خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
قصور میں ایک ٹک ٹاکر نے وزیراعلیٰ پنجاب سے سرکاری گاڑی اور 50 لاکھ روپے انعام میں ملنے کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہوئے ویڈیو بنائی، جس کے بعد پولیس نے پیکا ایکٹ اور تعزیرات پاکستان کے تحت مقدمہ درج کرتے ہوئے دونوں نوجوانوں کو گرفتار کر لیا۔ تھانہ گنڈا سنگھ پولیس کے مطابق ویڈیو بنانے والے نوجوانوں میں ایک، حرمین شریف، محکمہ انوائرمنٹل پروٹیکشن اتھارٹی میں تعینات سرکاری ڈرائیور طفیل کا بیٹا ہے۔ اس نے اپنے دوست ٹک ٹاکر خضر کے ساتھ مل کر سرکاری گاڑی کا غلط استعمال کیا اور اسے سوشل میڈیا ویڈیو کے لیے استعمال کیا۔ ٹک ٹاکر خضر نے ویڈیو میں ایک من گھڑت اسکرپٹ کے ذریعے دعویٰ کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اسے بہترین کارکردگی پر 50 لاکھ روپے نقد اور ایک سرکاری گاڑی انعام میں دی ہے۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد متعلقہ محکمے نے معاملے کا نوٹس لیا۔ ڈپٹی ڈائریکٹر ماحولیات کی مدعیت میں دونوں نوجوانوں کے خلاف سائبر کرائم (پیکا) ایکٹ اور تعزیراتِ پاکستان کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے، جن میں عوامی ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے اور سرکاری وسائل کے ناجائز استعمال جیسے الزامات شامل ہیں۔
لندن — ایک وقت تھا جب گلفام حسین سابق وزیرِاعظم نواز شریف کا متوالا ہوا کرتا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے نغمے گاتا، اور سوشل میڈیا پر نواز شریف کی حمایت میں وڈیوز بناتا۔ مگر اب وقت نے کروٹ لی ہے اور وہی گلفام حسین آج پی ٹی آئی کے مفلر میں ملبوس ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کے باہر احتجاج کرتا نظر آتا ہے۔ ویسٹ منسٹر مجسٹریٹس کورٹ میں پیشی کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ گلفام حسین پر نواز شریف اور ان کے نواسے ذکریا حسین کو ڈرانے، تعاقب کرنے اور سوشل میڈیا پر تشدد پر اکسانے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ پراسیکیوشن کے مطابق گلفام نے گزشتہ سال نواز شریف کو اور حال ہی میں ان کے نواسے کو ہراساں کیا۔ اس دوران وہ ٹک ٹاک لائیو کے ذریعے اپنے فالوورز کو بھی تشدد پر اکساتا رہا۔ گلفام کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایک بار پھر ایون فیلڈ فلیٹس کے قریب پہنچ گیا، جہاں سے نواز شریف حالیہ دنوں میں لندن پہنچے تھے۔ اس بارے میں اصل شکایت مسلم لیگ (ن) برطانیہ کی یوتھ ونگ کے رہنما خرم بٹ نے پولیس کو دی تھی۔ خرم بٹ نے پولیس کو اطلاع دی کہ گلفام ایون فیلڈ کے باہر احتجاجی مجمع میں موجود ہے، جس پر پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے اسے گرفتار کر لیا۔ گرفتاری کے وقت گلفام کی جیب سے چھوٹے پتھر برآمد ہوئے، حالانکہ پولیس نے پہلے ہی اسے ہدایت کی تھی کہ وہ پتھر لے کر نہ آئے اور نہ ہی کسی پر پھینکے۔ گلفام پر فردِ جرم عائد ہونے کے بعد اسے £2000 کی ضمانت پر رہا کر دیا گیا، شرط یہ ہے کہ وہ شریف خاندان کے کسی فرد یا ان کی رہائشگاہ کے قریب نہیں جائے گا، کسی قسم کے تشدد کی حوصلہ افزائی نہیں کرے گا، اور سوشل میڈیا پر دھمکیاں نہیں دے گا۔ اس سال 17 جنوری کو اسکاٹ لینڈ یارڈ نے اسے پہلی بار گرفتار کیا اور بعد ازاں ضمانت پر رہا کر دیا، لیکن اسے ایون فیلڈ فلیٹس کے قریب جانے سے منع کر دیا گیا، جہاں شریف خاندان کے افراد رہائش پذیر ہیں۔ وہ ایون فیلڈ فلیٹس پر ٹک ٹاک لائیو کے دوران چھوٹے چھوٹے پتھر پھینکتے ہوئے پکڑا گیا — اسی دوران اُس نے وزیر اعظم شہباز شریف، سابق وزیر اعظم نواز شریف اور شریف خاندان کے دیگر افراد کو نقصان پہنچانے کی دھمکیاں دیں، یہاں تک کہ پارک لین فلیٹس کو بم سے اُڑانے کی دھمکی بھی دی۔ اس نے اپنے ٹک ٹاک فالوورز سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ وہ شریف خاندان کے افراد کو لندن کی سڑکوں پر "گھسیٹے گا" اور اگر پاکستان میں عمران خان کو کوئی نقصان پہنچا تو وہ "بدلہ" لے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گلفام نے عدالت میں خود کو پی ٹی آئی کا کارکن ظاہر کیا، مگر پی ٹی آئی برطانیہ کے صدر عمران خلیل نے اس سے لا تعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "ہم پرامن احتجاج کے قائل ہیں، گلفام پہلے مسلم لیگ ن کا کارکن تھا اور اس نے خود ہی پی ٹی آئی کے نام پر مظاہرے شروع کیے۔" یاد رہے کہ گلفام پیشے کے لحاظ سے شیف ہے مگر سوشل میڈیا پر شہرت پانے کے بعد اس نے اپنی نوکری چھوڑ دی۔ شہزاد اکبر نے خبر دینے والے مرتضی سے سوال کیا کہ شاہ جی، کیا وہ نواز شریف کا ہی ناراض حمایتی نہیں ہے جو اب ان کے خلاف ہو گیا ہے؟ جس پر مرتضی نے کہا خبر میں تفصیل بتائی ہے۔
پاکستان کے مختلف شہروں میں معروف بین الاقوامی فاسٹ فوڈ چین "کے ایف سی" کی شاخوں پر ہونے والے پرتشدد حملوں کے الزام میں کم از کم 178 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پولیس نے لاہور، کراچی، اسلام آباد سمیت ملک بھر میں ایسے 11 واقعات کی تصدیق کی ہے جن میں مشتعل مظاہرین نے کے ایف سی ریسٹورنٹس پر حملہ کیا اور املاک کو نقصان پہنچایا۔ پولیس کے مطابق مظاہرین ڈنڈوں سے لیس تھے اور انہوں نے مختلف برانچز میں گھس کر توڑ پھوڑ کی، جبکہ لاہور کے نواحی علاقے میں ایک کے ایف سی پر فائرنگ کے نتیجے میں ایک ملازم جاں بحق ہو گیا۔ ایک پولیس اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ واقعے کے وقت کوئی احتجاج جاری نہیں تھا، اور تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ آیا یہ واقعہ سیاسی بنیاد پر ہوا یا ذاتی دشمنی کا شاخسانہ تھا۔ یہ مظاہرے مبینہ طور پر اس بین الاقوامی مہم کے تحت کیے گئے، جس میں ان کمپنیوں اور اشیا کے بائیکاٹ کی اپیل کی جا رہی ہے جنہیں اسرائیل کی حمایت یافتہ یا غزہ جنگ سے منسلک سمجھا جاتا ہے۔ تاہم، یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالمی سطح پر جاری اس مہم کی فہرست میں کے ایف سی شامل نہیں ہے، اور دنیا بھر میں یہ مہم زیادہ تر پرامن طریقے سے چلائی جا رہی ہے۔ پاکستان میں حالیہ مظاہروں میں تشدد کے عنصر کی موجودگی باعث تشویش ہے، خصوصاً جب صرف ایک ہی فاسٹ فوڈ کمپنی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لاہور پولیس کے مطابق شہر میں کے ایف سی کی 27 شاخوں پر سیکیورٹی بڑھا دی گئی ہے، جبکہ اب تک دو حملے ہو چکے ہیں اور پانچ دیگر ممکنہ حملوں کو ناکام بنایا گیا ہے۔ دوسری جانب، کے ایف سی اور اس کی امریکی کمپنی "یم برانڈز" نے تاحال اس صورتحال پر کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے اور کاروباری اداروں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے کارروائیاں جاری رہیں گی۔
اسلام آباد: وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ افغان شہریوں اور دیگر غیر قانونی غیرملکیوں کی ملک بدری کی آخری تاریخ 30 اپریل ہے، جس میں کسی قسم کی توسیع نہیں کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ آج سے اگر کوئی شخص کسی غیر قانونی فرد کو کرائے پر دکان، مکان یا کوئی اور جگہ فراہم کرے گا تو وہ بھی قانوناً ذمہ دار ہوگا۔ اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے طلال چوہدری نے کہا کہ افغان شہری 40 سال سے پاکستان میں بطور مہمان قیام پذیر ہیں، ہم نے ان کی بھرپور خدمت کی، مگر اب جدید دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ کوئی شخص بغیر ویزا، پاسپورٹ اور شناختی دستاویزات کے کسی ملک میں رہائش اختیار کرے۔ انہوں نے بتایا کہ بیرون ملک سے پاکستان کو شکایات موصول ہوئیں، جن میں کہا گیا کہ بعض افراد نے جعلی پاکستانی پاسپورٹس استعمال کیے، جو درحقیقت پاکستانی شہری نہیں تھے۔ سعودی عرب، جی سی سی ممالک اور مغربی ممالک سے ایسی شکایات کی روشنی میں ہزاروں پاسپورٹس ضبط کیے گئے، جس سے پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی۔ وزیر مملکت کا کہنا تھا کہ پاکستان کی پالیسی "ون ڈاکومنٹ رجیم" پر مبنی ہے، جس کے تحت دنیا بھر سے لوگ صحت، تعلیم یا سیاحت کے لیے پاکستان آئیں تو انہیں قانونی دستاویزات کے ساتھ خوش آمدید کہا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی ویزا پالیسی آن لائن ہے، اور بیشتر ممالک کے لیے 24 گھنٹوں کے اندر ویزا جاری کیا جاتا ہے، تاہم بغیر دستاویزات کسی کے پاکستان میں داخلے یا رہائش پر زیرو ٹالرینس اختیار کی جائے گی۔
ماسکو: روس نے افغان طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کر دیا ہے اور ان پر عائد پابندیاں بھی فوری طور پر معطل کر دی گئی ہیں۔ یہ اقدام ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس سے افغانستان کی قیادت کے ساتھ روس کے تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق روس کی سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز طالبان پر 2003 سے عائد پابندی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یاد رہے کہ طالبان کو روس نے دو دہائیوں سے زائد عرصے تک ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا تھا۔ تاحال دنیا کا کوئی بھی ملک طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا، جو اگست 2021 میں امریکا کی زیر قیادت افواج کے انخلا کے بعد اقتدار میں آئی تھی۔ تاہم روس نے گزشتہ برسوں میں بتدریج طالبان کے ساتھ روابط استوار کیے ہیں۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے طالبان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک "اتحادی" قرار دیا تھا۔ روس کا ماننا ہے کہ طالبان کے ساتھ تعاون ناگزیر ہے، خاص طور پر اس وقت جب اسے افغانستان، مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں سرگرم شدت پسند تنظیموں سے شدید سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مارچ 2024 میں ماسکو کے نواح میں ایک کنسرٹ ہال پر حملے میں 145 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔ امریکی حکام کے مطابق اس حملے میں داعش خراسان – جو افغانستان میں سرگرم ہے – ملوث تھی۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان میں داعش کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہے ہیں اور ان کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ تاہم مغربی دنیا کی جانب سے طالبان کی بین الاقوامی سطح پر شناخت تسلیم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی خواتین مخالف پالیسیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ طالبان حکومت نے لڑکیوں اور خواتین کی ہائی اسکول اور یونیورسٹیوں میں تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر بھی قدغنیں ہیں۔
ماسکو: روس نے افغان طالبان کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج کر دیا ہے اور ان پر عائد پابندیاں بھی فوری طور پر معطل کر دی گئی ہیں۔ یہ اقدام ایک اہم پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جس سے افغانستان کی قیادت کے ساتھ روس کے تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔ ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق روس کی سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز طالبان پر 2003 سے عائد پابندی کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ یاد رہے کہ طالبان کو روس نے دو دہائیوں سے زائد عرصے تک ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا تھا۔ تاحال دنیا کا کوئی بھی ملک طالبان حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا، جو اگست 2021 میں امریکا کی زیر قیادت افواج کے انخلا کے بعد اقتدار میں آئی تھی۔ تاہم روس نے گزشتہ برسوں میں بتدریج طالبان کے ساتھ روابط استوار کیے ہیں۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے طالبان کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک "اتحادی" قرار دیا تھا۔ روس کا ماننا ہے کہ طالبان کے ساتھ تعاون ناگزیر ہے، خاص طور پر اس وقت جب اسے افغانستان، مشرق وسطیٰ اور دیگر خطوں میں سرگرم شدت پسند تنظیموں سے شدید سیکیورٹی خدشات لاحق ہیں۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب مارچ 2024 میں ماسکو کے نواح میں ایک کنسرٹ ہال پر حملے میں 145 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند تنظیم داعش نے قبول کی تھی۔ امریکی حکام کے مطابق اس حملے میں داعش خراسان – جو افغانستان میں سرگرم ہے – ملوث تھی۔ طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ افغانستان میں داعش کے خلاف بھرپور کارروائیاں کر رہے ہیں اور ان کی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ تاہم مغربی دنیا کی جانب سے طالبان کی بین الاقوامی سطح پر شناخت تسلیم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کی خواتین مخالف پالیسیوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔ طالبان حکومت نے لڑکیوں اور خواتین کی ہائی اسکول اور یونیورسٹیوں میں تعلیم پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت پر بھی قدغنیں ہیں۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال کا نیا اقدام، شناختی کارڈ نمبر ہی ہوگا مریض کا میڈیکل ریکارڈ نمبر وفاقی وزیر صحت مصطفیٰ کمال نے کہا ہے کہ پاکستان میں مریضوں کا میڈیکل ریکارڈ (ایم آر نمبر) ان کے شناختی کارڈ نمبر کے تحت ہوگا، اور اس پر کام جاری ہے۔ وفاقی وزیر نے نادرا ہیڈکواٹر کا دورہ کیا اور چیئرمین نادرا لیفٹیننٹ جنرل محمد منیر افسر سے ملاقات کی، جس دوران صحت کے نظام میں ایک ایم آر نمبر کے نفاذ کے حوالے سے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس موقع پر مصطفیٰ کمال نے کہا کہ پاکستان کے ہیلتھ سسٹم میں مریضوں کی میڈیکل ہسٹری کا جامع ڈیٹا نہیں ہے، جسے بہتر بنانے کے لیے مختلف اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سسٹم کی بہتری کے لیے شناختی کارڈ نمبر کو ہی ایم آر نمبر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاکہ ملک کے کسی بھی حصے میں، کسی بھی وقت، مریض کا مکمل میڈیکل ریکارڈ آن لائن دستیاب ہو سکے، جس سے علاج میں آسانی اور درستگی ممکن ہو گی۔
اسلام آباد: حکومت کی جانب سے عالمی مارکیٹ میں کمی کے باوجود پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ممکنہ ریلیف عوام تک منتقل نہ کیے جانے پر سینئر اقتصادی تجزیہ کار شہباز رانا اور وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی عطا تارڑ کے درمیان سوشل میڈیا پر سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ شہباز رانا نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ وزیرِاعظم شہباز شریف نے بلوچستان میں ایک سڑک اور نہر کی تعمیر کے لیے پٹرول اور ڈیزل پر پٹرولیم لیوی میں اضافے کی منظوری دی ہے، جس کا بوجھ غریب سے امیر سب پر پڑے گا۔ انہوں نے اس فیصلے کو ایک غلط پالیسی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ منی بجٹ کے مترادف ہے، جبکہ بلوچستان پہلے ہی سرپلس بجٹ رکھتا ہے اور وفاقی پی ایس ڈی پی میں بھی 1100 ارب روپے کی گنجائش موجود ہے۔ شہباز رانا نے اپنے ایکس پیغام میں کہا وزیرِاعظم شہباز شریف نے بلوچستان میں ایک سڑک کی تعمیر اور نہر کی تکمیل کے لیے پٹرولیم لیوی میں اضافہ کرکے پٹرول اور ڈیزل کی ہر لیٹر کھپت پر، چاہے وہ غریب استعمال کرے یا امیر، اضافی ٹیکس عائد کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ ایک غلط پالیسی فیصلہ ہے اور منی بجٹ کے مترادف ہے۔ بلوچستان ایک مالیاتی سرپلس رکھنے والا صوبہ ہے، اور دسمبر 2024 تک اس کے پاس 91.4 ارب روپے کی اضافی رقم موجود تھی۔ اس کے علاوہ وفاقی پی ایس ڈی پی میں بھی 1100 ارب روپے موجود ہیں۔ حکومت کو پٹرولیم مصنوعات میں ریلیف روکنا نہیں چاہیے۔ ہم بلوچستان کی ترقی کی حمایت کرتے ہیں، مگر اس کے لیے وزیرِاعظم کو پارلیمنٹیرینز کے پہلے سے موجود اختیاری بجٹ اور دیگر وسائل استعمال کرنے چاہییں۔ حکومت اب عوام کا بھرپور استحصال کر رہی ہے۔ عوام پر پہلے ہی بھاری ٹیکس عائد ہیں، اور وہ پٹرول کی قیمتوں میں فی لیٹر 8 روپے تک کی کمی کے مستحق ہیں۔ اس ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے عطا تارڑ نے شہباز رانا پر "مس انفارمیشن" پھیلانے کا الزام عائد کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے "ٹیکس" کہنا گمراہ کن ہے اور حکومت صرف عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں سے بچت کو بلوچستان جیسے پسماندہ علاقے کی ترقی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ ان کے مطابق یہ کوئی بوجھ نہیں بلکہ ایک دیرینہ انصاف ہے۔ عطا تارڑ نے جواب میں کہا اسے "ٹیکس" کہنا صرف گمراہ کن نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کی سوچ کس قدر بے تعلق اور بے حس ہے۔ یہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانی ہے۔ حکومت عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں سے ہونے والی بچت کو بلوچستان — جو ملک کے سب سے محروم علاقوں میں سے ایک ہے — کی ترقی کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ یہ کوئی بوجھ نہیں بلکہ ایک دیرینہ انصاف ہے۔ وقتی طور پر پٹرول کی قیمت میں کمی جلد ختم ہو جاتی ہے، مگر اصل فائدہ سڑکوں، اسکولوں اور نوکریوں سے ہوتا ہے جو لوگوں کی زندگیاں بدل دیتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ یہ سمجھنے کے لیے ہمدردی اور دوراندیشی کی ضرورت ہے — وہ خصوصیات جو آپ میں واضح طور پر نظر نہیں آتیں۔ یہی وہ طریقہ ہے جس سے گمراہ کن معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔ تاہم، شہباز رانا نے اپنے جوابی ٹویٹ میں عطا تارڑ کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر صاحب، پٹرولیم لیوی کی شرح میں اضافے کو آپ کیا نام دیں گے؟ براہ کرم وہ نام بتا دیجیے، میں وہی استعمال کر لوں گا، جناب۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ عوام کے جذبات سے کھیلنے سے گریز کریں اور کسی نیک مقصد کو عوام کو ان کا جائز ریلیف نہ دینے کا جواز نہ بنائیں۔ سماجی ذمہ داری حکومت کی ہوتی ہے، جناب۔ براہ کرم اس ذمہ داری کو گندم کی کٹائی میں ڈیزل استعمال کرنے والے کسانوں، دفاتر جانے والے موٹر سائیکل سواروں اور اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے والے والدین پر منتقل نہ کریں، جناب۔ پی ایس ڈی پی میں 1100 ارب روپے کی رقم مختص تھی۔ کیا آپ ہمیں آگاہ فرما سکتے ہیں کہ ساڑھے نو مہینوں میں اس میں سے کتنا واقعی خرچ ہوا؟ آپ کی رہنمائی اور جواب سے ہمیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ آپ کی حکومت واقعی عوام کا کتنا خیال رکھتی ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا میں ہمیشہ سے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ جب عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بڑھتی ہیں تو پاکستان میں بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھنی چاہییں، اور جب یہ قیمتیں کم ہوں تو حکومت کو بھی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کرنی چاہیے۔ مفتاح نے کہا لیکن گزشتہ دو ماہ سے مسلسل، پی ایم ایل این/پی پی پی/ایم کیو ایم کی اتحادی حکومت نے پٹرولیم مصنوعات پر لیوی میں اضافہ کیا ہے۔ مارچ میں انہوں نے لیوی میں 10 روپے کا اضافہ کیا، اور اپریل میں دوبارہ 10 روپے مزید بڑھا دیا، یوں مجموعی لیوی 80 روپے فی لیٹر تک جا پہنچی ہے۔ یعنی صرف دو مہینوں میں حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کے بجائے، ہر ماہ 34 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عوام پر عائد کیے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت یہ جھوٹ بول رہی ہے کہ یہ رقم بلوچستان میں کسی منصوبے کے لیے استعمال کی جائے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ پیسہ ایک قابلِ تبادلہ چیز ہے، اور یہ تمام اضافی ٹیکسز عمومی حکومتی خزانے میں جائیں گے۔ بلوچستان کے لیے کوئی نیا منصوبہ منظور نہیں ہوا ہے۔ اور جیسا کہ میں ٹی وی پر ایک سے زیادہ مرتبہ کہہ چکا ہوں، حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ پٹرول کی قیمتیں کم نہیں کرے گی بلکہ ٹیکس میں اضافہ جاری رکھے گی۔ اس لیے دراصل یہ ایک منی بجٹ ہے۔ عطا تارڑ کے بیان پرزبیر علی خان نے کہا ٹیکس کو ٹیکس کہنا بھی اس حکومت میں اب جرم ہے ۔ ٹیکس کو ٹیکس مت کہیں بلکہ اسے وہ رقم کہیں جو عوام پر خرچ ہوگی،وفاقی وزیر کی نکی منطق ۔۔۔ویسے سر ہر ملک میں ٹیکس عوام پر ہی خرچ ہوتا ہے ہمارا والا ہی نرالا ہے جہاں ٹیکس کا پیسہ منی لانڈرنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے راؤ خالد نے کہا اور عطا تارڑ برائے مہربانی یہ بھی وضاحت فرما دیں کہ اگر عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتیں بڑھ گئیں، تو کیا یہ منصوبے ترک کر دیے جائیں گے؟
راولپنڈی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (آر سی سی آئی) نے پاکستان کی پہلی خاتون تھری اسٹار جنرل، لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نگار جوہر کو خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی خدمات کے اعتراف میں اپنا باضابطہ برانڈ ایمبیسیڈر مقرر کر دیا ہے۔ یہ اعلان پیر کے روز چیمبر ہاؤس میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب ’شی لیڈز - اے ٹریبیوٹ ٹو ویمن‘ کے دوران کیا گیا، جس میں پاکستان بھر کی خواتین کی لچک، ہمت اور نمایاں خدمات کو سراہا گیا۔ تقریب کی مہمان خصوصی خود لیفٹیننٹ جنرل (ر) نگار جوہر تھیں، جنہوں نے اپنی زندگی اور پیشہ ورانہ تجربات کے ذریعے کئی خواتین کے لیے راہیں ہموار کیں۔ چیمبر کے صدر عثمان شوکت نے استقبالیہ خطاب میں کہا کہ جنرل نگار جوہر کی خدمات حوصلے، لگن اور رکاوٹوں کو توڑنے کی علامت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان کی شخصیت پاکستان میں خواتین کے لیے ممکنات کی نئی تعریف ہے، اور وہ نئی نسل کے لیے امید اور آرزو کی ایک روشن مثال ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کے مطابق، 2021 میں جنرل نگار جوہر آرمی میڈیکل کور (اے ایم سی) کی کرنل کمانڈنٹ بننے والی پہلی خاتون جنرل مقرر ہوئیں۔ اس سے قبل 2020 میں، وہ پاکستان کی پہلی خاتون آرمی افسر بنی تھیں جنہیں لیفٹیننٹ جنرل کے رینک پر ترقی دی گئی۔
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ عالمی منڈی میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود حکومت اس فائدے کو عوام تک منتقل کرنے کے بجائے بلوچستان میں موٹر وے معیار کی دو رویہ ہائی وے کی تعمیر پر خرچ کرے گی۔ انہوں نے پیر کے روز وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ قلات، خضدار، کوئٹہ، چمن اور کراچی کو ملانے والی خون آشام سڑک، این-25، کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے گا تاکہ وہاں کے عوام کو بھی محفوظ اور معیاری سفری سہولیات میسر آ سکیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں اور آج رات پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی کم ہونے جارہی ہیں، لیکن ہم نے سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ اس بچت کو براہ راست عوام کو منتقل کرنے کے بجائے این-25 پر خرچ کیا جائے گا، جو ایک عرصے سے حادثات کی علامت بنی ہوئی ہے۔ ان کے بقول، اس سڑک نے دو ہزار سے زائد قیمتی جانیں نگل لی ہیں اور اب وقت آ گیا ہے کہ اسے موت کی شاہراہ سے ترقی کی راہ میں بدلا جائے۔ انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا سے سکھر تک جدید موٹرویز بن چکی ہیں، اور سکھر سے کراچی تک بھی موٹر وے بننے جارہی ہے، لیکن بلوچستان مسلسل نظر انداز ہوتا رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 2022-23 میں این-25 پر دو طرفہ ہائی وے کی بنیاد رکھی گئی تھی مگر کسی قسم کا عملی کام نہ ہو سکا۔ اب حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اسے دو سال میں مکمل کیا جائے گا۔ ابتدائی تخمینہ 250 ارب روپے تھا جو اب بڑھ کر تقریباً 300 ارب ہو چکا ہے۔ شہباز شریف نے واضح کیا کہ یہ سڑک موٹر وے معیار کی ہوگی اور وفاقی حکومت اس کی تعمیر میں مکمل شفافیت سے کام لے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جب بلوچستان خوشحال ہوگا تو پاکستان بھی خوشحال ہوگا، اور اب وقت ہے کہ بلوچستان کے عوام کو یہ محسوس ہو کہ ان کے لیے بھی کوئی سوچ رہا ہے۔ وزیراعظم نے یہ بھی بتایا کہ حالیہ دنوں میں بجلی کی قیمتوں میں ساڑھے 7 روپے فی یونٹ کمی کی گئی ہے، جو تمام صارفین کے لیے ہے، خواہ وہ گھریلو ہوں یا کاروباری۔ انہوں نے کہا کہ یہ حکومت کی طرف سے عوام کے لیے عید کا تحفہ ہے اور اس سے معیشت پر مثبت اثر پڑے گا۔ ایرانی علاقے میں آٹھ بے گناہ پاکستانیوں کے قتل پر اظہارِ افسوس کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر خارجہ نے ایرانی ہم منصب سے رابطہ کیا ہے اور انہیں امید ہے کہ ایران کی حکومت قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے گی۔
کیا پاکستان کی سفارت کاری واقعی بدل رہی ہے؟ کیا اسلامی دنیا اب اسرائیل جیسے حساس معاملات پر بھی نسبتاً متوازن مؤقف اپنانے کو تیار ہے؟ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کی حالیہ قرارداد اور اس میں پاکستان کے کردار نے ان سوالات کو نہ صرف جنم دیا ہے بلکہ عالمی سطح پر ایک نئی بحث کو بھی چھیڑ دیا ہے۔ یہ قرارداد، جو او آئی سی (اسلامی تعاون تنظیم) کے تحت پیش کی گئی، ہمیشہ کی طرح اسرائیل کے خلاف تنقیدی لہجے میں تھی۔ مگر اس بار کچھ مختلف ہوا۔ حیرت انگیز طور پر، قرارداد میں کئی شقیں ایسی شامل ہوئیں جن میں اسرائیلی شہریوں پر 7 اکتوبر کے دہشت گرد حملوں کی مذمت کی گئی، یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا، اور راکٹ حملوں جیسے اقدامات پر نکتہ چینی کی گئی۔ اور ان تمام تبدیلیوں کا سہرا پاکستان اور او آئی سی کی سفارتی کوششوں کے سر جاتا ہے۔ امریکن جیوش کانگریس کے مطابق اگرچہ قرارداد اپنی مجموعی ساخت میں سنگین خامیوں کا شکار ہے، لیکن پاکستان اور او آئی سی کی جانب سے لائی گئی چند تعمیری تبدیلیاں ایک قابلِ ذکر پیش رفت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اگرچہ قرارداد اب بھی اسرائیل کے خلاف گہرے تعصب کی حامل ہے، امریکی یہودی کانگریس نے اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں منظور کی گئی قرارداد سے انتہائی سخت شقوں کو نکالنے اور اسرائیلی شہریوں پر 7 اکتوبر کے حملوں کی مذمت اور یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ شامل کرنے میں پاکستان کے کردار کا خیرمقدم کیا ہے۔ یہ قرارداد سعودی عرب کی سربراہی میں اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کی جانب سے پیش کی گئی، جو 57 مسلم اکثریتی ممالک کی نمائندگی کرتی ہے—اس بنا پر زبان میں تبدیلی خاص طور پر اہم اور قابلِ توجہ ہے۔ تاہم غلط فہمی میں نہ رہیں: منظور شدہ قرارداد اب بھی سنگین خامیوں کا شکار ہے، جن میں حماس اور اس کے مظالم—بزرگ اسرائیلی شہریوں کا قتل اور بچوں کو اغوا کرنا—کا کوئی ذکر شامل نہیں، نیز اس میں ایسی زبان شامل ہے جو نادانستہ طور پر دہشت گردی کو جواز دے سکتی ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان اور او آئی سی کی جانب سے کی گئی تبدیلیاں ماضی کی روش سے ایک بامعنی انحراف ہیں اور ان کا اعتراف کیا جانا چاہیے۔ منظور شدہ قرارداد میں چند قابلِ ذکر تبدیلیاں شامل ہیں: اسرائیلی شہریوں پر 7 اکتوبر کے دہشت گردانہ حملوں کی باضابطہ مذمت اسرائیل کے شہری آبادی والے علاقوں پر راکٹ حملوں پر واضح تنقید اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے مسلح گروہوں کا بالواسطہ ذکر اسرائیلی اہلکاروں کے خلاف اقوامِ متحدہ کا مستقل عدالتی نظام قائم کرنے کی شق کو حذف کر کے جنرل اسمبلی کو محض غیر پابند مشورہ دینا قیدیوں، خواتین اسیران، اور لاشوں کی حوالگی سے متعلق بین الاقوامی معیارات کا حوالہ—جو کہ حماس پر بالواسطہ لیکن واضح تنقید ہے یہ نکات اسلامی تعاون تنظیم کی جانب سے پیش کی گئی کسی قرارداد میں زبان اور مؤقف میں ایک اہم تبدیلی کی عکاسی کرتے ہیں، اور خطے میں ممکنہ سفارتی تبدیلیوں کی علامت ہو سکتے ہیں۔ او آئی سی کے کئی رکن ممالک جیسے البانیہ، مراکش، آذربائیجان، اور متحدہ عرب امارات اسرائیل کے مضبوط شراکت دار بن چکے ہیں۔ پاکستان کا کردار خاص طور پر اس وقت نمایاں ہے جب اس نے ابتدائی مسودے سے وہ سب سے زیادہ متنازع شق حذف کی، جو "تمام فریقین" کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر کارروائی کے لیے اقوامِ متحدہ کا مستقل نظام قائم کرنے کا مطالبہ کرتی تھی—ایسی شق جو اس قرارداد کے اسرائیل مخالف جھکاؤ کے تناظر میں اسرائیلی اہلکاروں کو نشانہ بناتی۔ حتمی ورژن میں اب صرف جنرل اسمبلی کو ایک قدم پر غور کرنے کی تجویز دی گئی ہے—جو کہ ایک اہم فرق ہے، کیونکہ جنرل اسمبلی کی قراردادیں غیر پابند ہوتی ہیں۔ ہم اس تبدیلی کو پاکستان اور او آئی سی کی جانب سے ایک تعمیری اقدام کے طور پر تسلیم کرتے ہیں، جو مشرق وسطیٰ میں بدلتے ہوئے سفارتی ماحول کی عکاسی کرتا ہے۔ آذربائیجان، مراکش، اور متحدہ عرب امارات جیسے مسلم اکثریتی ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات مضبوط کر رہے ہیں، جبکہ اطلاعات کے مطابق انڈونیشیا بھی اپنے روابط بڑھانے پر غور کر رہا ہے۔ یہ علاقائی تبدیلیاں ممکنہ طور پر صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ کے دور میں ابراہیمی معاہدوں کی دوسری لہر کے امکان سے جڑی ہوئی ہیں۔ اسرائیل کی طرح، پاکستان نے بھی دہشت گرد گروہوں کے خلاف اپنی جنگ لڑی ہے، جن میں حماس جیسے نظریاتی طور پر ہم خیال گروہ، جیسے القاعدہ، شامل ہیں۔ اسی تجربے کی روشنی میں، پاکستان کی جانب سے اس نوعیت کی زبان کا شامل کرنا دہشت گردی کے خلاف اس کے وسیع تر مؤقف کا قدرتی تسلسل محسوس ہوتا ہے۔ یہ رویہ مستقبل میں معمول کے تعلقات کی بات چیت کے لیے مثبت ثابت ہو سکتا ہے، اور بالخصوص انسداد دہشت گردی اور علاقائی استحکام کے تناظر میں پاکستان–امریکہ تعلقات کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ اس سب کے باوجود، یہ واضح رہنا چاہیے: قرارداد اب بھی گہرے نقائص کا شکار ہے۔ یہ نہ تو حماس کا نام لیتی ہے، نہ ہی اس کے کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے، حالانکہ یہی گروہ موجودہ جنگ کا آغاز کرنے، 7 اکتوبر کو مظالم ڈھانے اور معصوم شہریوں کو یرغمال بنانے کا ذمہ دار ہے۔ یہ قرارداد اسرائیل کی سلامتی سے متعلق جائز خدشات کو نظر انداز کرتی ہے اور غزہ میں موجود پرتشدد مسلح دھڑوں کی جڑوں کو نظرانداز کرتی ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک وہ شق ہے، جو کسی واضح شرط کے بغیر، دہشت گرد گروہوں جیسے حماس کو دہشت گردی کا جواز فراہم کر سکتی ہے: "اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کے مطابق، عوام کی آزادی، علاقائی سالمیت، قومی وحدت اور نوآبادیاتی یا غیر ملکی تسلط سے نجات کے لیے جدوجہد کی قانونی حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے..." ایسے گروہ کسی حوصلہ افزائی یا ابہام کے محتاج نہیں ہوتے۔ بین الاقوامی قراردادوں میں مشروع قومی تحریکوں اور شہریوں کو نشانہ بنانے والے اندھے تشدد میں واضح فرق ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود، پاکستان کی جانب سے کی گئی تبدیلیاں اور او آئی سی کی قرارداد میں ابھرتا ہوا اعتدال ایک اہم پیش رفت ہے۔ ہم ان پر زور دیتے ہیں کہ وہ آئندہ قراردادوں میں حماس کی جانب سے اسرائیل اور غزہ میں کیے گئے مظالم کی مذمت کریں اور یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی شامل کریں۔ امریکی یہودی کانگریس امن، باہمی شناخت، اور قانون کی حکمرانی کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔ جیوش کانگریس کے مطابق پلیٹ فارم: اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (UNHRC) پیش کرنے والی تنظیم: او آئی سی (57 مسلم اکثریتی ممالک پر مشتمل) پیش کرنے والا ملک (lead role): سعودی عرب کی قیادت میں او آئی سی، لیکن پاکستان کا کردار نمایاں رہا قرارداد کے اصل مسودے میں سخت اسرائیل مخالف شقیں شامل تھیں پاکستان نے ان میں ترامیم کروا کر نسبتاً متوازن زبان شامل کروائی خاص طور پر 7 اکتوبر کے حملے کی مذمت، یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ، اور اسرائیلی اہلکاروں پر کارروائی کی مستقل اقوامِ متحدہ میکانزم کی شق کو نکلوایا
بنگلہ دیشی ماڈل اور سابق مس ارتھ بنگلہ دیش کی فاتح، میگھنا عالم کو "اسپیشل پاورز ایکٹ" کے تحت گرفتار کر لیا گیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایک اہم غیر ملکی شخصیت، بالخصوص سعودی عرب کے ایک سفارت کار کے خلاف جھوٹی معلومات پھیلائیں، جن کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو نقصان پہنچانا تھا۔ بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، گرفتاری سے قبل میگھنا عالم نے فیس بک پر متعدد بار دعویٰ کیا تھا کہ ایک غیر ملکی سفارت کار انہیں خاموش کرانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی شامل ہیں۔ 9 اپریل کو ایک فیس بک لائیو ویڈیو میں دیکھا گیا کہ چند افراد، جو خود کو قانون نافذ کرنے والے اہلکار ظاہر کر رہے تھے، ڈھاکہ میں ان کے گھر داخل ہوئے۔ ویڈیو کے دوران میگھنا عالم اہلکاروں سے بار بار کہتی رہیں کہ وہ مکمل تعاون کے لیے تیار ہیں۔ بعد ازاں انہیں حراست میں لے کر کاشی پور جیل منتقل کر دیا گیا، جہاں ایک عدالت نے ان کے 30 روزہ ریمانڈ کی منظوری دے دی۔ ماڈل کے والد بدرال عالم کے مطابق ان کی بیٹی کی گرفتاری کی اصل وجہ ایک ذاتی تعلق ہے۔ انہوں نے بتایا کہ میگھنا اور اس وقت کے سعودی سفیر کے درمیان قریبی تعلقات تھے، تاہم جب ان کی بیٹی نے شادی کی پیشکش مسترد کی— کیونکہ سفیر پہلے سے شادی شدہ اور بچوں والے تھے — تو بعد میں انہیں انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ سعودی عرب بنگلہ دیش کے لیے ایک اہم اقتصادی و انسانی شراکت دار ہے، جہاں 2.16 ملین بنگلہ دیشی کارکن مقیم ہیں، جو وہاں کی سب سے بڑی تارکین وطن کمیونٹی ہیں۔ اس تناظر میں میگھنا عالم کا معاملہ سفارتی سطح پر بھی حساس نوعیت اختیار کر چکا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر میگھنا عالم پر کوئی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جرم عائد نہیں کیا جاتا تو انہیں فوری طور پر رہا کیا جائے۔ میگھنا عالم ایک 30 سالہ ماڈل، اداکارہ اور ماحولیاتی کارکن ہیں۔ وہ 2020 میں "مس ارتھ بنگلہ دیش" کا اعزاز جیتنے کے بعد شہرت میں آئیں۔ وہ "مس بنگلہ دیش فاؤنڈیشن" کی چیئرپرسن اور "مس بنگلہ دیش آرگنائزیشن" کی نیشنل ڈائریکٹر ہیں، اور 12 سال کی عمر سے سماجی سرگرمیوں میں سرگرم عمل رہی ہیں۔
اسلام آباد: حکومت کی جانب سے مالی سال 2025-26 کے لیے دفاعی اخراجات میں 159 ارب روپے اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے، جس کے بعد آئندہ سال کا مجموعی دفاعی بجٹ 2 ہزار 281 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق نئے مالی سال کے بجٹ میں دفاعی اخراجات میں رواں مالی سال کے مقابلے میں 7.49 فیصد اضافہ متوقع ہے۔ مالی سال 2024-25 کے لیے حکومت نے 2 ہزار 122 ارب روپے کا دفاعی بجٹ مختص کیا تھا، جو کہ گزشتہ مالی سال 2023-24 کے 1 ہزار 858 ارب 80 کروڑ روپے سے 14.16 فیصد زیادہ تھا۔ رواں سال کے دوران دفاعی اخراجات میں 263 ارب 20 کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا تھا، جبکہ اب آئندہ مالی سال کے لیے مزید 159 ارب روپے اضافے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سیکیورٹی کے بڑھتے ہوئے چیلنجز، مسلح افواج کے افسران و جوانوں کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں متوقع اضافے، اور جدید عسکری سازوسامان کی خریداری کے پیش نظر دفاعی بجٹ میں مسلسل اضافہ ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔
پنجاب کے مختلف اضلاع میں حالیہ دنوں میں دورانِ ڈکیتی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی کے پے در پے واقعات نے نہ صرف عوام کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں دریائے راوی کے قریب کمالیہ کے علاقے موزہ جھلر سہگل میں 4 ڈاکوؤں نے دو بہنوں کو مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بناڈالا۔۔ کمالیہ کے نواحی علاقے موزہ جھلر سہگل میں یہ واقعہ 10 اور 11 اپریل کی درمیانی شب پیش آیا۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق متاثرہ خاندان کی جانب سے تھانہ کمالیہ صدر میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 376 (اجتماعی زیادتی) اور 392 (ڈکیتی) کے تحت ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے۔ شکایت کنندہ، جس کی شناخت کو قانونی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کیا جا رہا، نے بیان دیا ہے کہ وہ 10 اور 11 اپریل کی درمیانی شب اپنے زمیندار کے کھیت میں سو رہا تھا جب چار مسلح افراد نے اسے جگایا۔ مدعی کے مطابق، ملزمان نے اسے زبردستی اس کے گھر لے جا کر مجبور کیا کہ وہ دروازہ کھلوائے۔ جیسے ہی گھر کا دروازہ کھولا گیا، ملزمان نے مدعی، اس کی اہلیہ، بھابھی اور ایک مرد رشتہ دار کو قابو میں لے لیا اور رسیوں سے باندھ دیا۔ شکایت کنندہ کے مطابق، چاروں ملزمان اس کی بیوی اور بھابھی کو گھر سے باہر لے گئے جہاں انہوں نے مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کا ارتکاب کیا۔ اس کے بعد ملزمان گھر میں موجود سات لاکھ روپے مالیت کے زیورات، نقدی اور دیگر قیمتی اشیاء بھی لوٹ کر فرار ہو گئے۔ پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ انتہائی سنگین نوعیت کا ہے اور مجرموں کو جلد گرفتار کرنے کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا کہ متاثرہ خواتین کا طبی معائنہ کرایا گیا ہے اور رپورٹ کا انتظار ہے۔ علاقے کے مکینوں نے واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ ملوث عناصر کو جلد از جلد قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تاکہ متاثرہ خاندان کو انصاف مل سکے اور ایسے واقعات کی روک تھام ہو۔ یہ واقعہ اُس اندوہناک واردات سے صرف چند دن بعد پیش آیا جو فیصل آباد میں رپورٹ ہوئی تھی، جہاں ایک گھر میں ڈکیتی کے دوران خاتون کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان دونوں واقعات میں مماثلت واضح ہے: مسلح افراد گھروں میں گھس کر نہ صرف مالی نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں، جو ایک سنگین اور ناقابلِ برداشت جرم ہے۔
پنجاب پولیس کے اسپیشل آپریشنز سیل نے دو سال قبل سیالکوٹ سے اغوا کی گئی چار سالہ بچی زونیرہ فاطمہ کو بین الاقوامی کارروائی کے بعد کویت سے بحفاظت بازیاب کروا لیا ہے۔ ترجمان پنجاب پولیس کے مطابق یہ کامیاب کارروائی اسپیشل آپریشنز سیل کی جانب سے عمل میں لائی گئی، جس میں کویت کی مقامی انتظامیہ سے بھی تعاون حاصل کیا گیا۔ مغویہ زونیرہ فاطمہ 2023 میں سیالکوٹ سے اغوا ہوئی تھی۔ پولیس کے مطابق اغوا میں ملوث مرکزی ملزمان انور اقبال اور صدف اقبال کو بھی کویت سے گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ دونوں ملزمان بچی کے قریبی رشتہ دار ہیں، جنہوں نے جعلی دستاویزات کے ذریعے بچی کو کویت منتقل کیا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ ملزمان کو پاکستان واپس لانے کے لیے قانونی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے، جبکہ زونیرہ فاطمہ کی بحفاظت واپسی پر اہل خانہ اور مقامی افراد نے پنجاب پولیس کی کوششوں کو سراہا ہے۔
لاہور – سروسز اسپتال لاہور میں ایک افسوسناک اور تشویشناک واقعہ پیش آیا، جس میں پولیس کے سب انسپکٹر نے دیگر اہلکاروں اور سادہ لباس میں ملبوس افراد کے ہمراہ ڈاکٹروں پر تشدد کیا۔ واقعے میں سینئر رجسٹرار سمیت دو ڈاکٹرز زخمی ہو گئے، جس کے بعد اسپتال کے عملے میں شدید بے چینی پھیل گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ واقعہ سروسز اسپتال کی او پی ڈی میں پیش آیا، جہاں ایک مریض اور ڈاکٹروں کے درمیان معمولی تلخ کلامی ہوئی۔ مریض کے ساتھ آئے اٹینڈنٹ نے اس جھگڑے کے بعد اپنے بھائی، پولیس سب انسپکٹر کو کال کر کے موقع پر بلالیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ سب انسپکٹر دیگر وردی پوش پولیس اہلکاروں اور سادہ کپڑوں میں موجود افراد کے ساتھ او پی ڈی میں داخل ہوا اور بلا جھجک ڈاکٹروں پر حملہ کر دیا۔ اسپتال کا عملہ موقع پر موجود ہونے کے باوجود بے بسی کا شکار رہا جبکہ تشدد سے دو ڈاکٹرز زخمی ہو گئے۔ اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ مریض کے اٹینڈنٹ اور ڈاکٹرز کے درمیان جھگڑا معمولی نوعیت کا تھا، جسے موقع پر ہی صلح کے ذریعے حل کر لیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بعد پولیس اہلکاروں کا آ کر تشدد کرنا نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ یہ اسپتال کے تقدس کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ انتظامیہ کا کہنا ہے کہ واقعے کی ویڈیو فوٹیج موجود ہے اور اس پر قانونی کارروائی کے لیے اعلیٰ حکام کو اطلاع دی جا چکی ہے۔ اسپتال کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ وہ اس واقعے پر سخت ایکشن لیں گے اور ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
ملک میں صحافیوں کے خلاف سائبر قوانین کے استعمال میں تیزی آ گئی ہے، اور حالیہ واقعے میں صحافی جنید ساگر قریشی کو پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 کے تحت ایک مبینہ جھوٹی اور اشتعال انگیز ویڈیو بیان پر مقدمے کا سامنا ہے۔ پولیس ترجمان کے مطابق، یہ ویڈیو واٹس ایپ پر وائرل ہوئی جسے مدعی اے ایس آئی طارق ممتاز نے دیکھا۔ فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (FIR) کے مطابق، جنید ساگر نے اپنی ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ سرسید تھانے کی حدود میں ایک ڈمپر گاڑی نے خاتون کو کچل دیا، جس پر عوام نے مشتعل ہو کر پولیس پر پتھراؤ کیا، اور اس دوران ایس ایچ او سمیت دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ تاہم، پولیس کے مطابق ویڈیو کی جانچ پڑتال کے بعد یہ تمام معلومات غلط ثابت ہوئیں، نہ کوئی خاتون کے کچلے جانے کا واقعہ رپورٹ ہوا اور نہ ہی پولیس پر حملے کا کوئی ثبوت ملا۔ پولیس کے مطابق جنید صغر قریشی پر پیکا ایکٹ 2016 کی دفعہ 21 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، جس کا تعلق "نفرت انگیز اور جھوٹی معلومات پھیلانے" سے ہے۔ پیکا قانون، جو 2016 میں نافذ ہوا، کو ابتدا سے ہی انسانی حقوق کی تنظیموں، صحافیوں اور سول سوسائٹی کی طرف سے "کالا قانون" قرار دیا جاتا رہا ہے۔ اس قانون کے تحت صرف سائبر کرائمز کو کنٹرول کرنے کے بجائے اسے اکثر حکومت مخالف آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ حال ہی میں قومی اسمبلی نے ایک متنازع ترمیمی بل بھی منظور کیا، جس کے دوران پی ٹی آئی کے ارکانِ اسمبلی اور صحافیوں نے واک آؤٹ کیا۔ جنید ساگر قریشی پہ مقدمہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب رواں سال متعدد صحافیوں کو پیکا کے تحت نشانہ بنایا گیا ہے۔ 20 مارچ کو صحافی فرحان ملک، جو "رفتار" میڈیا ایجنسی کے بانی اور سابق نیوز ڈائریکٹر (سماء ٹی وی) تھے، کو ریاست مخالف مواد چلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان پر پیکا اور پاکستان پینل کوڈ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ چند دن بعد اردو نیوز سے وابستہ صحافی وحید مراد کو ایف آئی اے نے اسلام آباد کی عدالت میں پیش کیا۔ ان پر پیکا کی دفعات 9 (جرم کی تعریف)، 10 (سائبر دہشت گردی)، 20 (بدنیتی پر مبنی کوڈ) اور 26A (جھوٹی معلومات پھیلانے کی سزا) کے تحت مقدمہ بنایا گیا۔ کراچی میں رواں ماہ کے آغاز میں ایک پولیس افسر کو بھی صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کے خلاف توہین آمیز کلمات استعمال کرنے پر پیکا کے تحت گرفتار کیا گیا۔ صحافتی حلقوں اور آزادی اظہار کے علمبرداروں نے جنید ساگر کے خلاف کارروائی کی شدید مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر معلومات کی تصدیق کرنا ضروری ہے، لیکن محض اختلافِ رائے یا کسی خبر کی بنیاد پر سخت قانونی کارروائی آزادی صحافت پر حملہ ہے۔ پیکا کے تحت صحافیوں کے خلاف بڑھتی کارروائیاں ایک بڑے سوال کو جنم دیتی ہیں: کیا اس قانون کا استعمال صرف جرائم کے خلاف ہے، یا اسے ریاستی بیانیے سے اختلاف کرنے والی آوازوں کو دبانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے؟
گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے گورنر ہاؤس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کراچی میں بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج گورنر ہاؤس میں وہ تمام افراد موجود ہیں جن کے پیارے ڈمپرز کی ٹکر سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ گورنر سندھ نے کہا کہ کسی کی جان کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا، نہ پیسہ، نہ پلاٹ۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ حادثات میں جان گنوانے والوں کے آنسو آج تک نہیں تھمے، اور کسی نے ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں قانون پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے روزانہ قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔ کامران ٹیسوری نے چیف جسٹس آف پاکستان کا شکریہ ادا کیا کہ ان کے خط پر نوٹس لیا گیا، اور سپریم کورٹ نے ان کے پرنسپل سیکریٹری سے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے یقین دلایا کہ اب متاثرین کو ضرور انصاف ملے گا اور عدالت قانون پر مکمل عمل درآمد کروائے گی۔ گورنر سندھ نے اعلان کیا کہ وہ ڈمپرز کے حادثات میں جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو ایک ایک پلاٹ دیں گے، ان کے بچوں کے لیے اعلیٰ تعلیم کا بندوبست کریں گے، اور بارہ سال تک مفت تعلیم فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ تھانے متاثرین کی ایف آئی آر درج نہیں کر رہے، جو کہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ان سانحات پر سیاست بند کی جائے اور متاثرہ افراد کے دکھوں کا مذاق نہ بنایا جائے۔ گورنر نے یہ بھی کہا کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ خود اپنی گاڑیاں اور بنگلہ بیچ کر متاثرین کی مدد کریں گے۔ کامران ٹیسوری نے کہا کہ وہ لسانی فسادات کے سخت خلاف ہیں، اور کراچی میں اب تعلیم، صحت اور ہنر کی بات ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ سیاست کے نام پر مزید تباہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ایک افسوسناک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کراچی میں سڑکوں کے ساتھ کھیل کے میدان بھی غیر محفوظ ہیں، جہاں ایک ٹینکر نے گراؤنڈ میں کھیلتے ہوئے 4 سالہ بچے کو کچل دیا۔ گورنر سندھ نے کہا کہ آج گورنر ہاؤس میں ہر قومیت کے لوگ موجود ہیں، کراچی کی سینکڑوں ماؤں کے بیٹے سڑک حادثات کی نذر ہو چکے ہیں، اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ لیکن میں ان کا بھائی ہوں، میں گورنر ہوں، اور میں ان کے ساتھ کھڑا ہوں۔
اسلام آباد: داسو ہائیڈرو پاور منصوبے کی لاگت میں ایک کھرب روپے سے زائد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ حکومت نے اس منصوبے کی لاگت 1.74 کھرب روپے تک بڑھا دی ہے، جبکہ سی ڈی ڈبلیو پی نے مجموعی طور پر 10 ترقیاتی منصوبے پیش کیے، جن میں سے 4 کی منظوری دے دی گئی۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کی زیر صدارت سی ڈی ڈبلیو پی کا اجلاس ہوا، جس میں 10 ترقیاتی منصوبوں کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ تاہم، صرف 4 منصوبوں کی منظوری دی گئی اور 6 منصوبوں کو ایکنک کو بھیج دیا گیا۔ اجلاس میں وفاقی وزیر احسن اقبال نے داسو منصوبے کی لاگت میں اضافے پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ سی ڈی ڈبلیو پی نے 6 منصوبے ایکنک کو بھیج دیے۔ ان میں بلوچستان میں تعلیم کے معیار اور رسائی کے لیے 28 ارب روپے کا منصوبہ تجویز کیا گیا، جبکہ شیخوپورہ میں قائداعظم یونیورسٹی کا سب کیمپس قائم کرنے کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں آئی ٹی اسٹارٹ اپس، ٹریننگ، اور وی سی کے لیے 5 ارب روپے کے منصوبے کی منظوری بھی دی گئی، ساتھ ہی قومی سیمی کنڈکٹر پروگرام کے پہلے مرحلے کی بھی منظوری دی گئی۔ اس کے علاوہ، فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے کسٹمز کمپلیکس اور ڈیجیٹل اسٹیشنز کے لیے 16 ارب روپے کا منصوبہ زیر غور آیا۔ سندھ کے سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں سڑکوں کی بحالی کے لیے 12 ارب روپے کی تجویز دی گئی، اور کوئٹہ کے پانی کے بحران کے حل کے لیے تقریباً 10 ارب روپے کا منصوبہ ایکنک کے سپرد کر دیا گیا۔ اجلاس میں بلوچستان میں پانی کی سپلائی کے انتظام اور زرعی زمین کی آب پاشی کے لیے 17 ارب روپے کے منصوبے کو ایکنک کے حوالے کیا گیا۔
ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ صدر آصف زرداری کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں، کیونکہ انہوں نے خود ہی نہروں کی منظوری دی ہے۔ دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کے معاملے پر اپنے بیان میں مشیر اطلاعات اور ترجمان خیبر پختونخوا حکومت بیرسٹر سیف نے کہا کہ صدر زرداری نے نہروں کے معاملے میں یا تو سندھ کے عوام کے ساتھ دھوکہ کیا ہے یا پھر ان کی یادداشت کمزور ہو گئی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی کو ان دونوں باتوں میں سے ایک کو تسلیم کرنا ہوگا کیونکہ دونوں کی ایک ساتھ تردید ممکن نہیں ہے۔ اگر آصف زرداری کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں تو وہ اعلیٰ ترین عہدے پر کیسے براجمان ہیں؟ انہیں فوراً مستعفی ہو جانا چاہیے، کیونکہ انہیں اپنی جسمانی اور ذہنی حالت کے پیش نظر خود استعفیٰ دینا چاہیے۔ بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی نہروں کے معاملے پر صرف اپنے ووٹ بینک کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ نہروں کی منظوری خود آصف علی زرداری نے دی تھی، اور یہی وجہ ہے کہ آصف زرداری کی منظوری اور بلاول بھٹو کی مخالفت سمجھ سے باہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی احتجاج کا ڈراما رچ کر اپنے ووٹ بینک کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ نہروں کا معاملہ سب سے پہلے پاکستان تحریک انصاف نے اٹھایا تھا۔ بلاول بھٹو کو احتجاج کرنے کے بجائے اپنے والد سے پوچھنا چاہیے کہ نہروں کی منظوری کیوں دی گئی؟

Back
Top