maksyed

Siasat.pk - Blogger
یہ حقیقت ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اپنی منزل کا تعین کیے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ منزل کے تعین کے بغیر جو قومیں بھی زندگی گزارنے کی کوشش کرتی ہیں وہ تاریخ کے اوراق میں گم ہوجاتی ہیں میں تاریخ اور فلسفے کا طالب علم ہوں اس لیے یہ کہوں گا کہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ[HI] جو قومیں اپنی منزل کو حاصل کرکے اس کے مقاصد کو[/HI]بھول جائیں تو ان کا انجام کبھی اچھا نہیں ہوتا اور آج جب کہیں لسانیت ۔ کہیں قومیت ۔ کہیں فرقہ بندی ۔ کہیں گروہ بندی ۔ کہیں برادری ازم میں تقسیم در تقسیم ہورہے ہیں اور جس معاشرے کی بے حسی کا یہ عالم ہو کہ وہ روزانہ شام کو لاشوں کی گنتی کرتا ہو اور ارباب اختیار یہ کہہ کرتضحیک کرتے ہوں کہ یہ تو اپنی بیویوں اور گرل فرینڈ کے ہاتھوں مارے گئے ہیں یا فخریہ کہیں کہ آج تو ٹارگٹ کلنگ کم ہوئی ہے یہ اس معاشرے کی بے حسی ۔ بے بسی کی آخری انتہا ہے۔ ہماری بد قسمتی تو یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں نے نہ صرف منزل کا تعین کرلیا تھا بلکہ اپنی جرات مند قائدانہ صلاحت کی بدولت منزل کو حاصل بھی کرلیا تھا لیکن ہم نے اپنی احمقانہ پالیسیوں ذاتی مفاد کی خاطر ان تمام قربانیوں پر پانی پھیر دیا .

جب قائد اعظم محمد علی جناح جو انگلستان سے وکالت کرکے آئے جن کو آج کے دور میں آزاد خیال تصور کیا جاتا ہے انہوں نے بھی متحدہ ہندوستان کی خاطر کانگریس میں شمولیت اختیار کی مگر جلد ہی انہوں نے ہندو فلسفے کی بنیاد بغل میں چھری اور منہ میں رام رام کو بھانپ لیا اور کانگریس سے علیحدگی اختیار کرکے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کرکے دو قومی نظریہ پیش کیا یہاں تک کہ 1944 اور 1945 میں قائد اعظم جیسے قانون پسند اور آزاد خیال لیڈر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ آج میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے تمام آئینی راستوں کو گڈ بائی کہتا ہوں ۔ اگر آج میں ان تمام کی تفصیل میں جاوں تو شاید ایک کتاب بھی کم پڑ جائے لیکن آج صرف حالیہ صورتحال کی مختصر جائزہ لیں گے اور منزل کی تلاش کرنے کی کوشش کروں گا کہ ہم کیسے اس مقصد سے ہٹ گئے جوبرصغیر کے مسلمانوں نے 1940 کی قرارداد پاکستان میں طے کیے تھے اور کس طرح ہم ایک قوم تقسیم در تقسیم ہوتے گئے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قائد اعظم اور لیاقت علی خان کی وفات کی بعد سب سے پہلے ہم نے اپنے تعلیمی اداروں سے اور اپنے نصاب سے آہستہ آہستہ تحریک پاکستان کے اکابرین اور اسلامی تعلمات اور قائد اعظم کے فلسفے یعنی اتحاد ۔ تنظیم اور یقین کو خارج کردیا جس سے ایک قوم کئی قوموں میں تقسیم ہوگئی پھر خدا و رسول ﷺ کے پیروکار کئی گروہوں میں تقسیم ہوگئے حتیٰ کہ اس قدر تقسیم در تقسیم ہوئے کہ آج ہم اپنی شناخت بھی بھول گئے ہیں اور اس کے نتائج ہم اس طرح بھگت رہے ہیں کہ نہ مرنے والے کو پتا ہے کہ میں کیوں مرر رہا ہوں اور نہ ہی مارنے والے کو پتا ہے کہ میں اس شخص یا انسان کو کیوں مار رہا ہوں۔

آج ہمارا یہ لہولہان ملک ہمیں پکار پکار کر یہ کہہ رہا ہے کہ اپنی منزل کی طرف لوٹ آو اور اس کے لیے ہمیں سب سے پہلے اپنی اور اپنے اداروں کی اصلاح کرنی ہوگی کیونکہ اپنی اصلاح ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بچے کی پہلی یونیورسٹی اس کی ماں کی گود کو قرار دیا گیا تھا لیکن وہ یونیورسٹی جو حضرت امام حسین ، حضرت امام حسن، خالد بن ولید، طارق بن زیاد ، صلاح الدین ایوبی ، محمد بن قاسم اور اپنے ماضی کو جھانک لیں۔ قائد اعظم ، سردار عبد الرب نشتر، علی برادران ، راجہ صاحب محمودآباد ، علامہ اقبال ، حسرت موہانی وغیرہ پیدا کیے جنہوں نے مقصد کو زندگی بنایا نہ کہ زندگی کو مقصد بنایا لیکن بد قسمتی سے آزادی نسواں اور ماڈرن ازم کے نام پر عورت نے اپنے بچوں کو پہلے ملکی آیاوں اور اب غیر ملکی آیاوں کے حوالے کرکے خود شمع محفل بن گئیں ہیں جس کے عملی نتائج یہ نکلے کہ اب ہماری نوجوان نسل کو نہ تحریک پاکستان کا پتا ہے اور نہ ہی اسلامی تعلیمات کا پتا ہے جس کا عملی ثبوت میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک نجی tv پر دیکھا کہ میزبان نے کراچی کے تین یا چار بڑے مشہورماڈرن تعلیمی اداروں کیo لیول اور a لیول کے طالبعلموں سے پاکستان کے قومی ترانے کی چند لائنیں سنانے کو کہا تو کوئی بچہ سنا نہ سکا اور سناتا بھی کیسے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کہ اس کے ذہن سے پاکستان اور نظریہ پاکستان کی پہچان ہی ختم کردی اور ظلم کی حد تو یہ ہے کہ غیر محسوس طریقے سے اسکولوں کی کاپیوں کے بیک سائڈ پہ چھپنے والی علامہ اقبال کی دعا لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری اس کو بھی ختم کردیا تو پھر اس کے نتائج یہی آنے تھے جو آج ہم بھگت رہے ہیں کیونکہ فصل تو وہی اگتی ہے جوہم نے بویا ہوتا ہے دوسرا وار ہمارے اداروں پر کیا گیا کیونکہ جس معاشرے میں اداروں کا وجود نہ ہو اور ادارے مضبوط نہ ہوں وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا اور ظلم یہ ہے کہ آج دنیا کے جو حکمران بھی اپنے ملک کے اداروں کے سامنے سر جھکاتے ہیں وہ ہمارے ارباب اختیار کو اداروں کو ختم کرنے پر لگا دیتے ہیں کیونکہ انہیں احساس ہے جس دن اس ملک میں ادارے مضبوط ہوگئے اور احساس جوابدہی پیدا ہوگیا جیسا کہ ہماری اسلامی تاریخ میں ایک عام بدو کھڑا ہو کر خلیفہ وقت سے جواب طلب کرسکتا تھا کہ اے عمر رضی اﷲ تعالی عنہ جو کپڑا بیت مال سے ملا تھا اس سے آپ مکمل جوڑا ( سوٹ) نہیں بن سکتا تھا پھر آپ نے یہ جوڑا کیسے بنالیا تو خلیفہ وقت نے یہ نہیں کہا کہ میں بادشاہ وقت ہوں مجھے قانونی استثنیٰ حاصل ہے بلکہ انہوں نے وضاحت پیش کی، اسی طرح وہ مسلمان جرنیل جس نے پورا فلسطین فتح کیا تھا اس لیے حج کا فریضہ ادا نہ کرسکا کیونکہ کی اس کے پاس حج ادا کرنے کے پیسے نہیں تھے مگر وہ اپنے آپ کو تاریخ میں رقم کراگیا-

کہنے کا مطلب یہ ہے آج بھی ہم تاریخ سے سبق حاصل کرنا چاہیں تو دنیا میں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ دنیا سے سب نے خالی ہاتھ ہی جانا ہے چاہے دنیا میں وہ کڑوروں کی گاڑیوں میں سفر کریں مگر تاریخ بڑی ظالم ہے اور وہ کسی کو بھی نہیں بخشتی آج کی تاریخ میں کوئی نہ کوئی ایک مثال بھی ایسی پیش نہیں کرسکتا جس کے حکمرانوں اور جرنیلوں نے دنیا کی عیش و عشرت کو اپنا مقصد بنایا ہو تو تاریخ نے بھی اسے ایسا بھلادیا کہ آج کوئی ان کے نام سے بھی واقف نہیں لیکن جہنوں نے اپنی زندگی کا مقصد اپنے نظریہ اور دین کو بنایا تو وہ مرنے کے باوجود آج امر ہیں بے شک انہیں تاریخ سے مٹانے اور بھلانے کی کتنی کوشش کیوں نہ کی جائیں وہ انمٹ ہیں اور رہیں گی اور یہی آج یوم آزادی کا پیغام ہے کہ ہم پھر اس منزل کو اپنا مقصد بنالیں جس کا خواب محمد علی جناح اور علامہ اقبال نے برصغیر کے کڑوروں مسلمانوں کی قربانیوں سے حاصل کیا تھا اس کے لیے ہمیں اپنی ترجیحات بدلنی ہوںگی جس کی ابتد پہلے گھر سے پھر اپنے تعلیمی نصاب اور تعلیمی اداروں سے اس کے بعد قومی اداروں کو مضبوط بنانا ہے ۔