صحابہؓ کی شان میں گستاخی کسی صورت برداشت نہیں، عظمت صحابہؓ کانفرنس اعلامیہ

Status
Not open for further replies.

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)
This is a probably a suitable juncture to state and affirm that I belongs to no sect. I know well enough that sectarianism is Shirk (the unforgiveable offense of associating others with Allah) and that the exalted Messenger has nothing to do with those who choose a sect for themselves. (Al-Qur’an 6:160, 30:31-32)
 

Syaed

MPA (400+ posts)

سیاہ ایڈ !چودہ سو سال سے لیکر آج تک عدالتیں تو لگیں گیں اور لگ رہی ہیں سقیفہ بنی سعد کی طرح "انجمن اشتراک باہمی وصولی حصہ لٹ ماراں "کی تاریک گلی میں نہیں ،بلکہ میدان خم غدیر کی طرح روز روشن اورشکری دوپہری بیچ چوارہے میں-
اب چاہے پاس کر یا برداشت کر


اللَّہُمَّ فَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ اجْعَلْ مَحْيَايَ مَحْيَاہُمْ وَ مَمَاتِي مَمَاتَہُمْ وَ لا تُفَرِّقْ بَيْنِي وَ بَيْنَہُمْ فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ اللَّہُمَّ وَ ہَذَا يَوْمٌ تَجَدَّدُ [تَجَدَّدَ] [تُجَدَّدُ] فِيہِ النِّقْمَةُ وَ تَنَزَّلُ [تَنَزَّلَ ] [تُنَزَّلُ ] فِيہِ اللَّعْنَةُ عَلَى اللَّعِينِ يَزِيدَ وَ عَلَى آلِ يَزِيدَ وَ عَلَى آلِ زِيَادٍ وَ عُمَرَ بْنِ سَعْدٍ وَ الشِّمْرِ اللَّہُمَّ الْعَنْہُمْ وَ الْعَنْ مَنْ رَضِيَ بِقَوْلِہِمْ وَ فِعْلِہِمْ مِنْ أَوَّلٍ وَ آخِرٍ لَعْناً كَثِيراً وَ أَصْلِہِمْ حَرَّ نَارِكَ وَ أَسْكِنْہُمْ جَہَنَّمَ وَ سَاءَتْ مَصِيراً وَ أَوْجِبْ عَلَيْہِمْ وَ عَلَى كُلِّ مَنْ شَايَعَہُمْ وَ بَايَعَہُمْ وَ تَابَعَہُمْ وَ سَاعَدَہُمْ وَ رَضِيَ بِفِعْلِہِمْ وَ افْتَحْ لَہُمْ وَ عَلَيْہِمْ وَ عَلَى كُلِّ مَنْ رَضِيَ بِذَلِكَ لَعَنَاتِكَ الَّتِي لَعَنْتَ بِہَا كُلَّ ظَالِمٍ وَ كُلَّ غَاصِبٍ وَ كُلَّ جَاحِدٍ وَ كُلَّ كَافِرٍ وَ كُلَّ مُشْرِكٍ وَ كُلَّ شَيْطَانٍ رَجِيمٍ وَ كُلَّ جَبَّارٍ عَنِيدٍ اللَّہُمَّ الْعَنْ يَزِيدَ وَ آلَ يَزِيدَ وَ بَنِي مَرْوَانَ جَمِيعا اللَّہُمَّ وَ ضَعِّفْ غَضَبَكَ وَ سَخَطَكَ وَ عَذَابَكَ وَ نَقِمَتَكَ عَلَى أَوَّلِ ظَالِمٍ ظَلَمَ أَہْلَ بَيْتِ نَبِيِّكَ اللَّہُمَّ وَ الْعَنْ جَمِيعَ الظَّالِمِينَ لَہُمْ وَ انْتَقِمْ مِنْہُمْ إِنَّكَ ذُو نِقْمَةٍ مِنَ الْمُجْرِمِينَ اللَّہُمَّ وَ الْعَنْ أَوَّلَ ظَالِمٍ ظَلَمَ آلَ بَيْتِ مُحَمَّدٍ وَ الْعَنْ أَرْوَاحَہُمْ وَ دِيَارَہُمْ وَ قُبُورَہُمْ وَ الْعَنِ اللَّہُمَّ الْعِصَابَةَ الَّتِي نَازَلَتِ الْحُسَيْنَ ابْنَ بِنْتِ نَبِيِّكَ وَ حَارَبَتْہُ وَ قَتَلَتْ أَصْحَابَہُ وَ أَنْصَارَہُ وَ أَعْوَانَہُ وَ أَوْلِيَاءَہُ وَ شِيعَتَہُ وَ مُحِبِّيہِ وَ أَہْلَ بَيْتِہِ وَ ذُرِّيَّتَہُ وَ الْعَنِ اللَّہُمَّ الَّذِينَ نَہَبُوا مَالَہُ وَ سَلَبُوا [وَ سَبَوْا] حَرِيمَہُ وَ لَمْ يَسْمَعُوا كَلامَہُ وَ لا مَقَالَہُ اللَّہُمَّ وَ الْعَنْ كُلَّ مَنْ بَلَغَہُ ذَلِكَ فَرَضِيَ بِہِ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَ الْآخِرِينَ وَ الْخَلائِقِ أَجْمَعِينَ إِلَى يَوْمِ الدِّينِ.

، اے معبود! آج وہ دن ہے جس میں نیا عذاب آتا ہے اور برستی ہے لعنت پر لعنت ملعون ولعنتی یزید پر اور اولاد یزید پر اور زیاد پر اور لعنت ہے عمر ابن سعد اور شمر پر، اے معبود! لعنت بھیج ان پر لعنت بھیج اس پر جو انکے قول و فعل پر راضی ہو اولین و آخرین میں سے بہت بہت لعنت ڈال دے انکا اپنی آگ کے شعلوں میں ٹھکانہ بنا ان کو جہنم میں ٹھہرا اور وہ کتنا برا ٹھکانہ ہے ضرور لعنت کر ان پر اور ان کے ساتھیوں پر جنہوں نے ان سے پیمان باندھے انکی پیروی کی اور انکی مدد کرتے رہے اور انکے فعل پر راضی رہے کھول دے ان کیلئے اپنی ہر لعنت کا راستہ اور ان پر بھی جو ان کے ظلم کو پسند کرتے ہیں اپنی طرف سے وہ لعنت کر جو لعنت کی ہے تو نے ہر ظالم پر ہر غاصب پرہر منکر پر ہر کافر پر ہر مشرک پر اور جو لعنت کی ہے تو نے ہر مردود شیطان پر اور ہر ضدی ستمگار پر، اے معبود! لعنت بھیج یزید پر اولاد یزید پر اور اولاد مروان سب پر، اے معبود! دگنا کر دے اپنا غضب اپنا غصہ اپنا عذاب اور اپنی سزا اس پہلے ظالم پر جس نے تیرے نبی کے خاندان پر ظلم کاآغاز کیا، اے معبود! لعنت کر ان سب پر جنہوں نے اہل بیت(ع) پر ظلم کیا اور تو ان سے انتقام لے کیونکہ تو مجرموں کو سزا دینے والا ہے، اے معبود! تو لعنت کر ان پہلے ظالموں پر جنہوں نے اہل بیت محمد(ص) پر ظلم کیا اورلعنت بھیج ان کی روحوں پر ان کے گھروں پر اور انکی قبروں پر نیز لعنت کر، اے معبود! اس گروہ پر جنہوں نے حسین (ع) سے جنگ کی جو تیرے نبی(ص) کی دختر کے فرزند ہیں لعنت کر ان پر جس نے ان سے جنگ کی اور قتل کیا انکے ساتھیوں اور مدد گاروں کو اورقتل کیاانکے حامیوں انکے دوستوں انکے پیروکاروں اور محبوں کو اور قتل کیا ان کے خاندان اور انکی اولاد کو، اے معبود! لعنت بھیج ان کا مال لوٹنے والوں اور ان کے خیمے تاراج کرنے والوں پر جنہوں نے توجہ نہ کی انکی گفتار اور ان کی پکار پر، اے معبود! لعنت کر ان سب پر جنہوں نے یہ واقعہ سنا اور وہ اس پر خوش ہوئے اولین و آخرین میں سے اور ساری مخلوق میں سے سب پر قیامت کے دن تک

اگر کوئی یہ پوچھے کہ دنیا میں مذہبی مجالس کے اندر سب سے زیادہ لعن طعن اور گالی گلوچ کا ریکارڈ کس کا ہے تو بلا شک و شبہ آپ جیسوں کا ہے۔سقیفہ بنی ساعدہ میں وہ لوگ اکٹھے ہوئے تھے جن کی تربیت خود سرور انبیاء نے فرمائی تھی تو تمہارا کیا خیال ہے کہ کچھ غلط ہوتا تو وہ لوگ تمہاری طرح تقیہ کرلیتے؟سقیفہ کے نتیجے میں قائم ہونے والے سیٹ آپ کا حصہ حضرت علی خود بھی بنے تھے اور خلیفہ ثانی حضرت عمر کی قائم کردہ شوری۱ کے اجلاس میں بھی شریک ہوئے جس نے خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا۔پھر حضرت علی نے خلفائے ثلاثہ کے ناموں پہ اپنی اولاد کے نام رکھے(بے شک تم اپنی قبض زدہ سوچ کے ماتحت یہ کہو کہ وہ کوئی اور ہستیاں تھیں جن کے نام پہ وہ نام رکھے گئے تھے مگر حقیقت یہی ہے) تم دعوے تو بہت کرتے ہو مگر کتنے اہل تشیع افراد ہیں جن کے نام خلفائے ثلاثہ کے ناموں پہ رکھے گئے ہیں؟حضرت علی نے اسماء بنت عمیس سے شادی کی،محمد ابن ابی بکر کو بیٹوں کی طرح پالا اور قاسم ابن محمد کی بیٹی امام جعفر کی والدہ بنیں،مطلب امام جعفر کا شجرہ قیامت والے دن ایک غاصب سے ملاؤگے تم لوگ؟؟؟امام حسن نے طلحہ ابن عبیداللہ اور عبدالرحمان ابن ابی بکر کی صاحبزادیوں سے شادی کی جس کا اقرار اہل تشیع تک کرتے ہیں۔
اب جہاں تک تمہاری لعن طعن کا تعلق ہے تو حضرت عقیل کو دعائیں دو گے یا لعنت کروگے جو امیر معاویہ کے دستر خوان کا حصہ بن گئے تھے اور کافی عرصہ تک رہے پھر اولاد حضرت جعفر طیار کے بارے کیا کہوگے جو کربلا میں امام حسین کے ساتھ نہیں گئے؟ویسے بھی بنی ہاشم کے تو محض چند شہداء تھے کربلاء میں باقی سب پہ لعنت کروگے؟؟؟
اب اپنی قبض زدہ سوچ کے علاج کے طور پہ حقیقت بھی سن لو کہ امام حسین کو کوفہ بلانے والے اور پھر مسلم ابن عقیل کی بیت کرکے اس سے پھرنے والے اور مسلم کو ابن مرجانہ کے حوالے کرنے والے کون تھے؟؟؟ایماندارانہ جواب یہ ہوگا کہ وہ لوگ شیعان علی(یا حسین) کہلاتے تھے۔یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے شیعیت کا دعوی۱ کرکے پہلے صفین کی فتح کو اشعث ابن قیس کی سرکردگی میں خراب کروا دیا اور پھر اسی اشعث کی بیٹی جعدہ نے امام حسن کو زہر دیا۔پھر شہادت سے پہلے خلافت سے دستبرداری امام حسن نے (بقول اہل تشیع و اہل تسنن) اس وجہ سے بھی کیا کیونکہ ان کے شیعہ یہ منصوبہ بنا کے بیٹھے تھے کہ انہیں شامی افواج کے حوالے کیا جائے؟
زیادہ لمبی چوڑی عربی جھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے میں صرف اللہ سے تمہاری قبض کے اندر افاقے کی دعا کرتا ہوں اور میری دعا ہے کہ نفرت و کینہ و بغض کی جو آگ آپ کے پچھواڑے میں لگی ہوئی ہے اللہ اسے ٹھنڈا کرے۔
و السلام
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
اگر کوئی یہ پوچھے کہ دنیا میں مذہبی مجالس کے اندر سب سے زیادہ لعن طعن اور گالی گلوچ کا ریکارڈ کس کا ہے تو بلا شک و شبہ آپ جیسوں کا ہے۔سقیفہ بنی ساعدہ میں وہ لوگ اکٹھے ہوئے تھے جن کی تربیت خود سرور انبیاء نے فرمائی تھی تو تمہارا کیا خیال ہے کہ کچھ غلط ہوتا تو وہ لوگ تمہاری طرح تقیہ کرلیتے؟سقیفہ کے نتیجے میں قائم ہونے والے سیٹ آپ کا حصہ حضرت علی خود بھی بنے تھے اور خلیفہ ثانی حضرت عمر کی قائم کردہ شوری۱ کے اجلاس میں بھی شریک ہوئے جس نے خلیفہ کا انتخاب کرنا تھا۔پھر حضرت علی نے خلفائے ثلاثہ کے ناموں پہ اپنی اولاد کے نام رکھے(بے شک تم اپنی قبض زدہ سوچ کے ماتحت یہ کہو کہ وہ کوئی اور ہستیاں تھیں جن کے نام پہ وہ نام رکھے گئے تھے مگر حقیقت یہی ہے) تم دعوے تو بہت کرتے ہو مگر کتنے اہل تشیع افراد ہیں جن کے نام خلفائے ثلاثہ کے ناموں پہ رکھے گئے ہیں؟حضرت علی نے اسماء بنت عمیس سے شادی کی،محمد ابن ابی بکر کو بیٹوں کی طرح پالا اور قاسم ابن محمد کی بیٹی امام جعفر کی والدہ بنیں،مطلب امام جعفر کا شجرہ قیامت والے دن ایک غاصب سے ملاؤگے تم لوگ؟؟؟امام حسن نے طلحہ ابن عبیداللہ اور عبدالرحمان ابن ابی بکر کی صاحبزادیوں سے شادی کی جس کا اقرار اہل تشیع تک کرتے ہیں۔
اب جہاں تک تمہاری لعن طعن کا تعلق ہے تو حضرت عقیل کو دعائیں دو گے یا لعنت کروگے جو امیر معاویہ کے دستر خوان کا حصہ بن گئے تھے اور کافی عرصہ تک رہے پھر اولاد حضرت جعفر طیار کے بارے کیا کہوگے جو کربلا میں امام حسین کے ساتھ نہیں گئے؟ویسے بھی بنی ہاشم کے تو محض چند شہداء تھے کربلاء میں باقی سب پہ لعنت کروگے؟؟؟
اب اپنی قبض زدہ سوچ کے علاج کے طور پہ حقیقت بھی سن لو کہ امام حسین کو کوفہ بلانے والے اور پھر مسلم ابن عقیل کی بیت کرکے اس سے پھرنے والے اور مسلم کو ابن مرجانہ کے حوالے کرنے والے کون تھے؟؟؟ایماندارانہ جواب یہ ہوگا کہ وہ لوگ شیعان علی(یا حسین) کہلاتے تھے۔یہ وہی لوگ تھے جنہوں نے شیعیت کا دعوی۱ کرکے پہلے صفین کی فتح کو اشعث ابن قیس کی سرکردگی میں خراب کروا دیا اور پھر اسی اشعث کی بیٹی جعدہ نے امام حسن کو زہر دیا۔پھر شہادت سے پہلے خلافت سے دستبرداری امام حسن نے (بقول اہل تشیع و اہل تسنن) اس وجہ سے بھی کیا کیونکہ ان کے شیعہ یہ منصوبہ بنا کے بیٹھے تھے کہ انہیں شامی افواج کے حوالے کیا جائے؟
زیادہ لمبی چوڑی عربی جھاڑنے کی ضرورت نہیں ہے میں صرف اللہ سے تمہاری قبض کے اندر افاقے کی دعا کرتا ہوں اور میری دعا ہے کہ نفرت و کینہ و بغض کی جو آگ آپ کے پچھواڑے میں لگی ہوئی ہے اللہ اسے ٹھنڈا کرے۔
و السلام

سیاہ ایڈ !
صد افسوس کہ جب امیر المؤمنین علی (ع) پر معاویہ ابن ابو سفیان کی طرف سے سبّ وشتم کرنے کی بات آتی ہے تو تعصب و مکمل نا انصافی سے کام لیتے ہوئے مختلف غلط بہانوں سے معاویہ کا دفاع کرتے ہیں، حالانکہ معاویہ نے اس کام کو ایک سنت میں تبدیل کر دیا تھا لیکن اسکے باوجود یہاں پر لفظ سبّ و لعن کی توجیہ کرتے ہوئے معاویہ کے نجس دامن پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیتے !

یہ کیسی انسانیت اور کیسا انصاف ہے کہ منبر سے امیر المؤمنین علی (ع) پر معاویہ کی طرف سے سبّ و شتم کرنا تو کوئی بات نہیں، لیکن ابو بکر اور عمر پر سبّ و شتم کرنے سے مسلمان، کافر بن جاتا ہے اور اسکی جان مال اور ناموس سب حلال ہو جاتا ہے ؟ !

کیا علی ابن ابی طالب (ع) رسول خدا (ص) کے صحابی نہیں تھے ؟

کیا علی ابن ابی طالب (ع) رسول خدا (ص) کے خلیفہ اور جانشین نہیں تھے ؟

کیا علی ابن ابی طالب (ع) رسول خدا (ص) کے داماد اور انکی بیٹی کے شوہر نہیں تھے ؟

علی ابن ابی طالب (ع) یہ سب کچھ تھے تو پھر ان پر سبّ و لعن کو کیوں شرعی اور قانونی رنگ دیا جاتا ہے اور جو ان پر اس بدعت کا آغاز کرتا ہے اور پھر اس بدعت کو سنت میں تبدیل کر دیتا ہے، اسے کیوں خال المؤمنین کا لقب دیا جاتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

امیر المؤمنین علی پر معاویہ لعین کی طرف سے سبّ و لعن کرنے کے حکم صادر کرنے اور اہل سنت کے بعض علماء کی طرف سے اس سبّ و لعن کی توجیہ کے بارے میں ذیل میں چند اہم مطالب ذکر کیے جا رہے ہیں :

رسول خدا (ص) اور امیر المؤمنین علی (ع) پر سبّ و لعن کرنے کا مسئلہ:
اصلی موضوع کو شروع کرنے سے پہلے واضح ہونا چاہیے کہ جو امیر المؤمنین علی (ع) پر سبّ و لعن کرے اور ان حضرت سے دشمنی کرے تو رسول خدا کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے ؟

علی (ع) سے دشمنی کرنا منافقت کی علامت ہے:

مسلم نيشاپوری اور اہل سنت کے بہت سے بزرگ علماء نے لکھا ہے کہ:


عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ زِرٍّ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ .


علی (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم یہ بات رسول خدا (ص) نے مجھ سے فرمائی تھی کہ مجھ سے محبت، صرف مؤمن کرے گا اور مجھ سے دشمنی، صرف منافق کرے گا۔

صحيح مسلم ، مسلم النيسابوري ، ج 1 ، ص 60 – 61

و فضائل الصحابة ، النسائي ، ص 17

و الديباج على مسلم ، جلال الدين السيوطي ، ج 1 ، ص 93

و المصنف ، ابن أبي شيبة الكوفي ، ج 7 ، ص 494

و كتاب السنة ، عمرو بن أبي عاصم ، ص 584

و السنن الكبرى ، النسائي ، ج 5 ، ص 47 و ج 5 ، ص 137

و صحيح ابن حبان ، ابن حبان ، ج 15 ، ص 367 – 368

و سير أعلام النبلاء ، الذهبي ، ج 12 ، ص 509 و

فتح الباري ، ابن حجر ، ج 7 ، ص 58 و

تحفة الأحوذي ، المباركفوري ، ج 10 ، ص 151و ...

قرطبی اور اہل سنت کے بہت سے بزرگان نے لکھا ہے کہ:


روي عن جماعة من الصحابة [أبي سعيد الخدري ، جابر بن عبد الله ، عبد الله بن مسعود و...] أنهم قالوا : ما كنا نعرف المنافقين على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا ببغضهم لعلي عليه السلام .


چند صحابہ جیسے ابو سعید خدری، جابر ابن عبد الله،‌ عبد الله ابن مسعود وغیرہ وغیرہ ... سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) کے زمانے میں ہم منافقین کو صرف علی (ع) سے دشمنی کرنے کی وجہ سے پہچانا کرتے تھے۔

تفسير القرطبي ، القرطبي ، ج 1 ، ص 267

و الدر المنثور ، جلال الدين السيوطي ، ج 6 ، ص 66 – 67

و نظم درر السمطين ، الزرندي الحنفي ، ص 102 و

تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 42 ، ص 284 – 285 و ج 42 ، ص 285 و ج 42 ، ص 286 و


مناقب علي بن أبي طالب (ع) وما نزل من القرآن في علي (ع) ، أبي بكر أحمد بن موسى ابن مردويه الأصفهاني ، ص 321 و ….


علی (ع) سے جنگ کرنا، رسول خدا (ص) سے جنگ کرنا ہے :

احمد ابن حنبل اور اہل سنت کے بہت سے علماء نے ابوہریرہ اور زید ابن ارقم سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے علی (ع) سے جنگ کرنے کو اپنے ساتھ جنگ کرنا قرار دیا ہے:


عن أبي هريرة وزيد بن أرقم : نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَلِيٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَفَاطِمَةَ فَقَالَ أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ .


ابی ہريره اور زيد ابن ارقم نے کہا ہے کہ: رسول خدا نے امام علی ، امام حسن ،‌ امام حسين اور حضرت فاطمہ عليہم السلام کی طرف دیکھ کر فرمایا: میری جنگ اس سے ہے کہ جو تم لوگوں سے جنگ کرے اور میری صلح اس سے ہے کہ جو تم لوگوں سے صلح کرے۔

مسند احمد ، الإمام احمد بن حنبل ، ج 2 ، ص 442

و المستدرك ، الحاكم النيسابوري ، ج 3 ، ص 149

و مجمع الزوائد ، الهيثمي ، ج 9 ، ص 169

و المصنف ، ابن أبي شيبة الكوفي ، ج 7 ، ص 512

و صحيح ابن حبان ، ابن حبان ، ج 15 ، ص 434

و المعجم الصغير ، الطبراني ، ج 2 ، ص 3 و

المعجم الكبير ، الطبراني ، ج 3 ، ص 40

و موارد الظمآن ، الهيثمي ، ج 7 ، ص 201

و تاريخ بغداد ، الخطيب البغدادي ، ج 7 ، ص 144

و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 13 ، ص 218 و ج 14 ، ص 157

و سير أعلام النبلاء ، الذهبي ، ج 2 ، ص 122 و ج 3 ، ص 257 – 258 و

تاريخ الإسلام ، الذهبي ، ج 3 ، ص 45 و ج 5 ، ص 99 و

البداية والنهاية ، ابن كثير ، ج 8 ، ص 223 و ....

علی (ع) پر سبّ (گالی دینا) کرنا، رسول خدا (ص) پر سبّ (گالی دینا) کرنا ہے:


عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لِي أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ قُلْتُ مَعَاذَ اللَّهِ أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي .


عبد الله جدلی کہتا ہے کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے کہ جو رسول خدا (ص) کو گالیاں دیتا ہو ؟ اس نے کہا: نعوذ باللہ، اس پر ام سلمہ نے فرمایا:

میں نے خود رسول خدا (ص) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بھی علی کو گالی دے گا تو بے شک اس نے مجھے گالی دی ہے۔

مسند احمد ، الإمام احمد بن حنبل ، ج 6 ، ص 323

و خصائص أمير المؤمنين (ع) ، النسائي ، ص 99 و

تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 42 ، ص 266

و تاريخ الإسلام ، الذهبي ، ج 3 ، ص 634

و البداية والنهاية ، ابن كثير ، ج 7 ، ص 391 و

المناقب ، الموفق الخوارزمي ، ص 149 و

جواهر المطالب في مناقب الإمام علي (ع) ، ابن الدمشقي ، ج 1 ، ص 66

حاكم نيشاپوری نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه .

اس حدیث کی سند صحیح (معتبر) ہے لیکن اسکے باوجود بخاری اور مسلم نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا !

المستدرك ، الحاكم النيسابوري ، ج 3 ، ص 121.

اور ہيثمی نے بھی کہا ہے کہ:


رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح غير أبى عبد الله الجدلي وهو ثقة .


احمد ابن حنبل نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسکے راوی، وہی کتاب صحیح بخاری کے راوی، غیر از ابی عبد اللہ جدلی کہ وہ بھی ثقہ و قابل اطمینان ہے۔

مجمع الزوائد ، الهيثمي ، ج 9 ، ص 130 .

امیر المؤمنین علی (ع) کو تکلیف دینا، رسول خدا (ص) کو تکلیف دینا ہے:

ہيثمی نے کتاب مجمع الزوائد میں سعد ابن ابی وقاص سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:


قال: كنت جالساً في المسجد ، أنا ورجلان معي ، فنلنا من علي ، فأقبل رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم غضبان يعرف في وجهه الغضب ، فتعوذت باللّه من غضبه ، فقال: «ما لكم وما لي ؟ من آذى عليّاً فقد آذاني». رواه أبو يعلى والبزاز باختصار ورجال أبي يعلى رجال الصحيح غير محمود بن خداش وقنان، وهما ثقتان.


سعد ابن ابی وقاص کہتا ہے کہ میں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں بیٹھا ہوا تھا، ہم نے علی کو برا بھلا کہا، رسول خدا (ص) نے غصے کی حالت میں ہماری طرف دیکھا کہ غضب انکے چہرے سے واضح نظر آ رہا تھا، پس میں نے انکے غضب سے خدا کی پناہ مانگی، ان حضرت (ص) نے فرمایا:

تمہیں مجھ سے کیا کام ہے ؟ (یعنی مجھے کیوں تکلیف پہنچاتے ہو) جس نے بھی علی کو تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف دی ہے۔

ابو یعلی اور بزار نے اس روایت کو مختصر طور پر نقل کیا ہے اور ابو یعلی کی نقل کردہ روایت کے راوی، کتاب صحیح بخاری کی اسناد والے ہی راوی ہیں، غیر از محمود ابن خداش اور قنان کے اور یہ دونوں بھی ثقہ و مورد اطمینان ہیں۔

مجمع الزوائد ، ج9 ، ص129

و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج42 ، ص204و

البداية والنهاية ، ج7 ، ص383 .

ابی بكر احمد ابن موسی ابن مردويہ اصفہانی اور علامہ شيخ بہا الدين ابو القاسم رافعی نے بھی لکھا ہے کہ:


عن جابر الأنصاري عن عمر بن الخطاب ، قال : كنت أجفو عليا ، فلقيني رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) فقال : " إنك آذيتني يا عمر ! " . فقلت : أعوذ بالله ممن آذى رسوله ! قال : " إنك قد آذيت عليا ، ومن آذى عليا فقد آذاني " .


جابر ابن عبد الله انصاری نے عمر ابن خطاب سے روایت نقل کی ہے کہ میں علی کو برا بھلا کہا کرتا تھا کہ رسول خدا نے مجھے دیکھا اور فرمایا: اے عمر ! تم نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے، عمر نے کہا: میں آپکو تکلیف پہنچانے سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں،

حضرت نے فرمایا: تم نے علی کو تکلیف پہنچائی ہے اور جس نے بھی علی کو تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف دی ہے۔


مناقب علي بن أبي طالب (ع) وما نزل من القرآن في علي (ع) ، أبي بكر أحمد بن موسى ابن مردويه الأصفهاني ، ص 81

و التدوين في أخبار قزوين ، ج1 ،‌ ص460 ، باب العين في الآباء


اب ہر گلی، چوک، ہر شاہراہ پر عدالتیں تو لگیں گیں -تمہاری نہ رکنے والی خونی پیچش اسی طرح جاری تھی،ہے اور تاقیامت رہے گی
یہ تو ہو گا
 

Wake up Pak

Prime Minister (20k+ posts)

سیاہ ایڈ !
صد افسوس کہ جب امیر المؤمنین علی (ع) پر معاویہ ابن ابو سفیان کی طرف سے سبّ وشتم کرنے کی بات آتی ہے تو تعصب و مکمل نا انصافی سے کام لیتے ہوئے مختلف غلط بہانوں سے معاویہ کا دفاع کرتے ہیں، حالانکہ معاویہ نے اس کام کو ایک سنت میں تبدیل کر دیا تھا لیکن اسکے باوجود یہاں پر لفظ سبّ و لعن کی توجیہ کرتے ہوئے معاویہ کے نجس دامن پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیتے !

یہ کیسی انسانیت اور کیسا انصاف ہے کہ منبر سے امیر المؤمنین علی (ع) پر معاویہ کی طرف سے سبّ و شتم کرنا تو کوئی بات نہیں، لیکن ابو بکر اور عمر پر سبّ و شتم کرنے سے مسلمان، کافر بن جاتا ہے اور اسکی جان مال اور ناموس سب حلال ہو جاتا ہے ؟ !

کیا علی ابن ابی طالب (ع) رسول خدا (ص) کے صحابی نہیں تھے ؟

کیا علی ابن ابی طالب (ع) رسول خدا (ص) کے خلیفہ اور جانشین نہیں تھے ؟

کیا علی ابن ابی طالب (ع) رسول خدا (ص) کے داماد اور انکی بیٹی کے شوہر نہیں تھے ؟

علی ابن ابی طالب (ع) یہ سب کچھ تھے تو پھر ان پر سبّ و لعن کو کیوں شرعی اور قانونی رنگ دیا جاتا ہے اور جو ان پر اس بدعت کا آغاز کرتا ہے اور پھر اس بدعت کو سنت میں تبدیل کر دیتا ہے، اسے کیوں خال المؤمنین کا لقب دیا جاتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

امیر المؤمنین علی پر معاویہ لعین کی طرف سے سبّ و لعن کرنے کے حکم صادر کرنے اور اہل سنت کے بعض علماء کی طرف سے اس سبّ و لعن کی توجیہ کے بارے میں ذیل میں چند اہم مطالب ذکر کیے جا رہے ہیں :

رسول خدا (ص) اور امیر المؤمنین علی (ع) پر سبّ و لعن کرنے کا مسئلہ:
اصلی موضوع کو شروع کرنے سے پہلے واضح ہونا چاہیے کہ جو امیر المؤمنین علی (ع) پر سبّ و لعن کرے اور ان حضرت سے دشمنی کرے تو رسول خدا کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے ؟

علی (ع) سے دشمنی کرنا منافقت کی علامت ہے:

مسلم نيشاپوری اور اہل سنت کے بہت سے بزرگ علماء نے لکھا ہے کہ:


عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ زِرٍّ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ .


علی (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم یہ بات رسول خدا (ص) نے مجھ سے فرمائی تھی کہ مجھ سے محبت، صرف مؤمن کرے گا اور مجھ سے دشمنی، صرف منافق کرے گا۔

صحيح مسلم ، مسلم النيسابوري ، ج 1 ، ص 60 – 61

و فضائل الصحابة ، النسائي ، ص 17

و الديباج على مسلم ، جلال الدين السيوطي ، ج 1 ، ص 93

و المصنف ، ابن أبي شيبة الكوفي ، ج 7 ، ص 494

و كتاب السنة ، عمرو بن أبي عاصم ، ص 584

و السنن الكبرى ، النسائي ، ج 5 ، ص 47 و ج 5 ، ص 137

و صحيح ابن حبان ، ابن حبان ، ج 15 ، ص 367 – 368

و سير أعلام النبلاء ، الذهبي ، ج 12 ، ص 509 و

فتح الباري ، ابن حجر ، ج 7 ، ص 58 و

تحفة الأحوذي ، المباركفوري ، ج 10 ، ص 151و ...

قرطبی اور اہل سنت کے بہت سے بزرگان نے لکھا ہے کہ:


روي عن جماعة من الصحابة [أبي سعيد الخدري ، جابر بن عبد الله ، عبد الله بن مسعود و...] أنهم قالوا : ما كنا نعرف المنافقين على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا ببغضهم لعلي عليه السلام .


چند صحابہ جیسے ابو سعید خدری، جابر ابن عبد الله،‌ عبد الله ابن مسعود وغیرہ وغیرہ ... سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) کے زمانے میں ہم منافقین کو صرف علی (ع) سے دشمنی کرنے کی وجہ سے پہچانا کرتے تھے۔

تفسير القرطبي ، القرطبي ، ج 1 ، ص 267

و الدر المنثور ، جلال الدين السيوطي ، ج 6 ، ص 66 – 67

و نظم درر السمطين ، الزرندي الحنفي ، ص 102 و

تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 42 ، ص 284 – 285 و ج 42 ، ص 285 و ج 42 ، ص 286 و


مناقب علي بن أبي طالب (ع) وما نزل من القرآن في علي (ع) ، أبي بكر أحمد بن موسى ابن مردويه الأصفهاني ، ص 321 و ….


علی (ع) سے جنگ کرنا، رسول خدا (ص) سے جنگ کرنا ہے :

احمد ابن حنبل اور اہل سنت کے بہت سے علماء نے ابوہریرہ اور زید ابن ارقم سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے علی (ع) سے جنگ کرنے کو اپنے ساتھ جنگ کرنا قرار دیا ہے:


عن أبي هريرة وزيد بن أرقم : نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَلِيٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَفَاطِمَةَ فَقَالَ أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ .


ابی ہريره اور زيد ابن ارقم نے کہا ہے کہ: رسول خدا نے امام علی ، امام حسن ،‌ امام حسين اور حضرت فاطمہ عليہم السلام کی طرف دیکھ کر فرمایا: میری جنگ اس سے ہے کہ جو تم لوگوں سے جنگ کرے اور میری صلح اس سے ہے کہ جو تم لوگوں سے صلح کرے۔

مسند احمد ، الإمام احمد بن حنبل ، ج 2 ، ص 442

و المستدرك ، الحاكم النيسابوري ، ج 3 ، ص 149

و مجمع الزوائد ، الهيثمي ، ج 9 ، ص 169

و المصنف ، ابن أبي شيبة الكوفي ، ج 7 ، ص 512

و صحيح ابن حبان ، ابن حبان ، ج 15 ، ص 434

و المعجم الصغير ، الطبراني ، ج 2 ، ص 3 و

المعجم الكبير ، الطبراني ، ج 3 ، ص 40

و موارد الظمآن ، الهيثمي ، ج 7 ، ص 201

و تاريخ بغداد ، الخطيب البغدادي ، ج 7 ، ص 144

و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 13 ، ص 218 و ج 14 ، ص 157

و سير أعلام النبلاء ، الذهبي ، ج 2 ، ص 122 و ج 3 ، ص 257 – 258 و

تاريخ الإسلام ، الذهبي ، ج 3 ، ص 45 و ج 5 ، ص 99 و

البداية والنهاية ، ابن كثير ، ج 8 ، ص 223 و ....

علی (ع) پر سبّ (گالی دینا) کرنا، رسول خدا (ص) پر سبّ (گالی دینا) کرنا ہے:


عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لِي أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ قُلْتُ مَعَاذَ اللَّهِ أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي .


عبد الله جدلی کہتا ہے کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے کہ جو رسول خدا (ص) کو گالیاں دیتا ہو ؟ اس نے کہا: نعوذ باللہ، اس پر ام سلمہ نے فرمایا:

میں نے خود رسول خدا (ص) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بھی علی کو گالی دے گا تو بے شک اس نے مجھے گالی دی ہے۔

مسند احمد ، الإمام احمد بن حنبل ، ج 6 ، ص 323

و خصائص أمير المؤمنين (ع) ، النسائي ، ص 99 و

تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 42 ، ص 266

و تاريخ الإسلام ، الذهبي ، ج 3 ، ص 634

و البداية والنهاية ، ابن كثير ، ج 7 ، ص 391 و

المناقب ، الموفق الخوارزمي ، ص 149 و

جواهر المطالب في مناقب الإمام علي (ع) ، ابن الدمشقي ، ج 1 ، ص 66

حاكم نيشاپوری نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه .

اس حدیث کی سند صحیح (معتبر) ہے لیکن اسکے باوجود بخاری اور مسلم نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا !

المستدرك ، الحاكم النيسابوري ، ج 3 ، ص 121.

اور ہيثمی نے بھی کہا ہے کہ:


رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح غير أبى عبد الله الجدلي وهو ثقة .


احمد ابن حنبل نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسکے راوی، وہی کتاب صحیح بخاری کے راوی، غیر از ابی عبد اللہ جدلی کہ وہ بھی ثقہ و قابل اطمینان ہے۔

مجمع الزوائد ، الهيثمي ، ج 9 ، ص 130 .

امیر المؤمنین علی (ع) کو تکلیف دینا، رسول خدا (ص) کو تکلیف دینا ہے:

ہيثمی نے کتاب مجمع الزوائد میں سعد ابن ابی وقاص سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:


قال: كنت جالساً في المسجد ، أنا ورجلان معي ، فنلنا من علي ، فأقبل رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم غضبان يعرف في وجهه الغضب ، فتعوذت باللّه من غضبه ، فقال: «ما لكم وما لي ؟ من آذى عليّاً فقد آذاني». رواه أبو يعلى والبزاز باختصار ورجال أبي يعلى رجال الصحيح غير محمود بن خداش وقنان، وهما ثقتان.


سعد ابن ابی وقاص کہتا ہے کہ میں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں بیٹھا ہوا تھا، ہم نے علی کو برا بھلا کہا، رسول خدا (ص) نے غصے کی حالت میں ہماری طرف دیکھا کہ غضب انکے چہرے سے واضح نظر آ رہا تھا، پس میں نے انکے غضب سے خدا کی پناہ مانگی، ان حضرت (ص) نے فرمایا:

تمہیں مجھ سے کیا کام ہے ؟ (یعنی مجھے کیوں تکلیف پہنچاتے ہو) جس نے بھی علی کو تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف دی ہے۔

ابو یعلی اور بزار نے اس روایت کو مختصر طور پر نقل کیا ہے اور ابو یعلی کی نقل کردہ روایت کے راوی، کتاب صحیح بخاری کی اسناد والے ہی راوی ہیں، غیر از محمود ابن خداش اور قنان کے اور یہ دونوں بھی ثقہ و مورد اطمینان ہیں۔

مجمع الزوائد ، ج9 ، ص129

و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج42 ، ص204و

البداية والنهاية ، ج7 ، ص383 .

ابی بكر احمد ابن موسی ابن مردويہ اصفہانی اور علامہ شيخ بہا الدين ابو القاسم رافعی نے بھی لکھا ہے کہ:


عن جابر الأنصاري عن عمر بن الخطاب ، قال : كنت أجفو عليا ، فلقيني رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) فقال : " إنك آذيتني يا عمر ! " . فقلت : أعوذ بالله ممن آذى رسوله ! قال : " إنك قد آذيت عليا ، ومن آذى عليا فقد آذاني " .


جابر ابن عبد الله انصاری نے عمر ابن خطاب سے روایت نقل کی ہے کہ میں علی کو برا بھلا کہا کرتا تھا کہ رسول خدا نے مجھے دیکھا اور فرمایا: اے عمر ! تم نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے، عمر نے کہا: میں آپکو تکلیف پہنچانے سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں،

حضرت نے فرمایا: تم نے علی کو تکلیف پہنچائی ہے اور جس نے بھی علی کو تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف دی ہے۔


مناقب علي بن أبي طالب (ع) وما نزل من القرآن في علي (ع) ، أبي بكر أحمد بن موسى ابن مردويه الأصفهاني ، ص 81

و التدوين في أخبار قزوين ، ج1 ،‌ ص460 ، باب العين في الآباء


اب ہر گلی، چوک، ہر شاہراہ پر عدالتیں تو لگیں گیں -تمہاری نہ رکنے والی خونی پیچش اسی طرح جاری تھی،ہے اور تاقیامت رہے گی
یہ تو ہو گا
Read post #102
AGAIN AND AGAIN AND AGAIN
 

London Bridge

Senator (1k+ posts)
امیر المؤمنین علی پر معاویہ کے سبّ و شتم کرنے کا حکم دینے والی کتاب صحیح مسلم کی روایت کے بارے میں تحقیق:

مسلم نیشاپوری نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں نقل کیا ہے کہ:

حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ قَالَا حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَعِيلَ عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ فَقَالَ أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلَاثًا قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَنْ أَسُبَّهُ لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ :

سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَهُ خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ يَا رَسُولَ اللَّهِ خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ قَالَ فَتَطَاوَلْنَا لَهَا فَقَالَ ادْعُوا لِي عَلِيًّا فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ :

فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ ،

دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا وَفَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَقَالَ اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي .

عامر ابن سعد ابن ابى وقّاص نے اپنے باپ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک دن معاویہ ابن ابی سفیان نے سعد کو حکم دیا کہ حضرت علی (ع) کو سبّ و شتم کرے، لیکن سعد نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔

معاویہ (ملعون) نے سعد سے پوچھا: تم علی کو گالیاں کیوں نہیں دیتے ؟ سعد نے جواب دیا: تین صفات کی وجہ سے کہ جو میں نے علی (ع) کی شان میں رسول خدا (ص) سے سنی ہیں، اسی وجہ سے میں کبھی بھی ان حضرت کو گالیاں نہیں دوں گا اور اگر ان تین صفات میں سے کوئی ایک بھی مجھ میں پائی جاتی تو یہ بات میرے لیے سرخ بالوں والے اونٹوں سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی !

1- رسول خدا (ص) نے ایک جنگ کے موقع پر علی (ع) کو اپنے جانشین کے طور پر مدینہ میں اپنا نائب بنایا تو حضرت علی نے ان حضرت سے عرض کیا: یا رسول اللہ ! آپ مجھے بچوں اور عوتوں میں چھوڑ کر جا رہے ہیں ؟ !رسول خدا نے فرمایا: کیا آپ اس بات پر راضی نہیں کہ آپ میرے لیے وہی مقام و منزلت رکھتے ہیں کہ جو ہارون کا مقام حضرت موسی کے لیے تھا، بس فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

2- اور جنگ خیبر کے دن میں نے رسول خدا (ص) کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ میں پرچم اسلام اسکے ہاتھ میں دوں گا کہ جو خدا اور رسول سے محبت کرتا ہو گا اور خدا اور رسول بھی اس سے محبت کرتے ہیں ! اس بات کو سننے کے بعد ہم سب اس انتظار میں تھے کہ یہ فضیلت ہمیں نصیب ہو لیکن اسی وقت رسول خدا (ص) نے فرمایا علی کہاں ہے ؟ علی اس حالت میں رسول خدا کے پاس آئے کہ انکی آنکھ میں درد ہو رہا تھا، رسول خدا نے اپنا لعاب دہن حضرت علی کی آنکھ پر لگایا تو انکو درد سے شفا مل گئی اور پرچم اسلام کو انکے سپرد کر دیا اور حضرت علی کے وجود کی برکت سے اسلام کو فتح نصیب ہو‏ئی۔

3- جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو رسول خدا (ص) نے حضرت على ، حضرت فاطمہ ، امام حسن اور امام حسين عليہم السّلام کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا: خدایا ! یہ میرے اہل بیت ہیں۔

صحيح مسلم ، ج7 ، ص120 ، كتاب فضائل الصحابة ، باب من فضائل علي بن أبي طالب رضي الله عنه .

اہل سنت کی نظر میں اس روایت کے صحیح ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، کیونکہ کتاب صحیح مسلم اہل سنت کی نگاہ میں ایسی کتاب ہے کہ جسکی تمام روایات صحیح ، معتبر اور مورد قبول ہیں، اسی وجہ سے بہت سے علمائے اہل سنت نے اس روایت کو اپنی کتب میں نقل کیا ہے، جیسے

ترمذی نے اپنی کتاب سنن میں ، كتاب المناقب ، باب مناقب علي ابن أبي طالب و البانی نے کتاب صحيح سنن ترمذی میں ، حدیث نمبر 2932 میں اس روایت کی تصحيح کی ہے ، و ابن كثير نے کتاب البداية والنهاية سال 40 ہجری کے حوادث میں ، ج7 ، ص369 و ابن اثير نے کتاب اسد الغابۃ في معرفة الصحابة میں ترجمہ امام علی عليہ السلام میں ، ج4 ،‌ ص99 و ذہبی نے کتاب تاريخ الاسلام میں ، ترجمہ امام علی عليہ السلام میں ، ص627 سال 40 ہجری کے حوادث میں و ابن عساكر نے اپنی کتاب تاريخ مدينہ دمشق میں کئی جگہ پر اس روایت کو نقل کیا ہے۔

قابل توجہ اور قابل ذکر نکتہ اس روایت میں یہ ہے کہ اس روایت میں «مأمور به» کو حذف کر دیا گیا ہے، اس لیے کہ مسلم نیشاپوری نہیں چاہتا تھا کہ معاویہ کے ناصبی ہونے کو واضح طور پر بیان کرے، اسی لیے اس نے اس جملے « أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا » کو ناقص ذکر کیا ہے اور لفظ أَمَرَ کا «مأمور به» حذف کر دیا ہے، یعنی جس چیز کا معاویہ نے حکم دیا ہے، اس چیز کو ذکر ہی نہیں کیا تا کہ پتا نہ چل سکے کہ معاویہ نے کس کام کرنے کا حکم دیا تھا !

کتاب صحیح مسلم کی روایت کی توجیہ کرنے میں نووی کی کوشش:

اہل سنت کے بعض علماء نے اسی نکتے کی وجہ سے چاہا ہے کہ معاویہ کو علی (ع) پر سبّ و شتم کرنے کا حکم دینے سے بری کرتے ہوئے اسکا دفاع کریں، اس لیے کہ جب انھوں نے دیکھا کہ سند کے لحاظ سے تو روایت پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتے تو انھوں نے خود روایت کی عجیب و غریب توجیہات کرنا شروع کر دیں، حتی بعض تاویلات کو تو پڑھ کر انسان ہنسنے پر مجبور ہو جاتا ہے، ان علماء میں سے ایک نووی ہے کہ جو اسی کتاب صحیح مسلم کا شارح ہے، اس نے اس روایت کے بارے میں لکھا ہے کہ:

قَوْله : ( إِنَّ مُعَاوِيَة قَالَ لِسَعْدِ بْن أَبِي وَقَّاص : مَا مَنَعَك أَنْ تَسُبَّ أَبَا تُرَاب ؟ )

قَالَ الْعُلَمَاء : الْأَحَادِيث الْوَارِدَة الَّتِي فِي ظَاهِرهَا دَخَل عَلَى صَحَابِيّ يَجِبُ تَأْوِيلُهَا . قَالُوا : وَلَا يَقَعُ فِي رِوَايَات الثِّقَات إِلَّا مَا يُمْكِنُ تَأْوِيلُهُ . فَقَوْل مُعَاوِيَة هَذَا لَيْسَ فِيهِ تَصْرِيح بِأَنَّهُ أَمَرَ سَعْدًا بِسَبِّهِ ، وَإِنَّمَا سَأَلَهُ عَنْ السَّبَب الْمَانِع لَهُ مِنْ السَّبّ ، كَأَنَّهُ يَقُول : هَلْ اِمْتَنَعْت تَوَرُّعًا ، أَوْ خَوْفًا ، أَوْ غَيْر ذَلِكَ . فَإِنْ كَانَ تَوَرُّعًا وَإِجْلَالًا لَهُ عَنْ السَّبَب فَأَنْتَ مُصِيب مُحْسِن ، وَإِنْ كَانَ غَيْر ذَلِكَ فَلَهُ جَوَاب آخَر ، لَعَلَّ سَعْدًا قَدْ كَانَ فِي طَائِفَة يَسُبُّونَ فَلَمْ يَسُبَّ مَعَهُمْ ، وَعَجَزَ عَنْ الْإِنْكَار ، وَأَنْكَرَ عَلَيْهِمْ ، فَسَأَلَهُ هَذَا السُّؤَال . قَالُوا : وَيَحْتَمِلُ تَأْوِيلًا آخَر أَنَّ مَعْنَاهُ مَا مَنَعَك أَنْ تُخَطِّئَهُ فِي رَأْيه وَاجْتِهَاده ، وَتُظْهِرَ لِلنَّاسِ حُسْن رَأْينَا وَاجْتِهَادنَا ، وَأَنَّهُ أَخْطَأَ ؟ .

علماء نے، معاویہ کے سعد ابن ابی وقاص کو یہ کہنے کی کہ تم کیوں علی کو گالی نہیں دیتے، سبب بیان کیے ہیں، جیسے:

وہ روایات کہ جو صحابہ کی مذمت کے بارے میں ہیں، لازم و ضروری ہے کہ انکی تاویل و توجیہ کی جائے،

لہذا معاویہ کی اس بات سے واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے سعد ابن ابی وقاص کو حکم دیا تھا کہ علی کو گالیاں دے، بلکہ معاویہ نے سعد سے سبّ و شتم نہ کرنے کا سبب پوچھا ہے کہ کیا تم ڈر یا کسی دوسری وجہ سے ایسا کام نہیں کرتے ؟ کہ اگر ایسا کرنا احتیاط اور علی کے احترام کی وجہ سے ہو تو، اچھا کام ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو پھر کسی دوسرے جواب کی ضرورت ہے، کیونکہ سعد کا تعلق جس قبیلے سے تھا وہ سارے علی (ع) پر سبّ و شتم کیا کرتے تھے، لیکن وہ (سعد) ایسا نہیں کرتا تھا اور دوسروں کو اس کام سے منع نہیں کر سکتا تھا۔

شرح مسلم ، النووي ، ج15 ،‌ ص175 .

ایک دوسری توجیہ یہ ہے کہ: تم کیوں علی پر اسکے کاموں کی وجہ سے اعتراض نہیں کرتے تا کہ لوگوں کو بھی اس (علی) کے غلط کاموں کا پتا چلے اور ہمارے کاموں کو لوگوں میں اچھا کر کے بتاؤ۔

حالانکہ کتاب صحیح مسلم میں اصل روایت ایسے شروع ہوتی ہے:

« أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ »

لیکن افسوس کے ساتھ نووی نے دشمنان علی کا دقاع کرنے اور انکے دامن کو صاف رکھنے کے لیے، لفظ « امر » کو حذف اور روایت کو ایسے تحریف و تبدیل کر دیا ہے:

إِنَّ مُعَاوِيَة قَالَ لِسَعْدِ بْن أَبِي وَقَّاص : مَا مَنَعَك أَنْ تَسُبَّ أَبَا تُرَاب ؟

کیا انکے پاس اہل بیت کے دشمنوں کے دفاع کے علاوہ کوئی دوسرا بہانہ ہے کہ نووی علمی خیانت کرتے ہوئے ایسے غلط در غلط معاویہ کے کلام کی توجیہات کرتا جا رہا ہے ؟ !

علمائے اہل سنت کا «مأمور به» کے حذف کیے جانے کا اعتراف:

یہاں پر نووی اور اس جیسوں کی علمی خیانت کو ثابت کرنے کے لیے، اہل سنت کے بعض علماء کے کلمات کو ذکر کرتے ہیں کہ جہنوں نے واضح طور پر اعتراف کیا ہے معاویہ نے سعد ابن ابی وقاص کو حکم دیا تھا کہ امیر المؤمنین علی (ع) کو گالیاں دے، لیکن اس نے خود بیان کردہ چند دلائل کی وجہ سے ایسا کرنے سے صاف انکار کر دیا۔

1- ابن تيميہ حرانی :

وأما حديث سعد لما أمره معاوية بالسب فأبى فقال ما منعك أن تسب علي بن أبي طالب ؟ فقال ثلاث قالهن رسول الله صلى الله عليه وسلم فلن أسبه لأن يكون لي واحدة منهن أحب إلي من حمر النعم الحديث ، فهذا حديث صحيح رواه مسلم في صحيحه ... .

اور روایت سعد: جب معاویہ نے سعد ابن ابی وقاص کو حکم دیا کہ علی کو گالی دے تو اس نے علی کو گالی دینے سے انکار کیا، معاویہ نے کہا: کونسی چیز تم کو علی کو گالی دینے سے منع کرتی ہے ؟ سعد نے کہا: تین فضائل کیوجہ سے کہ جو میں نے علی کے بارے میں رسول خدا سے سنے تھے، اسی وجہ سے میں کبھی بھی ایسا کام نہیں کروں گا کہ اگر ان تین صفات میں سے کوئی ایک بھی میرے لیے بیان کی گئی ہوتی تو یہ بات میرے لیے سرخ بالوں والے اونٹوں سے بھی زیادہ قیمتی ہوتی !

یہ وہ صحیح حدیث ہے کہ جسے مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں نقل کی ہے۔

منهاج السنة ، ج3 ، ص15 ، ط دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1420 هـ .

یہ ابن تیمیہ ہے کہ جسکا ناصبی اور رسول خدا (ص) کے اہل بیت کا ازلی دشمن ہونا زبان زد عام و خاص ہے، اسی نے اپنی اس کتاب میں بہت واضح انداز سے اعتراف کیا ہے کہ معاویہ نے سعد کو حکم دیا تھا کہ امیر المؤمنین علی (ع) کو گالیاں دے، لیکن اس نے قبول نہ کیا، اصل میں وہ جملہ ایسے تھا:

« أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا أن يسب عليا ، فأمتنع »

معاويہ نے سعد وقاص کو حکم دیا کہ علی کو گالی دے اور اس نے انکار کر دیا۔

شيخ عبد الله ابن غنيمان جو مدینہ اسلامی یونیورسٹی کا استاد اور ڈاکٹریٹ سیکشن کا چیئرمین ہے، اس نے کتاب مختصر منہاج السنۃ میں بھی اسی جملے کو ذکر کرتے ہوئے اعتراف کیا ہے کہ معاویہ نے امیر المؤمنین علی (ع) پر سبّ و شتم کرنے کا حکم دیا ہے۔

مختصر منهاج السنة ، ج3 ،‌ ص15 ، دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1420 هـ .

2- مقبل ابن ہادی الوادعی :

یہ بھی وہابی عالم ہے کہ جس نے كتاب تحفۃ المجيب میں لکھا ہے کہ:

ودعا بعض الأمويين سعد ابن وقاص ليسبّ عليا ، فما فعل ، قالوا : ما منعك أن تسب علياً ؟ ... .

بعض امویوں نے سعد ابن ابی وقاص سے چاہا کہ علی پر سبّ و شتم کرے، لیکن اس نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو انھوں نے کہا: کیا وجہ ہے کہ تم علی پر سبّ و شتم نہیں کرتے ؟

تحفة المجيب علي اسئلة الحاضر والغائب ،‌ص9 ،‌ ط الرابعة دار الآثار ، يمن ، 1426 هـ .

علمائے اہل سنت جیسے مسلم ، ترمذی ،‌ ذہبی ،‌ ابن اثير ، ابن كثير وغیرہ کے واضح طور پر معاویہ کا نام ذکر کرنے کے باوجود بھی الوادعی معاویہ کا دفاع کرتے ہونے اور اموی خاندان کی نمک حلالی کو ثابت کرنے کی خاطر معاویہ کے نام کو تبدیل کر کے اسکی جگہ لفظ « بعض الأمويين » ذکر کر دیا ہے !

3- ڈاکٹر شيخ موسی شاہين لاشين :

اس نے صحیح مسلم کی شرح میں ایسے لکھا ہے کہ:

أمر معاوية بن أبي سفيان سعدا» المأمور به محذوف ، لصيانة اللسان عنه ، و التقدير : أمره بسب علي رضي الله عنه ، و كان سعد قد اعتزل الفتنة (حرب علي مع خصومه) ولعله اشتهر عنه الدفاع عن علي . فقال : ( ما منعك أن تسب أبا التراب ) ؟ معطوف علي محذوف ، والتقدير : امر معاويه سعدا أن يسب عليا ، فأمتنع ، فقال له : «ما منعك ،

معاویہ کے سعد کو حکم دینے والے جملے میں «مأمور به» حذف اور جس چیز کا حکم دیا گیا ہے وہ بھی زبان کو معاویہ کی مذمت کرنے سے بچانے کے لیے، حذف کر دیا گیا ہے کہ اصل میں جملے کا معنی یہ ہے: معاویہ نے سعد ابن ابی وقاص کو حکم دیا کہ علی کو سبّ و شتم کرے، کیونکہ سعد نے اس زمانے میں ہونے والے خونی حوادث سے لا تعلق تھا اور وہ علی کا حامی و ساتھی مشہور تھا، لہذا معاویہ نے اس سے کہا: کیا وجہ ہے کہ تو علی سے دشمنی نہیں کرتا ؟

فتح المنعم شرح صحيح مسلم ، ج9 ، ص332 ،‌ ط الأولي ، دار الشروق ،‌مصر .

پھر اس نے نووی کے کلام پر اشکال کرتے ہوئے کہا ہے کہ:

ويحاول النووي تبرئة معاوية من هذا السوء ،‌ فيقول : قال العلماء ... .

نووی نے معاویہ کو اس برے حکم کے دینے سے بری و آزاد کرنے کی کوشش کی ہے، اسی وجہ سے اس نے معاویہ کی بات کی توجیہ کرنے کے لیے علماء کے اقوال سے مدد لی ہے۔

شیخ موسی نے مزید لکھا ہے کہ:

وهذا تأويل واضح التعسف والبعد ، والثابت أن معاوية كان يأمر بسب علي ، وهو غير معصوم فهو يخطئ ،‌ ولكننا يجب أن نمسك عن أي انتقاص من أصحاب رسول الله صلي الله عليه وسلم ، و سب علي في عهد معاوية صريح ... .

لیکن یہ توجیہ و تاویل قابل افسوس اور حقیقت سے بہت دور ہے، کیونکہ تاریخی دلائل ثابت کرتے ہیں کہ معاویہ نے علی پر سبّ و لعن کرنے کا حکم صادر کیا ہے، لہذا اسکے دامن کو اس کام سے بچانے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ وہ تو معصوم نہی‍ں ہے پس وہ خطا بھی انجام دے سکتا ہے، اسکے باوجود ہم پر واجب ہے کہ ہم رسول خدا کے اصحاب کے نقص کو بیان کرنے سے پرہیز کریں، حالانکہ معاویہ کے دور میں علی پر سبّ و لعن ہونا بہت ہی واضح چیز ہے۔

4- شيخ حسن ابن علی السقاف :

یہ اردن کا سنی عالم ہے، اس نے لکھا ہے کہ:

وقد أمر معاوية الناس حتي كبار الصحابة أن يسبوا سيدنا علياً عليه السلام والرضوان الذي قال فيه رسول الله صلي الله عليه وسلم كما في صحيح مسلم وغيره : «لا يحبك إلا مؤمن ولا يبغضك إلا منافق» و قوله صلي الله عليه وسلم كما في الحديث الصحيح في مسند احمد وغيره : «من سب عليا فقد سبي» و قد ثبت أن معاوية كان ينال من سيدنا علي عليه السلام ويأمر بذلك ، ففي صحيح مسلم عن عامر بن سعد بن أبي وقاص عن أبيه قال : أمر معاوية بن أبي سفيان سعداً فقال ما منعك أن تسب أبا التراب ؟! فقال : أما ذكرت ثلاثاً قالهن رسول الله صلي الله عليه وسلم فلن أسبه ، لأن تكون لي واحدة منهن أحب إلي من حمر النعم ... .

معاویہ نے بزرگ صحابہ کو حکم دیا کہ وہ علی کو گالیاں دیں، حالانکہ کتاب صحیح مسلم میں ذکر ہوا ہے کہ رسول خدا نے علی سے فرمایا کہ: اے علی مؤمن تم سے محبت کرے گا اور منافق تم سے دشمنی کرے گا،

اور کتاب مسند احمد میں رسول خدا کی یہ حدیث ذکر ہوئی ہے کہ: جس نے بھی علی کو گالی دی تو اس نے مجھے گالی دی ہے،

اور تاریخ میں ثابت ہے کہ معاویہ خود بھی علی پر سبّ و لعن کیا کرتا تھا اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کا حکم دیا کرتا تھا،

کتاب صحیح مسلم میں ذکر ہوا ہے کہ: معاویہ نے سعد ابن ابی وقاص کو حکم دیا کہ علی پر سبّ و لعن کرے اور کہا کہ: تم کیوں علی کو گالیاں نہیں دیتے، سعد نے جواب دیا: میں نے علی کی تین صفات کو رسول خدا سے خود سنا ہے، اسی وجہ میں کبھی بھی ایسا کام نہیں کروں گا اور ان تین صفات میں سے کوئی ایک بھی مجھ میں پائی جاتی تو یہ بات میرے لیے سرخ بالوں والے اونٹوں سے بھی بہتر ہوتی۔

زهر الريحان ، ص11 ، ط دار الإمام الرواس ،‌ بيروت .



معاویہ اپنے کسی حج کے سفر سے واپس آ رہا تھا تو سعد اسکے پاس آیا، باتوں باتوں میں جب علی کا ذکر آیا تو معاویہ نے علی کو برے الفاظ سے یاد کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

المصنف ، ابن أبي شيبه ،‌ ج7 ، ص496 .

اور ابن ماجہ قزوينی نے اپنی کتاب سنن میں لکھا ہے کہ:

حدثنا علي بن محمد . ثنا أبو معاوية . ثنا موسى بن مسلم ، عن ابن سابط ، وهو عبد الرحمن ، عن سعد بن أبي وقاص ، قال : قدم معاوية في بعض حجاته ، فدخل عليه سعد ، فذكروا عليا . فنال منه . فغضب سعد ، وقال : تقول هذا لرجل سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " من كنت مولاه فعلى مولاه " . وسمعته يقول أنت منى بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي " . وسمعته يقول " لأعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله " ؟

سنن ابن ماجه ،‌ ج1 ، ص45 .

ممکن ہے یہ تین روایات ایک ہی روایت ہو کہ جو الفاظ کے ساتھ نقل ہوئی ہو، شاید ایسا نہ بھی ہو اور متعدد مقامات پر یہ واقعہ پیش آیا ہو۔

بہرحال یہ تینوں روایات اس مطلب کو ثابت کرتی ہیں کہ امیر المؤمنین علی (ع) پر سبّ و لعن کرنا یہ معاویہ لعین کا ہمیشہ کا کام تھا، نہ صرف یہ بلکہ وہ دوسروں کو بھی اس کام کے جاری رکھنے کا حکم دیتا تھا !

ابن عبد ربہ نے کتاب العقد الفريد میں لکھا ہے کہ:

ولما مات الحسنُ بن عليّ حَجّ معاوية، فدخل المدينة وأراد أن يَلْعن عليَّا على مِنبر رسول الله صلى عليه وسلم. فقيل له: إن هاهنا سعدَ بن أبي وقاص، ولا نراه يرضى بهذا، فابعث إليه وخُذ رأيه. فأرسل إليه وذكر له ذلك. فقال: إن فعلت لأخرُجن من المسجد، ثم لا أعود إليه. فأمسك معاوية عن لعنه حتى مات سعد. فلما مات لَعنه عَلَى المنبر، وكتب إلى عماله أن يَلعنوه على المنابر، ففعلوا. فكتبتْ أم سَلمة زوج النبيّ صلى عليه وسلم إلى معاوية: إنكم تلعن اللّه ورسولَه على منابركم، وذلك أنكم تلعنون عليّ بن أبي طالب ومن أحبّه، وأنا أشهد أن اللّه أحبَّه ورسولَه، فلم يلتفت إلى كلامها .

جب حسن ابن علی فوت ہوئے تو معاویہ حج پر گیا پھر وہاں سے وہ مدینہ گیا اور اس نے اعلان کروایا کہ وہ لوگوں سے عمومی خطاب کرنا چاہتا ہے اور ساتھ ہی اسکا ارادہ تھا کہ وہ منبر پر علی پر لعنت بھی کرے، اسے بتایا گیا کہ سعد ابن ابی وقاص بھی اس وقت مدینے میں ہے اور وہ یہ کام (سبّ و شتم بر علی) کرنے پر بالکل راضی نہیں ہے، معاویہ نے کسی کو سعد کے پاس بھیجا تا کہ اس بارے میں اسکی رائے معلوم کرے، وہ شخص سعد کے پاس گیا اور معاویہ کا پیغام اس تک پہنچا دیا، سعد نے کہا: اگر معاویہ یہ کام کرے گا تو میں مسجد سے باہر چلا جاؤں گا اور دوبارہ کبھی مسجد میں لوٹ کر نہیں آؤں گا۔ معاویہ نے لوگوں سے خطاب نہ کیا تا کہ وہ علی پر سبّ و شتم نہ کر سکے اور جب تک سعد زندہ رہا معاویہ میں علی پر سبّ و شتم کرنے کی جرات نہیں تھی، سعد کے مرنے کے بعد معاویہ نے منبر پر علی پر لعنت کی اور اپنے وزیروں کو بھی ان حضرت پر لعنت کرنے کا حکم دیا۔

العقد الفريد ، ج4 ، ص335 ، ط الأولي ، دار الكتاب العربي ، بيروت ، 1411 هـ .

ام المؤمنین ام سلمہ نے ایک خط میں معاویہ کو لکھا کہ تم منبروں پر خدا اور اسکے رسول پر لعنت کرتے ہو، کیونکہ علی کو گالی دینا، خدا اور رسول کو گالی دینا ہے، میں گواہی دیتی ہوں کہ خدا اور رسول حضرت علی سے محبت کرتے ہیں، لیکن معاویہ نے اس خط کی طرف کوئی توجہ نہ دی۔

كمال الدين عمر ابن احمد ابن العديم نے كتاب بغية الطلب في تاريخ حلب میں جلیل القدر صحابی ابو ايوب انصاری کی سیرت کے بارے میں لکھا ہے کہ:

أبو أيوب خالد بن زيد بدري، وهو الذي نزل عليه النبي صلى الله عليه وسلم مقدمة المدينة، وهو كان على مقدمة علي يوم صفين، وهو الذي خاصم الخوارج يوم النهروان، وهو الذي قال لمعاوية حين سب علياً: كف يا معاوية عن سب علي في الناس، فقال معاوية: ما أقدر على ذلك منهم، فقال أبو أيوب: والله لا أسكن أرضاً أسمع فيها سب علي، فخرج إلى ساحل البحر حتى مات رحمه الله.

ابو ایوب خالد ابن زید جنگ بدر میں شرکت کرنے والوں میں سے ہے اور یہ وہ بندہ ہے کہ جب رسول خدا (ص) مدینہ تشریف لائے تو اس صحابی کے گھر بھی گئے تھے اور جنگ صفین میں بھی لشکر علی میں تھا اور جنگ نہروان میں بھی اس نے خوارج کے ساتھ جنگ کی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ معاویہ، علی پر سبّ و لعنت کر رہا ہے تو اس نے کہا: اے معاویہ ! لوگوں کے سامنے علی پر سبّ و شتم نہ کیا کرو۔ معاویہ نے جواب دیا: میں تمہاری بات نہیں مانوں گا، ابو ایوب نے کہا: خدا کی قسم جس سرزمین پر علی کو برا بھلا کہا جاتا ہو میں وہاں ہرگز نہیں رہوں گا، لہذا وہ ساحل سمندر کی طرف ہجرت کر کے چلا گیا اور وہاں پر ہی دنیا سے چلا گیا۔

بغية الطلب ، في تاريخ حلب ، ج7 ، ص3032 ،‌ ط دار الفكر ، بيروت .

بلاذری نے کتاب انساب الأشراف میں لکھا ہے کہ:

كتب معاوية إلي المغيرة بن شعبة : أظهر شتم علي وتنقصه ... .

معاویہ نے مغیرہ ابن شعبہ کو خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ سر عام علی کو گالیاں دے اور اسکے عیوب کو بیان کرے۔

انساب الأشراف ، ج5 ،‌ ص30 ،‌ ط الأولي ، دار الفكر ، بيروت .

اہل سنت کے مشہور و معروف مؤرخ طبری نے بھی لکھا ہے کہ:

أن معاوية بن أبي سفيان لما ولى المغيرة بن شعبة الكوفة في جمادى سنة 41 دعاه فحمد الله وأثنى عليه ثم قال : ... ولست تاركا إيصاءك بخصلة لا تتحم عن شتم على وذمه والترحم على عثمان والاستغفار له والعيب على أصحاب على والاقصاء لهم وترك الاستماع منهم ... .

معاویہ نے جب سن 41 ہجری میں مغیرہ ابن شعبہ کو کوفہ کا والی و حاکم بنایا تو اسے حکم دیتے ہوئے کہا:

ایک کام کو بالکل بھولنا نہیں ہے اور اسے زیادہ تاکید کے ساتھ انجام دینا ہے، اور وہ کام، علی پر لعنت کرنا اور اسے گالیاں دینا ہے اور اسکے مقابلے پر عثمان کا ذکر احترام سے کرنا اور ہمیشہ اسکے لیے مغفرت کی دعا کرنا اور علی کے اصحاب کی برائیوں کو بیان کرو اور انکو جلا وطن کرنا اور انکی کوئی بھی بات نہ سننا۔

تاريخ طبري‌ ،‌ ج4 ، ص188 .

بلاذری نے لکھا ہے:

قال : خطب معاوية بالمدينة فحمد الله وأثني عليه ،‌ وذكر علياً فنال منه ، و نسبه الي قتل عثمان و ايواء قتلته والحسن بن علي تحت المنبر .

معاویہ نے مدینہ میں خطاب کرتے ہوئے خداوند کی حمد و ثنا کرنے کے بعد علی کو برا بھلا کہا اور پھر اس نے قتل عثمان اور اسکے قاتلوں کو پناہ دینے کی ساری ذمہ داری علی پر ڈال دی، حالانکہ حسن ابن علی بھی وہاں پر حاضر تھے۔

أنساب الأشراف ، ج5 ،‌ ص105 .

اہل سنت کے مشہور مؤرخ خوارزمی نے کتاب مقتل الحسين میں لکھا ہے:

وحضرتْ الجمعة فصعد معاوية علي المنبر فحمد الله وأثني عليه وصلي علي نبيه ، و ذكر علي بن أبي طالب فتنقصه ... فوثب الحسن بن علي و أخذ بعضادتي المنبر ، فحمد الله و صلي علي نبيه ثم قال : أيها الناس من عرفني فقد عرفني ومن لم يعرفني فأنا الحسن بن علي بن أبي طالب ، أنا ابن نبي الله ، أنا ابن من جعلت له الأرض مسجداً و طهوراً ... فقال معاوية : أما إنك تحدث نفسك بالخلافة ولست هناك . فقال الحسن : أما الخلافة فلمن عمل بكتاب الله و سنة نبية ليست الخلافة لمن خالف كتاب الله و عطل السنة ، إنما مثل ذلك مثل رجل أصاب ملكاً فتمتع به و كأنه انقطع عنه و بقيت تبعاته عليه .

جمعہ کے دن نماز جمعہ برپا کرنے کا وقت تھا، معاویہ منبر پر گیا اور خداوند کی حمد و ثنا کے بعد علی (ع) کا ذکر کرتے ہوئے برے الفاظ سے انکو یاد کیا، حسن ابن علی بھی وہاں پر حاضر تھے، وہ اپنی جگہ سے اٹھے اور خداوند کی حمد و تعریف کے بعد فرمایا: اے لوگو ! جو مجھے جانتا ہے، وہ تو جانتا ہی ہے اور جو مجھے نہیں جانتا، میں اسکو اپنا تعارف کرواتا ہوں۔ میں حسن ابن علی اور ابن رسول خدا ہوں، وہی کہ جسکے لیے زمین کو پاک اور سجدے کی جگہ قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔۔

معاویہ نے جواب میں کہا: تمہارے دل میں خلافت کی آرزو ہے، امام حسن نے فرمایا:

خلافت اسکی ہے کہ جو کتاب خدا اور سنت رسول خدا پر عمل کرنے والا ہو، نہ اسکی کہ جو قرآن و سنت کے بر خلاف عمل کرنے والا ہو اور نہ ہی اسکی جو سنت رسول خدا کو ختم کرنے والا ہو، ایسا شخص اس انسان کی طرح ہے کہ جو مالدار و ثروت مند تو ہو لیکن اپنے مال سے سوائے زحمت اور تکلیف کے اسے کچھ بھی حاصل نہ ہو۔

مقتل الحسين ، ج1 ،‌ص183 ، ط الثالثة ،‌ انتشارات أنوار الهدي ، ايران 1425هـ .

معاویہ (لع) کا امام علی، امام حسن اور امام حسین عليہم السلام پر سبّ و لعن کرنا:

ثم انصرف عمرو وأهل الشأم إلى معاوية وسلموا عليه بالخلافة ورجع ابن عباس وشريح بن هانئ إلى علي وكان إذا صلى الغداة يقنت فيقول اللهم العن معاوية وعمرا وأبا الأعور السلمي وحبيبا وعبد الرحمن بن خالد والضحاك بن قيس والوليد فبلغ ذلك معاوية فكان إذا قنت لعن عليا وابن عباس والأشتر وحسنا وحسينا .

حکمیت کے واقعے کے بعد عمرو ابن عاص اور اہل شام معاویہ کے پاس گئے اور اسے خلافت کے ملنے پر مبارکباد دی اور ابن عباس و شریح ابن ہانی امیر المؤمنین علی (ع) کے پاس واپس چلے گئے۔

علی (ع) جب نماز صبح پڑھتے تھے تو دعا کیا کرتے تھے: خدایا معاويہ ، عمرو عاص ، ابو اعور سلمی ، حبيب ، عبد الرحمن ابن خالد ، ضحاك ابن قيس اور وليد پر لعنت فرما۔ یہ خبر جب معاویہ کو ملی تو وہ بھی ہر روز کی اپنی دعا میں امام علی ، امام حسن ، امام حسين عليہم السلام ، ابن عباس اور مالک اشتر پر بھی لعنت کیا کرتا تھا۔

تاريخ طبري ، ج4 ،‌ ص52 ،‌ باب اجتماع الحكمين بدومة الجندل و الكامل في التاريخ ، ج3 ،‌ ص333 ، باب ذكر اجتماع الحكمين .

خداوند کی خاص خاص لعنت ہو خبیث معاویہ پر۔

معاویہ (لع) کی طرف سے امیر المؤمنین علی (ع) پر سبّ و شتم ہونے کے بارے میں علمائے اہل سنت کے اقوال:

1- ابن تيميہ حرانی:


وكذلك تفضيل على عليه لم يكن مشهوراً فيها بخلاف سبّ على فإنه كان شائعا فى اتباع معاوية ولهذا كان على واصحابه أولى بالحق وأقرب الى الحق من معاوية واصحابه كما فى الصحيحن عن أبى سعيد عن النبى قال تمرق مارقة على حين فرقة من المسلمين فتقتلهم أولى الطائفتين بالحق وروى فى الصحيح أيضا أدنى الطائفتين الى الحق وكان سب على ولعنه من البغى الذى استحقت به الطائفة أن يقال لها الطائفة الباغية كما رواه البخارى فى صحيحه .

علی کو معاویہ پر برتری دینا، یہ شیعیان علی کے درمیان مشہور نہ تھا، لیکن علی پر سبّ و شتم کرنا یہ معاویہ کے ساتھیوں کے درمیان رواج کے طور پر عام ہو چکا تھا، اس لحاظ سے علی اور اسکے اصحاب، معاویہ اور اسکے اصحاب کی نسبت حق پر ہیں، جیسا کہ صحیحین (بخاری و مسلم) میں ابو سعید خدری سے نقل ہوا ہے: وہ آئے گا کہ جو لوگوں کو دین سے خارج کر دے گا، (یعنی معاویہ) اور حق کے نزدیک ترین فرد (یعنی علی) اس سے جنگ کرے گا اور کیونکہ معاویہ نے علی پر سبّ و لعن کی ہے، لہذا مناسب ہے کہ اسے ظالم و ستمگر کہا جائے اور اسکے اصحاب کو جیسا کہ بخاری نے نقل کیا ہے، بہتر ہے کہ ستمگر گروہ کہا جائے۔

مجموعة الفتاوي ، ج4 ، ص266 ، ط دار الوفاء في مصر ، 1421 هـ .

2- حافظ شمس الدين ذہبی:

وخلف معاوية خلق كثير يحبونه ويتغالون فيه ويفضلونه ، إما قد ملكهم بالكرم والحلم والعطاء ، وإما قد ولدوا في الشام على حبه ، وتربى أولادهم على ذلك . وفيهم جماعة يسيرة من الصحابة ، وعدد كثير من التابعين والفضلاء ، وحاربوا معه أهل العراق ، ونشأوا على النصب ، نعوذ بالله من الهوى .

بہت سے لوگ تھے کہ جو معاویہ سے محبت اور اسکے بارے میں غلو سے کام لیتے تھے اور اسے دوسروں پر برتر و بہتر سمجھتے تھے۔ یہ اس وجہ سے تھا کہ وہ لوگ یا تو شام میں پیدا ہوئے تھے یا معاویہ سے درہم و دینار لیا کرتے تھے اور انھوں نے اپنی اولاد کی بھی اسی روش پر تربیت کی تھی۔ ان افراد میں سے بہت کم اصحاب رسول خدا تھے اور بہت سے تابعین اور بزرگان میں سے تھے کہ جو معاویہ کے لشکر میں اہل عراق سے جنگ کر چکے تھے کہ جہنوں نے علی سے بغض و کینے پر پرورش پائی تھی، ہوائے نفس کی پیروی کرنے سے ہم خداوند کی پناہ مانگتے ہیں۔

سير اعلام النبلاء ، الذهبي ، ج3 ،‌ ص128 .

3- عماد الدين ابی الفداء :

اس نے اپنی تاریخ کی کتاب میں امام حسن (ع) اور معاویہ کی صلح کی شرائط ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ امام حسن نے شرط رکھی تھی کہ:

وأن لا يسب علياً ، فلم يجبه إلي الكف عن سب علي ، فطلب الحسن أن لا يشتم علياً وهو يسمع ، فأجابه إلي ذلك ثم لم يف له به .

اس (امام حسن) نے معاویہ سے شرط رکھی تھی کہ وہ علی (ع) پر سبّ و لعن نہیں کرے گا، لیکن اس نے اس شرط پر عمل نہیں کیا، امام مجتبی نے اس سے چاہا کہ کم از کم برا بھلا نہ کہے تو اس نے قبول کر لیا، لیکن اس نے اس وعدے پر بھی عمل نہ کیا۔

تاريخ أبي الفداء ، فصل في ذكر تسليم الحسن الأمر إلي معاوية ، ج1 ، ص254 ، ط دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1417 هـ .

عماد الدین نے ایک فصل بعنوان « استلحاق معاوية زيادا » میں لکھا ہے کہ:

وكان معاوية وعماله يدعون لعثمان في الخطبة يوم الجمعة ويسبون علياً و يقعون فيه .

معاویہ اور اسکا عملہ نماز جمعہ کے خطبے میں عثمان کے لیے دعا کیا کرتے تھے اور علی کو گالیاں دیا کرتے تھے۔

تاريخ أبي الفداء ، فصل في ذكر تسليم الحسن الأمر إلي معاوية ، ج1 ، ص258 ، ط دار الكتب العلمية ، بيروت ، 1417 هـ .

4- قاضی شيخ محمد الخضرمی المصری:

اسکے باوجود کہ اس نے اپنے خطابات میں امیر المؤمنین علی (ع) اور انکے فرزند امام حسین (ع) پر طعنے زنی کی ہے لیکن پھر بھی اس نے معاویہ کی طرف سے امیر المؤمنین علی پر ہونے والی سبّ و لعن کا انکار نہیں کیا اور بعض مقامات پر تو اس نے بہت واضح طور پر اس بات کو ذکر کیا ہے:

اس نے كتاب الدولة الأموية میں لکھا ہے کہ:

ومما ننقده علي هذا العهد (أي عهد معاويه) اهتمام معاوية بتشهير بعلي علي المنابر مع أن الرجل قد لحق بربه وأنتهي بأمره ، وكان يعلم يقيناً أن هذه الأقوال مما يهيج صدور شيعته وتجعلهم يتأففون ويتذمرون ، ولا ندري ما الذي حمله أن جعل ذلك فرضاً حتماً في كل خطبة كأنه ركن من أركانها لا تتم إلا به .

جو انتقاد معاویہ کے دور کے بارے میں کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ: معاویہ نے لعن علی کو منابر پر ایک عادت و رواج میں جاری رکھا ہوا تھا، حالانکہ وہ (علی دنیا سے جا چکے تھے اور معاویہ جانتا تھا کہ اسکے اس کام سے شیعیان علی ناراض ہوں گے اور ان میں علی کے دشمنوں سے نفرت میں اضافہ ہو گا، لیکن اسکے باوجود معلوم نہیں کہ معاویہ نے اس کام کو کیوں اپنے آپ پر واجب و لازم کیا ہوا تھا کہ اپنے ہر خطبے میں ایک واجب کام کی طرح اسکو انجام دیا کرتا تھا، ایسے تھا کہ گویا علی پر سبّ و لعن کرنا خطبے کا ایک رکن و حصہ تھا کہ جسکے بغیر خطبہ ناقص اور نا مکمل رہتا تھا۔

الدولة الأموية ، ص314 ، ط المكتبة العصرية ، بيروت ، 1423 هـ .

5- الإمام الحافظ احمد ابن محمد ابن الصديق الغماری :

اس نے كتاب الجواب المفيد للمسائل المستفيد میں لکھا ہے کہ:

وفي الصحيح ، صحيح مسلم عن علي عليه السلام قال : «ولذي فلق الحبة وبرأ النسمة إنه لعهد عهده إلي رسول الله صلي الله عليه وسلم : أن لا يحبني إلا مؤمن ولا يبغضني إلا منافق ».

وفي الصحيح الحاكم و غيره : «من سبّ عليا فقد سبّني ومن سبّني فقد سب الله» و من سبّ الله فقد كفر ، وفي الصحيح و غيره مما تواتر تواتراً مقطوعاً به : «من كنت مولاه فعلي مولاه اللهم وال من والاه وعاد من عاداه» ... والمقصود من هذه الأحاديث الصحيحة المتفق عليها مع ما تواتر من لعن معاوية لعلي علي المنبر طول حياته وحياة دولته إلي عمر بن عبد العزيز وقتاله وبغضه ، يطلع من أنه منافق كافر فهي مؤيدة لتلك الأحاديث الأخري۔

ويزعم النواصب أن ذلك (أعني لعن معاوية لعلي) كان اجتهاداً ، مع أن النبي صلي الله عليه وسلم يقول في مطلق الناس : «لعن المؤمن كقتله» فإذا كان الإجتهاد يدخل اللعن وإرتكاب الكبائر فكل سارق وزان وشارب وقاتل يجوز أن يكون مجتهداً ، فلا حد في الدنيا ولا عقاب في الآخرة .

کتاب صحیح مسلم میں یہ حدیث علی (ع) سے نقل ہوئی ہے کہ: اس خدا کی قسم کہ جس نے دانے کو شگاف کیا ہے اور انسان کو خلق کیا ہے، میں نے رسول خدا کو فرماتے ہوئے سنا تھا کہ: اے علی تم سے محبت نہیں کرے گا، مگر مؤمن اور تم سے دشمنی نہیں کرے گا، مگر منافق،

اور کتاب صحیح حاکم وغیرہ میں آیا ہے کہ رسول خدا نے فرمایا: جو بھی علی کو گالی دے گا تو اس نے مجھے گالی دی ہے اور جو مجھے گالی دے گا تو اس نے خدا کو گالی دی ہے اور جو خدا کو گالی دے گا، وہ کافر ہے۔

اور متواتر و صحیح احادیث سے یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ رسول خدا کی حدیث ہے کہ ان حضرت نے فرمایا: جس جس کا میں مولا ہوں، پس میرے بعد علی بھی اس اس کا مولا ہے، خدایا اس سے محبت فرما جو علی سے محبت کرے اور اس سے دشمنی فرما جو علی سے دشمنی کرے۔

ان صحیح احادیث سے اور اسی طرح علی پر سبّ و لعن اور معاویہ کا ان حضرت سے جنگ کرنا کہ جو عمر ابن عبد العزیز کے زمانے تک جاری رہی، یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ معاویہ، منافق اور کافر ہے، البتہ ان روایات کے علاوہ کوئی دوسری روایات ہیں کہ جو اسی نتیجے کی تائید و تصدیق کرتی ہیں۔

ناصبی کہ جو گمان کرتے ہیں کہ معاویہ یہ سارے کام اجتہاد کی وجہ سے انجام دیتا تھا، یہ اصل میں ان غلط بہانوں سے معاویہ کے دامن کو پاک کرنا اور پاک رکھنا چاہتے ہیں، ایسے کہ گویا ان ناصبیوں نے رسول خدا کے اس فرمان کو نہیں سنا کہ:

مؤمن پر لعنت و نفرین کرنا، اسکو قتل کرنے کے مترادف ہے،

لہذا اگر ہر جرم جیسے لعنت و نفرین یا گناہان کبیرہ کی اجتہاد کے ذریعے سے توجیہ کرنا صحیح ہو تو پھر ہر چور، زنا کرنے والا، شراب خوار اور قاتل اپنے جرم کو اجتہاد کے ذریعے سے توجیہ کر کے حدّ شرعی (سزا) سے فرار کر سکتا ہے تو اس سے دنیا میں شرعی سزا ملنا اور آخرت میں عذاب ہونا بالکل ختم ہو جائے گا۔

الجواب المفيد ، للسائل المستفيد ، احمد الغماري ، ص59 ، ط الأولي ، دار الكتب العلمية ،‌ بيروت ، 1423 هـ .

6- شيخ محمد ابن احمد ابو زہرة :

اس معروف مصری عالم نے كتاب الإمام زيد میں لکھا ہے کہ:

ولقد زاد القلوب بغضاً لحكام الأمويين ما كانوا يحاولون به من الغض من مقام علي رضي الله عنه ، فقد كان ذلك ديدنهم واستوي في ذلك السفيانيون والمروانيون .

فقد سنّ معاوية سنة سيئة في الإسلام وهي لعن إمام الهدي علي بن أبي طالب كرم الله وجهه علي المنابر ، بعد خطبة الجمعة ، وقد تضافرت علي ذلك أخبار المورخين ، فذكره ابن جرير في تاريخه وإبن الأثير وغيرهما .

ولقد نهاه علي تلك السنة السيئة بل تلك الجريمة الكبري الأتقيا من بقية الصحابة رضي الله عنهم ،‌و من هؤلاء السيدة أم سلمة زوج رسول الله صلي الله عليه وسلم وأم المؤمنين ، فقد أرسلت إليه كتاباً هذا نصه :

«إنكم تلعنون الله ورسوله علي منابركم وذلك أنكم تلعنون علي بن أبي طالب ومن أحبه ، وأشهد أن الله أحبه ورسوله » .

ولكن معاوية لم يلتفت إلي كلامها ، واستمر في غيه و قد استمر ذلك طول حكم الأمويين ولم يلغ إلا فترة حكم الحاكم العادل عمر بن عبد العزيز .

دل حکام اموی کے لیے کینے و دشمنی سے بھرے ہوئے ہیں، کیونکہ انھوں نے علی کے بلند مقام و منصب کا بالکل خیال نہیں رکھا اور انھوں نے ایسی سنت کی بنیاد رکھی تھی کہ جسے آل سفیان اور آل مروان نے انکے بعد بھی جاری رکھا تھا۔

معاویہ نے ایک بری سنت (بدعت) کہ منابر پر سبّ و لعن علی تھی کی بنیاد رکھی تھی، اس بارے میں مؤرخین جیسے ابن جریر اور ابن اثیر وغیرہ نے متعدد اسناد و دلائل کو ذکر کیا ہے۔



اب ہر گلی، چوک، ہر شاہراہ پر عدالتیں تو لگیں گیں -تمہاری نہ رکنے والی خونی پیچش اسی طرح جاری تھی،ہے اور تاقیامت رہے گی
یہ تو ہو گا
 

Syaed

MPA (400+ posts)

سیاہ ایڈ !
صد افسوس کہ جب امیر المؤمنین علی (ع) پر معاویہ ابن ابو سفیان کی طرف سے سبّ وشتم کرنے کی بات آتی ہے تو تعصب و مکمل نا انصافی سے کام لیتے ہوئے مختلف غلط بہانوں سے معاویہ کا دفاع کرتے ہیں، حالانکہ معاویہ نے اس کام کو ایک سنت میں تبدیل کر دیا تھا لیکن اسکے باوجود یہاں پر لفظ سبّ و لعن کی توجیہ کرتے ہوئے معاویہ کے نجس دامن پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیتے !

یہ کیسی انسانیت اور کیسا انصاف ہے کہ منبر سے امیر المؤمنین علی (ع) پر معاویہ کی طرف سے سبّ و شتم کرنا تو کوئی بات نہیں، لیکن ابو بکر اور عمر پر سبّ و شتم کرنے سے مسلمان، کافر بن جاتا ہے اور اسکی جان مال اور ناموس سب حلال ہو جاتا ہے ؟ !

کیا علی ابن ابی طالب (ع) رسول خدا (ص) کے صحابی نہیں تھے ؟

کیا علی ابن ابی طالب (ع) رسول خدا (ص) کے خلیفہ اور جانشین نہیں تھے ؟

کیا علی ابن ابی طالب (ع) رسول خدا (ص) کے داماد اور انکی بیٹی کے شوہر نہیں تھے ؟

علی ابن ابی طالب (ع) یہ سب کچھ تھے تو پھر ان پر سبّ و لعن کو کیوں شرعی اور قانونی رنگ دیا جاتا ہے اور جو ان پر اس بدعت کا آغاز کرتا ہے اور پھر اس بدعت کو سنت میں تبدیل کر دیتا ہے، اسے کیوں خال المؤمنین کا لقب دیا جاتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

امیر المؤمنین علی پر معاویہ لعین کی طرف سے سبّ و لعن کرنے کے حکم صادر کرنے اور اہل سنت کے بعض علماء کی طرف سے اس سبّ و لعن کی توجیہ کے بارے میں ذیل میں چند اہم مطالب ذکر کیے جا رہے ہیں :

رسول خدا (ص) اور امیر المؤمنین علی (ع) پر سبّ و لعن کرنے کا مسئلہ:
اصلی موضوع کو شروع کرنے سے پہلے واضح ہونا چاہیے کہ جو امیر المؤمنین علی (ع) پر سبّ و لعن کرے اور ان حضرت سے دشمنی کرے تو رسول خدا کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہے ؟

علی (ع) سے دشمنی کرنا منافقت کی علامت ہے:

مسلم نيشاپوری اور اہل سنت کے بہت سے بزرگ علماء نے لکھا ہے کہ:

عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ زِرٍّ قَالَ قَالَ عَلِيٌّ : وَالَّذِي فَلَقَ الْحَبَّةَ وَبَرَأَ النَّسَمَةَ إِنَّهُ لَعَهْدُ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ أَنْ لَا يُحِبَّنِي إِلَّا مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضَنِي إِلَّا مُنَافِقٌ .

علی (ع) نے فرمایا: خدا کی قسم یہ بات رسول خدا (ص) نے مجھ سے فرمائی تھی کہ مجھ سے محبت، صرف مؤمن کرے گا اور مجھ سے دشمنی، صرف منافق کرے گا۔

صحيح مسلم ، مسلم النيسابوري ، ج 1 ، ص 60 – 61

و فضائل الصحابة ، النسائي ، ص 17

و الديباج على مسلم ، جلال الدين السيوطي ، ج 1 ، ص 93

و المصنف ، ابن أبي شيبة الكوفي ، ج 7 ، ص 494

و كتاب السنة ، عمرو بن أبي عاصم ، ص 584

و السنن الكبرى ، النسائي ، ج 5 ، ص 47 و ج 5 ، ص 137

و صحيح ابن حبان ، ابن حبان ، ج 15 ، ص 367 – 368

و سير أعلام النبلاء ، الذهبي ، ج 12 ، ص 509 و

فتح الباري ، ابن حجر ، ج 7 ، ص 58 و

تحفة الأحوذي ، المباركفوري ، ج 10 ، ص 151و ...

قرطبی اور اہل سنت کے بہت سے بزرگان نے لکھا ہے کہ:

روي عن جماعة من الصحابة [أبي سعيد الخدري ، جابر بن عبد الله ، عبد الله بن مسعود و...] أنهم قالوا : ما كنا نعرف المنافقين على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا ببغضهم لعلي عليه السلام .

چند صحابہ جیسے ابو سعید خدری، جابر ابن عبد الله،‌ عبد الله ابن مسعود وغیرہ وغیرہ ... سے نقل ہوا ہے کہ رسول خدا (ص) کے زمانے میں ہم منافقین کو صرف علی (ع) سے دشمنی کرنے کی وجہ سے پہچانا کرتے تھے۔

تفسير القرطبي ، القرطبي ، ج 1 ، ص 267

و الدر المنثور ، جلال الدين السيوطي ، ج 6 ، ص 66 – 67

و نظم درر السمطين ، الزرندي الحنفي ، ص 102 و

تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 42 ، ص 284 – 285 و ج 42 ، ص 285 و ج 42 ، ص 286 و

مناقب علي بن أبي طالب (ع) وما نزل من القرآن في علي (ع) ، أبي بكر أحمد بن موسى ابن مردويه الأصفهاني ، ص 321 و ….

علی (ع) سے جنگ کرنا، رسول خدا (ص) سے جنگ کرنا ہے :

احمد ابن حنبل اور اہل سنت کے بہت سے علماء نے ابوہریرہ اور زید ابن ارقم سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا (ص) نے علی (ع) سے جنگ کرنے کو اپنے ساتھ جنگ کرنا قرار دیا ہے:

عن أبي هريرة وزيد بن أرقم : نَظَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى عَلِيٍّ وَالْحَسَنِ وَالْحُسَيْنِ وَفَاطِمَةَ فَقَالَ أَنَا حَرْبٌ لِمَنْ حَارَبَكُمْ وَسِلْمٌ لِمَنْ سَالَمَكُمْ .

ابی ہريره اور زيد ابن ارقم نے کہا ہے کہ: رسول خدا نے امام علی ، امام حسن ،‌ امام حسين اور حضرت فاطمہ عليہم السلام کی طرف دیکھ کر فرمایا: میری جنگ اس سے ہے کہ جو تم لوگوں سے جنگ کرے اور میری صلح اس سے ہے کہ جو تم لوگوں سے صلح کرے۔

مسند احمد ، الإمام احمد بن حنبل ، ج 2 ، ص 442

و المستدرك ، الحاكم النيسابوري ، ج 3 ، ص 149

و مجمع الزوائد ، الهيثمي ، ج 9 ، ص 169

و المصنف ، ابن أبي شيبة الكوفي ، ج 7 ، ص 512

و صحيح ابن حبان ، ابن حبان ، ج 15 ، ص 434

و المعجم الصغير ، الطبراني ، ج 2 ، ص 3 و

المعجم الكبير ، الطبراني ، ج 3 ، ص 40

و موارد الظمآن ، الهيثمي ، ج 7 ، ص 201

و تاريخ بغداد ، الخطيب البغدادي ، ج 7 ، ص 144

و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 13 ، ص 218 و ج 14 ، ص 157

و سير أعلام النبلاء ، الذهبي ، ج 2 ، ص 122 و ج 3 ، ص 257 – 258 و

تاريخ الإسلام ، الذهبي ، ج 3 ، ص 45 و ج 5 ، ص 99 و

البداية والنهاية ، ابن كثير ، ج 8 ، ص 223 و ....

علی (ع) پر سبّ (گالی دینا) کرنا، رسول خدا (ص) پر سبّ (گالی دینا) کرنا ہے:

عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجَدَلِيِّ قَالَ : دَخَلْتُ عَلَى أُمِّ سَلَمَةَ فَقَالَتْ لِي أَيُسَبُّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيكُمْ قُلْتُ مَعَاذَ اللَّهِ أَوْ سُبْحَانَ اللَّهِ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا قَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ سَبَّ عَلِيًّا فَقَدْ سَبَّنِي .

عبد الله جدلی کہتا ہے کہ میں ام المؤمنین ام سلمہ کے پاس گیا تو اس نے مجھ سے فرمایا: کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے کہ جو رسول خدا (ص) کو گالیاں دیتا ہو ؟ اس نے کہا: نعوذ باللہ، اس پر ام سلمہ نے فرمایا:

میں نے خود رسول خدا (ص) کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بھی علی کو گالی دے گا تو بے شک اس نے مجھے گالی دی ہے۔

مسند احمد ، الإمام احمد بن حنبل ، ج 6 ، ص 323

و خصائص أمير المؤمنين (ع) ، النسائي ، ص 99 و

تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج 42 ، ص 266

و تاريخ الإسلام ، الذهبي ، ج 3 ، ص 634

و البداية والنهاية ، ابن كثير ، ج 7 ، ص 391 و

المناقب ، الموفق الخوارزمي ، ص 149 و

جواهر المطالب في مناقب الإمام علي (ع) ، ابن الدمشقي ، ج 1 ، ص 66

حاكم نيشاپوری نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے:

هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه .

اس حدیث کی سند صحیح (معتبر) ہے لیکن اسکے باوجود بخاری اور مسلم نے اس حدیث کو اپنی اپنی کتاب میں نقل نہیں کیا !

المستدرك ، الحاكم النيسابوري ، ج 3 ، ص 121.

اور ہيثمی نے بھی کہا ہے کہ:

رواه أحمد ورجاله رجال الصحيح غير أبى عبد الله الجدلي وهو ثقة .

احمد ابن حنبل نے اس روایت کو نقل کیا ہے اور اسکے راوی، وہی کتاب صحیح بخاری کے راوی، غیر از ابی عبد اللہ جدلی کہ وہ بھی ثقہ و قابل اطمینان ہے۔

مجمع الزوائد ، الهيثمي ، ج 9 ، ص 130 .

امیر المؤمنین علی (ع) کو تکلیف دینا، رسول خدا (ص) کو تکلیف دینا ہے:

ہيثمی نے کتاب مجمع الزوائد میں سعد ابن ابی وقاص سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

قال: كنت جالساً في المسجد ، أنا ورجلان معي ، فنلنا من علي ، فأقبل رسول اللّه صلى اللّه عليه وسلم غضبان يعرف في وجهه الغضب ، فتعوذت باللّه من غضبه ، فقال: «ما لكم وما لي ؟ من آذى عليّاً فقد آذاني». رواه أبو يعلى والبزاز باختصار ورجال أبي يعلى رجال الصحيح غير محمود بن خداش وقنان، وهما ثقتان.

سعد ابن ابی وقاص کہتا ہے کہ میں اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ مسجد میں بیٹھا ہوا تھا، ہم نے علی کو برا بھلا کہا، رسول خدا (ص) نے غصے کی حالت میں ہماری طرف دیکھا کہ غضب انکے چہرے سے واضح نظر آ رہا تھا، پس میں نے انکے غضب سے خدا کی پناہ مانگی، ان حضرت (ص) نے فرمایا:

تمہیں مجھ سے کیا کام ہے ؟ (یعنی مجھے کیوں تکلیف پہنچاتے ہو) جس نے بھی علی کو تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف دی ہے۔

ابو یعلی اور بزار نے اس روایت کو مختصر طور پر نقل کیا ہے اور ابو یعلی کی نقل کردہ روایت کے راوی، کتاب صحیح بخاری کی اسناد والے ہی راوی ہیں، غیر از محمود ابن خداش اور قنان کے اور یہ دونوں بھی ثقہ و مورد اطمینان ہیں۔

مجمع الزوائد ، ج9 ، ص129

و تاريخ مدينة دمشق ، ابن عساكر ، ج42 ، ص204و

البداية والنهاية ، ج7 ، ص383 .

ابی بكر احمد ابن موسی ابن مردويہ اصفہانی اور علامہ شيخ بہا الدين ابو القاسم رافعی نے بھی لکھا ہے کہ:

عن جابر الأنصاري عن عمر بن الخطاب ، قال : كنت أجفو عليا ، فلقيني رسول الله ( صلى الله عليه وآله ) فقال : " إنك آذيتني يا عمر ! " . فقلت : أعوذ بالله ممن آذى رسوله ! قال : " إنك قد آذيت عليا ، ومن آذى عليا فقد آذاني " .

جابر ابن عبد الله انصاری نے عمر ابن خطاب سے روایت نقل کی ہے کہ میں علی کو برا بھلا کہا کرتا تھا کہ رسول خدا نے مجھے دیکھا اور فرمایا: اے عمر ! تم نے مجھے تکلیف پہنچائی ہے، عمر نے کہا: میں آپکو تکلیف پہنچانے سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں،

حضرت نے فرمایا: تم نے علی کو تکلیف پہنچائی ہے اور جس نے بھی علی کو تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف دی ہے۔

مناقب علي بن أبي طالب (ع) وما نزل من القرآن في علي (ع) ، أبي بكر أحمد بن موسى ابن مردويه الأصفهاني ، ص 81

و التدوين في أخبار قزوين ، ج1 ،‌ ص460 ، باب العين في الآباء

اب ہر گلی، چوک، ہر شاہراہ پر عدالتیں تو لگیں گیں -تمہاری نہ رکنے والی خونی پیچش اسی طرح جاری تھی،ہے اور تاقیامت رہے گی
یہ تو ہو گا

میں نے کب حضرت علی پہ ہونے والے سب و شتم کی حمایت کی اے خبیث باطن والے تکفیری؟؟؟؟
میں تو بہت عرصے سے یہ کہہ رہا ہوں کہ دراصل تم لوگ امیر معاویہ کے پیروکار زیادہ ہو اور حضرت علی کے کم۔دوسری بات یہ کہ میں نے تمہیں کب روکا ہے گالیاں دینے سے؟اگر تمہارا مذہب گالیاں دینے کی ترغیب دیتا ہے اور یہ تمہارے اوپر واجب ہے تو میں ایسے مذہب کے بارے کیا کہہ سکتا ہوں مگر پھر انصاف سے کام لے کر ایسے مذہب کو حضرت علی سے مت جوڑو کیونکہ حضرت علی کبھی بھی گالیاں نہیں دے سکتے۔
تم شاید انہی لوگوں کی پیروی کررہے ہو جو کوفہ میں توا بین کہلواتے تھے اور شہادت حسین کے فوری بعد رو دھو کر اپنے اعمال کے لیے توبہ کرتے تھے۔
حضرت معاویہ کے دور میں بہت سارا کچھ غلط ہوا تھا مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اس سے تمہاری طرح ہوگئے؟انہوں نے ایمان کی حالت میں آقا کو دیکھا تھا شاید اسی بہانے اللہ ان کی خطائیں معاف فرمائے مگر تمہارے پاس ایسی کوئی فضیلت نہیں سو جو بھی کرنا چاہو کرو مگر فرقہ واریت والی متعفن قے یہاں سب کے سامنے مت کیا کرو ۔
ہم سے قبر میں یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ معاویہ کے بارے میں کیا کہتے ہو یا فلاں حدیث میں کیا لکھا ہوا تھا ویسے بھی معاویہ پہ اگر کچھ بھی کہوگے تو بنی ہاشم کے ان لوگوں کے بارے میں کیا کہوگے جنہیں معاویہ سے وظیفے ملتے تھے یہاں تک کہ یزید کے دور تک اور اس کے بعد بھی ملتے رہے؟عرب معاشرت میں نہ دوستی مستقل ہوتی ہے نہ ہی دشمنی مگر چونکہ تمہیں اس چیز کا ادراک نہیں ہے اس لیے ایرانیوں کی طرح لمبے چوڑے بھاشن جھاڑتے ہو جن کا نہ سر ہوتا ہے اور نہ ہی پیر!ہمارا سیدھا سیدھا ایمان آقا اہل بیت اور اصحاب پہ ہے اور رہے گا تمہارا ایمان کچھ اور ہے تو زبردستی دوسروں پہ زاکرین مت جھاڑو۔تم حضرت علی کو کچھ بھی مانو ہم انہیں آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا داماد،خاتون جنت کا شوہر اور چوتھا خلیفۂ عادل و راشد مانتے ہیں اب تم خدا مانو یا انبیاء سے افضل مانو اس کے جواب دہ تم خود ہو۔
اپنی نفرت اور تعصب کی قبض کا علاج کروا لو اور اچھی زندگی گذارنا شروع کردو۔
And finally,plz go through my last post on this thread
Again and again
Again and again
Again and again

thrice a day for your constipation ?
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)
بخاری نامہ:-

اکثر مسلمان قران کریم کے بعد جس کتاب کو مزہبی حیثیت میں سب سے زیادہ مستند سمجھتے ہیں وہ صحیح بخاری ہے مگر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ قران کی طرح اکثر مسلمان صحیح بخاری پر بھی سنا سنایا ایمان رکھتے ہیں خود پڑھنے کی توفیق نہی کرتے۔ اگر مسلمان صحیح بخاری پڑھ لیں تو انہیں علم ہو گا کہ یہ کتاب بہت سی ایسی حدیثوں سے بھری ہوئ ہے جن سے شان حضرت محمد پر اور شان پیغمبروں پر انگلی اٹھتی ہے۔ پھر ایسی حدیثیں بھی رقم کی ہیں جن سے شان صحابہ اور امہات المومنین بھی گھٹتی ہے۔ بخاری صاحب نے صحیح بخاری میں یہ بھی ثابت کیا ہے کہ قران کریم محفوظ نہی اس میں تحریفات ہوئ ہیں۔ اوپر سے اس کتاب میں انہوں نے بہت سی ایسی احادیث بھی بیان کی ہیں جو قران سائنس اور عقل کے بھی خلاف ہیں۔ اس کتاب میں بہت سی حدیثیں خود آپس میں بھی متصادم ہیں۔ مکمل کتاب کا پوسٹ مارٹم تو ممکن نہی کہ ساڑھے سات ہزار حدیثوں پر مشتمل ہے پر زیل میں ایک مختصر سی جھلک ضرور دکھائ جا سکتی ہے:-

1۔ بخاری کی نظر میں شان مصطفوی:-
بخاری 6982 کے مطابق رسول اللہ نے کئ بار خود کو پہاڑ سے گرا کر خود کشی کرنے کی کوششیں کیں۔ حدیث 3392 میں کہتے ہیں رسول اللہ کو نبوت کا یقین ورقہ بن نوفل نے دلوایا۔ بخاری 2788 اور 2789 میں لکھا ہے رسول اللہ کے سر سے جوئیں نکالی جاتی تھیں۔ بخاری 2691 میں صاحب بیان کرتے ہیں رسول اللہ کے گدھے سے اتنی بدبو آ رہی تھی کہ ایک بدو سردار کو کہنا پڑ گیا مجھ سے تھوڑا دور رہو ہمیں بدبو سے تکلیف پہنچ رہی ہے۔ حدیث نمبر 25 اور 392 میں بخاری صاحب لکھتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا مجھے حکم ہے لوگوں سے اسوقت تک قتال کرتا رہوں جب تک سب اسلام قبول نہی کر لیتے۔ رسول اللہ کی چھے سالہ بچی سے نکاح اور نو سال کی عمر میں رخصتی کا بیان بخاری صاحب حدیث 3894 میں بیان کرتے ہیں۔ حدیث 3012 میں رسول اللہ دشمن کے عورتوں اور بچوں کے قتل کو جائز ٹہراتے نظر آتے ہیں تو حدیث 2326 اور 3021 میں مخالف کے باغات کٹواتے جلاتے نظر آ رہے ہیں۔ بخاری حدیث نمبر 300 میں رسول اللہ حائضہ عورت سے مباشرت کرتے ملتے ہیں۔ بخاری 804اور 1020 اور 2932 کے مطابق رحمت العالمین اپنے مخالفین کے لیے بددعائیں کرتے رہتے تھے۔ حدیث 3022 اور 3016 اور 3032 اور 4037 میں رسول اللہ لوگوں کے قتل کا حکم ڈائریکٹ دے رہے ہیں۔ بخاری 1501 کہتی ہے رسول اللہ نے فرمایا اونٹ کے پیشاب میں شفا ہے۔ بخاری 1694 کے حساب سے رسول اللہ نے قربانی کے جانوروں کو اشعار بھی کیا اور 1706 کے حساب سے جوتوں کے ہار پہنے قربانی کے اونٹ کے ساتھ چلتے بھی رہے۔ بخاری کی حدیث 2230 اور 2141 میں رسول اللہ غلام بیچتے ملتے ہیں۔ بخاری حدیث 2592 کے مطابق رسول اللہ نے اپنی ایک زوجہ سے فرمایا لونڈی کو آزاد کرنے کے بجائے ننھیال میں دے دیںتیں تو زیادہ ثواب ملتا۔ بخاری 2375 کے حساب سے حضرت حمزہ نے ایک انصاری کے گھر محفل سجا رکھی تھی شراب شباب سب موجود تھے شراب کے نشے میں حضرت حمزہ نے حضرت محمد اور حضرت علی کو کہا تم کون ہوتے ہو میری سرزنش کرنے والے تم سب میرے باپ دادا کے غلام ہو۔ حدیث 2858 میں بخاری رسول اللہ کی زبان سے عورت کو منحوس قرار دے رہے ہیں جہاں وہ بول رہے ہیں کہ نحوست صرف تین چیزوں میں ہوتی ہے گھوڑے عورت اور مکان میں۔ بخاری 3621 میں رسول اللہ فرماتے ہیں دنیا میں بہترین بات کرنے والے موجود ہونگے مگر اسلام سے نکل چکے ہوں گے تو انہیں جہاں پاو قتل کر دو۔بخاری 3516 کے مطابق رسول اللہ سے ان لوگوں نے بیعت کی جو حاجیوں کا سامان چرایا کرتے تھے۔
2۔ بخاری صاحب پیغمبروں کی شان میں:-
بخاری 2819 میں ہے حضرت سلیمان ایک رات میں سو بیویوں سے ہمبستری کرتے تھے۔ بخاری 3019 بتاتی ہے ایک چیونٹی نے ایک نبی کو کاٹ لیا تو نبی کے حکم سے چیونٹیوں کے سارے گھر جلا دئیے گئے۔بخاری 1339 میں لکھا ہے حضرت موسی نے تھپڑ مار کر ملک الموت کی آنکھ پھوڑ دی۔ بخاری 3358 بتاتی ہے ابراہیم جھوٹ بولتے تھے۔ حدیث نمبر 3404 بتاتی ہے بنی اسرائیل سمجھتے تھے حضرت موسی کے خصیے نہی ہیں، ایک دن موسی نہا رہے تھے تو ایک پتھر انکے کپڑے لے کر بھاگ گیا۔ حضرت موسی ننگے ہی پتھر کے پیچھے بھاگنے لگے اس اثنا میں بنی اسرائیل نے انکے خصیے دیکھ لیے۔
3۔ بخاری صاحب شان صحابہ اور شان امہات المومنین پر:-
بخاری 2920 میں لکھا ہے عبدالرحمن بن عوف اور زبیر بن العوام جووں کی شکایت کرتے تھے۔ بخاری 1815 کیمطابق ایک صحابی کے سر سے جوئیں گر رہی تھیں اس پر باقائدہ ایک آیت بھی نازل ہوئ۔ بخاری 421 میں حضرت عباس کی مال کے لیے حرص بیان کی گئ جس نے رسول اللہ کو بھی حیران کر دیا۔ 3017 میں لکھا ہے حضرت علی نے ایک قوم کو زندہ آگ میں جلوا دیا تھا۔ بخاری صاحب حدیث 1785 اور1651 میں لکھتے ہیں صحابہ نے کہا کہ ہم منیٰ میں اس طرح جائیں گے کہ ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہو۔ حدیث2545 میں لکھتے ہیں حضرت ابوزر غفاری اور حضرت بلال کے درمیان گالم گلوچ ہوئ۔ حدیث نمبر 132 میں فرماتے ہیں حضرت علی کو جریان مزی کی شکایت تھی۔ حدیث 251 میں لکھا ہے حضرت عائشہ نے ابو سلمہ اور اپنے بھائ کے سامنے غسل کیا۔ بخاری حدیث 310 کہتی ہے امہات المومنین میں سے ایک خون اور حیض کی زردی کے ساتھ اعتکاف میں بیٹھتی تھیں اور نماز پڑھتی تھیں۔ حدیث 3092 میں لکھا ہے حضرت فاطمہ رسول اللہ کی وفات کے بعد تاحیات حضرت ابوبکر سے ناراض رہیں۔ بخاری 312 ایک ام المومنین کی وساطت سے بتاتی ہے انکے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا، جسے وہ حیض کے بوقت پہنتی تھیں۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس تھوک ڈال لیتیں اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتیں۔ بخاری 3129 اور 4992 بتاتی ہے صحابہ کرام آپس میں لڑتے تھے۔
4۔ بخاری صاحب نے ثابت کیا قران محفوظ نہی اس میں تحاریف ہوئ ہیں:-
صحیح بخاری 3742 کے حساب سے سورہ الیل کی آیت تین میں اضافہ ہوا ہے یہ ویسی نہی رہی جیسے رسول اللہ اور انکے صحابی پڑھتے تھے۔ صحیح بخاری 6829 اور 6830 میں عمر کا بیان ہے کہ آیات رجم اللہ کی طرف سے نازل ہوئیں مگر آج ہم قران میں نہی پاتے تو کوئ کہیں گمراہ ہو کر رجم سے رک نہ جائے۔ صحیح بخاری 4725 میں سورہ کہف کی ایک آیت میں تحریف کا زکر ملتا ہے جسے ابن عباس کسی اور طریقے سے پڑھا کرتے آج ہم کسی اور طریقے سے پڑھتے ہیں۔ سورہ کہف کی آیت نمبر79 اور 80 میں آج جو ہم پڑھتے ہیں وہ کچھ ایسا ہے:
79: مَّلِكٌ يَأْخُذُ كُلَّ سَفِينَةٍ غَصْبًا
80: وَأَمَّا الْغُلَامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ
صحیح بخاری میں بخاری صاحب نے 4725 حدیث کے تحت سعید بن جبیر سے ایک طویل روایت نقل کی ہے جس کے آخر میں ہم پڑھتے ہیں قال فكان ابن عباس يقرأ وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصباوكان يقرأ وأما الغلام فكان كافرا وكان أبواه مؤمنين‏.‏‏‏‏
سعید بن جبیر نے کہا کہ ابن عباس یوں پڑھتے "وكان أمامهم ملك يأخذ كل سفينة صالحة غصبا" اور یوں پڑھتے "وأما الغلام فكان كافرا وكان أبواه مؤمنين" یہ آج کے قران سے مختلف ہیں۔ بخاری 4977 میں عبداللہ بن مسعود معوزتین کو قران کا حصہ سمجھنے سے انکاری ہیں۔ بخاری 2801 میں حضرت انس کی بیان کی گئ ایک آیت آج ہم قران میں نہی پاتے جو لوگ رسول اللہ کے زمانے میں قران کا حصہ سمجھ کر پڑھا کرتے تھے۔

5۔ صحیح بخاری کی چند حدیثیں جو خلاف قران ہیں:
قران میں مرتد کی کوئ دنیاوی سزا نہی(آل عمران:86-88، النساء: 137) بخاری حدیث 3017 مرتد کی سزا موت بیان کرتی ہے۔ قران میں بلاتخصیص شادی شدہ یا غیر شادی شدہ زانی کی سزا درے ہیں(نور:2) مگر بخاری حدیث 4418 نے قران کو پس پشت ڈال کر سنگساری کو اسلامی قانون کا حصہ بنا ڈالا ہے۔ قران میں کتے کا زکر اللہ کے برگزیدہ بندوں کے ساتھ کیا گیا ہے(الکہف:22) شکاری جانوروں کا،جن کو سدھایا جاتا ہے، منہ پکڑا شکار کھانے کی اجازت ہے(المائدہ:5) مگر بخاری حدیث 3227 میں جبرائیل اس گھر نہی داخل ہوتے جدھر کتے ہوں۔ قران میں عورت حکمران کا زکر ہے جو ایک ایسی قوم کی حکمران تھی جسکے پاس ہر چیز تھی (نمل:30) بخاری حدیث 4425 کہتی ہے اس قوم نے فلاح نہ پائ جس پر عورت حکمران ہوئ۔ قران میں حوا کا آدم کو بہکانے کا کوئ زکر نہی بلکہ نام ہی نہی۔ بخاری حدیث 3330 میں لکھا ہے اماں حوا نہ ہوتی تو کوئ عورت اپنے شوہر سے دغا نہ کرتی۔ قران میں حائضہ عورت سے دور رہنے کا حکم ہے (البقرہ:222) مگر حدیث 300 میں بخاری صاحب نے حائضہ سے مباشرت بھی جائز بنا دی ہے۔ قران میں اللہ کہتا ہے اگر ہم چاھتے تو سب ہی ایمان لے آتے تو کیا تم زبردستی کرو گے کہ سب ایمان لے آئیں (یونس:99) مگر بخاری اپنی حدیث 25 میں لکھتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا مجھے لوگوں سے اس وقت تک قتال کا حکم ہے جب تک اللہ رسول پر ایمان نہ لائیں اور نماز زکات نا. شروع کر دیں... قران میں ہے یتیم لڑکے لڑکیوں کی شادی بالغ ہونے کے بعد کرو(النساء:6) جبکہ بخاری کی حدیث 3894 کہتی ہے چھے سال کی لڑکی سے نکاح جائز نو برس کی عمر میں رخصتی جائز۔ قران میں اللہ کہتا ہے قران کی حفاظت میرا زمہ ہے(الحجر:9) مگر بخاری کے مطابق قران میں تحاریف ہوئ ہیں ( کچھ تفصیل اوپر بیان کر دی گئ ہے)۔ قران میں نکاح متعہ یعنی حق مہر کے بدلے باہمی رضامندی والے سمجھوتے کی اجازت ہے(النساء:24) بخاری حدیث 5115 میں پہلے متعہ کی اجازت تھی بعد میں ختم کر دی گئ۔
6۔ صحیح بخاری کی سائنس:-
بارش کب ہو گی اور ماں کے پیٹ میں کیا ہے کوئ نہی جانتا(1039)۔ زمین پر موسم دوزخ کے سانس لینے سے بدلتے ہیں جب دوزخ سانس باہر نکالتی ہے تو گرمی کا موسم اور جب سانس اندر کھینچتی ہے تو سردیاں آتی ہیں(بخاری:537)۔ بخار جہنم کی بھاپ سے ہے(5723)۔ سورج شیطان کے سینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے(3273)۔ سورج چاند گرہن کے زریعے اللہ بندوں کو ڈراتا ہے (104)۔ جمائ شیطان کیطرف سے ہوتی ہے(6223)۔ کھانا اور گوشت اس لیے خراب ہو جاتا ہے کہ اللہ نے بنی اسرائیل قوم کو پیدا کیا(3399)۔ مکھی کھانے میں گر جائے تو پوری طرح ڈبو کر نکال دو، اسکے ایک پر میں بیماری اور دوسرے میں شفا ہوتی ہے(5782)۔ جس نے ہر دن صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھا لیں، اسے اس دن نہ زہر نقصان پہنچا سکے گا اور نہ جادو(5445)۔ سورج رات کو عرش کے نیچے جا کر سجدہ کرتا ہے اور دوبارہ طلوع ہونے کی اجازت چاھتا ہے(3199)۔ سانپوں کو مار ڈالا کرو سانپ حمل کو گرا دیتے ہیں(3297)۔ چھوت کی بیماری کوئ چیز نہی(5770)۔
7۔ صحیح بخاری کی کچھ خلاف عقل حدیثیں:-
بچہ بد بخت ہے یا نیک بخت فرشتہ ماں کے پیٹ میں ہی یہ
باتیں لکھ دیتا ہے(318)۔ جو لوگ نماز میں آسمان کیطرف دیکھتے ہیں انکی بینائ اچک لی جائے گی(750)۔ پروردگار ہر رات کو اس وقت آسمان دنیا پر آتا ہے جب رات
کا آخری تہائی حصہ رہ جاتا ہے(1145)۔ زنا اور چوری کرنے والے بھی جنتی ہیں اگر مشرک نہ ہوں (1237)۔ اللہ مردے پر اسکے گھر والوں کے رونے کی وجہ سے عزاب کرتا ہے (1290، 1289)۔ جس قوم کے گھر میں کھیتی باڑی کے اوزار داخل ہوتے ہیں تو اپنے ساتھ ذلت بھی لاتے ہیں(2321)۔ بیل اور بکریاں انسانوں سے باتیں کرتے ہیں(2324)۔ خدا قتل کرنے والے اور قتل ہونے والے دونوں پر ہنسے گا قاتل اور مقتول دونوں کو جنت میں ڈال دے گا (2826)۔ گھروں میں رہنے والے سانپ جن ہوتے ہیں(3298)۔
اسکے علاوہ صحیح بخاری میں بہت سی ایسی احادیث ہیں جو خود صحیح بخاری کی احادیث سے متصادم ہیں بیشمار مافوق الفطرت واقعات پر مبنی ہیں مضمون کی مزید طوالت سے بچنے کے لیے اجتناب کیا جاتا ہے ان چند جھلکیوں کو کافی سمجھا جائے
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)
ابے او گھوڑے کے پجاری،یہ فورم تمہاری نفرت کے پرچار کے لیے نہیں ہے چوتیے کہیں کے۔گند پہ بیٹھنے والی مکھی کی طرح اس زاکر نے سارے متنازع حوالے رٹے ہوئے ہیں مگر اسے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ مکتب اہل سنت کے آئمۂ و محدثین انسان سمجھے جاتے ہیں مافوق الفطرت یا معصوم عن الخطا ء نہیں۔امام بخاری پہ نعوز باللہ کوئی وحی نہیں نازل ہوتی تھی کہ وہ کوئی غلط احادیث جمع ہی نہیں کرسکتے تھے اگر اسی طرح کے حوالے اہل تشیع کی کتابوں سے دینا شروع کریں تو کوئی پڑھ بھی نہیں سکے گا شاید۔
تمہارے زاکر تو مولا علی کو اللہ کا خالق قرار دے دیتے ہیں اور اکثر تو مولا علی کو باقی انبیاء سے بھی افضل سمجھتے ہیں جس کا فائدہ قادیانی اٹھاتے ہیں۔
ایک بات تم تینوں چوتیے سمجھ لو جو تمہاری واہیات سوچ ہے اسے سب پہ کیوں مسلط کرنا چاہتے ہو؟
میں نہیں چاہتا کہ اہل تشیع بھائیوں کی تم جیسے بے غیرتوں کی وجہ سے دل آزاری ہو وگرنہ تمہاری کتابوں سے اتنے حوالے ہیں کہ وہ کامیڈی ختم ہی نہ ہو۔
میں فرقہ وارانہ بک بک کرنے پہ تمہیں رپورٹ کررہا ہوں اور تمہاری بک بک اگنور کر رہا ہوں اب جلتا رہے تمہارا غلیظ پچھواڑہ
!
ابھے دوسروں کو چوتیا چوتیا کہ کر بلا رہا ہے خود کیا ہے ؟ تو کدھر سے نکلا ہے اور اگر تو چوتیا نہیں تو پھر بھوسڑی کا ہے ؟ اس کا جواب دے کنجر لوگوں کو گالیاں دے رہا ہے لائنز ایریا کے بند کباب
 
Last edited:
Status
Not open for further replies.