گزشتہ مئی سے اب تک انڈین میڈیا کے جھوٹے اینکرز کو چیختی آوازوں میں پاکستان اور چین کے خلاف زہر اگلتے دیکھ رہا ہوں۔ لاک ڈاون کا یہ فائدہ ہوا کہ میں نے بھی اپنے معمولی وسائل کے ساتھ انڈیا کے سب سے بڑے چینل انڈیا ٹوڈے کے مہنگے ترین اینکر راہول کنول کا جھوٹ کھنگالنا شروع کردیا جو بقول اس کے بارہ سیٹلائیٹ کمپنیوں کے اشتراک سے امیج حاصل کرتا ہے جبکہ یہ عاجز گوگل ارتھ سے ہی سب کچھ دیکھ لیتا ہے
اپریل میں چین نے پانچ مقامات پر پیش قدمی کی تو تو شرمندگی سے بچنے کیلئے مودی نے اعلان کردیا کہ نہ ایک انچ اندر گیا نہ ہی ایک انچ ہماری زمین پر کسی کا قبضہ ہوا
انڈیا کے سٹریٹیجک تجزیہ نگار جے شکلا نے راہول کنول کے لائیو شو میں اس دعوی کو جھوٹا قرار دیتے ہوے کہا کہ چینی افواج صرف پینگونگ جھیل پر ہی آٹھ کلومیٹر اندر آکر سیٹل ہوچکی ہیں اور اسی وجہ سے مذاکرات ہو رہے ہیں؟ جے شکلا نے شو میں موجود بی جے پی کے ترجمان سے سوال کیا کہ انڈین فوج پینگونگ جھیل پر اپنی کلیم کردہ باونڈری یعنی فنگر آٹھ تک گشت کرتی تھی کیا یہ گشت ابھی بھی کیا جارہا ہے کہ نہیں؟
ظاہر ہے بی جے پی سپوکس پرسن لاجواب ہوگیا اور شکلا کو انڈین فوج کا مورال ڈاون کرنے کا ذمہ دار قرار دینے لگا۔ اس کے بعد جے شکلا کو تمام لائیو شوز سے باہر کردیا گیا۔ حالانکہ اس کے لیول کا سٹریٹجک ماہر انڈیا کے پاس ایک بھی نہیں
اب آتے ہیں وادی گلوان کی طرف جس کا مسئلہ انڈیا نے مذاکرات سے واقعی حل کرلیا ہے۔ نہ صرف وادی گلوان بلکہ اسطرح کا حل اگر انڈیا کشمیر کا بھی کرلے تو ہمیں دل و جان سے منظور ہے
راہول کنول نے جو عموما اپنے پروگرام میں سیٹلائیٹ امیجز دکھا کر بات کا آغاز کرتا ہے بار بار کہہ رہا تھا کہ تمام فلیش پوائینٹس پر ڈس انگیج ہوگیا ہے سواے پینگونگ جھیل کے ۔ راہول کی یہ بات اس کے لیڈر مودی سمیت تمام میڈیا کے اس موقف کو جھوٹا ثابت کرتی ہے کہ چین ایک انچ بھی اندر نہیں آیا،خیر ہمیں کیا
پینگونگ جھیل چونکہ بہت دور دور سے بھی واضح دکھای دیتی ہے اور مشہور ٹورسٹ پوائینٹ ہے۔ لہذا اس کے بارے میں جھوٹ بولنا مشکل تھا
دریاے گلوان جس وادی میں بہتے ہوے نیچے دریاے شیوک میں گرتا ہے اسی کو وادی گلوان کہا جاتا ہے۔ یہ جگہ سیاچن گلیشیر سے قریب ہے۔ دریاے شیوک پر اسی مقام پر انڈین آرمی کے دو بیس کیمپ ہیں۔ اگر ہم اوپر دریاے گلوان کے کنارے کنارے چلتے جائیں تو پانچ چھ کلومیٹر کے بعد دریا ایکدم دائیں جانب مڑتا ہے۔ اس موڑ پر انڈین فوج کا آخری بیس کیمپ تھا کیونکہ آگے چینی سرحد شروع ہوجاتی ہے۔ وادی گلوان میں انڈین فوج کی موجودگی اسی بیس کیمپ کی وجہ سے تھی اور یہیں پر وہ مشہور مڈبھیڑ ہوی جس کے نتیجے میں دریاے گلوان نےانڈین فوج کے تازہ خون کا مزہ چکھا تھا بیس جواب مارے گئے تھے اور کافی زخمی بھی ہیں۔ اس موڑ پر انڈین بیس کیمپ سے مزید آگے ڈیڑھ کلومیٹر پر چینی سرحد ہے، ہوا یوں کہ چینی فوج نے اپنی سرحد سے ڈیڑھ کلومیٹر آگے بڑھ کر انڈین بیس کیمپ کے بالمقابل اپنا کیمپ لگا لیا جسے گرانے کے چکر میں بیس انڈین فوجی مارے گئے تھے۔ اس کے بعد مزاکرات اور ڈس انگیج کا چرچا ہوتا رہا ۔ کل پرسوں انڈین اینکرز خاص کر راہول کنول نے دعوی کیا کہ گلوان اور گوگرہ میں تو چینی فوج پیچھے ہٹ گئی تھی مگر پینگونگ جھیل پر اس کی ہٹ دھرمی قائم ہے
میں نے سوچا کہ تھوڑی سی زحمت کرکے دیکھ لوں کہ وادی گلوان میں کیا واقعی چینی فوج پیچھے ہٹ چکی ہے اور انڈین فوج اپنے بیس کیمپ میں راضی خوشی رہنے لگی ہے؟
مجھے یہ دیکھ کر شاک لگا کہ چینی فوج تو اپنی سرحد کے اوپر جہاں اس کا بیس کیمپ تھا بدستور موجود ہے مگر انڈین فوج کا وادی گلوان میں اکلوتا بیس کیمپ خالی ہوچکا ہے۔ جی ہاں، انڈین فوج خوبصورت بلند چوٹیوں اور دریاے گلوان والی وادی گلوان سے نکل چکی ہے۔ اور اب وہاں کوی نہیں سواے چینی فوج کے، انڈین فوج کا جس جگہ پر بیس تھا وہ اب خالی ہوچکی ہے
میں نے اسی لئے اوپر لکھا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا بھی ایسا ہی خوبصورت حل کردیا جاے تو ہمیں دل و جان سے قبول ہے
راہول کنول جی تم کو مبارک ہو انڈین فوج نے وادی گلوان کا اشو مزاکرات کے ذریعے حل کرکے دکھا دیا ہے
ابھی صرف اتنا ہی، فی الحال میری نظر پینگونگ جھیل پر ہے، ایک ہنٹ دیتا چلوں کام آے گا، پینگونگ جھیل کے جنوبی کنارے پر ایک گاوں ہے میراک، اس گاوں کے قریب کھڑے ہوکر جھیل کے دوسرے کنارے کی طرف دیکھیں (ٹیلی سکوپ بہتر ہے) تو فنگر فور آپ کے سامنے ہوگی اور وہاں پر چینی فوج کے مورچے دکھای دے جائیں گے لوکل لداخی تو اپنی تیز آنکھوں سے ان پوزیشنز کو بغیر ٹیلی سکوپ کے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ لداخ کے سردیوں میں سفید اور گرمیوں میں بھورے پہاڑوں میں کوی تبدیلی واقع ہورہی ہو تو ان کی نظروں سے چھپی نہیں رہ سکتی، چرواہوں کی عمر پہاڑوں میں بھیڑیں تلاش کرتے گزرتی ہے
اپریل میں چین نے پانچ مقامات پر پیش قدمی کی تو تو شرمندگی سے بچنے کیلئے مودی نے اعلان کردیا کہ نہ ایک انچ اندر گیا نہ ہی ایک انچ ہماری زمین پر کسی کا قبضہ ہوا
انڈیا کے سٹریٹیجک تجزیہ نگار جے شکلا نے راہول کنول کے لائیو شو میں اس دعوی کو جھوٹا قرار دیتے ہوے کہا کہ چینی افواج صرف پینگونگ جھیل پر ہی آٹھ کلومیٹر اندر آکر سیٹل ہوچکی ہیں اور اسی وجہ سے مذاکرات ہو رہے ہیں؟ جے شکلا نے شو میں موجود بی جے پی کے ترجمان سے سوال کیا کہ انڈین فوج پینگونگ جھیل پر اپنی کلیم کردہ باونڈری یعنی فنگر آٹھ تک گشت کرتی تھی کیا یہ گشت ابھی بھی کیا جارہا ہے کہ نہیں؟
ظاہر ہے بی جے پی سپوکس پرسن لاجواب ہوگیا اور شکلا کو انڈین فوج کا مورال ڈاون کرنے کا ذمہ دار قرار دینے لگا۔ اس کے بعد جے شکلا کو تمام لائیو شوز سے باہر کردیا گیا۔ حالانکہ اس کے لیول کا سٹریٹجک ماہر انڈیا کے پاس ایک بھی نہیں
اب آتے ہیں وادی گلوان کی طرف جس کا مسئلہ انڈیا نے مذاکرات سے واقعی حل کرلیا ہے۔ نہ صرف وادی گلوان بلکہ اسطرح کا حل اگر انڈیا کشمیر کا بھی کرلے تو ہمیں دل و جان سے منظور ہے
راہول کنول نے جو عموما اپنے پروگرام میں سیٹلائیٹ امیجز دکھا کر بات کا آغاز کرتا ہے بار بار کہہ رہا تھا کہ تمام فلیش پوائینٹس پر ڈس انگیج ہوگیا ہے سواے پینگونگ جھیل کے ۔ راہول کی یہ بات اس کے لیڈر مودی سمیت تمام میڈیا کے اس موقف کو جھوٹا ثابت کرتی ہے کہ چین ایک انچ بھی اندر نہیں آیا،خیر ہمیں کیا
پینگونگ جھیل چونکہ بہت دور دور سے بھی واضح دکھای دیتی ہے اور مشہور ٹورسٹ پوائینٹ ہے۔ لہذا اس کے بارے میں جھوٹ بولنا مشکل تھا
دریاے گلوان جس وادی میں بہتے ہوے نیچے دریاے شیوک میں گرتا ہے اسی کو وادی گلوان کہا جاتا ہے۔ یہ جگہ سیاچن گلیشیر سے قریب ہے۔ دریاے شیوک پر اسی مقام پر انڈین آرمی کے دو بیس کیمپ ہیں۔ اگر ہم اوپر دریاے گلوان کے کنارے کنارے چلتے جائیں تو پانچ چھ کلومیٹر کے بعد دریا ایکدم دائیں جانب مڑتا ہے۔ اس موڑ پر انڈین فوج کا آخری بیس کیمپ تھا کیونکہ آگے چینی سرحد شروع ہوجاتی ہے۔ وادی گلوان میں انڈین فوج کی موجودگی اسی بیس کیمپ کی وجہ سے تھی اور یہیں پر وہ مشہور مڈبھیڑ ہوی جس کے نتیجے میں دریاے گلوان نےانڈین فوج کے تازہ خون کا مزہ چکھا تھا بیس جواب مارے گئے تھے اور کافی زخمی بھی ہیں۔ اس موڑ پر انڈین بیس کیمپ سے مزید آگے ڈیڑھ کلومیٹر پر چینی سرحد ہے، ہوا یوں کہ چینی فوج نے اپنی سرحد سے ڈیڑھ کلومیٹر آگے بڑھ کر انڈین بیس کیمپ کے بالمقابل اپنا کیمپ لگا لیا جسے گرانے کے چکر میں بیس انڈین فوجی مارے گئے تھے۔ اس کے بعد مزاکرات اور ڈس انگیج کا چرچا ہوتا رہا ۔ کل پرسوں انڈین اینکرز خاص کر راہول کنول نے دعوی کیا کہ گلوان اور گوگرہ میں تو چینی فوج پیچھے ہٹ گئی تھی مگر پینگونگ جھیل پر اس کی ہٹ دھرمی قائم ہے
میں نے سوچا کہ تھوڑی سی زحمت کرکے دیکھ لوں کہ وادی گلوان میں کیا واقعی چینی فوج پیچھے ہٹ چکی ہے اور انڈین فوج اپنے بیس کیمپ میں راضی خوشی رہنے لگی ہے؟
مجھے یہ دیکھ کر شاک لگا کہ چینی فوج تو اپنی سرحد کے اوپر جہاں اس کا بیس کیمپ تھا بدستور موجود ہے مگر انڈین فوج کا وادی گلوان میں اکلوتا بیس کیمپ خالی ہوچکا ہے۔ جی ہاں، انڈین فوج خوبصورت بلند چوٹیوں اور دریاے گلوان والی وادی گلوان سے نکل چکی ہے۔ اور اب وہاں کوی نہیں سواے چینی فوج کے، انڈین فوج کا جس جگہ پر بیس تھا وہ اب خالی ہوچکی ہے
میں نے اسی لئے اوپر لکھا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا بھی ایسا ہی خوبصورت حل کردیا جاے تو ہمیں دل و جان سے قبول ہے
راہول کنول جی تم کو مبارک ہو انڈین فوج نے وادی گلوان کا اشو مزاکرات کے ذریعے حل کرکے دکھا دیا ہے
ابھی صرف اتنا ہی، فی الحال میری نظر پینگونگ جھیل پر ہے، ایک ہنٹ دیتا چلوں کام آے گا، پینگونگ جھیل کے جنوبی کنارے پر ایک گاوں ہے میراک، اس گاوں کے قریب کھڑے ہوکر جھیل کے دوسرے کنارے کی طرف دیکھیں (ٹیلی سکوپ بہتر ہے) تو فنگر فور آپ کے سامنے ہوگی اور وہاں پر چینی فوج کے مورچے دکھای دے جائیں گے لوکل لداخی تو اپنی تیز آنکھوں سے ان پوزیشنز کو بغیر ٹیلی سکوپ کے بھی دیکھ لیتے ہیں۔ لداخ کے سردیوں میں سفید اور گرمیوں میں بھورے پہاڑوں میں کوی تبدیلی واقع ہورہی ہو تو ان کی نظروں سے چھپی نہیں رہ سکتی، چرواہوں کی عمر پہاڑوں میں بھیڑیں تلاش کرتے گزرتی ہے