زبان صرف گوشت کا ٹکڑا تو نہیں

jani1

Chief Minister (5k+ posts)

تحریر:جانی

یہ دوہزار چارکے آس پاس کی بات ہے۔۔جب میں انگلینڈ سے آسٹریلیا تازہ تازہ شفٹ ہوا تھا۔۔شاید انگریزوں کی نقالی کرتے ہوئے۔۔کہ ان کے منہ سے آسٹریلیا کے قصے کچھ الگ ہی طرح کا مزہ دیتے تھے۔۔
چند ہفتے نیو ساوتھ ویلز و کیمبرہ میں گھوم پھر کر ، شمال کی طرف جانے کا ارادہ کیا، ۔اورانٹر نیٹ پر تلاش کرکے،کوئینز لینڈ کے ایک چھوٹے شہر میں واقع ایک موٹل کا ٹیلیفون کڑکا دیا۔ موٹل کا مالک جس کا نام جمی تھا، نے بتایا کہ اس ہفتے کوئ جگہ خالی نہیں مگر اگلے ہفتے جگہ مل سکتی ہے۔۔

ادھوری بکنگ کی بات کرنے کے بعد جب میں نے اس سے ائیرپورٹ سے اس کی جگہ پہنچنے کا طریقہ کار پوچھا تو اس نے بتا یا کہ تم ٹیکسی بھی لے سکتے ہو۔ مگر آنے سے پہلے اگر مجھے اطلاع کر دو، تو میں خود ہی پک اپ کرنے آجاونگا۔۔

اگلے ہفتے میری فلائیٹ مجھے منزل تک پہنچانے سے پہلے برسبن لے گئی جو کہ آدھے رستے میں پڑتا تھا۔۔مگر جانے سے پہلے میں نے جمی کو اطلاع دے دی تھی۔۔ جس نے مجھے پک اپ کرنے کا وعدہ کیا۔۔
کوئنزلینڈ کے اس چھوٹے سے شہر کی آبادی چونکہ ایک لاکھ کے آس پاس تھی، اسی لیئے وہاں کا ایئرپورٹ بھی چھوٹا سا تھا، مگر پیارا، اور نیا نویلا۔

میں جیسے ہی ارائیول لاونچ پہنچا، تو ایک قدرے دبلے پتلے،لمبے مگر گنجے اور اُدھیڑ عمر شخص کو اپنے نام کی تختی لیئے پایا۔۔ آج کل تو بندہ فوٹو یا ویڈیو کال کے ذریعے ایک دوسرے کو دیکھ لیتا ہے مگر اس زمانے میں موبائل کی سکرین پر رنگ تو آنا شروع ہوا تھا، مگر کیمرہ ابھی اتنا عام نہیں تھا۔

ہائے ہیلو اور مُسکُراہٹوں کے تبادلے کے بعد، اس نے میرے دو بیگوں میں سے ایک بیگ ہاتھ میں لیا اور میں اسے فالو کرتے ہوئے اس کے سٹیشن ویگن نما گاڑی کے پاس کھلے آسمان تلے،
خوبصورت اور کشادہ کار پارک پہنچا۔ ۔اسکے تھوڑی ہی دیر میں ہماری گاڑی وہاں کی خاموش سڑکوں پر دوڑ رہی تھی۔

کوئی پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ہماری گاڑی ایک چھوٹی سی چڑھائی پر چڑھتے ہوئے ایک موٹل کی پارکنگ میں داخل ہوئی۔۔ مگر موٹل کا نام پڑھ کر مجھے حیرانی سی ہوئی اور اس سے پہلے کہ میں جمی سے سوال کرتا۔ جمی نے تسلی سے گاڑی پارک کرکےجو بات بتائی وہ میرے لیئے حیرانی سے زیادہ شرمندگی کا احساس دلارہی تھی۔۔

جمی نے بتایا کہ چونکہ میرے موٹل میں ،جگہ خالی نہیں ہوپائی تھی۔اس لیئے وہ مجھے یہاں لے آیا۔۔ جس پر میں نے کہاکہ میں خود ہی چلا آتا تم نے زحمت کیوں کی پھر۔۔تو وہ بولا کیونکہ میں پرومس کرچکا تھا۔۔اس کے احساس نے مجھے شرمندہ سا کردیا تھا۔۔اگرچہ تھوڑی دیر کو میں کچھ بدگمان سا ہوا کہ شاید جمی نے ان سے کمیشن کھراکیا ہوگا۔۔۔مگر میرا وہ خیال بھی غلط ثابت ہو ا۔۔ کیونکہ یہ موٹل کوئی اس علاقے یا ملک کا لوکل نہیں تھا۔ بلکہ انٹرنیشنل تھا۔۔جنہیں چھوٹے کمیشن خوروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ لوگ ان کے نام کی
وجہ سے ہی آتے رہتے ہیں۔۔ جمی نے ویسے بھی آتے یا جاتے ہوئے ان کو اپنا منہ نہیں دکھایا تھا۔۔اور شایدمجھے بھی اسی لیئے یہاں لایا تھا کہ یہاں جگہ ضرور مل جائے گی۔

تقریبا ایک ہفتہ وہاں قیام کے بعد جب جمی کے موٹل میں جگہ بن گئی تو میں وہاں کوچ کرگیا۔۔بعد میں جمی اور مسز جمی سے میرے اچھے مراسم بن گئے تھے ،جب میں ان کے موٹل ۔میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ رہا ۔۔ بلکہ مسز جمی نے تو مجھے سن یعنی بیٹاکہنا شروع کردیا تھا۔۔ اور جہاں باقیوں کے لیئے سٹرکٹ قسم کے قوانین تھے۔۔میرے لیئے کافی نرمی تھی ان ۔۔
میں۔۔کیا خاموش مگر خوبصورت دو ماہ تھے وہ بھی۔۔خوبصورت احساس رکھتے لوگوں کے درمیان۔۔

جمی کی زبان کی پاسداری کو دیکھ کر میں یہ سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ ، اسلام زبان کی پاسداری کا درس ہی نہیں حکم بھی دیتا ہے، جس پر ہم میں ایک بڑی تعداد عمل بھی کرتی ہے، مگر ایک بڑی تعداد زبان کو گوشت کے اک ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں سمجھتی۔ ان کے خیال میں اسے چکنے اور گپ شپ کے چسکے کے لیئے ہمارے منہ میں رکھ دیا گیا ہے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے زبان اور نفس کے کنٹرول کرنے والے کو جنت کی نوید سنائی ہے۔۔
 
Last edited by a moderator:

Dr Adam

Prime Minister (20k+ posts)

تحریر:جانی

یہ دوہزار چارکے آس پاس کی بات ہے۔۔جب میں انگلینڈ سے آسٹریلیا تازہ تازہ شفٹ ہوا تھا۔۔شاید انگریزوں کی نقالی کرتے ہوئے۔۔کہ ان کے منہ سے آسٹریلیا کے قصے کچھ الگ ہی طرح کا مزہ دیتے تھے۔۔
چند ہفتے نیو ساوتھ ویلز و کیمبرہ میں گھوم پھر کر ، شمال کی طرف جانے کا ارادہ کیا، ۔اورانٹر نیٹ پر تلاش کرکے،کوئینز لینڈ کے ایک چھوٹے شہر میں واقع ایک موٹل کا ٹیلیفون کڑکا دیا۔ موٹل کا مالک جس کا نام جمی تھا، نے بتایا کہ اس ہفتے کوئ جگہ خالی نہیں مگر اگلے ہفتے جگہ مل سکتی ہے۔۔

ادھوری بکنگ کی بات کرنے کے بعد جب میں نے اس سے ائیرپورٹ سے اس کی جگہ پہنچنے کا طریقہ کار پوچھا تو اس نے بتا یا کہ تم ٹیکسی بھی لے سکتے ہو۔ مگر آنے سے پہلے اگر مجھے اطلاع کر دو، تو میں خود ہی پک اپ کرنے آجاونگا۔۔

اگلے ہفتے میری فلائیٹ مجھے منزل تک پہنچانے سے پہلے برسبن لے گئی جو کہ آدھے رستے میں پڑتا تھا۔۔مگر جانے سے پہلے میں نے جمی کو اطلاع دے دی تھی۔۔ جس نے مجھے پک اپ کرنے کا وعدہ کیا۔۔
کوئنزلینڈ کے اس چھوٹے سے شہر کی آبادی چونکہ ایک لاکھ کے آس پاس تھی، اسی لیئے وہاں کا ایئرپورٹ بھی چھوٹا سا تھا، مگر پیارا، اور نیا نویلا۔

میں جیسے ہی ارائیول لاونچ پہنچا، تو ایک قدرے دبلے پتلے،لمبے مگر گنجے اور اُدھیڑ عمر شخص کو اپنے نام کی تختی لیئے پایا۔۔ آج کل تو بندہ فوٹو یا ویڈیو کال کے ذریعے ایک دوسرے کو دیکھ لیتا ہے مگر اس زمانے میں موبائل کی سکرین پر رنگ تو آنا شروع ہوا تھا، مگر کیمرہ ابھی اتنا عام نہیں تھا۔

ہائے ہیلو اور مُسکُراہٹوں کے تبادلے کے بعد، اس نے میرے دو بیگوں میں سے ایک بیگ ہاتھ میں لیا اور میں اسے فالو کرتے ہوئے اس کے سٹیشن ویگن نما گاڑی کے پاس کھلے آسمان تلے،
خوبصورت اور کشادہ کار پارک پہنچا۔ ۔اسکے تھوڑی ہی دیر میں ہماری گاڑی وہاں کی خاموش سڑکوں پر دوڑ رہی تھی۔

کوئی پندرہ منٹ کے سفر کے بعد ہماری گاڑی ایک چھوٹی سی چڑھائی پر چڑھتے ہوئے ایک موٹل کی پارکنگ میں داخل ہوئی۔۔ مگر موٹل کا نام پڑھ کر مجھے حیرانی سی ہوئی اور اس سے پہلے کہ میں جمی سے سوال کرتا۔ جمی نے تسلی سے گاڑی پارک کرکےجو بات بتائی وہ میرے لیئے حیرانی سے زیادہ شرمندگی کا احساس دلارہی تھی۔۔

جمی نے بتایا کہ چونکہ میرے موٹل میں ،جگہ خالی نہیں ہوپائی تھی۔اس لیئے وہ مجھے یہاں لے آیا۔۔ جس پر میں نے کہاکہ میں خود ہی چلا آتا تم نے زحمت کیوں کی پھر۔۔تو وہ بولا کیونکہ میں پرومس کرچکا تھا۔۔اس کے احساس نے مجھے شرمندہ سا کردیا تھا۔۔اگرچہ تھوڑی دیر کو میں کچھ بدگمان سا ہوا کہ شاید جمی نے ان سے کمیشن کھراکیا ہوگا۔۔۔مگر میرا وہ خیال بھی غلط ثابت ہو ا۔۔ کیونکہ یہ موٹل کوئی اس علاقے یا ملک کا لوکل نہیں تھا۔ بلکہ انٹرنیشنل تھا۔۔جنہیں چھوٹے کمیشن خوروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ بلکہ لوگ ان کے نام کی
وجہ سے ہی آتے رہتے ہیں۔۔ جمی نے ویسے بھی آتے یا جاتے ہوئے ان کو اپنا منہ نہیں دکھایا تھا۔۔اور شایدمجھے بھی اسی لیئے یہاں لایا تھا کہ یہاں جگہ ضرور مل جائے گی۔

تقریبا ایک ہفتہ وہاں قیام کے بعد جب جمی کے موٹل میں جگہ بن گئی تو میں وہاں کوچ کرگیا۔۔بعد میں جمی اور مسز جمی سے میرے اچھے مراسم بن گئے تھے ،جب میں ان کے موٹل ۔میں دو ماہ سے زیادہ عرصہ رہا ۔۔ بلکہ مسز جمی نے تو مجھے سن یعنی بیٹاکہنا شروع کردیا تھا۔۔ اور جہاں باقیوں کے لیئے سٹرکٹ قسم کے قوانین تھے۔۔میرے لیئے کافی نرمی تھی ان ۔۔
میں۔۔کیا خاموش مگر خوبصورت دو ماہ تھے وہ بھی۔۔خوبصورت احساس رکھتے لوگوں کے درمیان۔۔

جمی کی زبان کی پاسداری کو دیکھ کر میں یہ سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ ، اسلام زبان کی پاسداری کا درس ہی نہیں حکم بھی دیتا ہے، جس پر ہم میں ایک بڑی تعداد عمل بھی کرتی ہے، مگر ایک بڑی تعداد زبان کو گوشت کے اک ٹکڑے کے سوا کچھ نہیں سمجھتی۔ ان کے خیال میں اسے چکنے اور گپ شپ کے چسکے کے لیئے ہمارے منہ میں رکھ دیا گیا ہے۔ جبکہ رسول اللہ ﷺ نے زبان اور نفس کے کنٹرول کرنے والے کو جنت کی نوید سنائی ہے۔۔​
Good, impressive write up Jani.
Thank you for sharing.
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
Allah hum sab ko apni zabano pe qaboo karne ki taufee de.
Sach me hum ne waqai isay chaknay ke liay rakha he Baqi hamari zaban jis tarah forum pe he shayad ghar aur bahir is se kafi ziada talkh ho.
اللّٰہ ہمیں زبان پہ قابو اور زبان کی پاسداری کی توفیق دے ۔ ٓامین
 
Last edited:

brohiniaz

Chief Minister (5k+ posts)
جزاک اللہ خیرا، جانی سر

رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَلَا اُخْبِرُکَ بِمَلَاکِ ذٰلِکَ کُلِّہٖ؟ ’’اے معاذ! میں تمہیں ان تمام معاملات کی روح کے بارے میں بتاؤں؟‘‘ یعنی کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو ان تمام اجزاء کو جوڑنے والی ہے اور ان کو صحیح رخ پر اور صحیح روح کے ساتھ آگے بڑھانے والی ہے!مَلَاک کہتے ہیں روح اور مغز کو. عرب کہتے ہیں: اَلْقَلْبُ مَلَاکُ الْجَسَدِ ’’دل پورے جسم کے لیے ملاک ہے‘‘ یعنی دل پورے جسم کا روحِ رواں ہے. دل ہے تو زندگی ہے اور اگردل بند ہو جائے تو زندگی ختم ہوجاتی ہے.یہاں بھی آپﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں اس تمام معاملے کی روح کے بارے میں نہ بتاؤں؟ حضرت معاذ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسولﷺ ! ضرور فرمایئے. فَاَخَذَ بِلِسَانِہٖ ’’پس حضورﷺ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا‘‘ اور فرمایا: کُفَّ عَلَیْکَ ھٰذَا ’’اس کو روک کر رکھو‘‘.یعنی زبان سے کوئی غلط اور ظالمانہ کلمہ نہ نکلے‘ کوئی غیبت اور کوئی تہمت برآمد نہ ہو‘خواہ مخواہ کسی کی عزت کے اوپر حملہ نہ ہو.زبان کو اپنے قابو میں رکھواورجب بھی زبان کھولوتو حق اور سچ کی بات کرو.یہ بات قرآن مجید میں بھی آئی ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۰﴾ (الاحزاب) ’’اے اہل ِایمان !اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور بات کیا کرو سیدھی سچی‘‘. اگر یہ دو کام ہو جائیں یعنی دل میں تقویٰ ہو اور زبان پر مکمل کنٹرول ہو تو اس کا فائدہ یہ ہے کہ: یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ ’’اللہ تمہارے سارے اعمال درست کردے گا اور تمہاری خطائیں بخش دے گا‘‘.ایک حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں.

مَنْ یَتَکَفَّلْ لِی مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ أَتَکَفَّلْ لَہُ بِالْجَنَّۃِ
’’جو شخض مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں.‘‘

زیر مطالعہ حدیث میں بھی آپﷺ نے فرمایا کہ اپنی زبان کوقابومیں رکھو.اس پرحضرت معاذ ؓ کی سادگی دیکھئے حضرت معاذ وہ ہیں جن کے بارے میں حضوراکرمﷺ نے فرمایا: اَعْلَمُھُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ کہ میرے صحابہ میں حلال وحرام کا سب سے زیادہ جاننے والامعاذ بن جبل ہے! یعنی ہم یوں کہیں گے کہ فقہ کے سب سے بڑے ماہر معاذبن جبل ہیں وہ اس بات پر حیران ہو کر کہتے ہیں: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! وَاِنَّا لَمُؤَاخَذُوْنَ بِمَا نَتَـکَلَّمُ بِہٖ؟ ’’اے اللہ کے نبیﷺ ! کیا ہمارا اس پر بھی مواخذہ ہو گا جو ہم کلام کرتے رہتے ہیں‘‘.ظاہر بات ہے آدمی جب دوستوں کے اندر بیٹھا گپ شپ کرتا ہے تو اُس وقت زبان پر کنٹرول نہیں رہتا. اس وقت تو جو منہ میں آیا کہہ دیا. اب اس میں غیبتیں بھی ہو رہی ہیں‘ غلط باتیں بھی ہو رہی ہیں‘جھوٹ بھی بولا جا رہا ہے … تو حضرت معاذؓ نے پوچھا: اے اللہ کے نبیﷺ ! یہ جو ہم باتیں کرتے رہتے ہیں کیا اس پر بھی ہمارا مواخذہ ہو گا؟

اس سوال کے جواب میں حضورﷺ کی محبت اور شفقت ملاحظہ ہو. سنن الترمذی‘ ابواب الزھد‘ باب ما جاء فی حفظ اللسان.
, سنن الترمذی‘ ابواب المناقب‘ باب مناقب معاذ بن جبل .وسنن ابن ماجہ‘ المقدمۃ‘ باب فضائل خباب. فرمایا: ثَـکِلَتْکَ اُمُّکَ یَا مُعَاذُ! ’’اے معاذ! تمہیں تمہاری ماں گم کرے‘‘. یعنی تمہاری گمشدگی پریا تمہاری غیر حاضری پر تمہاری ماں روئے عربوں کے ہاں یہ جملہ لاڈ پیار سے بھی بولا جاتاتھا وَھَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ اَوْ قَالَ عَلٰی مَنَاخِرِھِمْ‘ اِلاَّ حَصَائِدُ اَلْسِنَتِھِمْ ’’لوگوں کو ان کے چہروں کے بل جہنم میں جھونکنے والی سب سے بڑی شے زبان کی کٹائی (کمائی) ہی تو ہو گی‘‘. حَصِیْد کہتے ہیں اس فصل کو جومکمل طور پر کٹ گئی ہو ‘جیسے گندم کا پودا پورے کا پورا کاٹا جاتا ہے .گویا حَصَائِدُ اَلْسِنَتِھِمْ کا مفہوم یہ ہے کہ زبان سے جو بھی لفظ نکلتا ہے وہ آخرت کے اندر ایک بیج بن کر وہاں پروان چڑھتا ہے .لہٰذا جو فصلیں زبانوں سے بو ئی جا رہی ہیں‘کل قیامت کے دن جب یہ کٹیں گی تو یہی سب سے بڑھ کر انسانوں کو جہنم میں جھونکنے کا باعث بنیں گی.
 

jani1

Chief Minister (5k+ posts)
جزاک اللہ خیرا، جانی سر

رسول اللہﷺ نے فرمایا: اَلَا اُخْبِرُکَ بِمَلَاکِ ذٰلِکَ کُلِّہٖ؟ ’’اے معاذ! میں تمہیں ان تمام معاملات کی روح کے بارے میں بتاؤں؟‘‘ یعنی کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جو ان تمام اجزاء کو جوڑنے والی ہے اور ان کو صحیح رخ پر اور صحیح روح کے ساتھ آگے بڑھانے والی ہے!مَلَاک کہتے ہیں روح اور مغز کو. عرب کہتے ہیں: اَلْقَلْبُ مَلَاکُ الْجَسَدِ ’’دل پورے جسم کے لیے ملاک ہے‘‘ یعنی دل پورے جسم کا روحِ رواں ہے. دل ہے تو زندگی ہے اور اگردل بند ہو جائے تو زندگی ختم ہوجاتی ہے.یہاں بھی آپﷺ نے فرمایا کہ میں تمہیں اس تمام معاملے کی روح کے بارے میں نہ بتاؤں؟ حضرت معاذ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا:اللہ کے رسولﷺ ! ضرور فرمایئے. فَاَخَذَ بِلِسَانِہٖ ’’پس حضورﷺ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا‘‘ اور فرمایا: کُفَّ عَلَیْکَ ھٰذَا ’’اس کو روک کر رکھو‘‘.یعنی زبان سے کوئی غلط اور ظالمانہ کلمہ نہ نکلے‘ کوئی غیبت اور کوئی تہمت برآمد نہ ہو‘خواہ مخواہ کسی کی عزت کے اوپر حملہ نہ ہو.زبان کو اپنے قابو میں رکھواورجب بھی زبان کھولوتو حق اور سچ کی بات کرو.یہ بات قرآن مجید میں بھی آئی ہے : یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا ﴿ۙ۷۰﴾ (الاحزاب) ’’اے اہل ِایمان !اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور بات کیا کرو سیدھی سچی‘‘. اگر یہ دو کام ہو جائیں یعنی دل میں تقویٰ ہو اور زبان پر مکمل کنٹرول ہو تو اس کا فائدہ یہ ہے کہ: یُّصۡلِحۡ لَکُمۡ اَعۡمَالَکُمۡ وَ یَغۡفِرۡ لَکُمۡ ذُنُوۡبَکُمۡ ؕ ’’اللہ تمہارے سارے اعمال درست کردے گا اور تمہاری خطائیں بخش دے گا‘‘.ایک حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں.

مَنْ یَتَکَفَّلْ لِی مَا بَیْنَ لَحْیَیْہِ وَمَا بَیْنَ رِجْلَیْہِ أَتَکَفَّلْ لَہُ بِالْجَنَّۃِ
’’جو شخض مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں.‘‘

زیر مطالعہ حدیث میں بھی آپﷺ نے فرمایا کہ اپنی زبان کوقابومیں رکھو.اس پرحضرت معاذ ؓ کی سادگی دیکھئے حضرت معاذ وہ ہیں جن کے بارے میں حضوراکرمﷺ نے فرمایا: اَعْلَمُھُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ کہ میرے صحابہ میں حلال وحرام کا سب سے زیادہ جاننے والامعاذ بن جبل ہے! یعنی ہم یوں کہیں گے کہ فقہ کے سب سے بڑے ماہر معاذبن جبل ہیں وہ اس بات پر حیران ہو کر کہتے ہیں: یَا نَبِیَّ اللّٰہِ! وَاِنَّا لَمُؤَاخَذُوْنَ بِمَا نَتَـکَلَّمُ بِہٖ؟ ’’اے اللہ کے نبیﷺ ! کیا ہمارا اس پر بھی مواخذہ ہو گا جو ہم کلام کرتے رہتے ہیں‘‘.ظاہر بات ہے آدمی جب دوستوں کے اندر بیٹھا گپ شپ کرتا ہے تو اُس وقت زبان پر کنٹرول نہیں رہتا. اس وقت تو جو منہ میں آیا کہہ دیا. اب اس میں غیبتیں بھی ہو رہی ہیں‘ غلط باتیں بھی ہو رہی ہیں‘جھوٹ بھی بولا جا رہا ہے … تو حضرت معاذؓ نے پوچھا: اے اللہ کے نبیﷺ ! یہ جو ہم باتیں کرتے رہتے ہیں کیا اس پر بھی ہمارا مواخذہ ہو گا؟

اس سوال کے جواب میں حضورﷺ کی محبت اور شفقت ملاحظہ ہو. سنن الترمذی‘ ابواب الزھد‘ باب ما جاء فی حفظ اللسان.
, سنن الترمذی‘ ابواب المناقب‘ باب مناقب معاذ بن جبل .وسنن ابن ماجہ‘ المقدمۃ‘ باب فضائل خباب. فرمایا: ثَـکِلَتْکَ اُمُّکَ یَا مُعَاذُ! ’’اے معاذ! تمہیں تمہاری ماں گم کرے‘‘. یعنی تمہاری گمشدگی پریا تمہاری غیر حاضری پر تمہاری ماں روئے عربوں کے ہاں یہ جملہ لاڈ پیار سے بھی بولا جاتاتھا وَھَلْ یَکُبُّ النَّاسَ فِی النَّارِ عَلٰی وُجُوْھِھِمْ اَوْ قَالَ عَلٰی مَنَاخِرِھِمْ‘ اِلاَّ حَصَائِدُ اَلْسِنَتِھِمْ ’’لوگوں کو ان کے چہروں کے بل جہنم میں جھونکنے والی سب سے بڑی شے زبان کی کٹائی (کمائی) ہی تو ہو گی‘‘. حَصِیْد کہتے ہیں اس فصل کو جومکمل طور پر کٹ گئی ہو ‘جیسے گندم کا پودا پورے کا پورا کاٹا جاتا ہے .گویا حَصَائِدُ اَلْسِنَتِھِمْ کا مفہوم یہ ہے کہ زبان سے جو بھی لفظ نکلتا ہے وہ آخرت کے اندر ایک بیج بن کر وہاں پروان چڑھتا ہے .لہٰذا جو فصلیں زبانوں سے بو ئی جا رہی ہیں‘کل قیامت کے دن جب یہ کٹیں گی تو یہی سب سے بڑھ کر انسانوں کو جہنم میں جھونکنے کا باعث بنیں گی.
jazakallah brother..