خبریں

خبریں

Threads
8.6K
Messages
65.8K
Threads
8.6K
Messages
65.8K

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
کئی برس کی قانونی جدوجہد کے بعد ممبئی بم دھماکوں کے ایک مبینہ ملزم اور پاکستانی نژاد کینیڈین تاجر طہور رانا کو جمعرات کے روز امریکہ سے خصوصی پرواز کے ذریعے انڈیا کے دارالحکومت دلی منتقل کر دیا گیا۔ اگلے ہی دن انھیں نیشنل انویسٹیگیشن ایجنسی (این آئی اے) کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں عدالت نے ان کا 18 روزہ ریمانڈ منظور کیا۔ پیشی کے دوران عدالت میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ این آئی اے کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ طہور رانا سے تفتیش کے دوران ممبئی حملوں کی پوری سازش کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ انڈین حکومت نے اس مقدمے کی پیروی کے لیے ممتاز قانون دان نریندر من کو خصوصی سرکاری وکیل مقرر کیا ہے، جبکہ طہور رانا یا ان کے وکلا کی جانب سے فی الحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ طہور رانا 26 نومبر 2008 کو ممبئی میں ہونے والے مہلک دہشتگرد حملے میں انڈین ایجنسیوں کو مطلوب تھے۔ ان کی حوالگی کو انڈین سیکیورٹی اداروں کی ایک بڑی کامیابی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ این آئی اے کا کہنا ہے کہ انہیں امریکہ میں جوڈیشل حراست سے انڈین حکام نے اپنی تحویل میں لیا، جہاں وہ پہلے ہی ایک اور دہشتگردی کے مقدمے میں سزا کاٹ رہے تھے۔ طہور رانا کے خلاف الزامات میں مجرمانہ سازش، انڈین حکومت کے خلاف جنگ چھیڑنا اور دہشتگردی شامل ہیں۔ ان کی حوالگی کے لیے انڈیا کے خفیہ اداروں اور این آئی اے کے سینیئر اہلکار امریکہ گئے تھے۔ رواں برس فروری میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں اعلان کیا تھا کہ جیسے ہی عدالت اجازت دے گی، طہور رانا کو انڈیا کے حوالے کر دیا جائے گا۔ انھوں نے رانا کو ’دنیا کے بہت بُرے لوگوں میں سے ایک‘ قرار دیا تھا۔ رانا کی آمد سے قبل دلی کے ہوائی اڈے پر سکیورٹی انتہائی سخت کی گئی تھی اور تہاڑ جیل سے ایک مخصوص گاڑی انھیں لینے کے لیے روانہ کی گئی تھی۔ وزارت خارجہ نے بدھ کی شب ایڈوکیٹ نریندر من کو تین سال کے لیے اس مقدمے کا خصوصی وکیل مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا۔ سنہ 2011 میں شکاگو کی ایک عدالت نے طہور رانا کو لشکر طیبہ کی معاونت کا مجرم قرار دیا تھا، تاہم ممبئی حملوں میں براہِ راست ملوث ہونے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا۔ ان پر الزام تھا کہ انھوں نے اپنے بچپن کے دوست، ڈیوڈ کولمین ہیڈلی، کو ممبئی میں اپنی ٹریول ایجنسی کے ذریعے کور فراہم کیا، جس کے تحت ہیڈلی نے حملوں سے قبل مقامات کی ریکی کی۔ ڈیوڈ کولمین ہیڈلی ممبئی حملوں کا ایک مرکزی منصوبہ ساز تھا، جس نے لشکر طیبہ کے لیے انڈیا میں حملے کے اہداف کی ریکی کی۔ امریکی اور پاکستانی نژاد ہیڈلی نے اپنی شناخت کو چھپاتے ہوئے کئی بار ممبئی کا دورہ کیا اور وہاں کے ہوٹلوں، ریلوے اسٹیشن، یہودی مرکز اور دیگر اہم مقامات کی ویڈیوز اور معلومات اکٹھی کیں، جو بعد میں حملہ آوروں کو فراہم کی گئیں۔ اس نے انڈیا میں موجودگی کے دوران طہور رانا کی ٹریول ایجنسی کو کور کے طور پر استعمال کیا، جس سے وہ قانونی طور پر سفر کر سکا اور شبہ سے بچا رہا۔ گرفتاری کے بعد ہیڈلی نے امریکی حکام کے ساتھ تعاون کیا، مجرمانہ الزامات قبول کیے اور طہور رانا کے خلاف وعدہ معاف گواہ بن کر گواہی دی، جس سے رانا کے خلاف مقدمہ مضبوط ہوا۔ رانا نے اپنے خلاف تمام الزامات سے انکار کیا تھا۔ ان کے وکلا کا کہنا تھا کہ ہیڈلی نے انھیں استعمال کیا اور ان کے اعتماد کو دھوکہ دیا۔ ہیڈلی نے 2011 میں امریکی عدالت میں رانا کے خلاف سرکاری گواہ کے طور پر گواہی دی تھی۔ انڈیا میں طہور رانا کے خلاف یہ مؤقف اختیار کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک ’مہرہ‘ تھا، اصل منصوبہ ساز نہیں۔ انڈیا کے سابق سیکرٹری داخلہ جی کے پلئی نے ایک انٹرویو میں کہا کہ رانا کا کردار محدود تھا، اور اس نے ہیڈلی کو سہولت فراہم کی۔ پلئی کا کہنا ہے کہ این آئی اے کی چارج شیٹ سے مزید شواہد سامنے آ سکتے ہیں۔ طہور رانا کی زندگی اور پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ 1961 میں پاکستان میں پیدا ہوئے، میڈیکل کی تعلیم حاصل کی، اور فوج کے میڈیکل کور سے وابستہ رہے۔ 2001 میں کینیڈا کی شہریت حاصل کی، اور بعد ازاں امریکہ میں امیگریشن اور ٹریول ایجنسی کھولی۔ 2009 میں ایف بی آئی نے رانا اور ہیڈلی کو شکاگو میں گرفتار کیا، جب وہ ڈنمارک کے ایک اخبار پر حملے کے منصوبے کے سلسلے میں سفر کرنے والے تھے۔ ہیڈلی نے بعد میں اعتراف کیا کہ وہ لشکر طیبہ کے تربیتی کیمپس میں شرکت کر چکا تھا، اور امریکی حکومت سے تعاون کے تحت سرکاری گواہ بن گیا۔ طہور رانا کے بھائی، صحافی عباس رانا نے اس وقت بیان دیا تھا کہ ان کا بھائی ’بااصول، سچا اور محنتی‘ انسان ہے۔ انڈیا کے وزیر داخلہ امت شاہ نے رانا کی حوالگی کو وزیر اعظم نریندر مودی کی سفارتی کامیابی قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مودی حکومت کی کوشش ہے کہ انڈیا کی خودمختاری پر حملہ کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔
پاکستان اور امریکا کے درمیان تعلقات میں ایک نئی پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے، جہاں امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ محمد اسحٰق ڈار سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان دو طرفہ تعلقات، افغانستان کی صورت حال اور مستقبل میں تعاون کے امکانات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے لیے پُرعزم ہے۔ اسحٰق ڈار نے اس موقع پر دونوں ممالک کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری اور انسداد دہشت گردی جیسے اہم شعبوں میں تعاون کی اہمیت پر زور دیا۔ اعلامیے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے بھی پاکستان کے ساتھ معدنی وسائل، تجارت اور سرمایہ کاری کے میدان میں اشتراک کے لیے گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان اقتصادی تعاون مستقبل میں دوطرفہ تعلقات کے استحکام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ گفتگو کے دوران اسحٰق ڈار نے دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے واضح کیا کہ ملک نے خطے کے امن و استحکام کے لیے ہمیشہ ذمہ دارانہ کردار ادا کیا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے بھی پاکستان کی ان کوششوں کو سراہا اور انسداد دہشت گردی کے میدان میں مستقبل کے تعاون کے لیے اپنی دلچسپی ظاہر کی۔ ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق، دونوں رہنماؤں کے درمیان افغانستان کی موجودہ صورت حال پر بھی گفتگو ہوئی۔ اس دوران افغانستان میں موجود امریکی فوجی ساز و سامان کے مسئلے پر بات چیت ہوئی، جس پر فریقین نے اس معاملے کے حل پر اتفاق کیا۔ وزیر خارجہ اسحٰق ڈار نے اس موقع پر ایک بار پھر اعادہ کیا کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ اپنی شراکت داری کو پائیدار اور نتیجہ خیز بنانے کے لیے پر عزم ہے۔ دوسری جانب امریکی وزیر خارجہ نے بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ مختلف شعبوں میں قریبی تعاون جاری رکھے گا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں قائم مقام چیف جسٹس کی جانب سے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے کے اختیار پر جاری تنازعے میں بڑی پیشرفت سامنے آئی ہے۔ عدالت عالیہ کے دو سینئر ججز جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان نے اپنے تحریری آرڈر میں جسٹس بابر ستار کے مؤقف کی مکمل تائید کر دی ہے، جو اس سے قبل اسی تنازع پر مفصل عدالتی حکم جاری کر چکے ہیں۔ اس تنازع کا آغاز اس وقت ہوا جب سنگل بینچ کے مقدمات اچانک بغیر کسی واضح قانونی بنیاد کے ڈویژن بینچز کو منتقل کیے جانے لگے۔ اس صورتحال پر جسٹس محسن اختر کیانی نے شدید حیرانی کا اظہار کیا اور اپنے تحریری فیصلے میں اسے غیر معمولی اقدام قرار دیا۔ ڈان نیوز کے مطابق، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان کی عدالت سے ایک مقدمہ منتقل کیے جانے پر تشکیل دیے گئے ڈویژن بینچ—جس میں جسٹس محسن اختر کیانی اور جسٹس سردار اعجاز شامل تھے—نے اس معاملے کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے برملا سوال اٹھایا کہ سنگل بینچ کا مقدمہ کس قانونی بنیاد پر ڈویژن بینچ کو بھیجا جا سکتا ہے؟ اس پر فریقین کے وکلاء نے بھی اتفاق کیا کہ وہ اس اقدام پر حیران اور پریشان ہیں۔ جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ بظاہر مقدمات کی منتقلی قائم مقام چیف جسٹس کے حکم پر ہوئی ہے، لیکن عدالت کے سامنے ایسی کوئی قانونی شق یا انتظامی حکم نامہ موجود نہیں جس کی بنیاد پر ایسا کیا جا سکے۔ جسٹس اعجاز اسحٰق خان نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ "یہ تو کمیشن بنانے کی درخواست تھی، مگر اس کے ساتھ 21 ٹیکس مقدمات بھی منتقل کر دیے گئے۔" جسٹس کیانی نے مزید کہا کہ مقدمہ سنگل بینچ کے سامنے مکمل طور پر سنا جا چکا ہے، اور اس کے باوجود اسے بغیر کسی قانونی جواز کے دوسرے بینچ کو منتقل کرنا غیر مناسب ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جسٹس بابر ستار اس معاملے پر پہلے ہی ایک مفصل عدالتی حکم جاری کر چکے ہیں، جس میں انہوں نے واضح کیا تھا کہ مقدمات کی سماعت کے لیے مقرر کرنے کا اختیار کس طرح استعمال کیا جانا چاہیے۔ اپنے تحریری فیصلے میں جسٹس محسن اختر کیانی نے لکھا: "رجسٹرار آفس ان مقدمات کو دوبارہ قائم مقام چیف جسٹس کے سامنے رکھے، اور چیف جسٹس، ہائی کورٹ رولز اینڈ آرڈر کے تحت اپنے اختیارات کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ کریں۔ توقع ہے کہ مقدمات کی ہنگامی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں متعلقہ بینچز کے سامنے جلد مقرر کیا جائے گا۔"
امریکا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں اور تاجروں کے ایک بااثر گروپ نے حالیہ دنوں اڈیالہ جیل میں قید پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان اور اسلام آباد میں ایک سینیئر سرکاری عہدیدار سے اہم ملاقاتیں کی ہیں۔ یہ ملاقاتیں سیاسی منظرنامے میں ایک نئی پیش رفت کے طور پر سامنے آئی ہیں، جنہیں پی ٹی آئی کے لیے ممکنہ ریلیف حاصل کرنے کی غیر رسمی اور پس پردہ کوششوں کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ ملاقاتیں ان بیک چینل کوششوں سے علیحدہ ہیں جو ماضی قریب میں پی ٹی آئی اور ریاستی اداروں کے درمیان جاری تھیں، اور جن میں تاحال کوئی قابلِ ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی۔ تاہم یہ امکان موجود ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان بات چیت مستقبل قریب میں دوبارہ شروع ہو سکتی ہے۔ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے مستقل طور پر یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ سیاسی معاملات میں براہ راست مداخلت نہیں کرے گی اور یہ سیاسی جماعتوں کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ باہم گفت و شنید کریں۔ اس کے باوجود، پی ٹی آئی کے بعض رہنما پس پردہ رابطے بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اس ضمن میں اہم پیش رفت یہ ہے کہ امریکا میں مقیم پاکستانی کمیونٹی — بالخصوص ڈاکٹرز اور تاجر — ایک غیر رسمی رابطہ پل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ ان کے حالیہ رابطے بعض سیاسی مبصرین کے نزدیک نرم مزاجی کی نئی کوشش ہیں، جو عمران خان کے لیے ممکنہ ریلیف کی راہیں ہموار کر سکتی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور عمران خان کو ریلیف ملنے کا انحصار بڑی حد تک سوشل میڈیا کی حکمت عملی اور پارٹی چیئرمین کے طرزِ بیان پر ہوگا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے پی ٹی آئی کا سوشل میڈیا ونگ اور بیرونِ ملک چیپٹرز — بالخصوص امریکا اور برطانیہ میں — فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان مہمات میں بعض اوقات جھوٹی معلومات بھی پھیلائی گئیں، جنہیں ملکی اداروں کو کمزور کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ، عمران خان کی رہائی کے لیے بین الاقوامی دباؤ پیدا کرنے کی غرض سے واشنگٹن، لندن اور دیگر عالمی دارالحکومتوں سے بھی رابطے کیے گئے۔ پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت خود اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پارٹی کی حالیہ مشکلات کی ایک بڑی وجہ اس کا جارحانہ سوشل میڈیا بیانیہ ہے۔ ان رہنماؤں کا ماننا ہے کہ اس رویے میں تبدیلی کے بغیر عمران خان کی رہائی اور پارٹی کی بحالی ممکن نہیں۔ پارٹی کی موجودہ حکمت عملی نہ صرف داخلی سطح پر مسائل پیدا کر رہی ہے بلکہ پاکستان کے بین الاقوامی تعلقات اور اقتصادی پوزیشن پر بھی منفی اثرات ڈال رہی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام کو متاثر کرنے کی کوششوں اور فوج پر عالمی پابندیاں لگوانے کی خواہشات نے پارٹی کے مؤقف کو مزید متنازع بنا دیا ہے۔ اب جب کہ امریکا میں مقیم پاکستانیوں کا وفد عمران خان سے ملاقات کر چکا ہے، یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ آیا پارٹی قیادت اور اس کا سوشل میڈیا ونگ اپنے رویے میں کوئی نرمی لاتا ہے یا نہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی فوج کے خلاف تنقید روک دیتی ہے اور منفی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرتی ہے تو عمران خان کو ریلیف ملنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی اور اس کے ہمدردوں کے لیے سب سے اہم مقصد یہی ہے کہ کسی بھی طرح عمران خان کو قانونی و سیاسی ریلیف حاصل ہو۔ تاہم یہ ریلیف محض نعرے بازی اور دباؤ کی سیاست سے نہیں بلکہ حقیقت پسندانہ حکمت عملی، تنقیدی لہجے میں نرمی اور اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی ترک کرنے سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔
سانگھڑ میں دودھ فروش ناظم الدین شر کو موٹر سائیکل چوری کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ کارروائی اُس کے سوشل میڈیا پر عمران خان کے حق میں حمایت کا اظہار کرنے کے بعد کی گئی۔ ایکسپریس ٹریبیون کی خبر کے مطابق ، یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا جب ناظم الدین شر نے پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے احتجاجی جلسے میں اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی تھی۔ عمران خان کے حق میں بیان دینے کے بعد اُس پر موٹر سائیکل چوری کا مقدمہ درج کیا گیا۔ ناظم الدین شر نے کہا کہ اس نے سوشل میڈیا پر عمران خان کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا اور اُسے ایماندار رہنما قرار دیا تھا۔ ذرائع کے مطابق، پی پی پی کے خلاف بیان دینے کے بعد پولیس نے اُسے صبح کے وقت کُنڈی واہ کے قریب اُس وقت گرفتار کیا جب وہ اپنے گاؤں سے شہر جا رہا تھا۔ اُسے بعد میں ایک غیر متعین مقام پر لے جایا گیا جس سے اُس کے خاندان میں پریشانی پیدا ہو گئی۔ اُس کے رشتہ داروں کا کہنا تھا کہ پولیس نے اُس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں دی۔ تاہم، جب اس کی گرفتاری کی خبریں سوشل میڈیا پر پھیلیں، تو پولیس نے موٹر سائیکل چوری کے الزام میں اُس کی گرفتاری کی تصدیق کی۔ ناظم الدین شر کے والدین نے ان الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ اُن کا بیٹا کبھی بھی کسی غیر قانونی کام میں ملوث نہیں رہا۔ اُنہوں نے پولیس پر الزام لگایا کہ اُس نے ان کے بیٹے کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کیا ہے۔ دوسری جانب، سانگھڑ پولیس اسٹیشن پر وکلاء اور ناظم الدین شر کے خاندان کے افراد نے مزید معلومات کے لیے احتجاج کیا۔ وکلا نے اس گرفتاری کی مذمت کی اور دعویٰ کیا کہ حکومت نے پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی ہے۔ یہ واقعہ سیاسی اختلافات اور پولیس کے متنازعہ اقدامات کی ایک مثال بن گیا ہے، جہاں ایک شخص کے سیاسی بیانات کے سبب اُسے قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
لاہور شہر میں مرغی مٹن اور بیف کی قیمتوں پر قابو نہ پایا جا سکا۔ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں زندہ مرغی کا سرکاری ریٹ 383 روپے فی کلو ہے جبکہ 515 روپے کلو میں فروخت کی جا رہی ہے۔ مرغی کے گوشت کاسرکاری ریٹ 595 ہے جبکہ 760 روپے کلو میں فروخت کیا جارہا ہے۔ دوسری طرف شہر میں مٹن کا سرکاری ریٹ 1 ہزار 6 سو مقرر ہے، جو ہزار روپے زائد یعنی 2 ہزار 6 سو روپے فی کلو فروخت ہو رہا ہے۔ لاہور کے شہریوں کا کہنا ہے کہ دکان دار سرکاری ریٹ لسٹ پر عمل نہیں کر رہے۔
کوئٹہ : حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) ریڈ زون میں احتجاج کرنا چاہتی ہے لیکن اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ترجمان حکومت بلوچستان شاہد رند نے کوئٹہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سردار اختر مینگل کے ساتھ حکومتی کمیٹی نے 2 نشستیں کی ہیں، صوبائی حکومت نے انہیں سریاب روڈ پر جگہ کی پیشکش کی لیکن بی این پی ریڈ زون میں احتجاج کرنا چاہتی ہے، اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ شاہد رند کا کہنا تھا کہ بی این پی کوئٹہ کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر چکی ہے، دفعہ 144 نافذ ہے، اگر خلاف ورزی کی گئی تو قانون اپنا راستہ لے گا۔ انھوں نے کہا کہ ہم اب بھی صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہےہیں، صوبائی حکومت کی کوشش یہی تھی کہ سیاسی ڈائیلاگ سے معاملے کو حل کیا جائے، دونوں اطراف کو لچک دکھانا ہوگی، اگر اختر مینگل بضد رہیں گے تو حکومت کےپاس دیگر آپشنز موجود ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ دنوں سردار اختر مینگل کی قیادت میں بی این پی کا لانگ مارچ وڈھ سے شروع ہوا تھا تاہم مستونگ کے مقام پر راستے بند ہونے پر وہیں دھرنا دیا گیا تھا جو آج نویں روز میں داخل ہو چکا ہے۔
پشاور کے علاقے حیات آباد میں نوجوان کے قتل کا ڈراپ سین ہوگیا اور قاتلہ لڑکے کی منگیتر نکلی۔ پولیس کے مطابق 27 مارچ کو حیات آباد میں مقتول ابرار کی لاش برآمد ہوئی تھی جس پر پولیس نے تحقیقات کا آغاز کیا۔ پولیس نے بتایا کہ مقتول کی منگیتر اور اس کے دوست ملزم کو گرفتار کر لیا گیا ہے، مقتول ابرار اللہ کی شادی 6 اپریل کو طے تھی۔ پولیس کے مطابق لڑکی ابرار سے شادی نہیں کرنا چاہتی تھی، اس لیے اس نے اپنے دوست کے ساتھ مل کر اسے قتل کروا دیا۔
بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کی قیادت میں مستونگ لک پاس پر دھرنا نویں روز میں داخل ہوگیا۔ بی این پی سربراہ کا کہنا ہے کہ لانگ مارچ کے تمام راستے بند کردیے گئے ہیں، اور یہ رویہ افسوس ناک ہے۔ بی این پی کے قافلے کو کوئٹہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے انتظامیہ نے مستونگ اور مختلف مقامات پر کنٹینرز لگا دیے ہیں۔ کوئٹہ میں موبائل فون اور ڈیٹا انٹرنیٹ سروسز گزشتہ 4 روز سے معطل ہیں، جس کی وجہ سے لوگوں کو شدید پریشانی کا سامنا ہے۔
کوئٹہ میں حالیہ احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے حوالے سے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) اعزاز احمد گورائیہ نے اہم تفصیلات فراہم کی ہیں۔ پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے مشتعل افراد نے سول ہسپتال میں مارپیٹ کی، کیمرے تباہ کیے، 18 سے زائد پولز توڑے اور کئی سو کلومیٹر آپٹک فائبر کو نذرِ آتش کیا۔ ڈی آئی جی نے بتایا کہ 11 مارچ کو جعفر ایکسپریس پر حملہ ہوا تھا، جسے 12 مارچ کو کلیئر کیا گیا۔ اس حملے میں ملوث 5 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، جن کی لاشیں قانونی ضابطے کے تحت سول ہسپتال منتقل کی گئیں تاکہ ان کی شناخت ممکن ہو سکے۔ نادرا اور ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے تصدیق کے بعد ورثا کو قانونی تقاضے پورے کر کے لاشیں دی جانی تھیں۔ اعزاز احمد گورائیہ کا کہنا تھا کہ 19 مارچ کو صدرِ مملکت آصف علی زرداری کے دورے کے دوران بی وائی سی کے لوگ ہسپتال پہنچے اور لاشوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا۔ انہیں آگاہ کیا گیا کہ صرف قانونی ورثا عدالت کی اجازت سے لاشیں حاصل کر سکتے ہیں۔ تاہم، مظاہرین نے زبردستی سرد خانے کے دروازے توڑ کر لاشیں لے جانے کی کوشش کی، جس پر انتظامیہ نے کارروائی کی۔ ڈی آئی جی کے مطابق، مظاہرین نے ہسپتال، یونیورسٹی، پوسٹ آفس، اور بینک سمیت کئی عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی۔ 36 سے زائد سی سی ٹی وی کیمرے تباہ کر دیے گئے، جب کہ پولیس نے پرامن طریقے سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا سہارا لیا۔ ساڑھے 7 بجے اچانک خبر آئی کہ 3 لاشیں ہسپتال منتقل کی گئی ہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ پولیس کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئے۔ تاہم، ڈی آئی جی نے سوال اٹھایا کہ جب پولیس پیچھے ہٹ چکی تھی، تو یہ لاشیں کیسے آئیں؟ وزیراعلیٰ اور آئی جی بلوچستان نے پوسٹ مارٹم کا حکم دیا، مگر بی وائی سی نے انکار کر دیا۔ ڈی آئی جی نے بتایا کہ امن و امان برقرار رکھنے کے لیے مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے تحت 61 افراد کو جیل بھیجا گیا، جب کہ 13 افراد کو ایف آئی آر کے مطابق گرفتار کیا گیا۔ 35 افراد کو ضمانت پر رہا کیا گیا، اور بعض کم عمر مظاہرین کو والدین کی درخواست پر چھوڑ دیا گیا۔ حکام کے مطابق، احتجاج کا حق سب کو حاصل ہے، لیکن سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے کی اجازت کسی کو نہیں دی جا سکتی۔ بلوچستان حکومت نے بی وائی سی کو احتجاج کے لیے مخصوص مقامات فراہم کرنے کا معاہدہ کیا تھا، جس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہنگامہ آرائی کی گئی۔
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے وزیراعظم شہباز شریف کو مراسلہ ارسال کرتے ہوئے پن بجلی کے خالص منافع کے بقایا جات کی فوری ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے۔ مراسلے میں آئین کے آرٹیکل 161 (2) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پن بجلی گھروں سے حاصل ہونے والا منافع متعلقہ صوبوں کو ملنا چاہیے، اور اس کی شرح کا تعین مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے فیصلے کے مطابق کیا جانا ضروری ہے۔ مراسلے میں واضح کیا گیا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل نے 1991 میں قاضی کمیٹی میتھاڈالوجی کی منظوری دی تھی، جس کے تحت 1992 میں اس وقت کے شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) کو چھ ارب روپے کی پہلی ادائیگی کی گئی۔ 1997 میں نیشنل فنانس کمیشن اور سپریم کورٹ نے بھی اس طریقہ کار کی توثیق کی، جبکہ 2016 میں وفاقی حکومت نے اس حوالے سے ایک عبوری طریقہ کار متعارف کرایا، جسے مشترکہ مفادات کونسل نے بھی منظور کر لیا تھا۔ وزیر اعلیٰ نے مراسلے میں نشاندہی کی کہ پن بجلی کے خالص منافع کی شرح 1.10 روپے فی کلو واٹ آور مقرر کی گئی ہے، اور عبوری طریقہ کار کے تحت اس میں سالانہ 5 فیصد اضافہ بھی شامل کیا گیا۔ اس بنیاد پر واپڈا نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کو ادائیگیاں شروع کیں، تاہم مقررہ ادائیگیاں نہ ہونے کے سبب خیبر پختونخوا کے 75 ارب روپے کے بقایا جات جمع ہو گئے ہیں۔ مزید یہ کہ 2018 میں خیبر پختونخوا حکومت نے وفاقی حکومت کے ساتھ اس معاملے کو مکمل طور پر حل کرنے کے لیے کے سی ایم فارمولے پر عملدرآمد کا مطالبہ کیا۔ اس مقصد کے لیے ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے مالی سال 2016-17 کے دوران خیبر پختونخوا کے 128 ارب روپے کے بقایا جات کی تصدیق کی۔ مراسلے میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبوں کو پن بجلی کے خالص منافع کی ادائیگیوں کے مسئلے کا آؤٹ آف دی باکس حل تجویز کرنے کے لیے ایک اور کمیٹی تشکیل دی گئی، جس نے تمام شراکت داروں سے تجاویز طلب کیں۔ خیبر پختونخوا حکومت نے اپنی تجاویز پلاننگ کمیشن کو ارسال کر دی ہیں، تاکہ اس دیرینہ مسئلے کا کوئی مستقل اور منصفانہ حل تلاش کیا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ خیبر پختونخوا کو درپیش مالی بحران کے پیش نظر اس مسئلے کے فوری حل کے لیے آؤٹ آف دی باکس کمیٹی کا اجلاس جلد از جلد بلایا جائے اور آئین کے تقاضوں اور مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلوں کے مطابق خیبر پختونخوا کے عوام کو ان کے آئینی اور قانونی حقوق دیے جائیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ وزیراعظم اس معاملے میں قائدانہ کردار ادا کریں گے اور خیبر پختونخوا کے عوام کے دیرینہ مالی حقوق کی بحالی کو یقینی بنائیں گے۔
فرانس کی عدالت نے انتہائی دائیں بازو کی رہنما مارین لی پین کو یورپی فنڈز میں خوردبرد کے الزام میں مجرم قرار دیتے ہوئے چار سال قید اور ایک لاکھ یورو جرمانہ کی سزا سنائی ہے۔ اس کے علاوہ، پانچ سال تک کسی عوامی عہدے پر فائز ہونے یا انتخاب لڑنے پر پابندی بھی عائد کر دی گئی ہے۔ یہ فیصلہ نیشنل ریلی (آر این) پارٹی کی سربراہ لی پین کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے، جو 2027 کے فرانسیسی صدارتی انتخابات میں ایک مضبوط امیدوار سمجھی جا رہی تھیں۔ فرانسیسی عدالت کا یہ فیصلہ ان کی صدارتی دوڑ کو متاثر کر سکتا ہے، جب تک کہ ان کی اپیل کامیاب نہ ہو۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق، اس عدالتی فیصلے کے فرانسیسی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یہ فیصلہ صدر ایمانوئل میکرون کی جانشینی کی دوڑ کو پیچیدہ بنا سکتا ہے اور ان کی پہلے ہی کمزور اقلیتی حکومت پر مزید دباؤ ڈال سکتا ہے۔ اس سے دائیں بازو کے رہنماؤں میں عدلیہ کی غیر منتخب طاقت کے خلاف بڑھتے ہوئے عالمی غصے میں مزید اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ برازیل کے سابق صدر جائر بولسونارو، جو خود بھی 2030 تک عہدے کے لیے نااہل قرار دیے جا چکے ہیں، نے لی پین کی سزا کو "بائیں بازو کی عدالتی سرگرمی" قرار دیا ہے۔ ٹی ایف ون پر پرائم ٹائم ٹی وی انٹرویو میں مارین لی پین نے خود پر لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ بے قصور ہیں اور جلد از جلد اپیل کریں گی۔ انہوں نے اس فیصلے کو "سیاسی انتقام" قرار دیتے ہوئے کہا: "آج رات لاکھوں فرانسیسی عوام غصے میں ہیں اور ناقابل تصور حد تک ناراض ہیں، کیونکہ وہ دیکھ رہے ہیں کہ انسانی حقوق کے ملک میں ججوں نے وہ طریقے اپنائے ہیں جو آمرانہ حکومتوں میں دیکھے جاتے ہیں۔" لی پین کی پانچ سالہ سرکاری عہدے کے لیے نااہلی اپیل کے ذریعے معطل نہیں کی جا سکتی، تاہم وہ اپنی پارلیمانی نشست برقرار رکھ سکتی ہیں۔ عدالت نے انہیں چار سال قید کی سزا دی ہے، جن میں سے دو سال معطل ہیں، جبکہ دو سال گھر میں نظر بند رکھا جائے گا۔ امریکی ارب پتی اور ٹیسلا کے بانی ایلون مسک، جو ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف عدالتی کارروائیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں، نے لی پین کے خلاف فیصلے پر سخت ردعمل دیا ہے۔ انہوں نے سماجی پلیٹ فارم ایکس پر لکھا: "جب انتہا پسند بائیں بازو جمہوری ووٹ کے ذریعے جیت نہیں سکتے، تو وہ اپنے مخالفین کو جیل بھیجنے کے لیے قانونی نظام کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ یہ پوری دنیا میں ان کا آزمودہ طریقہ ہے۔" مسک کا یہ تبصرہ ایک عالمی رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے، جہاں مقبول عوامی رہنماؤں، جیسے کہ برازیل کے جائر بولسونارو، پاکستان کے عمران خان، اٹلی کے میٹیو سالوینی، امریکہ کے ڈونلڈ ٹرمپ اور رومانیہ کے کالن جارجیسکو، کو قانونی کارروائیوں کے ذریعے سیاسی طور پر ہدف بنایا جا رہا ہے۔ عدالتی فیصلے پر لی پین کے اتحادیوں اور یورپ سمیت دنیا بھر کے دائیں بازو کے رہنماؤں نے سخت ردعمل دیا ہے۔ آر این پارٹی کے صدر، جورڈن بارڈیلا نے کہا: "آج صرف مارین لی پین کو غیر منصفانہ طور پر سزا نہیں دی گئی بلکہ یہ فرانسیسی جمہوریت تھی جسے قتل کیا گیا۔" جج بینیڈکٹ ڈی پرتھوئس نے اپنے فیصلے میں کہا کہ لی پین نے یورپی یونین کے 40 لاکھ یورو (4.3 ملین ڈالر) کے فنڈز کا غلط استعمال کیا اور انہیں اپنی پارٹی کے عملے پر خرچ کیا۔ جج کے مطابق، لی پین اور ان کے ساتھیوں نے کوئی ندامت ظاہر نہیں کی، جس کی وجہ سے عدالت نے انہیں صدارتی انتخاب سے فوری طور پر نااہل قرار دیا۔ فرانسیسی عدلیہ کی اعلیٰ کونسل نے عدالتی فیصلے پر شدید ردعمل کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ: "استغاثہ یا سزا کے میرٹ پر سیاسی رہنماؤں کے بیانات، خاص طور پر عدالتی غور و خوض کے دوران، جمہوری معاشرے میں قابل قبول نہیں ہیں۔" یہ معاملہ فرانس میں ہی نہیں، بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایک اہم سیاسی بحث کا باعث بن گیا ہے کہ آیا انتہائی دائیں بازو کے رہنماؤں کے خلاف قانونی کارروائیاں واقعی انصاف پر مبنی ہیں یا یہ سیاسی جوڑ توڑ کا نتیجہ ہیں؟
ابوظہبی کی فیڈرل کورٹ آف اپیل کے اسٹیٹ سیکیورٹی ڈویژن نے نومبر 2024 میں اغوا اور قتل کے ایک ہائی پروفائل کیس میں ملوث چار افراد کو سزا سنا دی۔ خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق، تین ملزمان کو دہشت گردی کے ارادے سے منصوبہ بند قتل کے جرم میں سزائے موت دی گئی، جبکہ چوتھے ملزم کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی وزارت داخلہ نے 25 نومبر کو تین مجرموں کی شناخت ازبک شہریوں کے طور پر کی تھی، جن میں 28 سالہ اولمپی توہیرووک، 28 سالہ محمود جان عبدالرحیم اور 33 سالہ عزیز بیک کامیلووک شامل ہیں۔ قتل کا یہ واقعہ اس وقت منظر عام پر آیا جب زوی کوگن کے اہل خانہ نے 21 نومبر کو ان کی گمشدگی کی اطلاع دی۔ تین دن بعد، اماراتی حکام نے تصدیق کی کہ زوی کوگن کو قتل کر دیا گیا تھا اور ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ رائٹرز کے مطابق، مشتبہ افراد قتل کے بعد ترکی فرار ہو گئے تھے، تاہم ترکی کی انٹیلیجنس اور پولیس کے خفیہ آپریشن کے دوران انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ بعد ازاں، متحدہ عرب امارات کی درخواست پر ان افراد کو حوالے کر دیا گیا۔ اٹارنی جنرل کونسلر ڈاکٹر حماد سیف الشمسی نے جنوری 2025 میں ملزمان کے فوری ٹرائل کا حکم دیا تھا، جس کے بعد عدالت میں قتل اور اغوا کے شواہد پیش کیے گئے، جن میں فرانزک رپورٹس، پوسٹ مارٹم رپورٹس، گواہوں کی گواہیاں اور مجرموں کے اعترافی بیانات شامل تھے۔ عدالت نے بالآخر متفقہ طور پر تین مجرموں کو سزائے موت اور چوتھے کو عمر قید کے بعد ملک بدری کا فیصلہ سنایا۔ 28 سالہ زوی کوگن مالدووا کی شناختی دستاویزات کے تحت متحدہ عرب امارات میں رہائش پذیر تھا۔ وہ ابوظہبی میں اپنی اہلیہ ریوکی کے ساتھ رہ رہا تھا اور ایک کوشر گروسری اسٹور چلاتا تھا۔ وہ چاباد حسیدی تحریک کے سفیر تھے اور بعد ازاں انہیں اسرائیل میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ زوی کوگن کے قتل کے بعد چاباد برادری نے شدید ردعمل دیا اور اس واقعے کو "المناک اور اشتعال انگیز" قرار دیا۔ بین الاقوامی یہودی برادری نے عالمی رہنماؤں سے کارروائی کا مطالبہ کیا اور متحدہ عرب امارات کی کوششوں کی تعریف کی، جو اس جرم میں ملوث تمام افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے قوانین کے مطابق سزائے موت کے فیصلے اپیل کے تحت آتے ہیں، اور اس پر نظرثانی کے لیے وفاقی سپریم کورٹ کے کرمنل کیسیشن چیمبر کو بھیجا جا سکتا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے خیبرپختونخوا کے ضلع جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا اور ڈیرہ اسمٰعیل خان کے علاقے چہکان کا دورہ کیا۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ جنرل عاصم منیر نے مغربی سرحد پر تعینات افسروں اور اہلکاروں کے ساتھ عید الفطر منائی جب کہ نوجوانوں کے ساتھ نماز عید ادا کی اور پاکستان کے استحکام اور خوشحالی کے لیے دعا کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے پاک فوج کے جوانوں کو عید الفطر کی مبارکباد دی اور قوم کے لیے ان کی غیر متزلزل لگن اور قوم کی مثالی خدمت کو سراہا۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا: "آپ کا عزم اور قربانیں نہ صرف ہمارے وطن کو محفوظ بناتی ہے بلکہ یہ قربانیاں پاکستان سے آپ کی گہری محبت کی بھی عکاسی کرتی ہے۔" انہوں نے مزید کہا: "ملکی دفاع کے لیے فوجی جوانوں کا عزم قابل فخر ہے جب کہ خیبر پختونخوا کے عوام نے بھی ہمیشہ دہشت گردی کی لعنت کے خلاف بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔" جنرل عاصم منیر نے جوانوں کی انتھک کاوشوں کا اعتراف کیا اور شہدا کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا: "امن واستحکام کے لیے شہدا کی قربانیاں ہماری کامیابیوں کی بنیاد ہے۔"
کراچی: امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے عید الفطر کے بعد ملک میں امن و امان کی ناقص صورتحال، بجلی کے بلوں میں اضافے، اور چینی و آٹا مافیا کے خلاف بھرپور تحریک شروع کرنے کا اعلان کردیا۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی تمام صوبوں میں احتجاجی ریلیاں نکالے گی۔ ڈان نیوز کے مطابق، حافظ نعیم الرحمٰن نے کراچی میں ادارہ نور حق میں عید کے موقع پر مرکزی، صوبائی اور مقامی ذمہ داران کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عیدالفطر اللہ کا انعام اور رمضان المبارک کا نعم البدل ہے۔ امیر جماعت اسلامی نے کہا کہ عید کے موقع پر دنیا بھر میں مسلمان خوشیاں مناتے ہیں، لیکن فلسطین کی سنگین صورتحال سب کو غمگین کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ "عید کے پہلے اور دوسرے روز اسرائیل نے فلسطین میں کھیلتے ہوئے بچوں پر بمباری کی اور گزشتہ ڈیڑھ سال سے فلسطینی ملبے کے ڈھیر پر رہنے پر مجبور ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب اسرائیل پر اللہ کا عذاب آئے گا۔" حافظ نعیم الرحمٰن نے اسرائیل کو بم و بارود فراہم کرنے میں امریکا کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ "حکومت اور اپوزیشن رہنما سب امریکا کی مذمت کرنے کے بجائے اس کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔" امیر جماعت اسلامی نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "حکومت کی طرف سے ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا جا رہا جس سے اتحاد پیدا ہو، جب اپنے ہی لوگوں کو محروم کریں گے تو غم و غصہ بڑھے گا۔" انہوں نے ملک کے مسائل حل کرنے کے لیے "گریٹر ڈائیلاگ" کو ضروری قرار دیا اور حکومت کو مشورہ دیا کہ "افغانستان سے ڈائیلاگ کیے جائیں تاکہ خطے میں استحکام آئے۔" جماعت اسلامی کے امیر کے مطابق، عوامی مسائل کے حل کے لیے جماعت اسلامی عید کے بعد ملک گیر تحریک چلائے گی اور تمام صوبوں میں احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں نکالی جائیں گی۔
بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل نے اعلان کیا ہے کہ جب تک گرفتار بلوچ خواتین کو رہا نہیں کیا جاتا، پارٹی کا دھرنا جاری رہے گا۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاریوں اور دھرنے پر پولیس کے کریک ڈاؤن کے خلاف سردار اختر مینگل نے وڈھ سے کوئٹہ تک لانگ مارچ کا اعلان کیا تھا۔ تاہم، کوئٹہ انتظامیہ نے بی این پی (مینگل) کو جلسہ کرنے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جمعہ کی صبح تقریباً 9 بجے، مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے مظاہرین اور موٹر سائیکل سواروں نے اختر مینگل کے آبائی قصبے وڈھ سے کوئٹہ کی طرف سفر شروع کیا۔ ہفتے کے روز بی این پی (مینگل) نے دعویٰ کیا کہ مستونگ کے قریب پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے پارٹی کے 250 سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا۔ لانگ مارچ کے دوران سردار اختر مینگل اور پارٹی کے دیگر کارکن مستونگ کے علاقے لک پاس میں ہونے والے خودکش حملے میں محفوظ رہے۔ واقعے کے بعد سیکیورٹی مزید سخت کر دی گئی، جبکہ اختر مینگل اور ان کے ساتھیوں نے اپنے مارچ کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ ہفتہ کی شام بلوچستان حکومت کے ایک وفد نے، جس میں ظہور احمد بلیدی، بخت محمد کاکڑ اور سردار نور احمد بنگلزئی شامل تھے، مستونگ میں دھرنے کے مقام پر بی این پی (مینگل) کی قیادت سے ملاقات کی۔ مذاکرات میں دھرنے کے شرکاء کی نمائندگی سردار اختر مینگل، نواب محمد خان شاہوانی، ساجد ترین اور دیگر رہنماؤں نے کی۔ بات چیت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سردار اختر مینگل نے کہا کہ حکومتی وفد نے مذاکرات میں تعاون کی پیشکش کی اور راستہ نکالنے کی بات کی، لیکن بی این پی قیادت نے واضح کر دیا کہ وہ کوئٹہ کی طرف مارچ کرنا چاہتے ہیں اور ان کا واحد مطالبہ گرفتار خواتین کی رہائی ہے۔ سردار اختر مینگل نے حکومتی وفد کو بتایا کہ اگر انہیں کوئٹہ جانے کی اجازت نہ دی گئی تو وہ مستونگ میں غیر معینہ مدت تک دھرنا دیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ دھرنا اسی وقت ختم ہوگا جب گرفتار بلوچ خواتین کو رہا کیا جائے گا۔
کراچی میں شوال کا چاند نظر آنے کی خوشی میں مختلف علاقوں میں ہوائی فائرنگ کے نتیجے میں بچوں سمیت 12 افراد زخمی ہوگئے۔ ڈان نیوز کے مطابق، لیاری، قصبہ کالونی، میانوالی کالونی، فرنٹیئر کالونی، ناظم آباد اور اورنگی ٹاؤن سمیت مختلف علاقوں میں فائرنگ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ اورنگی ٹاؤن میں تین افراد زخمی ہوئے، جن میں 9 سالہ آسیہ، 35 سالہ نوشین اور 11 سالہ ارم شامل ہیں۔ قصبہ کالونی میں ایک بچی، فرنٹیئر کالونی میں ایک شخص، حیدری اور میانوالی کالونی میں دو افراد نامعلوم سمت سے آنے والی گولیوں کا نشانہ بنے۔ ناظم آباد میں منصور نامی شخص اور بلدیہ قائم خانی کالونی میں 16 سالہ وحید بھی زخمی ہوا۔ کراچی پولیس نے شہریوں کو ہوائی فائرنگ سے باز رہنے کی ہدایت کی تھی، تاہم متعدد علاقوں میں شدید فائرنگ دیکھنے میں آئی۔ پولیس نے اعلان کیا ہے کہ ہوائی فائرنگ میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ چیئرمین مرکزی رویت ہلال کمیٹی مولانا عبدالخبیر آزاد نے شوال المکرم 1446 ہجری کا چاند نظر آنے کا اعلان کیا، جس کے بعد ملک بھر میں عید الفطر کل منائی جائے گی۔
بلوچستان حکومت نے بڑھتے ہوئے دہشت گرد حملوں اور امن و امان کی خراب صورتحال کے پیش نظر رات کے اوقات میں مسافر بسوں اور دیگر پبلک ٹرانسپورٹ کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس فیصلے کا مقصد مسافروں کو ممکنہ حملوں سے بچانا اور شاہراہوں پر سیکیورٹی کو بہتر بنانا ہے۔ گوادر، کچھی، ژوب، نوشکی اور موسیٰ خیل کے ڈپٹی کمشنرز نے اس حوالے سے نوٹیفکیشن جاری کر دیے ہیں، جن میں واضح کیا گیا ہے کہ ان اضلاع میں رات کے وقت مسافر بسوں کو سفر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کوئٹہ کی ضلعی انتظامیہ نے بھی رات کے اوقات میں شہر سے روانہ ہونے والی بسوں پر پابندی لگا دی ہے۔ کوئٹہ کے کمشنر حمزہ شفقات کے مطابق، کراچی-کوئٹہ شاہراہ (این-25) پر رات کے وقت پبلک ٹرانسپورٹ کو چلنے سے روک دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں بلوچستان اور سندھ کے درمیان رات کے وقت سفری رابطہ منقطع ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بسوں اور کوچوں کی روانگی کے اوقات کو سختی سے مانیٹر کیا جائے گا تاکہ مسافر رات پڑنے سے پہلے اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔ تمام پبلک ٹرانسپورٹ میں جی پی ایس ٹریکرز اور سی سی ٹی وی کیمرے نصب رکھنے کی ہدایات بھی جاری کی گئی ہیں۔ گوادر کے ڈپٹی کمشنر حمود الرحمٰن نے ایک نوٹیفکیشن میں مکران کوسٹل ہائی وے (این-10) پر رات کے وقت پبلک ٹرانسپورٹ پر پابندی عائد کر دی ہے۔ کراچی یا کوئٹہ سے گوادر جانے والی بسوں کے لیے روانگی کا وقت صبح 5 بجے سے 10 بجے تک مقرر کیا گیا ہے، جبکہ گوادر سے کراچی اور کوئٹہ جانے والی ٹرانسپورٹ کو صبح 6 بجے سے دوپہر 1 بجے کے درمیان روانہ ہونے کی اجازت ہوگی۔ کچھی کے ڈپٹی کمشنر جہانزیب لانگو نے کوئٹہ-سکھر شاہراہ (این-65) پر بھی شام 5 بجے سے صبح 5 بجے تک تمام پبلک اور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کے سفر پر پابندی لگا دی ہے۔ اسی طرح ژوب کے ڈپٹی کمشنر محبوب احمد نے این-50 ہائی وے پر ژوب کے راستے خیبرپختونخوا جانے والی بسوں پر شام 6 بجے سے صبح 6 بجے تک پابندی عائد کر دی ہے۔ نوشکی کے ڈپٹی کمشنر امجد سومرو اور موسیٰ خیل کے ڈپٹی کمشنر جمعہ داد مندوخیل نے بھی اسی نوعیت کے احکامات جاری کیے ہیں، جن کے تحت کوئٹہ-تفتان (این-40) اور ملتان-لورالائی (این-70) شاہراہوں پر رات کے اوقات میں مسافر بسوں کو چلنے سے روک دیا گیا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ بلوچستان میں حالیہ مہینوں میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں مسلح افراد نے گوادر میں کوسٹل ہائی وے پر کراچی جانے والی بس کو روک کر 6 مسافروں کو قتل کر دیا، جن کا تعلق پنجاب سے تھا۔ اس سے پہلے عسکریت پسندوں نے جعفر ایکسپریس ٹرین کو ہائی جیک کر لیا تھا، جس میں 26 یرغمالی ہلاک اور 5 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کے مطابق، رواں سال کے آغاز سے اب تک مختلف وجوہات کی بنا پر قومی شاہراہیں 76 بار بند کی جا چکی ہیں۔ عسکریت پسند گروہ، خاص طور پر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، نے بلوچستان میں دہشت گرد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اپریل 2024 میں نوشکی کے قریب کوئٹہ-تفتان شاہراہ (این-40) پر 9 افراد کو مسافر بس سے اتار کر قتل کر دیا گیا تھا، جبکہ گزشتہ سال اگست میں موسیٰ خیل میں 23 مسافروں کو گولی مار دی گئی تھی۔ حالیہ سیکیورٹی اقدامات کے تحت، بلوچستان حکومت نے صوبے میں امن و امان کی بحالی اور مسافروں کے تحفظ کے لیے سخت اقدامات کیے ہیں، جن میں شاہراہوں پر رات کے سفر کی ممانعت بھی شامل ہے۔
اسلام آباد: حکومتی اعلان کے باوجود شہریوں کو چینی 180 روپے فی کلو خریدنے پر مجبور ہونا پڑ رہا ہے۔ پچھلے ایک ہفتے میں فی کلو چینی کی اوسط قیمت میں 1 روپے 61 پیسے کی کمی آئی ہے، لیکن اسلام آباد، راولپنڈی، کراچی اور پشاور میں چینی سب سے مہنگی فروخت ہو رہی ہے۔ ادارہ شماریات کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق ملک میں چینی کی زیادہ سے زیادہ قیمت 180 روپے فی کلو اور اوسط قیمت 168 روپے 80 پیسے فی کلو ہے۔ یاد رہے کہ نائب وزیراعظم اسحاق ڈار نے چینی کی ریٹیل قیمت 164 روپے فی کلو مقرر کرنے کا اعلان کیا تھا، جبکہ وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی رانا تنویر نے ملک میں چینی کی قیمت 163 روپے فی کلو ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔
ترجمان بلوچستان حکومت شاہد رند نے بتایا کہ لک پاس کے قریب مبینہ خودکش دھماکہ ہوا جہاں بلوچستان نیشنل پارٹی کا دھرنا جاری تھا، تاہم خوش قسمتی سے اس دھماکے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس دھماکے کے نتیجے میں دھرنے کے شرکاء اور بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل محفوظ رہے، جبکہ بی این پی کی تمام سیاسی قیادت بھی کسی نقصان سے محفوظ رہی۔ شاہد رند نے بتایا کہ بلوچستان حکومت گزشتہ رات سے بی این پی کی قیادت کے ساتھ رابطے میں ہے، اور بی این پی کے وفد نے رات کو انتظامیہ سے ملاقات کی تھی۔ آج حکومتی وفد کا سردار اختر مینگل سے ملاقات کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ترجمان کے مطابق، بلوچستان حکومت واقعے کی مکمل تحقیقات کر رہی ہے اور انکوائری کے نتائج عوام کے ساتھ جلد شیئر کیے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ سردار اختر مینگل اور دھرنے کے شرکاء کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے، اور دیگر قیادت و عوام کی حفاظت بھی بلوچستان حکومت کے دائرہ کار میں ہے۔ شاہد رند نے بی این پی کے سربراہ اور عوام سے درخواست کی کہ وہ صوبائی حکومت کے ساتھ تعاون کریں اور بات چیت کے ذریعے صورتحال کو بہتر بنانے میں مدد کریں۔

Back
Top