرم راجہ عدت کیس میں بشریٰ بی بی کے وکیل تھے اور انہوں نے بشریٰ بی بی کے خلاف مقدمہ ختم کرواکر رہائی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
عمامہ کے بجائے ٹوپی پہننے پر استاد نے شاگرد کے ساتھ ناروا سلوک کی انتہا کردی,نہ صرف توہین آمیز گفتگو کی بلکہ سزا بھی دلوائی اور بھری محفل میں توہین رسول کا فتوی بھی دے دیا, ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو ایکس صارفین نے خوب آڑے ہاتھوں لیا. ایک صارف نے لکھا مذہب جب ہدایت کے بجائے بیماری بن کر روح میں اتر جائے تو ایسے دو نمبر ملّا وبائیں بن کر معاشرے کو برباد کرنے لگتے ہیں,یہ شخص اپنے شاگرد پر توہین رسول کا فتویٰ تک اس لئے دے رہا ہے کہ اس نے عمامے کے بجائے ٹوپی پہن رکھی ہے,اس مذہبی بیمار بے غیر ت سے کوئی پوچھے کے عمامہ کب سے مذہبی تعلیم کے حصول کے ساتھ لازم و ملزوم ہو گیا ہے؟؟؟ مونا سکندر نے لکھا پھر تو بنا داڑھی والے مسلمان ہی نہ رہے ان کے نزدیک,ان ہی مدارس سے گستاخی کے فتوے نکلتے ہیں پھر,لیکن یہ ہر مدرسے میں نہیں ہوتا,اسلام تو رواداری کا مذہب ہے شرمینا ہاشمی نے لکھا ذہنی طور پر بیمار لوگ ہیں یہ. کوئی ایسا نظام نافذ کیا جائے، کہ ان جیسے جاہل مولوی صاحبان سے پاکستان کی جان چھوٹ جائے, یہ اسلام دوست نہیں اسلام کے دشمن ہیں خدارا اپنے بچوں کو ان ظالموں کے ہاتھ نہ دیں. ‏‎ایسے بیمار ذہن والوں کے پاس اپنے بچوں کو تعلیم دینے سے بہتر ہے گھر پہ خود پڑھا لو اعوان نے لکھا انکا طرزِ عمل بلکل بھی درست نہیں، مگر آپ کے سوال و جواب، حضور پرنور نبی کریم رؤف الرحیم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم عموماً عمامہ ہی پہنتے تھے اور کبھی ننگے سر مبارک بھی رہے زلفیں ہمیشہ رکھیں جو کہ ان مولانا صاحب کی بھی نہیں.
چیف جسٹس نے بھی مخصوص نشستوں کے کیس میں اختلافی نوٹ جاری کردیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اختلافی نوٹ 14 صفحات پر مشتمل ہے۔ چیف جسٹس کا اختلافی نوٹ میں کہنا ہے کہ اکثریتی فیصلہ بنیادی اصولوں کے مطابق نہیں تھا۔فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی کارروائی بھی نہیں ہو سکتی آٹھ ججز کا 12 جولائی کا مختصر اور 23 ستمبر کا تفصیلی فیصلہ غلطیوں سے بھرپور ہے آٹھ اکثریتی ججز کی 14 ستمبر اور 18 اکتوبر کی وضاحتوں میں بھی آئینی غلطیاں ہیں آٹھ ججز نے اپنی الگ ورچوئل عدالت قائم کی پاکستان کا آئین تحریری ہے اور اس کی زبان آسانی سے سمجھنے والی ہے،یہ آئین صدیوں پرانا نہیں،آئین میں ایسے قدیم الفاظ نہیں جن کے معنی نکالنے کی ضرورت ہو،عوام نہیں چاہتےانہیں یہ بتایا جائے کہ انہیں کس طرح حکومت کرنی ہے۔ ہمیں وہی کرنا چاہیے جو ہمارے آئین میں کہا گیا ہے،ہمارے آئین کی قابل اطلاق دفعات واضح اور خود وضاحت کرنے والی ہیں،آئین میں معنی تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے جو موجود نہیں۔ وحید مراد نے ردعمل دیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جاتے جاتے بھی 14 صفحات سیاہ کر دیے۔ مخصوص نشستوں کے فیصلے میں اختلافی نوٹ احمد وڑئچ نے تبصرہ کیا کہ اختلافی نوٹ کم اور طعنے زیادہ ہیں، میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا، اتنا بڑا خود پرست بندہ زندگی میں نہیں دیکھا۔ نرگسیت کا مارا نفیساتی عارضے میں مبتلا بغض سے بھرا ایک گھٹیا ذہن سعید بلوچ نے لکھا کہ قاضی صاحب کے اختلافی نوٹ میں توسیع دھاڑیں مار مار کے رو رہی ہے طارق متین نے طنز کیا کہ او جا یار معاف کر جاتے جاتے بھی روئے جا رہا ہے اتنا گند پھیلا چکا اب مزید کیا کرنا ہے عمیر نے طنز کیا کہ ساری دنیا پتل دی بے بی ڈول میں سونے دی جمیل فاروقی نے کہا کہ لگ رہا ہے کہ وہ جاتے جاتے بھی "ڈونٹ" کھانے کا ارادہ رکھتا ہے ثاقب کھرل کا کہنا تھا کہ آٹھ جج غلط میں اکیلا ٹھیک ہوں۔ بشارت راجہ نے تبصرہ کیا کہ قاضی کے اس اختلافی نوٹ پر پکوڑے رکھ کر کھائے جائیں گے مگر اچھا ہوا موصوف نے جاتے جاتے یہ دکھایا کہ آئین اور جمہوریت کا جعلی لبادہ اوڑھ رکھا تھا ثاقب بشیر نے تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ حیران کن طور تین دن بعد ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں 13 میں سے ایک جج کی حیثیت سے نئی کہانی اپنے دو ججز کے اقلیتی تفصیلی فیصلے میں اپنے اضافی نوٹ کی شکل میں لکھی ہے " ۔ انہوں نے مزید کہا کہ مخصوص نشستوں کے کیس میں اپیلوں کا حتمی فیصلہ ہوا ہی نہیں اکثریتی ججز نے وضاحت کی درخواستوں کی گنجائش باقی رکھی کیس کا چونکہ حتمی فیصلہ ہی نہیں ہوا ،اس پر عملدرآمد "بائنڈنگ" نہیں فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے پر توہین عدالت کی کارروائی بھی نہیں ہو سکتی آٹھ ججز کا 12 جولائی کا مختصر اور 23 ستمبر کا تفصیلی فیصلہ غلطیوں سے بھرپور ہے آٹھ اکثریتی ججز کی 14 ستمبر اور 18 اکتوبر کی وضاحتوں میں بھی آئینی غلطیاں ہیں آٹھ ججز نے اپنی الگ ورچوئل عدالت قائم کی " ناصر کیانی نے لکھا کہ ایکسٹینشن نہ ملنے کا اتنا غصہ؟ وسیم ملک نے کہا کہ کوڑے دان سے جب بھی نکلا، گند ہی نکلا سحرش منیر نے تبصرہ کیا کہ ہ پیرا نمبر 7 پڑھ کرکوئی عقل سے پیدل آدمی بھی جان جائے گا کہ جسٹس امین الدین اور جسٹس نعیم اختر افغان کے اختلافی نوٹ کےلکھاری قاضی صاحب خود تھے۔ کیونکہ اُن دونوں کے نوٹ میں الیکشن کمیشن کو آئین شکنی اور اکثریتی فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کی وہی نصیحت تھی جو آجکے نوٹ میں ہے قمبر زیدی نے تبصرہ کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے اختلافی نوٹ میں کمال کر دیا ہے کہتے ہیں کہ مخصوص نشستوں کا فیصلہ حتمی طور پر ہوا ہی نہیں ہے ۔ لہزا اس پر عملدرآمد کرنا ضروری نہیں اور نہ ہی توہین عدالت کی کاروائی اس پر ہو سکتی ہے ۔ پہلی دفعہ کسی چیف جسٹس نے اپنی ہی فل کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد نہ کروانے کی نہ صرف ترغیب دی ہے بلکہ توہین عدالت سے بھی الیکشن کمیشن کو بچانے کی بھرپور کوشیش کی
عمران خان ، انکی اہلیہ اور دونوں بہنیں جیل کے اندر ہیں جبکہ جیل سے باہر عمران خان کی بہن نورین نیازی عمران خان سے ملاقات کی کوشش کررہی ہیں جن کا اپنا بیٹا حسان نیازی آج کل فوج کی تحویل میں ہے۔ عمران خان کی بہن نورین نیازی کی تصویر سوشل میڈیا پر بہت وائرل ہورہی ہے جس میں وہ اکیلی کھڑی ہیں اور کہہ رہی ہیں کہ آج ہماری عمران خان سے ملاقات کا دن طے تھا، ہم اس وقت اڈیالہ جیل کے باہر اپنے بھائی عمران خان سے ملاقات کے انتظار میں کھڑے ہیں لیکن جیل انتظامیہ نے ملاقات کروانے سے انکار کر دیا ہے۔ نورین نیازی کو اکیلا دیکھ کر پی ٹی آئی سپورٹرز اور سوشل میڈیا صارفین پی ٹی آئی لیڈرشپ پر برس پڑے۔انکا کہنا تھا کہ عمران خان کے نام پر ووٹ لینے والوں، ایم این اے، ایم پی اے ، وزارت اعلیٰ، وزاتیں لینے والوں نے اسکی بہن کو ہی تنہا چھوڑ دیا ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے مخصوص نشستوں کی امیدوار خواتین کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا جو مخصوص نشستوں کے کیس میں ہر پیشی پر بڑے مجمعے کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتی تھیں۔ سحر مان نے 2تصاویر شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ اوپر والی تصویر میں عمران خان کی بہن تن تنہا جیل کے باہر کھڑی بھائی سے ملاقات کا مطالبہ کر رہی ہے۔ دوسری تصویر میں عمران خان کی جماعت کی مخصوص نشستوں کی طلب گار عورتیں ہیں جو نشست کے لالچ میں گلے پھاڑ پھاڑ کر عمران خان سے وفاداری کے نعرے لگا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ خواتین مخصوص نشستوں کے لیے سپریم کورٹ بھی جاتیں اور پارٹی دفتر بھی۔ لیکن آج جب وفاداری ثابت کرنے کا وقت آیا تو گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غائب ہیں۔ عمران خان نے ایسی قوم کے لیے اپنی لگا دی ۔؟ کامران نے ردعمل دیا کہ جس قیدی کی وجہ سے ایک صوبے میں حکومت جب کے 90 ایم این ایز ہیں اس قیدی کی بہن جیل کے باہر اکیلی کھڑی ہے، افسوس ہو رہا ہے۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ یہ تصویر ان مخصوص نشستوں والیوں کے لیے طمانچہ ہے جو اپنے لیے تو نکل سکتی لیکن اپنے لیڈر کے لیے ان کی بہن کے ساتھ نہیں نکل سکتی عالیہ نامی سوشل میڈیا صارف نے ٹوٹے دل کا ایموجی شئیر کرکے اپنے جذبات کا اظہار کیا امجد خان نے بھی ٹوٹے دل کا ایموجی شئیر کرکےکہا کہ آخر میں بہنیں ہی کام آتی ہیں نوشی گیالنی نے ردعمل دیا کہ کیا دھرتی سے محبت کا یہی صِلہ ہے ۔۔ خان صاحب کی بہن اڈیالہ جیل کے باہر تنہا کھڑی ہیں فیاض شاہ نے تبصرہ کیا کہ عمران خان کی بہن اکیلے جیل کے باہر اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے دھکے کھا رہی ہے۔ کسی پی ٹی آئی سینیٹر، کسی ایم این اے یا کسی ایم پی اے کو ساتھ جانے کی توفیق نہیں ہوئی؟ ان سے صرف دھواں دھار تقریریں کروا لو علی بٹ نے ردعمل دیا کہ عمران خان کی بہن اکیلی بھائی سے ملاقات کیلئے ماری ماری پھیر رہی!!کہاں ہیں وہ غیرتمند سینکڑوں جان کی قربانی دینے والے ایم این اے اور ایم پی اے اور وکلاء کی فوج؟ زبیر علی خان کا کہنا تھا کہ شوکت خانم ٹھیک کہتی تھیں میرا بیٹا بہت سادہ ہے ہر کسی پر اعتبار کر لیتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کے نام پر وزیر بن گئے، ایم این ایز سینیٹرز بن گئے لیکن ان کی بہن اکیلی اڈیالہ کے باہر کھڑی ہے ایک سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ کہاں ہیں وہ مخصوص نشستوں والی خواتین، جہاں پہنچنے کی ضرورت ہوتی ہے، وہاں پہنچتی نہیں۔ سب یاد رکھا جائے گا!آج خان سے ملاقات کا دن طے تھا، نورین آپا اس وقت اڈیالہ جیل کے باہر ملاقات کے انتظار میں اکیلی کھڑی ہیں لیکن جیل انتظامیہ نے ملاقات کروانے سے انکار کر دیا ہے جمی ورک کا کہنا تھا کہ عمران خان کی بہن اڈیالہ جیل کے باہر اکیلی کھڑی ہے۔ تحریک انصاف کی ویمن ونگ کی عہدیداران، مخصوص نشستوں کی طلبگار بیگمات آپ کو کہیں نظر آئیں؟ فیصل خان نے کہا کہ اس وقت سب اپنے کمفرٹ زون میں بیٹھے ہیں لیکن خان صاحب کی بہن نورین خان اکیلی اڈیالہ جیل کے سامنے کھڑی بھائی کے ساتھ ملنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن ملنے نہیں دیا گیا حماد نے تبصرہ کیا کہ وہ جس کے بھائی کے نام پر صوبوں کی حکومتیں چل رہی ہیں۔سینٹ اور قومی اسمبلیوں میں پروٹوکول مل رہے ہیں ۔اس بھائی کی بہن اکیلی اڈیالہ جیل کے باہر کھڑی ہے سیمی راجہ کا کہنا تھا کہ لعنت کا مقام ہے ہم سب کے لیے کہ آج خان کی بہن تنہا کھڑی ہے صبا نے کہا کہ خان کی بہن اڈیالہ کے باہر اکیلی کھڑی رہیں ۔کوئی نہیں پہنچا کہ کم ازکم ہم نورین آپا کو اکیلا نہ چھوڑیں بابا کوڈ نے تفصیلی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ عربی کہاوت ہے کہ اگر یوسف کی بہن ہوتی تو کبھی اپنے بھائی کو کنویں میں نہ چھوڑ کر جاتی - انہوں نے مزید کہا کہ عمران خان کی دو بہنوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے، تیسری بہن آج اکیلی ہی اڈیالہ جیل کے باہر کھڑی نظر آئی۔جب مخصوص نشستوں کا فیصلہ آیا اور لگا کہ تحریک انصاف کو اچھی خاصی تعداد میں یہ نشستیں ملنے جارہی ہیں تو ہر طرف سے عورتیں ایسے سامنے آئیں جیسے آندھی میں گندے شاپر آجاتے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ آج عمران خان کے حق میں سڑکوں پر واحد اس کی بہن ہی کھڑی ہے، باقی آپ دعوے جتنے مرضی کرلیں، گلے کی نسیں پھلا کر جتنے مرضی نعرے بلند کرلیں، آپ سب لوگ عمران خان کو بھلا چکے ہیں۔اب آپ صرف جیل سے اس کی لاش دیکھنا چاہتے ہیں تاکہ اس پر روتے ہوئے، بین کرتے ہوئے آپ کی ٹک ٹاک بن سکے، جسے دکھا کر آپ اپنا حلقہ پکا کرسکیں۔ باباکوڈا نے مزید کہا کہ یاد رکھیں، عمران خان کے بعد صرف قیامت ہے۔ بھول جائیں کہ لوگ آپ میں سے کسی کو کونسلر تک کا الیکشن بھی جیتنے دیں گے!!!
تحریک انصاف کے ووٹوں سے جیتنے والے ایم این اے عادل بازئی جنہیں زبردستی مسلم لیگ ن کا رکن اسمبلی ڈیکلئیر کیا گیا تھا، نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دینے سے انکار کیا تو اسکا گھر ، کاروبار تباہ کردیا گیا، پلازے گرادئیے گئے مگر وہ ڈٹا رہا۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ عادل بازئی کی اسمبلی رکنیت بھی ختم کرانے کی کوشش ہورہی ہے اور اسپیکر قومی اسمبلی نے الیکشن کمیشن کو خط لکھ دیا ہے۔ عادل بازئی کی بہادری اور ڈٹے رہنے کی تحریک انصاف کے رہنماؤں کے علاوہ سوشل میڈیاصارفین اور صحافی بھی کررہے ہیں اور انکا کہنا ہے کہ ایک طرف زین قریشی اور مبارک زیب خان ہے اور دوسری طرف عادل بازئی جس نے سب کچھ تباہ کروالیا مگر ڈٹا رہا۔ قاسم سوری نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب نیت صاف، حوصلے بلند، اپنے لیڈر پر اعتماد اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین کامل ہو تو پھر دنیا کی کوئی طاقت، کوئی فسطائیت، کوئی لالچ آپ کو نہیں خرید سکتا، بلوچستان کا بہادر نوجوان عادل خان بازئی اپنے کپتان کےلیے اپنا کروڑوں، اربوں کا نقصان اور جان لینے کی دھمکیاں ہنس کر سہہ گیا۔ صابر شاکر کا کہنا تھا کہ عادل بازئی سب کچھ لُٹا کر بھی ثابت قدم رہا سلطان سالارزئی نے تبصرہ کیا کہ عادل بازئی نے ہم بلوچستان والوں کی لاج رکھی. بہت الزامات بہت اعتراضات آئے اس پر. لیکن جوان بدترین مالی نقصانات، دھمکیاں اور پریشانی برداشت کرگیا مگر بہکا نہیں. انکو ، انکے خاندان کو اور انکے مینٹور اعظم سواتی صاحب کو بہت خراج تحسین اور مبارکباد پی ٹی آئی رکن اسمبلی شاہد خٹک نے تبصرہ کیا کہ بلوچستان کوئٹہ کی عوام عادل بازئی کا وہ تاریخ استقبال کرے گی جو تاریخ میں کسی کا بلوچستان میں نہیں ہوا ہو گا میں بلوچستان کی غیرتمند عوام سے اپیل کرتا ہو اپ لوگ جائے عادل بازئی کے گھر وہاں اُن کے فیملی کو پیغام دے کہ اپ کے بیٹے نے عمران خان کے ساتھ جو وفا نبھائی اپ کے آنے والے نسلوں کی لوگ عزت کرینگے۔ احمد وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ پورے ایوان میں واحد داد کا مستحق عادل بازئی ہے، ن لیگ نے ڈی سیٹ کرنے کیلئے ریفرنس بھیجا، پلازہ گرایا گیا، گھر کے باہر مشینری پہنچی لیکن ووٹ نہیں دیا۔ ویل ڈن جوان، خوش رہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ بازئی کو ٹکٹ دینے کی مخالفت ہوئی، اعظم سواتی نے کہا ٹکٹ دیں، لوٹا نہیں ہو گا۔ منصور کلاسرا نے ردعمل دیا کہ عادل بازئی ان تمام گدی نشین وڈیروں سرمایہ کاروں سے معتبر ٹھہرے جو آئینی ترامیم میں جھک گئے لیٹ گئے نادربلوچ کا کہنا تھا کہ عادل تاریخ میں آپ کا نام سنہری حروف میں لکھا جائیگا۔۔۔ دنیا شجاع اور وفا شعاروں کو یاد کرتی ہے غداروں کو نہیں۔ رضوان غلزئی نے کہا کہ اکیلا عادل بازئی پوری پارلیمنٹ پر بھاری رہا۔ اپنی سیٹ، کاروبار سب کچھ قربان کردیا مگر ڈٹا رہا فوزیہ صدیقی نے تبصرہ کیا کہ ان سب لوٹوں پر کوئٹہ کا یہ نوجوان عادل بازئی بازی لے گیا، اس کے گھر والوں کو اٹھایا گیا اس کا کاروبار تباہ کیا گیا گھر گرایا گیا مگر یہ ثابت قدم رہا، ملک عادل خان بازئی جیسے نوجوان ھی عمران خان کے حقیقی جانشین ہیں، آپ نے عمران خان کا سر فخر سے بلند کردیا سجادچیمہ کا کہنا تھا کہ میں وفا پرستی پر یقین رکھنے والا انسان تو نہیں ہوں لیکن مجھے عادل بازئی نے غلط ثابت کردیاہے صبور خواجہ نے ردعمل دیا کہ زین قریشی کی سو سالہ گدی نشینی سے عادل بازای کا گرا ہوا مکان معتبر ہے
26 ویں آئینی ترمیم منظور ہوگئی,آئینی ترمیم سے متعلق پی ٹی آئی کے ایم این اے زین قریشی کا اہم ویڈیو بیان سامنے آگیا,زین قریشی نے اسمبلی میں اپنی موجودگی کی تردید کردی,انہوں نے کہا آئینی ترمیم کی حمایت سے متعلق ان کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے، قومی اسمبلی جانا تو دور کی بات وہ اس کے قریب سے بھی نہیں گزرے۔ زین قریشی نے بتایا وہ بانی پی ٹی آئی عمران خان اور پارٹی پالیسی کے ساتھ کھڑے ہیں، ان کی کسی حکومتی اہلکارسے ملاقات ثابت ہوجائے تو وہ سیاست چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اپنے والد شاہ محمود قریشی کے کہنے پر روپوشی اختیار کی، والد نےلاہور بلایا اور کہا کسی صورت آئینی ترمیم منظورنہیں ہونی چاہیے۔ وضاحتی بیان پر زین قریشی کو صارفین نے خوب آڑھے ہاتھوں لیا,صارف فیاض شاہ نے لکھا کہ صبح کے 4 بجے آئینی ترمیم منظور ہونے کے بعد آپ کا وضاحتی بیان منظرعام پر آیا، جبکہ میڈیا پر یہ نام رات 9 بجے سے لیا جا رہا ہے، اگر آپ حکومتی لابی میں نہ بیٹھے ہوتے تو یہ ویڈیو ترمیم منظور ہونے سے پہلے آ جانی تھی۔ شاہد خٹک نے ردعمل دیا کہ زین قریشی کے حوالے سے پارٹی آفیشل کی طرف سے وضاحت آئے گی لیکن مجھے اب زین قریشی پر کوئ اعتماد نہیں ہے عادل راجہ نے تبصرہ کیا کہ اگر زین قریشی واقعی پرعزم اور مخلص ہیں تو وہ ملتان میں جلسہ کریں اور پھر عمران خان کی حمایت میں دھرنے کے لیے ایک کارواں اڈیالہ لے جائیں ۔ یہ یقینی طور پر ایک مضبوط اقدام ہوگا جاوید بلوچ نے کہا کہ زین قریشی کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہو جو باقی لوٹوں کے ساتھ ہوا عظیم جٹ کا کہنا تھا کہ کچھ اولادیں ہوتی ہیں جو باپ کی قربانیوں کی وجہ سے بنی عزت چند ٹکڑوں میں نیلام کر دیتی ہیں۔ ان میں حالیہ مثال زین قریشی کی ہے۔پارٹی نے اگر دوسرے غداروں اور اس غدار میں فرق کیا یا جو بھی اس کے حق میں بولا اسے بھی غدار ہی سمجھا جائے گا ادریس عباسی نے سکرین شاٹ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ وڈیو مخالفین کی اور ٹویٹ رفقا پہلے کر رہے فرحان ورک کے اکاؤنٹ سے زین قریشی کی وڈیو 4 بجکر 17 منٹ پر ٹویٹ ہوئی اور زین قریشی کی اپنی وڈیو انکے خود اپنے اکاؤنٹ سے 4 بجکر 39 منٹ پر ٹویٹ ہوئی سلمان درانی نے سوال اٹھایا کہ زین قریشی کی ویڈیو اپنے اکاؤنٹ سے پہلے فرحان ورک صاحب کے اکاؤنٹ سے اپلوڈ ہونے کا مطلب؟ رحیق عباسی نے تبصرہ کیا کہ آپ سے پہلے فرحان ورک یہ ویڈیو پوسٹ کرچکا ہے۔ جو یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ آپ اس وقت کس کی تحویل میں ہیں۔ اب آپ سیاست کو خیر باد کہیں اور خاموشی پیری مریدی کریں ۔ رکن قومی اسمبلی زین قریشی کچھ دنوں سے منظرعام سے غائب تھے اور ان کی ہمشیرہ مہر بانو قریشی کی جانب سے زین قریشی سے رابطہ نہ ہونے اور ان کو اغوا کیے جانے کا خدشہ بھی ظاہر کیا گیا تھا۔ 26 ویں آئینی کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا ہے,گزشتہ روز کابینہ کی منظوری کے بعد دونوں نے ایوانوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دی جس میں حکومت نے دونوں ایوانوں میں اپنی اکثریت ثابت کی۔
زین قریشی کا ویڈیو بیان آگیا ۔ انکا کہنا ہے کہ ٹی وی کے ذریعے اطلاع ملی ہے میرے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کیا جارہا ہے، یقین دلاتا آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ نہیں دوں گا انہوں نے مزید کہا کہ آئینی ترمیم کے حوالے سے میرے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ اور اسمبلی میں موجودگی کی غلط خبر کی تردید کرتا ہوں، خان کے ساتھ تھا، ہوں اور رہوں گا۔ زین قریشی کے ساڑھے 4 بجے کے بعد جانیوالے اس ویڈیو پیغام پر سوالات اٹھ گئے حسنین فریق نے کہا کہ اوپر ٹائم کا فرق دیکھیں اپنے اکاؤنٹ سے ویڈیو بعد میں پوسٹ ہوئ ہے رفقاء کو پہلے بھیجی گئی ہے ادریس عباسی نے سکرین شاٹ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ وڈیو مخالفین کی اور ٹویٹ رفقا پہلے کر رہے فرحان ورک کے اکاؤنٹ سے زین قریشی کی وڈیو 4 بجکر 17 منٹ پر ٹویٹ ہوئی اور زین قریشی کی اپنی وڈیو انکے خود اپنے اکاؤنٹ سے 4 بجکر 39 منٹ پر ٹویٹ ہوئی سلمان درانی نے سوال اٹھایا کہ زین قریشی کی ویڈیو اپنے اکاؤنٹ سے پہلے فرحان ورک صاحب کے اکاؤنٹ سے اپلوڈ ہونے کا مطلب؟ رحیق عباسی نے تبصرہ کیا کہ آپ سے پہلے فرحان ورک یہ ویڈیو پوسٹ کرچکا ہے۔ جو یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ آپ اس وقت کس کی تحویل میں ہیں۔ اب آپ سیاست کو خیر باد کہیں اور خاموشی پیری مریدی کریں ۔ یامین خان نے ردمعل دیا کہ فرحان ورک کی اکاؤنٹ سے ویڈیو زین قریشی کی اکاؤنٹ سے 23 منٹ بعد اپلوڈ ہوئی ۔یہ ویڈو فرحان ورک کو پہلے کیسے پہنچی آخر کیسے ؟؟
صوبائی دارالحکومت لاہور کے ایک نجی کالج میں طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی کیس کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں جبکہ پنجاب کے مختلف شہروں میں طلبہ نے احتجاجی مظاہرے کیے اور یہ سلسلہ آزادکشمیر تک پہنچ گیا جہاں طلبہ وطالبات نے مبینہ زیادتی کے واقعے کی تحقیقات کر کے حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔ دوسری طرف سینئر صحافی عمران ریاض خان نے مسلم لیگ ن کے آفیشل ٹویٹر اکائونٹ سے اس معاملے پر کیے جانے والے پراپیگنڈے کو بے نقاب کر دیا۔ عمران ریاض خان نے اپنے ٹوئٹر (ایکس) پیغام اور مسلم لیگ ن کے آفیشل ٹوئٹر (ایکس) سے جاری پیغام کا سکرین شارٹ شیئر کرتے ہوئے لکھا: صرف یہ 2 سکرین شاٹس غور سے دیکھ لیجئے اور اندازہ کیجئے کہ کس قدر بے غیرت اور جھوٹے ترین بے شرم جتھے کو پراپیگنڈا پر لگا دیا گیا ہے، اب اس 2 نمبری فرا ڈ اور نوسر بازی کا مقدمہ کہاں ہوگا؟ پاکستان مسلم لیگ ن کے ٹوئٹر (ایکس) اکائونٹ سے جاری پیغام میں ڈاکٹر شہباز گل، معید پیرزادا، عادل راجہ اور عمران ریاض کے ٹوئٹر پیغامات شیئر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ: امریکہ، برطانیہ اور یہاں تک کہ سوات میں بیٹھ کر وہ پنجاب کے طلباء کو توڑ پھوڑ اور انارکی میں ملوث ہونے پر اکساتے ہیں، یہ پاکستان کے اصل دشمن ہیں! عمران ریاض کے پیغام میں ردوبدل کی گئی تھی اور "طلباء جو کچھ کرینگے" کے الفاظ کا اضافہ کیا گیا تھا۔ اشعر باجوہ نامی صارف نے: سینئر صحافی عمران ریاض اور معید پیرزادا کے اصل ٹوئٹر (ایکس) پیغامات کو شیئر کرتے ہوئے لکھا: اس وقت ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم فیک وٹس ایپ سکرین شاٹس اور صحافیوں کی ایکس پوسٹس کو فوٹوشاپ کر کے ان میں خاص طور پر "طلباء احتجاج " کا اضافہ کر کے شیئر کر رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ان لوگوں کو یہ سوچنا چاہیے کے ایکس اکاؤنٹس پر فیکٹ چیک کرنے میں صرف 2 سیکنڈ لگتے ہیں، خدا کے لیے ایسے کام کر کے اپنے آپ کو اور بدنام نہ کریں! عمران ریاض اور معید پیر زادہ کے اکاؤنٹ سے کی گئی پوسٹیں اور ساتھ میں مسلم لیگ ن ڈیجیٹل کے آفیشل اکاؤنٹ سے کی گئی فوٹوشاپ پوسٹیں شیئر کر رہا ہوں! صحافی زبیر علی خان نے عمران ریاض کا اصل پیغام اور ن لیگ کے اکائونٹ سے جاری جعلی پیغام شیئر کرتے ہوئے لکھا:میڈم مکھے منتری جی کا جھوٹا پراپیگنڈا سیل! عمران بھائی نے اپنے ٹویٹ میں پنجاب کے طلباء کا ذکر ہی نہیں کیا لیکن میڈیا سیل جعلی سکرین شارٹ لگا کر بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ حکومت اس وقت کسی بھی طرح عمران ریاض کو گرفتار کرنا چاہتی ہے اسی لیے جھوٹے مقدمات درج کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ عمران ریاض خان نے زبیر علی خان کے ایکس (ٹوئٹر) پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا: میرے خیال میں یہ زیادہ بوکھلا گئے ہیں اور اب جھوٹ پر قائم حکومت مزید جھوٹوں کا سہارا لینے پر مجبور ہے! طارق متین نے کہا جھوٹ ساز فیکٹری والو عمران ریاض کے ٹویٹ میں اسٹوڈنٹس کا ذکر ہے ہی نہیں عمران ریاض خان نے اپنے ردعمل میں کہا آئین میں ترمیم کرتے کرتے ٹویٹس میں ترمیم شروع کر دی۔
عظمیٰ بخاری نے اظہرمشوانی، شہبازگل اور عالیہ حمزہ سے متعلق ایک وٹس ایپ سکرین شاٹ شئیر کیا جوپنجاب کالج کے سٹوڈنٹس کے احتجاج سے متعلق تھا۔ اس مبینہ سکرین شاٹ جسے جعلی سکرین شاٹ قرار دیا جارہا ہے کہا جارہا تھا کہ سٹوڈنٹس سے احتجاج کیلئے کیاٹاسک دینا ہے اور ویڈیوز بناکر کیسے اپلوڈ کرنی ہیں۔ سکرین شاٹ شئیر کرتے ہوئے اپنے ٹوئٹر پیغام میں عظمیٰ بخاری نے کہا کہ چلو بھئی شروع ہوجاو،عام بچوں کو باہر بیٹھ کر فساد کے کام پر لگاو،سٹوڈنٹس کو آگے لگاو،انکی ویڈیوز بنا کر انقلاب لانے کی کوشش کرو،خود سارے باہر بیٹھے ہیں اور ہمارے بچے اور انکے والدین رل رہے ہیں،سیاسی گدھ اور کیا ہوتے ہیں؟ عظمیٰ بخاری کے اس سکرین شاٹ پر عالیہ حمزہ نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ماشاءاللہ منسٹر صاحبہ"فیک سکرین شارٹ" پھیلاتےہوئے اس جھوٹے پراپیگنڈےمیں ملوث ہرایک کےخلاف میں معزز عدالت سےرجوع کروں گی میں طلبہ طالبات کےساتھ ہوں وہ مجھے اپنےبچوں کی طرح عزیزازجان ہیں وہ میرےپاکستان کاروشن مستقبل ہیں ان پرکیےگئے ہرظلم کاحساب ہوگا اظہر مشوانی نے ردعمل دیا کہ ریمنڈ ڈیوس کی دلالی کر کے باپ نے جو حرام کا پیسہ کھلایا ہے تو وہ رنگ تو دکھائے گا بےشرم عورت یہ فیک اور فوٹوشاپڈ ہے فوادچوہدری نے کہا کہ جعلی اسکرین شاٹس شیئر کرنا جرم ہے امید ہے میڈم چیف جسٹس اس کا بھی نوٹس لیں گی۔ زبیر علی خان نے تبصرہ کیا کہ حکومت خود فیک سکرین شارٹ پھیلانے میں مگن ہے۔ اس وقت سب سے بڑی فیک نیوز کی فیکٹری ن لیگ کا میڈیا سیل ہے وقاص اعوان نے عظمیٰ بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ک میڈم آپ خود فیک نیوز کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے اور خودی فیک سکرین شارٹ کو پھیلا لا رہی ہیں اس عمل سے آپکی سوشل میڈیا کے مس یوز کے خلاف درخواست کا کوئی فائدہ نہیں ہے جب آپ خودی یہ عمل کر رہی ہیں۔ عمیر حسن کا کہنا تھا کہ خود یہ ہر معاملے کو ایف آئی اے میں لے جاتی یے اور خود سوشل میڈیا پر فیک سکرین شاٹ لگا کر جھوٹ پھیلا رہی یے اور اوپر سے بھاشن جھاڑ رہی ی اسلام الدین ساجد نے ردعمل دیا کہ عظمی، یہ واٹس ایپ سکرین شاٹ فیک یعنی جعلی ہے، بہتر ہوتا کہ جعلی پوسٹ شئیر کرنے سے پہلے تصدیق کر دیتی۔ اگر ایک وزیر جعلئ خبر پھیلاتی ہے تو باقی لوگوں سے کیا شکوہ کوئی کرے گا عائشہ بھٹہ کا کہنا تھا کہ پنجاب کی یہ خاتون وزیرِ اطلاعات آئے روز خود کو فیک نیوز کا وکٹم ثابت کرنے لاہور ہائیکورٹ پہنچی ہوتی ہیں، لیکن یہ خود سب سے بڑی فیک نیوز ماسٹر ہیں۔واٹس ایپ پر موصول ایک فیک اسکرین شاٹ ایسے فخر سے پوسٹ کر رہی ہیں جیسے دشمن ملک کی کوئی سازش پکڑ لی ہو۔عقل نہیں تو موجیں ہی موجیں!!
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں آئے روز راستوں کی بندش اور پروٹوکولز کی وجہ سے شہریوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے، سوشل میڈیا پر صحافی و شہریوں نے انتظامیہ کو عوام کی پریشانی کا سبب بننے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پہلے ایک سیاسی جماعت کے احتجاج اور اب شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے،اس موقع پر شہر کی مختلف سڑکوں کو کنٹینرز کھڑے کرکے بند کردیا، انتظامیہ نے شہر کے ایسی شاہراہوں کو بھی عوام کیلئے بند کردیا جو سیکیورٹی پلان میں شامل نہیں تھیں۔ آئے روز شہر کی سڑکوں اور شاہراہوں کی بندش کی وجہ سے وفاقی دارالحکومت کے رہائشی شدید تکلیف کاشکار ہیں اور اس شہر میں رہائش کواذیت زدہ قرار دے رہے ہیں، سوشل میڈیا پر صحافیوں سمیت صارفین نے انتظامیہ کے ناقص پلان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور عوام کی تکلیف کا اظہار کیا۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار خاور گھمن نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ چینی وزیراعظم کے ساتھ کھانے کی دعوت تھی مگر چار گھنٹے سڑکوں پر مارے مارے پھرنے کے باوجود منزل پر پہنچنے میں کامیابی نہیں ملی۔ تنویر اعوان نے کہا کہ جڑواں شہروں کے باسی آج اپنے گھروں میں ہی رہیں، کیونکہ ٹریفک پولیس نے جو راستے بتائے وہ بھی بند ہیں ۔ صحافی عادل سعید عباسی نے کہا کہ پولیس نے اسلام آباد کے شہریوں کو بھیڑ بکریاں سمجھ لیا ہے، شہریوں کو دیئے گئے متبادل راستوں کو بھی بند کردیا گیا ہے،انتظامیہ نے مری جانےوالوں کیلئے بنی گالہ کا متبادلہ راستہ دیا تھا اور یہ بھی بند ہے۔ ایک صارف نے سڑکوں کی بندش پر شدید برہمی کا اظہار کرتےہوئے کہا کہ اسلام آباد میں رہنا اب ایک عذاب بن گیا ہے۔ ہمایوں نامی صارف نے کہا کہ اگر شہر کو وی آئی پی پروٹوکول کے چکر میں بند کرنے کے بجائے اگر ریڈ زون کے قریب ہی چھوٹا سا ایئر پورٹ یا ہیلی پیڈ بنادیا جائے تو نا ہی سیکیورٹی کا مسئلہ پیدا ہوگا اور نا ہی شہری پریشان ہوں گے۔
جمائما گولڈ اسمتھ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ٹوئٹ کرتے ہوئے عمران خان کی حفاظت اور صحت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں عمران خان کے حوالے سے سنگین اور تشویش ناک معاملات درپیش ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی حکام نے اہل خانہ اور وکلا کو عمران خان سے ملاقات سے روک دیا ہے جس کے ساتھ ساتھ تمام عدالتی سماعتیں بھی ملتوی کردی گئی ہیں۔ اس پر خواجہ آصف نے جمائما کو جواب دیتے ہوئے کہاکہ عمران خان کے ساتھ مستقل طور پر نرمی برتی گئی، اس شخص نے اپنے مخالفین کے لیے کبھی نرمی نہیں دکھائی تھی۔ وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ نوازشریف کو اپنی مرتی ہوئی اہلیہ سے فون پر بات کرنے کی اجازت تک نہیں دی گئی تھی جب کہ اپوزیشن کے متعدد رہنماؤں کو بغیر کسی الزام کے جیل میں رکھا گیا تھا۔ سوشل میڈیا صارفین نے خواجہ آصف کی غلط بیانی انکے سامنےا یکسپوز کردی اور کہا کہ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، ایک منٹ میں جھوٹ پکڑا جاتا ہے، سوشل میڈیا صارفین نے عمران خان کے نوازشریف سے متعلق ٹویٹس شئیر کئے جس میں وہ نوازشریف سے ہمدردی اور بہتر سہولیات دینے کی بات کررہے ہیں۔ صحافی نادر بلوچ نے عمران خان کا ٹویٹ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ رنگ بازیاں نہ گئیں۔۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے جھوٹ ایک منٹ میں پکڑا جاتا ہے نعیم پنجوتھہ نے خواجہ آصف کو جواب دیا کہ خواجہ جی مریم نے فون رکھا ہوا تھا اور جب ٹیم نے چھاپا مارا تو اپنے نیچے تکیہ کے نیچے چھپا دیا اور تکیہ رکھ کے اس کے اوپر بیٹھ گئی ،پھر جب مریم کو اوپر اٹھایا اور نیچے سے تکیہ اٹھایا تو نیچے سے موبائل نکلا ،آپ بھول گئے ہیں شاہد ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ جناب 50 روپے کے اسٹامپ پر بھاگ کیا تھا تمھارا بہادر لیڈر
آپریشن رجیم چینج کے بعد اینکر عمران ریاض مسلسل حکومتی نشانے پر ہیں، انہیں کئی بار گرفتار کیا گیا اورایک مرتبہ پانچ ماہ کیلئے لاپتہ بھی کردیا گیا تھا۔ عمران ریاض نے اپنے ایکس پیغام میں لکھا کہ فروری 2024 میں الیکشن کے فورا بعد ایک دن اچانک ن لیگ کےمیڈیا سیل کے لوگوں نے میرے حوالے سے پراپیگنڈا کیا کہ میں نے قاضی فائز عیسی کو مروانے کی کوشش کی ہے اور اسکے لیے مبارک ثانی کیس کو استعمال کیا ہے حالانکہ میرے فرشتوں کو بھی اس معاملے کا علم نہیں تھا۔ پھر مجھے گھر سے اغوا کرکے مختلف کیسوں میں 3 ہفتے تک جیل میں رکھا۔ اور تسلی سے فارم 47 کی حکومت بننے کے بعد چھوڑا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب ایک بار پھر وہی میڈیا سیل نئے پراپیگنڈا کے ساتھ سامنے آیا ہے کہ میں نے طلبہ کو احتجاج پر اکسایا۔ حالانکہ میں نے صرف اس واقعے کو نہ صرف درست رپورٹ کیا بلکہ طلبہ پر ریاستی تشدد کی بھرپور مذمت بھی کی اور آیک آزادانہ انکوائری کمیشن کی تجویز بھی دی۔ صحافی نے دعویٰ کیا کہ اطلاعات کے مطابق ایف آئی کو اس حوالے سے احکامات جاری کر دیئےگئے ہیں اور افسران نے مجھے پھر سے نشانہ بنانے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ میری گزشتہ اڑھائی برسوں میں 9 گرفتاریاں ہو چکی ہیں پونے 5 ماہ مجھے اغوا بھی رکھا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری رائے میں آئینی ترمیم کے حوالے سے حکومت پر بہت دباؤ ہے اور اب اس مکروہ عمل کے دوران ایک بار پھر میری آواز کو دبانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یادرہے کہ گزشتہ روز مریم نواز نے پریس کانفرنس میں عمران ریاض کے اس ٹویٹ کا خصوصی ذکر کیا اور کہا تھا کہ جیل میں رہ کر آنے والے بھی اس پراپیگنڈے میں شامل تھے
سوشل میڈیا پر تنقید کے بعد عظمیٰ بخاری نے وضاحتی کلپ شئیر کردیا مگر وضاحتی کلپ بھی کام نہ آیا عظمی بخاری نے صحافیوں کو وارننگ دی کہ اگر کسی رپورٹر نے اونچی آواز میں بات کی یا بدتمیزی کرنے کی کوشش کی تو سن لو بات ان کی نوکریوں تک جائے گی۔اس پر سوشل میڈیا پر عظمیٰ بخاری پر خوب تنقید ہوئی تو وضاحتیں دینے پر آگئیں عظمیٰ بخاری نے کلپ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہے آج کا پورا کلپ،میں پریس کانفرنس کے بعد جرنلسٹ ہاوسنگ سوسائٹی کی میٹینگ میں چلی گئی،بعد میں دیکھا تو پتا چلا میں نے کوئی دھمکیاں اور گستاخی کی ہے،”بڑے بڑے “صحافی بھی ایڈیٹیڈ کلپ کا شکار ہوئے،ہاتھ جوڑ کر ڈسپلن اور خاموشی کی ریکویسٹ کررہی تھی،عہدوں کی بجائے ہمیشہ عزت کمانے کی کوشش کی ہے عظمیٰ بخاری کا یہ وضاحتی کلپ بھی کام نہ آیا اور تنقید کانشانہ بن گئیں، اس وضاحتی کلپ میں عظمیٰ بخاری صحافیوں کو کہہ رہی ہیں کہ چوں چاؤں چاؤں نہ کرنا، میں برداشت کرلوں گی میڈم چیف منسٹر برداشت نہیں کریں گی۔ اس کلپ میں بھی عظمیٰ بخاری صحافیوں کو نوکری جانے کی دھمکیاں دیتی نظر آتی ہیں۔ اس پر صحافیوں نے کہا کہ ایسی وضاحتیں دینے سے بہتر ہے کہ وضاحت نہ ہی دی جاتی، کسی کو نوکری کی دھمکی لگانا کوئی مذاق نہیں ہے بلکہ یہ ایک سنگین مذاق ہے۔ صحافی زبیر علی خان نے اس پر کہا کہ کسی کو نوکری کی دھمکی لگانا مذاق نہیں ہوتا میڈم جی !!! اپنا حس مزاح بہتر کریں صحافی عمرچیمہ نے کہا کہ نوکری سے فراغت کی دھمکی اگر ہنستے ہوئے بھی دی جائے تو یہ ایک سنگین مذاق تصور ہو گا اور پھر یہ کہ کہنے والی شخصیت اگر وزیر اطلاعات ہو تو مزید تشویش کی بات ہوتی ہے شبیر ڈار نے ردعمل دیا کہ وائرل وڈیو کلپ اور اب وضاحتی وڈیو کلپ میں فرق صرف اتنا ہے کہ منسٹر صاحبہ نے صحافیوں کو پہلے ہنستے بولتے سمجھایا پھر نوکری کی دھمکی دی، ایسی وضاحت سے وضاحت نہ دینا ہی مناسب تھا۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ صحافیوں سے ہاتھ باندھ کر درخواست تک تو ٹھیک ہے اس کے بعد شکایت اور نوکری کی وارننگ کی بات کرنے کی کیا ضرورت تھی، کسی بھی حکومت کے کسی بھی عہدےدار خصوصی طور پر وزیر اطلاعات کو ناپ تول کر گفتگو کرنی چاہیے صحافی رہنما شکیل قرار نے ردعمل دیا کہ رازق اللہ کی ذات ہے کوئی منسٹر یا وزیراعلی نہیں صحافی وسیم عباسی نے تبصرہ کیا کہ ویسے پورے کلپ سے واضح ہے کہ عظمی بخاری اپنی نوکری کے لیے ہاتھ جوڑ بھی رہی ہیں۔۔تاہم بہتر ہوتا صحافیوں کی نوکری کی بھی بات ہی نہ کی جاتی۔۔سوال کتنا بھی سخت ہو اگر تمیز کے دائرے میں ہو تو اس کا جواب دینا چاہیے۔ ایک صارف نے لکھا کہ اسکو کہتے ہے ہاتھ جوڑ کر صحافیوں کو دھمکی دینا
عظمیٰ بخاری کا مریم نواز کی آج پریس کانفرنس شروع ہونے سے قبل صحافیوں کو نوکریاں سے ہاتھ دھونے کا دھمکی نما پیغام۔۔ صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کا سخت ردعمل مریم نوازکی پریس کانفرنس شروع ہونے سے قبل عظمی بخاری نے صحافیوں کو وارننگ دی کہ اگر کسی رپورٹر نے اونچی آواز میں بات کی یا بدتمیزی کرنے کی کوشش کی تو سن لو بات ان کی نوکریوں تک جائے گی۔ تحریک انصاف نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ یہ ہوتا ہے ایک جمہوری سوچ اور ڈکٹیٹر سوچ میں فرق:عمران خان نے تو وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی کبھی کسی کو سخت سے سخت سوال کرنے سے نہیں روکا، جبکہ یہ دیکھیں ایک کٹھ پتلی کی حالت جو ایک جعلی وزیر اعلیٰ کی پریس کانفرنس سے پہلےصحافیوں کو دھمکیاں دے رہی ہے مقدس فاروق اعوان نے ردعمل دیا کہ عظمی بخاری آپ کو ایسے نہیں کہنا چاہیے تھا، صحافی کیا ،کسی بھی شخص کو نوکری سے نکالنے کا ارادہ کوئی سنگدل ہی کر سکتا ہے اس پر صحافی محمد عمران نے سوال کیا کہ کیا یہ ویڈیو واقعی مریم نواز کی پریس کانفرنس سے پہلے کی ہے ؟یہ کیسی ہدایات جاری کررہی ہیں ؟ یہ تو باقاعدہ صحافیوں کو دھمکا رہی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسلم لیگ ن کی ایک سنیئر منسٹر جو آج کل پنجاب میں بھی کافی سینئر ہیں میں تو خود ان کی اس طرح کی شکایت کا شکار ہوچکا ہوں۔ صحافی سہیل رشید نے کہا کہ اب ان لوگوں کو اپنی خدائی کا یہاں تک یقین ہو چلا ہے کہ لوگوں کو رزق بھی یہ دے رہے ہیں۔ استغفار اللہ۔ رہی صحافتی تنظیموں کی بات تو کچھ بعید نہیں وہ محترمہ کے حق میں بیان جاری کر دیں بشارت راجہ نے کہا کہ او بی بی رزق اللہ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے تم کسی کا کیا بگاڑ لو گی کسی کا ایک دانہ نہ کم کر سکتی ہو اور نہ زیادہ دے سکتی ہو سحرش مان نے تبصرہ کیا کہ عورت راج تو غنڈاراج نہیں بنتاجارہا پنجاب میں۔؟مخصوص نشست پرغیر منتخب عورت صحافیوں کو سوال پوچھنے کی پاداش میں سنگین نتائج کی دھمکیاں دےرہی ہے۔محترمہ بخاری کوکوئی بتائےیہ پی ایم اےکاکول نہیں ہے۔یہ ایک سیاسی پریس کانفرنس ہے جس میں شور شرابےمیں سوال پوچھنے کی مکمل آزادی ہے ثمینہ پاشا نے ردعمل دیا کہ ایسی دھمکیوں پر صحافیوں کو کچھ نہیں ہوتا۔ اب کوئی مائیک اٹھاۓ گا سامنے سے؟ کوئی بائیکاٹ کرے گا؟ ایک سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ شریف خاندان نے صحافیوں کو صحیح اوقات میں رکھا ہوا ہے، کسی صحافی میں اتنی جرات نہیں کہ اٹھ کر چلا جائے۔لیکن جب تحریک انصاف جیسی شریف جماعت تنقید کرے تو سلمان اکرم راجہ کے سامنے سے مائیک ہٹا لیتے ہیں۔ عثمان فرحت نے ردعمل دیا کہ یہ ہے اس میڈیا کی اصلی اوقات اور اصلی حیثیت جو صرف دو ہفتے پہلے بہت غیرت مند ہونے کی ڈرامے بازیاں کر رہا تھا! صحافی زبیر علی خان نے سوال کیا کہ کوئی پریس کلب ، کوئی صحافتی کمیونٹی، کوئی صحافتی لیڈر، کوئی شرم کوئی حیا؟؟؟ عدیل راجہ نے سوال کیا کہ جی بھی، کدھر ہے پریس کلب کے لیڈران؟ قلم فروش کہاں ہیں؟ صحافی بشیر چوہدری نے کہا کہ وزیر اطلاعات پنجاب عظمہ بخاری کو ہرگز صحافیوں کے ساتھ تحکمانہ رویہ اور دھمکیاں دینا زیب نہیں دیتا۔ ایسے رویے کی مذمت ہی کی جا سکتی ہے۔ یہی بات بہتر انداز میں سے کی جا سکتی تھی۔۔ اس پر سخت ردعمل کی امید رکھیں۔ پتہ نہیں کیوں رپورٹرز اس کے باوجود وہاں کیوں بیٹھے رہے۔۔ صحافی طارق متین نے طنز کیا کہ ہاں بھائی لاہور پریس کلب والو ، کلاسیں لو میڈم سے ورنہ تم لوگوں کی نوکریاں نہیں بچیں گی
عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ خان نے ایکس پر لکھا کہ عام طور پر وہ پاکستان کی سیاست پر بات نہیں کرتی ہیں۔ ان کے مطابق میں عمران خان سے متعدد سیاسی امور پر اختلافات رکھتی ہوں۔ مگر یہ بات سیاست سے متعلق نہیں ہے بلکہ یہ میرے بچوں کے والد سے متعلق ہے، ان کے انسانی حقوق اور بین الاقوامی قانون کا سوال ہے۔ جمائمہ خان نے لکھا کہ گذشتہ کچھ برسوں سے مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے عناصر ان کو ہراساں کر رہے ہیں اور انھیں خاموش کرانے کے لیے انھیں تنگ کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ گذشتہ چند ہفتوں سے اڈیالہ جیل میں میرے بچوں کے والد کی صحت متعلق بہت سنجیدہ اور تحفظات والے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان کے مطابق پاکستانی حکام نے ان کے خاندان اور ان کے وکلا پر ان سے ملاقات پر پابندی عائد کر دی۔ انھوں تمام عدالتی کارروائی بھی روک دی۔ جمائمہ خان کے اس ٹویٹ کے بعد سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوگیا اور غیرملکی صحافیوں، اخبارات، دانشوروں اور انسانی حقوق سے متعلقہ تنظیموں نے یہ معاملہ اٹھایا۔ کرسٹینا بیکر نے جمائمہ کے ٹویٹ پر ردعمل دیا کہ ایسا لگتا ہے کہ امن و امان اور انسانی حقوق نہ صرف پاکستان میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی تشویشناک حد تک ٹوٹ چکے ہیں۔ اتنی بے گناہ جانیں ماری گئیں یا ان کے ساتھ بدسلوکی کی گئی، اتنے مظالم کیے گئے اور اقوام متحدہ کی بہت سی قراردادیں ٹوٹ گئیں… انہوں نے مزید کہا کہ کوئی حکومت، کوئی بین الاقوامی ادارہ یا انسانی حقوق کی تنظیم کامیابی سے مداخلت نہیں کرتی۔ زندگی کے دائیں جانب کون کھڑا ہے؟ امن اور انصاف کون لاتا ہے؟ آج کے ہیرو کہاں ہیں؟ جیل میں یا جنت میں ایسا لگتا ہے۔ خدا ان کو بچائے۔ اے جے پلس (الجزیرہ) کی صحافی ثناسعید نے کہا کہ ان پاکستانیوں نے جنہوں نے اس کی حمایت میں اور اس کی رہائی کے لیے احتجاج کیا ہے انہیں سیکیورٹی/فوجی دستوں کی جانب سے پرتشدد کریک ڈاؤن کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ریاست کا سارا ہاتھ اس شخص کو سیاسی جمود سے توڑنے کی سزا دینے پر لگا ہوا ہے۔ اور بہت سارے پاکستانی، جاگیردارانہ مفادات کے ساتھ، ہم اس کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اسے نظر انداز کر دیں گے۔ امریکی مصنفہ سارہ بینٹ نے ردعمل دیا کہ عمران خان کی خیریت سے متعلق اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے جیل کے حالات کی وضاحت بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔ ہیومین رائٹس کونسل نے کہا کہ جمائما خان کے خدشات، ہم اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کونسل پاکستان انسانی حقوق کی موجودہ صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ ہماری کوششوں کے باوجود جیل انتظامیہ نے عمران خان سے ملاقات کی ہماری درخواست مسترد کردی۔ پیرس مورکن نے اس صورتحال کو خوفناک اور اشتعال انگیز قرار دیا اور سوشل میڈیا صارفین نے جمائما کی ٹویٹ کو ری ٹویٹ کرنیکا مطالبہ کیا غیرملکی صحافی سی جے ورلیمین نے عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ترک اخبار ٹی آر ٹی ورلڈ نے لکھا کہ 1995 سے 2004 تک پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سے شادی کرنے والے گولڈ اسمتھ کا کہنا ہے کہ عمران خان "مکمل طور پر الگ تھلگ، قید تنہائی میں، لفظی طور پر اندھیرے میں ہیں، باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ نہیں ہے۔" پیٹر کرونو نے کہا کہ اوہ ۔۔دیکھو، ۔۔ یک اور امریکی حمایت یافتہ غیر جمہوری حکومت کی تبدیلی… معروف پوڈکاسٹر اور صحافی جمی ڈور نے تبصرہ کیا کہ بین الاقوامی وار مشین ان لوگوں کے ساتھ کیا کرتی ہے جو امن چاہتے ہیں اور اس کے خلاف کھڑے ہیں: ڈینینل ہنن نے تبصرہ کیا کہ انتہائی تشویشناک خبر۔ پاکستان کے فوجی رہنماؤں نے اب عمران خان کے دوروں اور فون کالز کی تردید کی ہے اور ان کے سیل کی بجلی کاٹ دی ہے۔ وہ 14 مہینوں سے قید تنہائی میں ہے - جسے اقوام متحدہ نے غیر قانونی قرار دیا ہے۔ جارگ گیلوے نے ردعمل دیا کہ میں اپنے بہت سے دوستوں سے پاکستان میں اپیل کرتا ہوں کہ یہ عمران خان کی زندگی بچانے کے لیے شاید آخری دن ہیں۔ مصنف خالد بیدون نے ردعمل دیا کہ عمران خان کی زندگی خطرے میں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ڈاکٹرز کی ٹیم کے ساتھ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں سابق وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کی تصدیق کرتے ہوئے ان کی خیریت سے متعلق میڈیکل رپورٹ بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی ہے۔ تاہم عمران خان کی بہن نورین نیازی نے نجی ٹی وی چینل اے آر وائے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خاندان کو سرکاری ڈاکٹرز پر کوئی اعتبار نہیں ہے۔ بیرسٹر گوہر نے عمران خان کی صحت پر اطمینان کا اظہار کیا جن کے ٹویٹ کو خواجہ آصف اور دیگر لیگی رہنما بھی ری ٹویٹ کرتے رہے۔پی ٹی آئی سپورٹرز نے بیرسٹر گوہر کو خوب آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ یا تو بیرسٹر گوہر حکومت سے ملا ہوا ہے یا احمق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر خواجہ آصف اور خواجہ سعد رفیق بیرسٹر گوہر کی ٹویٹ ری ٹویٹ کررہے ہیں تو اسکا مطلب ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے فیاض شاہ نے تبصرہ کیا کہ واہ کیا حسین اتفاق ہےبیرسٹر گوہر کی ٹویٹ کو خواجہ آصف ری ٹویٹ کر رہا ہے۔اب بھی اگر آپ لوگ ڈیل کی بکواس پر یقین کر کے حالات کی سنگینی سے منہ موڑ رہے ہو تو پھر اللہ ہی حافظ ہے احمد بوباک کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف بھی بیرسٹر گوہر کی مطمئن ہونے والی ٹویٹ پر پہنچ چکا ہے۔آج ثابت ہوگیا کہ بیرسٹر گوہر شریف ہی نہیں بلکہ بیوقوف بھی ہیں عمرانعام نے ردعمل دیا کہ خواجہ آصف کی یہ ٹویٹ ثبوت ہے کہ فوج اور اسکے غلاموں پر کتنا پریشر تھا جو بیرسٹر گوہر نے ریلیز کیا سلمان درانی نے کہا کہ بیرسٹر گوہر کی ٹویٹ بھی مجھے اتنی ہی قابل یقین لگ رہی ہےجتنی علی امین گنڈاپور کی اسلام آباد سے پشاور پہنچنے والی کہانی انورلودھی کا کہنا تھا کہ بیرسٹر گوہر صاحب! جس سرکاری ڈاکٹر کی رپورٹ میں نوازشریف کے پلیٹلیٹسں گرتے تھے اور جس میڈیکل رپورٹ کی بنیاد پر وہ باہر چلے گئے تھے کیا اس سرکاری ڈاکٹر کی رپورٹ بھی درست تھی؟ ارسلان بلوچ نے کہا کہ اتنی محبتیں؟ وقار ملک نے ردعمل دیا کہ خواجہ آصف کا جو ٹریک ریکارڈ ہے اسکو سامنے رکھتے ہوئے اب میرے پاس کوئی وجہ نہیں کہ میں یقین کرلوں کہ اس ٹویٹ میں بیرسٹر گوہر نے سچ بولا ہے میں ان پہ شک نہیں کرنا چاہتا اسلئے پھر دہراتا ہوں یقینی طور پہ انکا فون ایجنسی کے پاس ہے اور وہ اس سے ٹویٹ کر رہے ہیں بیرسٹر شہزاداکبر نے بیرسٹر گوہر پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ انتہائی افسوس اور دکھ سے یہ ٹویٹ کر رہا ہوں بیرسٹر صاحب آپ نے یہ ٹویٹ کر کے آج اسٹیبلشمنٹ کی فسطائیت اور ظلم کی حمایت کر دی ہے حکومتی ڈاکٹروں کا معائنہ اس ملک میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا یاد رکھیے ایسے ہی سرکاری ڈاکٹروں نے اسوقت جنرل باجوہ کی ایما پہ نواز شریف کے پلیٹلٹس گرا دیے تھے انہوں نے مزید کہا کہ آپ نے کل قوم کو گمراہ کیا کہ شوکت خانم کے ڈاکٹر معانئہ کریں گے اور آج ڈاکٹر عاصم اسی وعدے پہ اڈیالہ گیے لیکن انھیں ملنے نہ دیا گیا آپ خوب جانتے ہیں کہ مطالبہ فیملی، ذاتی معالج اور پارٹی کے وفد کے مطالبے کا تھا۔ بیرسٹر شہزاد کے مطابق آپ یہ بات بھی بخوبی جانتے ہیں کہ عمران خان کا رابطہ دنیا سے منقطع کرنے کا اصل مقصد آہنی ترامیم پاس کروانا ہیں آپ لوگ کسی مینڈیٹ کے بغیر کمیٹیوں میں جا رہے ہیں اور اس سارے مکروح کھیل کا حلالہ کر رہیے ہیں ۔آپکا مطالبہ ان کمیٹیوں اور پارلیمان میں بھی فقط یہ ہونا چاہیے کہ اپنے قائد سے ملے بنا آپ کسی بھی معاملے کا حصہ نہیں بنیں گئے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں قائدین سے دغا کی ایک لمبی داستان ہے لیکن آج عمران خان سے دغا کرنے والے آئین اور قانون سے بھی دغا کر رہے ہیں آج پاکستان کے لوگ اپنا فیصلہ خود کریں اور ہر شخص دغا کو دغا پکارے اور جفا کو جفا! عمران خان کے آخری پیغام کی روشنی میں سب کو اس آہنی پیکج کے خلاف احتجاج کرنا ہو گا! آخر میں بیرسٹر شہزاد کا کہنا تھا کہ اللہ کرے آپ سے یہ ٹویٹ حبس بیجا میں رکھ کہ کروائی گئی ہو نہ کہ آپ نے ازخود کی ہو

Back
Top