چند گزارشات:
اخراجات میں بچت کی مہم میں حکومت نے موٹر وے پولیس کو یہ حکم جاری کیا تھا کہ پٹرولنگ پر فائز ہر گاڑی کو اب صرف دس لٹر پٹرول ملے گا یعنی ۸ گھنٹے کی شفٹ میں ایک گاڑی صرف سو سے ایک سو بیس کلومیٹر ہی چل سکتی ہے جبکہ باقی وقت یہ لوگ ایک ہی مقام پر گاڑی کھڑی کر کے گزارتے ہیں۔ دراصل اب یہ موٹر وے اسسٹنٹ اس سے بھی آدھا سفر طے کرتے ہیں تاکہ باقی پٹرول بچا کر اس سے کھڑی گاڑی میں انتہا کی گرمی میں ائیرکنڈیشن چلا سکیں۔
اس سے ہوا یہ کہ پاکستانی شاہراہوں پر پٹرولنگ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور وہ موٹر وے پولیس جو ایک اچھا اور مددگار ادارہ سمجھا جاتا تھا وہ اب سفید ہاتھی بن کر رہ گیا ہے۔
ہونا تو یہ تھا کہ حکومت بچت اپنی شاہ خرچیوں پر کرتی اور جہاں ضرورت ہے وہاں خرچ کرتی لیکن حکومت کی پرائیرٹیز بلکل غلط اور نامناسب ہیں۔ اگر از حد مجبوری بھی تھی تو موٹر وے کے ٹول ٹیکس میں دس روپئے اضافہ کردیا جاتا تو ان سڑکوں پر موجود موٹر ویے پولیس کے پیسے نکل آتے ۔
۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ حکومت کو کسی بھی شاہراہ کا افتتاح صرف اس وقت کرنا چاہیئے جب اس کے سارے لوازمات بشمول پٹرولنگ ڈِپلائمنٹ ہو چکی ہو اور اس پر پٹرول پمپس فنکشنل ہو جائیں۔ سکھر ملتان موٹر وے کو بھی اس حالت میں کھولا گیا کہ وہاں نہ کوئی ریسٹ پلیس اور نہ ہی پٹرول پمپ موجود تھا۔ تین سو کلومیٹر کی شاہراہ کا پٹرول پمپ کے بغیرکھول دینا بیوقوفی سے کم نہی۔
۔
تیسری گزارش یہ کہ موٹر ویز پر انٹرچینجز اور ریسٹ ایریاز پر موجود دوکاندار اور ورکشاپس کے کنٹرول کے لئے کوئی بندوبست کیا جانا لازمی ہے۔ ایسے بیسیوں شکایات آچکی ہیں کہ لوگ ٹائر میں ہوا بھروانے کو رکیں تو وہاں موجود مافیا ان کے ٹائرز میں کٹ لگا کر انہیں نئے ٹائرز دوگنی قیمت پر خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔
اخراجات میں بچت کی مہم میں حکومت نے موٹر وے پولیس کو یہ حکم جاری کیا تھا کہ پٹرولنگ پر فائز ہر گاڑی کو اب صرف دس لٹر پٹرول ملے گا یعنی ۸ گھنٹے کی شفٹ میں ایک گاڑی صرف سو سے ایک سو بیس کلومیٹر ہی چل سکتی ہے جبکہ باقی وقت یہ لوگ ایک ہی مقام پر گاڑی کھڑی کر کے گزارتے ہیں۔ دراصل اب یہ موٹر وے اسسٹنٹ اس سے بھی آدھا سفر طے کرتے ہیں تاکہ باقی پٹرول بچا کر اس سے کھڑی گاڑی میں انتہا کی گرمی میں ائیرکنڈیشن چلا سکیں۔
اس سے ہوا یہ کہ پاکستانی شاہراہوں پر پٹرولنگ نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے اور وہ موٹر وے پولیس جو ایک اچھا اور مددگار ادارہ سمجھا جاتا تھا وہ اب سفید ہاتھی بن کر رہ گیا ہے۔
ہونا تو یہ تھا کہ حکومت بچت اپنی شاہ خرچیوں پر کرتی اور جہاں ضرورت ہے وہاں خرچ کرتی لیکن حکومت کی پرائیرٹیز بلکل غلط اور نامناسب ہیں۔ اگر از حد مجبوری بھی تھی تو موٹر وے کے ٹول ٹیکس میں دس روپئے اضافہ کردیا جاتا تو ان سڑکوں پر موجود موٹر ویے پولیس کے پیسے نکل آتے ۔
۔
دوسری گزارش یہ ہے کہ حکومت کو کسی بھی شاہراہ کا افتتاح صرف اس وقت کرنا چاہیئے جب اس کے سارے لوازمات بشمول پٹرولنگ ڈِپلائمنٹ ہو چکی ہو اور اس پر پٹرول پمپس فنکشنل ہو جائیں۔ سکھر ملتان موٹر وے کو بھی اس حالت میں کھولا گیا کہ وہاں نہ کوئی ریسٹ پلیس اور نہ ہی پٹرول پمپ موجود تھا۔ تین سو کلومیٹر کی شاہراہ کا پٹرول پمپ کے بغیرکھول دینا بیوقوفی سے کم نہی۔
۔
تیسری گزارش یہ کہ موٹر ویز پر انٹرچینجز اور ریسٹ ایریاز پر موجود دوکاندار اور ورکشاپس کے کنٹرول کے لئے کوئی بندوبست کیا جانا لازمی ہے۔ ایسے بیسیوں شکایات آچکی ہیں کہ لوگ ٹائر میں ہوا بھروانے کو رکیں تو وہاں موجود مافیا ان کے ٹائرز میں کٹ لگا کر انہیں نئے ٹائرز دوگنی قیمت پر خریدنے پر مجبور کرتے ہیں۔