موجودہ حکومت نے آج ملکی تاریخ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں سب سے بڑا یکمشت اضافہ کر دیا ہے، فیصلے کے مطابق 30 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔
حکومت کی جانب سے اس پر مختلف جواز پیش کیے جا رہے ہیں تاہم حکومت میں موجود یہی لوگ گزشتہ حکومت کے دور میں عمران خان پر پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
شہبازشریف نے ماضی میں ہونے والے اضافے پر عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومتی سطح پر کوئی حکمت عملی نظر نہیں آ رہی، ٹیلی فون پر ہونے والی لمبی باتیں معاشی اور انتظامی مربوط حکمت عملی کا متبادل نہیں ہیں۔ ان کی جانب سے یہ بھی مطالبہ کیا جا چکا ہے کہ پٹرول کی قیمت 50 روپے فی لیٹر مقرر کی جائیں۔
شہبازشریف یہ بھی کہہ چکےہیں کہ حقیقی قیادت جو عوام کی طرف سے منتخب کی جاتی ہے وہ فیصلے کرتے وقت عوامی مفادات کو مدنظر رکھتے ہیں جبکہ اقتدار میں آنے والے عوام کے بجائے مافیاز کے مفادات کو پورا کرتے ہیں۔ پٹرول کی قیمت میں حالیہ اضافہ لوگوں کو بھوک کے دہانے پر دھکیل دے گا جو کہ شرمناک ہے۔
جبکہ مریم نواز بھی اس پر کہہ چکی ہیں کہ عوام کو ریلیف دینے کی بجائے پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے حکومت مہنگائی سے پریشان عوام سے جینے کا حق چھین رہی ہے روزگار رک گئے ہیں، مزدور گھر بیٹھ گئے ہیں، تنخوادار طبقے کی تنخواہیں وہی پرانی حکومت بتائے کہ مجبور عوام انکی نااہلی اور نالائقی کا بوجھ مزید کیسے برداشت کریں؟
وزیر خزانہ بھی اس معاملے پر تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں انہوں نے ماضی میں کہا تھا کہ پٹرول کی قیمت میں 12 روپے کی تبدیلی اور ڈیزل کی قیمت میں ساڑھے نو روپے کی تبدیلی کا حکم۔ لہذا اب پٹرول160 روپے اور ڈیزل 154 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے۔ نا اہل خان ہو اور خمیازہ پوری قوم بھگتے؟
جبکہ موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو بھی ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ پورے پاکستان سے چیخیں آرہی ہیں کہ بجلی مہنگی، گیس مہنگی، پٹرول مہنگا، غریب کے سر پر نہ چھت، نہ پیٹ میں روٹی، نہ تن پہ کپڑا، یہ چیخیں اب دھاڑ میں بدل رہی ہیں اور یہ دھاڑ آپکی حکومت گرادے گی۔