خبریں

خبریں

Threads
8.6K
Messages
65.8K
Threads
8.6K
Messages
65.8K

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
صادق آباد کے علاقے جمالدینی والی کے قریب ڈاکوؤں کے حملے کے دوران فائرنگ سے عمر لونڈ، حذیفہ لونڈ اور ایک راہگیر جاں بحق ہو گئے۔ پولیس کے مطابق، مقتول عمر لونڈ نے چند ماہ قبل ٹک ٹاکر ڈاکو شاہد لونڈ کو قتل کیا تھا، جس کے بعد انتقامی کارروائی کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔ واقعے کے بعد پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ بدلے کی کارروائی ہو سکتا ہے، کیونکہ شاہد لونڈ کے قتل کے بعد اس کے ساتھیوں کی جانب سے انتقام لینے کی اطلاعات تھیں۔ واضح رہے کہ نومبر 2024 میں شاہد لونڈ کو مبینہ طور پر اس کے اپنے ساتھیوں نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔ تاہم ذرائع کے مطابق، پنجاب پولیس نے شاہد لونڈ کو ہلاک کرنے کے لیے مبینہ طور پر خطرناک ڈاکو عمر لونڈ سے مدد لی۔ پولیس نے عمر لونڈ کو اس کارروائی کے بدلے مقدمات ختم کرنے اور اس کی فیملی کو تحفظ دینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ پولیس ترجمان کے مطابق، شاہد لونڈ قتل اور ڈکیتی سمیت متعدد سنگین جرائم میں مطلوب تھا اور حکومت پنجاب نے اس کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کر رکھی تھی۔ ذرائع کے مطابق، شاہد لونڈ اور عمر لونڈ کے درمیان تلخ کلامی کے بعد فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں شاہد لونڈ مارا گیا۔ رپورٹس کے مطابق، عمر لونڈ نے شاہد لونڈ کو قتل کرنے کے لیے ایک تقریب منعقد کی، جس میں سندھ سے بھی 8 سے 10 ڈاکو شریک تھے۔ تقریب کے دوران فائرنگ کر کے شاہد لونڈ کو موقع پر ہلاک کیا گیا۔ بعد ازاں، عمر لونڈ نے دیگر ڈاکوؤں کو بھی مارنے کی کوشش کی، لیکن اس کی رائفل میں گولی پھنسی اور راکٹ لانچر کی پن جام ہو گئی، جس کے باعث وہ فرار ہو گیا اور راجن پور پہنچ کر پولیس کے سامنے سرنڈر کر دیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شاہد لونڈ کے قتل کے بعد عمر لونڈ اور اس کے بھائی نے روجھان پولیس کے پاس پناہ لی، جبکہ پولیس نے ان کے گھر کے باہر بھاری نفری تعینات کر دی تھی۔
بلوچستان کے ضلع قلات میں سیکیورٹی فورسز نے انٹیلی جنس معلومات کی بنیاد پر آپریشن کرتے ہوئے 6 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، فورسز نے علاقے میں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر کارروائی کی۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ آپریشن کے دوران سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا۔ شدید فائرنگ کے تبادلے کے بعد 6 دہشت گرد مارے گئے، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور معصوم شہریوں کے خلاف حالیہ دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، علاقے میں مزید دہشت گردوں کی موجودگی کے پیش نظر سینیٹائزیشن آپریشن جاری ہے تاکہ کسی بھی ممکنہ خطرے کا مکمل خاتمہ کیا جا سکے۔ پاک فوج کے ترجمان نے واضح کیا کہ سیکیورٹی فورسز بلوچستان میں امن، استحکام اور ترقی کو سبوتاژ کرنے کی ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔
قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کی پیش کردہ سفارشات کی روشنی میں دہشت گردی اور اس کے رجحانات کے خاتمے کے لیے جامع قانون سازی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس قانون سازی کے تحت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ناگزیر اختیارات دیے جائیں گے تاکہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو مستحکم بنایا جا سکے۔ صالح ظافر کے مطابق اس مقصد کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس بالترتیب 7 اور 8 اپریل کو طلب کیے گئے ہیں، جن میں مجوزہ قوانین پر غور و خوض کے بعد منظوری دی جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق، یہ نئے قوانین ایک مضبوط ریاستی نظام کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں گے اور ان میں ممکنہ طور پر سن سیٹ کلاز بھی شامل کی جا سکتی ہے تاکہ وقتاً فوقتاً ان کا جائزہ لیا جا سکے۔ قانون سازی کے عمل میں اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ مجوزہ قوانین آئین میں درج شہری آزادیوں کو متاثر نہ کریں۔ اس سلسلے میں وزارت قانون و انصاف کو خصوصی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اور وفاقی وزیر سینیٹر محمد اعظم نذیر تارڑ نے متعلقہ وزارتوں اور ان کے وزراء سے مشاورت کے بعد قانونی مسودات کی تیاری کے ابتدائی مراحل مکمل کر لیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق، اس عمل میں عندالضرورت صوبائی حکومتوں کو بھی شامل کیا جائے گا تاکہ تمام فریقین کی رائے کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک جامع اور متفقہ قانون سازی ممکن بنائی جا سکے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دو ہفتے جاری رہنے والے اجلاسوں میں دہشت گردی کے حوالے سے قانون سازی کے علاوہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے حالیہ خطاب پر بھی بحث کی جائے گی۔ اسی دوران، دہشت گردی کے الزامات میں ماخوذ تحریک انصاف کے سینیٹر چوہدری اعجاز کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے یا نہ کرنے کا معاملہ بھی زیر غور آئے گا، جس سے سیاسی حلقوں میں کافی دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔
نیپیئر (اے بی این نیوز)پاکستان کے سابق کرکٹر اظہر عباس کے بیٹے محمد ارسلان عباس اپنے ہی ملک کیخلاف ڈیبیو پر تیز ترین نصف سینچری جڑدی۔ نیپیئر میں کھیلے جارہے میچ میں سابق کرکٹر اظہر عباس کے بیٹے محمد ارسلان عباس نے اپنے ہی ملک کیخلاف ڈیبیو پر 24 گیندوں پر 3 چوکوں اور 3 چھکوں کی مدد سے 52 رنز کی تیز ترین نصف سینچری اسکور کی۔ انہوں نے مڈل آرڈر میں آکر 200 کے اسٹرائیک ریٹ سے بلےبازی کا مظاہرہ کرکے کیوی ٹیم کا اسکور 344 رنز تک پہنچانے میں مدد کی۔گزشتہ دنوں ارسلان عباس کو ڈومیسٹک کارکردگی کی بنیاد پر نیوزی لینڈ اسکواڈ کا حصہ بنایا گیا تھاواضح رہے کہ نیوزی لینڈ اور پاکستان کے درمیان ون ڈے سیریز کے دوران کیوی ٹیم کو مچل سینٹنر، راچن رویندرا، ڈیون کانوائے اور گلین فلپس جیسے اسٹارز کی خدمات حاصل نہیں ہیں۔ دوسری جانب 345 رنز کے ہدف کے تعاقب میں پاکستان کی بیٹنگ جاری ہے جبکہ اسکے ابتدائی 2 وکٹیں گر چکی ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جون سے دسمبر 2024 کے دوران بینکنگ مارکیٹ سے 5.5 ارب ڈالر کی خریداری نے ملکی زرمبادلہ کی پالیسی پر نئے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ مارکیٹ کو توقع ہے کہ رواں مالی سال کے اختتام تک یہ رقم گزشتہ تین سالوں میں آئی ایم ایف سے لیے گئے قرض سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ اس بڑے پیمانے پر خریداری کے باوجود اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی دیکھنے میں آئی، جس نے مالیاتی پالیسی کی کمزوریوں کو مزید نمایاں کر دیا ہے۔ ملک کو رواں مالی سال کے دوران آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر بیرونی ذرائع سے 14 ارب ڈالر کے قرضوں کی ری شیڈولنگ کے ساتھ ساتھ 35 ارب ڈالر سے زائد ترسیلات زر موصول ہونے کی توقع ہے۔ پہلے آٹھ ماہ (جولائی تا فروری) میں موصول ہونے والی ترسیلات زر گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 6 ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہیں۔ تاہم، اقتصادی منتظمین اب بھی ان بڑی رقوم کو مؤثر طریقے سے سنبھالنے میں ناکام نظر آتے ہیں، حالانکہ کرنٹ اکاؤنٹ تاحال مثبت ہے۔ اسٹیٹ بینک کی خریداری کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جون 2024 میں 57 کروڑ 30 لاکھ ڈالر، جولائی میں 72 کروڑ 20 لاکھ ڈالر، اگست میں 56 کروڑ 90 لاکھ ڈالر، ستمبر میں 94 کروڑ 60 لاکھ ڈالر، اکتوبر میں 102 کروڑ 60 لاکھ ڈالر، اور نومبر میں 115 کروڑ 10 لاکھ ڈالر خریدے گئے۔ دسمبر میں خریداری کی شرح کم ہو کر 53 کروڑ 60 لاکھ ڈالر رہ گئی، جو نومبر کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں لیکویڈیٹی برقرار رکھنے کے لیے اسٹیٹ بینک کا کردار کلیدی رہا، جس نے برآمد کنندگان کو اپنی آمدنی مارکیٹ میں فروخت کرنے پر آمادہ کیا۔ مالیاتی ماہرین کے مطابق، حکومت کو ترسیلات زر کے ذریعے آنے والے اضافی ڈالرز کو مؤثر طریقے سے بروئے کار لانے کی حکمت عملی بنانی چاہیے۔ ملک کو سالانہ کم از کم 25 ارب ڈالر کی بیرونی قرضوں کی ادائیگی درکار ہوتی ہے، جو کہ 35 ارب ڈالر کی آمدنی میں سے ایک بڑا حصہ ختم کر دیتی ہے۔ دوسری جانب، بینکرز کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے اسٹیٹ بینک کو شرح سود میں کمی کی اجازت نہیں دی کیونکہ اس سے درآمدات میں اضافے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کا خدشہ ہے۔ مارکیٹ میں شرح سود 12 فیصد برقرار رکھنے کے باوجود، تجارت اور صنعت کو بینکوں سے قرض لینے اور مقامی اقتصادی سرگرمیوں میں سرمایہ کاری کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ، بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے باعث 21 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں 54 کروڑ ڈالر کی کمی ریکارڈ کی گئی، جس کے بعد ذخائر 10.60 ارب ڈالر کی 6 ماہ کی کم ترین سطح پر آ گئے، جو کہ ستمبر میں 10.7 ارب ڈالر تھے۔ ملک کے مجموعی زرمبادلہ کے ذخائر 15.5 ارب ڈالر رہ گئے ہیں، جن میں سے 4.94 ارب ڈالر کمرشل بینکوں کے پاس ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے مطابق، مالی سال کے اختتام تک زرمبادلہ کے ذخائر 13 ارب ڈالر تک پہنچنے چاہئیں۔ تاہم، اسٹاف لیول معاہدے کے بعد 1.1 ارب ڈالر کی متوقع آمد اور آب و ہوا کے لچکدار فنڈ سے ممکنہ 1.3 ارب ڈالر کی گرانٹ سے ذخائر میں اضافے کی امید کی جا رہی ہے۔
پنجاب کابینہ نے جمعرات کو ہونے والے اجلاس میں متعدد اہم منصوبوں اور پالیسیوں کی منظوری دے دی، جن میں چولستان میں آبپاشی کے نظام کی بہتری، پولیس فورس میں اصلاحات، سڑکوں اور ہوائی اڈوں کی تعمیر، قانونی و فلاحی اقدامات، اور زرعی و صنعتی ترقی کے لیے مختلف فیصلے شامل ہیں۔ یہ اجلاس وزیراعلیٰ مریم نواز کی صدارت میں منعقد ہوا، جہاں صوبے کی بہتری کے لیے کئی بڑے فیصلے کیے گئے۔ اجلاس میں چولستان میں پانی کی ترسیل کو بہتر بنانے کے لیے "لائننگ آف واٹر کورسز" منصوبے کی منظوری دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی چولستان نہری نظام کا نام تبدیل کر کے "محفوظ شہید کینال اینڈ سسٹم" رکھنے کا فیصلہ کیا گیا، جو اس علاقے میں آبپاشی کے نظام کو مزید مؤثر بنانے کی جانب ایک بڑا قدم ہے۔ اس کے علاوہ، بھکر اور بہاولنگر میں نئے ہوائی اڈے بنانے کی منظوری دی گئی، جبکہ پنجاب میں اپنی ایئر لائن سروس شروع کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا گیا۔ بھکر میں ایئر ایمبولینس سروس کے لیے ایک ایئر اسٹرپ بنانے کا فیصلہ کیا گیا، جس سے ہنگامی طبی سہولتوں کی فراہمی بہتر ہو سکے گی۔ سیکیورٹی کے شعبے میں بڑے فیصلے کیے گئے، جن میں پنجاب میں دو ہزار اہلکاروں پر مشتمل "رائٹ مینجمنٹ پولیس" اور "کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ" کا قیام شامل ہے، تاکہ فسادات کو کنٹرول کرنے اور جرائم پر قابو پانے کے لیے خصوصی فورس دستیاب ہو۔ اس کے علاوہ، معذور افراد، بزرگ شہریوں اور طلبہ کے لیے مفت سفری سہولت کی منظوری دی گئی، جبکہ ٹرانسپورٹ کارڈ کے اجراء کی تجویز کا جائزہ لیا گیا۔ کابینہ نے جنسی جرائم کی تحقیقات کے لیے خصوصی تحقیقاتی یونٹس کے قیام کی بھی منظوری دی، جس کا مقصد ایسے مقدمات کو جلد از جلد حل کرنا اور متاثرین کو انصاف فراہم کرنا ہے۔ تعلیمی میدان میں ورلڈ بینک کے تعاون سے ایک نئے گریڈنگ سسٹم کے معاہدے کی منظوری دی گئی، جس سے طلبہ کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔ پنجاب فرٹیلائزر کنٹرول ایکٹ کے تحت قوانین کی خلاف ورزی پر جرمانے میں اضافہ کر دیا گیا، جبکہ پنجاب آرمز آرڈیننس میں ترامیم کرتے ہوئے غیر قانونی اسلحہ رکھنے پر سزائیں مزید سخت کر دی گئیں۔ عوامی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے پیدائش اور وفات کے سرٹیفکیٹ کی فیس ایک سال کے لیے معاف کر دی گئی، جبکہ مستحق افراد کو مفت قانونی امداد فراہم کرنے کے لیے پنجاب لیگل ایڈ رولز میں ترامیم کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں پولیس اور دیگر سرکاری محکموں کے لیے بھرتیوں کی منظوری بھی دی گئی، جس کے تحت پنجاب کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ میں 3,904 نئی آسامیاں تخلیق کی جائیں گی، جبکہ نواز شریف سینٹر آف ایکسیلینس کے لیے 32 نئی اسامیاں منظور کی گئیں۔ صنعتی ترقی کے حوالے سے سالٹ رینج میں ایک چھوٹے صنعتی اسٹیٹ اور معدنی پراسیسنگ یونٹ کے قیام کی منظوری دی گئی، جبکہ چنیوٹ میں آئرن اوور مائننگ اور پروسیسنگ کے لیے اسٹریٹیجک زمین کے حصول کا فیصلہ کیا گیا۔ لاہور کے دہلی گیٹ سے اکبری گیٹ تک مصالحہ مارکیٹ کی بحالی کا منصوبہ بھی منظور کیا گیا، اور والڈ سٹی آف لاہور اتھارٹی کا دائرہ پنجاب بھر میں پھیلانے کی منظوری دی گئی، تاکہ تاریخی ورثے کی حفاظت کو مزید مؤثر بنایا جا سکے۔ زرعی ترقی اور ماحولیاتی تحفظ کے لیے فیصلے کرتے ہوئے کابینہ نے کپاس کی بحالی کے لیے ایک جامع منصوبے کی منظوری دی، جس کا مقصد کسانوں کو سہولت فراہم کرنا اور ابتدائی مرحلے میں کپاس کی کاشت کو فروغ دینا ہے۔ فیصل آباد شہر میں ایسٹرن ویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ کے پہلے فیز کی تعمیر کا فیصلہ بھی کیا گیا، جو 33 ملین گیلن روزانہ کے حساب سے پانی کو صاف کرے گا۔ اس کے علاوہ، جنوبی پنجاب میں چائلڈ ہیلتھ کیئر کے فروغ اور ملتان کے چلڈرن اسپتال میں پیڈیاٹرک اسپیشلٹیز کے اضافے کے لیے جاپانی ادارے جائیکا (JICA) سے گرانٹ لینے کی منظوری دی گئی۔ خوراک اور زراعت کے عالمی ادارے (FAO) کے تعاون سے شمالی پنجاب میں زمین کی بحالی اور لائیو اسٹاک منیجمنٹ کے منصوبے کو بھی منظوری دی گئی۔ ڈیجیٹل اصلاحات کے تحت پنجاب پولیس رولز 1934 میں ترامیم کی گئیں، جس کے تحت ایف آئی آر، جرنل اور کیس ڈائری کو ڈیجیٹل کیا جائے گا، تاکہ پولیس کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کیا جا سکے۔ وی وی آئی پی سیکیورٹی کے لیے جیمر گاڑیوں کی تبدیلی اور چھوٹے مویشیوں کی نسل کی بہتری کے لیے خصوصی منصوبہ بھی منظور کیا گیا، جس کے تحت بہتر نسل کے رام اور بکرے فراہم کیے جائیں گے۔ اجلاس میں نجی تعلیمی اداروں کو مالی معاونت دینے کی پالیسی کے اثرات کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا گیا، جبکہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مری اور کہوٹہ کے پہاڑی علاقوں کے لیے ایک جامع منصوبہ منظور کیا گیا۔ اسی دوران، سڑکوں کی بہتری اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے احمد پور شرقیہ، بہاولپور میں سڑکوں کی بحالی اور فلائی اوور کی تعمیر کے منصوبے کو بھی منظوری دی گئی۔
کراچی میں معروف اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کے خلاف جاری مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ایک نیا انکشاف سامنے آیا ہے، جس میں منشیات کی خرید و فروخت کے شواہد مزید مضبوط ہو گئے ہیں۔ تفتیش کے دوران ساحر حسن کی جانب سے ویڈ خریدنے کے لیے منشیات فروش بازل کو دی گئی ڈپازٹ سلپ پولیس کے ہاتھ لگ گئی ہے۔ اس سلپ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ویڈ کی خریداری کے لیے ادائیگی ساجد حسن کے منیجر مکرم علی کے ذریعے کی جاتی تھی، جو منشیات فروش کو رقم منتقل کرتا رہا۔ پولیس ذرائع کے مطابق ساحر حسن سے برآمد ہونے والی یہ ڈپازٹ سلپ ڈھائی سال پرانی ہے، جبکہ تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ ساحر کم از کم تین سال سے منشیات کے کاروبار میں ملوث تھا۔ انکشاف ہوا ہے کہ منشیات فروش بازل کراچی میں ویڈ کی سپلائی کے لیے ساحر کو ادھار پر منشیات فراہم کرتا تھا۔ مزید تحقیقات سے معلوم ہوا کہ بازل کا تعلق ایک اہم کاروباری خاندان سے ہے اور وہ یحییٰ نامی ایک بڑے منشیات ڈیلر کا سامان کراچی میں سپلائی کرتا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس کیس میں مزید بااثر شخصیات کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں، جس کے بعد پولیس نے ویڈ کی خرید و فروخت میں ملوث افراد کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ تفتیش میں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بین الاقوامی منشیات کا ڈیلر بازل پہلے ہی بیرون ملک فرار ہو چکا ہے، جبکہ گروہ کے دیگر کارندے گرفتاری کے خوف سے زیر زمین چلے گئے ہیں۔ تحقیقات کے دوران یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ساحر حسن بازل سے ویڈ خریدتا تھا، اور بازل کا تعلق کراچی کی ایک ارب پتی کاروباری فیملی سے ہے۔ کیس میں مزید سنسنی خیز انکشافات بھی سامنے آئے ہیں، جن کے مطابق اس منشیات نیٹ ورک میں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے بعض رہنماؤں کے بچوں کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایک معروف پاکستانی اداکارہ کا نام بھی اس معاملے میں لیا جا رہا ہے، جو مبینہ طور پر ساحر حسن کے ساتھ نشہ کرتی رہی ہے۔
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے بجلی کے ٹیرف میں ایک روپے فی یونٹ کمی کی اجازت دے دی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق، اس کمی کا فائدہ تمام صارفین کو ہوگا، جو کہ کیپٹیو پاور پلانٹس پر عائد کی گئی لیوی سے حاصل ہونے والے ریونیو سے فراہم کیا جائے گا۔ آئی ایم ایف نے یہ بھی بتایا کہ کیپٹیو پاور پلانٹس پر گیس کے استعمال پر لیوی عائد کی گئی ہے۔ مزید یہ کہ حکومت کی جانب سے بجلی صارفین کے لیے ایک ریلیف پیکج پر کام جاری ہے، جس کا اعلان عالمی مالیاتی فنڈ کی منظوری کے بعد کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس کے دوران غیر ملکی اسکالرشپس کے مفرور اسکالرز سے 1.5 ارب روپے کی ریکوری نہ ہونے کا انکشاف ہوا۔ اس پر چیئرمین جنید اکبر نے ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کو بھگوڑے اسکالرز کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی ہدایت دی۔ اجلاس چیئرمین جنید اکبر کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کے آڈٹ اعتراضات پر تفصیل سے بات چیت کی گئی۔ اجلاس میں یہ بھی معلوم ہوا کہ امریکا کی فل برائٹ اسکالرشپ میں 92 اسکالرز میں سے 89 کے اسکالرشپ کینسل کیے جا چکے ہیں۔ شاہدہ اختر نے سوال کیا کہ کیا ایسے افراد کے پاسپورٹ بھی کینسل نہیں کیے جا سکتے؟ جس پر کمیٹی چیئرمین جنید اکبر نے کہا کہ ان افراد کے شناختی کارڈز اور دیگر دستاویزات بھی بلاک کیے جانے چاہئیں۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی نے بتایا کہ بھگوڑے اسکالرز کی تعداد 96 ہے اور بعض کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 80 کروڑ روپے کی جرمانے کی رقم کچھ اسکالرز سے وصول کی جا چکی ہے۔ شازیہ مری نے اس معاملے کا مستقل حل تجویز کیا اور کہا کہ قومی خزانے کو ایسے افراد پر خرچ نہیں ہونا چاہیے جو واپس نہ آئیں۔ انہوں نے ایچ ای سی سے درخواست کی کہ اس مسئلے کا مستقل حل نکالا جائے۔ جنید اکبر نے ایچ ای سی کو ہدایت کی کہ وہ ان بھگوڑے اسکالرز کے خلاف ایف آئی آر درج کرائے۔ سینیٹر افنان اللہ نے اس صورتحال پر ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ شرمناک ہے کہ ملک کا پیسہ استعمال کرنے والے افراد واپس نہیں آتے۔ جنید اکبر نے مزید کہا کہ اگر عدالتوں سے ریکوری ہو رہی ہے تو اس کا تخمینہ بھی لگایا جائے اور ایچ ای سی کو اس پر آنے والے اخراجات کا حساب لگانا چاہیے کہ وہ کس طرح پورے ہوں گے۔
بھارتی فوج کے ایک حاضر سروس کرنل اور ان کے بیٹے پر پنجاب پولیس کے بعض اہلکاروں کی جانب سے مبینہ تشدد کا معاملہ شدت اختیار کر گیا ہے۔ فوج نے واقعے کی غیر جانبدار اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ یہ معاملہ ہائی کورٹ تک جا پہنچا ہے۔ یہ واقعہ 13 مارچ کو بھارتی ریاست پنجاب کے شہر پٹیالہ میں ایک ڈھابے کے باہر پیش آیا۔ کرنل پشپیندر سنگھ باتھ اور ان کے بیٹے پر مبینہ طور پر پنجاب پولیس کے چار انسپکٹرز سمیت 12 پولیس اہلکاروں نے حملہ کیا۔ کرنل پشپیندر نے الزام لگایا ہے کہ اس حملے میں ان کا کندھا زخمی ہوا جبکہ ان کے بیٹے کی ناک کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج کے مطابق واقعہ ایک پارکنگ کے تنازعے کے باعث پیش آیا۔ کرنل کا مزید کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں نے ان کا موبائل بھی چھین لیا تھا اور ان کی شناخت جاننے کے باوجود ان پر تشدد جاری رکھا۔ اس وقت کرنل پشپیندر سنگھ چنڈی مندر کے کمانڈ اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ یہ معاملہ طول پکڑنے پر فوج کے ویسٹرن کمانڈ ہیڈکوارٹر کے اعلیٰ افسر لیفٹیننٹ جنرل موہت وادھوا اور پنجاب پولیس کے سربراہ گورو یادو نے 19 مارچ کو چنڈی گڑھ میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ لیفٹیننٹ جنرل وادھوا نے اسے ایک افسوسناک اور غیر متوقع واقعہ قرار دیا اور کہا کہ کرنل پشپیندر سنگھ پر حملے کے قصورواروں کو سزا دینے کے لیے شفاف اور غیر جانبدار تفتیش ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قصورواروں کے خلاف مقررہ مدت میں ایماندارانہ اور منصفانہ تحقیقات کی جائیں اور فوج اس معاملے کو اس کے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔ پنجاب پولیس کے سربراہ گورو یادو نے کہا کہ اس واقعے کو فوج اور پولیس کے درمیان ٹکراؤ کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ ان کے مطابق، پولیس فورس فوج کی عزت کرتی ہے اور اس معاملے میں ملوث اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے جبکہ ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔ پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ نے کرنل پشپیندر سنگھ پر مبینہ حملے کے معاملے میں پولیس کے طرز عمل پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور ریاستی حکومت سے وضاحت طلب کی ہے کہ ایف آئی آر درج کرنے میں آٹھ دنوں کی تاخیر کیوں ہوئی۔ عدالت نے سوال کیا کہ وہ پولیس افسر کون تھا جس نے سب سے پہلے کارروائی سے انکار کیا؟ اس کا کوئی جواز تھا؟ اس طرح کی بے رحمی برداشت نہیں کی جائے گی، اور عدالت کیوں نہ اس معاملے کو سی بی آئی کے حوالے کرے؟ عدالت نے یہ بھی استفسار کیا کہ جس ڈھابے کے مالک کی درخواست پر پولیس فوری ایف آئی آر درج کرنے کو تیار تھی، اسی پولیس نے کرنل کی اہلیہ کی شکایت درج کرنے سے انکار کیوں کیا؟ ریاستی حکومت کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ جمعے تک اپنی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔ اس واقعے پر شدید عوامی ردعمل سامنے آیا ہے۔ کانگریس کے ممبران اسمبلی نے پنجاب میں احتجاج کیا، جبکہ بھارتی میڈیا پر اس معاملے کو نمایاں کوریج دی جا رہی ہے۔ کرنل پشپیندر سنگھ کی اہلیہ نے ایک پریس کانفرنس میں واقعے پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ان کا صرف ایک ہی مطالبہ ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات سی بی آئی سے کرائی جائیں۔ ان کے مطابق، پولیس حکام نے کہا کہ اگر انہیں معلوم ہوتا کہ متاثرہ خاندان کرنل کا ہے تو وہ مختلف رویہ اپناتے۔ ان کا جواب تھا کہ یہ معاملہ سویلین اور فوج کا نہیں بلکہ انسانیت کا ہے۔ معاملہ طول پکڑنے کے بعد پنجاب پولیس نے اپنے اہلکاروں کے طرز عمل پر معذرت کا اظہار کیا اور ملوث اہلکاروں کو پٹیالہ سے باہر ٹرانسفر کر دیا گیا۔ پنجاب پولیس کے مطابق، واقعے کی تفتیش ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس کی سربراہی میں ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم کر رہی ہے، اور کوشش کی جا رہی ہے کہ تفتیش جلد مکمل کی جائے۔
رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی میں پاکستان کی معیشت کی شرح نمو 1.73 فیصد رہی، جو پہلے 0.92 فیصد کے تخمینے سے زیادہ ہے۔ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی (این اے سی) کے مطابق، خدمات کے شعبے میں توقع سے زیادہ بہتری کے باعث معیشت میں یہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کی یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب حکومت اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے درمیان 1.3 ارب ڈالر کی نئی فنانسنگ کا معاہدہ طے پایا ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان میں میکرو اکنامک استحکام کی بہتری کے سلسلے میں حکومتی پیشرفت کو سراہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی سالانہ جی ڈی پی نمو کا ہدف 2.5 فیصد سے 3.5 فیصد کے درمیان رکھا ہے اور توقع ظاہر کی ہے کہ سال کی باقی سہ ماہیوں میں اقتصادی سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہوگا۔ معاشی تجزیاتی ادارے عارف حبیب لمیٹڈ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی معیشت، شعبہ جاتی تغیرات کے باوجود، لچک کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ رپورٹ میں زراعت اور خدمات کے شعبے کو معیشت کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرنے والا عنصر قرار دیا گیا ہے، جبکہ صنعتی شعبے کو بحالی کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ دوسری سہ ماہی میں سال بہ سال (YoY) بنیاد پر مجموعی ترقی کی شرح 1.10 فیصد رہی۔ خدمات کا شعبہ 2.57 فیصد کی شرح سے بڑھا، جو کہ ایک مثبت اشارہ ہے۔ صنعتی شعبہ 0.18 فیصد کی شرح سے سکڑ گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شعبے میں مزید پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے۔ رپورٹ میں یہ پیش گوئی کی گئی ہے کہ مالی سال کے اختتام تک جی ڈی پی کی شرح نمو 2.75 فیصد تک پہنچ سکتی ہے، جس میں خدمات کے شعبے میں سب سے زیادہ ترقی متوقع ہے۔ کراچی میں واقع بروکریج فرم ٹاپ لائن سیکیورٹیز کے مطابق، رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں معیشت کی شرح نمو کا ابتدائی تخمینہ 0.92 فیصد تھا، جو بعد میں بڑھ کر 2.75 فیصد ہو گیا۔ بروکریج فرم کے مطابق، رواں مالی سال کی پہلی ششماہی میں اوسط شرح نمو 1.54 فیصد رہی، جو پچھلے مالی سال کی اسی مدت میں 2.33 فیصد تھی۔
وفاقی حکومت نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) میں پیکا ایکٹ 2016 نافذ کر دیا ہے، جس کے تحت ایف بی آر کے حساس (کریٹیکل) انفرا اسٹرکچر میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ کے فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے ایف بی آر کے آئی ٹی سسٹم، ڈیٹا سینٹر اور ایپلیکیشنز کو حساس انفرا اسٹرکچر قرار دے دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کا مقصد ایف بی آر کے ڈیجیٹل سسٹمز کی سیکیورٹی کو مزید مضبوط بنانا اور سائبر حملوں یا غیر قانونی مداخلت کو روکنا ہے۔ ایف بی آر نے اس حوالے سے اپنے تمام ریجنل ٹیکس دفاتر، کارپوریٹ ٹیکس آفسز، لارج ٹیکس پیئر آفسز، میڈیم ٹیکس آفسز، بے نامی زونز، اے ای او آئی زونز، ان لینڈ ریونیو اور کسٹمز سروس کے تمام ڈائریکٹر جنرلز اور ڈائریکٹرز سمیت ملک بھر کے فیلڈ افسران کو مراسلہ جاری کر دیا ہے، جس میں نئے احکامات پر سختی سے عمل درآمد کی ہدایت کی گئی ہے۔ ایف بی آر کے مطابق حساس انفرا اسٹرکچر میں غیر قانونی مداخلت یا سائبر حملوں کی صورت میں ملوث افراد کے خلاف پیکا ایکٹ 2016 کے تحت سخت کارروائی کی جائے گی، جس میں قید اور جرمانے جیسی سزائیں شامل ہیں۔ حکام نے تمام متعلقہ اداروں کو ہدایت کی ہے کہ وہ ایف بی آر کے ڈیجیٹل انفرا اسٹرکچر کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے سیکیورٹی کے تمام ضروری اقدامات کریں۔ اس اقدام کا مقصد ایف بی آر کے ڈیٹا اور سسٹمز کو کسی بھی ممکنہ خطرے سے محفوظ رکھنا ہے تاکہ ٹیکس ادائیگی اور دیگر مالیاتی امور میں شفافیت اور سیکیورٹی برقرار رہے۔
حکومت پاکستان نے پاکستانی صحافیوں کے مبینہ دورۂ اسرائیل کی رپورٹس کا نوٹس لیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ موجودہ قوانین کے تحت کسی بھی پاکستانی شہری کا اسرائیل جانا ممکن نہیں ہے۔ دفتر خارجہ نے اس حوالے سے خبروں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کا اسرائیل کے حوالے سے مؤقف تبدیل نہیں ہوا اور وہ بدستور فلسطینی عوام کی حمایت جاری رکھے گا۔ دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستانی پاسپورٹ پر واضح الفاظ میں درج ہوتا ہے کہ یہ "اسرائیل کے سفر کے لیے کارآمد نہیں ہے"، اس لیے کسی پاکستانی شہری کا اسرائیل کا باضابطہ دورہ ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی حکومت ان رپورٹس کا جائزہ لے رہی ہے اور اس حوالے سے مزید معلومات اکٹھی کی جا رہی ہیں۔ ترجمان نے زور دیا کہ پاکستان کا مؤقف واضح اور غیر متزلزل ہے—پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا اور فلسطینی عوام کے حقوق کا بھرپور حامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مشتمل ایک آزاد اور خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کے حق میں ہے، جس کا دارالحکومت القدس الشریف ہو۔ اس معاملے پر تبصرہ کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے کہا کہ پاکستانی وفد کے اسرائیل کے مبینہ دورے کی خبر میڈیا کے ذریعے معلوم ہوئی اور اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر مزید معلومات حاصل ہونے کے بعد ہی کوئی حتمی موقف اختیار کیا جا سکے گا۔ یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب انڈیپینڈنٹ اردو نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے رپورٹ دی کہ ایک پاکستانی وفد نے حال ہی میں تل ابیب اور مقبوضہ بیت المقدس کا دورہ کیا تھا۔ اسرائیلی اخبار اسرائیل ہیوم کے مطابق یہ دورہ ایک غیر سرکاری تنظیم "شراکہ" کے ذریعے منعقد کیا گیا، جو اسرائیل کے ایشیائی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے لیے سرگرم ہے۔ پاکستانی حکومت کی جانب سے اس معاملے کی مکمل چھان بین جاری ہے، تاہم دفتر خارجہ نے واضح کر دیا ہے کہ اسرائیل کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور وہ فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی حمایت جاری رکھے گا۔
کراچی کی ایک عدالت نے ایک سنگین جرم میں ملوث شخص کو اپنی ہی بیٹی کے ساتھ بار بار زیادتی کرنے کے جرم میں 25 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی ہے۔ اس کیس کا فیصلہ نہ صرف عدالتی بیانات بلکہ ڈی این اے کی ناقابلِ تردید شہادتوں کی بنیاد پر سنایا گیا، جس میں یہ ثابت ہوا کہ مجرم نہ صرف متاثرہ خاتون کا باپ ہے بلکہ اس کے پیدا ہونے والے بچے کا حیاتیاتی والد بھی ہے۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق یہ کہانی مئی 2021 میں اس وقت منظرعام پر آئی جب کراچی کے رہائشی جنید (فرضی نام) کو فیس بک پر ایک اجنبی خاتون، فوزیہ (فرضی نام)، کا پیغام موصول ہوا۔ اس پیغام میں فوزیہ نے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا ذکر کیا، جس پر ابتدا میں جنید کو لگا کہ یہ کوئی فریب ہو سکتا ہے۔ لیکن جب وہ اس خاتون سے ملے اور اس کی بات سنی تو انہیں حقیقت کا اندازہ ہوا کہ یہ ایک المناک اور لرزہ خیز سچائی ہے۔ فوزیہ کے مطابق، مئی 2020 میں جب ان کی والدہ بیمار ہو کر ہسپتال میں داخل تھیں، ان کے والد نے انہیں جان سے مارنے کی دھمکی دے کر متعدد بار زیادتی کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ حاملہ ہو گئیں۔ جب جنوری 2021 میں ان کے ہاں ایک بچے کی پیدائش ہوئی، تو والدہ نے ڈاکٹروں کو ایک اور شخص کا نام دے دیا تاکہ حقیقت چھپی رہے۔ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے، فوزیہ پر مزید دباؤ ڈالا گیا کہ وہ خاموش رہے اور کسی کو حقیقت نہ بتائے۔ جنید نے جب اس تمام صورتحال کو سمجھا تو انہیں احساس ہوا کہ فوزیہ بے قصور ہے اور اس کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف کھڑا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے فوزیہ سے نکاح کر کے اس کے حق میں آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن نکاح کے بعد بھی انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ فوزیہ کے والد نے نہ صرف ان پر دباؤ ڈالا بلکہ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔ تاہم، جنید اور فوزیہ نے پولیس میں مقدمہ درج کرایا، جس کی تفتیش کے دوران ڈی این اے ٹیسٹ سے یہ ثابت ہو گیا کہ فوزیہ کے بچے کا اصل باپ اس کا اپنا والد ہی تھا۔ کراچی کی عدالت نے 20 مارچ 2025 کو اپنے فیصلے میں کہا، "اس کیس میں ملزم متاثرہ خاتون کا اصل باپ ہے اور اس نے کئی بار جرم دہرایا۔ لہٰذا یہ کسی کم سزا کا مستحق نہیں ہو سکتا۔" عدالت نے اسے ریپ کے جرم میں 25 سال قید اور دو لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی، جبکہ قتل کی دھمکی دینے پر سات سال کی مزید قید اور 50 ہزار روپے جرمانے کی سزا بھی دی گئی۔ اس مقدمے کے دوران یہ بھی سامنے آیا کہ فوزیہ کی والدہ کو اپنی بیٹی کی حالت کا علم تھا، مگر انہوں نے اسے خاموش رہنے پر مجبور کیا۔ جب بچے کی پیدائش ہوئی اور ڈاکٹروں نے والد کا نام پوچھا تو انہوں نے ایک اور شخص کا نام دے دیا تاکہ حقیقت نہ کھل سکے۔ لیکن جب جنید نے فوزیہ کا ساتھ دیا، تو وہ مجبور ہو کر پولیس کے پاس گئیں اور اپنے والد کے خلاف مقدمہ درج کروایا۔ فوزیہ کے شوہر جنید نے کہا، "میری اہلیہ نے بہت ہمت دکھائی۔ اس پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ کیس واپس لے لے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ جب وہ ثابت قدم رہی، تو میں نے بھی اس کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔" کیس کی پیروی کرنے والی سرکاری وکیل شیخ حنا ناز شمس نے کہا کہ "یہ ایک مشکل کیس تھا، کیونکہ ابتدا میں کوئی وکیل بھی مجرم کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ عدالت نے اسے دفاع کے لیے وکیل فراہم کیا، لیکن جب حقیقت سامنے آئی تو اس کے وکیل نے بھی وکالت نامہ واپس لے لیا۔" اس مقدمے میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا بچہ تھا، جو فوزیہ کے والد کا حیاتیاتی بیٹا تھا۔ جنید اور فوزیہ نے اس کے بہتر مستقبل کے لیے فیصلہ کیا کہ اسے کسی فلاحی ادارے کے حوالے کر دیا جائے۔ فوزیہ کے شوہر نے کہا، "ہم نہیں چاہتے تھے کہ یہ بچہ رشتہ داروں کی نظروں میں بڑا ہو اور اسے ہر وقت اس کے اصل کی یاد دلائی جائے۔ اس لیے ہم نے یہ مشکل فیصلہ کیا۔"
ساہیوال کے نواحی علاقے اوکانوالہ بنگلہ میں ایک پالتو کتے کی غیر معمولی سرگرمی نے عمر حیات نامی زرعی مزدور کے وحشیانہ قتل کا راز فاش کر دیا۔ کتے نے جلے ہوئے کچرے کے ڈھیر کو مسلسل کھودنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں انسانی باقیات برآمد ہوئیں اور گاؤں والوں نے پولیس کو اطلاع دی۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق پولیس تفتیش کے مطابق، مقتول عمر حیات کو اس کی بیوی شمیم اور اس کے بھائی فدا حسین نے بے دردی سے قتل کیا، چہرہ مسخ کیا اور لاش کو آگ لگا کر کچرے کے ڈھیر میں پھینک دیا۔ واردات 13 اور 14 فروری کی درمیانی شب تحصیل چیچہ وطنی کے گاؤں 105/12-ایل میں پیش آئی۔ 18 فروری کو گاؤں کے رہائشیوں نے کتے کو کھدائی کرتے دیکھا، جس کے بعد زمین سے انسانی پیر برآمد ہوا۔ گاؤں کے ایک مقامی شخص سید بلال نواز نے فوراً پولیس ایمرجنسی لائن (15) پر اطلاع دی۔ اوکانوالہ بنگلہ پولیس موقع پر پہنچی اور جلے ہوئے کچرے سے ایک بری طرح جلی ہوئی، ناقابل شناخت لاش برآمد کر لی۔ مقتول کی شناخت نہ ہونے کے سبب، ڈی پی او ساہیوال رانا طاہر نے ڈی ایس پی تاثیر ریاض اور ایس ایچ او شہزاد احمد کی سربراہی میں ایک خصوصی تفتیشی ٹیم تشکیل دی۔ پولیس نے گاؤں والوں کی مدد سے عمر حیات کی آخری رہائش گاہ کا سراغ لگایا، جو کہ زمیندار ندیم عباس شاہ کے فارم ہاؤس پر تھا۔ عمر گزشتہ دو سال سے اپنی بیوی شمیم اور چار بچوں کے ساتھ وہاں کام کر رہا تھا۔ تاہم، لاش برآمد ہونے سے چند روز قبل زمیندار نے پولیس کو اطلاع دی تھی کہ عمر اور اس کے اہل خانہ ملازمت چھوڑ کر اپنے آبائی گاؤں جہانیاں، خانیوال چلے گئے ہیں۔ تفتیش کے دوران پولیس نے عمر کی والدہ سے رابطہ کیا، جنہوں نے بتایا کہ ان کا بیٹا اچانک لاپتا ہو گیا ہے۔ جب پولیس نے انہیں کچرے کے ڈھیر سے برآمد ہونے والے پیر دکھائے، تو ابتدائی طور پر انہوں نے بیٹے کے ہونے سے انکار کر دیا۔ مقتول کی بیوی شمیم نے بھی پیر کو پہچاننے سے انکار کر دیا، جس پر پولیس کو شبہ ہوا۔ بعد ازاں مقتول کی والدہ اور عمر کے ڈی این اے نمونے حاصل کیے گئے۔ کچھ دن بعد، مقتول کی والدہ نے پولیس کو فون کرکے تصدیق کی کہ یہ پیر ان کے بیٹے عمر کے ہی ہیں۔ مزید تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ عمر اور اس کی بیوی شمیم دونوں کے مبینہ ناجائز تعلقات تھے، جس پر دونوں کے درمیان اکثر جھگڑے ہوتے تھے۔ واردات سے ایک ہفتہ قبل عمر نے شمیم سے اس معاملے پر سخت بات کی، جس کے نتیجے میں دونوں میں شدید جھگڑا ہوا۔ اس کے بعد شمیم نے اپنے بھائی فدا حسین کو قتل کی منصوبہ بندی میں شامل کر لیا۔ شمیم اور فدا حسین نے 13 فروری کی رات عمر کو قتل کیا۔ انہوں نے پہلے لوہے کی سلاخ اور اینٹوں سے اس کا چہرہ مسخ کیا، پھر لاش کو قریبی کچرے کے ڈھیر میں لے جا کر آگ لگا دی تاکہ کوئی شناخت نہ کر سکے۔ ایس ایچ او شہزاد احمد کے مطابق، مقتول کی بیوی شمیم اور فدا حسین کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور ان کے خلاف مقدمہ 18 فروری کو درج کر لیا گیا تھا۔ تمام ثبوت اور اعتراف جرم مکمل ہونے کے بعد کیس ٹرائل کے لیے تیار ہے۔ یہ لرزہ خیز قتل ایک عام پالتو کتے کی غیر معمولی ذہانت کی بدولت بے نقاب ہوا، جس نے نہ صرف قاتلوں کے ناپاک ارادے ناکام بنا دیے بلکہ پولیس کو ایک پیچیدہ کیس کو حل کرنے میں بھی مدد دی۔
وانا: جنوبی وزیرستان میں ریاست کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے الزام میں سابقہ امیدوار صوبائی اسمبلی اور معروف سیاسی و سماجی کارکن تاج وزیر کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق، یہ مقدمہ وانا سٹی پولیس اسٹیشن میں درج کیا گیا ہے، جس میں ان پر سوشل میڈیا کے ذریعے ریاست کے خلاف گمراہ کن اور من گھڑت خبریں پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق، تاج وزیر پہلے بھی مختلف اوقات میں عوام کو ریاستی اداروں کے خلاف اشتعال دلاتے رہے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان کی سرگرمیاں قومی سلامتی اور امن و امان کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں، جس کے پیش نظر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ہے۔ دوسری جانب ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) نے عوام اور سوشل میڈیا صارفین سے اپیل کی ہے کہ وہ بغیر تصدیق کے خبریں پھیلانے سے گریز کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ غلط معلومات اور جھوٹے پروپیگنڈے سے نہ صرف ریاستی اداروں کی ساکھ متاثر ہوتی ہے بلکہ عوام میں بے چینی بھی پیدا ہوتی ہے۔
کراچی: آج سہ پہر 3 بجے، وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اہلکاروں نے معروف صحافی فرحان ملک کے دفتر، رفتار، پر اچانک چھاپہ مارا اور ان کا ورک کمپیوٹر اور دفتر میں موجود تمام یو ایس بی ڈرائیوز ضبط کر لیں۔ دفتر کے عملے کو کسی قسم کی وضاحت فراہم نہیں کی گئی، جبکہ چھاپے کے دوران انتظامیہ کو شدید مشکلات کا سامنا رہا۔ دفتر انتظامیہ اور صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی محض ایک معمول کی تفتیش نہیں بلکہ آزادی صحافت پر براہ راست حملہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلے فرحان ملک کو حراست میں لیا گیا اور اب ان کے کام کے بنیادی وسائل اور محفوظ شدہ ریکارڈ کو بھی نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ میں مقدمے کے اخراج کی درخواست، فریقین کو نوٹس جاری دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے ملک مخالف ویڈیوز بنانے کے الزام میں درج مقدمے کو خارج کرنے کی فرحان ملک کی درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔ عدالت نے درخواست کی سماعت عید کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کر دی۔ درخواست گزار کے وکیل، معیز جعفری ایڈووکیٹ، نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ فرحان ملک کے خلاف درج ایف آئی آر غیر قانونی اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق یہ مقدمہ ایک آزاد صحافی کو ہراساں کرنے کی کوشش ہے، اور ان کی قانونی ٹیم نے اس کے خلاف حکم امتناع کی استدعا کی تھی، جو تاحال نہیں ملا۔ معیز جعفری نے مزید کہا کہ جب یہ انکوائری شروع ہوئی تھی، تب پیکا ترمیمی ایکٹ موجود نہیں تھا، اور اگر اس نوعیت کے مقدمات کو اجازت دی گئی تو شہریوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا، جہاں کسی بھی سرکاری افسر کو یہ اختیار حاصل ہوگا کہ وہ عناد کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو قانونی پیچیدگیوں میں الجھا سکے۔ درخواست میں سندھ حکومت، ایس ایس پی ایسٹ، ڈائریکٹر ایف آئی اے، اور دیگر متعلقہ حکام کو فریق بنایا گیا ہے۔ صحافتی برادری اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس کارروائی پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ آزادی صحافت کو دبانے کے بجائے اس کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔ دوسری جانب، رفتا‌ر کے دفتر کے ملازمین اور صحافی برادری کا کہنا ہے کہ وہ اس دباؤ کے سامنے خاموش نہیں رہیں گے اور آزادی اظہار رائے کے حق کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کرتے رہیں گے۔
اسلام آباد: سیاست ڈاٹ پی کے کے نوجوان اینکر سہراب برکت کو فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) نے طلب کر لیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، سہراب برکت کو چند روز قبل بھی ایک نوٹس موصول ہوا تھا، جس کے بعد ان کے وکیل ایف آئی اے میں پیش ہوئے۔ تاہم، انویسٹیگیشن آفیسر نے واضح کیا کہ وہ صرف اور صرف سہراب برکت کو ذاتی حیثیت میں طلب کرنا چاہتے ہیں۔ اب ایک اور نوٹس انہیں واٹس ایپ پر موصول ہوا ہے، جس میں انہیں پیر کے روز ایف آئی اے کے دفتر میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ کل ان کی گرفتاری کا قوی امکان ہے۔ بے باک صحافت کی سزا؟ سہراب برکت اپنے بے باک صحافتی انداز کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے حالیہ دنوں میں کشمیر میں ہونے والے احتجاجوں کی کھل کر رپورٹنگ کی اور اس معاملے کو پورے پاکستان میں اجاگر کیا۔ ان کی رپورٹنگ کے بعد پاکستانی حکام کی جانب سے سیاسی دباؤ میں مزید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ پیش رفت اس وقت سامنے آئی ہے جب چند روز قبل ہی "رفتار" پلیٹ فارم کے بانی اور صحافی فرحان ملک کو بھی ایف آئی اے نے پیکا ایکٹ کے تحت گرفتار کیا تھا۔ سوشل میڈیا پر حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو ڈرایا اور دبایا جا رہا ہے، جس پر صحافتی تنظیموں اور عوامی حلقوں میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔ سیاست ڈاٹ پی کے پر مسلسل دباؤ یہ کوئی پہلا موقع نہیں جب سیاست ڈاٹ پی کے کو حکومتی دباؤ کا سامنا ہے۔ یہ پلیٹ فارم اپنے آزادانہ مؤقف کے باعث گزشتہ 600 سے زائد دنوں سے پابندیوں کا شکار ہے۔ موجودہ صورتحال میں ایسا لگ رہا ہے کہ پاکستان میں سیاست ڈاٹ پی کے کو مکمل طور پر بند کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی، سیاست ڈاٹ پی کے کے سی ای او عدیل حبیب کو بھی فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی جانب سے دو کروڑ روپے کا نوٹس بھیجا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ نوٹس انہیں ہراساں کرنے کے لیے دیا گیا ہے، کیونکہ عدیل حبیب نے اب تک اپنے تمام ٹیکس ریٹرنز باقاعدگی سے فائل کیے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں آزاد صحافت کا دائرہ مزید تنگ کیا جا رہا ہے؟ اور کیا سہراب برکت کا معاملہ ملک میں جاری سیاسی و صحافتی کشمکش میں ایک نیا موڑ ثابت ہوگا؟ کل کا دن اس حوالے سے نہایت اہم ثابت ہو سکتا ہے
بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے چار پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔ نوشکی پولیس کے سربراہ ہاشم مہمند کے مطابق واقعہ غریب آباد کے علاقے میں پیش آیا، جہاں اہلکار معمول کی گشت پر تھے کہ مسلح حملہ آوروں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ چاروں اہلکاروں کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے ٹیچنگ اسپتال نوشکی منتقل کر دی گئی ہیں۔ اس سے قبل بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگیچر میں ایک حملے میں چار مزدوروں کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے نوشکی میں پولیس پر حملے اور منگیچر میں مزدوروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا نوشکی میں پولیس موبائل پر فائرنگ اور منگچر میں معصوم مزدوروں کا قتل وحشیانہ دہشت گردی ہے۔ شہداء کے خون کا حساب لیا جائے گا، ریاست دشمن عناصر کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔ بلوچستان کے امن کو خراب کرنے کی ہر سازش ناکام ہوگی! ۔
رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع اور ڈیویڈنڈز کی مد میں پاکستان سے ڈالر کا اخراج دوگنا سے بھی زیادہ ہوگیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 کے جولائی تا فروری کے دوران منافع کا اخراج 103.94 فیصد اضافے کے ساتھ 1.55 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 76 کروڑ ڈالر تھا۔ یہ اضافہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کے اخراج پر عائد پابندیوں میں نرمی کی علامت ہے، تاہم اس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ برقرار ہے۔ اس وقت اسٹیٹ بینک کے ذخائر 11.14 ارب ڈالر ہیں، جو بڑھتی ہوئی درآمدات اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے ناکافی تصور کیے جا رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ منافع کا اخراج خوراک کے شعبے سے 29 کروڑ 20 لاکھ ڈالر رہا، جبکہ توانائی کے شعبے نے 23 کروڑ 30 لاکھ ڈالر اور مالیاتی شعبے (بشمول بینکنگ) نے 19 کروڑ 10 لاکھ ڈالر بیرون ملک منتقل کیے۔ پاکستان کو سالانہ تقریباً 25 ارب ڈالر بیرونی قرضوں اور اس کے سود کی ادائیگی کے لیے درکار ہوتے ہیں، جس میں 5 ارب ڈالر صرف سود کی مد میں شامل ہیں۔ حکومت بیرونی قرضوں کو رول اوور کرانے اور مزید قرضے لینے کے لیے کوشاں ہے تاکہ ادائیگیوں کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے۔ حکومت نے برآمدات میں اضافے کے لیے ’اڑان پاکستان‘ پروگرام کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت ملکی برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، تاہم اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ برآمدات میں نمایاں اضافے کے بغیر قرضوں کے بحران سے نکلنا مشکل ہوگا۔

Back
Top