بھینس اس کی جس کے ہاتھ میں لاٹھی ہو۔ آپ کے گھر میں ڈاکو گھس آئیں، اور بندوق کے زور پر سب کو یرغمال بنا لیں، تو آپ وہی کرتے ہیں جو کرنے کو کہا جاتا ہے۔ زیادہ مزاحمت کی تو جان بھی جاسکتی ہے۔ کچھ یہی حال ریاست پاکستان کا ہے۔ یہاں 10 لاکھ ڈاکو وردی پہن کر، پاک فوج کے نام کا جھومر سجا کر مملکت کے تمام اداروں میں دروازے توڑ کر گھس آئے ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں بندوق ہے، فوجی عدالتوں کے نام پر یہ کسی کو بھی سزائے موت سنانے کی اہلیت رکھتے ہیں، یا پھر جعلی مقابلوں میں موت کے گھاٹ اتار سکتے ہیں۔ تو پھر ان کے آگے آپ نے بس جان بچانے کی کرنی ہے کہ نہیں؟
لوگ کہتے ہیں کہ پاک فوج اب شریف ہوگئی ہے، مارشل لاء نہیں لگاتی۔ پرویز کیانی اچھا بندہ تھا، راحیل شریف بھی شریف تھا اور قمر جاوید باجوہ تو مہا شریف ہے۔ یہ لوگ جمہوریت پسند ہیں اور جمہوری حکومتوں کے تختے نہیں الٹتے۔ یعنی فوج یک دم سے ایسے شریف ہوگئی جیسے پلے بوائے عمران خان، سیاست دان بننے کے بعد شریف ہوگیا۔ گوریوں کے پیچھے بھاگ کر ان کی جیبیں کاٹنا، ناجائز بچے پیدا کرنا، سارے الٹے کام چھوڑ کر پنکی کا مجاور بن گیا۔ اور یہ انقلاب اس لیے آیا کہ عمران خان کسی صوفی جرنیل کا مرید بن گیا؟
سنہ 2013 کے انتخابات پرویز کیانی کی ناک کے نیچے ہوئے اور 2018 کے انتخابات قمر باجوہ کے کان کے نیچے۔ 2013 کے الیکشن کے نتائج کو نیازیوں نے چیلنج کیا اور 2018 کے نتائج کو شریفوں اور زرداریوں نے۔ مطلب دونوں انتخابات متنازعہ تھے۔
لوگ پولنگ اسٹیشن کے باہر دھوپ میں قطار لگائے کھڑے ہوتے ہیں، مخالف گروپس نعرے بازیاں کرتے ہیں، گولیاں چلتی ہیں، لوگ مرتے ہیں، لیکن کسے پتہ کہ بیلٹ باکس کے اندر کیا ہے۔
پولنگ اسٹیشن کے اندر یا باہر فوج لازمی موجود ہوتی ہے۔ فوج کی موجودگی کو لازم کرنے کے لیے بلوے کرائے جاتے ہیں، خود کش دھماکے کروا کے غیر اہم سیاسی کارکنوں کو اڑا دیا جاتا ہے۔2013 کے الیکشن سے پہلے اور 2018 کے الیکشن سے پہلے خود کش دھماکوں میں پٹھان اور بلوچ سیاسی قائدین کو مروایا گیا، تاکہ دنیا کی نمبر ون آرمی کو کٹھ پتلی نگران حکومت سیکیوریٹی کے فرائض سنبھالنے کی دعوت دے۔ سب کچھ پہلے سے طے شدہ اور انجینئرڈ ہوتا ہے۔ ان بے غیرتوں کے دماغ ہندوستان کو دھول چٹانے اور کشمیر فتح کرنے کے بجائے پاکستان کو فتح کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
جس طرح چیئرمین نیب جاوید اقبال کی سر سے لے کر پاؤں چومنے والی ویڈیو، دنیا کی نمبر ون ایجنسی نے لیک کروائی، یقیناً ویڈیو کی مرکزی کردار فاحشہ عورت بھی وینا ملک، حریم شاہ اور سنتھیا رچی کی طرح آئی ایس آئی ایجنٹ ہوگی، اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اہلکاروں اور افسروں کو بلیک میل کر کے یرغمال بنا لینا بھی آئی ایس آئی کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ہوسکتا ہے الیکشن میں نون لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سب ہی ہارے ہوں، لیکن چوں کہ یہ تینوں جماعتیں کسی نہ کسی حوالے سے بوٹ پالش کرتی رہی ہیں اور جرنیلوں سے وفاداری کے معاہدوں پر دستخط کرتی رہی ہیں (جن کو ڈیل کا نام دیا جاتا ہے) اس لیے فوج کے ہاتھوں میں یرغمال الیکشن کمیشن ان ہی بوٹ پالشیوں کے جیتنے کا اعلان کرتا ہے۔ ہمیں کیا پتہ الیکشن کس نے جیتا، ہم تو وہ جانتے ہیں جو الیکشن کمیشن ہمیں بتاتا ہے۔ مگر الیکشن کمیشن ہی بکا ہوا ہو، یرغمال اور غلام ہو تو کیسی جمہوریت؟ پھر تو یہ جرنیلی کوٹھا ہوگیا جہاں نواز شریف، زرداری اور عمران نیازی نام کی طوائفیں انگلی کے اشارے پر روز رقص پیش کرتی ہیں۔
فوج اپنے بوٹ پالشیوں کو ہمیشہ اقتدار میں لاتی ہے کیوں کہ فوج کو پیسہ کھانا ہوتا ہے۔ اگر قوم کے حقیقی نمائندے اقتدار سنبھال لیں تو پھر وہ نواز شریف کی طرح ڈیل کر کے اپنی چوری نہیں بچائیں گے، وہ پھر سینیٹ الیکشن، باجوہ کی ایکسٹینشن اور اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کے لیے حامی نہیں بھریں گے۔ نواز، زرداری اور نیازی جیسے بوٹ پالشیے فوج کے آگے ہڈّی ڈالتے رہتے ہیں۔ مملکت کی 50 فیصد آمدنی مختلف مد میں ان حرام خوروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ان کے خرچے پورے کرنے، ملک چلانے اور کرپشن کی کمائی کے لیے پھر قرضے لینے پڑتے ہیں جو کبھی ادا نہیں ہوپاتے، اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ تبھی 72 سالوں سے یہ ملک مسلسل تباہی اور بربادی کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے، اس کی بہتری کی کوئی امید نہیں، کیوں کہ اسے جو کینسر لگا ہے، اس نے وردی اور بوٹ پہن کر خود کو ایک خوشنما جھومر کی طرح مملکت کے ماتھے پر سجارکھا ہے۔
لوگ کہتے ہیں کہ پاک فوج اب شریف ہوگئی ہے، مارشل لاء نہیں لگاتی۔ پرویز کیانی اچھا بندہ تھا، راحیل شریف بھی شریف تھا اور قمر جاوید باجوہ تو مہا شریف ہے۔ یہ لوگ جمہوریت پسند ہیں اور جمہوری حکومتوں کے تختے نہیں الٹتے۔ یعنی فوج یک دم سے ایسے شریف ہوگئی جیسے پلے بوائے عمران خان، سیاست دان بننے کے بعد شریف ہوگیا۔ گوریوں کے پیچھے بھاگ کر ان کی جیبیں کاٹنا، ناجائز بچے پیدا کرنا، سارے الٹے کام چھوڑ کر پنکی کا مجاور بن گیا۔ اور یہ انقلاب اس لیے آیا کہ عمران خان کسی صوفی جرنیل کا مرید بن گیا؟
سنہ 2013 کے انتخابات پرویز کیانی کی ناک کے نیچے ہوئے اور 2018 کے انتخابات قمر باجوہ کے کان کے نیچے۔ 2013 کے الیکشن کے نتائج کو نیازیوں نے چیلنج کیا اور 2018 کے نتائج کو شریفوں اور زرداریوں نے۔ مطلب دونوں انتخابات متنازعہ تھے۔
لوگ پولنگ اسٹیشن کے باہر دھوپ میں قطار لگائے کھڑے ہوتے ہیں، مخالف گروپس نعرے بازیاں کرتے ہیں، گولیاں چلتی ہیں، لوگ مرتے ہیں، لیکن کسے پتہ کہ بیلٹ باکس کے اندر کیا ہے۔
پولنگ اسٹیشن کے اندر یا باہر فوج لازمی موجود ہوتی ہے۔ فوج کی موجودگی کو لازم کرنے کے لیے بلوے کرائے جاتے ہیں، خود کش دھماکے کروا کے غیر اہم سیاسی کارکنوں کو اڑا دیا جاتا ہے۔2013 کے الیکشن سے پہلے اور 2018 کے الیکشن سے پہلے خود کش دھماکوں میں پٹھان اور بلوچ سیاسی قائدین کو مروایا گیا، تاکہ دنیا کی نمبر ون آرمی کو کٹھ پتلی نگران حکومت سیکیوریٹی کے فرائض سنبھالنے کی دعوت دے۔ سب کچھ پہلے سے طے شدہ اور انجینئرڈ ہوتا ہے۔ ان بے غیرتوں کے دماغ ہندوستان کو دھول چٹانے اور کشمیر فتح کرنے کے بجائے پاکستان کو فتح کرنے میں لگے رہتے ہیں۔
جس طرح چیئرمین نیب جاوید اقبال کی سر سے لے کر پاؤں چومنے والی ویڈیو، دنیا کی نمبر ون ایجنسی نے لیک کروائی، یقیناً ویڈیو کی مرکزی کردار فاحشہ عورت بھی وینا ملک، حریم شاہ اور سنتھیا رچی کی طرح آئی ایس آئی ایجنٹ ہوگی، اسی طرح الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اہلکاروں اور افسروں کو بلیک میل کر کے یرغمال بنا لینا بھی آئی ایس آئی کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ہوسکتا ہے الیکشن میں نون لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سب ہی ہارے ہوں، لیکن چوں کہ یہ تینوں جماعتیں کسی نہ کسی حوالے سے بوٹ پالش کرتی رہی ہیں اور جرنیلوں سے وفاداری کے معاہدوں پر دستخط کرتی رہی ہیں (جن کو ڈیل کا نام دیا جاتا ہے) اس لیے فوج کے ہاتھوں میں یرغمال الیکشن کمیشن ان ہی بوٹ پالشیوں کے جیتنے کا اعلان کرتا ہے۔ ہمیں کیا پتہ الیکشن کس نے جیتا، ہم تو وہ جانتے ہیں جو الیکشن کمیشن ہمیں بتاتا ہے۔ مگر الیکشن کمیشن ہی بکا ہوا ہو، یرغمال اور غلام ہو تو کیسی جمہوریت؟ پھر تو یہ جرنیلی کوٹھا ہوگیا جہاں نواز شریف، زرداری اور عمران نیازی نام کی طوائفیں انگلی کے اشارے پر روز رقص پیش کرتی ہیں۔
فوج اپنے بوٹ پالشیوں کو ہمیشہ اقتدار میں لاتی ہے کیوں کہ فوج کو پیسہ کھانا ہوتا ہے۔ اگر قوم کے حقیقی نمائندے اقتدار سنبھال لیں تو پھر وہ نواز شریف کی طرح ڈیل کر کے اپنی چوری نہیں بچائیں گے، وہ پھر سینیٹ الیکشن، باجوہ کی ایکسٹینشن اور اٹھارہویں ترمیم کے خاتمے کے لیے حامی نہیں بھریں گے۔ نواز، زرداری اور نیازی جیسے بوٹ پالشیے فوج کے آگے ہڈّی ڈالتے رہتے ہیں۔ مملکت کی 50 فیصد آمدنی مختلف مد میں ان حرام خوروں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ان کے خرچے پورے کرنے، ملک چلانے اور کرپشن کی کمائی کے لیے پھر قرضے لینے پڑتے ہیں جو کبھی ادا نہیں ہوپاتے، اور یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ تبھی 72 سالوں سے یہ ملک مسلسل تباہی اور بربادی کی دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے، اس کی بہتری کی کوئی امید نہیں، کیوں کہ اسے جو کینسر لگا ہے، اس نے وردی اور بوٹ پہن کر خود کو ایک خوشنما جھومر کی طرح مملکت کے ماتھے پر سجارکھا ہے۔