کیا عمران خان کو اسمبلیاں توڑ کر عوام کے پاس نئے الیکشن کی جانب جانا چاہیے؟؟؟
سینٹ کے انتخابات سے قبل جس طرح کی خرید وفروخت کی بازگشت سنائی دے رہی ھے اور ڈسکہ کے الیکشن میں آر اوز ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کا مکروہ چہرہ ایک بار پھر عوام نے دیکھا اور جس طرح نیب کا مکروہ چہرہ گزشتہ 10 سالوں سے عوام دیکھ رہی ھے کیسی بڑے مجرم کو الیکشن کمیشن اور نیب سے کوئی خطرہ نہیں ھے حکومت نیب اور الیکشن کمیشن کے سامنے بے بس ھے اور خاص کر آنے والے سینٹ کے انتخابات میں جو منڈیاں لگ رہی ہیں آور ماضی میں بھی لگتی رہی ہیں اور آج کل میں بھی ممبر اسمبلی اپنے ضمیر کی بولی لگانے کے لیئے کرپٹ جماعتوں کی طرف دیکھ رھے ھیں اور عوام کے ووٹوں کو بیچنے کے لیے تیار ہیں اور کرپٹ سیاسی جماعتوں سے اپنے ووٹوں کے سودے کے بدلے مستقبل کی اسمبلیوں کی سیٹوں کی
گارنٹیا ں حاصل کر رھے ھیں اور حکومت کے پاس کوئی اکثریت ووٹ نہیں ھے کہ حکومت کوئی آئینی ترامیم لا سکے اور نیب اور الیکشن کمیشن کی کرپٹ پریکٹیسز کو روکا جا سکے یا سینٹ کے انتخابات یا الیکشن کمیشن یا نیب کے قوانین میں کوئی تبدیلی لائی جا سکے ایسا حکومت کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ھے تو کیا
عمران خان کے لئے یہ آچھا فیصلہ ہوگا کہ وہ تمام اسمبلیوں کو توڑ کر اس کنٹرول سسٹم کے خلاف عوام کے پاس جائے تاکہ صحیح معنوں میں عوام اس ملک میں جمہوریت دیکھ سکے آگر اسمبلیوں کے توڑنے کے بعد نئے الیکشن میں عوام عمران خان کو اکثریت کی حکومت بنانے کا موقع دے دیتی ھے تو نئی پی ٹی آئی کی حکومت تمام آئینی وقانونی ترامیم کرسکتی ھے جو کہ اس ملک کی جمہوریت کے لئے بہتر ھے لیکن اگر نئے الیکشن میں ملک کی عوام آگر کرپٹ سسٹم کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو اس صورت حال میں کم از کم پی ٹی آئی کے سپورٹرز عمران خان کو مورد الزام نہیں ٹھہرائیں گے ورنہ موجودہ کنٹرول سسٹم میں عوام کو تبدیلی کا کوئی خواب پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ھے اور میڈیا پوری طرح سے اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کو ناکام کرانا چاہتے ہیں موجودہ سسٹم کرپٹ سیاست دانوں کو سزاؤں کے باوجود پوری حفاظت فراہم کرتا ھے کیونکہ کرپٹ سیاست دان مجرم ثابت ہونے کے باوجود دندناتے پھر رہے ہیں ،کرہٹ سیاست دانوں کا سہولت کار نیب سے پوری طرح ملا ہؤا ھے اور کرپٹ سیاست دان جب دل کرے جیل چلے جاتے ہیں اور جب دل کرے باہر آجاتے ہیں ریاستی ادارے ایک مزاخ بنتے جا رہے ہیں۔ لہذا عمران خان اسمبلیوں کو سینٹ سے پہلے توڑ کر کو کرپٹ میڈیا اور کرپٹ سسٹم کے خلاف عوام کے پاس نئے الیکشن میں جانا چاہیے تو یہ بات معقول وجہ بنتی ھے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی عوام کے سامنے آ جائے اور اس کنٹرول سسٹم سے عوام کی جان چھڑانی جائے۔
سینٹ کے انتخابات سے قبل جس طرح کی خرید وفروخت کی بازگشت سنائی دے رہی ھے اور ڈسکہ کے الیکشن میں آر اوز ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کا مکروہ چہرہ ایک بار پھر عوام نے دیکھا اور جس طرح نیب کا مکروہ چہرہ گزشتہ 10 سالوں سے عوام دیکھ رہی ھے کیسی بڑے مجرم کو الیکشن کمیشن اور نیب سے کوئی خطرہ نہیں ھے حکومت نیب اور الیکشن کمیشن کے سامنے بے بس ھے اور خاص کر آنے والے سینٹ کے انتخابات میں جو منڈیاں لگ رہی ہیں آور ماضی میں بھی لگتی رہی ہیں اور آج کل میں بھی ممبر اسمبلی اپنے ضمیر کی بولی لگانے کے لیئے کرپٹ جماعتوں کی طرف دیکھ رھے ھیں اور عوام کے ووٹوں کو بیچنے کے لیے تیار ہیں اور کرپٹ سیاسی جماعتوں سے اپنے ووٹوں کے سودے کے بدلے مستقبل کی اسمبلیوں کی سیٹوں کی
گارنٹیا ں حاصل کر رھے ھیں اور حکومت کے پاس کوئی اکثریت ووٹ نہیں ھے کہ حکومت کوئی آئینی ترامیم لا سکے اور نیب اور الیکشن کمیشن کی کرپٹ پریکٹیسز کو روکا جا سکے یا سینٹ کے انتخابات یا الیکشن کمیشن یا نیب کے قوانین میں کوئی تبدیلی لائی جا سکے ایسا حکومت کچھ بھی کرنے کی پوزیشن میں نہیں ھے تو کیا
عمران خان کے لئے یہ آچھا فیصلہ ہوگا کہ وہ تمام اسمبلیوں کو توڑ کر اس کنٹرول سسٹم کے خلاف عوام کے پاس جائے تاکہ صحیح معنوں میں عوام اس ملک میں جمہوریت دیکھ سکے آگر اسمبلیوں کے توڑنے کے بعد نئے الیکشن میں عوام عمران خان کو اکثریت کی حکومت بنانے کا موقع دے دیتی ھے تو نئی پی ٹی آئی کی حکومت تمام آئینی وقانونی ترامیم کرسکتی ھے جو کہ اس ملک کی جمہوریت کے لئے بہتر ھے لیکن اگر نئے الیکشن میں ملک کی عوام آگر کرپٹ سسٹم کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو اس صورت حال میں کم از کم پی ٹی آئی کے سپورٹرز عمران خان کو مورد الزام نہیں ٹھہرائیں گے ورنہ موجودہ کنٹرول سسٹم میں عوام کو تبدیلی کا کوئی خواب پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ھے اور میڈیا پوری طرح سے اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کو ناکام کرانا چاہتے ہیں موجودہ سسٹم کرپٹ سیاست دانوں کو سزاؤں کے باوجود پوری حفاظت فراہم کرتا ھے کیونکہ کرپٹ سیاست دان مجرم ثابت ہونے کے باوجود دندناتے پھر رہے ہیں ،کرہٹ سیاست دانوں کا سہولت کار نیب سے پوری طرح ملا ہؤا ھے اور کرپٹ سیاست دان جب دل کرے جیل چلے جاتے ہیں اور جب دل کرے باہر آجاتے ہیں ریاستی ادارے ایک مزاخ بنتے جا رہے ہیں۔ لہذا عمران خان اسمبلیوں کو سینٹ سے پہلے توڑ کر کو کرپٹ میڈیا اور کرپٹ سسٹم کے خلاف عوام کے پاس نئے الیکشن میں جانا چاہیے تو یہ بات معقول وجہ بنتی ھے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی عوام کے سامنے آ جائے اور اس کنٹرول سسٹم سے عوام کی جان چھڑانی جائے۔