Last week, India fired a missile that traveled over a hundred miles inside Pakistan but was not detected.
Those who claim it was detected are liars. Let’s suppose that it was detected then WHY was it NOT shot down?
The bottom line is that India successfully tested Pakistan’s ability to stop a missile attack and proved that it can't. So the question now is what Pakistan is going to do to detect & shoot an Indian missile attack in the future?
پاکستان انڈین میزائل کیوں نہ روک پایا ؟
یہ سوال نہ صرف کئی فورمزپرپوچھاگیا بلکہ کچھ دوستوں نے میری کل کی پوسٹ پر کمنٹ کی صورت میں بھی کیا۔ جواب تھوڑا تفصیل طلب تھا تو سوچا پوسٹ کی شکل میں لکھ دوں۔
سب سے پہلے تو یہ جان لیجئیے کہ زمانہءامن میں حساس تنصیبات کو چھوڑ کر پورے ملک میں ائیر ڈیفینس کا نظام عمومی طور پر ڈیٹیکشن موڈ پر تو ہوتا ہے فائرنگ موڈ میں نہیں ورنہ کسی حادثے کا احتمال بہت بڑھ جاتا ہے۔ جیسے ایران نے 2020 میں غلطی سے یوکرینی ائرلائن، روس نے 2014 میں ملائیشین ائر لائن اور امریکہ نے 1988 میں ایرانی ائیرلائن کا طیارہ اینٹی ائیر کرافٹ میزائل سے گرا دیا تھا۔ میزائل حملہ تو دور کی بات ہے زمانہ امن میں سرپرائز اٹیک چاہے وہ میزائل حملے سے کہیں کمتر ہو دنیا کی کوئی فوج نہیں روک سکتی جیسے سن2000 میں امریکی بحری جہاز یو ایس ایس کول کے ساتھ ایک بارود بھری کشتی آ ٹکرائی کیونکہ وہ فائرنگ/دفاعی موڈ میں نہیں تھا ورنہ اس جہاز کے قریب پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا۔ آٹومیٹک CIWS سسٹمز پاس آنے والی ہر چیز کو بھون کر رکھ دیتے ہیں۔
پاکستان بھی اپنی حساس تنصیبات کو چھوڑ کر زمانہء امن میں ائیر ڈیفینس راڈار ڈیٹیکشن موڈ پر ہی رکھتا ہے نہ کہ لائیو فائرنگ موڈ میں تاکہ کسی کمپیوٹر یا انسانی غلطی کے باعث کوئی نقصان نہ ہو جائے۔ ہاں جنگی حالات میں ائیر ڈیفینس ہائی الرٹ پر چلا جاتا ہے۔تبھی آپ کو یاد ہو گا کہ فروری 2019 کی پاک بھارت کشیدگی کے دوران سویلین فلائٹس ہی بند کر دی گئی تھیں پاکستان اور بھارت دونوں میں کیونکہ دونوں کے ائیر ڈیفینس سسٹمز ہائی الرٹ پر فائرنگ کے لئے تیار تھے۔ ساری احتیاط کے باوجود انڈیا نے پھر بھی غلطی سے اپنا ہی ایک ہیلی کاپٹر گرا لیا تھا 27 فروری کو جس سے آپ معاملے کی حساسیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
انڈیا کا براہموس میزائل جب فائر ہوا تو کوئی بھی اس کی توقع نہیں کر رہا تھا کیونکہ معاملات کشیدہ نہیں تھے۔براہموس میزائل روس کے ساتھ ٹیکنالوجی شئیرنگ کر کے بنایا گیا سپر سانک کروز میزائل ہے جو آواز کی رفتار سے چار گنا تیز تک اڑ سکتا ہے۔ باوجود اسکے کہ انڈین اسے راڈار کو چکمہ دینے والا میزائل سمجھتے ہیں۔ پاکستانی راڈار نے نہ صرف اس کو انڈیا کے اندر اپنےلانچنگ پیڈ سے ٹریک کیا بلکہ اس کا پورا فلائٹ پاتھ بھی دنیا کے سامنے رکھ دیا جو پاکستان کے ائیر ڈیفینس/راڈار ڈیٹیکشن کی کامیابی کا ثبوت ہے۔ اب اگر جنگی حالات ہوتے اور سرحدوں پر راڈارز سے منسلک ہمارے سرفیس ٹو ائیر میزائل ایکٹو ہوتے تو اسے گرایا بھی جا سکتا تھا۔ پاکستانی ائیر ڈیفینس کمانڈ نے جب یہ میزائل ٹریک کیا تو یہ ضرور جج کر لیا ہو گا کہ اس موبائل کا نشانہ کوئی حساس تنصیبات نہیں۔ میاں چنوں سے قریب ترین ائیر فورس بیس رفیقی ہے جو 60 کلومیٹر دور شورکوٹ میں واقع ہے۔وہاں سے اگر انٹرسیپشن کے لئے میزائل چلایا بھی جاتا تو کمرشل فلائٹس کے روٹ کے پاس سے گزرتا جو بہر حال ایک زیادہ بڑا خطرہ تھا۔ عین ممکن ہے کہ پاکستانی ائیر ڈیفینس سسٹمز نے یہ بھانپ لیا ہو کہ براہموس کا فیول ختم ہو رہا ہے اور یہ خود ہی جا گرے گا اور وہی ہوا۔ ملبے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ میزائل کا انجن تک تقریباً ٹھیک حالت میں موجود ہے ورنہ اگر میزائل پورے زور سے نشانہ لگا کے گرتا تو اس کے پرخچے اڑ چکے ہوتے۔
اب آخری بات کی طرف آتے ہیں کہ پاکستان کے پاس اس میزائل کو انٹرسپٹ کرنے کے کیا طریقے ہو سکتے ہیں؟ تو یاد رکھئیے کہ کسی جہاز کو انٹرسپٹ کرنا میزائل انٹرسپٹ کرنے سے بہت آسان اور الگ ہے کیونکہ میزائل جہاز کی نسبت کئی گنا تیز رفتار اور کم حجم کے ہوتے ہیں۔ میزائل وہ بھی ٹیرین فالؤنگ سپر سانک کروز میزائل ابھی تک کسی بھی ملک نے حقیقی جنگ میں انٹرسیپٹ نہیں کئے۔ 1991 میں خلیجی جنگ کے دوران امریکہ نے پہلی بار عراقی سکڈ میزائلوں کو انٹرسپٹ کرنے کی کوشش کی جو ناکام ہوئیں پھر ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ 2015 کے بعد کہیں جا کے امریکن پیٹریاٹ سسٹم میزائلوں کو 80 فیصد درستگی کے ساتھ انٹرسپٹ کرنے کے قابل ہوا ہے وہ بھی کم فاصلے تک مارنے والے بیلسٹک میزائلوں کو۔ سپر سونک کروز میزائلز کو تباہ کرنے کے تجربات تو ہو رہے ہیں جن میں امریکہ، روس اور چین نےکامیابی کا دعویٰ بھی کیا ہے لیکن اب تک اس کا عملی مظاہرہ کہیں نہیں ہوا۔ اسرائیل کا آئرن ڈوم بھی کم فاصلے والے کم رفتار راکٹس کے لئے موثر ہے۔ جبکہ روس کا ایس سیریز سمجھا جاتا ہے کہ کروز کے خلاف مؤثر ہو سکتا ہے۔ لیکن اس کا بھی کوئی حقیقی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ پاکستان کے پاس ایسے خطرات کا سامنا کرنے کے لئے چینی ساختہ HQ سیریز کے سسٹمز موجود ہیں لیکن وہ زمانہ امن میں حساس تنصیبات کے گرد ہی ایکٹو موڈ میں ہوتے ہیں۔
اب یہاں یہ سوال لازمی اٹھتا ہے کہ جنگی حالات میں میزائلوں کو کیسے روک سکیں گے تو یاد رکھیں کہ فی الحال دنیا بھر میں امریکہ، روس اور چائنہ سمیت کسی بھی ملک کے پاس ایک بڑے اور اچانک میزائل حملے کو سو فیصد گارنٹی سے روک لینے کا کوئی حل موجود نہیں ہے۔ اسی لئے نیوکلیئر طاقتیں سیکنڈ بلکہ تھرڈ سٹرائیک کیپیبلٹی پر توجہ دیتی ہیں کہ اگر خدانخواستہ اچانک دشمن بڑی تعداد میں میزائلوں سے حملہ کر کے آپ کو پہلی ضرب لگا بھی دے تو دیگر طریقوں مثلاً زیر زمین سائلوز، آبدوزوں یا خلا سے آپکے پاس مکمل جواب دینے کی صلاحیت موجود نہ ہو۔ اسی کو ڈیٹرنس کہتے ہیں اور یہی ڈیٹرنس کسی بڑے نیوکلیئر صلاحیت والے ملک کو دوسرے نیوکلیئر ملک پر حملہ کرنے سے باز رکھتی ہے۔ پاکستان الحمدللّٰہ سیکنڈ سٹرائیک کیپیبلٹی بھی حاصل کر چکا ہے جو انڈیا کی کسی بھی اچانک جارحیت کا جواب دینے کے لئے مکمل تیار ہے۔ ہمارے لئے باعث اطمینان یہ ہے کہ اس میزائل فائرنگ کے واقعے سے پاکستان نے پوری دنیا میں ایک ذمے دار ملک ہونے کا ثبوت دیا، اینڈ ٹو اینڈ ٹریکنگ سے اپنی بہترین ائیر ڈیفینس صلاحیت دکھائی اور ملبہ مل جانے کے باعث انڈین میزائل ٹیکنالوجی کی بہت ساری انفارمیشن بھی مل گئی۔ جب کہ انڈیا کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی جاری ہے۔
پس نوشت: یہ تحریر ان کے لئے ہے جو واقعی انڈین میزائل اٹیک سے کنسرنڈ ہیں۔ جو صرف فوج کے بغض کی وجہ سے معترض ہیں ان پر کسی میزائل سسٹم کا اثر نہیں ہونا ان کے لئے بس صحتیابی کی دعا ہی کی جا سکتی ہے۔
عدنان محی الدین ۔
منقول