سوشل میڈیا کی خبریں

کلفٹن تین تلواراورپریس کلب پر دفعہ 144 کے نفاذ کے باوجود احتجاج کرنے والے مختلف جماعتوں کے50 سے زائد کارکنان وعہدیداران کو حراست میں لےلیا گیا۔ پولیس کی بھاری بھر کم نفری اس احتجاج کو روکنے کی کوشش کررہی تھی اور اس نے بے دریغ آنسو گیس، شیلنگ، لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔اس دوران پولیس نے بعض خواتین کیساتھ بدسلوکی بھی کی اور انہیں سڑکوں پر گھسیٹا جس پر سوشل میڈیا پر طوفان برپا ہوگیا۔ صحافی حامد میر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ زمین پر گرائی گئی قوم کی اس نہتی بیٹی کو چاروں طرف سے گھیرا ڈال کر سڑک پر گھسیٹا گیا پوری دنیا نے کراچی میں اس تماشے کو دیکھا یہ تماشاپاکستانیوں کے حافظے میں ہمیشہ محفوظ رہے گا اس قسم کے تماشے کرنے والے ہمیں آئینی عدالت کے فائدے سمجھا رہے ہیں یہ عدالت انہی ظالموں کا ہتھیار بنے گی انکا مزید کہنا تھا کہ لاٹھی گولی کی سرکار اقتدار کے ایوانوں پر تو قابض ہو جاتی ہے لیکن عوام کے دلوں پر راج قائم نہیں کر سکتی میاں علی اشفاق نے ردعمل دیا کہ بے شرمی اور بے غیرتی کی حقیقی شکل و صورت یہ ھے- کیسے بھیڑیے خودساختہ و جعلی کمینے حکمران یہاں قابض ھیں- رائے مختار کا کہنا تھا کہ جس دن اس طرح بختاور اور آصفہ کو گھسیٹا گیا ، اس دن کے بعد یہ ظلم رک جائے گا سلطان سالارزئی نے ردعمل دیا کہ بےنظیر بھٹو کے نام پر سیاست کرنے والے زرداریوں کے کرتوت شاہد نے تبصرہ کیا کہ یہ ہے بلاول بھٹو کی جمہوریت ۔۔لندن سے اعلی تعلیم یافتہ سندھ کی بیٹی کو سندھ میں مذہبی روادری کے لیئے پرامن ریلی کرنے پر یوں سڑکوں پر گھسیٹا جارہا ہے۔۔۔ڈوب مرو بلاول تم اور تمھاری نام نہاد جمہوریت معروف دانشور نورالہدٰی شاہ نے تبصرہ کیا کہ اسلام آباد میں آپکوخبر ہےبھی کہ نہیں؟مذہب کےنام پر ریاستی دہشتگردی کےخلاف سندھ رواداری مارچ میں شامل سندھ کےباشعور/ناموَرنوجوانوں/ بچیوں/عورتوں پرسندھ پولیس کاتشدد پیپلزپارٹی کوسندھ میں کھاجائےگا انہوں نے مزید کہا کہ آپکی سندھ میں موجودپارٹی تماشا دیکھتی رہ جائےگی۔سندھ کاشعورہماری ریڈلائن ہے صوبان افتخار کا کہنا تھا کہ کراچی کی شاہراہوں پر پولیس کے ہاتھوں گھسیٹے جانے والی یہ ایک روماسہ جامی نہیں ہے بلکہ یہ بلاول بھٹو کی نام نہاد جمہوریت کی دعویدار سندھ حکومت کا عمومی رویے کا برملا اظہار ہے جو وہ دہائیوں سے دھونس اور دبدبے کے ذریعے شکیل نے طنز کیا کہ ویلکم ٹو پرانا پاکستان علی زیدی نے ردعمل دیا کہ یہ ہے بلاول اور سندھ حکومت کا گھناؤنا چہرہ سبی کاظمی نے بلاول کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ آپ بے غیرت ہیں جو خواتین پر ظلم کرتے ہیں۔۔۔ جبران نے لکھا کہ نظیر کے صوبے میں بلاول کا ظلم وستم ہمیشہ یاد رکھا جائے گ احمد بوباک کا کہنا تھا کہ اس تصویر کو سالوں یاد رکھا جائے اور بتایا جائے گا کہ عورت کی بدترین تذلیل کراچی میں ہوئی تھی اور تب پیپلز پارٹی کا دور تھا ایمان مزادی نے تبصرہ کیا کہ یہ پی پی پی کی جمہوریت ہے،منافق ترین جماعت جو آج بھی صرف درس دیتی ہے جمہوری اصولوں پر جب خود انکا کوئی اصول نہیں، صرف اقتدار کی لالچ ہے۔ کل جو کچھ ہوا وہ انکی حکومت میں کافی دفعہ پہلے بھی ہوچکا ہے اور کسی کا احتساب نہیں ہوا۔کبھی بلوچ خواتین کے ساتھ تو کبھی اور خواتین کے ساتھ۔
ڈکٹیٹرز اچھے بھی ہوتے ہیں، ذاکر نائیک کے بیان پر سوشل میڈیا پر تبصرے ڈاکٹر ذاکر نائیک کہتے ہیں کہ اگر ڈکٹیٹر قابل ہے، قرآن وحدیث پر عمل کررہا ہے تو وہ اچھا ڈکٹیٹر ہے،اسلام کو ایسے ڈکٹیٹر سے کوئی پرابلم نہیں باقی لوگوں کو پرابلم ہوسکتی ہے۔ ڈاکر نائیک نے حضرت عمر فاروق کی مثال دی کہ وہ انتہائی سخت گیر تھے، قرآن وحدیث پر عمل کرتے تھے، وہ ذرا بھی کمپزومائز نہیں کرتے تھے۔ سوشل میڈیا صارفین سوال اٹھارہے ہیں کہ کیا ذاکر نائیک کو اس ایجنڈے کی تکمیل کیلئے پاکستان بلایا گیا تھا؟ انکے مطابق یہ ہے وہ ایجنڈا جس کے لیے در اصل ڈاکٹر صاحب کو بلایا گیا تھا۔ رائے مختار نے تبصرہ کیا کہ ڈکٹیٹر ہمارے ہاں آمر کو کہا جاتا ہے جو کہ ایک منفی اصطلاح ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ڈکٹیٹر کہنا ذاکر نائیک کی جہالت کا ایک اور بڑا ثبوت ہے، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ڈکٹیٹر نہیں تھے وہ باقاعدہ منتخب ہو کر آئے تھے عدنان حفیظ کا کہنا تھا کہ ڈکٹیٹر پارسا بھی ھوتے ہیں؟ کیاریاست کے ستون منہدم کرکےاقتدار پرغاصب ھونا،قرآن وحدیث کی روشنی میں پارسائی ھے؟ عمر بن خطاب کوڈکٹیٹر قراردےدیا۔ کیاحضرت عمر آمر،مطلق العنان اورغاصب تھے؟ رہی قرآن وحدیث کی روشنی۔ رٹوطوطےکوکوئی بتلائےآٹھویں صدی سےپہلےحدیث کاوجودتھا نہ قانونی حیثیت- ندیااظہر نے سوال اٹھایا کہ کیا پاکستان میں ایک بار پھر ڈکٹیٹر شپ کی راہ ہموار کرنے کے لیے ذہن سازی کی جا رہی ہے؟ ایک صارف نے سوال کیا کہ اور جو آئین و قانون اور عدلیہ کے فیصلوں پر عملدرآمد نہ کریں لوگوں کو اغواء کریں ان کے لیے کیا حکم ہے؟؟؟
بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کا قیام قائداعظم کا خواب تھا۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں بلاول نے کہا کہ قائداعظم نے سب سے پہلے وفاقی آئینی عدالت کی تجویز پیش کی۔قائد اعظم نے پہلی مرتبہ وفاقی آئینی عدالت کی تفصیل 27 اکتوبر 1931 کو لندن میں منعقدہ گول میز کانفرنس میں پیش کی انہوں نے مزید کہا کہ قائداعظم محمد علی جناح کی یہ تجویز تقریباً پی پی پی کی پیش کردہ تجویز سے مماثلت رکھتی ہے۔قائداعظم نے کہا کہ کوئی بھی سوال جو وفاقی آئین سے متعلق ہو یا آئین سے پیدا ہو، اسے وفاقی عدالت میں جانا چاہئے سوشل میڈیا صارفین نے اس پر دلچسپ تبصرے کئے، انہوں نے کہا کہ قائدِ اعظم کی ترجیح ایک جائز آئینی عدالت ہو سکتی ہے، ارکان کے گھر والوں کو اغوا کرنا، ملازمین کو مارنا تو قائد اعظم نے نہیں کہا ہو گا مغیث علی نے ردعمل دیا کہ واہ واہ۔۔ قائد اعظم کا خواب تھا ؟ اس بات کا تو بھٹو صاحب کو بھی نہیں پتہ تھا، اگر پتہ ہوتا تو آئین میں وفاقی عدالت نہ ڈال دیتے علی رضا نے کہا کہ 1931 میں پاکستان ہی نہیں بنا تھا تو خواب کیسا۔ بلاول زرداری ہمیشہ سے ہی جھوٹ بول رہا ہے۔ علینہ شگری نے تبصرہ کیا کہ اور افسوس کہ یہ خواب 1947 میں اس لیے پورا نہ ہو سکا کہ اُس وقت آئینی عدالت کی ترمیم کے نمبرز پورا کرنے کیلئے پی ٹی آئی کے منحرف اراکین کی سہولت قائداعظم کو میسر نہیں تھی سعید بلوچ نے کہا کہ آئینی عدالت کا قیام قائد اعظم کا خواب تھا جسے بلاول کے نانا ذوالفقار بھٹو نے 1973 کے آئین کی تخلیق کے موقع پر پورا نہ ہونے دیا تھا شفقت علی نے سوال کیا کہ قائداعظم کی یہ ترجیح آئین بناتے ہوئے بلاول کے نانا کی نظر سے نہیں گزری؟؟ رحیق عباسی نے تبصرہ کیا کہ بلاول نے اپنے نانا کے خلاف چارج شیٹ کردی جنہوں نے قائد اعظم کے خواب کو کوئی اہمیت نہ دی اور آئینی عدالت کا 1973 کے آئین میں شامل نہیں کیا احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ قائدِ اعظم کی ترجیح ایک جائز آئینی عدالت ہو سکتی ہے، ارکان کے گھر والوں کو اغوا کرنا، ملازمین کو مارنا تو قائد اعظم نے نہیں کہا ہو گا فرحان منہاج نے ردعمل دیا کہ بلاول صاحب تھوڑی تحقیق کرکے یہ بھی بتائیں کہ قائد اعظم نے لوٹے خریدنے کا بھی نظریہ کہیں تو ضرور دیا ہوگا
سوشل میڈیا پر ایک مزاحیہ ویڈیو وائرل ہوئی ہےجس میں علی امین گنڈاپور کے پی ٹی آئی کے احتجاج میں ادا کیے گئے کردار کو طنز و مزاح سے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس ویڈیو پر سوشل میڈیا صارفین دلچسپ تبصرے کررہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا ایکٹوسٹ عون علی کھوسہ کے بھائی علی شیر کھوسہ نے سوشل میڈیا پر ایک اینی میٹڈ ویڈیو شیئر کی جس میں علی امین گنڈاپور کی اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات اور علی امین گنڈاپور کی جانب سے عمران خان کو پی ٹی آئی کے احتجاج کے حوالے سے بریفنگ دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ ویڈیو میں علی امین گنڈاپور کو عمران خان کے سامنے احتجاج کے دوران اپنی بڑائیاں کرتے اور عوام سے متعلق یقین دہانیاں کرواتے ہوئے دکھایا گیا ہے ، ویڈیو میں علی امین 2 بار عمران خان کے عوام سے متعلق سوال پر کہتے ہیں "چھوڑی عوام کو وہ تو مکمل طور پر آپ کے ساتھ ہیں"۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہونے پر لوگوں کی جانب سے اس کو بہت پسند کیا جارہا ہے اور علی شیر کھوسہ کے اس مزاح کو انجوائے کیا جارہا ہے، صارفین نے اس ویڈیو پر دلچسپ تبصرے بھی کیے ہیں۔ ایک صارف نے علی امین گنڈاپور کی گفتگو میں ایک جملے کا اضافہ کرتےہوئے کہا کہ علی امین کاکہنا ہے کہ"خان صاحب پوری عوام آپ کے ساتھ بلکہ ساتھ والے سیل میں ہے"۔ ایک دوسرے صارف نے کہا کہ جی عوام بالکل آپ کے ساتھ ہے، ساتھ والے سیل میں ہے۔ ایک پی ٹی آئی صارف نے بھی اس ویڈیو پر بجائے برا ماننے یا سخت ردعمل دینے کے اسے انجوائے کیا اور اس پر ہنسی کا اظہار کیا۔
سابق کرکٹر عامر سہیل اور پاکستانی پریزینٹر زینب عباس کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہےجس کی وجہ سے وہ سخت تنقید کی زد میں آگئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق ملتان ٹیسٹ میچ کے دوران پریزینٹر کے فرائض سرانجام دینے والی زینب عباس اور سابق کرکٹر عامر سہیل کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے،اس تصویر میں عامر سہیل، زینب عباس اور سابق برطانوی کرکٹراور کمنٹیٹر ناصر حسین میچ کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ تینوں کرکٹ ایکسپرٹس کو گرمی کی شدت سے بچانے کیلئے چھتریوں کا سہارا لینا پڑررہا ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ ناصر حسین نے اپنی چھتری کو خود تھاما ہوا ہے مگر عامر سہیل اور زینب عباس نے اس کام کیلئے گراؤنڈ اسٹاف کے ممبران کو اپنے پیچھے کھڑا کیا ہے جو ان کے سر پر چھتری کا سایہ کیے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس واضح فرق کو فوری طور پر محسوس کیا اور زینب عباس اور عامر سہیل کو شدید تنقید کا نشانہ بھی بنایا ساتھ ہی ناصر حسین کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔ ایک صارف نے کہا کہ گورے نے اپنی چھتری خود پکڑی ہوئی ہے کیونکہ وہ معذور نہیں ہے جبکہ ہمارے دونوں تجزیہ کار معذور ہیں ۔ ذوہیب نامی صارف نے کہا کہ ہمارے چھوٹے لوگ احساس کمتری کا شکار ہیں، جب بڑے بڑے عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں تو ایسی ہی حرکتیں کرتے ہیں۔
اسلام آباد کے خیبرپختونخواء ہاؤس کو سیل کر دیا گیا ترجمان سی ڈی اے کا کہنا تھا کہ ’پختونخوا ہاؤس کی لیز بھی ختم ہو چکی ہے اور یہ لیز 2006 میں ختم ہوئی مگر آج کی کارروائی تعمیرات کے قوانین کی خلاف ورزی پر کی گئی ہے۔‘ خیبرپختونخوا ہاؤس یل کرنے کے دوران خیبرپختونخوا ہاوس کے اندر سی ڈی اے عملہ اور اسلام آباد پولیس کے اہلکار موجود تھے اور خیبرپختونخوا ہائوس میں وزیراعلیٰ آفس بھی سیل کردیا ہے سی ڈی اے بلڈنگ کنٹرول ونگ نے خیبرپختونخوا ہائوس مین داخلی راستے کو بھی سیل کر دیا، فیملی بلاک میں رہائش پزیر فیملیز کو بلڈنگ خالی کرنے کیلئے 24 گھنٹے کی مہلت دیدی۔ اس پر صحافی علی اکبر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ خیبر پختونخوا ہاؤس خیبر پختونخوا صوبے کے لئے باعث عزت عمارت ہے ، انتقامی کاروائی کے تحت وفاقی حکومت کو کے پی ہاؤس کو سیل کرنا قابل افسوس اور قابل مذمت ہے رفاقت یوسفزئی نے کہا کہ انکی مت ماری گئی ہے۔ پنجاب اور وفاق سمیت وزیر داخلہ نے علی امین کا اب تک کیا بگاڑا ہے یا کونسا نقصان پہنچایا ہے؟ بلکہ الٹا انکی مشہوری کی جارہی ہے جیسے تحریک انصاف چیئرمین شپ کی تیاری ہو۔ پختونخوا ہاوس کو سیل کرنا شرمناک ہے۔ حکمرانوں کی ہر دوائی الٹا اثر کررہی ہے وسیم عباسی کا کہنا تھا کہ پتا نہیں کون ایڈوئس کرتا ہے۔ خیبر پختونخواہ ہاوس سیل کرنا غلط اور قابل مذمت ہے اور اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔۔ صحافی فہیم اختر نے تبصرہ کیا کہ اسلام آباد میں پاگل پن اپنے عروج پر پہنچ گیا ہے۔۔ وفاق میں ایک اکائی خیبرپختونخواہ ہاوس کو سیل کردیا گیا۔۔ کیا جان بوجھ کر علیحدگی پر مجبور کیا جارہا ہے؟ ثاقب بشر نے لکھا کہ لگتا ہے حکومتی سائیڈ سے بھی کوئی چاہ رہا ہے مرکز صوبے کی لڑائی ہر صورت بڑھے اجمل خان وزیر کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا ہاؤس اسلام اباد کو سیل کرنا قابل افسوس ہے۔۔۔“خیبر پختونخوا ہاؤس “خیبر پختونخوا صوبے کے لئے باعث عزت عمارت ہے صابر شاکر نے ردعمل دیا کہ یاست پاکستان کے صوبے خیبرپختونخوا کی ملکیت سرکاری ریاستی عمارت خیبرپختونخوا ہاؤس کو نقوی سرکار کے محکمے نے سِیل کردیاہے صوبوں قومیتوں کے مابین منافرت پھیلانے کا گھناؤنا اقدام جاری ہے خیبرپختونخوا اسمبلی ہاؤس میں غنڈہ گردی کی تحقیقات کا حکم دے چکی ہے صحافی نعمت خان نے تبصرہ کیا کہ “لسانی اور صوبائی عصبیت کو ہوا دینی والی اسٹبلشمنٹ اور رائیونڈ والوں کی وفاقی حکومت نے اسلام آباد میں واقع خیبرپختونخوا ہاوس کو سیل کردیا۔” ایک دوست کا تبصرہ
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ میں وہاں سے نکلا تو میری جیب میں پیسے نہیں تھے، 12 ضلعوں سے ہو کر یہاں پہنچا ہوں ، سوشل میڈیا صارفین علی امین گنڈاپور کی بات پر یقین نہیں کررہے اور کہہ رہے ہیں کہ علی امین گنڈاپور نے کہانی گھڑی ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جیب خالی ہو اور گنڈاپور خالی جیب 12 اضلاع پار کرکے پشاور پہنچ گئے ہوں؟ کیا گنڈاپور پیدل پشاور آئے تھے؟ انہوں نے مزید کہا کہ گنڈاپور جھوٹ بول رہے ہیں، اصل بات نہیں بتارہے، سارا ملبہ آئی جی پر ڈال رہے ہیں لیکن دیگر کرداروں کو بچارہے ہیں۔ عدیل حبیب نے اس پر ردعمل دیا کہ گنڈاپور کی کہانی کا نہ سر ہے نہ پیر ہے احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ علی امین گنڈا پور نے ساری ملبہ آئی جی اسلام آباد پر ڈال دیا، محسن نقوی سمیت باقی تمام افراد کو کلین چٹ راشد نے کہا کہ گنڈاپور خالی جیب نیو خان بس والوں کو اپنا سٹوڈنٹ کارڈ دکھا کر 12 ضلعوں کا مفت سفر کرکے پشاور پہنچا فلک جاوید کا کہنا تھا کہ ایسے سفید جھوٹ سے بہتر تھا کالا سچ بتا کر مستعفی ہو جاتے کم از کم عوام کی نظروں میں سرخرو ہو جاتے صدیق جان نے کہا کہ علی امین گنڈا پور کو یہ ڈرامے کرنے کے بجائے مستعفی ہو جانا چایئے تھا انہوں نے مزید کہا کہ علی امین گنڈا پور سب کو جاہل سمجھتا ہے، یہ جھوٹ بول رہا ہے اور منہ سے ہوائی فائرنگ کررہا ہے۔ محمد عمیر نے طنز کیا کہ چن کتھاں گزاری ای دن تے رات وے شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ آج ثابت ہو گیا کہ اٹھائے جانے والا ہر شخص واپس آکر محض یہی بیان دیتا ہے کہ میں تو شمالی علاقاجات کی سیر کو گیا تھا چاہے وہ ایک صوبے کا وزیر اعلی ہی کیوں نہ ہو سلمان شریف نے طنز کیا کہ میری ایک ٹانگ نقلی ہے میں ہاکی کا بہت بڑا کھلاڑی تھا ایک دن ادے بھائی کو میری کسی بات پر غصہ آیا میری ٹانگیں توڑی دل کے بہت اچھے تھے ہسپتال لے گئے نقلی ٹانگ لگوائی آج اسمبلی پہنچ گیا بلال غوری کا کہنا تھا تجسس کی معذرت،جیب میں پیسے نہیں،ناکے ،تلاشی،گنڈا پور اسلام آبادسے پشاور پہنچنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟باالخصوص 12اضلاع والی بات ہضم نہیں ہورہی۔جو بھی راستہ اختیارکریں، راولپنڈی،اٹک،نوشہرہ،مردان،چارسدہ اورپشاورکے علاوہ کوئی ساتواں ضلع شامل نہیں ہوسکتا۔رہنمائی فرمائیں کس راستےگئےہونگے سعید بلوچ نے ردعمل دیا کہ علی امین گنڈاپور اپنے لاپتہ ہونے کے علاوہ باقی تمام غیر ضروری باتیں کر رہا ہے، جو عوام سننا چاہتی ہے وہ نہیں بتا رہا، جو بتا رہا وہ جھوٹ بتا رہا ہے اسد چوہدری نے تبصرہ کیا کہ علی امین گنڈاپور مسلسل جھوٹ بول رہے ہیں۔ یہ تاثر انکی بادی لینگویج سے واضح ہورہا ہے۔ انکو معلوم نہیں پڑ رہا ہے کہ انہوں نے کیا بولنا ہے، کیا کہنا ہے، کس موضوع پر کیسے بات کرنی ہے۔ وہ گزشتہ شب کا مدعا آئی جی پر ڈال کر فرار چاہتے ہیں مگر سچ بولنے سے کتراتے دکھائی دے رہے ہیں۔ احمد ابوبکر نے تبصرہ کیا کہ علی امین گنڈہ پور اپنی توپوں کا رخ اسٹیبلشمنٹ کی جانب نہیں کر رہے۔۔۔ کیا اسے میچ فکس اورطعلی امین گنڈا پور کا سرنڈر سمجھا جا ئے؟ ارسل نیازی نے کہا کہ ایسے سفید جھوٹ سے بہتر تھا کالا سچ بتا کر مستعفی ہو جاتے کم از کم عوام کی نظروں میں سرخرو ہو جاتے۔ عامر خوانی نے تبصرہ کیا کہ علی امین گنڈاپور نے پوری تحریک انصاف کو شرمندہ کرایا اور ان کے کارکنوں کو تکلیف دی ہے۔ اب جو کم از کم کام علی امین کو کرنا چاہئیے وہ وزارت اعلی سے استعفا ہے۔ ڈیمیج کنٹرول پھر بھی نہیں ہو گا مگر اسمبلی میں سفید جھوٹ بولنے پر مستعفی ہونے کا مطالبہ تو بنتا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے مبینہ طور پر حکومتی لسٹ میں شامل کیے گئے 2 ارکین اسمبلی نے بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے آئینی ترامیم کی مخالفت اور پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق چوہدری الیاس بیرون ملک چلے گئے ہیں جبکہ عادل بازئی بلوچستان میں ہیں اور حکومت کی رسائی سے دور ہیں۔یہ دونوں ایم این ایز تحریک انصاف کی حمایت سے جیتے تھے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر صحافی فہیم اختر ملک نے اپنی ایک ٹویٹ میں انکشاف کیا کہ رکن قومی اسمبلی عادل بازئی اور الیاس چوہدری نے آئینی ترامیم کے معاملے میں حکومت کا ساتھ نا دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ن لیگ اور ق لیگ کیجانب سے ان اراکین کے خلاف اسپیکر کو ریفرنس بھیج دیا گیا ہے، اگر یہ سیٹ چلی گئی تو نقصان حکومت کو ہی ہوگا۔ صحافی احمد وڑائچ نے کہا کہ نواز شریف کو عادل بازئی اور شجاعت حسین کو چوہدری الیاس کے بارے میں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انہوں نے بجٹ سیشن کے دوران پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا، حالانکہ ایوان میں کوئی گنتی نہیں ہوئی بلکہ یس اور نو کی بنیاد پر ووٹنگ ہوئی، پھر یہ کیسے طے کرلیا گیا کہ ان دونوں نے بجٹ میں مخالف ووٹ دیا؟ انہوں نے اپنی دوسری ٹویٹ میں کہا کہ عادل بازئی کا کہنا ہے کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کا بیان حلفی دیا، اس کے بعد انہیں ن لیگ میں شامل کرنا بدنیتی ہے۔ صحافی محمد عمیر نے کہا کہ عادل بازئی اور چوہدری الیاس کے ساتھ جو بھی ہوا مگر انہوں نے اہم وقت پر غائب ہوکر اپنی وفاداری ثابت کردی۔ علی رضا نے کہا کہ عادل بازئی اور چوہدری الیاس دونوں ہی پی ٹی آئی کی حمایت سے جیتے مگرالیکشن کمیشن نے ان دونوں کو ن لیگ اور ق لیگ میں شامل کردیا، بجٹ میں ان دونوں نے پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیا تو ان کے خلاف پارٹی صورت نے اسپیکر کو ووٹ دیا، چالیس سال بعد نواز شریف اور شجاعت حسین کی سیاست یہ ہے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرٹیکل 63 اے سے متعلق فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر نظرِ ثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے کہا ہے کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں دیا جائے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ نہ محفوظ کیا گیا اور نہ ہی سماعت کے دوران کسی قسم کا وقفہ لیا گیا اور فیصلہ سنادیا گیا۔۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر صحافی شدید تنقید کررہے ہیں اور اسے فلور کراسنگ اور لوٹاکریسی کی سہولت کاری قرار دے رہے ہیں۔ وقاص اعوان نے تبصرہ کیا کہ چیف جسٹس نے ہر موقع پر حکومت کو ریسکیو کیا ہے الیکشن ہوں تو انتخابی نشان چھین لو بندے پورے نہ ہون تو دوبارہ گنتی کروا کہ سیٹیں چھین لو مخصوص نشستیں چھین لو پھر بھی بات نہ بنے تو عین موقع پر ہارس ٹریڈنگ کی اجازت دے دو کمال کا منصف ہے محمد عمیر نے تبصرہ کیا کہ بلے کا نشان چھینا،ٹربیونلز کو کام سے روکا،سیٹیں چھین کردیں،فلور کراسنگ کا راستہ کھولا،اس سے زیادہ اور سہولت کاری کیا ہوگی؟ احمد بوبک نے ردعمل دیا کہ قاضی فائز عیسٰی جمہوریت کا دشمن بشارت راجہ نے تبصرہ کیاکہ جس کیس میں عمران خان فریق ہو اور وہ کیس قاضی القضاۃ قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت میں ہو اُس کا فیصلہ آئین اور قانون نہیں بلکہ خواہشات کے مطابق دیا جاتا ہے احمد وڑائچ نے تبصرہ کیا کہ ری کاؤنٹنگ میں 3 سیٹیں دیں، فلور کراسنگ پر عائد پابندی بھی ہٹا دی، اب بھی ترمیم نہ ہو سکی تو حضرت نے سرف کھا لینی ہے اظہر صدیق ایڈوکیٹ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے نے کرپشن کے دروازے کھول دے!! ووٹ خریداروں کی بولیاں کروڑوں تک جا پہنچی رائے ثاقب کھرل نے طنز کیا کہ چھانگا مانگا کی طرف جانے والی سڑکیں صاف ستھری ہیں وسیم ملک نے طنزیہ ہیڈلائین دی کہ سپریم کورٹ کے 5 رکنی گروہ نے فلور کراسنگ کی اجازت دے دی سحرش مان نے ردعمل دیا کہ بلاول کے نام قاضی کا اہم پیغام میں نے اپنے حصے کا کام کر دیا اب تمہارے حوالے سندھ ہاؤس کی منڈی ساتھیو زبیر علی خان نے لکھا کہ کینگرو کورٹ آف پاکستان نے فلور کراسنگ کی اجازت دیدی فیضان کا کہنا تھا کہ فیصلہ تو کر لیا گیا تھا سنایا آج گیا ہے، سب کو معلوم تھا صدیق جان کا کہنا تھا کہ سیاسی جسم فروشی حلال ہے،قاضی اور اس کے یاروں کا فیصلہ ثاقب بشر نے لکھا کہ فلور کراسنگ کا رستہ کھل گیا سپریم کورٹ نے درست فیصلہ بھی ایسے وقت میں دیکر سسٹم کو سہولت فراہم کی ہے محمد اشفاق کا کہنا تھا کہ تیز ترین انصاف ،،، تاریخ رقم طارق متین نے کہا کہ غیر قانونی کمیٹی کا غیرقانونی بینچ فلور کراسنگ کی اجازت دے کر بیٹھ گیا اب ترمیم کے لیے راستہ کھول دیا ہے
راتوں رات شہرت کی بلندیوں پہ پہنچنے والا بچے حیدر نے جنید سلیم کے شو میں پاکستان میں کسانوں کی تباہی بارے بات کی اور کسانوں کے حالات سامنے رکھ دئیے اس نے پنجابی زبان میں کہا کہ مونجی دا ریٹ ہی نئیں صحیح ہون ڈیا، بندے تپے اے نیں، اسی مر گئے آں، ایہہ ریٹ ای نئیں صحیح کردے، اینہاں سانوں کھا چھڈناں اے‘‘ یعنی چاول کی فصل کا ریٹ مناسب نہیں، لوگ غصے میں ہیں، ہم مر گئے ہیں، یہ ہمیں کھا جائیں گے یہ کلپ سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہوا اور اس پر دلچسپ تبصرے ہوئے۔ فارم 45 نامی ایکس اکاؤنٹ کا کہنا تھا کہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پہ پہنچنے والا بچہ حیدر "پاکستان میں کسانوں کی تباہی بارے بات کرتے ہوئے" اسکی گفتگو سننے کا مزہ آتا ہے لیکن پھر بھی میری گزارش ہے کہ میڈیا اس بچے سے دور رہے عمران بھٹی نے تبصرہ کیا کہ یہ بچہ بھی بدتمیز ہے،،یہ بھی آواز بلندکرتاہے،،،،،منجانب گدھ صحافی،لگڑ بگڑ ،مداری اور انکے آقا مزنج شاہ نے لکھا کہ مجبوریاں اور حالات انسان کو وقت سے پہلے سمجھدار بنا دیتے۔ خرم مغل کا کہنا تھا کہ سیانت کسی کی میراث نہیں
مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نےعمران خان کے پیچھےچلنے والی عوام کو بھیڑ بکریاں قرار دیدیا ہے، سوشل میڈیا نواز شریف کے بیان پر پی ٹی آئی کارکنان اور عوام کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ" بھیڑ بکریوں کی طرح پیچھے چلنے والے اس (عمران خان) سے پوچھیں کہ 50 لاکھ گھر کہاں ہیں"۔ نواز شریف کی جانب سے نام لیے بغیر عمران خان اور ان کے پیچھے کھڑی عوام سے متعلق یہ ریمارکس عوام کو بالکل پسند نہیں آئے، پی ٹی آئی رہنماؤں، کارکنان اور عوام نے نواز شریف کے اس بیان پر ان کو آڑے ہاتھوں لے لیا۔ عمران ریاض خان نے کہا بھیڑ بکریاں وہ ہیں جنہیں ہم نے چند دن پہلے پارلیمان میں ہانکتے ہوئے دیکھا۔ 47 والے ایم این ایز اپنی مرضی سے باتھ روم بھی نہیں جا پا رہے تھے۔ اور ایک بڑی بھیڑ تو ایسی ہے جسے ترمیم تک ہر حال میں باہر جانے سے روکا گیا ہے۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ شہر بانو نے کہا کہ ہم بھیڑ بکریاں نہیں باشعور عوام ہیں جنہوں نے آپ کے خاندان کو مسترد کیا، یہ ایسٹ انڈیا کمپنی طرح آتے ہیں پاکستان پر حکومت کرتے ہیں اور جیسے ہی حکومت ختم ہوتی ہے تو واپس برطانیہ بھاگ جاتے ہیں۔ صحافی طارق متین نے کہا کہ یاسمین راشد سے شکست کھانے والے کو دکھ بس یہ ہے کہ ان کیلئے عوام باہر نہیں نکلی، میاں صاحب لوگ پتلی گلی سے نکلنےو الوں کیلئے باہر نہیں نکلتے۔ عمران بھٹی نے کہا کہ جو قائد کے پیچھے نہیں چلتے اور قائد کو ووٹ نہیں دیتے وہ بھیڑ بکریاں ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجا نے اس بیان پرردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مجھے ان کی ذہنی حالت پر تشویش ہے، یہ عوام کو آج بھیڑ بکریاں کہہ رہے ہیں کیونکہ ان کو ووٹ نہیں ڈالا، یہ تین بار ملک کا وزیراعظم بننے والا شخص ہے جو عوام کے شعور کی روز توہین کرتا ہے اور خود پر مصیبت پڑتی ہے تب بھی عوام کو کوستا ہے کہ یہ باہر نہیں نکلے۔ https://x.com/Salmanrajaakram/status1841463220609110188 عبدالباسط نے کہا کہ یہ شخص اس ساری عوام کو بھیڑ بکریاں کہہ رہا ہے جو آئینی حق استعمال کرتے ہوئے احتجاج کرتے ہیں، جب لوگ ان کیلئے نہیں نکلتے تو لوگ ذمہ دار، اور اگرعمران خان کیلئے نکلیں تو بھیڑ بکریاں۔ پی ٹی آئی کارکنان نے کہا کہ کسی نے تو اتنی گارنٹی دی ہے جو آج پٹہ کھولا گیا ہے اور پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی اور قوم کو بھیڑ بکریاں قرار دیا جارہا ہے، اب لفافی حرام خوروں کو اخلاقیات یاد نہیں آئے گی۔ لال ماہی نے کہا کہ تین بار وزیراعظم اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانے والے کا لیول چیک کریں، عمران خان کے کروڑوں سپورٹرز اور چاہنے والوں کو بھیڑ بکریاں کہہ دیا۔ ڈاکٹر امتیاز اعوان نے کہا کہ بھیڑ بکریاں آپ کے وہ پیروکار ہیں جنہیں آپ کی لوٹ مار اور ناجائز اثاثے نظر نہیں آتے، ہم باشعور ہیں جو ہر چیز پر نظر رکھتے ہیں۔ سردار امتیاز نے کہا کہ وہ 50 لاکھ گھروں کا نہیں بتاسکتے تو آپ عدالت میں لندن والے گھر کا بتادیتے ۔ https://x.com/SardarImtiazMa3/status1841454487732408461 ایک صارف نے کہا کہ انہیں چار دہائیوں پر محیط سیاست پر بھی عقل نہیں آئی، آج کی تقریر میں نواز شریف صوبائیت کو ہوا دے رہے تھے۔
نجی خبررساں ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں شیطان کی تعریفیں شروع ہوگئیں، کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا۔ تفصیلات کے مطابق نجی خبررساں ادارے سماء ٹی وی کے ڈیجیٹل چینل کے ایک پروگرام میں شریک لالہ رخ نامی خاتون نے نا صرف شیطان کی تعریفیں کیں بلکہ شیطان سے اپنی ملاقات اور شیطان کا حلیہ بھی بیان کردیا۔ لالہ رخ نے کہا کہ" میں نے شیطان کو دیکھا وہ انتہائی خوبصورت تھا، اس کی عمر پینتالیس پچاس ہوگی، اس نے گرے کلر کا سوٹ گرے ٹائی پہن رکھی تھی اور کیا اس کی مسکراہٹ تھی، شیطان بہت ایلی گینٹ تھا، وہ مجھے دیکھ کر مسکرایا اور کہا کہ سجدے کرکے دیکھ لیے، مانگ کر دیکھ لیا، ایک بار مجھ سے مانگ کردیکھو، "۔ شیطان کی تعریفیں کرنے والی اس خاتون کی گفتگو کو اپنے چینل پر نشر کرنے والے خبررساں ادارے سماء ڈیجیٹل کو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ صحافی و اینکر پرسن ملیحہ ہاشمی نے اس کلپ کو شیئر کرتے ہوئے شدید غم و غصے کا اظہار کیا اور کہا کہ سماء ٹی کی چینل انتظامیہ شرک اور شیطان کی پرستش کو فروغ دے رہی ہے، یہ آنٹی اللہ کے بجائے شیطان سے مدد مانگنے کو بڑھا چڑھا کر پیش کررہی ہے اور یہ چینل اس گفتگو کو نشر کررہا ہے۔ صحافی و اینکر اجمل جامی نے خاتون کی گفتگو پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سماء ٹی وی کی خصوصی پیشکش پر تالیاں۔ حمیرا وجاہت نے کہا کہ پاکستان میں شیطان اور جنات کی عبادات سکھائی جارہی ہے، ان سے پہلے عورت مارچ والے مردوں کوٹرانسجینڈر اور ہم جنس پرست بننا سکھارہے تھے، اپنے گھروں کی حفاظت کریں اور اللہ کے راستے پر آئیں۔ راجا فیصل نے کہا کہ یہ کیا ہورہا ہے یہ عورت شیطان کو کس طرح گلیمرائزڈ کرکے بتارہی ہے۔ ایک صارف نے کہا کہ ہمارے میڈیا اور لبرل آنٹیوں نے شیطان کو بھی گلوریفائی کرنا شروع کردیا ہے، ان محترمہ کو سماء والوں نے بطور مہمان کیوں بلایا ہے؟ حیدر چٹھا نے کہا کہ خدا مرکز ہے اور اس کی زندگی کی اخلاقیات، قانون اور علم اسی مرکز سے نکلتے ہیں، یہ ایک یقین ہے ، جو اس پر یقین نہیں رکھتے وہ آزاد ہیں شیطان سے مدد مانگنے میں اور اس کی پیروی کرنے میں۔ ساحر مقصود نے کہا کہ علیم خان کے سماء ٹی پر شیطان کو خوبصورت بتایا جارہا ہے، جیسے برائی کو فیشن ویک میں لے آیا ہو، کیا اب شیطان ماڈلنگ بھی کرے گا؟ اگر ریٹنگز مل گئیں تو وہ اپنی کاسمیٹکس بھی لانچ کردے گا، اب تو شیطان بھی ہمارے معاشرے کا حصہ بننے کو تیار ہے۔
ایران اسرائیل کشیدگی پر پاکستانی وزیردفاع کا ردعمل سامنے آگیا ہے۔ پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف نے اسرائیل ایران کشیدگی پر دعمل دیتے ہوئےعمران خان کی ایک تصویر شئیر کی جس میں انہوں نے عدالت پیشی پر حفاظتی ٹوپ پہنا ہوا ہے۔ قاتلانہ حملے کے بعد عمران خان کو کسی جانی نقصان سے محفوظ رکھنے کیلئے یہ ٹوپ پہنایا جاتا تھا جو ایک بلٹ پروف ٹوپ ہے خواجہ آصف نے تصویر شئیر کرتے ہوئے کہا اسرائیل کو مشورہ دیا کہ اسرائیل کو عمران خان سے اس آئرن ڈوم کی ٹیکنالوجی لینی چاہئے۔ انہوں نےمزید کہا کہ ویسے بھی رشتے داری ہےکوئی میزائل نہیں وڑ سکے گا شرطیہ۔۔ یہ دنیا کی بیسٹ ٹیکنالوجی ہے۔ صحافی ثاقب بشیر نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے وزیر دفاع ایران اسرائیل کشیدگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے ۔۔ !! ٹرولز اور وزیر دفاع میں کوئی فرق نظر آئے تو بتائیں ؟ وسیم اعجاز جنجوعہ نے تبصرہ کیا کہ پاکستانی وزیر دفاع خواجہ صاحب جگتیں مار کر ہی ملک کا دفاع کر سکتے ہیں ۔۔ ویسے جگتوں سے یاد آیا اگر بات مراثیوں تک ا گئی ہے تو پاکستان کو دنیا سے صلح ہی کر لینی چاہیے عرفان علی نے تبصرہ کیا کہ یہ پاکستان کا وزیر دفاع ہے؟ اس کی سوچ دیکھیں. کیا نمونے ہمارے اوپر مسلط ہیں ارشاد کا کہنا تھا کہ آخر ہو نہ رنگباز، رنگبازی تو دکھاؤ گے عمرخیام نے تبصرہ کیا کہ ہمارے وزیردفاع کی ذہنی پستی کا لیول چیک کریں ،،،ذرا سعدیہ مظہر نے تبصرہ کیا کہ وزیر دفاع۔۔ ملک کا دفاع کرتے ہوئے اور خطے میں کشیدگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے
گرفتاری کے دوران پولیس اہلکاروں کی جانب سے سیمابیہ طاہر کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کا انکشاف۔۔ سیمابیہ طاہر کو گزشتہ روز راولپنڈی میں احتجاج کے دوران گرفتارکیا گیا تھا۔ تحریک انصاف کی گرفتار رہنما سیمابیہ طاہر نے عدالت پیشی پر انکشاف کیا کہ خالد نامی پولیس اہلکار نے اور اس کے ساتھ سول کپڑوں میں ملبوس نقاب پوش نے میرا دوپٹہ پھاڑا، میرے گریبان پے ہاتھ ڈالا اور میرے سر پر مارا، ان سے ضرور حساب لیا جائے گا کیا سیمابیہ طاہر کا یہ دعویٰ درست ہے؟ گزشتہ دنوں راولپنڈی احتجاج کے دوران ویڈیو نے سیمابیہ طاہر کے دعوے کی تصدیق کردی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مرد پولیس اہلکار سیمابیہ طاہر کو گرفتار کر کے لے جا رہا ہے اور ڈنڈے مار رہا ہے چل۔چل اور پھر موبائلز چھین لئے گئے اور اسے گریبان سے پکڑ گرفتار کر کے لے جا رہا ہے اس ویڈیو میں دیکھاجاسکتا ہے کہ ارد گرد سادہ کپڑوں والے ہیں جبکہ پاکستانی قانون کے مطابق کسی خاتون کو گرفتار کرنے کیلئے لیڈی کانسٹیبل کا ہونا ضروری ہے۔ ادریس عباسی نے ویڈیو شئیر کرتے ہوئے کہا کہ جمہوری معاشرہ جلسے،احتجاج کی اجازت دیتا ہے،عدلیہ،پارلیمان ہمارے حقوق کے تحفظ کے لیے بنی ہیں لیکن اگر تمام مسائل سڑکوں پر حل ہونے ہیں تو پارلیمان،عدالتوں کی کیا ضرورت؟جب بھی کوئی اچھا لیڈر ابھرتا ہے اس کا راستہ ہی روک لیا جاتا ہے،ان مفاد پرست حکمرانوں نے ملک کا بیڑا غرق کر دیا ہے سلمان درانی کا اس پر کہنا تھا کہ جلد یا بدیر ان کے گریبان اسی عوام کے ہاتھ میں ہونگے اور ان کو انہی سڑکوں پر گھسیٹا جائے گا۔
پولیس نے 80 سالہ بزرگ خاتون پر احتجاج میں شرکت کی بنیاد پر دہشتگردی کا پرچہ درج کر لیا اور اسے گرفتار کرلیا اسی سالہ روشن بی بی کو انسداد دہشتگردی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں جج نے ایک روزہ جسمانی ریمانڈ دیا یہ تصویر سوشل میڈیا پر خوب وائر ل ہوئی اور سوشل میڈیا صارفین نے تبصرے کرکے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ نعیم ضرار نے ردعمل دیا کہ اس 80 سالہ بزرگ خاتون روشن بی بی کا چہرہ وہ روشن آئینہ ہے جس میں پنجاب کی چیف منسٹر عورت اپنا بھیانک چہرہ دیکھ سکتی ہے۔ عائشہ بھٹہ کا کہنا تھا کہ جس کو گرفتار کرتے ہیں، قوم اسے ہیرو بنا دیتی ہے۔۔آج 80 سالہ روشن جہاں بیگم اس مزاحمتی تحریک کا ابھرتا ہوا چہرہ ہیں بشارت راجہ نے تبصرہ کیا کہ یہ دو فوٹو ہیں ایک میں ضعیف والدہ جو ریاست سے اپنا حق مانگنے نکلی اور اُسے دہشتگرد بنا دیا گیا جبکہ دوسری طرف ایک ٹک ٹاکر خاتون ہے جو اٹک پُل پر فوٹو شوٹو کروانے کے بعد واپس خیبر پختونخواہ چلی گئی اور کچھ نابغہ روزگاروں کا کہنا ہے کہ وہ تحریک انصاف کی لیڈر ہے ثمینہ پاشا نے تبصرہ کیا کہ سنا ہے پنجاب پولیس کے شیر، کڑیل ،جری، دلیر، لیگی اہلکاروں نے ایک بہہہہہہت خطرناک، ظالم ، طاقت ور، مطلوب، پھولن دیوی دہشت گرد کو پکڑ کر سینے پر فخر کا تمغہ سجایا ہے۔۔ ڈوب کے مر جاؤ ۔۔ بےشرمو فریحہ ادریس نے تبصرہ کیا کہ 80 سالہ عورت کو تہذیب یافتہ معاشروں میں ویٹرن کا درجہ مِلتا ہے اور ہمارے مُلک میں انھیں احتجاج کرنے پر ریمانڈ پر بھیج دیا؟ کیا سوچنے سمجھنے کی تمام صلاحیتیں ختم ہو چکی ہیں؟ عبید بھٹی نے تبصرہ کیا کہ سلطنت شریفیہ میں عزت صرف کلثوم نواز اور مریم نواز کی ہے، احترام، عورت ہونا، بزرگی، سب کچھ صرف ان چند خاندانوں کیلیے ایکسکلوژو ہے۔ ورنہ انکے خلاف احتجاج کرنے والی بوڑھی بزرگ عورت بھی خطرناک دہشت گرد ہے۔ ویسے لعنت تو پنجاب پولیس کے ان شیر جوانوں پر بنتی ہے جو اپنا ضمیر اس خاندان کو بیچ چکے ہیں عامرعباسی نے معنی خیز تبصرہ کیا کہ دہشتگردی کے مقدمے میں زیر حراست اماں جی احتشام عباسی نے تصویر شئیر کرتے ہوئے ٹوٹے دل کا ایموجی شئیر کیا بشارت راجہ نے تبصرہ کیا کہ ہاتھ میں تسبیح لئے ضعیف والدہ کا قصور یہ ہے کہ وہ اپنے حق کی مانگ کے لیے گزرے روز سڑک پر نکلی ریاست نے اُسے دہشت گرد ٹھہرا دیا مگر ایک بات یاد رکھیں کہ پاکستان بدل رہا ہے تمہیں جلد یا بدیر واپس جانا ہو گا اور یہ لکھا جا چکا ہے فرحان کا کہنا تھا کہ اٹھیں مریم نواز حکومت کے خلاف آواز بلند کریں ایک ضعیف ماں کو دھشت گردی مقدمے میں نامزد کرنا خود ایک بڑی دھشتگردی ہے زین قریشی نے تبصرہ کیا ک ہحکومت کی بے شرمی اور ظلم کی انتہا ہو چکی ہے۔ چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہاں تک کہ 80 سالہ روشن بی بی اور اسد اللہ ممبر قومی اسمبلی کی 13 سالہ بچی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ روشن بی بی کو راولپنڈی لیاقت باغ میں پرامن احتجاج کے دوران گرفتار کیا گیا اور ریمانڈ پر پیش کیے جانے کے باوجود انہوں نے وکٹری کا نشان بنا کر فاشسٹ حکومت کو پیغام دیا کہ ان ہتھکنڈوں سے عوام کا عزم کمزور نہیں ہوگا۔ یہ حکومت اخلاقی پستی کی تمام حدیں عبور کر چکی ہے، مگر خان کی قیادت میں حقیقی آزادی کا سفر جاری رہے گا اور قوم متحد ہے۔ احمد وڑائچ نے کہا ک پنجاب حکومت نے اس ضعیف خاتون کو دہشتگردی کے کیس میں گرفتار کیا، عدالت نے ایک روز کا جسمانی ریمانڈ بھی دیا۔ پولیس تفتیش کرے گی۔ریاست ہو گی یزید کے جیسی رضوان غلزئی نے کہا کہ“میں پاکستان کی شہری، پاکستان کی مالک ہوں”۔ پاکستان میں جب جمہوریت بحال ہوگی تو یہ تصویر پارلیمنٹ ہاؤس کی دستور گیلری کا حصہ بنے گی۔ حماداظہر نے تبصرہ کیا کہ روشن بی بی کی عمر 80 سال سے اوپر ہے اور انھیں راولپنڈی لیاقت باغ کے احتجاج کے حوالے سے گرفتار کیا گیا ہے۔ ان پر فارم 47 کی جعلی حکومت نے اپنے جیسا جعلی دہشت گردی کا پرچہ کیا ہے زبیر علی خان نے ردعمل دیا کہ تم اس لیے خاموش ہو کہ یہ تمہاری ماں نہیں ہے ادریس عباسی نے عظمیٰ بخاری کو مخاطب کیا کہ آپ آج ٹی وی پر بیٹھ کر بھاشن دی رہی تھیں کہ پنجاب میں قانون کی حکمرانی ہے یہ کیسی حکمرانی ہے ایک 80 سالہ بزرگ خاتون پر دہشتگردی کا مقدمہ درج کروا دیا؟یہ کون سے قانون کی حکمرانی ہے پنجاب میں ؟، افسوس آپکے قانون اور آپکی بدتہزیب پولیس پر عثمان فرحت کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حیوان صفت لبرلز کے مطابق قاضی فائز عیسی کی بیوی کا ڈونٹ نہ کھانا 80 سالا ماں کو گرفتار کرنے سے بڑا مسئلہ تھا!!
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کے خط کا جواب دیتے ہوئے جسٹس منیب اختر پر سنگین الزامات لگائے اور جسٹس منیب اختر کے روئیے کو سینئر ججز کیساتھ درشت قرار دیا ۔ ثاقب بشیر نےخط کا متن شئیر کرتے ہوئے کہا کہ 13 ستمبر کو سپریم کورٹ میں جوڈیشل کمیشن رولز کمیٹی کی میٹنگ میں جسٹس منیب اختر نے ممکنہ آئینی ترامیم کی وجہ سے کمیٹی اجلاس ملتوی کرنے کا موقف اپنایا پھر کہا میں متفق نہیں اور کمیٹی سے اٹھ کر چلے گئے انہوں نے مزید کہا کہ اٹارنی جنرل نے واضع نہیں کیا ترامیم آرہی ہیں یا نہیں پھر اگلے دن 14 ستمبر کو آئینی ترمیم لانے کے لئے حکومت تیار بھی تھی جس نے جسٹس منیب اختر کے موقف کو درست ثابت کیا ۔۔۔۔ ثاقب بشیر کا مزید کہان تھا کہ اب اس تناظر میں نیا معاملہ کھل گیا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منیب اختر کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی سے الگ کرنے کی 11 وجوہات میں سے ایک وجہ یہ دی ہے کہ وہ 13 ستمبر کی میٹنگ میں سے واک آؤٹ کر گئے تھے ان کا رویہ درست نہیں تھا دیگر صحافیوں نے بھی اس پر ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ اس خط سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈیننس جسٹس منیب اختر کو نکلوانے کیلئے جاری کروایا گیا۔یہ خط خود چیف جسٹس کے خلاف چارج شیٹ ہے صحافی وسیم ملک نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس منصور علی شاہ کو جوابی خط لکھ کر خود کو ہی چارج شیٹ کردیا ہے، کیونکہ جسٹس منیب اختر کمیٹی سے نکالنے کی جو وجوہات لکھی گئی ہیں وہ چیخ کر گواہی دے رہی ہیں کہ وفاقی حکومت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس قاضی فائز عیسیٰ کی خواہش پر ہی جاری کیا سہیل رشید کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے نکالنے کی وجوہات لکھنا تھیں لکھ ان کے جوڈیشل آرڈرز سے زاتی اختلاف دیا ہے۔ انکے مطابق لگتا ہے یہ جسٹس منیب کو کمیٹی سے نہیں، سپریم کورٹ سے نکالنے کا آرڈر ہے۔ ایڈہاک ججز کو اہم کیسز نہ دینا ہی اکلوتی کمیٹی رکن والی وجہ ہے ابوذرسلمان نیازی نے ردعمل دیا کہ قاضی صاحب تاریخ دانوں کے لیے اتنا ریکارڈ چھوڑ رہے ہیں کہ انھیں تاریخ کی تاریک کوٹھریوں میں پھینک دیں۔ سعید بلوچ کا کہنا تھا کہ اگر سپریم کورٹ میں مقدمات کی لائیو سٹریمنگ نہ ہوتی تو شاید عوام قاضی صاحب کے اس الزام کو مان بھی لیتی کہ جسٹس منیب اختر واقعی ساتھی ججز کے ساتھ نامناسب رویہ رکھتے ہیں لیکن بھلا ہو لائیو سٹریمنگ کا کہ عوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قاضی صاحب مقدمات کی سماعت کے دوران ساتھی ججز کے ساتھ کس طرح کا تضحیک آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں، ان کا لہجہ کتنا درشت ہوتا ہے ۔ سعید بلوچ کے مطابق وہ نہ صرف خود ججز کو جھڑکتے اور ڈانٹ ڈپٹ کرتے ہیں بلکہ وکلاء سے بھی ججز کی تضحیک کرواتے ہیں اور اس پر مکمل طور پر خاموش رہتے ہیں اور پردہ بھی ڈالتے ہیں، جیسا مخصوص نشستوں سے متعلق کیس میں الیکشن کمیشن کے وکیل کو غلط رویے پر جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس عائشہ ملک صاحبہ سے معذرت بھی نہ کرنے دی تھی سحرش مان کا کہنا تھا کہ قاضی فائز عیسی کا جسٹس منصور علی شاہ کو جوابِ شکوہ احتشام کیانی نے تبصرہ کیا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے جسٹس منصور علی شاہ کو لکھے گئے خط میں جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے نکالنے کی وجوہات نے مکمل طور پر واضح کر دیا کہ قاضی فائز عیسٰی کے کہنے پر ہی ملی بھگت سے وفاقی حکومت نے پریکٹیس اینڈ پروسیجر آرڈیننس جاری کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس صاحب حکومت سے بھی زیادہ جسٹس منیب اختر سے تنگ تھے اور ان کے ہی کہنے پر جسٹس منیب کو کمیٹی سے نکالنے کا بندوبست کیا گیا. آرڈیننس جاری ہونے کے فوری بعد کمیٹی کی تشکیلِ نو بھی یہی بات بتاتی تھی لیکن اب تو حکومت اور عدلیہ کے سربراہ کی ملی بھگت مکمل طور پر کُھل کر سامنے آ گئی ہے۔ احتشام کیانی کا مزید کہنا تھا کہ اب جبکہ وفاقی حکومت چیف جسٹس صاحب پر اتنی مہربان ہے تو چیف جسٹس کیونکر اُس حکومت کے جاری کردہ آرڈیننس کو چھیڑیں گے یا اگر کل کو آئینی ترامیم کی جاتی ہیں تو کیسے اُس کی قانونی حیثیت کا جائزہ لیں گے؟ انہوں نے مزید کہا کہ چیف جسٹس کے ایگزیکٹو کے ساتھ اِس معاشقے کے بعد جسٹس منیب اختر کا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے متعلق سماعت کے دوران سامنے لائے گئے خدشات درست ثابت ہوئے اور سپریم کورٹ عملی طور پر ایگزیکٹو کے تحت ہو گئی ہے جس سے Tricotomy of power کا تصور بالکل ختم ہی ہو کر رہ گیا ہے اور یہ ملک کے مفاد میں قطعی طور پر نہیں ہے
سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے سابق وفاقی وزیر حماداظہر اور معروف ٹی وی اینکر شفاء یوسفزئی کی شادی سے متعلق جھوٹی خبروں کا طوفان برپا ہے جس کی نہ صرف حماداظہر نے بلکہ شفاء یوسفزئی نے بھی تردید کی ہے۔ شفاء یوسفزئی نےایسی خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ڈئیر آل۔۔ یہ واضح رہے کہ میں نے کسی سے شادی نہیں کی! تاہم سوشل میڈیا مہم، جس میں مجھے نشانہ بنایا گیا ہے انہوں نے مزید کہا ک یہ مجھے یاد دلاتا ہے، جیسا کہ اسے تمام کام کرنے والی خواتین کو یاد دلانا چاہیے، کہ مردانہ تسلط والے پاکستان میں عورت کتنی کمزور ہے، ہمیشہ اپنے وجود کی وضاحت کرتی رہتی ہے۔ (یہ پہلا موقع نہیں ہے جب مجھے اس طرح نشانہ بنایا گیا ہو)۔ شفاء یوسفزئی کا کہنا تھا کہ میں تمام سوشل میڈیا سائٹس سے درخواست گی گا کہ وہ اس بکواس کو حذف کردیں اور تمام مہذب مردوں اور عورتوں اس قسم کی کمپین کا ٹارگٹ بنانا بند کردیں انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ ان تمام لوگوں کا بھی بہت شکریہ جنہوں نے تعاون کیا۔ حماداظہر نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ سوشل میڈیا پر میرے حوالے سے جھوٹی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ براہ کرم ایسے تمام اکاؤنٹس اور کلک بیٹس کو رپورٹ کریں انہوں نے مزید کہا کہ اس قسم کی حرکتیں ہمیں اپنے مقصد سے نہیں ہٹاسکتیں جو پاکستان کو ظلم سے نجات دلانے کے کئے ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا صارفین سے اپیل کی کہ اس قسم کی خبروں کو رپورٹ کریں اور پھر نظر انداز کریں۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہےجس میں ایک بچے پراعتمادانداز میں پولیس اہلکار سے مرغی چوری کی شکایت کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، بچے کا انداز اور گفتگو اتنی معصومانہ ہےکہ دیکھنے والا اس ویڈیو کو شیئر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں نظر آنے والا بچہ پنجابی زبان میں ایک پولیس اہلکار کو اپنی مرغی چوری کی داستان بتارہا ہے اور پولیس اہلکار سے کہہ رہا ہے کہ مرغی چور کو پکڑ کر اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ یونیفارم پہنے بچے نے اپنی کمر پر ہاتھ کر پورے اعتماد سے پولیس اہلکار کو بتایا کہ پہلے ایک دوسرا پولیس والا آیا تھا جس سے میں نے چوزے چوری ہونے کی شکایت کی تھی، اس پولیس افسر نے میری شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو پکڑ لیا تھا۔ ویڈیو بنانے والے پولیس اہلکار نے بچے کو جواب دیا کہ وہ مرغی چور کے خلاف پرچہ کٹوائے گا، بچے نے سوال کیا کہ پرچہ کٹوانے کیلئے پیسے کتنے لگیں گے؟ پولیس اہلکار نے جواب دیا کہ پرچہ کٹوانے کے کوئی پیسے نہیں لگیں گے۔ بچے کی معصومانہ گفتگو اور پراعتماد انداز نے لوگوں کی توجہ فورا ہی اپنی جانب کھینچ لی، لوگوں نے اس ویڈیو کو تیزی سے شیئر کیا بچے کی تعریف کی اور پولیس سے بچے کی شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے مرغی بازیاب کروانے کا مطالبہ کردیا ہے۔ عائشہ بھٹہ نے تبصرہ کیا کہ ہم سے زیادہ تو اس بچے کے پولیس ڈیپارٹمنٹ میں تعلقات ہیں
گزشتہ دنوں فاقی دارالحکومت اسلام آباد کے علاقے شمس کالونی تھانہ کے سب انسپکٹر صہیب پاشا کو مختلف علاقوں میں بھیک مانگنے والے بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق شمس کالونی تھانہ کے ملزم صہیب پاشا نے اسلام آباد کے پمز ہسپتال سے 2 بچوں کو اٹھا لیا اور غیرقانونی طور پر 2 دنوں تک اپنے پاس رکھا لیکن کسی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا۔ملزم صہیب پاشا نے پمز ہسپتال سے 12 سالہ عبداللہ اور 11 سالہ عبدالرحمن کو بدفعلی کا نشانہ بنایا اور اس دوران ان پر لاٹھیوں اور جوتیوں کے ساتھ تشدد بھی کیا۔ پولیس ذرائع کا کہنا تھا کہ صہیب پاشا بچوں سے بدفعلی اور انہیں تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد ایدھی سنٹر میں چھوڑ گیا۔ اینکر ابصا کومل نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ پولیس جس نے لوگوں کا تحفظ دینا ہوتا ہے وہاں ایسے زہنی مریض اور درندے بھرتی ہے۔ انتہائی دلخراش واقعہ ہے، اس اسلام آباد پولیس اہلکار نے غریب مزدور کے دو کمسن دس اور بارہ سالہ بیٹوں کو اغوا کیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ شمس تھانے کے تفتیسی افسر کے کمرہ اور نجی ڈیرہ میں ان کے ساتھ زیادتی کرتا رہا، ایک دن دیگر پولیس اہلکاروں نے اسکو رنگے ہاتھوں پکڑا ، تو جان چھڑواتے ہوئے بچوں کو ایدھی سینٹر چھوڑ آیا۔ اسلام آباد پولیس جو اب کڑے احتساب کا دعوی کر رہی ہے، تب حرکت میں آئی جب سوشل میڈیا پر اس واقعے کی خبر وائرل ہو چکے تھی۔ قاسم سوری کا کہنا تھا کہ ہمارے محافظ:اسلام آباد پولیس اہلکار نے غریب مزدور کے دو کمسن دس اور بارہ سالہ بیٹوں کو اغوا کیا، شمس تھانے کے تفتیسی افسر کے کمرہ اور نجی ڈیرہ میں ان کے ساتھ زیادتی کرتا رہا، ایک دن دیگر پولیس اہلکاروں نے اس کو رنگے ہاتھوں پکڑا تو جان چھڑوانے کے لیے بچوں کو ایدھی سینٹر چھوڑ آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلام آباد پولیس جو اب کڑے احتساب کا دعویٰ کر رہی ہے تب حرکت میں آئی جب سوشل میڈیا پر اس واقعے کی خبر وائرل ہو چکی تھی۔ تنویر اعوان کا کہنا تھا کہ دس اور بارہ سال عمر ہی کیا ہوتا ہے اس نے دو معصوم زندگیاں تباہ کردی ہیں۔مگر کیا اس کو سزا ہوگی؟ جواب ہے نہیںکیونکہ یہ پاکستان ہے یہاں سب چلتا ہے خورشید خٹک کا کہنا تھا کہ پولیس جس نے لوگوں کا تحفظ دینا ہوتا ہے وہاں ایسے زہنی مریض اور درندے بھرتی ہے۔ آزاد چوہدری نے تبصرہ کیا کہ اسلام اباد پولیس کا سب انسپیکٹر سہیب پاشا جس نے دو نا بالغ لڑکوں کے ساتھ زیادتی کی اس طرح کی اور نا جانے کتنی کالی بھیڑوں سے پولیس بھری پڑی ہے
گزشتہ دنوں خواجہ آصف نے علی امین گنڈاپور کو چیلنج کیا تھا کہ علی امین گنڈاپور اٹک پل کراس کرکے دکھائے، ہم اسکا انتظار کررہے ہیں۔ علی امین گنڈاپور نے خواجہ آصف کا چیلنج پورا کرتے ہوئے نہ صرف اٹک پل کراس کیا بلکہ لاہور تک پہنچ گئے مگر جگہ جگہ کنٹینرز اور رکاوٹیں ہونے کی وجہ سے جلسہ گاہ وقت پر نہ پہنچ سکے۔ جلسہ گاہ پہنچ کر علی امین گنڈاپور نے مختصر تقریر کی اور چلے گئے۔ خواجہ آصف نے ردعمل دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گنڈاپور صاحب ایک سوچے سمجھے پروگرام کےتحت جلسے میں تاخیر سے پہنچے تا کے تقریر نہ کرنی پڑے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنہوں نے تقریر کرنی ھوتی وہ ھر قیمت پہ پہنچتے ھیں۔ کچھ پچھلی تقریر کی معافی تلافی وجہ ھے کے ساری بھڑکیں وڑگئی ھیں نہ لشکر آیا نہ گنڈا پور آیا نہ تقریر ھوئی۔ یہ لوگوں کو چ سمجھتے ھیں۔ عمران خان نامی صارف نے تبصرہ کیا کہ کھسیانی بلی کھمبا نوچےتم نے چیلنج کیا تھا گنڈاپور اٹک کا پُل کراس کر کے دیکھائے۔۔۔ اُس نے اٹک پُل بھی کراس کیا اور تمام رکاوٹین توڑ کر جلسہ گاہ میں بھی پہنچا اب تم رو پٹو چیخیں مارو خان ٹائیگر نے خواجہ آصف کا کلپ شئیر کرتے ہوئے خواجہ آصف کو بے شرم کہا علی رضاخان نے تبصرہ کیا کہ خواجہ صاحب آپ نے ایک کے بعد ایک رکاوٹ ڈالی تاکہ علی امین گنڈاپور پہنچ نہ سکے۔ ان کے قافلے کو لاہور سے باہر روک لیا گیا تھا۔ آپ نے کہا تھا علی امین گنڈاپور اٹک پل کراس کرکے دکھائیں۔ وہ لاہور آئے بلکہ جلسہ گاہ پہنچے کارکنوں سے بغیر ساؤنڈ کے خطاب کیا اور چلے بھی گئے۔ میاں وقاص محمود کا کہنا تھا کہایسے کرکے گنڈہ پور نے تمہارا رنگبازی کا پلان ملیا میٹ کر دیا۔ کیونکہ تمہیں معلوم آرمی اور پی ٹی آئی ہی اصل طاقت ور 2 قوتیں اس ملک میں باقی تم لوگ شامل باجے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمہارا پلان تھا آرمی کے خلاف سخت تقریریں ہوں، دونوں لڑتے رہیں اور تمہارا مچھی شورا چلتا رہے اسرار احمد جان نے تبصرہ کیا کہ واجہ صاحب یہ باتیں بعد میں ہو جائیں گی پہلے یہ بتائیں اپ نے تو کہا تھا کہ اٹک کا پل کراس نہیں کرنے دیں گے اگلا گھر میں گھس کے ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کے چیر کے نکل گیا ہے اب کیا کرنا ہے بہت پریشانی ہو رہی ہے جلال قاضی نے ایموجی کے ذریعے مزاحیہ ردعمل دیا دایان ملک نے طنز کیا کہ خواجہ صاحب بات اٹک پل کی ہوئی تھی آپ اپنی بات سے مکر رہے ہیں

Back
Top