خبریں

وزیر اعظم شہباز شریف کے بطور انچارج نیشنل فوڈ سیکیورٹی گندم درآمد کا انکشاف۔۔مارچ 2024 میں 57 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ روپے کی گندم درآمد کیے جانے کا انکشاف پنجاب میں گندم بحران کا ذمہ دار کون ہے, یہ ہی جنگ جاری ہے, حال ہی میں ادارہ شماریات نے کہا ہے کہ رواں برس مارچ تک گندم درآمد کا سلسلہ جاری رہا، اور مارچ 2024 میں 57 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ روپے کی گندم درآمد کی گئی۔ گندم درآمد کی تحقیقات کے سلسلے میں 4 رکنی کمیٹی آج بھی اپنا کام جاری رکھے گی، کمیٹی وافر اسٹاک کے باوجود فروری 2024 کے بعد گندم درآمد کا جائزہ لے گی۔ یہ کمیٹی گندم درآمد کی اجازت دینے والوں، اور ایل سیز کھولنے کے ذمہ داروں کا تعین کرے گی، تحقیقات مکمل ہونے کے بعد کل وزیر اعظم شہباز شریف کو رپورٹ پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2024 میں 57 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ روپے کی گندم امپورٹ کی گئی، اور رواں مالی سال فروری تک 225 ارب 78 کروڑ 30 لاکھ روپے کی گندم امپورٹ ہوئی۔ رواں مالی سال مارچ تک 34 لاکھ 49 ہزار 436 میٹرک ٹن گندم یعنی 282 ارب 97 کروڑ 50 لاکھ کی گندم درآمد کی گئی۔ بتایا جا رہا ہے کہ نگراں دور میں 27 لاکھ 58 ہزار 226 میٹرک ٹن گندم امپورٹ کی گئی تھی۔ سابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا گندم اسکینڈل کے حوالے سے کہنا ہے کہ وزیر اعظم کا کام نہیں ہےکہ وہ گندم کی پیداوار دیکھے ، 40 لاکھ میٹرک ٹن گندم کی کمی تھی، صرف 34 لاکھ میٹرک ٹن درآمد کی گئی۔ سابق نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے سوشل میڈیا شو ٹاک شاک میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ گندم کی مصنوعی طلب صوبوں نے پیدا کی، مصنوعی ڈیمانڈ کرنے والے بیورو کریٹس آج بھی صوبوں میں اہم پوزیشنز پر موجود ہیں۔ گندم درآمد کے معاملے پر نجی ہوٹل میں جب لیگی رہنما حنیف عباسی نے گندم درآمد کا معاملہ اٹھایا تو انوار الحق کاکڑ نے جواب میں کہاتھا کہ اگر انہوں نے فارم 47 کی بات کر دی تو ن لیگ منہ چھپاتی پھرے گی۔سابق نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ نے ٹاک شاک میں انٹرویو میں مزید کہا کہ خفیہ ادارے عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں، وہ صرف وزیر اعظم اور وزارت دفاع کو جوابدہ ہیں۔ انوار الحق کاکڑ نے بتایا کہ جنرل عاصم منیر کے ساتھ بہترین تعلقات تھے جبکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال سے ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد رابطہ ہوا تھا۔
پنجاب پولیس نے سندھ و پنجاب کی صوبائی سرحد کے کچے کے علاقے میں آپریشن کیا ہے، اس آپریشن میں 2 ڈاکو مارے گئے جبکہ 7 ڈاکو زخمی ہوگئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق رحیم یار خان کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر(ڈی پی او) رضوان گوندل نے آپریشن کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ سندھ و پنجاب کے کچے کے سرحدی علاقے میں پولیس نے آپریشن کیا ہے، آپریشن میں ڈاکو نذیر شر اور عالم شر کو ہلاک کردیا گیا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن میں ڈاکو مٹھا شر سمیت 7 ڈاکوؤں کو زخمی کیا گیا، کچے کے مختلف مقامات پر پولیس اور ڈاکوؤں کے درمیان ابھی بھی مقابلہ جاری ہے، آپریشن میں گھوٹکی او راجن پور پولیس کو طلب کرلیا گیا ہے جبکہ صادق آباد، ماچھکہ، کوٹ سبزل اور بھونگ کی پولیس نفری بھی آپریشن میں شامل ہے، جبکہ بگٹی قبیلے کے رضاکار بھی اس آپریشن میں پولیس کے ہمراہ ہیں۔ دوسری جانب آئی جی پنجاب عثمان انور نے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رینجرز ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن میں پولیس سے تعاون کررہی ہے، سندھ پولیس نے بھی ہمارا زبردست ساتھ دیا، آپریشن کے دوران اداروں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ رضاکاروں کی آپریشن میں شمولیت سے متعلق سوال کے جواب میں آئی جی پنجاب کا کہنا تھا کہ آپریشن میں رضاکار شامل نہیں کیے جاتے تاہم وہ انٹیلی جنس معلومات دیتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے انفارمرز کے طور پر مدد کرتے ہیں۔
گندم درآمد اسکینڈل پر سابق نگراں وزیر کا تہلکہ خیز انٹرویو سامنے آگیا,سابق نگراں وزیر فوڈ سیکیورٹی نے کہا ہے کہ گندم درآمد کی سمری میرے وزیر بننے سے پہلے جاچکی تھی, گندم درآمد کے مخالف کرنے والے سابق نگراں وزیر فوڈ سیکیورٹی ڈاکٹر کوثر عبداللہ ملک نے اےآروائی نیوز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ گندم درآمد کی سمری میرے وزیر بننے سے پہلے جاچکی تھی۔ سابق نگراں وزیر نے کہا کہ سمری بھیجی گئی کہ 5 لاکھ یا 1 ملین ٹن تک گندم درآمد کی جائے جب مجھے معلوم ہوا تو میں نے رائے دی ابھی ہمارے پاس گندم کے وافر ذخائر ہیں، میں نے کہا گندم منگوانے کی ضرورت نہیں، اس لیے ٹی سی پی کے ذریعے گندم نہ منگوائیں۔ ڈاکٹرکوثر نے بتایا کہ ویٹ بورڈ اجلاس میں، میں نے تاریخ دی کہ اس تاریخ کے بعد گندم کا کوئی جہاز نہ آئے، اس تاریخ کے بعد جو کچھ ہوتا رہا علم نہیں اور نہ ہی میرا کردار تھا، ای سی سی میں معاملہ ڈسکس ہوا تو انہوں نے کہا نجی سیکٹر کو امپورٹ کا کہا جائے جب ای سی سی نے اجازت دے دی تو پھر کیا کچھ ہوتا رہا اس کا مجھے علم نہیں ہے۔ سابق نگراں وزیر نے کہا کہ نجی سیکٹر کو امپورٹ کی اجازت دینا میرے اختیار میں نہیں تھا یہ ای سی سی کا کام تھا، وزیر فوڈ سیکیورٹی ای سی سی کا ممبر نہیں ہوتا، ضرورت کے وقت سیکرٹری کو بلایا جاتا ہے,انہوں نے کہا کہ جب کبھی گندم کی کمی ہو تو وہ 2.5 ملین میٹرک ٹن ہوتی ہے مگر 3500 منگوالی گئی، یہ تو ہمارا کلچر ہے افسران کئی چیزیں بتاتے نہیں اور خود ہی چلا دیتے ہیں، ان سیکرٹریز کو پتہ ہوتاہے نگراں وزیر کچھ عرصے کے لیے آئے ہیں اور انکی اتھارٹی بھی نہیں۔ انٹرویو میں سابق نگراں وزیر نے بتایا کہ نگراں سیٹ اپ سے پہلے سمری جاچکی تھی لیکن اگر بعد میں درآمد کو بڑھایا گیا تو ہمیں بتاتے تو روک سکتے تھے، گندم درآمد کے وقت کیپٹن (ر) محمد محمود ہی سیکرٹری فوڈ سیکیورٹی تھے اور مجھ سے پہلے موجود تھے۔ ڈاکٹر کوثر نے کہا کہ گندم امپورٹ کا معاملہ پہلے کابینہ اور پھر ای سی سی سے منظور ہوا، ای سی سی میں اصل کردار خزانہ اور وزارت تجارت کا ہوتاہے، میں نے ستمبر اکتوبر 2023 کو بتا دیا تھا ہمارے پاس گندم کے ذخائر موجود ہیں، ڈائریکٹوریٹ پلانٹ پروڈکشن امپورٹ ایکسپورٹ کے پرمٹ دیتاہے وہاں بھی گڑبڑ ہے۔ پنجاب میں گندم ذخائر40لاکھ 47 ہزار 508میٹرک ٹن پہلے سے موجود تھے، گندم کو 2600 سے 2900فی من تک درآمد کرکے 4700تک فروخت کی گئی اور گندم کےاسٹاک کو روک کرمصنوئی قلت ظاہر کی گئی۔گندم درآمد سے متعلق انکوائری کمیٹی کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ درآمدات26ستمبر 2023سے شروع ہوئی اور 31مارچ 2024 تک جاری رہی جو لگ بھگ 6 ماہ کا عرصہ بنتا ہے۔ رانا تنویر حسین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ بدقسمتی سے جو ہوا وہ ٹھیک نہیں تھا نہیں ہونا چاہیے تھا، اس سلسلے میں کمیٹی بنا دی ہے اس کی رپورٹ کا انتظار کریں۔
ڈاکو پکڑ میں آئیں یا ناں آئیں لیکن سندھ پولیس کو نئی گاڑیاں مل ہی جائیں گی,وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے پولیس کے مختلف ونگز کو مضبوط اور متحرک کرنے کے لیے آپریشنل گاڑیوں کی خریداری کے لیے 177.517 ملین روپے کی منظوری دی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ پولیس کو دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے تعاون سے کراچی میں اسٹریٹ کرمنلز، کچے کے ڈاکوؤں اور صوبے بھر میں ڈرگ مافیاز کے خلاف کارروائیاں تیز کرنا ہوں گی۔ حکومت سندھ نے صوبے میں پولیس کو مضبوط اور متحرک کرنے کے لیے کروڑوں روپے فنڈز سمیت عوامی مفاد کے پیش نظر پیپلزبس سروس کا کرایہ جون تک 50 روپے برقرار رکھنے کی منظوری دے دی ہے۔وزیراعلیٰ سندھ کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کی زیر صدارت صوبائی کابینہ کا اجلاس وزیراعلیٰ ہاؤس میں منعقد ہوا جہاں صوبائی وزرا، مشیران، چیف سیکریٹری اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ صدر پاکستان آصف زرداری نے وزیراعلیٰ ہاؤس میں امن و امان سے متعلق اہم اجلاس کے دوران اس مقصد کے لیے واضح ہدایات دی تھیں اور مجھے ہر صورت امن و امان بحال چاہیے۔محکمہ داخلہ نے کابینہ کو بتایا کہ سندھ پولیس، (سی پی او، ایس ایس یو، سی ٹی ڈی، اسپیشل برانچ، ایس پی یو)، سیف سٹیز اتھارٹی اور سندھ فرانزک سائنس لیبارٹری نے آپریشنل مقاصد کی بہتر تکمیل کے لیے گاڑیوں کی خریداری کی درخواست کی ہے۔ کابینہ کو بتایا گیا کہ سندھ پولیس کی 405 گاڑیاں جو کہ اب مکمل طور پر استعمال کے قابل نہیں ہیں، انہیں گاڑیوں کی خریداری کے لیے فنڈز فراہم کیے جائیں اور کابینہ نے غور کے بعد محکمہ داخلہ کو آپریشنل مقاصد کے لیے گاڑیوں کی خریداری کے لیے 177.514 ملین روپے کی منظوری دی۔مراد علی شاہ نے کہا کہ ان کی حکومت نے پولیس فورس کو بہتر اسلحہ، ایمیونیشن اور تنخواہوں کے پیکجز کے ساتھ ساتھ گاڑیاں بھی فراہم کی ہیں تاکہ فورس کو مزید مستحکم و متحرک کیا جاسکے۔ انہوں نے شہر اور کچے کے علاقے میں امن و امان کی بحالی کے حوالے سے پولیس کی کاوشوں کا اعتراف کیا اور اس اعتماد کا اظہار کیا کہ وہ مستقبل میں بھی اسی جذبے کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔کابینہ کو بتایا گیا کہ نگراں کابینہ نے پیپلز بس سروس کو سبسڈی کے طورپر 50 روپے کرایہ پر جاری رکھنے کے لیے 597.756 ملین روپے کی منظوری دی تھی، جس کے حوالے سے 50 فیصدیعنی 289.878 ملین روپے جاری کیے گئے جبکہ بقایا 50 فیصد روپے یعنی 289.878 ملین روپے جاری ہونا ابھی باقی ہیں۔ صوبائی کابینہ نے پیپلز بس سروس کا موجودہ کرایہ 50 روپے برقرار رکھنے کے لیے روکی گئی 50 فیصد رقم 289.878 ملین روپے جاری کرنے کی منظوری دے دی تاکہ رعایتی کرایہ 30 جون 2024 تک جاری رکھا جا سکے۔کابینہ نے پیپلز بس سروس میں مزید 90 بسوں کے واجبات کی ادائیگی کے لیے 1.18 ارب روپے جاری کرنے کی بھی منظوری دی، بسیں این آر ٹی سی کےتحت خریدی گئی تھیں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ محکمہ اسکول ایجوکیشن کو کچی سے دسویں جماعت تک نصابی کتب کی مفت فراہمی کے حوالے سے نگراں حکومت نے اضافی بجٹ سمری تیار کی اور تعلیمی سال25-2024کے لیے کتابوں کی خریداری کےحوالے سے 3.5 ارب روپے کے اضافی فنڈز کی منظوری بھی دی تھی۔ وزیراعلیٰ سندھ کو بتایا گیا کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کا باقاعدہ بجٹ 2530 ملین روپے ہے، جس میں سے 1,265 ملین روپے جاری ہو چکے ہیں جبکہ بورڈ نے مالی سال21-2020 سے آڈٹ رپورٹس بھی پیش نہیں کیں۔کابینہ نے 3.5 ارب روپے جاری کرنے کا فیصلہ کیا اور محکمہ اسکول ایجوکیشن کو ایس ٹی بی بی کا آڈٹ کر کے کابینہ کو رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی کی۔ سندھ میں کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے ڈاکو ایک سال میں 400 افراد کو اغوا کرچکے ہیں,رپورٹ کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران کچے کے ڈاکوؤں کے ہاتھوں 2 یرغمالی مارے جاچکے ہیں,سندھ حکومت اور پولیس کے بلند و بانگ دعوؤں کے اور 250 آپریشنز کے باوجود کچے میں مختلف ڈاکو گروہ آزادانہ وارداتیں کرنے میں مصروف ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق کندھ کوٹ اور کشمور کے کچے کے علاقے میں تیغانی، جاگیرانی، شر، بھیو، بھنگوار گینگ اب بھی موجود ہیں,ڈاکوؤں کے حملے میں 11 پولیس اہلکار شہید اور اتنے ہی زخمی ہوچکے ہیں جبکہ پولیس کارروائی میں 23 ڈاکو ہلاک اور 160 گرفتار کیے گئے ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق بالائی سندھ کے لاڑکانہ اور سکھر ڈویژن میں 35 سے 40 افراد ڈاکووں کی تحویل میں ہیں,سکھر اور لاڑکانہ ڈویژنز میں اس وقت ڈاکوؤں کی تحویل میں 200 سے زائد افراد موجود ہیں,دونوں ڈویژنز میں ہر ماہ 20 سے 30 افراد تاوان کے عوض آزاد ہوتے ہیں۔
جمیعت علمائے اسلام کا موجودہ حکومت سے آخری رابطہ بھی ٹوٹ گیا,پیپلز پارٹی کے خیبرپختونخوا کیلئے نامزد صوبائی گورنر کی ہفتے کی شام پشاور میں حلف برداری کے ساتھ ہی موجودہ حکومت کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت العلمائے اسلام کا آخری رابطہ بھی ختم ہوا, جمعیت کےرہنما اور مولانا فضل الرحمٰن کے سمدھی حاجی غلام علی نئے گورنر فیصل کریم کنڈی کی گورنر ہاؤس میں آمد کے ساتھ سبکدوش ہوگئے. انہیں پی ڈی ایم کی شہباز شریف حکومت نے گورنر متعین کیا تھا وہ ڈیڑھ سال اس منصب پر فائز رہے انکی آخری سیاسی مصروفیات گزشتہ ہفتے لاہور میں پاکستان مسلم لیگ نون کے قائد نوازشریف اور پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز شریف سے انکی اقامت گاہ پر ملاقات تھی۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ سبکدوش گورنرکے صوبائی حکومت اور وزیراعلیٰ امین گنڈا پور کے ساتھ مراسم حد اعتدال پر تھے ۔ فیصل کریم کنڈی کے تقرر سے پیپلز پارٹی نے اپنے کارکنوں کی سرپرستی کی روایت کو برقرار رکھا, وہ شروع سے ہی پیپلز پارٹی کیلئے سرگرم تھے اور گورنر مقرر ہونے سے پہلے اس پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات تھے جسکے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ہیں اس طرح وہ بلاول کا انتخاب ہیں لائق اعتماد سیاسی حلقوں کے مطابق گورنر ہاؤس کے ساتھ پشاور کے وزیراعلیٰ ہاؤس کو اپنے تعلقات میں غیرمعمولی احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ کنڈی نہ صرف فعال اور کریز سے باہر نکل کر کھیلنے والے کھلاڑی کی شہرت رکھتے ہیں بلکہ ڈیرہ اسماعیل خان کی اس سیاسی تکون کا بھرپور حصہ ہیں جس میں مولانا فضل الرحمان اور صوبائی وزیر اعلیٰ امین گنڈا پور انکےحریف ہیں۔ فیصل کریم کنڈی قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکررہےہیں وہ مولانا فضل الرحمٰن کو ان کی آبائی نشست ڈیرہ اسماعیل خان سے شکست دیکر قومی اسمبلی کے رکن بنے تھے اور یہ وہی تاریخی اور حکومتی نشست سے جہاں سے مولانا فضل الرحمٰن کے مرحوم والد مولانا مفتی محمود نےذوالفقار علی بھٹو کو 1970کے عام انتخابات میں ہرایا تھا ۔ مولانا فضل الرحمٰن دو مرتبہ قومی اسمبلی کی اس نشست سے فیصل کنڈی کو بھی ہرا چکے ہیں۔ فیصل کریم کنڈی گنڈا پور سے بھی شکست کھا چکے ہیں فروری 2024کے انتخابات میں فیصل کنڈی نے حصہ ہی نہیں لیا تھا یہاں سے گنڈا پور جیت گئے تھے۔ وزیراعلیٰ اور انکی کابینہ کے ارکان نے صوبائی گورنر کے طورپر فیصل کنڈی کی حلیف برادری کا بائیکاٹ کرکے اپنے ارادوں کا اظہار کردیاہے انہوں نے گورنر کیلئے تہنیتی پیغام ارسال کرنے سےگریز اختیار کرکے پیغام دیا ہے کہ وہ انکے لئے خیرسگالی روا رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی نے صوبے کی سیاسی قیادت کے پاس خود چل کر جانے کا اعلان کردیا,پشاور میں گورنر خیبر پختونخوا کی حلف برداری تقریب کے بعد میڈیا سے گفتگو میں فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں صوبہ ترقی کرے۔انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردی اور مالی بحران بھی ہے، اس بحران کو ختم کریں گے۔ فیصل کریم کنڈی نے مزید کہا کہ صوبے کی سیاسی جماعتوں کے صوبائی سربراہان کو فون کیا، سیاسی قیادت کے پاس خود چل کر جاؤں گا۔ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں امن بھی لائیں گے اور مالی بحران بھی ختم کریں گے، ہم مل کر صوبے کا مقدمہ مرکز میں لڑیں گے۔گورنر خیبر پختونخوا نے یہ بھی کہا کہ صوبائی حکومت کو دعوت دیتا ہوں آئیں مل کر مرکز سے اپنے حقوق مانگیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے پی کو دعوت دیتا ہوں آئیں مل کر صوبے کا مقدمہ لڑیں، صوبائی حکومت کو یقین دلاتا ہوں آپ کا وکیل بن وفاق میں مقدمہ لڑوں گا۔فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ایک دوسرے کا گریبان پکڑ کر نہیں مل جل کر مسائل کا حل نکالیں گے، ہم نے صوبے کی ترجیحات کو دیکھنا ہے سیاسی مخالفت کو نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ کا بیان کچھ دن پہلے کا ہے میں آج آیا ہوں، پیپلز پارٹی نے ہمیشہ مفاہمت اور مذاکرات کی بات کی ہے,گورنر خیبر پختونخوا نے کہا کہ سابق فاٹا کے عوام سے جو وعدے کیے، ان کی ترقی کےلیے کام کریں گے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی بڑی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے دو صوبوں میں اپنے گورنروں کی تقرری کے بعد وفاقی حکومت میں بھی شامل ہونے کا اصولی فیصلہ کرلیا، 8 وزارتیں ملنے کا امکان ہے تاہم وزارتوں کے انتخاب اور تعداد کے حوالے سے حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے, گو کہ پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت میں شمولیت کے بارے میں اسلام آباد میں موجود پارٹی کے اہم ذرائع کی جانب سے باضابطہ طور پر کوئی اعلان یا تصدیق نہیں کی گئی لیکن اس فیصلے کو فی الوقت امکان ظاہر کرتے ہوئے اسے یکسر مسترد بھی نہیں کیا۔ ذرائع کے مطابق یہ پیشرفت گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف اور پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے درمیان اسلام آباد میں ہونے والی ون آن ون ملاقات کے بعد سامنے آئی,بتایا گیا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں دونوں صوبوں کے گورنرز کی نامزدگی کا معاملہ زیر بحث آیا جبکہ مسلم لیگی ذرائع کے مطابق ملاقات میں وزیراعظم شہبازشریف نے بلاول بھٹو کو وفاقی حکومت میں شامل ہونے کی باضابطہ دعوت دی، بعض وزارتوں کا موضوع بھی زیر بحث آیا۔ ایک سوال کے جواب میں مذکورہ ذرائع نے پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی بحیثیت وزیرخارجہ سابقہ کارکردگی کو ملک کے خارجہ امور میں کارکردگی کا شاندار عرصہ قرار دیا,ذرائع کے مطابق مجوزہ فیصلے پر عملدرآمد کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو آٹھ وزارتیں مل سکتی ہیں جبکہ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی چیئرپرسن پہلے ہی پیپلزپارٹی کی روبینہ خالد کو بنانے کا فیصلہ کر لیا گیا۔ 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے دوسری جماعتوں کی حمایت سے مرکز میں حکومت بنانے کے لیے تعاون پر اتفاق کیا تھا,اس وقت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ہم وفاق میں حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے اور (ن) لیگ کے وزارت عظمٰی کے امیدوار کو ووٹ دیں گے۔ اس وقت چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ ہم وفاق میں حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے اور (ن) لیگ کے وزارت عظمٰی کے امیدوار کو ووٹ دیں گے,بعد ازاں پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے عہدے کے لیے شہباز شریف اور اسپیکر کے عہدے کے لیے ایاز صادق کو ووٹ دیا تھا. گزشتہ روز ہی پاکستان پیپلزپارٹی نے فیصل کریم کنڈی کو گورنر خیبر پختونخوا اور سلیم حیدر کو گورنر پنجاب کے عہدوں کے لیے نامزد کیا تھا۔ ڈان نیوز سے غیر رسمی گفتگو میں راجا پرویز اشرف نے فیصل کریم کنڈی اور سلیم حیدر کو گورنرز نامزد کیے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ فیصل کریم کنڈی اور سلیم حیدر دونوں پارٹی کے ورکرز ہیں۔ گورنرز کی نامزدگی کے حوالے سے خبریں سامنے آنے سے قبل وزیر اعظم شبہاز شریف سے چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو کی ملاقات ہوئی تھی جس میں ملکی سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا,دونوں رہنماؤں کے درمیان ملاقات میں پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنرز کی تعیناتی پر بھی مشاورت کی گئی تھی۔
عمران لالیکا کی حماد اظہر پر تنقید, حماد اظہر کا کرارا جواب عمران لالیکا نے ٹویٹ کیا کہ بقول شعیب شاہین علی بخاری چیئرمین جناب عمران خان نے نارتھ پنجاب کے صدر کے لئے جناب میجر طاہر صادق صاحب کا نام فائنل کیا تُھا اور آج بیرسٹر گوہر اور عمر ایوب نے اس ہیرے کا نوٹیفیکیشن نکال دیا. جبکہ حماد اظہر یہ نوٹیفیکیشن نکالنے کی اتھارٹی ہی نہیں رکھتا کیونکہ وہ خود صوبائی جنرل سیکرٹری ہے سینٹرل پنجاب کا اس کی ڈومین ہی نہیں ہے کسی دوسرے حصے میں دخل اندازی کرنا انہوں نے لکھا یار کیوں تم لوگ سیزنڈ سیاستدانوں کو جن کو حلقوں کا پتہ ہے عوام میں جڑیں ہیں ان کو پارٹی کےمعاملات سے دور رکھ رہے ہو کچھ خدا کا خوف کرو. جواب میں حماد اظہر نے ٹویٹ کیا پہلی بات پنجاب کے تمام ریجن پنجاب کے صدر اور جنرل سیکرٹری کی ذمے داری ہیں۔ آپ کی رائے غلط ہے کے میں سنٹرل پنجاب کا جنرل سیکرٹری ہوں۔ پچھلے 6 ماہ سے پنجاب کی صدارت اور جنرل سیکرٹری کا چارج میرے پاس ہے,دوسری بات یہ نوٹیفکیشن عمران خان صاحب کی براہ راست ہدایات کا نتیجہ تھا جو مجھے باضابطہ طور پارٹی کی جانب سے پہنچایا گیا۔ حماد اظہر نے مزید کہا تیسری بات ملک تیمور کی فیملی کو 2024 کے انتخابات عمران خان صاحب کی خصوصی ہدائت پر دو ٹکٹ دییے گئے۔ ان کا بھائی ہمارا منتخب ایم پی اے ہے اور ان کی والدہ 45 این اے فارم کی فاتح ہیں,چوتھی بات یہ کے مجھے یاد نہیں پڑتا کے میں نے کبھی ملک تیمور ملاقات یا بات کی ہو اور میں نے خالصتاً عمران خان سے ملنے والے احکامات پر عمل کیا ہے اور ان سے یا کسی دوسرے شخص کے عہدہ سنبھالنے سے کوئی غرض نہیں۔ صرف پارٹی کی لئے کام اور عمران خان صاحب کے حکم کی تعمیل سے ہے۔ شکریہ۔ حماد اظہر بولے ویسے شیعب شاہین صاحب سے بات ہو گئی ہے۔ ان کا کہنا ہے کے ایک ماہ پہلے خان صاحب نے بطور آپشن صرف ڈسکس کیا تھا میجر صاحب کا نام جبکہ یہ ہدایت ابھی تازہ موصول ہوئی ہے۔ سوکت بسرا بھی اس وقت وہاں موجود تھے۔
ججز تقرری، آئینی ترامیم کا فیصلہ، قانون سازی کیلئے کام شروع ہوچکا، جوڈیشل کمیشن کے اجلاس میں وفاقی وزیر قانون کا انکشاف وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں ججوں کی تقرری کے حوالے سے نئی قانون سازی کرنے کیلئے پارلیمنٹ سے آئینی ترمیم منظور کرانے کا فیصلہ کرلیا,قانون سازی پر کام بھی شروع ہوچکا ہے، اس بات کا انکشاف وفاقی وزیر قانون نے جوڈیشل کونسل کے اجلاس میں کیا. جسٹس منیب اختر نے ان سے استفسار کیا کہ کیا ان ترامیم کے نتیجے میں ممکنہ طور پر جوڈیشل کمیشن کی کمپوزیشن تبدیل ہوسکتی ہے؟تو انہوں نے بتایا کہ غالب امکان یہی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی موجودہ کمپوزیشن تبدیل ہوجائیگی، جبکہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے متفقہ طور پر طے کیا ہے قواعد وضوابط سے متعلق نئی مجوزہ قانون سازی تک ججوں کی تقرری کیلئے مروجہ طریقہ کار ہی برقراررکھا جائیگا۔ چیف جسٹس نے کہا بے شک ججز اپنی رائے نہ دیں، بار کونسلز سے موقف سن لیتے ہیں, اجلاس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس ریٹائرڈ منظور اے ملک کی سربراہی میں قائم رولز میکنگ کمیٹی کی جانب سے جوڈیشل کمیشن کے رولز میں ترامیم کا ایجنڈا زیر غور تھا, اجلاس کی ابتدا میں ہی وفاقی وزیر قانون، اعظم نذیر تارڑنے فاضل ممبران کوآگاہ کیا کہ حکومت اعلیٰ عدلیہ میں تقرریوں کے حوالے سے آئین کی دفعہ 175اے میں ترمیم لانے کی خواہاں ہے اور اس ضمن میں قانون سازی پر کام شروع ہوچکا ہے۔ ذرائع کے مطابق جسٹس منیب اختر نے ان سے استفسار کیا کہ کیا ان ترامیم کے نتیجے میں ممکنہ طور پر جوڈیشل کمیشن کی کمپوزیشن تبدیل ہوسکتی ہے؟تو انہوں نے بتایا کہ غالب امکان یہی ہے کہ جوڈیشل کمیشن کی موجودہ کمپوزیشن تبدیل ہوجائیگی ،جس پر فاضل جج نے کہا کہ پھرکمیشن کے رولز میں مجوزہ تبدیلیوں پر بحث کی توضرورت ہی نہیں ہے۔ ذرائع کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ،جسٹس ملک شہزاد احمد نے رائے دی کہ آئینی ترمیم جب ہونگی تب دیکھا جائے گا؟ فی الحال ان رولز پر اتنا کام ہوا ہے تو یہ محنت ضائع نہیں ہونی چاہیے تاہم جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ان حالات میں میں ان مجوزہ رولز پر کوئی رائے نہیں دونگا۔ ایک روز قبل پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کی تشکیل نو کی گئی تھی,نوٹیفکیشن کے مطابق فاروق ایچ نائیک،انوشہ رحمان،حامد خان اور محسن عزیز کمیٹی میں شامل ہونگے,وزیر دفاع خواجہ آصف،شازیہ مری،لطیف کھوسہ اور علی محمد خان بھی کمیٹی کا حصہ ہونگے,پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری اعلیٰ عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کی منظوری دیتی ہے۔ جیو نیوز کے ٹاک شو ’آج شاہزیب خانزاہ کے ساتھ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کی مدتِ ملازمت 3 سال کرنے یا پھر سپریم کورٹ کے ججوں کی ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سے بڑھا 68 سال کرنے کی تجاویز سامنے آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ان تجاویز کو یکسر مسترد نہیں کریں گے، وزیراعظم شہباز شریف نے بھی ججز کی تعیناتی کے لیے آئینی ترمیم کی ہدایت کردی ہے۔ وفاقی وزیر نے واضح کیا کہ ’ تاہم ابھی تک بطور وزیرقانون کام کی ہدایت نہیں ملی لیکن اس معاملے کو مسترد نہیں کریں گے’۔
موجودہ حکومتی نظام انتہائی پیچیدہ ہے جسے کوئی ایک نہیں چلا سکتا، سب مل کر ہی چلا سکتے ہیں: مصطفیٰ نواز سابق وزیراعظم ورہنما مسلم لیگ ن شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور سابق رہنما پاکستان پیپلزپارٹی مصطفیٰ نواز کھوکھر نے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے نام اپنے پیغام میں کہا کہ ملک اس وقت مشکل ترین دوراہے پر کھڑا ہے اور اسے مزید نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے اس لیے سارے معاملات سیاستدانوں کے حوالے کر دیں یا پھر خود ہی سنبھال لیں۔ ملک کے تینوں بڑے سیاسی رہنمائوں نے آرمی چیف کے لیے یہ پیغام ایک انٹرویو دیتے ہوئے دیا۔ ملک کے معروف سیاستدان مصطفیٰ نواز کھوکھر نے انٹرویو کے دوران کہا کہ ملک اس وقت مشکل ترین دوراہے پر کھڑا ہے، ملک کے مسائل کا حل فوج کے پاس موجود نہیں ہے، ملک کو اس وقت جس ہائبرڈ نظام سے چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس سے یہ ملک نہیں چل سکتا۔ آرمی چیف کو چاہیے کہ وہ ملکی معاملات کو سیاستدانوں کے حوالے کر دیں کیونکہ موجودہ ہائبرڈ نظام سے ملک نہیں چل سکتا۔ انہوں نے کہا کہ ایسا ہی چلتا رہا تو ملک کے مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، یہ فوج ہم سب کی ہی فوج ہے، ملک کے عوام کی فوج ہے، ہماری خواہش ہے کہ پاک فوج ایک نظم ونسق کے مطابق چلے۔ ملک کے فوج کی سیاست میں مداخلت درست نہیں ہے، موجودہ حکومتی نظام انتہائی پیچیدہ ہو چکا ہے جسے کوئی ایک نہیں چلا سکتا، اسے سب مل کر ہی چلا سکتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے آرمی چیف کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں دو نظام ایک ساتھ نہیں چل سکتے، اس ملک کو صرف ایک ہی نظام کے ساتھ چلایا جا سکتا ہے۔ ایک ملک کو 2 نظام کے ساتھ چلانا غلط فیصلہ ہے، فوج، حکومت اور عدلیہ کو ملک کے لیے ایک ساتھ چلنا چاہیے اور نظام بھی صرف ایک ہی ہونا چاہیے۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ آرمی چیف کو ایک فیصلہ کرنا ہو گا کہ یا تو وہ خود آ جائیں یا ملک چلانے کے لیے موجودہ حکومت کے نظام کو درست کریں اور ملک میں صاف وشفاف انتخابات کروائیں، علی امین گنڈاپور ہو یا مریم نوازشریف ان کو جمہوری عمل سے آگے آنا چاہیے۔ ملک کو جمہوری طریقے سے ہی چلنا چاہیے اس کے لیے عوام کو ہر فیصلہ ہمیں قبول کرنا چاہیے اور اس کا فیصلہ آرمی چیف بہتر طریقے سے کر سکتے ہیں۔
دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور مختلف ملکوں کے شہریوں میں شادیاں کرنے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے ۔ ذرائع کے مطابق امریکہ سے تعلق رکھنے والے ایک خاتون صحافی نے اپر چترال کے علاقے سے تعلق رکھنے والے پولو کے ایک نوجوان کھلاڑی سے محبت ہونے پر پاکستان پہنچ کر اس سے شادی کر لی۔ امریکہ کی کے کلیئر سٹیفن نامی فری لانس خاتون صحافی امریکہ سے گزشتہ روز ہی وفاقی دارالحکومت اسلام آباد پہنچی تھیں جہاں انہوں نے پولو کے کھلاڑی انور ولی عرف موشور سے نکاح کر لیا۔ امریکی صحافی کے کلیئر سٹیفن کے نکاح میں شریک ان کے دوستوں کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان میں 8 مہینے پہلے آئی تھیں اور اپرچترال کے علاقے بونی میں قیام کے دوران وہاں ان کی ملاقات پولو کے معروف نوجوان کھلاڑی، شاعر و سماجی شخصیت انور ولی المعروف موشور سے ہوئی تھی۔ کے کلیئر سٹیفن نے اپنے وطن واپس لوٹنے کے بعد بھی انور ولی سے مسلسل رابطہ رکھا تھا جس کے بعد ان کی دوستی دھیرے دھیرے پیار میں بدل گئی اور آخرکار دونوں کے گزشتہ روز قریبی دوستوں کی موجودگی میں نکاح کر لیا۔ دونوں کے نکاح کی تقریب سادگی کے ساتھ طے پائی جس میں انور ولی کے قریبی دوستوں کے ساتھ ساتھ رشتہ دار اور وکلاء بھی شریک ہوئے۔ خاندانی ذرائع کا کہنا ہے کہ کے کلیئر سٹیفن گزشتہ روز ہی امریکہ سے اسلام آباد پہنچی تھیں جہاں ان کا استقبال انور ولی کے قریبی دوستوں کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں نے کیا اور وہیں پر ان کے نکاح کی تقریب منعقد کی گئی۔ کے سٹیفن اور انور ولی نکاح کے بعد پشاور چلے گئے جہاں سے وہ چترال چلے جائیں گے اور ان کی مقامی رسوم ورواج کے مطابق تقریبات اور ولیمہ کیا جائیگا، نکاح میں کے سٹیفن کا حق مہر 30 ہزار روپے طے کیا گیا۔ امریکی صحافی کلیئر سٹیفن نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ وہ انور ولی کے اخلاق سے متاثر ہوئی جس کی وجہ سے انور ولی کو اپنا جیون ساتھی منتخب کیا۔ میں امریکہ کے مقامی سپورٹس میگزین کے ساتھ کام کرتی ہوں اور دنیا بھر میں گھوم چکی ہیں لیکن چترال کی ثقافت نے بہت متاثر کیا۔ انور ولی پولو کے بہت اچھے کھلاڑی ہیں، ان کے میچز دیکھنے پولو گرائونڈ جاتی تھی جس کے بعد ان میں دلچسپی بڑھنے لگی۔
فیلڈ ہسپتالوں کا افتتاح، وزیراعلیٰ پنجاب کے نواسے نواسیاں پرجوش بچے اپنی نانو کی تصویر دیکھ کر خوشی میں نانو اگین، نانو اگین بولتے رہے: سوشل میڈیا صارف وفاقی دارالحکومت لاہور میں 32 فیلڈ ہسپتالوں کے افتتاح کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف کے نواسے نواسیوں نے سڑک سے گزرتے ہوئے فیلڈ ہسپتال دیکھ کر خوشی کا اظہار کر دیا۔ مریم نوازشریف نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے نواسے نواسیوں کی خوبصورت ویڈیو کو سوشل میڈیا پر شیئر کر دیا جس کے بعد کے بعد وہ ہر طرف وائرل ہو گئی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں سڑک سے گزرتے ہوئے فیلڈ ہسپتال دیکھنے کے بعد مریم نوازشریف کے نواسے نواسیوں کو خوش ہو کر جوش سے "ایک بار پھر نانو" کے نعرے بلند کرتے ہوئےدیکھا جا سکتا ہے۔ خوبصورت ویڈیو کو دیکھ کر انداز لگایا جا رہا ہے کہ لاہوری عوام کے ساتھ ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب کے گھر کے افراد بھی عوام کیلئے ان کی خدمات سے بہت خوش ہیں۔ مریم نوازشریف نے اپنے نواسے نواسیوں کی ویڈیو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر شیئر کرتے ہوئے لکھا: لاہور کی سڑکوں پر ڈرائیونگ کرتے ہوئے میرے نواسے نواسیاں فیلڈ ہسپتال کو دیکھنے کے بعد پرجوش ہو گئے اور "ایک بار پھر نانو" کے نعرے لگانے لگے، ویڈیو کے کیپشن میں مسکراتے ہوئے ایموجی کو بھی شیئر کیا۔ ایک سوشل میڈیا صارف نوید احمد نے مریم نوازشریف کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا: لاہور میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف صاحبہ کے نواسے نے جب سڑک پر فیلڈ ہسپتال دیکھے، تو بچے اپنی نانو کی تصویر دیکھ کر خوشی میں نانو اگین، نانو اگین بولتے رہے، ماشاءاللہ ! واضح رہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نوازشریف نے 32 فیلڈ ہسپتالوں کے منصوبے کا افتتاح گزشتہ روز ہی کیا تھا، منصوبے کے آغاز پر پہلے مرحلے میں 32 سے زیادہ چھوٹے بڑے فیلڈ ہسپتالوں کو فنکشنل کر دیا گیا ہے۔ صوبے بھر کے مختلف ضلعوں میں 21 بڑے فیلڈ ہسپتال بھی شہریوں کو علاج معالجے کی معیاری سہولیات فراہم کریں گے۔
لاہور میں شہریوں کے محافظ خطرے میں آگئے, فائرنگ سے اب تک چار پولیس اہلکار شہید ہوچکے ہیں, چند روز میں نامعلوم موٹر سائیکل سوار حملہ آوروں کی فائرنگ سے چار اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ گزشتہ شب ٹیکسالی گیٹ کے قریب اہلکار غلام رسول کی موت کے بعد پولیس نے سرچ آپریشن جاری ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران کا کہنا ہے کہ کچھ مقامات کی نشاندہی ہوئی ہے۔ رات سے ہی سرچ آپریشن جاری ہے۔ اس وقت کرول گھاٹی، شاد باغ، شاہدرہ اور دریا پار میں آپریشن ہو رہا ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز نے کہا کہ بظاہر یہ سیریل کلنگ لگتی ہے اور اسکا کوئی سہولت کار بھی ہے۔ تمام شواہد کی روشنی میں ٹیمیں کام کر رہی ہیں اور جلد ملزم کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق شیخوپورہ اور فیروز والا کے گردو نواح میں فیکٹری ملازمین کے کوائف چیک کیے جا رہے ہیں اور متعدد افراد کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ پولیس افسران نے اہلکاروں کو بلٹ پروف جیکٹ پہن کر ڈیوٹی کی ہدایت کی ہے اور ان کاکہنا تھاکہ پولیس اہلکار ڈیوٹی کے بعد گھر جاتے ہوئے اسلحہ ساتھ رکھیں,فائرنگ کی اطلاع پر ڈی آئی جی انویسٹی گیشن ذیشان اصغر واقعہ کی جگہ پہنچے، انہوں نے کہا کہ ملزمان کو جلد گرفتار کرلیا جائے گا۔پولیس اہلکار کی ٹارگٹ کلنگ کے بعد اعلیٰ پولیس افسران کی ہدایت پر لاہور کے داخلی و خارجی راستے سیل کردیے گئے تھے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نےپاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز اور اسٹیل ملز سمیت دیگر اداروں کی نجکاری کرنے کے بجائے وفاقی حکومت سے انہیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کا مطالبہ کردیا,انہوں نے کہا اسٹیل ملز کی زمین حکومت سندھ کی ملکیت ہے، حکومت اگراسٹیل مل بحال نہیں کرسکتی تو حکومت سندھ کے حوالے کرے ہم اسے پی پی موڈ پر چلائیں گے۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز سمیت دیگر ان اداروں کے بارے میں بات کرتے ہوئے جن کی نجکاری کے حوالے سے حکومت غور کر رہی ہے، انہوں نے کہا کہ پاکستان پیپلز پارٹی کا یہ مؤقف تھا، ہے اور رہے گا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے جو منصوبے ہیں، وہ کامیاب بھی ہوئے ہیں، وہ فعال بھی ہوئے ہیں اور ہم نے انہیں کامیاب بنایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم وفاقی حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر وہ پی آئی اے کے بارے میں نجکاری کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو اس سے بہتر یہ ہے کہ وہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کرے، وہ ان کے کچھ شیئرز ضرور بیچیں اور پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر اس ادارے کی ترقی کا بندوبست کریں، اس کا فائدہ پاکستان، اس کی معیشت کو ہوگا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ یہ ایسی چیز ہے جو ہم کرسکتے ہیں، ہم نے تھر کول میں ہم نے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے وہ کام کیا جس میں صوبائی اور وفاقی حکومتیں ناکام رہیں۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ موجودہ وزیر خزانہ ہمارے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے نظام کو بہت پسند کرتے ہیں، ہم کوشش کریں گے کہ ہم ان کو سمجھائیں، اس بات پر ان کو منائیں کہ آپ نجکاری کے بجائے پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کی طرف بڑھیں تاکہ ہم اس ادارے کو فعال بھی کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیل ملز کی زمین حکومت سندھ کی ملکیت تھی اور ہے، ہم سمھتے ہیں کہ حکومت سندھ کی مرضی کے بغیر اس ادارے کے بارے میں فیصلے نہیں کرنے چاہییں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ میری اسٹیل ملز کے حوالے سے یہ رائے ہے کہ وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ بیٹھے اور ہم سمجھتے ہیں نجکاری سے بہتر یہ ہے کہ اگر وفاقی حکومت کو اسٹیل ملز نہیں چاہیے تو حکومت سندھ خرید لے گی، ہم پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت اسے ان سے بہتر چلائیں گے اور وہاں کے مزدروں کا خیال رکھیں گے کراچی آرٹس کونسل میں چیئرمین پیپلزپارٹی نے یوم مزدور کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مظلوم بہن بھائیوں کے ساتھ مزدوروں کا دن منارہا ہوں, پیپلز پارٹی کا فلسفہ سادہ ہے مزدوروں کو ان کی محنت ملنی چاہیے، امید ہے کہ وفاق، سندھ اور بلوچستان کی حکومتیں تنخواہوں میں اضافہ کریں گی,یوم مئی کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ میں مزدور بہنوں بھائیوں کے ساتھ یوم مئی منا رہا ہوں، مزدوروں کی محنت سے دنیا بھر کی معشیت چلتی ہے، اشرافیہ پیسا کماتا ہے تو وہ مزدور کی خون پسینے کی محنت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ادارے بھی مزدوروں کی محنت سے چلتے ہیں، پیپلز پارٹی کا فلسفہ سادہ ہے مزدوروں کو ان کی محنت ملنی چاہیے,بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ قائد عوام شھید بھٹو نے ہمیں وہ آئین دیا جس میں مزدوروں اور ان کی محنت کا ذکر ہے،اس آئین کے تحت مزدوروں کو یونین سازی کا بھی حق ملا۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ 2008 سے 2013 تک قومی اسمبلی نے جتنے قوانین مزدوروں کے حق میں منظور کروائے اس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اس دور میں مزدور کے حقوق میں اضافہ ہوا,بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت سندھ نے بھی مزدوروں کے حق میں قوانین منظور کیے ہیں، اس معاملے میں کوئی صوبہ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تنخواہوں میں اضافے کے حوالے سے اظہارخیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت سندھ اور بلوچستان سے بہت زیادہ امید ہے کہ وہ تنخواہوں میں اضافہ کریں گی، جبکہ وفاقی حکومت سے بھی تنخواہوں کے اضافے کی امید ہے,پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے چیئرمین پیپلزپارٹی کا کہنا تھا کہ وفاقی وزیرخزانہ پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کوپسند کرتے ہیں، ہم انہیں منائیں گے کہ وہ پی آئی کی نجکاری نہ کریں اور اسے پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے تحت بحال کریں۔
سابق وزیر اعظم آزاد ریاست جموں و کشمیر سردار تنویر الیاس خان قانونی گرفت میں آگئے,ان کے خلاف سینٹورس مال کے مرکزی دفاتر اور اہم دستاویزات پر قبضہ کرنے کی کوشش پر مقدمہ درج کرلیا گیا,ایف آئی آر ڈپٹی سکیورٹی انچارج دی سینٹورس مال کرنل (ر) ٹیپو سلطان کی جانب سے درج کروائی گئی ہے جس میں سردار تنویر الیاس، محمد علی، انیل سلطان، رضوان اور دیگر نامعلوم ملزمان کو نامزد کیا گیا۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق سردار تنویر الیاس 20 سے 25 افراد پر مشتمل مسلح جتھے کے ہمراہ سینٹورس مال کے دفتر 1708 میں تالا توڑ کر داخل ہوئے، دفتر پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جسے سیکیورٹی گارڈز نے ناکام بنادیا، سردار تنویر الیاس نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سردار یاسر الیاس خان اور سردار ڈاکٹر راشد الیاس خان کو جان سے مارنے کی دھمکی دی۔ متن میں کہا گیا ان افراد نے دفتر کی سیکیورٹی پر مامور سیکیورٹی اہلکار پر تشدد کیا، مذکورہ حملے کی اطلاع پاکر جب ہم اس جگہ پہنچے تو سردار تنویر الیاس نے کرنل (ر) ٹیپو سلطان پر فائر کردیا جو مس ہوگیا,ایف آئی آر کے مطابق ملزمان پہلے بھی ایسی کارروائی کرچکے ہیں۔ ڈپٹی سیکیورٹی انچارج کرنل (ر) ٹیپو سلطان نے پولیس حکام سے سردار تنویر الیاس اور مقدمے میں درج دیگر ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ اکتوبر دوہزار بائیس میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع نجی شاپنگ مال سینٹورس میں آگ لگ گئی تھی، اس وقت کے وزیر اعظم آزاد کشمیر تنویر الیاس کے ترجمان نے کہا تھا کہ سینٹورس مال میں آگ لگی نہیں لگائی گئی ہے، پی ڈی ایم کی حکومت کو آزاد کشمیر میں پی ٹی آئی کی حکومت برداشت نہیں ہو رہی ہے، انتظامیہ کے سینٹورس کے خلاف اقدامات کے حوالے سے پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔ ترجمان نے مزید کہا تھا آئی جی، چیف کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد آگ لگانے میں براہ راست ملوث ہیں، وفاقی حکومت کی جانب سے ان کو مکمل آشیرباد حاصل ہے، اسلام آباد کی انتظامیہ اس سارے معاملے کی ذمہ دار ہے، سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ترجمان سابق وزیر اعظم آزاد کشمیر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خدشہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں یہ انتقامی کارروائی ہے، وفاقی حکومت ماڈل ٹاؤن سے بڑا سانحہ بنانا چاہتی ہے، وزیر اعظم شہباز شریف اور رانا ثنااللہ اس واقعے میں ملوث ہیں، یہاں پر بڑا واقعہ ہونے سے بچ گیا ہے، وفاقی حکومت انتقامی کارروائیاں نہ کرے۔ اسی دوران اس کے علاوہ اس وقت کے وزیر خزانہ آزاد کشمیر عبد الماجد خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ مال کو سیاست کا رنگ دیا جارہا ہے، کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ آزاد کشمیر کے لوگ اسلام آباد میں کاروبار کریں، یہ مال وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس کی ملکیت ہے جس کی وجہ سے یہ کارروائی کی جارہی ہے۔ اس وقت کے وزیر خوراک آزاد کشمیر نے کہا تھا کہ اس مال میں لوگوں کے اربوں روپے لگے ہوئے ہیں، اگر انتظامیہ نے یہ مال نہ کھولا تو دھرنا بھی دیں گے اور احتجاج بھی کریں گے، مال کے مالک اور ان کے اہل خانہ پر ایف آئی آر درج کی جارہی ہے، سردار تنویر الیاس کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آئے ہیں، وفاقی حکومت آگ کو لے کر انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔
پتہ نہیں چلا کہ کیپٹن صفدر صاحب نے ہمیں ڈانٹا ہے یا اپنے سسرال کو ڈانٹا ہے حکومت جسکی ہے انکی بات کی جائے اور انکی بات کرنا پڑے گے۔۔مولانا فضل الرحمن کے بیان پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا مولانا فضل الرحمان نے وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر پر طنز کے نشتر چلادئیے اوریہاں بلاوجہ شہبازشریف کی شکایت کی گئی اس بیچارے کی حکومت ہی کب ہے؟ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ اُن کی بات کی جائے جن کی حکومت ہے اور اب اُن کی بات کرنی پڑے گی۔ کیپٹن (ر) صفدر کے خطاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پتہ نہیں وہ ہمیں ڈانٹ رہے تھے یا اپنے سسرال والوں کو؟
گندم درآمد سکینڈل کی تحقیقات کرنے کے لیے قائم کی گئی کمیٹی نے اپنی ابتدائی رپورٹ پیش کر دی ہے جس میں اہم ترین انکشافات سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں گندم درآمد کرنے کے لیے ایک منظم منصوبے کے تحت نجی شعبے کو کھلی چھوٹ دی گئی جس نے اضافی گندم درآمد کر کے قومی خزانے کو 300 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ وزارت خزانہ کی سفارش پر نگران حکومت کے دور میں نجی شعبہ کو مقررہ حد کے بجائے کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ رپورٹ میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گندم درآمد پر نجی شعبے کو جی ایس ٹی اور کسٹم ڈیوٹی کی بھی چھوٹ دی گئی تھی جبکہ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے منظوری ملنے کے بعد سمری نیشنل فوڈ سکیورٹی کی طرف سے ارسال کی گئی جس سے گندم ٹریڈر نے اربوں روپے کی کمائی کی۔ وزارت نیشنل فوڈ سکیورٹی کی طرف سے ٹی سی پی اور وزارت تجارت کی اہم ترین تجاویز کو نظر انداز کر دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق ایک منظم منصوبے کے تحت ملک میں اضافی گندم درآمد کی گئی جس سے قومی خزانے کو 300 ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا، صوبائی محکمے وپاسکو مقرر ہدف 7.80 کے بجائے 5.87 ملین ٹن خرید سکے۔ کمیٹی نجی سیکٹر کے 35 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی تحقیقات کے ساتھ وزارت تحفظ خوراک کے کردار پر تحقیقات کر رہی ہیں جس کی رپورٹ وہ 2 ہفتے میں وزیراعظم کو پیش کرےگی۔ دوسری طرف وزیراعظم شہبازشریف نے گندم درآمدی سکیم کی چھان بین کرنے کے لیے تحقیقات کمیٹی تشکیل دے دی ہے جس کا سربراہ جسٹس (ر) میاں مشتاق کو مقرر کیا گیا تھا۔ وفاقی حکومت کی طرف سے نگران حکومت کے دوراقتدار میں گندم درآمد کرنے کی کمیٹی کے ٹی اور آرز بھی طے کر دیئے گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کمیٹی گندم کی اضافی درآمد سے قومی خزانے کو اربوں کا نقصان پہنچنے کے معاملے کی تحقیقات کرنے کے ساتھ ساتھ وزارت تجارت ونگران حکومت کے مبینہ گندم درآمدگی کے غلط فیصلے کی جانچ کر کے وزیراعظم کو 2 ہفتے میں رپورٹ پیش کرے گی۔ علاوہ ازیں پنجاب اسمبلی کے گزشتہ روز ہونے والے اجلاس میں گندم پالیسی کے معاملہ پر اپوزیشن نے دوبارہ سے اجلاس طلب کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایوان میں گندم کی نئی پالیسی تشکیل دے رہی ہے نہ کسانوں سے خریداری کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی ورکرز وممبرز کے علاوہ کسانوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، 2 دنوں سے پولیس کسانوں کے پیچھے ہے، اسمبلی اجلاس کیلئے ریکوزیشن جمع کروائیں گے۔
پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر بھیجنے کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں,انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی کی کور کمیٹی کے رکن ڈاکٹر خرم خورشید کا کہنا ہے کہ 3 مئی کو 12 بج کر 50 منٹ پرپاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پربھیجا جائے گا,مشن چین کے ہینان اسپیس لانچ سائٹ سے خلا میں بھیجا جائے گا۔ ڈاکٹر خرم خورشید کا کہنا ہے کہ سیٹلائٹ آئی کیوب کی لانچ کو ویب سائٹ سے لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جائے گا,ان کا کہنا تھا کہ آئی کیوب قمر کا ڈیزائن اور ڈویلپمنٹ چائنہ اور سپارکو کے اشتراک سے تیارکیا گیا ہے، چاند کی تصاویر بنانے کے لیے آئی کیوب قمر میں دو کیمرے نصب ہیں,ڈاکٹرخرم خورشید کا بتانا ہے کہ پاکستان کا سیٹلائٹ مشن چاند کے مدارکے چکر کاٹے گا اور یہ مشن سے لی جانے والی تصاویر تحقیقی مقاصد میں کام آئیں گی,انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے مصنوعی سیارے کا وزن سات کلو ہوگا۔
چیف جسٹس مداخلت کاروں کی خاموش سرپرستی کے بجائے تمام تجاویز سامنے لائیں، پی ٹی آئی کا مطالبہ پاکستان تحریک انصاف کی کور کمیٹی نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کی جانب سے لکھے گئے خط پر ہونے والی سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کی سماعت پر تحفظات کا اظہار کردیا, انہوں نے کہا چیف جسٹس آف پاکستان مداخلت کاروں کی خاموش سرپرستی کے بجائے تمام ہائی کورٹس کی تجاویز منظر عام پر لائیں,پی ٹی آئی کی کورکمیٹی کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ اجلاس میں تنظیمی معاملات، ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال، سیاسی حکمت عملی اور آئندہ کے لائحہ عمل پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا پی ٹی آئی کی جانب سے بانی چیئرمین اور ان کی اہلیہ کے خلاف مقدمات التوا میں ڈال کر انہیں انصاف سے محروم رکھنے اور جھوٹے، بےبنیاد، بے ہودہ اور من گھڑت عدت کیس میں درخواست گزار کے اپنے وکلا کے ہمراہ ججوں کو دباؤ میں لانے اور بانی چیئرمین عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا پر رکیک حملے کی بھی شدید مذمت کی گئی۔ پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے اپنے خط میں جن خفیہ قوتوں کی مداخلت کا ذکر کیا ان کے نشان ان مقدّمات میں بھی واضح ہیں,انہوں نے کہا کہ ججوں کو ڈرا دھمکا کر یا ٹاؤٹ درخواست گزاروں کو تھپکیاں دے کر عدالتی کارروائی میں شرم ناک مداخلت اور عمران خان اور ان کی اہلیہ کو قید میں رکھنے کی کوششیں جاری ہیں۔کورکمیٹی نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کے خط پر عدالتی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان کا طرزعمل اور خیالات نہایت مایوس کن اور عدلیہ مخالف رہے۔ پی ٹی آئی کی کورکمیٹی نے کہا پاکستان کی آئینی اور جمہوری تاریخ کے اس سنگین اور حسّاس ترین معاملے پر روزانہ کی بنیاد پر سماعت اور فل کورٹ کی تشکیل سے چیف جسٹس کا گریز نہایت افسوس ناک ہے۔اعلامیے میں کہا گیا کہ اپنے خط کے ذریعے عدلیہ کی آزادی پر ماری جانے والی شب خون کو قوم کے سامنے لانے اور ان ججوں کی آواز میں آواز ملانے والے جج خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ اعلامیے میں کہا گیا پی ٹی آئی کی کورکمیٹی کے اجلاس میں مطالبہ کیا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان سے مداخلت کاروں کی خاموش سرپرستی کے بجائے معاملے پر تمام ہائی کورٹس سے موصول ہونے والے جوابات منظرعام پر لایا جائے۔ پی ٹی آئی کے مطابق اجلاس میں پنجاب میں کسانوں کے معاشی قتل، گندم کی فصل کے ضیاع اور پرامن احتجاج کے لیےنکلنے والے کسانوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی گئی اور بانی چیئرمین پی ٹی آئیی کی ہدایات کی روشنی میں ملک گیر پرامن احتجاجی تحریک کی تیاریوں پر بھی تفصیلی تبادلہ خیال کیاگیا۔ اجلاس میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی کی منظوری سے مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے علاوہ تمام سیاسی جماعتوں سے سیاسی اشتراک عمل کے آپشنز پر بھی تفصیلی غور کیا گیا۔ پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کرنے والے رہنماؤں کی واپسی سے متعلق کہا گیا کہ9 مئی کے بعد پاکستان تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کا معاملہ بانی چیئرمین تحریک انصاف کی جیل سے رہائی تک مکمل طور پر مؤخر کرنے پر اتفاق ہوا۔اس حوالے سے مزید کہا گیا کہ پارٹی سے علیحدگی اختیار کرنے والوں کی جماعت میں واپسی کی درخواستیں رہائی کے بعد فیصلے کے لیے بانی چیئرمین عمران خان کے روبرو پیش کرنے پر اتفاق کیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز کے خط پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا ہے کہ طے کر لیں ہم کسی سیاسی طاقت یاانٹیلی جنس ادارے کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، کسی وکیل گروپ یا حکومت کے ہاتھوں استعمال نہیں ہوں گے، کئی واقعات بتا سکتے ہیں جب مداخلت ہوئی، اگر میرے کام میں مداخلت ہو اور میں نہ روک سکوں تو مجھے گھر چلے جانا چاہیے، ججز کا حکم نامہ دکھاتا ہے، بتاتا ہے، چیختا ہے کہ کتنی مداخلت ہوئی ہے۔ جسٹس ا طہرمن اللّٰہ نے کہا کہ آپ نے اپنے کنڈکٹ سے مداخلت کو ثابت کر دیا، گزشتہ سماعت سے ججز کے خلاف نفرت انگیز مہم چلائی گئی، قیاس یہ ہے کہ ریاست نے ججوں کے ذاتی ڈیٹاحاصل کیے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال اٹھایا کہ آئی بی، آئی ایس آئی اور ایم آئی کس قانون کے تحت بنیں؟ یہ ایجنسیاں کس قانون کے تحت کام کرتی ہیں؟ آئندہ سماعت پر تینوں ایجنسیوں کے قانون بتائے جائیں۔
کراچی میں اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہوگیا، اسلحہ بردار دہشت گردوں نے شہر قائد کو یرغمال بنالیا یہ سفاک ملزمان اپنے مقصد کے حصول کیلئے کسی شہری کی جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ کراچی میں شاطر ڈاکو نے بیکری مالک کا دیوالیہ کردیا, نیپا کے قریب بیکری چین کی چوتھی آؤٹ لیٹ کو بھی لوٹ لیا، جس کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آگئی, فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ملزم نے چوتھی واردات میں بھی پولیس یونیفارم جیسے لباس پہن رکھا تھا، فوٹیج میں ماسک پہنے ملزم کو واضح دیکھا جاسکتا ہے، ملزم اکیلا واردات کیلئے بیکری پہنچا اور کاؤنٹر سے رقم لوٹ کر فرار ہوجاتا ہے۔ پولیس کے اعلیٰ افسران اسٹریٹ کرائم و ڈکیتی کی واردتوں کی روک تھام میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے,دوسری جانب وزیر داخلہ سندھ ضیاء الحسن لنجار نے دعوی کیا ہے کہ کراچی میں ایک ہفتے کے دوران اسٹریٹ کرائمز میں کمی آئی ہے۔ سندھ بار کونسل کی قیادت سے سالانہ انتخابات کے معاملے پر گفتگو میں ضیاء الحسن لنجار نے کہا کہ غفلت برتنے والے اہلکاروں کو بالکل بھی ریلیف نہیں دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہو رہی ہے، امن و امان حکومت کی اولین ترجیح ہے,وزیر داخلہ سندھ نے مزید کہا کہ مجھے بطور وزیر داخلہ ڈیڑھ ماہ کا عرصہ ہوا ہے، اب سندھ میں امن و امان کے حوالے سے صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ سب کی خواہش ہے کہ سندھ میں امن و امان کی صورتحال مزید بہتر ہو جائے۔
"بگ برادر سب دیکھ رہا ہے یہ کیا کلچر ہے"۔جسٹس منصور علی شاہ نے جارج اوروِل کے ناول کا حوالہ دیا ہے جسٹس منصور علی شاہ نے جارج اوروِل کے ناول 1984 میں ایک کردار بگ برادر کا حوالہ دیا جو ہر خفیہ چیز پر نظر رکھتا تھا انہوں نے کہا کہ یہ کس قسم کی ریاست ہے کہ ہر وقت اس چیز کا ڈر لگا رہتا ہے کہ کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے، کوئی ہمیں سن رہا ہے، کوئ ہماری ریکارڈنگ کر رہا ہے، کیمرے ہماری ویڈیو بنا رہے ہیں کیا ریاست اس طرح چلائی جاتی ہے؟ جارج آرویل ایک برطانوی رائیٹر تھا جو 1936 سے 1939 کی اسپین کی سول وار کا ایک کردار تھا- اس نے 1945 میں ایک ناول "اینمل فارم " اور 1949 میں ایک ناول " 1984 " لکھا تھا جس میں اس نے سپینش سول وار کے اپنے ذاتی احوال لکھے - 16 فروری 1936 کو سپین میں الیکشن کے بعد بایں بازو کے ایک اتحاد "پاپولر فرنٹ " نے الیکشن جیتا تھا لیکن وہاں کے دائیں بازو کی کونزرویٹو ونگ نے اس وقت کے آرمی جنرل جنرل فرانسسکو فرانکو کی مدد سے جولائی 1936 میں ملک میں مارشل لا لگا کر قبضہ کرنے کی کوشس کی تھی ' جس کے نتیجے میں وہاں سول وار شروع ہوگئی تھی - جارج اورول کا شہرہ آفاق ناول 1984 سال 1949 میں شائع ہوا جس میں ایک جماعتی نظام اور اس کے پیچھے کار فرما آمرانہ سوچ اور ہتھکنڈوں کو اجاگر کیا گیا کیسے ایک جماعتی نظام کام کرتا ہے کیسے اس جماعت کے پندرہ فیصد لوگ پچاسی فیصد پر حکمرانی کرتے ہیں، کس طرح لوگوں کے ذہنوں پر قبضہ کیا جاتا ہے ان سے سوچنے سمجھے کی صلاحیت چھین لی جاتی ہے ان کو وہی دکھایا جاتا ہے وہی بات کی جاتی ہے بلکہ منوائی جاتی ہے اور وہی سوچنے پر مجبور کیا جاتا ہے جو ان کا لیڈر سوچتا ہے اور ظاہر ہے وہ وہی سوچے گا جو اس کے فائدے میں ہوگا، پھر ان کی اس محدود سوچ کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اس ناول میں لندن شہر میں ایک جماعت کی آمریت دکھائی گئی ہے شہر کے ہر دور درودیوار پر “بڑے بھائی” کی تصویر والے پوسٹرز لگائے گئے ہوتے ہیں جس پر لکھا ہوتا ہے ۔ Big brother is watching you یعنی بڑے بھائی آپ کو دیکھ رہے ہیں ناول 1984 کی کہانی کے مطابق بگ برادر کی پارٹی کے نمائندے اور جاسوس ہر گھر ، ہر دفتر اور ہر جگہ موجود ہوتے وہ باقی لوگوں کی ہر حرکت پر نظر رکھتے ہیں،بگ برادر کی مرضی سے زیادہ کسی کو سوچنے کی اجازت نہیں ہوتی ،لوگوں کو امن اور آزادی کی اپنی مرضی کی تعریف بتائی جاتی اور اس سب کو شعور کا نام دیا جاتا، ناول کی کہانی دو مرکزی کرداروں کی بگ برادر کی پالیسی سے انحراف اور پھر ان کے انجام پر مبنی ہے لیکن دراصل اس کہانی میں آمرانہ حکمرانی اور اس کو قائم رکھنے کے لئے اپنائے جانیوالے ہتھکنڈوں کے بارے میں بتایا گیا ہے جو کہ آج بھی دنیا میں کئی ملکوں کی حکومتوں اور نظام سے مطابقت رکھتا ہے اسی وجہ سے روس اور کچھ دیگر ملکوں میں اس ناول پر پابندی بھی لگائی گئی۔ جارج اورول کا ایک اور ناول اینمل فارم کو بھی بہت پذیرائی ملی جس میں انہوں نے حوالہ دیا کہ سور اپنے خونخوار کتوں کی مدد سے فارم پر قبضہ کر لیتے ہیں اور خود کو باقی جانوروں سے افضل سمجھتے ہیں۔ خوراک کی قلت کے باعث جانوروں کے راشن میں کٹوتی ہوتی جبکہ سور متواتر دودھ، شراب اور بارلے سے لطف اندوز ہوتے ہیں جاوج ارول کے مطابق دنیا میں سیاستدان جنگل میں بندروں کی طرح ہوتے ہیں جب وہ جھگڑا کرتے ہیں تو فصلوں کو خراب کر دیتے ہیں اور جب وہ صلح کرتے ہیں تو فصل کھا جاتے ہیں