خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
اسلام آباد: وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی طرف سے مذاکرات کا اشارہ خوش آئند ہے اور حکومت بھی سیاسی معاملات کے حل کے لیے مذاکراتی عمل شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔ ڈان نیوز کے پروگرام "لائیو وِد عادل شاہ زیب" میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ حکومت مذاکرات کے لیے اپنی کمیٹی تشکیل دے گی لیکن اسپیکر آفس کو بہترین فورم قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تاحال تحریک انصاف نے اسپیکر کے ذریعے کوئی باضابطہ پیغام نہیں بھیجا۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ تحریک انصاف مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے میں کس قدر سنجیدہ ہے تاکہ معاملات طے کیے جا سکیں۔ رانا ثنا اللہ نے مولانا فضل الرحمٰن اور وزیر اعظم کی متوقع ملاقات کا بھی ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اس میں مدارس ایکٹ کا معاملہ حل ہو جائے گا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ملاقات سے قبل مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں احتجاج کے لیے نہیں آئیں گے۔ رانا ثنا اللہ نے پی ٹی آئی کی جانب سے ہلاکتوں کے الزامات پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت تحقیقات کے لیے تیار ہے، لیکن تحریک انصاف کو کسی ایسے شخص کو سامنے لانا ہوگا جو کہے کہ وہ حکومتی گولی سے زخمی یا ہلاک ہوا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تحریک انصاف سول نافرمانی کی دھمکی دینا چاہتی ہے تو دے، لیکن مذاکراتی عمل میں پیش رفت عملی اقدامات سے مشروط ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیر افضل مروت کے ذریعے مذاکرات کی خبر ایک خوشگوار پیش رفت ہے اور پہلی مرتبہ تحریک انصاف کی طرف سے سنجیدہ رویے کا اشارہ ملا ہے۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ مذاکرات تب ہی ممکن ہیں جب دونوں جانب سے باضابطہ رابطے قائم ہوں۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادگی پہلے ہی ظاہر ہو چکی ہے۔ چند روز قبل قومی اسمبلی میں اپنی نشست پر واپس آتے ہوئے انہوں نے اپوزیشن بینچوں کی طرف دیکھ کر کہا تھا کہ حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہے، جس سے سیاسی مسائل کے حل کی امید مزید بڑھ گئی ہے۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب ملک سیاسی بحرانوں سے دوچار ہے اور سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکراتی عمل ملکی استحکام کے لیے اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے اڈیالہ جیل سے قوم کے نام اپنے اہم پیغام میں ملک کی موجودہ سیاسی اور آئینی صورتحال پر تفصیلی موقف پیش کیا ہے۔ انہوں نے تحریک انصاف کی جدوجہد، آئینی خلاف ورزیوں، اور سیاسی بحران پر کھل کر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا: تحریک انصاف نے ہمیشہ آئین اور قانون کے مطابق جدوجہد کی ہے مگر ملک پر مسلط مافیا ہمیشہ آئین و قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے- 9 مئی اور 26 نومبر کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کا قیام اور انڈر ٹرائل اسیران کی رہائی ہمارے جائز مطالبات ہیں۔ میں سول نافرمانی کی تحریک چند دنوں کے لیے مؤخر کر رہا ہوں، اس دوران تحریک کے خدوخال اور ٹائم لائن کا فیصلہ کروں گا۔ سات ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہمارے لیے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنا ضروری ہو چکا ہے: ۱۔ 2023 میں لندن پلان کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے الیکشن آئین کے برخلاف 90 دن کے اندر نہیں کرائے گئے۔ کیونکہ الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کو ختم کرنا مقصد تھا۔ ۲- نو مئی سے پہلے ہی مجھ پر ایک سو چالیس سے ذائد مقدمات بنا دئیے گئے تھے۔ رینجرز نے مجھے اسلام آباد سے اغواء کیا جس کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا۔ نو مئی ایک فالس فلیگ آپریشن تھا جس کے تحت ہمارے لوگوں کو گرفتار کرنا مقصد تھا۔ دس ہزار افراد کو گرفتار کر کے جھوٹے مقدمات میں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ہمارے کارکنان اور پارٹی رہنماؤں پہ تشدد کیا گیا ان کے گھروں کو توڑا گیا۔ ان کے خاندانوں کو ہراساں کیا گیا۔ ان کو عدالتوں سے ضمانت ملتے ہی کسی نئے جھوٹے پرچے میں گرفتار کر لیا جاتا۔ میرے اغوا سے لے کر کارکنان پہ تشدد، گرفتاریاں سب کچھ غیر قانونی اور غیر آئینی تھا۔ اس ظلم کے خلاف سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر کی لیکن سپریم کورٹ نے انسانی حقوق کی ان بدترین خلاف ورزیوں کا نوٹس تک نہ لیا۔ قاضی فائز عیسیٰ حکومت کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ 1971 کے بعد کبھی کسی پارٹی پر اس طرح کا ریاستی جبر نہیں کیا گیا۔ ۳- تمام غیر قانونی و غیر جمہوری حربوں کے بعد ان کو غلط فہمی تھی کہ 8 فروری کو تحریک انصاف الیکشنز نہیں جیت سکتی۔ سکندر سلطان راجہ اور قاضی فائز عیسیٰ نے مل کے پارٹی نشان چھینا جو پارٹی کو بین کرنے کے مترادف تھا۔ ہمارے امیدواروں کو نشانہ بنایا گیا۔ تین تین امیدواروں کو زبردستی الیکشن سے دستبردار کرایا گیا۔ ۴- ان کو انجینئرنگ کے ذریعے الیکشن جیتنے کا اس قدر یقین تھا کہ نواز شریف اپنی وکٹری سپیچ بھی کرنے کو تیار تھا لیکن تقریر سے پہلے ان کو پتہ چلا کہ تحریکِ انصاف الیکشن جیت گئی ہے۔ پھر انہوں نے فارم-47 کے ذریعے الیکشن فراڈ کیا۔ کمشنر راولپنڈی نے اس فراڈ کو کنفرم کیا اور گواہی دی۔ لیکن اس پر بھی نظام انصاف خاموش رہا اور کوئی نوٹس نہ لیا گیا۔ ۵۔ اس رجیم چینج کے بعد کے ڈھائی سالوں میں یوں تو انصاف کے نظام پر قبضے کے لیے ہر جابرانہ اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کیا گیا لیکن چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتوں کی آزادی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا گیا۔ اپنی مرضی کے جج لگانے کے لیے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ اس ترمیم کی منظوری کے لیے جو حربے استعمال کئے گئے وہ بھی ایک مضحکہ خیز داستان ہے، لیکن اس سارے معاملے پر بھی نہ عدلیہ نے کوئی نوٹس لیا نہ ریاست کا چوتھا ستون سمجھے جانے والے میڈیا میں اس کے خلاف آواز بلند کرنے کی اخلاقی جرات تھی۔ ۶- سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے فیصلے کے باوجود تحریکِ انصاف کو آج تک مخصوص نشستیں نہیں دی گئیں۔ یہ نہ صرف توہین عدالت ہے بلکہ عوامی فیصلے کی توہین اور جمہوریت پر شب خون بھی ہے۔ ۷۔ 26 نومبر کو ہمارے پرامن اور نہتے سیاسی کارکنان پہ گولیاں برسائی گئیں۔ ہمارے کارکنان مکمل طور پہ پر امن تھے انہوں نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ ان کا مطالبہ آئین اور جمہوریت کی بحالی تھا- نہ تو لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال تھی نہ ہی کوئی اور پر تشدد کارروائی ہوئی لیکن اس کے باوجود ہمارے لوگ شہید کئے گئے۔ 12 لوگ مغرب سے پہلے شہید کئے گئے اور باقیوں کو رات بجلی بند کر کے گولیاں ماری گئیں۔ ان حالات میں جب پاکستانیوں سے تمام آئینی حقوق چھین لیے گئے ہیں، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر قبضہ کر لیا گیا ہے، پرامن احتجاج کا حق چھین لیا گیا ہے، قانون اور آئین کی بنیادیں ہلا دی گئی ہیں، اپنے ہی شہریوں پر گولیاں چلائی جا رہی ہیں، اداروں کو عوام کے مقابلے میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنا قوم کی مجبوری بن چکی ہے- اس کے علاوہ اپوزیشن لیڈران کو جیل میں ملاقات کے لئے ویلکم کرتا ہوں۔ پر مجھے اس حکومت سے امید نہیں ہے کہ وہ اپوزیشن لیڈران کو مجھ سے ملاقات کی اجازت دیں گے۔ کیونکہ انہوں نے میری پارٹی کے لوگوں سے بھی تین مہینے سے میری ملاقات نہیں کروائی-
وفاقی حکومت نے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط پوری کرتے ہوئے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دے دی ہے۔ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لیے سفارشات وفاقی حکومت کو بھیج دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق اوگرا نے گیس کی قیمتوں میں مجموعی طور پر 25.78 فیصد اضافے کی منظوری دی ہے۔ سوئی نادرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ کے لیے گیس کی قیمت میں 8.71 فیصد جبکہ سوئی سدرن گیس کمپنی کے لیے 25.78 فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ منظوری کے بعد گیس کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم جنوری سے ہوگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت مختلف صارفین کی کیٹیگریز کے مطابق اضافے کی حتمی منظوری دے گی۔ گیس کی قیمتوں میں یہ اضافہ آئی ایم ایف کی قرض پروگرام کی شرائط میں شامل ہے، جس کا مقصد حکومتی آمدنی میں اضافہ اور مالیاتی خسارے میں کمی ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق گیس کی قیمتوں میں یہ اضافہ مہنگائی کی نئی لہر کو جنم دے سکتا ہے، جس سے عام شہریوں پر بوجھ بڑھنے کا خدشہ ہے۔ گیس کی قیمتوں میں ممکنہ اضافے کے بعد گھریلو صارفین، صنعتوں اور تجارتی سیکٹر پر مالی دباؤ بڑھنے کا امکان ہے۔
وفاقی حکومت نے ڈیجیٹل میڈیا پر ریاست مخالف بیانیے کا توڑ نکالنے کے لئے اہم اقدام اٹھا لیا، اس ضمن میں وزارت اطلاعات و نشریات نے فوری طور پر 53 کروڑ روپے کے فنڈز طلب کیے ہیں۔ وزیراعظم نے ڈیجیٹل کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کو آپریشنل کرنے کی منظوری دے دی ہے، جو ریاست مخالف بیانیوں کا مؤثر جواب دینے کے لئے فنڈز کا استعمال کرے گا۔ وزارت اطلاعات و نشریات کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام قومی سلامتی کو درپیش خطرات کا سدباب کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ اس نئے ڈیپارٹمنٹ کے تحت 54 نئے عہدے تشکیل دیے گئے ہیں، جو ڈیجیٹل تھریٹس کی نشاندہی اور حکومت کی صلاحیت کو بہتر بنانے کے لئے کام کریں گے۔ ڈیجیٹل کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ آن لائن سرگرمیوں کی رئیل ٹائم مانیٹرنگ بھی کرے گا، جس سے ڈیجیٹل دنیا میں پھیلنے والے کسی بھی ریاست مخالف بیانیے کا فوری نوٹس لیا جا سکے گا۔ اقتصادی رابطہ کمیٹی 19 دسمبر کو اس منصوبے کے لئے 53 کروڑ روپے کے فنڈز کی منظوری دے گی، جس کے بعد اس ڈیپارٹمنٹ کے آپریشنز کا باقاعدہ آغاز ہوگا۔ وزارت اطلاعات و نشریات کا کہنا ہے کہ یہ قدم ڈیجیٹل میڈیا پر حکومتی بیانیے کو مضبوط کرنے اور قومی مفادات کا تحفظ یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے۔
پاکستان کے معروف ماہر معیشت اور آئی ایم ایف کے سابق مشیر سعید احمد نے اپنے حالیہ کالم میں ملک کے معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کے تعلق پر تفصیلی تجزیہ پیش کیا ہے۔ انہوں نے وزیر خزانہ کے اس بیان پر تبصرہ کیا جس میں انہوں نے پی ٹی آئی کے سیاسی مظاہروں کو روزانہ 190 ارب روپے کے معاشی نقصان کا سبب قرار دیا تھا۔ سعید احمد کا کہنا ہے کہ یہ دعویٰ معاشی بحران کی صرف ایک جزوی تصویر پیش کرتا ہے، جبکہ حقیقی وجوہات کہیں زیادہ گہری اور پیچیدہ ہیں۔ سعید احمد نے لکھا کہ موجودہ معاشی بحران صرف سیاسی مظاہروں کا نتیجہ نہیں بلکہ حکومت کے اپنے سخت اقدامات بھی اس کا اہم سبب ہیں۔ انہوں نے سڑکوں اور موٹرویز کی بندش، انٹرنیٹ معطلی اور مظاہرین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن جیسے اقدامات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلے ملک میں کاروباری سرگرمیاں معطل کرنے اور مالی نقصانات کو بڑھانے کا سبب بنے ہیں۔ انہوں نے موجودہ سیاسی عدم استحکام کی وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ 2022 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک اور متنازع عام انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی کشمکش نے ملک کے سیاسی اور معاشی ڈھانچے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ان کے مطابق، حکومت کا اپنی بقا کی جنگ لڑنا اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنا بھی اس بحران کا حصہ ہے۔ سعید احمد نے اعداد و شمار کی بنیاد پر بتایا کہ سیاسی بحرانوں کے نتیجے میں پاکستان کی جی ڈی پی کی شرح نمو 2022 میں 6.17 فیصد سے کم ہو کر 2023 میں -0.17 فیصد پر آ گئی، جس سے معیشت کو 36 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر بھی 10.5 ارب ڈالر سے کم ہو کر 4.4 ارب ڈالر رہ گئے، جس سے مجموعی معاشی نقصان 42 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ انہوں نے سیلاب کے مزید 10 سے 12 ارب ڈالر کے نقصانات کو بھی شامل کیا، جو کہ معیشت پر اضافی بوجھ ہے۔ سعید احمد نے زور دیا کہ پاکستان میں معاشی بحرانوں سے نکلنے کا واحد راستہ سیاسی استحکام اور جمہوری اداروں کو مضبوط بنانا ہے۔ ان کے مطابق، بار بار کی سیاسی مداخلتیں اور غیر جمہوری اقدامات معیشت کی بحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ریاستی ادارے اپنی حدود میں رہ کر کام نہ کریں اور سیاسی جماعتیں موقع پرستی سے باز نہ آئیں تو معیشت مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ سعید احمد کے مطابق، پاکستان کے معاشی اور سیاسی بحران کا حل صرف ایک مضبوط اور شفاف جمہوری نظام میں مضمر ہے، جس میں سیاسی استحکام اور اداروں کی خودمختاری اہم ستون ہیں۔ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن دونوں پر زور دیا کہ وہ اپنے کردار پر نظرثانی کریں اور ملکی مفاد کو ذاتی سیاست پر ترجیح دیں۔ سعید احمد کے کالم کا مکمل ترجمہ وزیر خزانہ کے حالیہ بیان میں، جس میں پی ٹی آئی کی طرف سے شروع کیے گئے سیاسی مظاہروں کو روزانہ 190 ارب روپے کے مالی نقصانات کا سبب قرار دیا گیا، پاکستان کے جاری اقتصادی اور سیاسی بحران کی ایک اہم لیکن نامکمل تصویر پیش کی گئی ہے۔ اگرچہ ان خللوں کے مالی اثرات کا اندازہ لگانا قیمتی ہے، وزیر خزانہ نے دو اہم حقائق کو آسانی سے نظر انداز کر دیا ہے۔ پہلا، اقتصادی نقصانات صرف مظاہروں کی وجہ سے نہیں بلکہ حکومت کے اپنے اقدامات سے بھی پیدا ہوئے ہیں — خاص طور پر سخت گیر ردعمل، جس میں سڑکوں اور موٹرویز کی بندش، انٹرنیٹ کی وسیع پیمانے پر معطلی، اور مظاہرین پر ظالمانہ کریک ڈاؤن شامل ہیں۔ ان اقدامات نے ملک کے بیشتر حصے کو مفلوج کر دیا، جس سے مالی نقصان میں اضافہ ہوا۔ دوسرا، موجودہ سیاسی عدم استحکام کی ابتدا اس وسیع تر پس منظر سے ہوتی ہے، جو 2022 میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد اور اس کے بعد ہونے والے عام انتخابات کے متنازع نتائج سے جڑا ہوا ہے۔ پاکستان کے بحران کی جڑ سماجی اور سیاسی ہم آہنگی میں گہری دراڑ ہے۔ اگرچہ پی ٹی آئی پر تشدد بھڑکانے کا الزام ہے، حکومت افسوسناک طور پر اپنی سیاسی بقا میں مصروف نظر آتی ہے۔ اس عمل میں، یہ ملک کے جمہوری اداروں کو کمزور کر رہی ہے، آئین میں چھیڑ چھاڑ سے لے کر عدلیہ کو کمزور کرنے اور سیاسی و اقتصادی شعبوں میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو باضابطہ بنانے تک۔ جمہوری نظام کو مضبوط کرنے کی منظم کوشش کے بغیر، پاکستان کو سیاسی عدم استحکام کا سامنا رہے گا، اور اس کے معاشی اخراجات بڑھتے رہیں گے۔ پاکستان کو کئی عوامل سے پیدا ہونے والے چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں بااثر اشرافیہ، بشمول سیاستدان، سول اور فوجی بیوروکریسی، اور کاروباری شخصیات کے درمیان خاص طور پر مضبوط اتحاد شامل ہے۔ یہ نیٹ ورک ان حالات کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے جو اس وقت ہماری قوم کو نقصان پہنچا رہے ہیں اور معیشت میں اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اس نیٹ ورک سے آزاد ہونا ادارہ جاتی اور ساختی تبدیلیوں کا تقاضا کرتا ہے۔ بدقسمتی سے، مستحکم جمہوری حکومتوں کے بغیر، یہ ایک دور کا خواب ہے۔ سیاسی نظام میں بار بار کی رکاوٹیں جمہوریت کو مضبوط ہونے سے روکتی ہیں اور اصلاحات میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔ موجودہ صورتحال، جہاں ریاستی ادارے ایک دوسرے کے خلاف اور اندرونی طور پر منقسم ہیں، مسئلے کو مزید خراب کرتی ہے۔ لہذا، یہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کہ یہ سیاسی بحران نہ صرف ہمارے معاشرے کو متاثر کرتے ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر اقتصادی اخراجات بھی عائد کرتے ہیں۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے مسئلے کو تسلیم کرنا اور اس کے معیشت پر پڑنے والے نقصان دہ اثرات کو سمجھنا ضروری ہے۔ معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے، جو کاروباری اعتماد کو بڑھاتا اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرتا ہے۔ مارکیٹ اور سرمایہ کاری کا رویہ سیاسی عدم استحکام پر تیزی سے رد عمل ظاہر کرتا ہے۔ سیاسی خطرہ سیاسی ماحول میں اچانک تبدیلیوں یا تسلسل میں رکاوٹوں سے پیدا ہوتا ہے، جو ممکنہ طور پر کاروباری مقاصد کو محدود کر سکتا ہے۔ جب سیاسی ماحول نسبتاً مستحکم ہو، یا تبدیلی ارتقائی اور متوقع ہو، تو اس کا سرمایہ کاری کے خطرے میں حصہ کم ہوتا ہے۔ تاہم، پاکستان میں مسئلہ عدم تسلسل میں جڑا ہوا ہے، کیونکہ سیاسی تماشا بغیر کسی وقفے کے جاری رہتا ہے۔ اب، آئیے ان وسیع وسائل کا جائزہ لیں جو ہماری قوم نے جمہوری ماحول میں غیر سیاسی اداروں کے ذریعے کھیلے جانے والے سیاسی کھیلوں میں ضائع کیے۔ یہ بیرونی مداخلت سے پاک ایک نامیاتی سیاسی عمل کی اہم ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ ایسی فضا میں، ہم اپنی اقتصادی چیلنجوں کو آزادانہ طور پر حل کر سکتے ہیں، بغیر غیر ملکی امداد پر انحصار کیے۔ پاکستان میں سیاسی حکومتوں کے استحکام کو یقینی بنانے سے ایک مستقل ترقیاتی رفتار برقرار رہتی اور رکاوٹوں کی وجہ سے ہونے والے بڑے اقتصادی اخراجات سے بچا جا سکتا تھا۔ ان نقصانات کی شدت کو سمجھنے کے لیے، 2022-2023 کی سیاسی غیر یقینی صورتحال کے نتیجے میں جی ڈی پی کی شرح نمو 6.17 فیصد سے کم ہو کر -0.17 فیصد تک گر گئی، جس کے نتیجے میں معیشت کو 36 ارب ڈالر کا براہ راست نقصان ہوا، کیونکہ جی ڈی پی 375 ارب ڈالر سے سکڑ کر 339 ارب ڈالر رہ گئی۔ اسی دوران، اسٹیٹ بینک کے خالص ذخائر اپریل 2022 میں 10.5 ارب ڈالر سے کم ہو کر جون 2023 کے آخر تک 4.4 ارب ڈالر رہ گئے، جس سے کل اقتصادی نقصان 42 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ یہ جائزہ اقتصادی نقصان کو جی ڈی پی میں کمی اور سرکاری زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے طور پر متعین کرتا ہے۔ مزید برآں، سیلاب کے اثرات کا تخمینہ 10 سے 12 ارب ڈالر لگایا گیا ہے، جو اس نقصانات کے مجموعی اثرات کو کم کرتا ہے۔ متبادل منظرناموں پر غور کرتے ہوئے، جیسے کہ مالی سال کی بجائے پی ڈی ایم کی حکومت کے اختتام تک تشخیص کی مدت میں توسیع کرنا، ذخائر کی کمی کو ایڈجسٹ کرتا ہے۔ 2022 کے سیاسی خلل کے قابل پرہیز اقتصادی نقصانات کا فوری تخمینہ 28 سے 42 ارب ڈالر کے درمیان لگایا گیا ہے۔ اگر کوئی سیاسی خلل نہ ہوتا، تو ملک کو ہونے والے اس بڑے اقتصادی نقصان سے بچا جا سکتا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ 2022 کے خلل کے اثرات مالی سال 2023 سے آگے تک پھیلے ہوئے ہیں، جو ممکنہ جی ڈی پی کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ منفی ترقیاتی نتیجہ مالی چیلنجوں کو بڑھاتا ہے، مزید استحکامی اقدامات کی ضرورت پیدا کرتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ، سیاسی استحکام، جو مضبوط جمہوری اصولوں میں جڑا ہوا ہو، مختصر اور طویل مدتی چیلنجوں کا واحد حل ہے۔ ہماری ریاست کی مسلسل بحرانوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت پہلے ہی بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ اتنے زیادہ نقصان کے بعد، خود احتسابی کا وقت آ گیا ہے!
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان نے حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات کے لیے مزید وقت دیتے ہوئے سول نافرمانی کی تحریک کا آغاز مؤخر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے اپنی مذاکراتی کمیٹی کو ایک ہفتے کا اضافی وقت دیتے ہوئے کہا ہے کہ فوری طور پر سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنا فی الحال مناسب نہیں ہوگا۔ صحافی زبیر علی خان کے مطابق اڈیالہ جیل میں جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت کے بعد عمران خان نے پارٹی رہنماؤں سے گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ حکومت کو اپنے مطالبات پر عمل درآمد کا موقع فراہم کرنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مذاکرات کے نتائج مثبت نہ نکلے تو سول نافرمانی کی تحریک ہی واحد راستہ رہ جائے گا۔ یہ فیصلہ محمود خان اچکزئی کی اپیل کے بعد سامنے آیا، جو اپوزیشن اتحاد کے سربراہ ہیں۔ محمود خان اچکزئی نے عمران خان سے اپیل کی تھی کہ وہ سول نافرمانی کی تحریک کو مؤخر کریں تاکہ مذاکرات کا عمل جاری رکھا جا سکے۔ عمران خان نے اس اپیل کو قبول کرتے ہوئے حکومت کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرنے اور انہیں حکومت مخالف تحریک میں شامل کرنے پر بھی زور دیا ہے۔ انہوں نے علی امین گنڈاپور کو یہ ہدایت دی کہ وہ بطور وزیراعلیٰ تمام اپوزیشن جماعتوں کو اکٹھا کریں۔ پیر کو جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کی شاہ محمود قریشی اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری سے بھی ملاقات ہوئی۔ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں شاہ محمود قریشی نے پارٹی قیادت کی حکمت عملی پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور سیاسی قیدیوں سے متعلق پالیسی پر ناراضی کا ذکر کیا۔ عمران خان نے ان تحفظات سے اتفاق کرتے ہوئے پارٹی کو اپوزیشن اتحاد کے ساتھ مزید قریبی تعلقات قائم کرنے کی ہدایات دیں۔ یہ پیش رفت حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری مذاکرات کے تناظر میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے، جس میں عمران خان کے فیصلے نے سیاسی منظرنامے پر نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
تحریک انصاف کے احتجاج میں رینجرز اہلکاروں کی ہلاکت کے معاملے پر تھانہ رمنا میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف تہرے قتل کے مقدمے کی سیل ایف آئی آر منظر عام پر آ گئی ہے۔ یہ مقدمہ اعلیٰ حکام کے حکم پر سیل کیا گیا تھا، تاہم اس کی تفصیلات اب میڈیا تک پہنچ گئی ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق، تمام وقوعہ کا منصوبہ اڈیالہ جیل میں تیار کیا گیا تھا۔ ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ رینجرز اہلکاروں کی ہلاکت پی ٹی آئی کے بانی کی ایما اور حکم پر ہوئی۔ وقوعہ کے منصوبے میں پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت ملوث تھی، جو جیل میں ملاقاتوں کے دوران تیار کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت سیکیورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنانے کی سازش کی گئی۔ ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ جیل میں قید قیدی، مشقتی اور خفیہ پولیس کے اہلکار اس منصوبے کے گواہان ہیں۔ پی ٹی آئی قیادت بشمول بشریٰ بی بی، علی امین، عمر ایوب، وقاص اکرم، سلمان اکرم راجہ، مراد سعید، زلفی بخاری، رئوف حسن، حماد اظہر اور دیگر نے باہمی سازش کے تحت حکمت عملی بنائی۔ بشریٰ بی بی اور دیگر ملزمان نے ویڈیو پیغامات کے ذریعے عوام کو اشتعال دلایا، جس کے نتیجے میں احتجاج کے دوران رینجرز اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا۔ مقدمے میں قتل، دہشت گردی، اور تعزیرات پاکستان کی دس مختلف دفعات شامل کی گئی ہیں۔ احتجاج کے دوران ایک نامعلوم ڈرائیور کی لینڈ کروزر گاڑی نے ڈیوٹی پر مامور تین رینجرز اہلکاروں کو کچل دیا، جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہوگئے۔ ایف آئی آر کے مطابق، یہ واقعہ عوام کو فوج اور حکومت کے خلاف اکسانے کا نتیجہ تھا، جس میں پی ٹی آئی کی قیادت براہ راست ملوث تھی۔ مقدمہ سندھ رینجرز کے ایک اہلکار کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ مقدمے میں شامل دفعات کے تحت مزید تفتیش جاری ہے، اور اعلیٰ حکام کی جانب سے سخت اقدامات کا عندیہ دیا گیا ہے۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ڈی چوک میں احتجاج کے دوران گرفتار کیے گئے 61 ملزمان کو کیس سے ڈسچارج کرتے ہوئے پولیس کو واضح ہدایات دی ہیں کہ انہیں دوبارہ گرفتار نہ کیا جائے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب 188 ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جن میں سے بیشتر کو پہلے ہی ڈسچارج کیا جا چکا تھا لیکن پولیس نے دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔ ملزمان کے وکیل انصر کیانی نے عدالت کو بتایا کہ پولیس نے عدالتی حکم کے باوجود ملزمان کو دوبارہ گرفتار کیا ہے، جس پر جج نے فوری طور پر ہتھکڑیاں کھولنے اور انہیں رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔ عدالت نے پولیس کو متنبہ کیا کہ آئندہ ڈسچارج کیے گئے ملزمان کو کسی صورت دوبارہ گرفتار نہ کیا جائے۔ پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو پشاور سے اسلام آباد کی طرف احتجاجی مارچ کیا تھا، جس کا مقصد اپنے سیاسی مطالبات کے حق میں دباؤ ڈالنا تھا۔ جب مظاہرین اسلام آباد کے حساس علاقے ڈی چوک کی طرف بڑھے تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ شدید جھڑپیں ہوئیں۔ اس دوران دونوں طرف سے پتھراؤ اور تصادم کے واقعات پیش آئے، جس کے بعد ڈی چوک کو زبردستی مظاہرین سے خالی کروا لیا گیا۔ احتجاج کے بعد متعدد مقدمات درج کیے گئے، جن میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، پولیس پر حملہ کرنے اور امن و امان کی خرابی کے الزامات شامل تھے۔ گرفتار کیے گئے افراد کے کیسز مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، تاہم انسداد دہشت گردی کی عدالت نے حالیہ حکم کے ذریعے کئی ملزمان کو قانونی ریلیف فراہم کرتے ہوئے مستقبل میں ان کی گرفتاری پر پابندی عائد کر دی ہے۔
لاہور میں پاکستان کسان رابطہ کمیٹی اور لیبر ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام ہونے والے ماحولیاتی انصاف مارچ کے دوران ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا جب پولیس نے مارچ کو پی ٹی آئی کا سیاسی مظاہرہ سمجھ کر اضافی نفری اور قیدی وین طلب کرلی۔ آج نیوز کے مطابق یہ مارچ ملک میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات، ماحولیاتی آلودگی، اور قدرتی وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف منظم کیا گیا تھا۔ مارچ میں سندھ، بلوچستان، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا اور دیگر علاقوں سے کسانوں، مزدوروں، ٹریڈ یونینز، اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے نمائندوں نے بھرپور شرکت کی۔ ماحولیاتی کارکنوں کی تعداد اور جھنڈے دیکھ کر پولیس نے مارچ کو پی ٹی آئی کا ممکنہ احتجاج سمجھ لیا اور فوری طور پر قیدی وین اور اضافی پولیس فورس بلا لی۔ تاہم، جلد ہی غلط فہمی دور ہوگئی اور پولیس نے معمول کے مطابق سیکیورٹی انتظامات سنبھال لیے۔ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے سیکریٹری جنرل فاروق طارق نے مارچ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ عوام ماحولیاتی بحران کے ذمہ داروں کا محاسبہ کریں اور ایک پائیدار اور منصفانہ مستقبل کے لیے تحریک چلائیں۔ فاروق طارق نے خاص طور پر سندھ میں دریائے سندھ پر چھ نہریں کھودنے کے منصوبے کی مذمت کی اور حکومت سے اس ماحولیاتی نقصان دہ منصوبے کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے زور دیا کہ قدرتی وسائل کی منصفانہ تقسیم اور ماحول کے تحفظ کے بغیر ملک میں ترقی ممکن نہیں۔ مارچ میں شریک افراد نے ماحولیاتی انصاف، آلودگی کے خاتمے، پانی کے وسائل کے تحفظ، اور ماحولیاتی قوانین کے سخت نفاذ کے حق میں نعرے لگائے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ عوامی تحریک جاری رہے گی تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ملک کے پسماندہ اور دیہی علاقوں کے باشندوں کو بچایا جا سکے۔
گوجر خان: وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر برائے صحت ریٹائرڈ میجر جنرل ڈاکٹر اظہر محمود کیانی نے ہفتے کے روز پنڈ دادن خان میں صحت کی سہولیات کی ناقص حالت پر شدید مایوسی اور افسوس کا اظہار کیا۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر کیانی، جو ایک معروف امراض قلب کے ماہر ہیں، نے پولیو ویکسین مہم کے افتتاح کے لیے پنڈ دادن خان کا سفر کیا۔ 100 کلومیٹر طویل ٹوٹی پھوٹی شاہراہ نے ان کا استقبال کیا، جو دو رویہ کرنے کے منصوبے کے تحت کنٹریکٹر کی جانب سے ادھوری چھوڑ دی گئی ہے۔ یہ سڑک ناقابل استعمال ہوچکی ہے، جس کے باعث مریضوں کو جhelum کے ضلعی اسپتال لے جاتے ہوئے کئی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ مقامی افراد نے ڈاکٹر کیانی کو آگاہ کیا کہ ٹی ایچ کیو اسپتال پنڈ دادن خان میں طویل عرصے سے میڈیکل آفیسرز اور ماہرین کی کئی اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ اسپتال میں کارڈیالوجسٹ، سرجنز اور اینستھیزیا ماہرین کی کمی کے باعث ایمرجنسی سرجریز بری طرح متاثر ہیں۔ ڈاکٹر کیانی نے ضلعی صحت کے سی ای او ڈاکٹر مظہر اقبال سے اسپتال کے مسائل کے بارے میں دریافت کیا۔ سی ای او نے بتایا کہ اسپتال میں مستقل ماہرین کی تعیناتی ایک بڑا مسئلہ بن چکی ہے، اور ہفتے میں دو بار جhelum کے ضلعی اسپتال سے ایک اینستھیزیا ماہر کو بلا کر منصوبہ بند سرجریز کروائی جاتی ہیں۔ ڈاکٹر کیانی نے ذاتی طور پر ہر ماہ ایک بار اسپتال آ کر دل کے مریضوں کا معائنہ کرنے کی پیشکش کی۔ انہوں نے پرائمری اور سیکنڈری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ کو فوری اقدامات اٹھانے، طبی عملہ تعینات کرنے اور ادویات کی فراہمی یقینی بنانے کی ہدایت کی۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اگلے ہفتے 500 مستقل طبی ماہرین کی بھرتی کے انٹرویوز ہونے والے ہیں، جنہیں طبی عملے کی شدید قلت والے اسپتالوں میں تعینات کیا جائے گا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر کیانی نے کہا، "ہمیں نہ صرف سڑکوں کا انفراسٹرکچر بہتر بنانا ہے بلکہ اس پسماندہ علاقے کے عوام کو صحت کی سہولیات بھی فراہم کرنی ہیں۔" انہوں نے مقامی میڈیکل گریجویٹس سے اپیل کی کہ وہ اپنے آبائی علاقے کے اسپتال میں خدمات انجام دیں۔ مقامی افراد نے ڈاکٹر کیانی سے ٹوبہ کے علاقے میں ٹراما سینٹر کی تعمیر میں تاخیر کا بھی ذکر کیا۔ یہ منصوبہ سابق وفاقی وزیر چوہدری فواد حسین کی کاوشوں سے منظور ہوا تھا لیکن فنڈز کی بندش کے باعث صرف ایک سرمئی ڈھانچہ ہی تعمیر ہو سکا ہے۔ رہائشیوں نے ڈاکٹر کیانی سے فنڈز کی بحالی اور اس منصوبے کی جلد تکمیل کی درخواست کی۔
اسلام آباد میں ریڈ زون کی حفاظت پر مامور پولیس کمانڈوز کے نفسیاتی ٹیسٹ مکمل کر لیے گئے ہیں، جن کا مقصد ان کی ذہنی کیفیت، رویے، مذہبی اور فرقہ وارانہ رجحانات اور تشدد کے ممکنہ میلانات کا جائزہ لینا تھا۔ یہ اقدام مختلف اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے پولیس اہلکاروں کے ذہنی دباؤ اور تشدد کے رجحانات سے متعلق خدشات کے بعد اٹھایا گیا۔ ٹیسٹ کا مقصد کمانڈوز کی کارکردگی کو بہتر بنانا اور ان کے ذہنی دباؤ کی سطح کا تعین کرنا تھا۔ یہ ٹیسٹ بین الاقوامی معیار کے مطابق ایک ماہر نفسیات کے پینل نے لیا۔ پولیس کمانڈوز کو انسداد دہشت گردی، یرغمالیوں کی بازیابی، اور کسی بھی حملے کی صورت میں کارروائی کرنے کی تربیت دی گئی ہے، اور وہ ریڈ زون کے حساس ملکی و غیر ملکی مقامات کی حفاظت کے ذمہ دار ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق، ایک ماہ تک جاری رہنے والے اس ٹیسٹ میں متعدد کمانڈوز میں ذہنی دباؤ اور افسردگی کی علامات پائی گئیں، جنہیں فوری مشاورت اور مدد کی ضرورت ہے۔ ایسے اہلکاروں کو نسبتاً آسان اور کم دباؤ والے فرائض سونپنے کی سفارش کی گئی ہے، اور ضرورت پڑنے پر ان کی مختلف یونٹس میں منتقلی بھی کی جائے گی۔ اسلام آباد پولیس کے ترجمان کے مطابق، یہ اقدام پولیس اہلکاروں کی ذہنی و جسمانی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے کیا گیا ہے تاکہ ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافہ ہو۔ انہوں نے مزید کہا: "اسلام آباد پولیس کے افسران ہمیشہ عوام کی جان و مال کے تحفظ اور قانون نافذ کرنے کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں امن و امان کی صورت حال کو برقرار رکھنا ایک چیلنجنگ کام ہے، جس کی وجہ سے اہلکار جسمانی اور ذہنی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ نفسیاتی ٹیسٹ کا مقصد ان مسائل کو حل کرنا اور پولیس کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانا ہے۔" یہ پہلا موقع ہے کہ اسلام آباد پولیس کے کمانڈوز کی نفسیاتی صحت کا باقاعدہ جائزہ لیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ نوجوانوں کو سوشل میڈیا پر فیک نیوز کے ذریعے گمراہ کیا جا رہا ہے، جس سے معاشرے میں منفی رجحانات فروغ پا رہے ہیں۔ وہ نارووال میں ایجوکیشنل کانفرنس 2024 سے خطاب کر رہے تھے۔ انہوں نے زور دیا کہ ملک کی ترقی کے لیے تمام طبقات کو متحد ہوکر کردار ادا کرنا ہوگا۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی قیادت کی نااہلی نے ملک کو مشکلات سے دوچار کیا اور نفرت کی سیاست کو ہوا دی۔ وفاقی وزیر نے نوجوانوں پر زور دیا کہ وہ علامہ اقبال کے کلام کو سمجھ کر اپنی شخصیت اور کردار کو سنواریں۔ انہوں نے تعلیم اور تحقیق کو قومی ترقی کا لازمی جزو قرار دیتے ہوئے کہا کہ تعلیم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔ احسن اقبال نے اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف جاری جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو جنگ سے روکنے کے لیے فوری اقدام کرے۔ انہوں نے حکومت کی تعلیمی پالیسیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نوجوانوں کو ہنر اور تعلیم کے ذریعے روزگار کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ یونیورسٹی آف نارووال کو فروغِ تعلیم کے لیے ایک اہم ادارہ قرار دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت ملک میں تعلیمی شعبے کو مضبوط کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔
وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے ان پر گمراہ کن اور جھوٹے بیانیے کے فروغ کا الزام عائد کیا ہے۔ میڈیا سے بات چیت کے دوران عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا نہایت ضروری ہے کیونکہ علی امین گنڈاپور کی جانب سے غیر ملکی میڈیا کو دی جانے والی بریفنگ میں غلط معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے صوبے میں غیر ملکی میڈیا کو بلا کر گمراہ کن بریفنگ دی، ان کے الزامات جھوٹ اور فساد پر مبنی ہیں۔ وزیر اطلاعات نے اپنے بیان میں کہا کہ شرپسندی اور ملک دشمنی پر مبنی بیانیے کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے علی امین گنڈاپور کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان کی سیاست الزامات اور دھمکیوں پر مبنی ہے، جو قوم کے لیے نقصان دہ ہے۔ عطاء اللہ تارڑ نے یاد دلایا کہ 2014 میں پی ٹی وی پر حملے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنانے میں بھی یہی عناصر ملوث تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ گنڈاپور کے اس بیان پر کہ "اگلی کال پرامن نہیں ہوگی"، سوال یہ ہے کہ ان کا کون سا احتجاج پہلے پرامن رہا ہے؟ عطاء اللہ تارڑ نے ان پر ماضی میں جھوٹے بیانیے بنانے اور جعلی تصاویر سوشل میڈیا پر پھیلانے کا الزام بھی عائد کیا۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے تحریک انصاف کی قیادت کو انتظامی اور سیاسی طور پر ناکام قرار دیتے ہوئے کہا کہ صوبے کے معاملات چلانے میں ان کی ناکامی واضح ہے۔ انہوں نے بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ کارکنوں کو تشدد پر اکساتے ہیں اور خود میدان چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ عطاء اللہ تارڑ نے 9 مئی کے واقعات کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ قوم کبھی ان سانحات کو فراموش نہیں کرے گی، اور ان میں ملوث افراد کو قانون کا سامنا کرنا ہوگا۔ ان کے مطابق، تحریک انصاف سوشل میڈیا پر قومی اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کر رہی ہے، جو ناقابل قبول ہے۔ عطا تارڑ نے مزید کہا علی امین گنڈاپور جتنی بھی بھڑکیں مار لیں، ان کی ہر کال ناکام ہوگی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی آئی کی اگلی کال کا انتظار ہے لیکن یہ بھی پہلے کی طرح ناکام رہے گی۔ عطاء تارڑ نے کہا کہ پی ٹی آئی کی کوئی بھی کال کبھی پُرامن نہیں رہی اور اگر دوبارہ قانون ہاتھ میں لیا تو سخت کریک ڈاؤن ہوگا۔ ان کے بقول، اب پی ٹی آئی قیادت میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ کوئی نئی کال دے سکے۔ انہوں نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور پر جھوٹے الزامات لگانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ ملک دشمنی اور شرپسندی کو عوام کے سامنے بے نقاب کرنا ضروری ہے۔ 9 مئی کے واقعات کو یاد کرتے ہوئے عطاء تارڑ نے کہا کہ قوم کبھی ان سانحات کو فراموش نہیں کرے گی اور قانون کا سامنا کرنے سے کوئی بھی مفر نہیں۔ وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ احتجاج اور دھرنوں کے علاوہ پی ٹی آئی کی کوئی سیاسی حکمت عملی نہیں ہے۔ علی امین گنڈاپور کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بتائیں کہ ان کی کون سی کال پُرامن رہی ہے؟ آپ صوبے کے انتظامی معاملات چلانے میں بری طرح ناکام ہیں۔ عطاء تارڑ نے بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور پر کارکنوں کو اکسانے کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ فوٹیج میں واضح ہے کہ علی امین کی گاڑی پر خود ان کے کارکنوں نے پتھراؤ کیا اور بوتلیں پھینکیں۔ انہوں نے کہا کہ 26 نومبر کو انتشار اور لاشوں کی سیاست کی گئی، لیکن علی امین اور بشریٰ بی بی اپنے کارکنوں کو ڈی چوک میں تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے۔ وزیر اطلاعات نے ماضی کے جھوٹے بیانیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے 1200 افراد کی لاشوں کا جھوٹا بیانیہ بنایا اور مصنوعی ذہانت کے ذریعے جعلی تصاویر سوشل میڈیا پر پھیلائیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ شہید ہونے والے رینجرز اور پولیس اہلکاروں کا خون کس کے ہاتھ پر تلاش کیا جائے؟ واضح رہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے غیر ملکی میڈیا سے بات چیت میں سول نافرمانی سمیت عمران خان کے تمام فیصلوں پر عمل کرنے کا عزم ظاہر کیا
نیشنل ڈیٹا بیس رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کے ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار احمد کو جعلی تعلیمی اسناد ثابت ہونے پر ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔ یہ فیصلہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کی جانب سے تحقیقات کے بعد کیا گیا، جس میں ذوالفقار احمد کی پیش کردہ تعلیمی ڈگریوں کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ تحقیقات کے دوران ان کی ایم بی اے کی ڈگری پر نمایاں بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ دستاویزات کے مطابق، ایم بی اے کی ڈگری پر دستخط کرنے والا شخص اس وقت جارج میسن یونیورسٹی، امریکا کا صدر ہی نہیں تھا۔ مزید یہ کہ ان کی بی بی اے کی ڈگری میں کالج کا نام وہ نہیں تھا جو کہ ڈگری کے اجرا کے وقت موجود تھا، جس سے ڈگری کی اصل حیثیت پر سوالات پیدا ہوگئے۔ نادرا کی جانب سے موصول ہونے والی درخواست پر ایچ ای سی نے تفصیلی انکوائری کی اور جعلی ڈگریوں کی تصدیق کردی۔ تحقیقات کے نتیجے میں نادرا نے ذوالفقار احمد کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کیا لیکن وہ کوئی تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہے۔ تمام تر قانونی تقاضے پورے کرنے اور متعلقہ حکام کی سفارشات کے بعد نادرا کے چیئرمین نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے ذوالفقار احمد کی برطرفی کا حتمی حکم جاری کیا۔
کراچی کے معروف تاجر رہنما حنیف گوہر نے سندھ میں زمینوں پر قبضے اور مبینہ سسٹم کے خلاف کارروائی شروع ہونے کا اعتراف کر لیا۔ جیو نیوز کے پروگرام "نیا پاکستان" میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ گزشتہ تین سال سے زمینوں پر قبضے کی شکایات کی جا رہی تھیں لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ حنیف گوہر نے کہا کہ اب آرمی چیف کی مداخلت کے بعد صورتحال بہتر ہونا شروع ہوئی ہے۔ انہوں نے سندھ کی اینٹی انکروچمنٹ فورس پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ فورس درحقیقت زمینوں پر قبضے میں ملوث رہی ہے۔ تاجر رہنما نے مرتضیٰ وہاب کے بیانات پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ انہیں تاجروں کے خلاف بولتے وقت محتاط رہنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ایک طرف آرمی چیف تاجروں کو سرمایہ کاری کی ترغیب دے رہے ہیں اور دوسری طرف ایسے بیانات سے کاروباری طبقے کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ ائیرلائن کے منصوبے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے حنیف گوہر نے اعلان کیا کہ کراچی کے تاجر اپنی ذاتی ائیرلائن "ائیر کراچی" لانچ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ آئندہ چار سے چھ ماہ کے اندر یہ ائیرلائن اپنی پروازیں شروع کر دے گی۔
سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) نے موسم سرما کے دوران گھریلو صارفین کے لیے گیس کی فراہمی کا نیا شیڈول جاری کر دیا ہے۔ اس شیڈول کے مطابق، دن کے تین مختلف اوقات میں گیس مکمل دباؤ کے ساتھ فراہم کی جائے گی تاکہ گھریلو صارفین اپنے روزمرہ کے کام بخوبی انجام دے سکیں۔ ترجمان ایس این جی پی ایل کے مطابق گیس کی فراہمی کے اوقات صبح 6 سے 9 بجے، دوپہر 12 سے 2 بجے اور شام 6 سے 9 بجے تک ہوں گے۔ یہ فیصلہ حکومت کی ہدایات کے تحت لیا گیا تاکہ سردیوں میں بڑھتی ہوئی گیس کی طلب کے باوجود صارفین کو کھانے پکانے اور دیگر ضروری کاموں میں آسانی ہو۔ حکام کا کہنا ہے کہ گیس کی طلب سردیوں میں نمایاں طور پر بڑھ جاتی ہے، اس لیے مذکورہ اوقات میں گیس کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے گئے ہیں۔ اس اقدام کا مقصد گھریلو صارفین کی ضروریات پوری کرتے ہوئے بہتر خدمات کی فراہمی ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ صارفین سے تعاون کی اپیل کی جاتی ہے تاکہ سردیوں کے دوران گیس کی فراہمی کے شیڈول پر موثر عملدرآمد ممکن ہو سکے۔
اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت سے 26 نومبر کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے احتجاج کیس میں ڈسچارج کیے گئے درجنوں پی ٹی آئی کو پولیس نے دوبارہ گرفتار کرلیا۔ ڈان نیوز کے مطابق، انسداد دہشت گردی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے شناخت پریڈ کے بعد ملزمان کو ڈسچارج کرنے کا حکم دیا تھا اور پولیس کو دوبارہ گرفتاری کی صورت میں ہتھکڑیاں لگانے کا انتباہ بھی دیا تھا۔ تاہم پولیس نے عدالتی حکم کو نظرانداز کرتے ہوئے ملزمان کو دوبارہ حراست میں لے لیا۔ ملزمان کے وکیل انصر کیانی نے دوبارہ گرفتاری کی اطلاع عدالت کو دی اور پولیس کے رویے کو عدالتی فیصلے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر بھاری پولیس نفری تعینات کی گئی اور میڈیا کے داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔ پولیس اہلکاروں نے وہاں موجود صحافیوں کو پیچھے دھکیلتے ہوئے کہا کہ جو میڈیا نمائندہ حکم نہ مانے گا، اسے گرفتار کرکے احتجاجی کیس میں شامل کر دیا جائے گا۔ ایس ایچ او اشفاق وڑائچ نے صحافیوں کو دھمکی دیتے ہوئے کہا " یہاں سے میڈیا پیچھے چلا جائے ورنہ گرفتار کروا دونگا، اہلکاروں کو ہدایت کی کہ جو میڈیا والا بات نہیں مانتا اسکو فوری گرفتار کر کے احتجاج کے کیس میں ڈال دو "۔ یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے تھانہ کھنہ کے 54، تھانہ آئی نائن کے 16 اور تھانہ کوہسار کے 11 ملزمان کو مقدمات سے ڈسچارج کیا تھا، جبکہ تھانہ کوہسار کے 48 ملزمان کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کیا تھا۔ پی ٹی آئی کے 24 نومبر کے احتجاج کے بعد وفاقی دارالحکومت اور راولپنڈی کے مختلف تھانوں میں پارٹی کے بانی عمران خان، سابق خاتون اول بشریٰ بی بی، وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور سمیت دیگر رہنماؤں اور سیکڑوں کارکنوں کے خلاف دہشت گردی سمیت مختلف دفعات کے تحت مقدمات درج کیے گئے تھے۔ مظاہرین پر سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانے اور شاہراہوں کو بند کرنے کا الزام عائد کیا گیا، جس کے نتیجے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت متعدد گرفتاریاں عمل میں آئیں۔
حکومت پنجاب کے ’مری ڈیولپمنٹ پلان‘ کے خلاف سیاستدان، تاجر اور عوام متحد ہو گئے ہیں۔ مری لوئر ٹوپہ کے مقام پر عوام کی بڑی تعداد نے احتجاج کیا، جب کہ علاقے میں دفعہ 144 نافذ ہے۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ جھیکا گلی بازار کی ری ماڈلنگ اور مال روڈ پر سیکشن فور کو فوری طور پر ختم کیا جائے۔ احتجاجی مظاہرے کے دوران سابق وفاقی وزیر شاہد خاقان عباسی نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ مری گرینڈ جرگے میں حکومت کے سوا تمام جماعتیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مری کے لوگ اپنا حق مانگنے کے لیے سڑکوں پر نکلے ہیں، حکومت کس قانون کے تحت عوام کی بلڈنگز گرا رہی ہے؟ شاہد خاقان عباسی نے حکومت کے اقدامات کو "جنگل کا قانون" قرار دیتے ہوئے کہا کہ لوگوں کی عمارتیں گرانا ترقی نہیں بلکہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں مری میں کبھی دفعہ 144 نافذ نہیں کی گئی، لیکن اب حکومت رات کے اندھیروں میں آئینی ترامیم کر رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر عوامی حقوق کا تحفظ نہ کیا گیا تو مری کے عوام اپنے حقوق لینا بھی جانتے ہیں۔ مظاہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ترقیاتی منصوبے کے نام پر عوامی املاک کو نقصان پہنچانے کے بجائے لوگوں کے تحفظات دور کرے اور منصوبے پر نظرثانی کے لیے عوام کو اعتماد میں لے۔
سپریم کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے لیے رولز تشکیل دینے والی کمیٹی کے چیئرمین جسٹس جمال خان مندوخیل نے جسٹس منصور علی شاہ کو جوابی خط ارسال کردیا۔ ڈان نیوز کے مطابق، جسٹس جمال خان مندوخیل نے اپنے خط میں 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق کسی بھی تبصرے سے گریز کرتے ہوئے کہا ہے کہ چونکہ یہ معاملہ عدالت کے سامنے ہے، اس لیے وہ اس پر بات نہیں کریں گے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کے خط میں واضح کیا گیا کہ ’’آپ کا 12 دسمبر 2024 کا خط مجھے گزشتہ روز موصول ہوا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’آئین پاکستان جوڈیشل کمیشن کو رولز تشکیل دینے کا اختیار فراہم کرتا ہے۔‘‘ خط کے مطابق، ’’چیف جسٹس نے آپ کی مشاورت سے 6 دسمبر 2024 کو میری سربراہی میں کمیٹی تشکیل دی۔‘‘ چیئرمین رولز کمیٹی نے اپنے خط میں بتایا کہ کمیٹی کو ججز کی تعیناتی کے رولز ڈرافٹ کرنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔ اس حوالے سے دو اجلاس پہلے ہی منعقد ہو چکے ہیں۔ خط کے مطابق، ’’آپ کی طرف سے دی گئی تجاویز کا بیشتر حصہ پہلے ہی ڈرافٹ میں شامل کیا جا چکا ہے۔ یہ ڈرافٹ آپ کے خط سے پہلے ہی ذاتی طور پر آپ کے ساتھ شیئر کیا جا چکا ہے۔‘‘ جسٹس جمال خان مندوخیل نے خط میں اس بات کا انکشاف کیا کہ انہیں معلوم ہوا ہے کہ جسٹس منصور علی شاہ نے لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹس میں ججز کی تعیناتی کے لیے امیدواروں کے نام تجویز کیے ہیں۔ اس پر چیئرمین کمیٹی نے مشورہ دیتے ہوئے کہا، ’’آپ اپنے امیدواروں کے نام رولز کی منظوری کے بعد تجویز کریں۔‘‘ جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے خط میں 26ویں آئینی ترمیم پر اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ترمیم نے ججز تقرری کے اختیارات کا توازن بگاڑ دیا ہے اور جوڈیشل کمیشن میں ایگزیکٹو کو اکثریت فراہم کر دی ہے، جس سے عدلیہ میں سیاسی تعیناتیوں کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ انہوں نے زور دیا تھا کہ عدلیہ کو ہمیشہ سے ججز کی تقرری کا اختیار حاصل رہا ہے، لیکن نئی آئینی ترمیم سے یہ عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ اس خط کے جواب میں جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ عدلیہ کی آزادی کے نظریے کے حامی ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عدلیہ میں قابل اور ایماندار افراد کی تقرری انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن کے رولز کی تیاری پر کام جاری ہے اور اس سلسلے میں کمیٹی کے دو اجلاس پہلے ہی منعقد ہو چکے ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے خط میں کہا کہ انہیں جسٹس منصور علی شاہ کی طرف سے دی گئی تجاویز کا علم ہے اور بیشتر نکات پہلے ہی رولز کے مسودے میں شامل کیے جا چکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالتی عمل کے شفاف اور آئینی دائرے میں رہنے کو یقینی بنانا ان کی ترجیحات میں شامل ہے۔
سیکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں گزشتہ پانچ روز کے دوران کیے گئے آپریشنز میں 43 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق یہ کارروائیاں خفیہ اطلاعات پر کی گئیں اور دہشت گردوں کے خلاف بھرپور کارروائی جاری ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق 12 اور 13 دسمبر کی درمیانی شب سیکیورٹی فورسز نے ضلع لکی مروت میں خفیہ اطلاع پر ایک بڑا آپریشن کیا، جس کے نتیجے میں چھ خارجی دہشت گرد مارے گئے۔ مزید بتایا گیا کہ 9 دسمبر 2024 سے اب تک خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر 18 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ بلوچستان میں بھی سیکیورٹی فورسز نے 13 دسمبر کو موسیٰ خیل اور پنجگور اضلاع میں دو مختلف آپریشنز کیے۔ ان کارروائیوں میں شدید فائرنگ کے تبادلے کے دوران 10 دہشت گرد مارے گئے۔ ان آپریشنز کے نتیجے میں 9 دسمبر سے اب تک بلوچستان میں 25 دہشت گرد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے کہا ہے کہ یہ کارروائیاں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک علاقے میں مکمل امن بحال اور دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں ہو جاتا۔ سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کی لعنت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے پرعزم ہیں اور ان آپریشنز سے فتنہ الخوارج سمیت دیگر دہشت گرد گروہوں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ یہ کارروائیاں ایسے وقت میں کی جا رہی ہیں جب پاکستان کو دہشت گردی کی ایک نئی لہر کا سامنا ہے۔ اسلام آباد کے تھنک ٹینک پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پِپس) کے حالیہ ’ماہانہ سیکیورٹی ریویو آف پاکستان‘ کے مطابق، نومبر 2024 میں ملک میں 61 دہشت گرد حملے ہوئے، جو پچھلے مہینے کے مقابلے میں 27 فیصد زیادہ ہیں۔ ان حملوں میں اموات کی تعداد بھی 69 فیصد بڑھ کر 100 سے 169 ہو گئی، جب کہ 225 افراد زخمی ہوئے۔

Back
Top