سوشل میڈیا کی خبریں

ملک بھر میں سوشل میڈیا صارفین شدید پریشان ہیں, واٹس ایپ اور انسٹاگرام ایپلی کیشن کی بندش کی اطلاعات نے مزید پریشانی بڑھادی, پاکستان میں انٹرنیٹ صارفین نے زونگ اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ کی جانب سے فراہم کردہ انٹرنیٹ سروسز میں رکاوٹوں کی شکایات ارسال کی پیں۔ سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے واٹس ایپ اور انسٹاگرام ایپلی کیشنز میں بھی بندش سامنے آرہی ہیں,انٹرنیٹ کی بندش پر نظر رکھنے والی ویب سائٹ ڈاؤن ڈیٹیکٹر کے مطابق ایک گھنٹے کے دوران انسٹاگرام صارفین نے ایپلی کیشن میں بندش کی تقریباً 86 شکایات دیں، واٹس ایپ صارفین کی جانب سے آج صبح 10 بجکر 45 منٹ تک ایپلی کیشن میں سست روی اور بندش کی اطلاعات دیں۔ ڈاؤن ڈیٹیکٹر کی رپورٹ کے مطابق واٹس ایپ صارفین کی جانب سے کہا گیا کہ ایپلی کیشن کے ذریعے تصاویر ڈاؤن لوڈ کرنے اور کسی دوسرے صارف کو بھیجنے میں مشکلات کا سامنا ہے جب کہ وائس نوٹ بھیجنے میں بھی کافی وقت لگ رہا ہے۔ ڈاؤن ڈیٹیکٹر نے مزید کہا کہ نیٹ ورک فراہم کرنے والے زونگ اور پی ٹی سی ایل نے بھی صبح سے بندش کی اطلاع دی تھی۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی جانب سے اس معاملے پر کسی قسم کا تبصرہ نہیں کیا گیا۔پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی نے اگست میں ملک بھر میں انٹرنیٹ سروسز ’اکتوبر کے شروع‘ تک سست رہنے کی توقع ظاہر کی تھی، پی ٹی اے کی جانب سے کہا گیا تھا کہ انٹرنیٹ میں سست روی کی اصل وجہ سب میرین کبیل ہے جس کی مرمت اکتوبر تک کردی جائے گی۔ پی ٹی اے حکام نے کہا تھا ملک بھر میں انٹرنیٹ کی سست روی بنیادی طور پر پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر جوڑنے والی 7 بین الاقوامی سب میرین کیبلز میں سے دو میں خرابی کی وجہ سے ہے۔ٹیلی کام اتھارٹی نے مزید کہا کہ ایس ایم ڈبلیو-4 سب میرین کیبل میں خرابی اکتوبر 2024 کے اوائل تک ٹھیک ہونے کا امکان ہے جب کہ سب میرین کیبل اے اے ای-1 کی مرمت کر دی گئی ہے جس سے انٹرنیٹ صارفین کی مشکلات میں کمی آئے گی لیکن صارفین اب تک مشکلات کا شکار ہیں۔
پیپلزپارٹی کے سینیٹر رضاربانی کے بارے میں خیال ہے کہ وہ انتہائی جمہوریت پسند اور آمریت کے ہتھکنڈوں کے خلاف ہیں مگر عامرمتین اور دیگر صحافیوں نےانکی حقیقت بتادی کہ وہ جمہوریت کے کتنے بڑے چمپئین ہیں۔ عامرمتین نے رضاربانی کو جمہوریت پسند سمجھنے پر معافی مانگ لی اور کہا کہ میں اپنی غلطی کی معافی مانگتا ہوں۔ رضا ربانی ہمارا بھی ہیرو تھا۔ اس نے پارلیمان میں جمہوریت گلی رکھوائی اور ایک کتاب بھی لکھی اور پھر ایک دفعہ فوجی جرنیل کو توسیع دیتے ہوئیے آنسو بھی دکھائے۔ اس کے بعد ان کا ضمیر سو گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ زرداری نے ان کی بہت بے عزتی بھی کی مگر وہ بس کتاب لکھ کر دوستوں کو بجھواتے رہے۔ اب اعتزاز کی طرح وہ بھی فارغ کر دیے گئے ہیں مگر ذرا بھی شرم نہیں کرتے کہ پرانے جذبات کا ذرا اظہار کر دیں۔ کمزور لوگ تھے کیا؟ انہوں نے مزید کہا کہ ہم بے وقوف تھے کہ ان پر امید لگا بیٹھے تھے کہ یہ بہت منافق تھے کہ اختیار کے مزے لے کر گھر چلے گئے۔ شاید ہم ہی بے وقوف تھے۔ صحافی نعمت خان نے ردعمل دیا کہ رضا ربانی صاحب بہت ساروں سے بہتر سیاستدان ہیں، لیکن وہ کتنا اصول پسند ہیں؟ ایک واقعہ سن کر فیصلہ کیجیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ربانی صاحب نے ۶ جنوری ۲۰۱۵ کو جب ۲۱ ویں آئینی ترمیمی بل، جس کے نتیجے میں فوجی عدالتیں قائم ہوئیں، کے حق میں ووٹ دیا تو ان کی آنکھوں میں آنسو اور زبان پر یہ الفاظ تھے:"میں ۱۲ سے زائد برسوں سے سینیٹ میں ہوں، مگر میں کبھی اتنا شرمندہ نہیں ہوا جتنا آج ہوں۔ میں نے اپنی ضمیر کے خلاف ووٹ دیا۔"۔ نعمت خان نے مزید کہا کہ فوجی عدالتوں کے موضوع پر کوئی ڈیبیٹ ہو اور ربانی صاحب کے قیمتی آنسو اور وہ سنہرے الفاظ ہوں جو انہوں ادا کیے تھے تو پھر کسی اور کو مہمان خصوصی کیسے بلا سکتا ہے۔ یہہی صورت حال کراچی یونین آف جرنلسٹس اور کراچی پریس کلب کے تحت منعقدہ سیمینار کے لیے بھی پیش آئی۔ انہوں نے کہا کہ ربانی صاحب نے بہ خوشی دعوت قبول کی اور سیمینار سے ایک دن قبل اپنی شرکت کی تصدیق بھی کی۔ مگر ۲۱ جنوری کو نہ تو انہوں نے فون اٹھایا اور نہ ہی تشریف لائے۔ اس کے ۵۱ دن بعد ربانی صاحب چئیرمین سینیٹ منتخب ہوئے اور ایک اہم قانون ساز فورم کے چئیرمین کی حیثیت سے ملک و قوم کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ ڈاکٹر شہباز گل نے عامر متین کے ٹویٹ پہ تبصرہ کیا کہ بد قسمتی سے یہ لوگ شروع سے ہی ایسے تھے۔ بھٹو صاحب سے بڑا آمر کون تھا۔ انہوں نے حنیف رامے صاحب کو ننگا کر کے لاہور قلعے میں پھروایا تھا۔ یہ سب دھوکے باز تھے۔ کوئی جمہوریت پسند نہیں تھے۔ شہباز نے ردعمل دیا کہ دراصل یہ ہمیشہ سے بہروپیے تھے بس ہمیں دھوکہ دیتے رہے اور ہم اپنی معصومیت میں انھیں جمہوریت کا چیمپئن سمجھتے رہے۔ لیکن اللہ تعلٰی نے ان بہروپیوں کے چہرے سے نقا ب کیچھینچ لی اور یہ بیچ بازار میں ننگے ہو گئے اکبر باجوہ نے تبصرہ کیا کہ متفق سر! مجھے بھی یہ گمان تھا لیکن مختار مسعود صاحب کہتے ہیں “یہ بھلا کہاں ضروری ہے کہ ایک بڑا آدمی تمام عمر بڑا ہی رہے۔ بعض آدمیوں کی زندگی میں بڑائی کا صرف ایک دن آتا ہے اور اس دن کے ڈھلنے کے بعد ممکن ہے کہ انکی باقی زندگی اُس بڑائی کی نفی میں بسر ہو جائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ” کیسا قحط الرجال ہے کہ تقریبا وہ تمام نابغے جو ہمیں گمان تھا کہ کسی حد میں اب بھی، ہر لحظہ پھیلتی ظلمت میں آواز کی شمع جلا سکتے ہیں، جرم کی حد تک صُمٗ بکمٗ ہیں ایک اور سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہو سکتی مگر ہمیں نہیں یہ نوٹنکی باز ہے ہم تو شروع سے جانتے ہیں اگر یہ سچا شخص ہوتا اور ملک سے مخلص ہوتا تو کبھی پیپلز پارٹی اور زرداری ڈاکو کے ساتھ نہ ہوتا
عمران خان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک پیغام جاری ہوا جس میں انکا کہنا تھا کہ اپنی قوم کو پیغام دیتا ہوں کہ ہفتے والے دن لاہور کے جلسے کے لیے کشتیاں جلا کر نکلیں- انہوں نے مزید کہا کہ اس ناجائز حکومت کے خلاف مزاحمت فرض ہے جو ہر آئین و قانون پسند شہری کو کرنی چاہیے کیونکہ یہ ہماری نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔ اس پر ن لیگ کی حمایتی صحافی اور تمغہ امتیاز حاصل کرنیوالی شمع جونیجو نے ناشائستہ تبصرہ کیا اور کہا کہ میں سمجھی کہ گشتیاں جلا کر نکلیں لکھا ہے۔۔۔ یادرہے کہ شمع جونیجو ٹی وی ڈراموں کی ناکام اداکارہ ہیں جنہیں ڈراموں میں عام طور پر معاون اداکارہ یا چھوٹے موٹے رول ملتے تھے بعد ازاں اداکاری کو خیر باد کہہ کر خود کو صحافی لکھنا شروع کردیا اور ن لیگ سے قربتیں بڑھالیں۔۔ اداکارہ کو 2023 میں صحافتی خدمات پر تمغہ امتیاز بھی مل چکا ہے شمع جونیجو پر صحافیوں نے تنقید کی لیکن اس نے اس پر بھی اپنی اصلاح نہیں کی اور کہا کہ سالا ایک لفظ پُوری پارٹی میں آگ لگا دیتا ہے ۔صرف ایک لفظ پر اُڑتا تیر تڑپ تڑپ کے لے رہے ہیں ۔حالانکہ کسی کا نام نہیں لیا، کسی کو اشارہ نہیں کیا لیکن چیکیں جاری کہ ڈاکٹر جونیجو یہ نے ہمیں کہا ہے شفیق احمد ایڈوکیٹ نے شمع جونیجو کو جواب دیا کہ اب جب پی ٹی آئی والوں نے اسکی طبیعت فریش کرنا شروع کرنی ہے تو اس نے عورت کارڈ کے بعد اپنا اگلا کارڈ استعمال کرنا ہے اور ایکسرے اٹھا کر آجانا ہے کہ میں کینسر کی مریضہ ھوں پاکستانی ریاست کا اندازہ اس ایک ٹویٹ سے کیا جا سکتا ہے۔ ریاست نے اس خاتون جو تمغہ امتیاز سے نوازا ہوا ہے۔ اس خاتون کی سوچ ہی ہماری ریاست کی موجودہ سوچ ہے۔ یہی لوگ موجودہ ریاستی میرٹ پر پورا اترتے ہیں وقاص بگا نے تبصرہ کیا کہ یہ کیا گندی سیاست ہے، کیسے کیسے کردار ہیں ۔جب یہ گفتگو ہو گی اور کسی عورت کی طرف سے نظریات کی مخالفت کی بنیاد پر مخالف سیاسی جماعت کی خواتین کیلئے ایسے الفاظ استعمال کیئے جائیں گے تو اخلاقی گراوٹ پر صرف افسوس ہوگا یاسر چیمہ نے ردعمل دیا کہ اور ابھی کسی نے اسے جواب دیا تو جیب سے عورت کارڈ نکل آنا ہے محمد عمیر کا کہنا تھا کہ آئینہ سب لوگوں کو انکا چہرہ ہی دکھاتا ہے آفتاب نے لکھا کہ جس گٹر کا ڈھکن اٹھاؤ، اندر سے تمغہ امتیاز نکلتا ہے صحافی اویس سلیم نے ردمعل دیا کہ یہی لغویات کسی پی ٹی آئی والے نے لکھی ہوتی تو انہیں معاشرے کی اخلاقیات یاد آ جاتیں اسد قریشی نے معنی خیز جواب دیا کہ زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے یہ کشتیاں ہی لکھا ہے اس لیے آپ سکون کریں۔ عمر کا کہنا تھا کہ جس کی جتنی عقل ہو وہ اتنا ہی سوچے گا اور سمجھے گا۔
حسن ایوب نے ایمان مزاری کا پرانا انٹرویو ڈھونڈ کے پراپیگنڈہ شروع کیا کہ وہ عمران خان دور میں اغوا ہوئی تھی۔۔ایمان مزاری نے کہہ دیا میں اگست 2023 میں اغواء ہوئی تھی۔۔ حسن ایوب کو اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کرنا پا اور معذرت کرنا پڑی تفصیلات کے مطابق حسن ایوب خان نے ایمان مزاری کا ایک کلپ شئیر کیا جس میں انہوں نے کہا کہ ایمان مزاری عمران دور حکومت میں اپنی گرفتاری کا قصہ بیان کرتے ہوئے جبکہ حقیقت اسکے برعکس تھی، ایمان مزاری اگست 2023 میں گرفتار ہوئی تھیں جب شہباز شریف کی پی ڈی ایم سرکار کی حکومت تھی جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ میں انکا کیس چلا اور وہ رہا ہوئیں حسن ایوب کو جواب دیتے ہوئے ایمان مزاری نے کہا کہ میں سمجھ سکتی ہوں اس انٹرویو کی تکلیف کسے ہورہی ہے لیکن جھوٹ بولنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ میری گرفتاری اگست 2023 میں ہوئی تھی اور اس انٹرویو میں میں نے پہلی دفعہ بیان کیا ہے میرے ساتھ کیا ہوا۔جبری گمشدگیوں اور بلوچستان پر بھی تفصیل میں بات کی ہے بعدازاں حسن ایوب نے اپنی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ ایمان مزاری کی عمران خان دور گرفتاری سے متعلق میرا ٹوئٹ درست نہیں ۔ معذرت
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن ٹربیونل تبدیل کرنے اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے خلاف کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کو تبدیل کرنے کے حکم کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ عدالت کی طرف سے معاملہ واپس الیکشن کمیشن کو بھیج دیا گیا ہے جس کے بعد اسلام آباد کے 3 حلقوں کا فیصلہ ایک بار پھر سے لٹک گیا ہے اور فیصلے پر صحافیوں کی طرف سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ سینئر صحافی بشارت راجہ نے اپنے پیغام میں لکھا: اسلام آباد ہائی کورٹ امام القضیان قاضی عامر فاروق کی عدالت نے الیکشن ٹریبونل کی تبدیلی اور الیکشن ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے خلاف کیس کا فیصلہ سنا دیا، اسلام آباد کے تینوں حلقوں میں مبینہ دھاندلی کے خلاف کیس ریٹائرڈ جج کو منتقل کرنے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار! امام القضیان نے معاملہ دوبارہ الیکشن کمیشن آف پاکستان بھیج دیا کہ دوبارہ فیصلہ کریں، الیکشن کمیشن دوبارہ سے فیصلہ کرے گا، قاضی عامر فاروق نے دوبارہ کیس لٹکا دیا! کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر نے ردعمل میں لکھا: الیکشن کمیشن نے دوبارہ وہی فیصلہ کرنا ہے، یوں بال کلیم اللہ سے سلیم اللہ سے ہوتی ہوئی دوبارہ کلیم اللہ کے پاس آئے گی! ثاقب بشیر نے لکھا: ایک چیز جو اہم ہے وہ یہ ہے کہ 10 جون سے تقریبا 3ماہ 10 دن آج تک جسٹس جہانگیری ٹربیونل کو کام نہیں کرنے دیا گیا پہلے 10 جون کو الیکشن کمیشن نے فیصلہ دیا پھر ہائیکورٹ نے ایک ڈیڑھ ہفتہ سٹے کیا، ایک دو سماعتیں ہوئیں پھر جسٹس جہانگیری ٹربیونل کو 14 جولائی کو مرکزی معاملات آگے بڑھانے سے روک دیا۔ عدالت نے 29 جولائی کو ایک دو دن کیلئے فیصلہ محفوظ کیا، ٹھیک 1ماہ 20 دن بعد سنایا اور جو سنایا وہ بھی عجیب ہے، دوبارہ الیکشن کمیشن کو کہا ہے دوبارہ ٹربیونل تبدیلی کا فیصلہ کریں وہ تو وہی فیصلہ کریں گے جو پہلے کر چکے۔ یوں پہلے بال الیکشن کمیشن پھر ہائی کورٹ اب پھر الیکشن کمیشن پھر دوبارہ ہائیکورٹ آئے گی، یوں جو چاہتے ہیں اسلام آباد الیکشن پٹیشنز جوں کی توں ہی پڑی رہیں ان کو بھی سہولت ملتی رہے گی! عدنان عادل نے لکھا:الیکشن پٹیشنز پر حکمت عملی یہ ہے کہ معاملہ کو الجھاتے جائو، تاخیری حربے استعمال کرتے رہو تاکہ ایک سال گزر جائے اور ریکارڈ تلف کر دیا جائے! فرحت اللہ خان نے لکھا:آج اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور دوبارہ کیس الیکشن کمیشن کے پاس بھیج دیا، جب ایک دفعہ الیکشن کمیشن نے غلط فیصلہ کر لیا تو دوبارہ بھیجنے کی کیا ضرورت! دوسرا عامر فاروق نے 55 دن تک یہ فیصلہ کیوں روکے رکھا ؟ یہ سب کچھ آئینی ترمیم اور ایکسٹینشن کے لیے ہو رہا ہے۔ حسنین احمد چوہدری نے لکھا: آسان الفاظ میں کہیں تو اسلام آباد کے تینوں حلقوں میں مبینہ دھاندلی کے خلاف اپیلوں کا معاملہ مزید لٹک گیا !
اسٹیبلشمنٹ کے حمایتی صحافی منیب فاروق نے تحریک انصاف کو بات چیت کی کھڑکی کھولنے کا طریقہ بتادیا۔۔ انکے مطابق بات جیت کی کھڑی آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دیکر کھولی جاسکتی ہے، ن لیگ نے بھی ایسے ہی کھولی تھی اپنے ویڈیو پیغام میں منیب فارق کہتے ہیں کہ مسلم لیگ کے جب برے حالات تھے تو باجوہ صاحب کی مدت ملازمت میں توسیع کا وقت آیا تھا اس وقت سب نے ووٹ دیے تھے تو پی ٹی آئی کو اس موقع کا فائدہ اُٹھانا چاہیے اور اسٹیبلشمنٹ کو خیر سگالی کا پیغام دے کر ووٹ دینا چاہئے تا کہ بات چیت کی کھڑکی کھولی جا سکے۔ مطیع اللہ جان نے تبصرہ کیا کہ ہر موقعے سے فائدہ اُٹھانے والے تحریک انصاف کو اِس موقعے سے فائدہ اُٹھانے کے فضائل بتا رہے ہیں۔ اسلام الدین ساجد نے ردعمل دیا کہ ھاھاھا یہ ترجمان اس حد تک تحریک انصاف نے مایوس کردیا ہے کہ اب پاگل پن کا شکار نظر آنے لگا ہے فرخ شہزاد نے ردعمل دیا کہ رسی جل گئی پر بل نہیں گیا۔ ترلے کرنے کیلئے پیغام رساں ایک بار پھر شکست کا اعتراف کرتے ہوئے لیکن دھکمیاں پھر بھی اسی طرح کہ ہم ترامیم کروا لیں گے۔ پہلے تو ان شخصیت کا نام زبان پر لو۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوسری بات کہ ملک کی خاطر جو تھوڑے مذاکرات کے دروازے کھلے تھے وہ انکے کرتوتوں کی وجہ سے ہم بند کر چکے ہیں۔ تیسری اور اہم بات کہ اسکے کچے مالک اپنے کچے ڈرافٹ کی ترامیم کروانے میں ناکام ہو چکے ہیں۔ اب فرنٹ پہ کوئی اور رکھ کے اپنی دہائیاں اپنے پاس رکھو اور ڈانگ کا انتظار کرو۔ ابوبکر نے لکھا کہ تو اچھا یہ وہ ہیں جو کہتے ہیں مجھے صحافی کہو۔کتنا بدنصیب ہیں ہم کہ ہمیں ان کو سننا پڑتا ہے طاہر نعیم ملک نے ردعمل دیا کہ وفاداری بشرط استواری کے درس کو تجزیہ کے نام پر بیچا جا رھا ھے ۔ شاہد اسلم نے تبصرہ کیا کہ پی ٹی آئی کو فائدہ اٹھاتے ہوئے آینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینا چاہیے تاکہ قاضی اور جنرل عاصم منیر کی ایسنٹینشن کی ٹینشن ختم ہو جس سے خیر سگالی کا راستہ نکلے، منیب بھائی نے نئے پیغام کے مندرجات پبلک کردیے
خواجہ آصف نے عمران خان کو ایک فاشست شخص ثابت کرنے کیلئے ایک نامکمل خبر شئیر کی جو 2020 کی تھی جب کورونا کی وبا عروج پر تھی اور عمران حکومت اس وبا کو روکنے کیلئے سمارٹ لاک ڈاؤن اور دیگر اقدامات کررہی تھی۔ ان دنوں پی ڈی ایم حکومت نے اعلان کیا کہ وہ عمران خان کے خلاف جلسے جلوس کرے گی جبکہ ان دنوں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد تھی۔ اس پر عمران خان نے ایک بیان دیا کہ جلسے میں کرسیاں دینے والوں پر مقدمہ درج ہوگا خواجہ آصف نے اس بیان کو اٹھایا لیکن یہ نہیں بتایا کہ عمران خان نے یہ بیان کرونا کی وجہ سے دیا۔ خواجہ آصف نے نامکمل خبر شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ یہ جمہوری ھے وزیراعظم تھا تو یہ بیان دیتا تھا۔ جلسے کے لئے کرسیاں دینے والوں پہ مقدموں کی دھمکیاں دیتا تھا۔ یہ اسکی اوقات تھی اور ھے۔ بڑے عہدوں سے لوگوں کی اوقات تبدیل نہیں ھوتی۔ کوئ شرم کوئ حیا اس پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے خواجہ آصف کو جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف کو جھوٹا قرار دیدیا۔ فوادچوہدری نے خواجہ آصف کو طنزیہ جواب دیتے ہوئے لکھا کہ میں آپ سے متفق ہوں اگر کرونا کے دنوں میں عمران خان نون لیگ کو جلسے کرنے دیتے آج پاکستان مختلف ہوتا۔۔ ہمارا ایک اور غلط فیصلہ کہ آپ کو کرونا سے بچایا ۔۔ عمران ریاض نے جواب دیا کہ کبھی کبھی ترس آتا ہے کہ کوئی شخص عمر کے اس حصے میں بھی کیسے لگاتار جھوٹ بول سکتا ہے۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ بیان کرونا کی وجہ سے تھا۔ ورنہ عمران خان کے دور میں آپ لوگ 3 دھرنے لے کر اسلام آباد آئے اور اس نے پورا موقع دیا۔ عمران خان کا بیان کورونا کے دوران تھا (6 دسمبر 2020)۔ اس سے اگلے دن ملک میں کورونا سے 58 افراد دم توڑ گئے تھے۔ خواجہ صاحب وبا دوران کوئی بھی جلسے جلوس کرتا تو اس پر مقدمے ہونے چاہیں تھے۔ افسوس تب بھی آپ کو عوام کا کوئی احساس نہیں تھا۔ ذیشان عزیز نے خواجہ آصف کو جواب دیا کہ عمر کے اس حصے میں بھی جس ڈھیٹائی سے آپ جھوٹ بول کر بیانیہ بنا رہے ہیں اس سے صاف واضع ہے کہ آپ کی سوچ صرف انتشاری اور انتقامی ہے جو جمہوریت کے لباس میں چھپی ہوئی ہے - مکمل خبر دیجیئے کہ کورونا واحد وجہ تھا اس بیان کے پیچھے. طلعت نے ردعمل دیا کہ منہ میں دانت نہیں پیٹ میں آنت نہیں پھر بھی جھوٹ پھیلانے میں اپکا کوئی ثانی نہیں۔کوووڈ میں جلسہ کرکے اپکو کوووڈ سے بچایا، باقی اپنے 3 دھرنے بھول گئے جہاں پر اپکو پوری آزادی تھی۔ جھوٹے پر اللہ کی لعنت۔۔ ظہیر نے تبصرہ کیا کہ خان صاحب صیح کہتے ہیں ایک تو یہ پڑھے لکھے نہیں اور دوسرا کوشش بھی نہیں کرتے خواجہ صاحب کوئی شرم ہوتی کوئی حیا ہوتی ہے اس سرخی کے نیچے یہ بھی پڑھ لیا ہوتا کہ" کرونا بے قابو پی ڈی ایم کے کچھ راہنماوں کا جلسے روکنے کا مشورہ" روکی نامی سوشل میڈیا صارف نے خواجہ آصف کو جواب دیا کہ کچھ لوگوں کو عقل چھوٹی عمر میں ہی ا جاتی ہے اور کچھ لوگ 72 سال کے ہو کر بھی عقل سے محروم رہتے ہیں۔ خواجہ اصف صاحب انہی لوگوں میں سے ایک ہیں جن کو 72 سال کی عمر میں بھی عقل نہیں ائی۔ یہ شخص پوری زندگی فوجیوں کے بوٹ چاٹتا رہا اور اب پوری خبر پڑھے بغیر پی ٹی ائی کو اخلاقیات کے طعنے دے رہا ہے۔ چول انسان پہلے پوری خبر تو پڑھ لیا کرو پروپیگنڈا کرنے کے لیے کچھ بھی اٹھا کر لگا دیتے ہو ارم زعیم کا کہنا تھا کہ کرونا کے دنوں میں ن لیگ نے بہت کوشش کی کہ بریانی کے لالچ میں لوگوں کو اکھٹا کیا جائے اور کرونا کو گھر گھر پھیلا کر لاشیں گرائی جائیں حالات اٹلی جیسے کر کے پھر عمران خان پر الزام لگا دیا جائے۔ شُکر الحمداللہ وزیراعظم خان نے شیطانی چال کو ناکام بنایا
پی ٹی وی کی رسائی چھوٹے بڑے تمام شہروں تک ہے, لیکن اس کے باوجود پی ٹی وی پر لائے گئے بڑے بڑے چہرے ناظرین کو اسکرین دیکھنے پر مجبور نہ کرسکے,جی ہاں 12 گھنٹے گزرنے کے بعد پی ٹی وی پر لاے گئے ہیروں نے کل ملا کر 165ویوز لیے. بات کی جائے اپنی دلچسپ رپورٹنگ اور منفرد انداز سے ہاد رہ جانے والے امین حفیط کی جن کی پی ٹی سی بھی کمال کی ہوتی ہے ان کے پروگرام کا ٹیزر بارہ گھنٹے میں صرف43 ویوز ہی لے سکا. بنش سلیم کا ٹیزر 12 گھنٹے میں صرف اکتالیس بار دیکھا گیا,نجم ولی کے پروگرام کا ٹیزر بھی صرف 41 لوگوں کی توجہ حاصل کرسکا جبکہ رضوان رضی کے پروگرام کے ٹیزر نے بھی کچھ خاص اثر نہ دکھایا,40 لوگوں نے ہی دیکھا۔ تینوں تجزیہ کار پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے جلد ہی پی ٹی وی پر صحافتی ذمہ داری نبھائیں گے لیکن ٹیزر تو فی الحال کچھ تہلکہ نہ مچاسکے. سوشل میڈیا صارفین بھی اتنے کم ویوز پراظہار خیال کررہے ہیں,کسی نے کہاویسے ان سے اچھا تو پھر میرا یوٹیوب چینل ہی ہے کسی نے کہا ویسے انکی قابلیت کرتوتوں اور زبانوں کے مطابق یہ ویوز ابھی بھی زیادہ ہیں۔ 6 ہونے چاہئیے تھے, ایک صارف نے طنزیہ لکھا یقیناً یہ جو اب کے 40 ویوز ہیں یہ پی ٹی وی کے ملازمین ہونگے.
نجی چینل کے شو میں گفتگو کرتے ہوئے منیب فاروق نے اظہر صدیق کو پنڈ کے چوہدری کی مثال دی اور پنڈ کے چوہدری کو ڈرانے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کہ جو پنڈ کا چوہدری ہوتا ہے ناں، جس سے آپ نے دانے بھی لئے ہوتے ہیں، اُس سے پھر اکڑتے نہیں ہیں، کیونکہ جب آپ اکڑتے ہیں تو وہ آپ کو کوٹتا بھی ہے اور ساتھ ڈھول بھی مارتا ہے سوشل میڈیا صارفین نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پنڈ کے چودھری نے اپنی دھاک بٹھانے اور جھوٹی بہادری کے قصے سنانے کے لیے کچھ نائی اور میراثی بھی رکھے ہوتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت منیب فاروق خود پنڈ کے چوہدری کی نوکری پہ ہے جس سے دانے لے رہا ہے سوشل میڈیا صارفین کے مطابق یہ مثال منیب فاروق پہ ہی فٹ ہوتی ہے جو آج کل اسٹیبلشمنٹ کے پے رول پہ ہے اور ٹی وی چینلز پہ آکر مخالفین کو چوہدری کا نام لیکر دھمکیاں لگاتا ہے احمد وڑائچ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک وقت آتا ہے نسل در نسل تقسیم کے بعد چودھری صاحب کی زمین ختم ہو جاتی ہے، دانے لینے والے مزدوری کرتے ہیں تو سروائیو کر جاتے ہیں۔ لیکن چودھری کے اثاثے ختم ہونے کے بعد حالات بہت خراب ہو جاتے ہیں۔ تو جناب والا چودھری کے پاس اب 'اثاثے' نہیں ہیں، دانے ختم ہو رہے ہیں اور کامے تگڑے بشیر چوہدری نے تبصرہ کیا کہ پنڈ کے چودھری نے اپنی دھاک بٹھانے اور جھوٹی بہادری کے قصے سنانے کے لیے کچھ نائی اور میراثی بھی رکھے ہوتے ہیں جو ہر جگہ اور ہر معاملے میں چودھری صاحب کی داستان شجاعت سنانا فرض عین سمجھتے ہیں۔ مطیع اللہ جان نے ردعمل دیا کہ اور جب آپ پنڈ کے چودھری کی جوتیاں سیدھی کرتے ہیں اور چودھری صاحب کے قصے سنا کر گاؤں والوں ڈراتے رہتے ہیں تو وہ آپ کو ایسا رینکر اینکر (Ranker Anchor)بنا دیتا ہے۔ لالہ مرتضیٰ نے ردعمل دیا کہ ہماری طرف تو پنڈ کے چوہدری نے مختلف پروگراموں میں اپنی تعریفیں کرنے کے لیے مراثی بھی رکھے ہوتے ہیں چوہدری ان مراثیوں کی وقتاً فوقتاً مالی مدد کرتا رہتا ہے چوہدری اپنے قیمتی لباس پرانے ہونے پر ان مراثیوں میں بانٹ دیتا ہے چوہدری کے گندے ، چنگے کاموں کا دفاع مراثی کرتے ہیں۔ کاشف نے کہا کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں؟ یہ اسٹیبلشمنٹ کو پنڈ کا چوہدری بناکر، لوگوں کی کٹ لگواکر صحافت کررہے ہیں یا میراثیوں کا کردار ادا کررہے ہیں؟ ذیشان عزیز نے ردعمل دیا کہ اور اگر آپ پنڈ کے چوہدری کی چپلیں پالش کریں ، حقہ گرم کریں اور پورے جہاں کو پنڈ کے چوہدری کے قصے سنا کر ڈراتے رہیں تو وہ آپکو بڑے ٹی وی چینل پر "اینکر" بھی لگوا دیتا ہے چوہدری سجاد کا کہنا تھا کہ پنڈ کے میراثی منیب جیسے بھی ہوتے ہیں جنکو خرچہ پانی ملے تو چوکیداروں کو بھی چوہدری بنا دیتے ہیں لعنت اس جیسے صحافیوں پر شہبازگل نے طنز کیا کہ چوہدری نے میراثی بھی ٹیسٹ ٹیوب رکھا ہوا ہے
قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے عطاء تارڑ کا کہنا تھا کہ پی ٹی وی کو منافع بخش ادارہ بنائیں گے، اینکر ماریہ ذوالفقار، بینش سلیم، نجم ولی، رضوان رضی اور امین حفیظ کو لے کر آئے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ سفارشی شوز سارے بند کر دیئے، پی ٹی وی کو نیا فیس دینگے، اپوزیشن کو بھی سپیس ملے گی۔ عبید بھٹی نے تبصرہ کیا کہ اپنے پالتو اور گھریلو نوکروں کو صحافت کے نام پر سرکاری مال سے نوازنا ہے تو ڈنکے کی چوٹ پر نوازیں اور کہیں کہ ہاں انہوں نے ہم سے وفاداری دکھائی ہے اسلیے سرکاری نوکری اور مال پر ان کا بھی حق ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ نجم ولی تو پہلے بھی ڈی جی پی آر ریلوے کی نوکری سے مستفید ہوچکا ہے۔ عوام نے بھلا آپکا کیا اکھاڑ لینا ہے حوصلہ کریں اور ڈنکے کی چوٹ پر بتائیں۔ لیکن یہ بھونڈی تاویل مت دیں کہ ہنس ہنس کر لوگوں کی وکھیاں دوہری ہوجائیں ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ یہ چہرے پی ٹی وی کو منافع بخش بنائیں گے، واہ کیا ویژن ہے ساجد اکرام نے طنز کیا کہ رضی داد اب پی ٹی وی کو آسمان کی بلندیوں تک لے جائگا لوگ لیری کنگ ۔ اسٹیفن سیکر ۔ مہدی حسن ۔ فرید زکریا وغیرہ کو بھول جائیں گے مبشر زیدی نے تبصرہ کیا کہ پی ٹی وی میں چوٹی کے اینکر بھرتی ہو گئے ہیں۔ اب قومی ٹی وی کو حکومت کی ٹی سی کی معراج پر پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا سلمان درانی کا کہنا تھا کہ نجم ولی خان، بینش سلیم، رضی دادا آزاد اور غیر جانبدار صحافت سے پی ٹی وی کو منافع بخش بنائیں گے۔ قیامت قریب ہے ایک سوشل میڈیا صارف نے ردعمل دیا کہ ن لیگ کو لاہور کے علاوہ ویسے کوئ جگہ نظر نہیں آتی۔ نادر بلوچ نے رضی دادا کی ایک پوسٹ شئیر کرتے ہوئے تبصرہ کیا کہ پی ٹی وی میں کسی اینکر کی بھرتی کا یہ معیار ہے صبیح کاظمی کا کہنا تھا کہ چہرے چیک کریں، رضی دادا، نجم اولیا، بینش بٹ، امین انجم حفیظ۔۔۔۔ ان لوگوں سے قسم اٹھواہیں انہوں نے خود کبھی پی ٹی وی دیکھا ہے؟ پہلے ہی لوگ تنگ تھے اب پی ٹی وی بین ہی ہونا رہ گیا ہے احتشام الحق نے تبصرہ کیا کہ باقی ممالک کے اسٹیٹ ٹی وی چینلز کہاں سے کہاں پہنچ گئے، اور ہمارےPtv پر بینش سلیم،نجم ولی،اور رضی کو لایا گیا تاکہ پی ٹی وی ترقی کر سکے۔ کوئی محبِ وطن اوراس ملک سےمحبت کرنے والا ایسا نہیں کرے گا۔آئندہ ہمیں یہ نہ بتائیں کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں،وہ ملک کی بہتری کے لیے کر رہے ہیں۔ صحافی ثناء اللہ خان کا کہنا تھا کہ کمال ہے ویسے ،اس قسم کی پوسٹیں کرنے والے اینکرز اب پی ٹی وی پر اپوزیشن کو سپیس دیں گے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی تقریر کے خلاف بیان دینے کے بعد ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف کو عہدے سے ہٹائے جانے کا امکان ہے۔ تفصیلات کے مطابق صحافی کامران علی نے اپنی ایک ٹویٹ میں بیرسٹر سیف کی جانب سے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی تقریر کے حوالے سے جاری کردہ بیان کے بعد کی صورتحال کی تفصیلات شیئر کیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ایک مرکزی رہنما کا کہنا ہے کہ واپس آنے کے بعد جب وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے بیرسٹر سیف سے جب ان کے بیان کے حوالے سے تفصیلات پوچھیں تو بیرسٹر سیف نے نا صرف اپنے بیان پر معذرت کی بلکہ ایک گھنٹے تک مسلسل اس بیان پر صفائی بھی پیش کرتے رہے۔ کامران علی نے کہا پی ٹی آئی رہنما کے مطابق اب شائد بیرسٹر سیف کی چھٹی کا وقت قریب آچکا ہے۔ ایک اور صحافی محمد فہیم نے بھی اس خبر کی توثیق کرتے ہوئے کہا کہ مشال یوسفزئی کے بعد خیبر پختونخوا کابینہ سے ایک اور رکن کے دن گنے جاچکے ہیں، اب یہ فیصلہ وزیراعلیٰ نے کرنا ہے کہ انہیں کب عہدے سے ہٹایا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کی تقریر کے بعد ترجمان خیبر پختونخوا بیرسٹر سیف نے نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ علی امین گنڈاپور کو ایسی تقریر نہیں کرنی چاہیے تھی، اس تقریر پر چیئرمین پی ٹی آئی معذرت کرچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ رات گئے وزیراعلیٰ سے رابطہ نہیں ہوسکا، جلسے میں تقریر کے دوران بعض الفاظ ایسے استعمال کیے گئے جو نازیبا تھے، قابل اعتراض الفاظ ہوئے ہیں تو اس کیلئے قوانین موجود ہیں، ان قوانین کے تحت کارروائی کریں مگر ایسا نا کریں کہ اسمبلی کا اجلاس ختم ہوتے ہی اراکین اسمبلی کو پکڑنا شروع کردیں۔
شاہد خٹک نے فہد حسین کو مشکل میں ڈال دیا اور کہا کہ میں مریم نواز کا کلپ چلانا چاہتا ہوں جس پر فہد حسین نے کہا کہ نہیں وہ لائیو نہ چلائیں کیونکہ اس کلپ میں مریم نواز نے پی ٹی آئی رہنماؤں بالخصوص عمران خان سے متعلق انتہائی سخت اور نازیبا زبان استعمال کی تھی۔ شاہد خٹک نے ن لیگ کے حامی صحافی فہد حسین سے کہا کہ اگر آپ کی اجازت ہو تو میں مریم نواز کے کلپ چلا دوں ؟؟؟ جس پر فہد حسین نے کہا کہ نہیں نہیں وہ لائیو نہ چلائیں۔ فہد حسین نے کہا کہ دو غلط چیزیں ایک نہیں ہوسکتیں۔ میں نے وہ کلپ سنے ہیں۔ اس پر شاہد خٹک نے پھر کہا کہ میں وہ کلپ چلادیتا ہوں۔ اس پر فہڈ حسین نے کہا کہ میں نے وہ کلپ سنا ہوا ہے، میں خود ہی چلوادوں گا یہ تھا مریم نواز کا وہ کلپ جو شاہد خٹک نے چلوانے کی کوشش کی مگر فہد حسین نے نہ چلایا کیونکہ اس میں مریم نواز نے عمران خان کو گھٹیا، بدبودار، منشیات زدہ کہا تھا۔مریم نواز نے عمران خان کو مکروہ کردار، بدکردار بھی کہا مریم نواز نے عمران خان کو بندر کہتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بندر ہے اور اسکے ہاتھ میں ماچس ہے، یہ بندہ نشہ کرکے بے سدھ پڑا ہوتا ہے۔چوہے کی طرح بل میں گھسا ہوا ہے۔ مریم نواز نے مزید کہا تھا کہ آپکو پتہ ہے کہ نشئی کہاں پڑے ہوتے ہیں، قبرستانوں میں پڑے ہوتے ہیں مریم نواز نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا بلکہ عمران خان پر ذاتی حملے کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنی بیٹی چھپائی
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر علی امین گنڈاپور کے بھیس بدل کر برقعہ پہنے افغانستان فرار ہونے والی بی بی سی اردو کی رپورٹ کے سکرین شارٹ کی حقیقت سامنے آگئی ہے۔ جیوفیکٹ چیک نے بی بی سی اردو کے سوشل میڈیا ویب سائٹس پر گردش کرنے والے آرٹیکل کے سکرین شاٹ کا تجزیہ کیا تو پتہ چلا کہ زیرگردش سکرین شاٹ گزشتہ برس 5 اکتوبر 2023ء کو بی بی سی اردو کی طرف سے جاری کی گئی ایک رپورٹ کا ہے۔ بی بی اردو کی رپورٹ کا جو سکرین شارٹ سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے اس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ خبررساں ادارے نے لکھا ہے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اور رہنما تحریک انصاف علی امین گنڈاپور بھیس بدل کر برقعے میں افغانستان فرار ہو گئے ہیں۔ کہا جا رہا تھا کہ مبینہ فرار 8 ستمبر کو وفاقی دارالحکومت میں تحریک انصاف کے جلسے کے بعد پی ٹی آئی قیادت کیخلاف کریک ڈائون سے بچنے کیلئے کیا گیا جبکہ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے۔ ڈاکٹر سیدہ صدف نامی سوشل میڈیا صارف نے گزشتہ روز اپنے ایکس (ٹوئٹر) سے بی بی سی اردو کے مبینہ سکرین شارٹ کو شیئر کیا تھا اور کیپشن میں لکھا: بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور برقعہ پہن کر افغانستان فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر سیدہ صدف نے لکھا: علی امین گنڈاپور نے افغان تذکرہ (افغانستان کی ایک سرکاری شناختی دستاویز) ایک خاتون کے نام پر حاصل کی اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کیا کہ علی امین گنڈاپور کے فرار ہونے میں پشاور میں واقع رحمان میڈیکل انسٹیٹیوٹ میں داخل ایک مریض کے رشتہ داروں نے انہیں اس میں سہولت فراہم کی۔ سوشل میڈیاصارف کی طرف سے بی بی سی اردو کے اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد سے اب تک یہ پوسٹ 2 ہزار بار سے زیادہ دیکھی جا چکی ہے اور سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے اسے 82 لائیک ملے ہیں۔ اسی آرٹیکل کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے دعوے سوشل میڈیا کی دیگر ویب سائٹس جیسے کہ فیس بک اور تھریڈزپر بھی شیئر کیے گئے جنہیں ہزاروں صارفین دیکھ چکے ہیں۔ جیوفیکٹ نے حقیقت کا پتہ لگانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ بی بی سی اردو کی طرف سے ایسا کچھ رپورٹ نہیں کیا گیا کہ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا 9 ستمبر کی رات بھیس بدل کر افغانستان فرار ہو گئے ہیں۔ بی بی سی اردو کے نیوز ایڈیٹر ذیشان حیدر نے جیو فیکٹ چیک سے رابطے میں بتایا کہ "ہم نے تو اپنی رپورٹ میں ایسا کچھ نہیں لکھا"۔ واضح رہے کہ 8 ستمبر 2024ء کو سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ایک مضافاتی علاقے میں ریلی نکالی تھی جس میں ان کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ ریلی کے بعد تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے متعدد رہنمائوں وممبران صوبائی وقومی اسمبلی کو پولیس چھاپوں کے دوران گرفتار کر لیا گیا تھا۔ جیوفیکٹ کے اس آرٹیکل کا تجزیہ کرنے پر پتہ چلا کہ یہ سکرین شارٹ گزشتہ برس 5 اکتوبر 2023ء کو بی بی سی اردو کی طرف سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کا ہے جس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے بجائے پاکستان میں غیرقانونی رہائش پذیر غیرملکیوں کو ڈی پورٹ اور خصوصاً افغانیوں کو پاکستان سے نکالنے کے حکومتی منصوبوں بارے لکھا گیا تھا جو اس لنک سے پڑھا جا سکتا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل عمر ایوب نے گزشتہ روز اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا جس کے بعد سلمان اکرم راجہ کو تحریک انصاف کا جنرل سیکرٹری مقرر کردیا گیا ہے۔ جس پر خواجہ سعد رفیق نے ٹوئٹ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ سلمان اکرم راجہ اور گوہر علی کے لیے میرے ذاتی احترام کے باوجود، یہ ایک حقیقت ہے کہ بطور چیئرمین اور جنرل سیکرٹری دونوں پی ٹی آئی میں نئے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ یہ ہماری سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے,یہاں قیادت ذاتی پسند اور ناپسند ,سنیارٹی اور جدوجہد سے زیادہ ناقص ہے۔ پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنیوں کی طرح کام کرنے والی یہ جماعتیں مزاحمت کی سیاست کو منزل تک نہیں پہنچا سکتیں۔ خواجہ سعد رفیق کے ٹوئٹ پر زبیر علی خان نے تنقید کرتے ہوئے لکھا سر تمام عہدے شریف خاندان میں جب بانٹے جاتے ہیں اس پر بھی کچھ لکھ دیں , آپ کو سیاست میں عرصہ گزر گیا آپ پھر بھی ن لیگ میں عہدہ نہیں مل رہا کیوں؟ کیونکہ آپ مریم نواز کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہیں, سچ پورا بولنا چاہئے. ابوذر سلمان نیازی نے کہا ابھی تک عمران خان کے خاندان کا کوئی بھی شخص کسی بھی عہدے پر فائز نہیں, جو پی ٹی آئی کو دیگر جماعتوں سے مختلف رکھتی ہے,ہمیں غلاموں کی طرح کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ عمر جٹ نے لکھا خواجہ سعد رفیق صاحب کی یہ ٹویٹ اپنے تاحیات قائد,ان کی صاحبزادی۔بھائی۔۔بھھتیجے۔بھانجے۔اور سمدھی کے خلاف ایک نہایت سیریس قسم کی چارج شیٹ ہے۔ عدیل راجا نے لکھا وہ شخص جو ایک شریف کے زندہ ہونے تک کبھی اپنی پارٹی کا چیئرمین یا صدر نہ بن سکا اب پی ٹی آئی کو پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کہہ رہا ہے۔
گزشتہ دنوں علی امین گنڈاپور نے مریم نواز سے متعلق کچھ الفاظ کہے جس پر ن لیگی رہنما سیخ پا ہیں اور سخت ردعمل کا اظہار کررہے ہیں۔ علی امین گنڈاپور نے اسلام آباد جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مریم نواز میں لاہور آرہا ہوں، میں مینارپاکستان جلسہ کرکے رکھاؤں گا، میں بارات لیکر آرہا ہوں اس پر ن لیگی رہنما شدید غصے میں آگئے اور کہا کہ علی امین گنڈاپور کو عورتوں کی عزت کرنا نہیں آتی، انہوں نے چیلنج کیا کہ اب علی امین گنڈاپور اٹک کا پل کراس کرکے دکھائے۔ ن لیگ کے اس غم وغصے پر پی ٹی آئی رہنماؤں، سوشل میڈیا صارفین اور صحافیوں کا کہنا تھا کہ کیا عزت صرف مریم نواز کی ہے؟ پی ٹی آئی خواتین کی کوئی عزت نہیں؟ جب مریم نواز کی پولیس لوگوں کے گھروں میں گھسی، پی ٹی آئی خواتین کو گھسٹیا،انکی بے حرمتی کی اس وقت خواتین کی عزت یا نہیں آئی؟ سوشل میڈیا صارفین نے کہا کہ بشریٰ بی بی کے خلاف عدت جیسا گھٹیا کیس بنایا گیا، انکے خلاف ایک کیس کے بعد دوسرا کیس بنایا گیا، اسکے سابق شوہر کو لانچ کرکے اسکی کردارکشی کی گئی، اس وقت خواتین کی حرمت یاد نہیں آئی؟ خدیجہ صدیقی نے تبصرہ کیا کہ علی امین گنڈاپور کے خطاب پَر حکومتی جماعتوں نے جتنا شور مچایا ہے، اگر اسکا آدھا بھی مچا دیتے جب بشریٰ بی بی پر غلیظ عدت کیس بنایا گیا، ان کو عدالت میں ذلیل کرنے کے لئے انکی ماہواری کا دورانیہ بیان کیا جا رہا تھا! جب عون چودھری اور مُبینا ملازم کی جھوٹی گواہی پر بشریٰ بی بی کو ۷ سال سزا دی گئی تھی ،تو ملک میں یہ حالات نا ہوتے! کہاں تھی تب آپکی اخلاقیات؟! عائشہ بھٹہ نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ جمائمہ خان کی نجی زندگی سے لے کر عدت کیس میں بشری عمران خان سمیت پاکستان تحریکِ انصاف کی تمام خواتین پردنیا جہاں کی غلاظت انڈیلنے والےعورت کو سیاست میں گالی بنانےوالےن لیگی آج پریس کانفرنس پرپریس کانفرنس کرکےہمیں عورت کی عزت و تکریم پردرس دےرہے ہیں۔ یہ منافقت کا بدترین درجہ ہے زبیر علی خان نے تبصرہ کیا کہ عمران خان کی کردار کشی کرنے کے لیے تاریخ کا غلیظ ترین کیس عدت نکاح بنوایا، شرعی قانون تک تبدیل کر دیا لیکن خواتین کے حرمت کے جعلی علمبردار خاموش رہے۔۔۔ اب ان کو کس منہ سے خواتین کی حرمت یاد آگئی؟ یہ منافقت کے اعلی معیار پر قائم ہیں اسد نے تبصرہ کیا کہ پاکستان میں لوگوں اور میڈیا کی اخلاقیات کا دائرہ بس ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے گرد گھومتا ہے، پی ٹی آئی کی ہر طرح کی بکواس پر نا تو کوئی ڈان نیوز، جینو نیوز اور دیگر چینلوں کی مائیاں ویڈیوز بناتی ہیں نا کسی کو ان کی بکواس میں کچھ برا نظر آتا ہے۔ بھلے اسکا شکار خواتین ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ پی ٹی آئی خواتین پر پولیس گردی کے ذریعے تشدد کرانے والی جماعت کو علی آمیں گنڈا پُور کے بیان پر اعتراض ہے ۔ ایک اور سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ عمران خان کی بیوی پر اسلامی تاریخ کا گھٹیا ترین عدت کیس چلانے والے بھی آج گنڈا پور کی تقریر پر اعتراض کر رہے ہیں ایک صارف نے تبصرہ کیا کہ عمران خان کی کردار کشی کرنے کے لیے تاریخ کا غلیظ ترین کیس عدت نکاح بنوایا، شرعی قانون تک تبدیل کر دیا لیکن خواتین کے حرمت کے جعلی علمبردار خاموش رہے۔۔۔ اب ان کو کس منہ سے خواتین کی حرمت یاد آگئی؟ یہ منافقت کے اعلی معیار پر قائم ہیں ایڈوکیٹ فائزہ نے تبصرہ کیا کہ اب یہ خاتون بھی اخلاقیات کا درس دیں گی۔ سبحان اللّٰہ! آپکی غیرت کہاں تھی جب PTI کے لوگوں کے گھروں کی چادر چار دیواری کو پامال کیا جا رہا تھا؟ جب خواتین کے سروں سے چادروں کو کھینچا جا رہا تھا؟ جب انہے سڑکوں پہ گھسیٹا جا رہا تھا؟ جب جعلی مقدموں میں انہیں عدالتوں میں مہینوں ذلیل کیا جا رہا تھا؟ بد قسمتی سے انکی پوری پارٹی اور انکے سپورٹرز کی نظر میں عزت صرف ایک عورت کی ہے۔ منیبہ کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی خواتین کی سرعام بےحرمتی کرنے پر کسی وزیر ،مشیر اور ٹاؤٹ صحافیوں کو کبھی خیال نہیں آیا ؟ کیا عورت صرف مریم صفدر ہے ؟ عزت صرف ایک مریم صفدر کی ہے ؟ ایک صاحب کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ نون کے نزدیک صرف عورت کی عزت مریم نواز کی حد تک ہے باقی کوئی بھی عورت باعزت ان کی نظر میں نہیں ہے اس کا منہ بولتا ثبوت ان کی حکومت میں بشر بی بی کے ساتھ جو سلوک کیا گیا عدت جیسے غلیظ کیس بنائے گئے اور یہ ایک مکروہ کردار اپ کے سامنے ہے عثمان فرحت کا کہنا تھا کہ عورتوں کی عزتیں ان کو بے گنا گرفتار کرکے منہ پر کالے کپڑے چڑھاتے وقت یاد نہیں آئیں تھیں؟
گزشتہ رات پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کو پارلیمنٹ ہاؤس سے گرفتار کرلیا گیا ہے،پولیس نے پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہو کر سنی اتحاد کونسل کے صاحبزادہ حامد رضا سمیت پی ٹی آئی کے متعدد رہنماؤں کو گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے وقت قومی اسمبلی کے اندر کی لائٹس بند کر دی گئیں، جس کے بعد سول کپڑوں اور نقاب میں ملبوس چند اہلکار پارلیمنٹ ہاؤس میں داخل ہو گئے، جبکہ باہر موجود پولیس نے پوزیشن سنبھال لیں۔ پی ٹی آئی رہنما شیخ وقاص اکرم، عامر ڈوگر، زین قریشی، احمد چٹھہ، یوسف خان، جنوبی وزیرستان سے رکن اسمبلی زبیر خان سمیت دیگر رہنماؤں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس پر صحافیوں نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگانیوالی جماعت نے ووٹ کا تقدس پامال کردیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پوری قوم نے دیکھ لیا کہ پارلیمنٹ ایک ایس ایچ او کی مار ہے صحافیوں نے پیپلزپارٹی کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ انہوں نے جمہوری روایات بہت سستے میں بیچ دی ہیں۔ بشیر چوہدری نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ پارلیمنٹ ہاوس کے اندر سے گرفتاریاں کرنے کی کم از کم پولیس میں تو ہمت نہیں ہے۔ رضوان غلزئی نے طنز کیا کہ یہ پارلیمنٹ “ایک ایس ایچ او کی مار ہے” زبیر علی خان کا کہنا تھا کہ نوازشریف نے آج ووٹ کو عزت دلوا دی ۔۔۔ جن کے ووٹوں سے وہ منتخب ہوئے انہیں کو عزت دے رہے ہیں جبرن ناصر نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ جو لوگ کل رات کالے شیشے والی گاڑیوں میں پارلیمنٹ کے اندر گھسے اور لائٹس بند کرکے ایم این ایز کو دبوچ کر لے گئے وہ کل پوری قوم کو پارلیمنٹ کی اوقات بتا گئے۔ بہت سستے میں بیچ دی پارلیمنٹ ن لیگ اور پی پی پی اتحاد نے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کبھی اس پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے زوالفقار علی بھٹو نے پھانسی قبول کی تھی۔ کبھی اس پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے نواز شریف نے ۷ سال جلاوطنی کاٹی۔ کچھ اپنی ہی قربانیوں کا خیال کرلیتے۔ ان کو بس اب بادشاہ بننے سے مطلب ہے چاہے ان کی حکومت میں صرف کھنڈرات ہی کیوں نا باقی رہ جائیں۔ ملیحہ ہاشمی نے تبصرہ کیا کہ ن لیگ کی شرمناک تاریخ رہی ہے کہ کبھی یہ اپنے غنڈوں سے سپریم کورٹ پر حملہ کروا کر چیف جسٹس سجاد علی شاہ صاحب کو تھپڑ اور مکے پڑواتے پاۓ گئے۔ آج رات انہوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کر کے پی ٹی آئی کے منتخب ارکان اسمبلی اغوا کرواۓ۔ اب 9 مئی پر بھی جوڈیشل انکوائری کی جاۓ، یہی مجرم نکلیں گے۔ عامرمتین نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ معاف کیجیے گا پارلیمان کی بے عزتی پر کچھ لوگ سوچ رہے ہو گیں کہ میں شائد زیادہ جزباتی ہو رہا ہوں۔ بلکل صحیح۔ میں واقعی جزباتی ہوں آج۔ اس اطلاع پر کے پولیس پارلیمان میں گھس کر ممبران کو گرفتار کر کے لے گئ۔ ہم پارلیمانی صحافی کبھی ایسا سوچ ہی نہی سکتے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ عمران خان یا اس کی پارٹی کی بات نہی۔ یہ پارلیمان کی بات ہے۔ ہم نے ایسا پارلیمانی حملہ نہی دیکھا۔ میں نے زندگی گی تیس سال پارلیمان کی صحافت میں گزارے۔ اب گند پڑ گیا ہے۔ پتا نہی کون کیا ہے۔ کہاں عزت ہے اور کہاں نہی۔ بنیادی بات۔ عزت زبردستی سے نہی ہوتی۔ عامرمتین کا کہنا تھا کہ آج کی پارلیمان اک شرمندگی کا مقام ہے۔ اور ہم سب بھی شرمندہ ہیں۔ میرے دوست شائد اس دور کی ترجمانی بہتر کر سکیں۔ مگر موجودہ بہت گھٹیا لوگ ہیں۔ نادربلوچ نے طنز کیا کہ پوری قوم نے دیکھ لیا کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔ وہ ایس ایچ او جو بلوچستان میں امن قائم کرنے چلا تھا۔۔ اس اقدام سے یقیناً سیاسی استحکام کے ساتھ معاشی استحکام بھی آئیگا ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ایم این ایز کو پارلیمنٹ ہاؤس کے اندر سے گرفتار کرنا یہ بھی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے امجد خان نے ایک ویڈیو شئیر کرتے ہوئے ردعمل دیا کہ یہ پارلیمنٹ ایک ایس ایچ او کی مار ہے ، تھانہ کوہسار کے ایس ایچ او ویڈیو میں نظر آ رہے ہیں ان کی نگرانی میں پارلیمنٹ کو تقدس پامال کیا گیا ایمان مزاری نے ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ جو لوگ “جناح ہاؤس” جا کر رو رہے تھے ان سے پوچھنا تھا کہ ابھی تک پارلیمان رونے نہیں پہنچے؟ویسے ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ “جناح ہاؤس” ہے کیونکہ بلڈی سویلین کے ٹورز ۹ مئی کے بعد شروع ہوئے ہے لیکن یقیناً پارلیمان کے بارے میں تو ہم سب جانتے ہے۔مجسمے جلانے کے جواب میں ملک کا نظام احمد وڑائچ نے طنز کیا کہ اسلام آباد میں آپریشن ردالپارلیمان کے دوران فتنہ سول بالادستی کے 11 کارندے گرفتار، فتنہء سول بالادستی کا چیئرمین بھی شامل وسیم ملک کا کہنا تھا کہ اے میرے وطن کے عظیم مجاہدو !آپریشن رد الپارلیمان کے پہلے فیز میں کامیابی کے جھنڈے گاڑھ لئے ہوں تو براہ کرم ریڈ زون کے داخلی/خارجی راستوں کو تو کھول دیجیئے۔
پاکستان کے وزیردفاع خواجہ آصف کی جو رات کے 2 بجے پی ٹی آئی رہنماؤں کو جگتیں ۔۔ پی ٹی آئی رہنماؤں کو چوہوں سے تشبیہہ دیتے رہے۔ خواجہ آصف جگتیں عین اس وقت ماررہے تھے جب پارلیمنٹ ہاؤس میں نقاب پوش اہلکار ویگوڈالوں سمیت داخل ہوئے تھے اور پارلیمنٹ ہاؤس کی لائٹیں بجھاکر پی ٹی آئی رہنماؤں کو حراست میں لیا جارہا تھا۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں خواجہ آصف نے علی امین گنڈاپور پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ گنڈاپور نے 15 دن کی بڑھک ماری تھی۔اک دن لنگ گیا 14دن رہ گئے ۔انہوں نے پشتونوں کا لشکر لے کر آنا تھا سنا ہےسارے پہلے دن ھی چھپ گئے ھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کوئی اسمبلی سے باہر نہیں آرہے اندر سو گئے ھیں۔ سیاسی ورکر ھو تو لاج رکھو دلیری سے گرفتاری دو سارے چوہوں کی طرح بلوں گھس گئے ھو۔ انہوں نے کہا کہ گنڈا پور کو کہو باہر آئے ابھی تو پہلا دن ھے 14دن باقی ھیں ۔ حوصلہ کر شیر بن ۔ اس پر معید پیرزادہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو تباہ کرنے کرنے والے چوروں میں یہ شیطان سر فہرست ہے! اور یہ سب شریف خاندان کی پیداوار ہیں اور شریف خان جنرل ضیا کی پیداوار ہے! جتھوں دی کھوتی اتنے آند کھلوتی زبیر نیازی کا کہنا تھا کہ تمہارے جیسے دلالوں کی وجہ سے پارلیمانی نمائیندوں کی آج بے توقیری ہو رہی ہے۔عوام کے ووٹ سے آتا تو تجھے سمجھ ہوتی جمہوریت کی شاہد حق نواز نے ردعمل دیا کہ اندازہ کیجئے ایسا شخص ملک کا وزیر دفاع ہے ۔ملک میں اس وقت ہیجان کی کیفیت ہے،ایک صوبے کا منتخب وزیراعلی پچھلے کئی گھنٹوں سے غائب ہے۔عوام کے منتخب نمائندوں کو نیشنل اسمبلی کے باہر سے گرفتار کیا جا رہا ہے۔کے پی میں عوام کا غصہ پہلے ہی بہت زیادہ ہے۔اور یہ صاحب عقل سے عاری شخص پشتون اور پنجابیوں کو اشتعال دلا رہا ہے۔خواجہ صاحب آپ کا اپنا جملہ آپ پر فٹ آتا ہے۔کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے امجد اقبال نے تبصرہ کیا کہ جس ملک کا وزیر دفاع ایسی سوچ کا مالک ہو وہاں خاک ترقی یا امن ہوگا شرم کا مقام ہے اگر ریاستی طاقت استعمال کرکے غیر آئینی کام کرنے ہیں تو پھر ملک میں کہاں رول آف لا ہوگا کتنے دن ایسے نظام کو چلا لو گے پورے ملک کو آپ جیسے مسخروں نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے فاروق محسود کا کہنا تھا کہ اس انسان میں ہمیشہ پشتونوں کے خلاف بغض دیکھا ہے" پشتونوں کا لشکر لیکر انا تھا اور سارے چھپ گئے" اس جملے میں ان صاحب کی ذہنیت کھل کر سامنے ارہی ہے اور انکی اس قسم کے چول مارنے کی وجہ سے پی ایم ایل ن کے پی میں جگہ نہیں بنا پارہی،
اسلام آباد: سینیٹر فیصل واوڈا نے انکشاف کیا ہے کہ مرحوم سینئر صحافی و اینکر پرنس ارشد شریف کے کینیا میں قتل کے بعد مراد سعید ان ہی کے گھر میں چھپے ہوئے تھے، پورے پاکستان کو چیلنج ہے میری بات غلط ثابت کر دے۔ ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے مراد سعید کو اپنے بعد لیڈر نامزد کیا تھا، بانی کو کچھ بڑا ہونے کا پتا تھا لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ ارشد شریف کا قتل ہوگا۔ اس پر اینکر عمران ریاض نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ابھی ارشد شریف شہید کی فیملی نےمجھ سے رابطہ کیا اور بتایا کہ ہمارا نام لے کر فیصل واڈا صاحب نے اے آروائی نیوز پر جو معلومات دیں وہ غلط اور گمراہ کن ہیں انہوں نے مزید کہا کہ فیصل واڈا کو کوئی بتائے کہ ارشد شریف شہید کے قتل کے وقت DGISI کون تھا۔ یہ شخص تین صحافیوں کے سامنے انکے ساتھی کی شہادت پر جھوٹی کہانیاں سناتا رہا۔ صحافی عمرانعام کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے تین دوست، ارشد شریف کے چینل پر بیٹھ کر، ارشد شریف کے بارے میں فرضی کہانیاں سنتے رہے لیکن اس بے گناہ کے حق میں بولے نہیں۔۔۔ صحافی طارق متین نے ردعمل ددیا کہ فیصل واوڈا کو رات بٹھا کر زیادتی کی گئی اگر یہ کہیں سے حکم تھا بھی تو تین صحافیوں نے میری رائے میں ارشد شریف شہید سے دوستی اور صحافت دونوں کا حق ادا نہیں کیا۔ پہلا جھوٹ گھر میں ارشد صاحب کی شہادت کے بعد مراد سعید کا چھپنا جس کا شہید کے خاندان نے ہی تسلی بخش جواب دے دیا انکا مزید کہان تھا کہ دوسرا جھوٹ اس کے بعد ڈی جی آئی ایس آئی فیض حمید نے مراد سعید کو وہاں چھپایا کہ ڈھونڈنا ممکن نہیں فیض حمید نے بہت پہلے ڈی جی کی پوسٹ سے ہٹا دیے گئے ۔ حیرت ہے تینوں مایہ ناز صحافی سنتے ہی رہے
معروف ٹک ٹاکر علی حیدرآبادی اپنے 20 ملین فالوورز والا ٹک ٹاک اکاؤنٹ بین کردیا گیا جس کے بعد وہ اور انکی اہلیہ زاروقطار روتے رہے۔ علی خان عرف علی حیدرآبادی نے اپنے مخصوص انداز سے راتوں رات شہرت پائی اور آج ایک انفرادی پہچان رکھتے ہیں اور انکی ویڈیوز کو بہت پسند کیا جاتا تھا ۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں ٹک ٹاکر علی حیدر آبادی اور ان کی اہلیہ زینب علی کو زاروقطار روتے دیکھا گیا۔ ویڈیو میں زینب نے اپنے تمام چاہنے والوں کے سامنے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ان کے شوہر علی حیدرآبادی کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ بند ہوگیا ہے جس پر تقریباً 20 ملین سے زائد فالوورز تھے۔ زینب علی نے زاروقطار روتے ہوئے اپنے فینز سے التجا کی کہ برائے مہربانی ہیش ٹیگ ”اَن بین اکاؤنٹ“ لگا کر اس ویڈیو کو زیادہ سے زیادہ شیئر کریں اور علی کا اکاؤنٹ بحال کروانے میں ہماری مدد کریں، کیونکہ انکے لیے سب کچھ ٹک ٹاک ہی ہے۔ دونوں میاں بیوی نے ٹک ٹاک اکاؤنٹ بین ہونے کے بعد نیا اکاؤنٹ بنالیا ہے جس پر اب تک تقریبا 50 ہزار کے قریب فالورز ہوچکے ہیں اور اس اکاؤنٹ پر وہ اپنے رونے کی ویڈیوز شئیر کررہے ہیں جس پر سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ یہ نیا طریقہ نکالا ہے انہوں نے اپنا نیا اکاؤنٹ پروموٹ کرنیکا ۔ فیاض شاہ نامی صارف نے لکھا کہ یہ اس لیے رو رہی ہے کیونکہ ٹاک ٹاک نے ان کا اکاؤنٹ بین کر دیا ہے انہوں نے مزید کہا کہ جس نے بھی اِس کا ٹک ٹاک اکاؤنٹ بین کروانے کا نیک کام کیا ہے اللہ اُسے دُنیا و آخرت میں کامیابی نصیب فرمائے۔ آمین وجاہت سمیع کا کہنا تھا کہ یہ ہماری نوجوان نسل کس کاموں میں لگی ہوئی ہے ؟ ایک ٹِک ٹاک اکاؤنٹ بند ہونے پر ایسے ظاہر کیا جا رہا جیسے علی حیدرآبادی اور اس کی بیوی کی زندگی ختم ہو جائے گی۔ پیسے کمانے کے اور بہت طریقے ہیں۔ اللہ نے رزق حلال کمانے کے بہت کاروبار انسانوں کو مہیا کئے ہیں۔ میری دعا ہے کہ علی حیدرآبادی اور اس کی بیوی کی مشکلات کو آسان کردیں، آمین۔ اس پر عارف ڈار نامی صارف نے جواب دیا کہ وجاہت صاحب یہ صرف پبلک اسٹنٹ کرتے ہیں ویور شپ بڑھانے کیلئے۔۔۔۔ڈرامہ بازیاں۔۔۔ یہ تو کئی بار اپنے مرنے کی خبریں چلوا چکے اسی سوشل میڈیا پر
ٹائمز آف اسرائیل ویب سائٹ پر پبلش بلاگ پر دانشوڑوں کی روایتی دو نمبری پکڑی گئی۔ عمران خان پر بلاگ ٹائمز آف اسرائیل کی ویب سائٹ کیلئے آذربائیجان کی ایک خاتون نے لکھا جو ایک فری لانسر ہے اور 4 پاؤنڈز یعنی 1400 روپے میں بلاگ لکھتی ہے۔ اس خاتون فری لانسر نے یہ بلاگ اسرائیلی ویب سائٹ کیلئے لکھا اس خاتون کی رائے نہ تو ٹائمز آف اسرائیل کا اداریہ یا رائے ہے اور نہ ہی باقاعدہ کالم ہے۔۔ ایسے بلاگز دنیا نیوز، ایکسپریس، سماء، اے آروائی کیلئے کوئی بھی اکاؤنٹ بناکر لکھ سکتا ہے اور اسکے لئے ان اداروں کا باقاعدہ ملازم ہونا ضروری نہیں ہے۔ مگر پاکستان میں اس بلاگ کو اسرائیلی اخبار کی رائے بناکر پیش کیا جارہا ہےا ور صبح سے شام تک کئی بڑے چینلز اسے ایسے پیش کررہے ہیں جیسے یہ اسرائیلی اخبار کااداریہ ، تجزیہ یا رائے ہے۔ احمد وڑائچ نامی صحافی نے اس کالم کا پوسٹمارٹم کیا ہے اور تبصرہ کیا ہے کہ بلاگ انتہائی سطحی لیول کی تحریر ہے، جس کیلئے کوئی تحقیق نہیں۔ بلاگ لکھنے والی خاتون کا تعلق آذربائیجان سے ہے، برسلز میں مقیم ہیں، فائیورر کے مطابق فکشن اور ہارر اسٹوریز لکھتی ہیں۔ غالباً اسی فکشن کا استعمال اس بلاگ میں کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خاتون نے اگر مگر کر کے اپنی رائے دی ہے، مثلاً خاتون کا کہنا ہے عمران خان نے اپنے دور میں پاکستانی مفاد کیلئے دشمنوں کی طرف قدم بڑھایا شاید اسی لیے وہ اسرائیل پر بھی اپنی پوزیشن بدل لیں۔ شاید، کیوں کہ، چنانچہ آگے بڑھیں تو خاتون کا کہنا ہے ’رپورٹس کے مطابق‘ عمران خان نے گولڈ اسمتھ فیملی کے ذریعے اسرائیلی آفیشلز کو پیغام بھجوائے۔ کون سی رپورٹس ہیں، نہیں بتایا۔ انکے مطابق تھوڑا سا آگے جا کر کہتی ہیں ’’اگر یہ رپورٹس درست ہیں‘‘، اندازہ لگائیں خاتون کو خود معلوم ہی نہیں کہ رپورٹس درست بھی ہیں یا نہیں، نہ رپورٹس کے سچا ہونے کیلئے کوئی تحقیق کی، پھر خود ہی ان رپورٹس پر شکوک اٹھا دیے۔خاتون نے خود ہی سوچا، اندازے لگائے کہ یہ ہو گا وہ ہو گا، ایسا ہو سکتا ہے، ویسا ہو سکتا ہے، پہلے یہ کیا تو اب وہ کر دے گا۔ انہوں نے کہا کہ پورا بلاگ اسی چیز سے بھرا ہوا ہے۔ آخر میں اس بلاگ کو ٹائمز آف اسرائیل کا اداریہ یا کالم کہنے والوں پر چار لفظ احمد وڑائچ نے دنیا نیوز کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ ببلاگ لکھنے والی خاتون اسرائیل نہیں، آذربائیجان کی ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کی ویب سائٹ کیلئے بلاگ لکھا ہے جو خاتون کی ذاتی رائے ہے۔ فائیورر کے مطابق 4 برطانوی پاؤنڈ میں بلاگ لکھ دیتی ہیں۔ اپنی تصیح کر لیں ۔ سید محمد علی کو بھی بتا دیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دنیا نیوز جس نے دنیا بلاگز کے نام سے سیکشن بنارکھا ہے اس نے اسے بھرپور کوریج دی اور ایک سید محمد علی نامی شخص کو دفاعی تجزیہ کار بناکر پیش کیا۔ احمد وڑائچ نے کہا کہ عمران خان پر ٹائمز آف اسرائیل کی ویب سائٹ کیلئے بلاگ لکھنے والی آذربائیجان کی خاتون 4 برطانوی پاؤنڈ (1462روپے) میں آپ کیلئے بھی بلاگ وغیرہ لکھ دیں گی۔ فائیورر پر پروفائل موجود ہے۔ حسن ایوب خان کو جواب دیتے ہوئے احمد وڑائچ نے کہا کہ سمجھ سکتے ہیں آپ صحافت میں پیراشوٹر ہیں، اداریے، کالم، بلاگ میں فرق نہیں کر پاتے ہوں گے۔ بہرحال ٹائمز آف اسرائیل میں کسی آذربائیجانی خاتون نے ایک بلاگ لکھا ہے۔ یہ جریدے کا کوئی اداریہ نہیں، نہ ہی اسرائیلی حکومت کی رائے ہے

Back
Top