ملکی معیشت کی حالت اتنی بری نہیں جتنی سمجھی جارہی ہے،حبیب اکرم

25habibakrameconomyhalat.jpg


سینئر تجزیہ کار حبیب اکرم نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت پہلے مہنگائی کا الزام تحریک انصاف حکومت پر ڈاالتی تھی تاہم موجودہ حکومت نے اب اعتراف کر لیا ہے کہ بین الاقومی سطح پر مہنگائی کی شرح میں اضافے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی پر قابو پانا مشکل ہے۔

تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "اختلافی نوٹ" میں بے قابو ہوتی مہنگائی پر بات کرتے ہوئے تجزیہ کار حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ حکومت بدل گئی حالات نہ بدلے، چونکہ 10 اپریل کو نئی حکومت آئی اور آج کے دن تک تقریبا ایک ماہ ہو چکا ہے اتنے تجربہ کار لوگ آئے ہیں تو کچھ نہ کچھ تو بہتری آئی ہو گی، میں اس حوالے سے کچھ اعدادو شمار شیئر کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہم دیکھیں کہ کچھ بدلا ہے یا نہیں بدلا۔

حبیب اکرم نے کہا کہ 10 اپریل کو جو نمبرز تھے ان کے مقابلےآج کے اعدادو شمار بتانے والا ہوں، آج مہنگائی کی شرح 13 اعشاریہ 37 فیصد جو کہ 10 اپریل کو 12 اعشاریہ 02 تھی، یعنی حکومت آنے کے بعد مہنگائی کی شرح میں 1۔35 کا اضافہ ہوا ہے، عالمی مارکیٹ میں پٹرول قیمت پیچھلی حکومت جب تھی تو97 ڈالر فی بیرل تھی جو کہ اب 110۔ 58 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے جس میں نہ تو پچھلی حکومت کا کوئی قصور تھا نہ ہی اس حکومت کا۔


انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں پٹرول کی موجودہ فی لیٹر قیمت 149۔ 86 روپے ہے جبکہ عمران خان صاحب نے سبسڈی دی ہوئی تھی تاہم پیٹرول کی قیمت اب بھی پہلی والی ہی ہے، ڈالر کی قیمت میں اضافی دیکھا جارہا ہے، چونکہ ڈالر کی قیمتوں میں تغیر آرہا ہے، کبھی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو کبھی قدرے کم ہو جاتی ہیں، 189 تک جا کر 187 تک آگیا، آج ڈالر 187 پر کلوز ہوا جبکہ اس وقت 186۔28 پر تھا جبکہ جس وقت تحریک عدم اعتماد لائی گئی تب ڈالر 178 روپے پر تھا، گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ تحریک عدم اعتماد لانے والوں کے کھاتے میں ڈالا جاسکتا ہے یا پرانی حکومت کی نااہلی پر بھی ڈال سکتے ہیں۔

جولائی2020 سے مارچ2021 تک ٹیکس وصولی 4 ہزار 400 ارب روپے تھی اور جولائی 2021 سے اپریل 2022 تک 4 ہزار 858 ارب روپے رہی، جبکہ مئی سے پہلے کی ٹیکس وصولی بھی اچھی رہی، اس میں کوئی گراوٹ تو دیکھنے میں نہیں آئی تاہم گزشتہ حکومت کی اتنی اچھی کارکردگی کے بعد چیئرمیں ایف بی آر کو تبدیل کر دیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایلیسن گروتھ جمود کا شکار رہی جبکہ تحریک انصاف حکومت نے 3 ، ساڑھے 3 سالہ اقتدار میں معاشی ترقی کی شرح 5۔57 فیصد چھوڑی جو کہ اس سے گزشتہ حکومت نے 5 سالوں میں تقریبا 6 فیصد تک پہنچائی تھی، 2020۔21 کے دوران لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی شرح 7۔41 فیصد رہی۔، لہذا موجودہ حکومت کو جیسے اقتدار ملا، ملکی معیشت کی حالات اتنی بری نہیں جتنی سمجھی جارہی ہے۔

حبیب اکرم نے کہا کہ چینی 90 روپے ہے پچھلی حکومت جہاں چھوڑ گئی تھی وہیں ہے، البتہ آٹے اور مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے، 100 روپے سے 150 روپے تک کا اضافہ مختلف شہروں میں ہوا ہے، بجلی بھی اس دوران 2 بار مہنگی ہو چکی ہے، یہ تمام وہ اعدادو شمار ہیں جو بتاتے ہیں کہ پچھلے 1 ماہ میں حکومت نے اپنے عمل سے تسلیم کر لیا ہے کہ جو پچھلی حکومت میں ہونے والی مہنگائی میں عمران خان کا قصور نہیں تھا وہ بین الاقوامی قیمتیں تھی۔

وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر وزراء تقریبا روز ہی اس پات کا پرچار کرتے ہیں کہ چونکہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھی ہیں تو پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہو گا، مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ جب قیمتوں کو عالمی قیمتوں سے جوڑ دیا جائے گا تو تقریبا255 تک جائیں گی، وزیر خزانہ نے مزید مشورہ دیا کہ "اکراس دے بورڈ سبسڈی" نہیں بلکہ "ٹارگٹڈ سبسڈی" دینی چاہیئے۔

انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف والے بھی یہی کہتے تھے۔ سعد رسول کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل سمیت پاکستان کی اب تک کی تاریخ کے تمام وزرائے خزانہ کو ایف اے کی اکنامکس کی کتاب پڑھانی چاہیئے جس کے بعد سب نظام درست ہو جائے گا۔

اینکر نے سوال کیا کہ اسحاق ڈار ڈالر کی قیمت 160 پر لے جانا چاہتے ہیں کیا ایسا ہو سکے گا، اس کے جواب میں تحزیہ کار نے کہا کہ ہمیں ذمہ داری سے بولنا چاہیئے، ان وزرا کے منہ بند کروانے چاہیئں، وزیراعظم صاحب کو، کبھی یہ کہتے ہیں ڈالر 160 پر چلا جائے گا کبھی 145 پر، جبکہ خورشید شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ 200 تک جائے گا، اسی طرح پچھلی حکومت میں گورنر سندھ عمران اسماعیل ڈالر کی قیمت کے حوالے سے دعوے کرتے تھے، ان کے منہ بند کروانے چاہیئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے بہت اچھی بات کہی کہ اس وقت وزارت خزانہ دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے، آدھی لندن سے جبکہ آدھی اسلام آباد سے کنٹرول ہو رہی ہے، جب یہ صورتحال رہے گی تو آپ ملکی معیشت کے بارے میں حقیقی فیصلے کیسے کر سکیں گے۔

اپنی بات کے اختتام میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کی معیشت کو بہت شدید خطرات لاحق ہیں، اس بات کا اعتراف آج وزیراعظم شہباز شریف نے بھی کیا کہ ہم معاشی تباہی کے قریب قریب جارہے ہیں، ہمیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے انتہائی محتاط ہو کر کام کرنا پڑے گا، انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی یہ دلیل اب نہیں چلے گی کہ 5 سال کی حکومت ملے گی تو اس پر کام سکتے ہیں اس 1 سال میں کچھ نہیں کیا جاسکتا،یہ دلیل اپوزیشن میں رہ کر تو چل سکتی تھی تاہم حکومت میں آنے کے بعد نہیں چل سکتی۔
 

انقلاب

Chief Minister (5k+ posts)
25habibakrameconomyhalat.jpg


سینئر تجزیہ کار حبیب اکرم نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت پہلے مہنگائی کا الزام تحریک انصاف حکومت پر ڈاالتی تھی تاہم موجودہ حکومت نے اب اعتراف کر لیا ہے کہ بین الاقومی سطح پر مہنگائی کی شرح میں اضافے کی وجہ سے ملک میں مہنگائی پر قابو پانا مشکل ہے۔

تفصیلات کے مطابق نجی نیوز چینل کے پروگرام "اختلافی نوٹ" میں بے قابو ہوتی مہنگائی پر بات کرتے ہوئے تجزیہ کار حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ حکومت بدل گئی حالات نہ بدلے، چونکہ 10 اپریل کو نئی حکومت آئی اور آج کے دن تک تقریبا ایک ماہ ہو چکا ہے اتنے تجربہ کار لوگ آئے ہیں تو کچھ نہ کچھ تو بہتری آئی ہو گی، میں اس حوالے سے کچھ اعدادو شمار شیئر کرنا چاہتا ہوں تاکہ ہم دیکھیں کہ کچھ بدلا ہے یا نہیں بدلا۔

حبیب اکرم نے کہا کہ 10 اپریل کو جو نمبرز تھے ان کے مقابلےآج کے اعدادو شمار بتانے والا ہوں، آج مہنگائی کی شرح 13 اعشاریہ 37 فیصد جو کہ 10 اپریل کو 12 اعشاریہ 02 تھی، یعنی حکومت آنے کے بعد مہنگائی کی شرح میں 1۔35 کا اضافہ ہوا ہے، عالمی مارکیٹ میں پٹرول قیمت پیچھلی حکومت جب تھی تو97 ڈالر فی بیرل تھی جو کہ اب 110۔ 58 ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے جس میں نہ تو پچھلی حکومت کا کوئی قصور تھا نہ ہی اس حکومت کا۔


انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستان میں پٹرول کی موجودہ فی لیٹر قیمت 149۔ 86 روپے ہے جبکہ عمران خان صاحب نے سبسڈی دی ہوئی تھی تاہم پیٹرول کی قیمت اب بھی پہلی والی ہی ہے، ڈالر کی قیمت میں اضافی دیکھا جارہا ہے، چونکہ ڈالر کی قیمتوں میں تغیر آرہا ہے، کبھی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو کبھی قدرے کم ہو جاتی ہیں، 189 تک جا کر 187 تک آگیا، آج ڈالر 187 پر کلوز ہوا جبکہ اس وقت 186۔28 پر تھا جبکہ جس وقت تحریک عدم اعتماد لائی گئی تب ڈالر 178 روپے پر تھا، گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ تحریک عدم اعتماد لانے والوں کے کھاتے میں ڈالا جاسکتا ہے یا پرانی حکومت کی نااہلی پر بھی ڈال سکتے ہیں۔

جولائی2020 سے مارچ2021 تک ٹیکس وصولی 4 ہزار 400 ارب روپے تھی اور جولائی 2021 سے اپریل 2022 تک 4 ہزار 858 ارب روپے رہی، جبکہ مئی سے پہلے کی ٹیکس وصولی بھی اچھی رہی، اس میں کوئی گراوٹ تو دیکھنے میں نہیں آئی تاہم گزشتہ حکومت کی اتنی اچھی کارکردگی کے بعد چیئرمیں ایف بی آر کو تبدیل کر دیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایلیسن گروتھ جمود کا شکار رہی جبکہ تحریک انصاف حکومت نے 3 ، ساڑھے 3 سالہ اقتدار میں معاشی ترقی کی شرح 5۔57 فیصد چھوڑی جو کہ اس سے گزشتہ حکومت نے 5 سالوں میں تقریبا 6 فیصد تک پہنچائی تھی، 2020۔21 کے دوران لارج اسکیل مینوفیکچرنگ کی شرح 7۔41 فیصد رہی۔، لہذا موجودہ حکومت کو جیسے اقتدار ملا، ملکی معیشت کی حالات اتنی بری نہیں جتنی سمجھی جارہی ہے۔

حبیب اکرم نے کہا کہ چینی 90 روپے ہے پچھلی حکومت جہاں چھوڑ گئی تھی وہیں ہے، البتہ آٹے اور مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے، 100 روپے سے 150 روپے تک کا اضافہ مختلف شہروں میں ہوا ہے، بجلی بھی اس دوران 2 بار مہنگی ہو چکی ہے، یہ تمام وہ اعدادو شمار ہیں جو بتاتے ہیں کہ پچھلے 1 ماہ میں حکومت نے اپنے عمل سے تسلیم کر لیا ہے کہ جو پچھلی حکومت میں ہونے والی مہنگائی میں عمران خان کا قصور نہیں تھا وہ بین الاقوامی قیمتیں تھی۔

وزیراعظم شہباز شریف سمیت دیگر وزراء تقریبا روز ہی اس پات کا پرچار کرتے ہیں کہ چونکہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھی ہیں تو پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ہو گا، مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ جب قیمتوں کو عالمی قیمتوں سے جوڑ دیا جائے گا تو تقریبا255 تک جائیں گی، وزیر خزانہ نے مزید مشورہ دیا کہ "اکراس دے بورڈ سبسڈی" نہیں بلکہ "ٹارگٹڈ سبسڈی" دینی چاہیئے۔

انہوں نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ تحریک انصاف والے بھی یہی کہتے تھے۔ سعد رسول کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار اور مفتاح اسماعیل سمیت پاکستان کی اب تک کی تاریخ کے تمام وزرائے خزانہ کو ایف اے کی اکنامکس کی کتاب پڑھانی چاہیئے جس کے بعد سب نظام درست ہو جائے گا۔

اینکر نے سوال کیا کہ اسحاق ڈار ڈالر کی قیمت 160 پر لے جانا چاہتے ہیں کیا ایسا ہو سکے گا، اس کے جواب میں تحزیہ کار نے کہا کہ ہمیں ذمہ داری سے بولنا چاہیئے، ان وزرا کے منہ بند کروانے چاہیئں، وزیراعظم صاحب کو، کبھی یہ کہتے ہیں ڈالر 160 پر چلا جائے گا کبھی 145 پر، جبکہ خورشید شاہ صاحب کا کہنا تھا کہ 200 تک جائے گا، اسی طرح پچھلی حکومت میں گورنر سندھ عمران اسماعیل ڈالر کی قیمت کے حوالے سے دعوے کرتے تھے، ان کے منہ بند کروانے چاہیئے۔

انہوں نے مزید کہا کہ آج پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے بہت اچھی بات کہی کہ اس وقت وزارت خزانہ دو حصوں میں بٹی ہوئی ہے، آدھی لندن سے جبکہ آدھی اسلام آباد سے کنٹرول ہو رہی ہے، جب یہ صورتحال رہے گی تو آپ ملکی معیشت کے بارے میں حقیقی فیصلے کیسے کر سکیں گے۔

اپنی بات کے اختتام میں انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کی معیشت کو بہت شدید خطرات لاحق ہیں، اس بات کا اعتراف آج وزیراعظم شہباز شریف نے بھی کیا کہ ہم معاشی تباہی کے قریب قریب جارہے ہیں، ہمیں اس صورتحال سے نمٹنے کے لئے انتہائی محتاط ہو کر کام کرنا پڑے گا، انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی یہ دلیل اب نہیں چلے گی کہ 5 سال کی حکومت ملے گی تو اس پر کام سکتے ہیں اس 1 سال میں کچھ نہیں کیا جاسکتا،یہ دلیل اپوزیشن میں رہ کر تو چل سکتی تھی تاہم حکومت میں آنے کے بعد نہیں چل سکتی۔
مگر باجوے غدار کو کُھرک بہت زیادہ ہو رہی تھی
 

miafridi

Prime Minister (20k+ posts)
We won't have considered this as PDM's fault, Just like it wasn't PTI's fault.

But difference between PDM and PTI is that PDM consists of corrupt criminals who continually lied about economy, and continually kept IK under pressure by saying that IK was responsible for the inflation, electricity/fuel prices etc, which not only caused bleeding of the money but has also lead to a regime change to further worsen the situation of the country.

Conclusion : So now it is definitely PDM's fault. Corrupt PDM costed Pakistan's economy big time and the worst is yet to come.

امپورٹڈ_حکومت_نامنظور