خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
بلوچستان کے ضلع نوشکی میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے چار پولیس اہلکار شہید ہو گئے۔ نوشکی پولیس کے سربراہ ہاشم مہمند کے مطابق واقعہ غریب آباد کے علاقے میں پیش آیا، جہاں اہلکار معمول کی گشت پر تھے کہ مسلح حملہ آوروں نے ان پر فائرنگ کر دی۔ چاروں اہلکاروں کی لاشیں پوسٹ مارٹم کے لیے ٹیچنگ اسپتال نوشکی منتقل کر دی گئی ہیں۔ اس سے قبل بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگیچر میں ایک حملے میں چار مزدوروں کو بھی قتل کر دیا گیا تھا۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے نوشکی میں پولیس پر حملے اور منگیچر میں مزدوروں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا نوشکی میں پولیس موبائل پر فائرنگ اور منگچر میں معصوم مزدوروں کا قتل وحشیانہ دہشت گردی ہے۔ شہداء کے خون کا حساب لیا جائے گا، ریاست دشمن عناصر کو عبرت کا نشان بنایا جائے گا۔ بلوچستان کے امن کو خراب کرنے کی ہر سازش ناکام ہوگی! ۔
رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری پر منافع اور ڈیویڈنڈز کی مد میں پاکستان سے ڈالر کا اخراج دوگنا سے بھی زیادہ ہوگیا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 2024-25 کے جولائی تا فروری کے دوران منافع کا اخراج 103.94 فیصد اضافے کے ساتھ 1.55 ارب ڈالر تک پہنچ گیا، جو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں 76 کروڑ ڈالر تھا۔ یہ اضافہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے ڈالر کے اخراج پر عائد پابندیوں میں نرمی کی علامت ہے، تاہم اس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ برقرار ہے۔ اس وقت اسٹیٹ بینک کے ذخائر 11.14 ارب ڈالر ہیں، جو بڑھتی ہوئی درآمدات اور بیرونی قرضوں کی ادائیگیوں کے لیے ناکافی تصور کیے جا رہے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ منافع کا اخراج خوراک کے شعبے سے 29 کروڑ 20 لاکھ ڈالر رہا، جبکہ توانائی کے شعبے نے 23 کروڑ 30 لاکھ ڈالر اور مالیاتی شعبے (بشمول بینکنگ) نے 19 کروڑ 10 لاکھ ڈالر بیرون ملک منتقل کیے۔ پاکستان کو سالانہ تقریباً 25 ارب ڈالر بیرونی قرضوں اور اس کے سود کی ادائیگی کے لیے درکار ہوتے ہیں، جس میں 5 ارب ڈالر صرف سود کی مد میں شامل ہیں۔ حکومت بیرونی قرضوں کو رول اوور کرانے اور مزید قرضے لینے کے لیے کوشاں ہے تاکہ ادائیگیوں کا تسلسل برقرار رکھا جا سکے۔ حکومت نے برآمدات میں اضافے کے لیے ’اڑان پاکستان‘ پروگرام کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت ملکی برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک لے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے، تاہم اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ برآمدات میں نمایاں اضافے کے بغیر قرضوں کے بحران سے نکلنا مشکل ہوگا۔
کوئٹہ کے علاقے سریاب سے حراست میں لی گئی بلوچ یکجہتی کمیٹی کی مرکزی آرگنائزر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر چار خواتین کو ایک ماہ کے لیے کوئٹہ جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ انہیں تھری ایم پی او کے تحت حراست میں رکھا گیا ہے۔ کمشنر کوئٹہ حمزہ شفقات کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ اور فائرنگ کی، جس سے دو مزدور اور ایک افغان شہری ہلاک ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ احتجاج میں بعض مظاہرین مسلح تھے اور جعفر ایکسپریس میں مارے جانے والے دہشت گردوں کے حق میں نعرے بازی کر رہے تھے۔ بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے جیو نیوز کے پروگرام "نیا پاکستان" میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سول اسپتال کوئٹہ پر حملے کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ احتجاج میں مسلح افراد شامل تھے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے واٹر کینن کا استعمال کیا۔ انہوں نے کہا کہ بعض مخصوص حالات میں خصوصی قوانین کا نفاذ ضروری ہوتا ہے، اور حکومت کے مطابق بلوچ یکجہتی کمیٹی ان دہشت گردوں کی لاشوں کے لیے احتجاج کر رہی تھی جو سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی نے حکومتی الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف تھا۔ ان کے مطابق، حکومت پرامن مظاہرین کے خلاف طاقت کا بے جا استعمال کر رہی ہے۔ ماہ رنگ بلوچ کی گرفتاری اور جیل منتقلی کے بعد بلوچ یکجہتی کمیٹی نے اعلان کیا کہ اگر ان کی رہائی عمل میں نہ آئی تو احتجاج مزید شدت اختیار کرے گا۔
پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کے اینکر نجم ولی کے متنازع بیان نے سوشل میڈیا پر شدید ردعمل کو جنم دیا ہے، جس میں انہوں نے نارتھ کوریا کی طرز پر "فیملی سینٹینسنگ" جیسے سخت قوانین اپنانے کا مطالبہ کیا۔ ان کے مطابق، دہشت گردوں کے ساتھ ان کے اہلِ خانہ کو بھی اجتماعی ذمہ داری کے تحت سزا دی جانی چاہیے، تاکہ وہ اپنے خاندان کے فرد کو جرم سے روکنے میں ناکامی پر جوابدہ ہوں۔ نجم ولی نے کہا ہمیں دہشت گردوں کو عبرت کا نشان بنانے کے لیے North Korea سے Family Sentencing کا وہ قانون کاپی کرنا ہو گا جس میں ایک مجرم کے ساتھ اس کی فیملی کو بھی Collective Responsibility میں سزا دی جاتی ہے کہ تم نے اسے کیوں نہیں روکا۔ اس کی اچھی تربیت کیوں نہیں کی یعنی دہشت گرد کا سارا خاندان اندر۔ نجم ولی کے اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل دیا۔ احمد وڑائچ نے اس مطالبے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "جتنا پلید ذہن ہے، پاکستان کو نارتھ کوریا بنا کر اسے یہاں کا Kim Jong Un لگا دیں۔" انہوں نے مزید کہا کہ "خدائے ذوالجلال نے قرآن میں واضح فرما دیا ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔" (سورة النجم، آیت 38)۔ صبیح کاظمی نے طنزیہ انداز میں کہا کہ "جنوبی کوریا سے ترقی سیکھنے کے بجائے اب شمالی کوریا کے ماڈل کی تعریفیں ہو رہی ہیں۔ ان دانشوروں کا حال دیکھیں!" جبکہ سجاد حسین نے سخت الفاظ میں کہا کہ "ایسے شخص پر ہزار لعنت جو چند ٹکوں کی نوکری کے لیے اپنے ملک کو نارتھ کوریا جیسی جابر ریاست بنانے کے مشورے دے رہا ہے۔ الحمدللہ پاکستان اب بھی نارتھ کوریا سے ہزار گنا بہتر ہے، اسے وہیں بھیج دیں!" معروف سماجی کارکن جلیلہ حیدر نے کہا کہ "یہ ملک خود کو اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے، مگر یہاں کے پڑھے لکھے افراد بھی نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں اور نہ جمہوریت کا۔ کہیں آپ کی یہ خواہش آپ کے اپنے گلے نہ پڑ جائے۔" انہوں نے مزید کہا کہ "کیا کبھی اسلام، رسول اللہ (ص) کی تعلیمات اور جمہوری اصول پڑھے ہیں؟ ایک فرد کے جرم کی سزا پورے خاندان کو دینا کہاں کی عقل مندی ہے؟" یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پہلے ہی تشویشناک ہے۔ حالیہ دنوں میں معروف صحافی احمد نورانی کے بھائیوں سمیت کئی سوشل میڈیا پر متحرک نوجوانوں کو ریاستی اداروں کی جانب سے اغوا کیا جا چکا ہے۔ ایسے میں سرکاری ٹی وی کے اینکر کا یہ بیان نہ صرف بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کو مزید تقویت دیتا ہے بلکہ حکومتی اداروں کی پالیسیوں پر بھی سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔
خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور اور سابق صوبائی وزیر عاطف خان کے درمیان اختلافات شدت اختیار کر گئے، جس کا اثر حکومتی قانونی ٹیم پر بھی پڑا۔ عاطف خان کے خلاف اینٹی کرپشن نوٹس کے معاملے پر پشاور ہائی کورٹ میں 12 مارچ کو سماعت مقرر تھی، لیکن ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور عاطف خان کے وکیل نے "راضی نامہ" کی بنیاد پر سماعت ملتوی کروا دی۔ بعد ازاں، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمان خیل نے اس فیصلے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نوروز خان کو نوٹس جاری کر کے وضاحت طلب کی کہ کس کی ہدایت پر کیس ملتوی کرایا گیا، کیونکہ اینٹی کرپشن کسی بھی راضی نامے کے موڈ میں نہیں تھا۔ معاملہ مزید الجھنے پر نوروز خان نے مؤقف اختیار کیا کہ "شاید" عدالت نے غلطی سے ایڈووکیٹ جنرل آفس کی جانب سے بھی سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کا ذکر کر دیا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد معروف قانون دان قاضی انور ایڈووکیٹ نے نوروز خان کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر انہوں نے عدالت میں غلط بیانی کی ہے تو وہ مستعفی ہوں، اور اگر غلط بیانی نہیں کی تو عدالت میں تحریری حکمنامہ درست کروانے کی درخواست کیوں نہیں دی؟ وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور عاطف خان کے خلاف کیس میں ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے کمزور دلائل پر ناراض تھے۔ حکومت نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے عاطف خان کے کیس میں تاخیری حربے استعمال کرنے اور حکومتی مؤقف کے برعکس عدالت میں بیان دینے پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نوروز خان کو ڈی نوٹیفائی کر دیا۔ ذرائع کے مطابق، نوروز خان نے قاضی انور ایڈووکیٹ کے استعفے کے مطالبے کو مسترد کر دیا تھا، تاہم بالآخر انہیں عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس معاملے پر ایک اور پیش رفت اس وقت سامنے آئی جب قاضی انور ایڈووکیٹ کا نوروز خان کے نام ایک آڈیو پیغام لیک ہو گیا، جس میں انہوں نے کہا: "وزیراعلیٰ نے آپ کو ہٹانے کا کہا تھا، لیکن میں نے کہا کہ نہیں، اس سے لاء آفیسر کی بدنامی ہوگی، اس لیے اب آپ کو خود استعفیٰ دینے کا موقع دیا جا رہا ہے۔ مستعفی ہو جائیں، پھر حالات بہتر ہوئے تو دیکھیں گے۔"
اسلام آباد:حکومت نے تنخواہ دار طبقے کو فوری ریلیف دینے سے معذرت کر لی ہے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق، قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر بوجھ بڑھ جانے کو تسلیم کیا، لیکن اس طبقے کو فوری ریلیف دینے سے معذرت کر لی ہے۔ اسی دوران، چینی کی گھریلو اور کمرشل صارفین کے لیے الگ الگ قیمتیں مقرر کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے۔ قومی اسمبلی کا اجلاس گزشتہ روز ڈپٹی اسپیکر سید غلام مصطفی شاہ کی زیرصدارت ہوا، جہاں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بڑھتے ہوئے بوجھ پر توجہ دلانے والے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری بلال اظہر کیانی نے بتایا کہ وزیر اعظم نے بھی تسلیم کیا ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ زیادہ ہے، تاہم ملکی معیشت کے حالات ایسے ہیں کہ فوری طور پر ملازمین کو ریلیف دینا ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریلوے میں ایک ہزار پولیس اہلکار بھرتی کیے جا رہے ہیں اور بلوچستان میں ٹرین کی سکیورٹی کے لیے 22 سکیورٹی اہلکار تعینات کیے جائیں گے، جبکہ بولان اور جعفر ایکسپریس کو جلد بحال کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ شاہد عثمان نے بتایا کہ چینی کی کمرشل اور گھریلو قیمتوں کے تعین کے لیے کمیٹی 17 اپریل تک اپنا کام مکمل کر لے گی۔ وزیر مملکت شاہد عثمان نے معیشت کی بحالی کے حوالے سے کہا کہ اس عمل میں تقریباً ایک سال کا وقت لگے گا۔ قومی بچت اسکیموں میں اسلامی سرمایہ کاری نہ ہونے کے حوالے سے ایوان کو آگاہ کیا گیا کہ 64 ارب روپے کی اسلامی سرمایہ کاری ہو چکی ہے۔ بعد ازاں، قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا گیا۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق ندیم نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو بنیادی ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر دیگر شواہد غلط ہوں تو صرف ڈی این اے رپورٹ سے ملزم کو جرم سے جوڑنا کافی نہیں۔ یہ فیصلہ لاہور ہائیکورٹ میں 19 سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد گلا کاٹ کر قتل کرنے کے کیس میں سنایا گیا۔ عدالت نے چھ سال بعد عمر قید کی سزا پانے والے ملزم کو بری کر دیا۔ جسٹس طارق ندیم نے ملزم محمد عارف کی سزا کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کی اپیل پر 11 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ دور میں کیسوں کے منطقی انجام تک پہنچانے میں ڈی این اے کا کردار بہت اہم ہے، لیکن عدالتوں کو یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ڈی این اے رپورٹ قانون کے مطابق ہے یا نہیں اور یہ کہ آیا ڈی این اے کے نمونے محفوظ طریقے سے فرانزک تجزیے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ جسٹس طارق ندیم نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا کہ فوجداری کارروائی میں ڈی این اے رپورٹ کو ماہر کی رائے کے طور پر لیا جا سکتا ہے، تاہم شواہد کے جائزے سے یہ ثابت ہوا کہ پراسیکیوشن کا کیس شکوک و شبہات سے بھرا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ایسے مشکوک اور غیر حقیقی شواہد کی بنیاد پر ملزم کی سزا برقرار نہیں رکھی جا سکتی۔ ملزم پر انتہائی سنجیدہ الزامات عائد ہیں، مگر صرف اس بنیاد پر سزا نہیں دی جا سکتی۔ عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ملزم کے خلاف پیش کیے گئے شواہد میں سنگین قانونی نقائص ہیں۔ ملزم محمد عارف پر 2019 میں زیادتی اور قتل کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ پراسیکیوشن کے مطابق ملزم نے 19 سالہ لڑکی سے زیادتی کے بعد اس کا گلا کاٹ کر قتل کیا اور پھر اس کی لاش کھیتوں میں پھینک دی۔ تاہم، کوئی گواہ واقعہ کے وقت موقع پر موجود نہیں تھا۔ فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ پراسیکیوشن کا سارا کیس تکنیکی شواہد پر مبنی تھا، جو عموماً کمزور شواہد سمجھے جاتے ہیں۔ پراسیکیوشن نے اس معاملے میں وقوعہ کے وقت آخری دیکھے جانے والے گواہوں کے بیانات پر انحصار کیا تھا، جنہوں نے بیان دیا کہ انہوں نے لڑکی کو ملزم کے ساتھ کھیتوں کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ تاہم، جسٹس طارق ندیم نے ان گواہوں کو قانونی لحاظ سے کمزور گواہ قرار دیا۔ میڈیکل رپورٹ میں لڑکی سے زیادتی کے کوئی شواہد نہیں ملے، اور عدالت نے اس کی بنیاد پر ملزم کی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے اس کی فوری رہائی کا حکم دیا۔
ایف آئی اے سائبر کرائم نے کارروائی کرتے ہوئے ریاست اور حکومتی شخصیات کی جعلی ویڈیوز بنانے میں ملوث ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق ملزم کی شناخت غلام نبی کے طور پر ہوئی ہے، جسے صادق آباد میں چھاپہ مار کارروائی کے دوران گرفتار کیا گیا۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملزم ریاست اور سرکاری شخصیات کو نقصان پہنچانے کے لیے مصنوعی ذہانت کا غلط استعمال کرتا تھا اور حکومتی شخصیات کی جعلی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرتا تھا۔ ایف آئی اے نے بتایا کہ ملزم کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، اور اس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور دیگر ڈیجیٹل شواہد کو قبضے میں لے کر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔
انصار عباسی رپورٹ کے مطابق پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اپنے اتحادیوں کے ساتھ مختلف سیاسی آپشنز پر مشاورت کر رہی ہے تاکہ پارٹی کے لیے سیاسی جگہ حاصل کی جا سکے، ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کی سیاست کو ختم کیا جا سکے اور جیل میں قید پارٹی کے بانی چیئرمین، عمران خان، کے لیے ریلیف حاصل کیا جا سکے۔ باخبر ذرائع کے مطابق، اپوزیشن اتحاد کے بعض رہنماؤں، جن میں مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی ایم اے پی) کے چیئرمین محمود خان اچکزئی شامل ہیں، کو کہا گیا ہے کہ وہ عمران خان کو قائل کریں کہ وہ سیاسی ماحول کو بہتر کرنے میں کردار ادا کریں، سوشل میڈیا پر جارحانہ رویے سے گریز کریں اور دہشت گردی کے خلاف ہر ممکن تعاون فراہم کریں۔ ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کی خواہش رکھنے والے علامہ راجہ ناصر عباس کو پی ٹی آئی کے بعض اعلیٰ رہنماؤں، بشمول بیریسٹر گوہر علی خان، نے کہا کہ عمران خان کو قائل کریں کہ وہ پارٹی کی معمول کی سیاست میں واپس آنے کے لیے ماحول کو سازگار بنانے میں مدد کریں۔ بیرسٹر گوہر علی خان نے اس بات چیت پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مختلف آپشنز پر بات چیت کر رہی ہے، لیکن انہوں نے اس بات چیت کی تفصیلات میڈیا کے ساتھ شیئر کرنے سے گریز کیا۔ ایک بیرون ملک مقیم یوٹیوبر، جو پی ٹی آئی کے قریب سمجھے جاتے ہیں، نے دعویٰ کیا کہ گوہر علی خان نے حال ہی میں علامہ راجہ ناصر عباس اور محمود خان اچکزئی سے ماحول کو بہتر بنانے کی درخواست کی تھی، مگر دونوں رہنما اس بات پر راضی نہیں ہوئے۔ اگرچہ پی ٹی آئی عید کے بعد حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، لیکن کئی رہنما محاذ آرائی کی سیاست کو دوبارہ دہرانا نہیں چاہتے، کیونکہ اس سیاست کا عمران خان اور پارٹی قیادت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر عمران خان سخت بیانات سے گریز کریں اور پارٹی کے سوشل میڈیا کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اشتعال انگیزی سے روک دیں تو پارٹی کے لیے حالات بہتر ہو سکتے ہیں۔ چونکہ ملک کو دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات کا سامنا ہے، پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کا ماننا ہے کہ پارٹی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ریاست اور اس کے اداروں کے ساتھ ہم آہنگ دکھنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویے نے پارٹی رہنماؤں کو پریشان کر دیا ہے، لیکن وہ جانتے ہیں کہ عمران خان کے سوا کوئی پارٹی کے سوشل میڈیا کو قابو نہیں پا سکتا۔
جسٹس انوار الحق پنوں نے خاتون اقصیٰ پرویز کی درخواست پر سماعت کی۔ پنجاب حکومت کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل محمد فرخ خان لودھی نے بتایا کہ ڈی ایس پی کی سربراہی میں سات رکنی ٹیم تشکیل دی گئی تھی، اور مغوی کے ساتھ جو شخص اغوا ہوا تھا، وہ رہا ہو چکا ہے۔ اسے بھی تفتیش میں شامل کیا گیا، لیکن وہ تعاون نہیں کر رہا۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دئیے کہ جب کسی کو اُٹھا لیا جاتا ہے اور اس کا پتہ چھ ماہ تک نہیں چلتا، تو اس کے بھی حقوق ہوتے ہیں۔ اس طرح کے واقعات نفرتیں بڑھاتے ہیں۔ لاء افسر نے بتایا کہ یہ مسنگ پرسن کا کیس ہے اور درخواست گزار نے مسنگ پرسن کمیشن میں بھی درخواست دی تھی۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کمیشن نے اب تک کتنے افراد بازیاب کرائے ہیں؟ پنجاب حکومت کے وکیل نے جواب دیا کہ کمیشن نے 17 مارچ 2025 کو ملک کی تمام ایجنسیوں کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی ہے۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن محمد نوید نے بتایا کہ ہم نے متعلقہ جگہ پر تفتیش کی، لیکن جو شخص اغوا کے وقت ساتھ تھا، وہ کچھ نہیں بتا رہا۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دئیے کہ جس ملک میں اسمبلیوں سے بھی لوگ اغوا ہوتے ہوں، وہاں آپ یہاں کہانیاں سنا رہے ہیں۔ جسٹس انوار نے کہا کہ درخواست پر فیصلہ نہیں کر رہے، اور مزید 15 دن کا وقت دے رہے ہیں۔ عدالت نے سماعت 14 اپریل تک ملتوی کر دی۔
واشنگٹن/دبئی – متحدہ عرب امارات (UAE) نے اگلے دس سالوں میں امریکا میں 1.4 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے فریم ورک کا اعلان کیا ہے۔ یہ پیش رفت اس ہفتے وائٹ ہاؤس میں اعلیٰ اماراتی حکام اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات کے بعد سامنے آئی ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق، یہ سرمایہ کاری مصنوعی ذہانت (AI) انفراسٹرکچر، سیمی کنڈکٹرز، توانائی، اور مینوفیکچرنگ کے شعبوں میں کی جائے گی اور امریکا میں متحدہ عرب امارات کی موجودہ سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ کرے گی۔ تاہم، وائٹ ہاؤس نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ سرمایہ کاری کس طرح 1.4 ٹریلین ڈالر تک پہنچے گی، کیونکہ اس فریم ورک میں شامل کچھ معاہدے پہلے ہی منظر عام پر آ چکے ہیں۔ بیان کے مطابق، اس فریم ورک میں شامل واحد نیا اور مکمل طور پر غیر اعلانیہ معاہدہ امارات گلوبل ایلومینیم (EGA) کی جانب سے امریکا میں ایک نیا ایلومینیم اسمیلٹر لگانے کا منصوبہ ہے۔ وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ یہ پلانٹ امریکا میں گھریلو ایلومینیم کی پیداوار کو تقریباً دوگنا کر دے گا۔ ای جی اے کے ایک ترجمان کے مطابق، "امریکا میں ایک بنیادی ایلومینیم اسمیلٹر کی ترقی کئی سالوں سے ہماری ترجیحات میں شامل رہی ہے۔" متحدہ عرب امارات، جو تیل پیدا کرنے والا ملک اور امریکا کا دیرینہ سیکیورٹی پارٹنر ہے، سرمایہ کاری کے تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، امارات مصنوعی ذہانت سمیت دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنی معیشت کو توانائی پر انحصار سے آزاد کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ گزشتہ ستمبر میں، متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے سابق امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی تھی، جس میں مصنوعی ذہانت، سرمایہ کاری اور خلائی تحقیق سمیت کئی اہم امور پر تعاون بڑھانے پر بات چیت ہوئی تھی۔ ادھر، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں سال جنوری میں سعودی عرب سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ امریکا میں چار سال کے دوران 1 ٹریلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے، جس میں فوجی ساز و سامان کی خریداری بھی شامل ہو۔ اس ماہ ٹرمپ نے عندیہ دیا کہ وہ جلد سعودی عرب کا دورہ کریں گے تاکہ ایک بڑے سرمایہ کاری معاہدے کو حتمی شکل دے سکیں۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق، امارات کے قومی سلامتی کے مشیر شیخ تحنون بن زاید النہیان نے منگل کو اوول آفس میں صدر ٹرمپ سے ملاقات کی۔ اسی دوران امریکی نائب صدر جے ڈی وینس اور کئی کابینہ ارکان نے اماراتی وفد کے ساتھ عشائیہ کیا، جس میں امارات کے بڑے خودمختار دولت فنڈز اور کارپوریشنز کے سربراہان بھی شامل تھے۔ اعلان کے مطابق، متحدہ عرب امارات کے خودمختار دولت فنڈ ADQ نے امریکی نجی ایکویٹی فرم Energy Capital Partners کے ساتھ 25 ارب ڈالر کے ایک منصوبے کا معاہدہ کیا ہے، جو توانائی کے بنیادی ڈھانچے اور ڈیٹا سینٹرز پر مرکوز ہوگا۔ تاہم، یہ معاہدہ دو دن قبل پہلے ہی اعلان کیا جا چکا تھا۔ اس کے علاوہ، اماراتی ریاستی آئل کمپنی ADNOC کے بین الاقوامی سرمایہ کاری ونگ XRG نے امریکی قدرتی گیس کی پیداوار اور برآمدات میں سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے، خاص طور پر ٹیکساس میں NextDecade لیکویفائیڈ نیچرل گیس (LNG) ایکسپورٹ سہولت میں۔ یہ سرمایہ کاری اصل میں گزشتہ سال بائیڈن انتظامیہ کے تحت منظر عام پر آئی تھی۔ یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب خلیجی ممالک، بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، امریکا کے ساتھ اپنے معاشی اور سفارتی تعلقات کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں، سعودی عرب آئندہ ہفتے امریکا اور روس کے درمیان یوکرین کے مسئلے پر سفارتی مذاکرات کی میزبانی بھی کرنے والا ہے۔
پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے دی گئی سزاؤں کے خلاف دائر تمام 29 درخواستوں کو مسترد کر دیا۔ دو رکنی بینچ، جس میں جسٹس نعیم انور اور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال شامل تھے، نے ان درخواستوں پر سماعت کی۔ عدالت میں درخواست گزاروں کے وکلا، ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنا اللہ، اور عدالتی معاون شمائل احمد بٹ پیش ہوئے۔ درخواست گزاروں کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ملٹری کورٹس نے گرفتار ملزمان کو مختلف نوعیت کی سزائیں سنائی ہیں، جن میں سے کئی اپنی سزائیں پوری کر چکے ہیں، مگر انہیں رہا نہیں کیا جا رہا۔ وکیل نے مزید دلیل دی کہ قانون کے مطابق دورانِ حراست گزارا گیا وقت بھی قید میں شمار کیا جانا چاہیے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ان دلائل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملٹری کورٹس کی جانب سے دی گئی سزائیں خصوصی قانون کے تحت آتی ہیں، جن میں قیدیوں کو 382 بی کا فائدہ نہیں دیا جاتا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ گرفتار افراد دہشت گرد ہیں اور کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ انہوں نے مزید وضاحت کی کہ عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں جن کے تحت اسپیشل قوانین کے تحت دی گئی سزاؤں میں ملزمان کو دورانِ حراست گزارے گئے وقت کا فائدہ نہیں دیا جا سکتا، اور سزائیں اسی وقت شمار ہوں گی جب ان پر دستخط کیے جائیں گے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے فیصلے خصوصی قوانین کے دائرے میں آتے ہیں اور ہائی کورٹ صرف یہ دیکھتی ہے کہ کیا سزا قانونی دفعات کے مطابق دی گئی ہے یا نہیں۔ عدالت کو بتایا گیا کہ ان تمام سزاؤں کا اطلاق آرمی ایکٹ کے تحت ہوا ہے اور سزا کا آغاز دستخط کے دن سے ہوگا، جبکہ 382 بی کے تحت کوئی رعایت نہیں دی جا سکتی۔ تمام فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد، پشاور ہائی کورٹ نے مختصر فیصلہ سناتے ہوئے تمام 29 درخواستیں خارج کر دیں۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب 21 دسمبر 2024 کو فوجی عدالتوں نے 9 مئی 2023 کے واقعات میں ملوث 25 افراد کو 10 سال تک کی قید بامشقت کی سزائیں سنائی تھیں۔ فوج کے ترجمان نے کہا تھا کہ 9 مئی کے پرتشدد واقعات ناقابل معافی تھے، اور ان میں ملوث افراد کے خلاف ٹھوس شواہد اکٹھے کیے گئے تھے۔ بعد ازاں، 26 دسمبر 2024 کو مزید 60 افراد، بشمول سابق وزیراعظم عمران خان کے بھانجے حسان نیازی، کو بھی 10 سال تک قید بامشقت کی سزائیں دی گئیں۔ آئی ایس پی آر نے ان فیصلوں کو انصاف کی فراہمی میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا تھا، جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مزید مجرموں کو سزائیں سنائی گئیں۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں وزارت دفاع کے لیے 430 ملین روپے کی گرانٹ سمیت مختلف اہم گرانٹس کی منظوری دے دی گئی۔ اجلاس کی صدارت وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب نے کی۔ اجلاس میں وزارت اطلاعات و نشریات کے لیے 2 ارب روپے کی تکنیکی ضمنی گرانٹ کی منظوری دی گئی۔ اس کے علاوہ میڈیا ہاؤسز کے واجب الادا اشتہارات کی ادائیگی کے لیے فنڈز جاری کرنے کی بھی منظوری دی گئی۔ پنجاب میں ایس اے پی اسکیموں کے لیے فنڈز مختص کرنے کا فیصلہ بھی اجلاس کا حصہ رہا۔ ای سی سی اجلاس میں جناح میڈیکل کمپلیکس اینڈ ریسرچ سینٹر کے لیے 250 ملین روپے کی منظوری دی گئی۔ مزید برآں، 1,000 بستروں پر مشتمل جدید طبی مرکز کے قیام کے لیے حکومتی سرمایہ کاری کی منظوری دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے احکامات پر آسٹریلوی کمپنی کو 24.556 ملین روپے کی ادائیگی کی بھی منظوری دی گئی۔ کمیٹی نے اسٹیٹ بینک کے لانگ ٹرم فنانسنگ فیسلٹی کے مرحلہ وار خاتمے کا بھی فیصلہ کیا جبکہ ایگزیم بینک کو 330 ارب روپے کا ایل ٹی ایف ایف پورٹ فولیو منتقل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس میں ایک ارب روپے کی تکنیکی ضمنی گرانٹ کی بھی منظوری دی گئی۔
اسلام آباد میں بغیر اجازت احتجاج کرنے پر عورت مارچ کی قیادت کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ یہ مقدمہ پرامن اسمبلی ایکٹ کے سیکشن 8 کے تحت سٹی مجسٹریٹ کی مدعیت میں دونوں گروپوں کے خلاف درج کیا گیا ہے۔ تھانہ کوہسار میں درج ایف آئی آر کے مطابق، سماجی کارکن فرزانہ باری نے تقریباً 100 سے 150 خواتین کے ساتھ احتجاج کیا، جبکہ دوسری جانب صدر مسلم طلبہ اور اسلامی نظریاتی پارٹی کے 50 سے 60 کارکنان شہید ملت چوک پر جمع ہوئے۔ مقدمے میں کہا گیا کہ طلبہ کے گروپ نے عورت مارچ کے شرکا کو روکنے کی کوشش کی، جس کے نتیجے میں دونوں گروپوں کے درمیان نعرے بازی اور چوک کی بندش کا واقعہ پیش آیا۔ مقدمے میں مزید کہا گیا کہ دونوں گروپوں نے احتجاج سے قبل این او سی حاصل نہیں کیا تھا، جبکہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہونے کے باعث ہر قسم کے احتجاج پر پابندی عائد ہے۔ پولیس کے مطابق، فرزانہ باری اور بلال ربانی نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی احتجاج کیا۔
وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری نے اپوزیشن پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز کی شاندار کارکردگی کا اعتراف ہر طبقے کی جانب سے کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سندھ اور خیبرپختونخوا کے لوگ خواہش کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہاں بھی مریم نواز جیسی وزیراعلیٰ ہوں۔ لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی وزیراطلاعات عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ ایک سروے رپورٹ میں 70 فیصد عوام نے وزیراعلیٰ مریم نواز کی کارکردگی کو سراہا ہے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے کسانوں کو مختلف سہولتیں فراہم کی ہیں، اور اس وقت تک 54 ارب روپے کے قرضے چھوٹے کسانوں کو دیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے کسان کارڈ کے ذریعے اب تک 54 ارب روپے کی خریداری کی جا چکی ہے، اور پنجاب حکومت نے 10 ہزار گرین ٹریکٹرز کسانوں کو دیے ہیں۔ اس کے علاوہ، وزیراعلیٰ مریم نواز نے 30 ہزار بچوں کو اسکالرشپس بھی دی ہیں۔ عظمیٰ بخاری نے یہ بھی کہا کہ وزیراعلیٰ مریم نواز غریبوں کے لیے صحت کی سہولتیں فراہم کر رہی ہیں اور بڑی بیماریوں کی ادویات مریضوں کے گھروں تک پہنچاتی ہیں۔ ڈائیلسز پروگرام کے تحت 10 لاکھ روپے تک کے کارڈ لوگوں کو دیے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، ایئر ایمبولینس سروس اور لائیوسٹاک کارڈ جیسے جدید منصوبے بھی شروع کیے جا چکے ہیں، جس سے مویشیوں کو بیرون ملک بھیجا جا کر زرمبادلہ کمایا جائے گا۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے "اپنا چھت، اپنا گھر" پروگرام بھی شروع کیا، جس کے تحت ہزاروں مکانات بن چکے ہیں۔ صوبائی وزیر نے مزید کہا کہ آج کل وزیراعلیٰ مریم نواز کے تمام منصوبوں کا موازنہ عثمان بزدار سے کیا جا رہا ہے، مگر اگر عثمان بزدار اتنے قابل ہوتے تو وہ خود اپنا تعارف کراتے۔ عظمیٰ بخاری نے یہ بھی کہا کہ پی ٹی آئی حکومت نے روڈا کے منصوبے کو تباہ کر دیا اور اس پر صحافیوں کو گمراہ کیا۔ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں کینسر کے مریضوں کی ادویات بھی بند کر دی گئی تھیں، اور ان کا دعویٰ کہ ایئر ایمبولینس سروس لائی جائے گی، جھوٹا ثابت ہوا۔ عظمیٰ بخاری نے اپوزیشن کے کچھ رہنماؤں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور مشورہ دیا کہ جو شخص آپ کو غلط معلومات فراہم کر رہا ہے، اسے فوراً بلاک کر دیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کسانوں سے تو پیسے لیے مگر وہ پیسے خزانے میں نہیں بلکہ اپنی جیبوں میں ڈالے۔
سابق اسپیکر قومی اسمبلی اور پی ٹی آئی رہنما اسد قیصر کا کہنا ہے کہ عید کے بعد اتحاد کو حتمی شکل دیں گے اور بلوچستان میں آل پارٹیز کانفرنس کریں گے۔ اسلام آباد میں پی ٹی آئی رہنماؤں کی پریس کانفرنس کے دوران اسد قیصر نے کہا کہ اے پی سی کے حوالے سے ذمہ داری لطیف کھوسہ کو دی گئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں اسد قیصر نے کہا کہ وہ جماعت اسلامی کے ساتھ جوائنٹ اے پی سی کرنا چاہتے ہیں، اور جماعت اسلامی کو دعوت دیں گے کہ اے پی سی ہمارے پلیٹ فارم سے ہو۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی سنجیدگی آپ کے سامنے ہے، سوال شروع ہوتا ہے تو اجلاس ختم کر دیا جاتا ہے۔ وزیروں کی فوج بھرتی کر لی گئی ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس حکومت کو عوام کا مینڈیٹ حاصل نہیں ہے۔ قانونی سازی میں ایسا کوئی قانون بتا دیں جس سے عوام کا فائدہ ہو، یہ تمام ذمہ داریوں میں ناکام ہیں۔ اسد قیصر نے سوال اٹھایا کہ انہوں نے قومی سلامتی کا اجلاس بلایا، اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ ہم نے کہا کہ ہم اس میں شامل ہونا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں اپنے لیڈر تک رسائی نہیں دی گئی۔ ملک کی سب سے مقبول پارٹی کے سربراہ سے ملاقات تک نہیں کروا سکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مطالبات پورے نہیں ہو رہے، پھر بھی ہم ان کے ساتھ ملک کی خاطر بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔ ہمارا لیڈر جیل میں ہے اور ان کے پاس یہی حکمت عملی ہے کہ پی ٹی آئی کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جائے۔ اسد قیصر نے کہا کہ ان کے پاس ایک ہی طریقہ ہے کہ بس پی ٹی آئی کی قیادت اور ورکرز کو زدکوب کیا جائے اور انہیں تنگ کیا جائے۔ ہمارے سیکڑوں ورکرز مختلف جیلوں میں ہیں اور ان کے خلاف مزید کیس بنائے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ وہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے کام کر رہے ہیں اور آئندہ عمران خان کی رہائی کے لیے جوائنٹ فورم سے جدوجہد کریں گے۔ زرتاج گل پی ٹی آئی کی پارلیمانی لیڈر زرتاج گل نے کہا کہ پارلیمنٹ ایک ایسا فورم ہے کہ آپ کی ہر بات تاریخ کا حصہ بن جاتی ہے۔ ن لیگ کا رویہ ایسا ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو بطور ربڑ اسٹیمپ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تین سال سے پی ٹی آئی کے ساتھ فسطائیت برتی جا رہی ہے اور اس سے ملک پیچھے جا رہا ہے، اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے جو ووٹ لیے، اس طرح وہ وزیراعظم ہوتے، لیکن انہیں جیل میں بند کیا گیا ہے۔ زرتاج گل نے کہا کہ جعفر ایکسپریس واقعے کے بعد آپ لوگ جوابدہ ہیں، لیکن یہاں پی ٹی آئی کو فکس کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں، پیکا ایکٹ کے ذریعے زبان بندی کر دی گئی ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس ماہ مقدس میں ملک کو نظر لگ گئی ہے، علماء کرام کا قتل ہو رہا ہے۔ بیرسٹر گوہر چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ شیر افضل کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور کوئی دو رائے نہیں ہے کہ انہوں نے بڑی قربانیاں دیں اور پارٹی کے لیے کام کیا، لیکن ہمیشہ کہا ہے کہ ڈسپلن سب سے ٹاپ پر رکھو اور کبھی نہیں کہا کہ پٹڑی سے اترنا ہے۔ شیر افضل کا کہنا تھا کہ میں چیئرمین صاحب کو کہتا ہوں کہ اگر کوئی میرے خلاف بیان دے گا تو ڈسپلن وہیں وڑے گا۔
مفتاح اسماعیل نے سولر کی خرید و فروخت پر 10 فیصد سے زائد ٹیکس لگانے کے معاملے پر حکومت پر شدید تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو سولر کی خرید و فروخت پر 10 فیصد سے زائد ٹیکس دینا پڑے گا، جو کہ ایک غیر منصفانہ اقدام ہے۔ سابق وفاقی وزیر خزانہ اور عوام پاکستان پارٹی کے رہنما مفتاح اسماعیل نے کراچی میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کچھ عرصہ قبل وزیراعظم خود عوام کو سولر سسٹم لگانے کی ترغیب دیتے تھے، لیکن اب حکومت عوام کے گھروں میں سولر سسٹم لگانے کو ناپسندیدہ سمجھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام قرض لے کر گھروں میں سولر سسٹم لگا رہے ہیں اور اب حکومت انہیں ٹیکس لگا کر مزید مشکلات میں مبتلا کر رہی ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ عوام 22 روپے کی بجلی کو مہنگا سمجھتے ہیں، لیکن 60 روپے کی بجلی کو مہنگا نہیں سمجھا جا رہا۔ لوگ گھروں میں مفت نہیں، سولر سے بجلی لے رہے ہیں۔ اگر حکومت چاہتی ہے کہ عوام بجلی خریدیں تو اس کو سستا کرے۔ رہنما عوام پاکستان پارٹی نے مزید کہا کہ جہاں جہاں سے بھٹو نکلتا تھا، وہاں وہاں پرسولر لگے گا۔ 3 لاکھ افراد پر حکومتی نااہلی کی وجہ سے بوجھ پڑ رہا ہے۔ بجلی چوری اور بل ریکوری میں ناکامی ان کو بوجھ نظر نہیں آ رہی۔ مفتاح اسماعیل نے طنز کیا کہا انہوں نے بجلی کی قیمت کم کرنے کے لئے تیل پر دس روپے کا اورٹیکس لگا دیا ہے۔یہ اخراجات کم نہیں کر رہے۔۔مسلم لیگ کی اس حکومت میں اہلیت کی بہت کمی ہے۔انکی کوئ ایک پالیسی نہیں جس سے خوشحالی آسکے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کہتے ہیں کہ سولر والوں نے بوجھ ڈالا ہوا ہے،حالانہ سولر سے تو صرف 12سو گیگا آورز خریدے ہیں مگر 22 ہزارگیگا آورز یونٹ آپ نے ٹی این ڈی لاسز میں ڈال دیے،وہ یونٹ چوری ہو گئے یا کھو گئے کچھ پتہ نہیں انکو ان کھوۓ ہوے یونٹس کا اور آئی پی پیز کے مہنگے معائدوں کا بوجھ نظر نہیں آتا ۔مفتاح اسماعیل
اسرائیلی اخبار "ہیوم" نے دعویٰ کیا ہے کہ مارچ 2025 میں ایک پاکستانی وفد نے خفیہ طور پر اسرائیل کا دورہ کیا ہے، جسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ اس دورے میں 10 افراد شامل تھے، جن میں 8 مرد اور 2 خواتین تھیں۔ یہ وفد گزشتہ پیر کو تل ابیب پہنچا اور اسرائیل کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔ اس میں صحافی، دانشور، اور انفلوئنسرز شامل تھے، جنہوں نے اسرائیل کی موجودہ سیاسی و سماجی صورتحال کا جائزہ لیا اور اہم مقامات پر تحقیق کی۔ ذرائع کے مطابق، پاکستانی وفد نے اسرائیل کے تاریخی، سماجی اور سیاسی مقامات کا دورہ کیا، جن میں تل ابیب کے تعلیمی ادارے، یاد وشم ہولوکاسٹ میوزیم، دیوارِ گریہ، حرم شریف، اسرائیلی پارلیمنٹ (کنسٹ) اور مغویوں کا چوک شامل تھے۔ وفد نے اسرائیلی حکام اور تھنک ٹینکس کے نمائندوں سے بھی ملاقاتیں کیں، جن میں مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا۔ پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں، اور پاکستان کا سرکاری مؤقف ہمیشہ سے فلسطینی عوام کے حق میں رہا ہے۔ پاکستانی پاسپورٹ پر واضح طور پر درج ہوتا ہے کہ یہ "تمام ممالک کے لیے قابلِ قبول ہے، سوائے اسرائیل کے"۔ تاہم، اس خفیہ دورے کو اسرائیل اور پاکستان کے درمیان ممکنہ تعلقات کی جانب ایک قدم سمجھا جا رہا ہے۔ کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دورہ پاکستان میں اسرائیل کے حوالے سے سوچ کی تبدیلی کو ظاہر کر سکتا ہے، جبکہ دیگر مبصرین کے مطابق یہ صرف ایک تعلیمی اور غیر سرکاری اقدام تھا۔ پاکستانی صحافی قوسر عباس، جو اس وفد میں شامل تھے، نے اسرائیلی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بطور صحافی ان کا کام دنیا کے کسی بھی حصے میں جا کر معلومات حاصل کرنا اور سچائی کو اجاگر کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد صرف اسرائیل کو سمجھنا تھا، نہ کہ کوئی سیاسی ایجنڈا۔ ایک اور پاکستانی صحافی، شبیر خان، نے بھی کہا کہ مستقبل میں اسرائیل اور پاکستان کے تعلقات دو ریاستی حل کے تناظر میں ممکن ہو سکتے ہیں، تاہم اس وقت ایسا کوئی باضابطہ امکان نظر نہیں آتا۔ یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان میں اسرائیل سے تعلقات کے حوالے سے شدید حساسیت پائی جاتی ہے۔ گزشتہ برسوں میں کچھ پاکستانی شہریوں نے انفرادی سطح پر اسرائیل کا دورہ کیا، لیکن انہیں پاکستان میں سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ اسرائیل میں پاکستانی وفد کے پاسپورٹس پر مہریں نہیں لگائی گئیں تاکہ ان کی شناخت کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔ ان کی موجودگی کا انکشاف بھی اس وقت ہوا جب وہ بحفاظت پاکستان واپس پہنچ گئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں سابق وزیرِاعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان سے ملاقاتوں کے کیسز میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے۔ عدالت نے ان مقدمات کی سماعت کے لیے ایک لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے، جو 20 سے زائد کیسز کا جائزہ لے گا۔ تشکیل دیے گئے بینچ کی سربراہی قائم مقام چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کریں گے، جبکہ بینچ کے دیگر اراکین میں جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس اعظم خان شامل ہیں۔ اس سے قبل، اسلام آباد ہائی کورٹ میں اڈیالہ جیل کے سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے درخواست دائر کی گئی تھی کہ عمران خان کی ملاقاتوں کے متعلق کیسز کو یکجا کر کے ایک ہی بینچ میں سنا جائے۔ عدالت نے اس درخواست پر رجسٹرار آفس کے اعتراضات کے ساتھ سماعت کی، جس کے بعد تمام مقدمات کو یکجا کر کے لارجر بینچ کے سپرد کرنے کا حکم دیا گیا۔ سپرنٹنڈنٹ جیل عبدالغفور انجم کی جانب سے ایڈووکیٹ نوید ملک عدالت میں پیش ہوئے۔ ان کا مؤقف تھا کہ عمران خان کی ملاقاتوں کے ایس او پیز انٹرا کورٹ اپیل میں طے ہو چکے ہیں، جبکہ مختلف بنچز میں سماعت کے باعث جیل حکام کو ہر بار عدالت میں پیش ہونا پڑتا ہے، جس سے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ نوید ملک ایڈووکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ اڈیالہ جیل میں ہزاروں قیدی موجود ہیں، اور ان کے مسائل دیکھنا سپرنٹنڈنٹ جیل کی ذمہ داری ہے۔ لیکن مختلف بینچز میں عمران خان کی ملاقاتوں کے کیسز کی سماعت ہونے کی وجہ سے سپرنٹنڈنٹ کو ہفتے میں پانچ دن اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہونا پڑتا ہے، جس سے جیل انتظامیہ پر غیر ضروری دباؤ آ رہا ہے۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ تمام کیسز کو ایک ہی بینچ میں سنا جائے تاکہ سپرنٹنڈنٹ جیل کو بار بار عدالت میں پیش نہ ہونا پڑے اور عدالتی کارروائی میں بھی سہولت پیدا ہو۔ عدالت نے اس مؤقف کو تسلیم کرتے ہوئے کیسز کو یکجا کرنے اور لارجر بینچ تشکیل دینے کی ہدایت کر دی۔
لاہور ہائیکورٹ کی جسٹس عبہر گل خان نے تحریک انصاف کے کارکنان عثمان محمود اور فرحان احمد چشتی کی بازیابی کے لیے دائر آئینی درخواستوں پر تحریری فیصلہ جاری کر دیا ہے، جس پر قانونی ماہرین، انسانی حقوق کے کارکنوں اور صحافیوں کی جانب سے شدید اعتراضات کیے جا رہے ہیں۔ جسٹس عبہر گل نے درخواستیں ابتدائی سماعت پر ہی خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ سیکریٹری دفاع ایک حاضر سروس فوجی افسر ہیں اور آئین کے آرٹیکل 199(3) کے تحت عدالت ان کے خلاف کوئی حکم جاری نہیں کر سکتی۔ مزید کہا گیا کہ چونکہ سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ رینک کے افسر ہیں اور ان کا دفتر راولپنڈی میں ہے، اس لیے لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے، جس کی بنیاد پر درخواستیں ناقابل سماعت قرار دی گئیں۔ صحافیوں اور قانونی ماہرین نے اس فیصلے میں کئی نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے اسے آئین کی غلط تشریح اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جسٹس عبہر گل نے آئینی شقوں کو درست طریقے سے سمجھنے کے بجائے ایک ایسا فیصلہ دیا جو کئی حقائق سے متصادم ہے۔ سب سے پہلی غلطی یہ ہے کہ سیکریٹری دفاع حاضر سروس فوجی افسر نہیں بلکہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل محمد علی ہیں۔ اس کے علاوہ، آرٹیکل 199 فوجی افسر کے خلاف حکم جاری کرنے سے نہیں روکتا، بلکہ صرف ان کے سرکاری امور میں مداخلت سے متعلق ہے۔ اگر کسی شہری کو جبری طور پر لاپتہ کرنا یا غیر قانونی حراست میں رکھنا فوجی افسر کے سرکاری کام کا حصہ سمجھا جائے، تو یہ ایک خطرناک نظیر قائم کر دے گا، جو بنیادی انسانی حقوق اور آئین کی روح کے خلاف ہے۔ فیصلے کے ایک اور حصے میں لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ راولپنڈی اس کے دائرے میں نہیں آتا۔ اس نکتے پر قانونی ماہرین نے اعتراض کیا کہ لاہور ہائیکورٹ نے ماضی میں کئی ایسے کیسز سنے اور ان پر فیصلے دیے جو راولپنڈی سے متعلق تھے، لہٰذا اس دلیل کی کوئی نظیر موجود نہیں۔ صحافی مریم نواز نے اپنے تفصیلی ٹویٹ میں کہا آئینی عدالت کی جج کا خوف یا آئین کی ناقص سمجھ؟ لاہور ہائیکورٹ کی جج جسٹس ابہر گل خان نے بنیادی حقوق کے تناظر میں دائر ہونے والی آئینی درخواست پر اپنا عجیب و غریب فیصلہ دیا جس کو حقائق کی رو سے دیکھیں تو صرف غلطیاں ملیں گی۔ 26ویں ترمیم کے بعد بننے والے جوڈیشل کمیشن سے تقرر ہونے والی لاہور ہائیکورٹ کی ایڈشنل جج جسٹس ابہر گل خان (جو اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس عالیہ نیلم کی لگائی گئی رجسٹرار تھیں) نے PTI کے دو کارکنان عثمان محمود اور فرحان احمد چشتی کے مقدمات کو یہ کہہ کر پہلی ہی سماعت پر خارج کر دیا کہ آپ نے درخواست میں سیکریٹری دفاع کو فریق بنایا اور کہا کہ یہ افراد جب اٹھائے گئے تو ایلیٹ فورس کی وردیاں پہنے افراد CcTV میں نظر آئے اور یہ کہ یہ سیکریٹری دفاع کی غیر قانونی حراست میں ہیں۔ مریم نواز نے مزید لکھا پھر جج صاحبہ فیصلے میں لکھتی ہیں نمبر ایک: چونکہ سیکریٹری دفاع حاضر سروس فوجی افسر ہیں اور آرٹیکل 199(3) کے تحت ان کے خلاف حکم نہیں دے سکتی۔ نمبر دو: سیکریٹری دفاع لیفٹیننٹ رینک کے افسر ہیں اور ان کا دفتر راولپنڈی میں ہے جو (لاہور ہائیکورٹ) کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا لہذا درخواستیں خارج کی جاتی ہیں! جج صاحبہ کے ان دو حکمناموں میں نا صرف ان کی وجوہات میں حقائق کی غلط بیانی ہے بلکہ آئین کو بھی غلط طریقے سے تحریر کیا۔ مریم نواز نے کہا پہلی غلطی تو یہ کہ سیکریٹری دفاع حاضر سروس نہیں ریٹائرڈ فوجی افسر ہیں جن کا نام لیفٹیننٹجنرل ریٹائرڈ محمد علی ہے، دوسرا آرٹیکل 199 فوجی افسر کے خلاف فیصلہ دینے سے نہیں روکتا بلکہ ان کے سرکاری کام میں رکاوٹ ڈالنے کے بارے فیصلہ دینے سے روکتا ہے! اب اگر کسی کو غیر قانونی طور پر حراست میں رکھنا یا جبری طور پر گمشدہ کرنا فوجی افسر کے سرکاری امور میں آتا ہے اور اس پر بنیادی حقوق کی بنیاد پر آئین پاکستان کے آرٹیکل 199 کے تحت حبس بےجا کی درخواست نہیں ہو سکتی اور وہ بھی تب جب فوجی افسر بھی ریٹائرڈ اور سول پوسٹ پر ہو تو یہ فیصلہ دینے والے کی اعلی دانست ہو سکتی ہے حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں! آخر میں لاہور ہائیکورٹ کے دائرہ اختیار میں راولپنڈی نہیں آتا یہ بھی پہلی بار لاہور ہائیکورٹ کے کسی جج نے فرمایا۔ اظہر مشوانی نے کہا ان آرڈرز کو پڑھیں اور جانیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد کیسے نااہل افراد کو ہائی کورٹ کے ججز مقرر کیا گیا ہے۔ جج عبہر گل نے مغوی عثمان محمود اور فرحان چشتی کی بازیابی کے لیے دائر پٹیشن کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ "سیکرٹری ڈیفینس ایک فوجی ہے، اس لیے وہ لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔" حقائق: سیکرٹری ڈیفینس حاضر سروس نہیں، بلکہ ریٹائرڈ فوجی ہیں۔ راولپنڈی، لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، اور اگر نہ بھی آئے تو ہائی کورٹ کسی بھی وفاقی ادارے کو نوٹس جاری کر سکتی ہے۔ حبسِ بیجا (Habeas Corpus) کی پٹیشن میں سب سے پہلے تمام متعلقہ فریقین کو نوٹس جاری کر کے دریافت کیا جاتا ہے کہ مغوی کہاں ہے، اس کے بعد جمع شدہ شواہد کی بنیاد پر کیس آگے بڑھایا جاتا ہے۔ عثمان محمود اور فرحان چشتی کے کیس میں CCTV فوٹیجز میں ایلیٹ فورس کی گاڑیاں اور یونیفارم پہنے افراد واضح نظر آ رہے ہیں، اس کے باوجود پولیس کو بھی نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔ اغوا کار چاہے فوجی ہو یا سویلین، قانون کے مطابق اسے نوٹس جاری کرنا ضروری ہوتا ہے۔ جج عبہر گل، جو کہ ڈی پی او اٹک کی بہن ہیں، کی واحد "قابلیت" 9 مئی کے کیسز کو لٹکانا اور تحریک انصاف کے افراد کو ضمانت نہ دینا ہے۔ اسی کارکردگی کے انعام میں جسٹس عالیہ نیلم نے انہیں خصوصی طور پر لاہور ہائی کورٹ میں تعینات کروایا ہے۔ شہزاد اکبر نے کہا جسٹس عبہر گل کا حالیہ حکم، جو تحریک انصاف سے منسلک سوشل میڈیا کارکنوں کی حبسِ بیجا کی درخواست سے متعلق ہے، ان کی آئینی سمجھ بوجھ کی شدید کمی کو ظاہر کرتا ہے، جو ان کی قابلیت پر سنجیدہ سوالات اٹھاتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ سیکرٹری دفاع کو حبسِ بیجا کی درخواست کے دائرہ اختیار سے باہر سمجھا جائے کیونکہ وہ "فوجی اہلکار" ہیں، نہ صرف قانونی طور پر غلط ہے بلکہ حقیقت کے بھی خلاف ہے۔ سیکرٹری دفاع کوئی حاضر سروس فوجی نہیں بلکہ ایک ریٹائرڈ فرد ہیں، جو ایک سول انتظامی عہدے پر تعینات ہیں۔ یہ عہدہ واضح طور پر ہائی کورٹ کے آئینی اختیار اور قانونی دائرہ کار میں آتا ہے۔ پاکستان میں عدالتی نظائر اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ حبسِ بیجا کی درخواستوں پر سیکرٹری دفاع کے خلاف کئی بار احکامات جاری کیے گئے ہیں، اور بعض صورتوں میں اعلیٰ عدالتوں نے انہیں ذاتی حیثیت میں طلب بھی کیا ہے۔ جسٹس عبر گل کی جانب سے اس بنیادی اصول کو نظر انداز کرنا نہایت تشویشناک ہے اور ان کی قانونی مہارت پر سنگین سوالات اٹھاتا ہے۔ ججز، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کی تعیناتی میں قابلیت کے بجائے نااہلی کو بنیاد بنانا ایک خطرناک رجحان بن چکا ہے، جو ملک میں غیر جمہوری نظام کو فروغ دیتا ہے اور احتساب کو ختم کرتا ہے۔ پاکستان میں یہ تاثر بڑھتا جا رہا ہے کہ جرنیل قانون سے بالاتر ہیں اور انہیں "مقدس گائے" سمجھا جاتا ہے، جو ہمارے قانونی اور سیاسی نظام کے بحران کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن (LHCBA) اور انڈیپنڈنٹ لائرز فورم (ILF) کو فوراً کارروائی کرتے ہوئے جسٹس عبر گل کے فیصلے کے خلاف ریفرنس دائر کرنا چاہیے اور ان کی اہلیت پر سوال اٹھانا چاہیے۔ آئینی قوانین کی ایسی کھلی خلاف ورزی کو چیلنج کیے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی نوعیت کے ایک دوسرے مقدمے میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس راجہ غضنفر نے قدیر اعجاز کی جانب سے دائر درخواست پر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا، جب کہ جسٹس عبہر گل نے بالکل اسی نوعیت کے کیس میں درخواست کو ابتدائی سماعت پر ہی مسترد کر دیا۔

Back
Top