کیا مذاکرات کے مستقبل کا فیصلہ عمران خان کریں گے؟انصار عباسی کے انکشاف

ansar-abbasi-imran-khan-govt-and-pti.jpg


کیا مذاکرات کے مستقبل کا فیصلہ عمران خان کریں گے؟

صدر پی ٹی آئی پرویز الہیٰ کے گھر پر پولیس ایکشن کے بعد حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچیں، لیکن کہا جارہاہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اصل فیصلہ کریں گے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکراتی عملی جاری رہے گا یا ختم ہو چکا ہے۔

انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق مذاکراتی عمل میں دونوں فریقین کی نمائندگی کرنے والے کچھ افراد سے پس پردہ بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی نمائندے مذاکرات جاری رکھنا چاہتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی والے اسی صورت مذاکراتی عمل میں مزید شرکت کریں گے جب عمران خان انہیں اس کی اجازت دیں گے۔

عمران خان نے اپنی پارٹی کے نمائندوں کو اجازت نہیں دی تھی کہ وہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے 14مئی سے آگے کی کسی طرح پر اتفاق نہ کریں،پی ڈی ایم کے نمائندے جولائی میں اسمبلیاں تحلیل کرکے ستمبر 2023ء میں انتخابات کرائے جائیں۔

مذاکرات میں شامل ایک نمائندے نے دی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ہم اس معاملے پر جون کے آخر میں اسمبلیاں تحلیل کرنے پر بات کیلئے تیار تھے کیونکہ اس وقت تک بجٹ منظور ہو جاتا، لیکن ہماری الگ الگ حدود تھیں۔‘‘

اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے مذاکرات میں شامل نمائندوں کے پاس الیکشن کی تاریخ اور دیگر متعلقہ معاملات پر بات چیت کے بارے میں معاملات اپنی پارٹی کی سینئر قیادت کو بھیجنے کے سوا کسی بات کو حتمی شکل دینے کا مینڈیٹ نہیں تھا۔

ان جماعتوں کے نمائندوں سے بات چیت میں یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ مذاکرات کی میز پر بیٹھے تھے وہ آپس میں پیچیدہ مسائل پر بات میں کافی مطمئن تھے لیکن ان کے ہاتھ بندھے تھے۔

مذاکرات میں شامل ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ’’اگر مذاکرات میں شامل افراد کے پاس موزوں ترین معاملات پر کسی معاہدے کا مینڈیٹ ہوتا تو بات چیت کا مثبت نتیجہ نکل آتا،دونوں فریقین کے ہاتھ باندھ کر انہیں مذاکرات کیلئے ساتھ بٹھا دیا گیا کیونکہ ان کی متعلقہ جماعتوں کی قیادت نے ان کیلئے حدود طے کر رکھی تھیں۔

پی ٹی آئی کی طرف سے عمران خان وہ واحد شخص ہیں جو فیصلہ کرتے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی طرف سے کمیٹی جس بات پر اتفاق کرتی وہ معاملہ پہلے پی ڈی ایم کی سینئر قیادت کے پاس جاتا جو ’’ہاں‘‘ یا ’’نہ‘‘ میں جواب دیتے،مذاکرات کے تین مراحل کے دوران دونوں فریقین نے ایک موقع پر اتفاق کیا کہ ملک بھر میں صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی نشستوں پر ایک ہی تاریخ پر عام انتخابات ہوں گے۔

ان میں اس بات پر بھی اتفاق پایا گیا کہ پارلیمنٹ کو جب موقع ملا، آئین میں یہ شق شامل کی جائے گی کہ 90دن کے بعد صرف ایک مرتبہ کیلئے پنجاب اور کے پی میں الیکشن کیلئے تاخیر کی جا سکتی ہے۔

پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم والوں میں بات چیت کا تیسرا مرحلہ منگل کو ختم ہوا اور ایک دن پر الیکشن کرانے کے حوالے سے کوئی بڑا بریک تھروُ نہیں ہو سکا،حکومتی اتحاد کی طرف سے کمیٹی کی قیادت کرنے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مذاکرات جاری رہنے کا اشارہ دیا،ہمیں اپنی قیادت سے دوبارہ بات کرنا ہوگی۔ ہمیں اتحادی جماعتوں سے کے ساتھ بھی مشاورت کرنا ہے تاکہ آئندہ دنوں میں مثبت پیشرفت ہو سکے، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن اور نگراں حکومت کے قیام کے حوالے سے اتفاق ہونا بڑی پیشرفت ہے، اور یہ آئین اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق ہے۔

دوسری طرف پی ٹی آئی کمیٹی کی قیادت کرنے والے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سپریم کورٹ سے رجوع کرکے مذاکرات کے حوالے سے تحریری رپورٹ پیش کرے گی تاکہ 14؍ مئی کو پنجاب میں الیکشن کے عدالتی فیصلے پر عمل ہوسکے،فریقین میں سے کسی نے مذاکرات کیلئے اگلی تاریخ نہیں بتائی، کسی نے یہ بھی نہیں بتایا کہ مذاکرات ہوں گے یا نہیں۔ کیا مذاکراتی عمل جاری رہے گا؟

حکومتی اتحاد کو اس میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے عمران خان فیصلہ کریں گے کہ مذاکرات جاری رہیں گے یا وہ بات چیت کے عمل کے خاتمے کا اعلان کریں گے۔

ذرائع کے مطابق ممکن ہے عمران خان سپریم کورٹ میں کیس کی اگلی سماعت کے بعد اپنے فیصلے کا اعلان کریں،گزشتہ روز پی ٹی آئی نے عدالت میں مذاکرات کے حوالے سے مفصل رپورٹ پیش کی۔ اپنی ٹوئیٹ میں پی ٹی آئی ترجمان فواد چوہدری نے کہا کہ پارٹی اپنی رپورٹ میں سپریم کورٹ سے درخواست کرے گی کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے عدالت اپنے فیصلے پر عمل کرائے۔
 

KPKInsafian

Senator (1k+ posts)
ansar-abbasi-imran-khan-govt-and-pti.jpg


کیا مذاکرات کے مستقبل کا فیصلہ عمران خان کریں گے؟

صدر پی ٹی آئی پرویز الہیٰ کے گھر پر پولیس ایکشن کے بعد حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات کسی نتیجے پر نہیں پہنچیں، لیکن کہا جارہاہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اصل فیصلہ کریں گے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکراتی عملی جاری رہے گا یا ختم ہو چکا ہے۔

انصار عباسی کی رپورٹ کے مطابق مذاکراتی عمل میں دونوں فریقین کی نمائندگی کرنے والے کچھ افراد سے پس پردہ بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومتی نمائندے مذاکرات جاری رکھنا چاہتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی والے اسی صورت مذاکراتی عمل میں مزید شرکت کریں گے جب عمران خان انہیں اس کی اجازت دیں گے۔

عمران خان نے اپنی پارٹی کے نمائندوں کو اجازت نہیں دی تھی کہ وہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے 14مئی سے آگے کی کسی طرح پر اتفاق نہ کریں،پی ڈی ایم کے نمائندے جولائی میں اسمبلیاں تحلیل کرکے ستمبر 2023ء میں انتخابات کرائے جائیں۔

مذاکرات میں شامل ایک نمائندے نے دی نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ہم اس معاملے پر جون کے آخر میں اسمبلیاں تحلیل کرنے پر بات کیلئے تیار تھے کیونکہ اس وقت تک بجٹ منظور ہو جاتا، لیکن ہماری الگ الگ حدود تھیں۔‘‘

اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے مذاکرات میں شامل نمائندوں کے پاس الیکشن کی تاریخ اور دیگر متعلقہ معاملات پر بات چیت کے بارے میں معاملات اپنی پارٹی کی سینئر قیادت کو بھیجنے کے سوا کسی بات کو حتمی شکل دینے کا مینڈیٹ نہیں تھا۔

ان جماعتوں کے نمائندوں سے بات چیت میں یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ مذاکرات کی میز پر بیٹھے تھے وہ آپس میں پیچیدہ مسائل پر بات میں کافی مطمئن تھے لیکن ان کے ہاتھ بندھے تھے۔

مذاکرات میں شامل ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ’’اگر مذاکرات میں شامل افراد کے پاس موزوں ترین معاملات پر کسی معاہدے کا مینڈیٹ ہوتا تو بات چیت کا مثبت نتیجہ نکل آتا،دونوں فریقین کے ہاتھ باندھ کر انہیں مذاکرات کیلئے ساتھ بٹھا دیا گیا کیونکہ ان کی متعلقہ جماعتوں کی قیادت نے ان کیلئے حدود طے کر رکھی تھیں۔

پی ٹی آئی کی طرف سے عمران خان وہ واحد شخص ہیں جو فیصلہ کرتے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی طرف سے کمیٹی جس بات پر اتفاق کرتی وہ معاملہ پہلے پی ڈی ایم کی سینئر قیادت کے پاس جاتا جو ’’ہاں‘‘ یا ’’نہ‘‘ میں جواب دیتے،مذاکرات کے تین مراحل کے دوران دونوں فریقین نے ایک موقع پر اتفاق کیا کہ ملک بھر میں صوبائی اور قومی اسمبلیوں کی نشستوں پر ایک ہی تاریخ پر عام انتخابات ہوں گے۔

ان میں اس بات پر بھی اتفاق پایا گیا کہ پارلیمنٹ کو جب موقع ملا، آئین میں یہ شق شامل کی جائے گی کہ 90دن کے بعد صرف ایک مرتبہ کیلئے پنجاب اور کے پی میں الیکشن کیلئے تاخیر کی جا سکتی ہے۔

پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم والوں میں بات چیت کا تیسرا مرحلہ منگل کو ختم ہوا اور ایک دن پر الیکشن کرانے کے حوالے سے کوئی بڑا بریک تھروُ نہیں ہو سکا،حکومتی اتحاد کی طرف سے کمیٹی کی قیادت کرنے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے مذاکرات جاری رہنے کا اشارہ دیا،ہمیں اپنی قیادت سے دوبارہ بات کرنا ہوگی۔ ہمیں اتحادی جماعتوں سے کے ساتھ بھی مشاورت کرنا ہے تاکہ آئندہ دنوں میں مثبت پیشرفت ہو سکے، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن اور نگراں حکومت کے قیام کے حوالے سے اتفاق ہونا بڑی پیشرفت ہے، اور یہ آئین اور الیکشن ایکٹ 2017ء کے مطابق ہے۔

دوسری طرف پی ٹی آئی کمیٹی کی قیادت کرنے والے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سپریم کورٹ سے رجوع کرکے مذاکرات کے حوالے سے تحریری رپورٹ پیش کرے گی تاکہ 14؍ مئی کو پنجاب میں الیکشن کے عدالتی فیصلے پر عمل ہوسکے،فریقین میں سے کسی نے مذاکرات کیلئے اگلی تاریخ نہیں بتائی، کسی نے یہ بھی نہیں بتایا کہ مذاکرات ہوں گے یا نہیں۔ کیا مذاکراتی عمل جاری رہے گا؟

حکومتی اتحاد کو اس میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن پی ٹی آئی کی طرف سے عمران خان فیصلہ کریں گے کہ مذاکرات جاری رہیں گے یا وہ بات چیت کے عمل کے خاتمے کا اعلان کریں گے۔

ذرائع کے مطابق ممکن ہے عمران خان سپریم کورٹ میں کیس کی اگلی سماعت کے بعد اپنے فیصلے کا اعلان کریں،گزشتہ روز پی ٹی آئی نے عدالت میں مذاکرات کے حوالے سے مفصل رپورٹ پیش کی۔ اپنی ٹوئیٹ میں پی ٹی آئی ترجمان فواد چوہدری نے کہا کہ پارٹی اپنی رپورٹ میں سپریم کورٹ سے درخواست کرے گی کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے حوالے سے عدالت اپنے فیصلے پر عمل کرائے۔
Munafiq abbasi
 

Nice2MU

President (40k+ posts)
پی ٹی آئی کی طرف سے عمران خان وہ واحد شخص ہیں جو فیصلہ کرتے ہیں جبکہ پی ڈی ایم کی طرف سے کمیٹی جس بات پر اتفاق کرتی وہ معاملہ پہلے پی ڈی ایم کی سینئر قیادت کے پاس جاتا جو ’’ہاں‘‘ یا ’’نہ‘‘ میں جواب دیتے،

اسے کہتے ہیں خبر میں ٹوسٹ اور اپنی منافقت ڈالنا ۔۔ او منافق پی ٹی آئی ایک پارٹی ہے اسلیے اسکا سربراہ بھی ایک ہے اور فیصلہ بھی باہمی مشاورت سے ایک بندہ کریگا جبکہ مکس اچار پارٹیاں 13 پارٹیاں ہیں اسلیے وہاں ایک بندہ ہاں یا نا نہیں کر سکتا بلکہ سب نے مل کے فیصلہ کرنا ہے۔
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)
اپنی اپنی جماعتوں کی طرف سے مذاکرات میں شامل نمائندوں کے پاس الیکشن کی تاریخ اور دیگر متعلقہ معاملات پر بات چیت کے بارے میں معاملات اپنی پارٹی کی سینئر قیادت کو بھیجنے کے سوا کسی بات کو حتمی شکل دینے کا مینڈیٹ نہیں تھا۔

ان جماعتوں کے نمائندوں سے بات چیت میں یہ معلوم ہوا کہ جو لوگ مذاکرات کی میز پر بیٹھے تھے وہ آپس میں پیچیدہ مسائل پر بات میں کافی مطمئن تھے لیکن ان کے ہاتھ بندھے تھے۔
but this munafiq is only accusing PTI
 

zaheer2003

Chief Minister (5k+ posts)
مذاکرات میں شامل ایک ذریعے کا کہنا تھا کہ ’’اگر مذاکرات میں شامل افراد کے پاس موزوں ترین معاملات پر کسی معاہدے کا مینڈیٹ ہوتا تو بات چیت کا مثبت نتیجہ نکل آتا،دونوں فریقین کے ہاتھ باندھ کر انہیں مذاکرات کیلئے ساتھ بٹھا دیا گیا کیونکہ ان کی متعلقہ جماعتوں کی قیادت نے ان کیلئے حدود طے کر رکھی تھیں۔
here is Munfqat

What is the point of this writing ?