خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
سینئر صحافی شہباز رانا نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کی معیشت بظاہر وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کے تحت چل رہی ہے، لیکن اصل معاملات سینیٹر اسحاق ڈار کے ہاتھ میں ہیں، جو نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہیں۔ شہباز رانا نے نجی ٹی وی کے پروگرام ’اسپاٹ لائٹ‘ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب محض نام کے وزیر ہیں، جبکہ معاشی امور کے 60 سے 70 فیصد معاملات اسحاق ڈار کے زیر نگرانی چل رہے ہیں۔ ان کے مطابق، اسحاق ڈار قومی اقتصادی کونسل کی ایگزیکٹو کمیٹی سمیت کئی اہم کمیٹیوں کی سربراہی کر رہے ہیں، جو عموماً وزیر خزانہ کے دائرہ کار میں آتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار کو اپریل 2024 میں نائب وزیراعظم کا عہدہ دیا گیا تھا، اور وہ پہلے ہی وزیر خارجہ کے طور پر ذمہ داریاں نبھا رہے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے حکومت سنبھالنے کے وقت سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ وزیر خزانہ کی نشست روایتی طور پر اسحاق ڈار کو ہی دی جائے گی کیونکہ وہ ماضی میں ن لیگ کے دور حکومت میں یہ خدمات انجام دے چکے ہیں۔ تاہم وزیراعظم شہباز شریف نے یہ عہدہ سابق بینکر محمد اورنگزیب کو سونپ کر روایت توڑ دی۔ شریف خاندان کے قریبی ذرائع کے مطابق اس فیصلے پر اسحاق ڈار نے تحفظات کا اظہار کیا تھا، لیکن بعد میں انہیں مختلف اہم کمیٹیوں کی سربراہی دی گئی، جن میں ٹیکس نظام، سبسڈی اور گیس جیسے معاملات شامل ہیں۔ شہباز رانا نے وضاحت کی کہ محمد اورنگزیب کو وزیر خزانہ کے طور پر برقرار رکھنے کا فیصلہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور ورلڈ بینک کے ساتھ تعلقات بہتر رکھنے کے لیے کیا گیا۔ ان کے مطابق، اورنگزیب کا عالمی سطح پر ایک مثبت چہرہ پیش کیا گیا ہے، لیکن ملکی معیشت کی اصل ذمہ داری اسحاق ڈار نبھا رہے ہیں۔ شہباز رانا نے حکومت کے مہنگائی میں کمی کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں مہنگائی کی مجموعی شرح اب بھی بلند ہے، حالانکہ یہ 30 فیصد سے کم ہو کر 8 فیصد پر آگئی ہے۔ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ عوام کو بجلی کے بلوں میں کسی قسم کا بڑا ریلیف نہیں ملے گا کیونکہ حکومت کے پاس ٹیکسوں میں کمی کا اختیار نہیں ہے۔ صحافی نے مزید کہا کہ مسلم لیگ (ن) کو اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کی طرف بڑھنے سے پہلے اپنی داخلی حکمت عملی کو بہتر بنانا ہوگا۔ انہوں نے زور دیا کہ پارٹی کو اپنی بہترین ٹیم کو آگے لا کر ملک کو درست سمت میں چلانے کے اقدامات کرنے ہوں گے۔
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ نے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر امریکا ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کرے تو پاکستان بانی پی ٹی آئی عمران خان کی رہائی پر غور کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق، یہ تجویز حکومت کی جانب سے امریکا کے سامنے پیش کی گئی تھی، جس پر ابھی کوئی حتمی پیش رفت نہیں ہوئی۔ رانا ثناء اللہ نے بتایا کہ امریکا نے جواب میں کہا کہ ان کا اپنا قانونی نظام ہے اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتے ہیں، جس پر پاکستان نے بھی یہی مؤقف اپنایا کہ ہمارے ہاں بھی ایک قانونی نظام موجود ہے اور ہم اس کے مطابق کام کرتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اس معاملے پر حکومت کو کوئی گھبراہٹ نہیں ہے اور اپنے دفاع کا مکمل تحفظ کرے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان ڈونلڈ ٹرمپ یا کسی اور بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے فیصلے نہیں کرے گا اور حکومت اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات اٹھائے گی۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی گزشتہ کئی دہائیوں سے امریکا میں قید ہیں اور یہ معاملہ ایک اہم سفارتی موضوع رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کے لیے پرعزم ہے، اور امریکا سے اس پر مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے بتایا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت کے دروازے کھلے ہیں اور حکومت کسی بھی مثبت پیش رفت کے لیے تیار ہے۔ ان کے مطابق، پہلی ملاقات میں زبانی باتیں ہوئیں اور حکومت نے کہا کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات تحریری طور پر پیش کرے تاکہ آئین و قانون کے مطابق ان کا جواب دیا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کسی بھی انڈر ٹرائل ملزم کو قانونی طریقے کے بغیر رہا نہیں کر سکتی۔ جو افراد عدالتی تحویل میں ہیں، ان کی رہائی کا فیصلہ عدالتوں کے ذریعے ہی ہوگا۔ رانا ثناء اللہ نے یہ بھی واضح کیا کہ کرمنل کیسز اور تحقیقات کا عمل پولیس اور متعلقہ ادارے کرتے ہیں، نہ کہ سپریم کورٹ کے ججز۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی پر الزام ہے تو تحقیقات کے بعد قانونی کارروائی ہوگی، اور پی ٹی آئی کے ساتھ باہمی سطح پر بات چیت کے لیے حکومت تیار ہے۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں پہلے بھی اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں، لیکن حکومت کسی بھی ایسی بات کو تسلیم نہیں کرے گی جو ملکی مفادات کے خلاف ہو۔ انہوں نے زور دیا کہ حکومت آئین و قانون کے تحت اپنے فرائض سرانجام دے گی اور بیرونی دباؤ کو برداشت نہیں کرے گی۔
صدر لاہور ہائی کورٹ بار اسد منظور بٹ کا کہنا ہے کہ وطنِ عزیز میں سول مارشل لاء چل رہا ہے اور 26 ویں آئینی ترمیم کے اثرات اب آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اسد منظور بٹ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو فیصلے جاری کرنے کی اجازت دی ہے۔ صدر لاہور ہائی کورٹ بار نے کہا کہ عدلیہ کا وقار عوام کے سامنے بلند ہونا چاہیے، اور ہم جوڈیشل کمیشن میں جسٹس مندوخیل کی رائے کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جسٹس مندوخیل نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے تمام ججز آئینی ججز ہیں، اور ہم جسٹس مندوخیل کی اس بات کی حمایت کرتے ہیں۔ اسد منظور بٹ نے کہا کہ ہم کسی قسم کی غیر آئینی یا غیر جمہوری بات یا قانون کو نہیں چلنے دیں گے اور فل کورٹ کی ججمنٹ کو مسترد کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے اینٹی کرپشن سرکل لاہور نے وزارت خارجہ کے رابطہ آفس لاہور میں کارروائی کرتے ہوئے چار افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔ گرفتار افراد میں گارڈ اور سویپر سمیت دیگر ایجنٹس شامل ہیں جو شہریوں سے دستاویزات کی تصدیق کے لیے غیر قانونی طور پر رقوم وصول کرتے تھے۔ ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق، کارروائی کے دوران ملزم کرامت، عباس، ظفر اور عدنان کو گرفتار کیا گیا جبکہ تین ملزمان عبدالرحمٰن، طیب اور رستم موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ گرفتار افراد کے قبضے سے مختلف دستاویزات، پاسپورٹس، اور موبائل فون برآمد کیے گئے ہیں۔ ان کے خلاف متعلقہ دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے لاہور زون سرفراز خان ورک نے واضح کیا کہ ایجنٹ مافیا کے خلاف بلا تفریق کارروائیاں جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ مافیا سادہ لوح شہریوں کو لوٹنے میں ملوث ہے اور ایسے افراد کسی بھی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پرعزم ہے اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت اقدامات کیے جائیں گے۔ ایف آئی اے کی یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عوامی شکایات کے باعث دستاویزات کی تصدیق کے عمل کو شفاف اور بدعنوانی سے پاک بنانے کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ وہ اس مہم کو مزید مؤثر بنانے کے لیے اقدامات جاری رکھے گی تاکہ شہریوں کو بہتر سہولیات فراہم کی جاسکیں اور ایجنٹ مافیا کا خاتمہ ممکن ہو۔ .ملزمان کے خلاف مقدمے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں
پاکستان نے فوجی عدالتوں سے متعلق عالمی تبصروں پر اپنے سخت موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کو مکمل طور پر تسلیم کرتا ہے اور اپنے عدالتی نظام کو ان معیارات کے مطابق ڈھالنے کے لیے پرعزم ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ، ممتاز زہرہ بلوچ نے اپنے بیان میں فوجی عدالتوں کے فیصلوں پر بین الاقوامی تشویش کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا عدالتی نظام سول و سیاسی حقوق کے بین الاقوامی کنونشن کی شقوں کے مطابق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی عدلیہ بنیادی حقوق اور آزادیوں کا احترام کرتی ہے، اور ہر ملزم کو فیصلوں کے خلاف اپیل کرنے کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حالیہ فیصلے پارلیمنٹ سے منظور شدہ قوانین کے تحت اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں کیے گئے ہیں۔ ترجمان نے زور دیا کہ پاکستان جمہوریت، انسانی حقوق اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتا ہے اور جی ایس پی پلس اسکیم کے تحت اپنی عالمی ذمہ داریوں کی مکمل پاسداری کرتا ہے۔ ترجمان نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پاکستان اپنے داخلی معاملات کو خود حل کرنے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے اور کسی بیرونی مداخلت کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملکی سیکیورٹی کے فیصلے پاکستانی قوم کرے گی اور کسی بیرونی دباؤ کو خاطر میں نہیں لایا جائے گا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے 9 مئی کے احتجاجی مظاہروں کے سلسلے میں فوجی عدالتوں سے شہریوں کو سنائی گئی سزاؤں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ان عدالتوں میں شفافیت اور منصفانہ ٹرائل کی ضمانتوں کا فقدان ہے۔ امریکہ نے پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ آئین کے مطابق منصفانہ ٹرائل کے حق کا احترام کریں۔ اسی طرح برطانوی دفتر خارجہ نے بھی 25 شہریوں کو فوجی عدالتوں سے دی گئی سزاؤں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ فیصلے میں شفافیت اور عدالتی آزادی کا فقدان ہے۔ برطانیہ نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ شہری اور سیاسی حقوق کی عالمی ذمہ داریوں کی پاسداری کرے۔ یورپی یونین نے بھی ان فیصلوں پر اعتراض کرتے ہوئے انہیں بین الاقوامی معاہدے (آئی سی سی پی آر) سے متصادم قرار دیا۔ یورپی یونین نے کہا کہ ہر شہری کو آزاد، غیر جانبدار اور مجاز عدالت میں منصفانہ ٹرائل کا حق حاصل ہے، اور یہ فیصلے ان بنیادی اصولوں سے متصادم ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق 9 مئی 2023 کے پرتشدد واقعات میں ملوث مجرمان کے خلاف ناقابل تردید شواہد کی بنیاد پر 25 افراد کو سزا دی گئی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ یہ سزائیں انصاف کی فراہمی اور قانون کی عملداری کے لیے ایک اہم سنگ میل ہیں، اور آئندہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی
کراچی: عدالت نے کرنٹ لگنے کے نتیجے میں کمسن اذان کی ہلاکت کے کیس میں کے الیکٹرک کو 1.93 کروڑ روپے ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ یہ فیصلہ سینئر سول جج ایسٹ کی عدالت نے سنایا، جس نے 6 سال بعد مقدمے کا فیصلہ کیا۔ عدالت کے فیصلے میں کہا گیا کہ کے الیکٹرک کی غفلت واضح تھی، جس کے نتیجے میں یہ دردناک واقعہ پیش آیا۔ 2017 میں ہونے والی بارشوں کے دوران کمسن اذان کو کرنٹ لگا، جس کے نتیجے میں وہ جان سے چلا گیا۔ اس واقعے میں کے الیکٹرک کی طرف سے گارڈ وائر لگانے میں ناکامی ایک اہم سبب بنی۔ جج عنبرین جمال کے فیصلے کے مطابق، کے الیکٹرک کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ متاثرہ خاندان کو ایک کروڑ 93 لاکھ روپے کا ہرجانہ ادا کرے۔ اس فیصلے کے بعد اذان کے لواحقین کو انصاف ملا ہے، اور وہ اس بات پر خوش ہیں کہ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سنایا۔ مقدمے کے وکیل ایڈووکیٹ عثمان فاروق نے اس فیصلہ کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ایک اہم موقع ہے جب قانون نے عوام کی حفاظت اور ذمہ داری کا احساس دلایا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کے ذریعے وہ لوگ جو عوامی خدمات فراہم کرتے ہیں، انہیں اپنی ذمہ داریوں کا درست ادراک کرنا چاہیے تاکہ ایسے حادثات دوبارہ پیش نہ آئیں۔
سانحہ 9 مئی کے مقدمات میں فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مجرموں کی جیل منتقلی کا عمل شروع ہو گیا ہے، اور 11 مجرموں کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ فوجی عدالتوں سے سزا پانے والے 11 مجرموں کو کوٹ لکھپت جیل لاہور منتقل کیا گیا ہے۔ جیل منتقل کیے گئے 7 مجرموں کو 10 سال قید بامشقت، دو کو 6 سال، ایک کو 4 سال اور ایک کو 2 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ حکام کے مطابق، سزایافتہ مجرموں میں 8 کا تعلق لاہور سے ہے، ایک کا اسلام آباد، ایک کا راولپنڈی اور ایک کا نوشہرہ سے ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ سانحہ 9 مئی کے مجرمین کو کوٹ لکھپت جیل میں اپنی سزا مکمل کرنی ہوگی۔ جیل منتقل کیے جانے والوں میں لاہور کے علی شان، جان محمد خان، ضیا الرحمٰن، فہیم حیدر، محمد حاشر، عاشق خان اور بلاول منظور شامل ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل منتقل ہونے والے دیگر مجرموں میں اسلام آباد کے عبدالہادی، راولپنڈی کے عمران محبوب اور نوشہرہ کے داؤد خان بھی شامل ہیں۔ واضح رہے کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے 21 دسمبر کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی جانب سے سانحہ 9 مئی کے 25 ملزمان کو سزا دینے کا اعلان کیا تھا۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق 9 مئی 2023 کو قوم نے سیاسی طور پر بھڑکائے گئے اشتعال انگیز تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے افسوسناک واقعات دیکھے۔ 9 مئی کے پرتشدد واقعات پاکستان کی تاریخ میں سیاہ باب ہیں، اور مجرمان کے خلاف ناقابل تردید شواہد اکٹھے کیے گئے۔ آئی ایس پی آر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 9 مئی کی سزاؤں کا فیصلہ قوم کے لیے انصاف کی فراہمی میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ 9 مئی کی سزائیں ان تمام لوگوں کے لیے ایک واضح پیغام ہیں جو چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ سیاسی پروپیگنڈے اور زہریلے جھوٹ کا شکار بننے والوں کے لیے یہ سزائیں ایک تنبیہ ہیں کہ وہ مستقبل میں کبھی بھی قانون کو ہاتھ میں نہ لیں۔
پشاور: قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پی ٹی آئی رہنما عمر ایوب نے فوجی عدالت کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف عدالت جانے کا اعلان کیا ہے۔ پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر ایوب نے کہا کہ مجھ پر فیصل آباد اور حسن ابدال میں پانچ موٹرسائیکل چوری کے مقدمے ہیں۔ "لیڈر آف دی اپوزیشن کو موٹرسائیکل چور بنا دیا، سوچ رہا ہوں دکان کھول لوں۔" انہوں نے کہا کہ عمران خان اور دیگر قائدین سمیت تمام اسیران کو رہا کیا جائے، اور جب تک آئین اور قانون کی بالادستی نہیں ہوگی، ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔ "باہر کے لوگ یہاں سرمایہ کاری نہیں کر رہے کیونکہ یہاں استحکام نہیں۔" اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ سانحہ ڈی چوک کے حوالے سے جوڈیشل کمیشن بنایا جائے اور 9 مئی کے واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج سامنے آنی چاہیے۔ "فوجی عدالت کے فیصلے کی مذمت کرتا ہوں۔ ملٹری کورٹ ملٹری کے کورٹ ہیں، اور ان کے فیصلوں کے خلاف ہم عدالت سے رجوع کریں گے۔" عمر ایوب نے مزید کہا کہ شفاف انتخابات ہمارا مطالبہ ہے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے صاف اور شفاف انتخابات کرائے جائیں گے۔
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا آغاز ہو گیا ہے۔ مذاکرات قومی اسمبلی کے اسپیکر ایاز صادق کی زیرِ صدارت ہو رہے ہیں۔ تلاوت کلام پاک کے بعد کمیٹی ارکان کی جانب سے ملک و قوم کی بہتری اور مذاکرات کی کامیابی کے لیے دعا کی گئی۔ حکومتی کمیٹی میں نائب وزیرِ اعظم اسحاق ڈار، عرفان صدیقی، رانا ثناء اللّٰہ، نوید قمر، راجہ پرویز اشرف، فاروق ستار موجود ہیں۔ مذاکرات میں اپوزیشن کے اسد قیصر، حامد رضا اور علامہ ناصر عباس بھی شریک ہیں۔ اس سے قبل میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ آج تو ہم ایک ہی طرف دیکھ رہے ہیں، دوسری طرف بالکل نہیں دیکھ رہے۔ عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ ایک طرف یہ ہے کہ ہم مذاکرات میں جا رہے ہیں، ہم مذاکرات میں کھلے دل و دماغ اور اچھی توقعات کے ساتھ جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان شاء اللّٰہ اُمید ہے کہ اس کے اچھے نتائج نکلیں گے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے کہا کہ ہمارے دو تین سینئر لوگ آج دستیاب نہیں ہیں، آج ہماری ابتدائی میٹنگ ہے، ایجنڈا سامنے رکھا ہے۔ اسد قیصر کا کہنا ہے کہ ہمارے قیدیوں کی رہائی کی بات ہو گی، 26 نومبر کے واقعے کی جوڈیشل انکوائری ہو، امن و امان کی صورت حال اور معاشی چیلنجز کی بات ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ملک اس طرح نہیں چلے گا، ملک انارکی کی طرف بڑھ رہا ہے، ملک میں سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔
جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں خارجی دہشت گردوں نے چیک پوسٹ پر حملہ کرکے ایک بار پھر دہشت گردی کی مذموم کارروائی کی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، اس حملے میں پاک فوج کے 16 بہادر جوان شہید ہوگئے، جبکہ سیکیورٹی فورسز کی فوری اور مؤثر جوابی کارروائی میں 8 خارجی دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں خارجی دہشت گردوں نے ایک چیک پوسٹ پر حملہ کیا۔ شدید فائرنگ کے تبادلے میں وطن کے 16 سپوتوں نے بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان جوانوں نے اپنی جان دے کر وطن کے دفاع کو یقینی بنایا اور دشمن کو بھاری نقصان پہنچایا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، سیکیورٹی فورسز نے فوری طور پر جوابی کارروائی کرتے ہوئے 8 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ یہ دہشت گرد ملک میں بدامنی پھیلانے کے مذموم مقاصد رکھتے تھے، لیکن فورسز کی مستعدی نے ان کے عزائم کو ناکام بنا دیا۔ آئی ایس پی آر نے کہا کہ "علاقے میں ممکنہ خارجی دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے کلیئرنس آپریشن جاری ہے۔" فورسز علاقے کو مکمل طور پر محفوظ بنانے کے لیے بھرپور کوشش کر رہی ہیں تاکہ دہشت گردی کے خطرے کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔ آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ "بہادر جوانوں کی قربانیاں ہمارے عزم کو مزید تقویت دیتی ہیں۔"
آئی ایس پی آر نے 9 مئی 2023 کے واقعات کے حوالے سے جاری کی گئی اپنی پریس ریلیز میں بتایا کہ فوجی عدالتوں نے اس سانحے میں ملوث 25 افراد کو سزا سنائی ہے۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے حکم پر زیر التواء مقدمات کے حوالے سے کیا گیا۔ ان سزاؤں کو نہ صرف قانون اور شواہد کی بنیاد پر عمل میں لایا گیا بلکہ یہ ریاست پاکستان کے عزم کی عکاسی بھی کرتی ہیں کہ ملک میں قانون کی بالادستی اور انصاف کا بول بالا ہو۔ آئی ایس پی آر نے کہا کہ "9 مئی 2023 کو قوم نے سیاسی طور پر بڑھکائے گئے اشتعال انگیز تشدد اور جلاؤ گھیراؤ کے افسوسناک واقعات دیکھے۔" یہ واقعات پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ "نفرت اور جھوٹ پر مبنی ایک پہلے سے چلائے گئے سیاسی بیانیے کی بنیاد پر مسلح افواج کی تنصیبات بشمول شہداء کی یادگاروں پر منظم حملے کئے گئے اور اُن کی بے حرمتی کی گئی۔" ان حملوں نے پوری قوم کو شدید صدمے سے دوچار کیا۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے کے مطابق "9 مئی کے واقعات واضح طور پر زور دیتے ہیں کہ کسی کو بھی سیاسی دہشتگردی کے ذریعے اپنی مرضی دوسروں پر مسلط کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔" اس یومِ سیاہ کے بعد تمام شواہد اور واقعات کی باریک بینی سے تفتیش کی گئی۔ شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ "ملوث ملزمان کے خلاف ناقابلِ تردید شواہد اکٹھے کئے گئے۔ کچھ مقدمات قانون کے مطابق فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے لئے بھجوائے گئے، جہاں مناسب قانونی کارروائی کے بعد ان مقدمات کا ٹرائل ہوا۔" آئی ایس پی آر نے کہا کہ "13 دسمبر 2024 کو سپریم کورٹ آف پاکستان کے سات رکنی آئینی بنچ نے زیر التواء مقدمات کے فیصلے سنانے کا حکم صادر کیا، وہ مقدمات جو سپریم کورٹ کے سابقہ حکم کی وجہ سے التواء کا شکار تھے۔" اس حکم کی روشنی میں فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے پہلے مرحلے میں 25 ملزمان کو سزائیں سنا دی ہیں۔ پاک فوج کے ترجمان ادارے کے مطابق "یہ سزائیں تمام شواہد کی جانچ پڑتال اور مناسب قانونی کارروائی کی تکمیل کے بعد سنائی گئی ہیں۔ سزا پانے والے ملزمان کو قانونی تقاضے پورے کرنے کے لئے تمام قانونی حقوق فراہم کئے گئے۔" شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ سزا پانے والے افراد میں مختلف حملوں میں ملوث افراد شامل ہیں، جنہیں 2 سے 10 سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی گئیں۔ ان میں جناح ہاؤس، جی ایچ کیو، پنجاب رجمنٹل سنٹر، اور دیگر عسکری تنصیبات پر حملے کرنے والے شامل ہیں۔ آئی ایس پی آر نے کہا کہ "9 مئی کی سزاؤں کا فیصلہ قوم کے لیے انصاف کی فراہمی میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ 9 مئی کی سزائیں اُن تمام لوگوں کے لیے ایک واضح پیغام ہیں جو چند مفاد پرستوں کے ہاتھوں استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔" شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ "سیاسی پروپیگنڈے اور زہریلے جھوٹ کا شکار بننے والے لوگوں کیلئے یہ سزائیں تنبیہ ہیں کہ مستقبل میں کبھی قانون کو ہاتھ میں نہ لیں۔" پاک فوج کے ترجمان ادارے کے مطابق "متعدد ملزمان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی مختلف عدالتوں میں بھی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ صحیح معنوں میں مکمل انصاف اُس وقت ہوگا جب 9 مئی کے ماسٹر مائنڈ اور منصوبہ سازوں کو آئین و قانون کے مطابق سزا مل جائے گی۔" آئی ایس پی آر نے کہا کہ "ریاستِ پاکستان 9 مئی کے واقعات میں مکمل انصاف مہیا کر کے ریاست کی عملداری کو یقینی بنائے گی۔ 9 مئی کے مقدمہ میں انصاف فراہم کرکے تشدد کی بنیاد پر کی جانے والی گمراہ اور تباہ کُن سیاست کو دفن کیا جائے گا۔" شعبہ تعلقات عامہ کا کہنا ہے کہ "9 مئی پر کئے جانے والا انصاف نفرت، تقسیم اور بے بنیاد پروپیگنڈا کی نفی کرتا ہے۔ آئین اور قانون کے مطابق تمام سزا یافتہ مجرموں کے پاس اپیل اور دیگر قانونی چارہ جوئی کا حق ہے۔"
پاکستان کے معروف نیوز چینل جیو نیوز کے میزبان شہزاد اقبال نے حکومت، پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات سے متعلق اہم انکشاف کیا ہے۔ شہزاد اقبال نے اپنے پروگرام "نیا پاکستان" میں کہا کہ بظاہر حکومت اور پی ٹی آئی مذاکرات میں پہل کرنے سے گریز کر رہے ہیں، لیکن پس پردہ تینوں فریق بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں جاری سیاسی بحران اور عدم استحکام کے پیش نظر مذاکرات کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود نہیں۔ شہزاد اقبال نے دعویٰ کیا کہ مختلف حلقوں کی جانب سے پی ٹی آئی کو یہ پیغامات پہنچائے جا رہے ہیں کہ اگر وہ حکومت اور نظام کو گرانے کی کوششوں سے پیچھے ہٹ جائے تو اسے ریلیف مل سکتا ہے۔ شہزاد اقبال کے مطابق بظاہر مذاکرات میں پہل سے انکار کے باوجود، حکومت، پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ پس پردہ بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ نواز شریف کا بھی مذاکرات کی حمایت کرنے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اگر پی ٹی آئی نظام کی مخالفت سے پیچھے ہٹ جائے تو عمران خان کی پشاور اور پھر بنی گالہ منتقلی پر غور کیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان سیاسی بیان بازی اور لفظی جنگ جاری ہے، لیکن دونوں جانب یہ ادراک موجود ہے کہ مسائل کا حل صرف مذاکرات سے ممکن ہے۔ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر شہزاد اقبال نے زور دیا کہ تمام فریقین کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر فریقین اپنے سخت مؤقف سے پیچھے ہٹ کر بات چیت کے عمل کو آگے بڑھاتے ہیں تو ملکی سیاست میں جاری غیریقینی صورت حال کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے راولپنڈی میں اڈیالہ جیل کے کمرہ عدالت کے باہر صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ 26 نومبر کو ہونے والے احتجاج کے بعد لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس احتجاج میں 200 افراد لاپتہ ہوئے تھے، تاہم اب ان کی تعداد صرف 54 رہ گئی ہے۔ وزیراعلیٰ نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے دوران سول نافرمانی کی تحریک پر مشاورت کی گئی، کیونکہ ملک کے موجودہ حالات نے انہیں پاکستان کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتوں کو غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے اور وہ امید کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں مذاکرات کے ذریعے کوئی حل نکالیں گی۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت یا اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کا کوئی ارادہ نہیں ہے، لیکن پی ٹی آئی کے لیے مذاکرات کے متبادل پلان کو تیار کیا گیا ہے۔ علی امین گنڈا پور نے مزید کہا کہ شہداء اور زخمیوں کے حوالے سے صوبائی سطح پر انکوائری کی جا رہی ہے اور اس سلسلے میں کابینہ بھی کام کر رہی ہے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ وہ مسلسل اپنی آفیشل میٹنگز میں بات کرتے رہتے ہیں اور امید ظاہر کی کہ ہفتہ 21 دسمبر تک دونوں اطراف سے مثبت پیش رفت ہوگی۔
پاکستان میں محض مقبولیت کسی بھی رہنما کو اقتدار کی ضمانت نہیں دے سکتی، بلکہ اصل طاقت قبولیت میں پوشیدہ ہے، سہیل وڑائچ۔ انہوں نے آج ٹی وی کے پروگرام “روبرو” میں گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ "پاکستان میں مقبولیت قبولیت سے وابستہ ہے، صرف مقبولیت سے کسی کو اقتدار یا حکمرانی نہیں مل سکتی۔" وڑائچ کے مطابق، طاقت مقبولیت کی بلندی ہے، مگر قبولیت کہیں زیادہ طاقتور ہوتی ہے اور یہی اصل حقیقت ہے۔ سہیل وڑائچ نے پی ٹی آئی کے 8 فروری کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے اس کے بعد متعدد ریلیاں نکالیں اور عالمی برادری سے اس معاملے کا نوٹس لینے کی اپیل کی۔ ان کے مطابق، پی ٹی آئی کے مطالبات حکومت سے مذاکرات کا حصہ تھے، تاہم حکومتی اتحاد نے اس پر واضح طور پر کہا کہ اس طرح کے مطالبات معیشت اور سیاسی استحکام پر منفی اثرات ڈال سکتے ہیں، اس لیے انہیں تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ سہیل وڑائچ نے دونوں فریقوں کو مشورہ دیا کہ وہ ایک “سمجھدار راستہ” اپنائیں اور غیر منطقی مطالبات سے گریز کریں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کو یہ بھی کہا کہ وہ خان صاحب اور دیگر قیدیوں کی رہائی کے مطالبات پر زور دے، کیونکہ ایسا قدم سیاسی صورتحال میں بہتری لا سکتا ہے۔ وڑائچ کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں کو ایک دوسرے کی طاقت کو سمجھ کر بات چیت کرنی چاہیے، تاکہ معقول حل نکل سکے۔ سہیل وڑائچ نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کی مثالیں دیتے ہوئے کہا کہ دونوں رہنما کم سیٹوں کے باوجود پارلیمنٹ میں شامل ہوئے، اور صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے بعد میں حکومت تک پہنچے۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست میں مسائل کا حل ہمیشہ صبر اور حکمت عملی سے ہی نکلتا ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کا حل صرف مذاکرات اور جنگ بندی میں ہے۔ اگرچہ انہوں نے کہا کہ ممکنہ طور پر قومی حکومت بھی بن سکتی ہے، مگر وہ اس کی فوری توقع نہیں رکھتے۔ ان کا موقف تھا کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان لڑائی نہ صرف بے فائدہ ہے بلکہ اس سے کسی بھی فریق کو فائدہ نہیں پہنچتا۔ وڑائچ نے مزید کہا کہ مذاکرات میں وقت لگتا ہے، اور حکومت کو اس بات کا فائدہ ہوا کہ پی ٹی آئی کا اسلام آباد مارچ ناکام ہوگیا۔ جب حالیہ بات چیت کی کوششوں کے بارے میں سوال کیا گیا تو سہیل وڑائچ نے کہا کہ کسی بھی فریق نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا، کیونکہ مذاکرات کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات اور باہمی اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ پی ٹی آئی کی اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنانے کی حکمت عملی غلط تھی، اور یہ پارٹی کے لیے بہتر ہوتا کہ وہ فوج کی سیاست میں مداخلت نہ کرتی۔ سہیل وڑائچ نے اس بات کا ذکر کیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی نہ ملک کے لیے مفید تھی اور نہ ہی فوج کے لیے، بلکہ پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کی کوشش نے انہیں مزید مقبول بنا دیا۔ اسی طرح، انہوں نے پی ٹی آئی کو مشورہ دیا کہ وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہوئے اپنے بعض مطالبات میں نرمی لائے، کیونکہ پی ٹی آئی کے پاس مقبولیت ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے چیلنج یہ ہے کہ عوامی ووٹ عمران خان کے ساتھ ہے۔ سہیل وڑائچ نے یہ بھی کہا کہ جب تک عمران خان نظام سے باہر ہوں گے، پاکستان میں سیاسی استحکام نہیں آ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اب وقت کی اہمیت ہے اور حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی کمزور ہو، لیکن اس صورتحال میں لڑائی کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
اسلام آباد میں حالیہ اجلاس کے دوران قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز اور چیئرمین سینیٹ نے اہم آئینی و قانونی مطالبات پیش کیے۔ اجلاس میں اسپیکرز نے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کی غیر موجودگی کی صورت میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کو قائم مقام وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ بنانے کے لیے قانون سازی کی تجویز دی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ آئینی خلا پُر کرنے کے لیے ضروری ہے تاکہ حکومتی امور میں کسی بھی ممکنہ رکاوٹ سے بچا جا سکے۔ اجلاس کے دوران نیب مقدمات سے متعلق بھی اہم موقف سامنے آیا۔ اسپیکرز اور چیئرمین سینیٹ نے متفقہ طور پر کہا کہ نیب مقدمات میں اسمبلیوں کے پرنسپل اکاؤنٹنگ افسران کو جوابدہ ہونا چاہیے، اسپیکرز اور ڈپٹی اسپیکرز کو ان مقدمات میں شامل کرنا مناسب نہیں ہے۔ ان کے مطابق اسپیکرز کا بنیادی کام ایوان کی کارروائی کی سربراہی ہے، انتظامی ذمہ داریوں میں انہیں ملوث کرنا غیر ضروری دباؤ پیدا کرتا ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز نے مزید مطالبہ کیا کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کی طرح ان کے اراکین اور ان کے اہل خانہ کو بھی بلیو پاسپورٹ جاری کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مطالبہ مساوی حقوق اور سہولتوں کی فراہمی کے اصولوں کے مطابق ہے۔ اس کے علاوہ اسپیکرز نے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تنخواہیں اور مراعات ہائی کورٹ کے جج کے برابر ہونی چاہئیں۔ مزید یہ کہ ان مراعات کو ٹیکس سے استثنیٰ بھی دیا جائے تاکہ وہ اپنے فرائض آزادانہ اور بغیر کسی مالی دباؤ کے انجام دے سکیں۔ اجلاس کے اختتام پر ان نکات کو ایوان میں مزید غور و فکر کے لیے پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ مناسب آئینی ترامیم اور قانون سازی کے ذریعے ان مطالبات کو ممکن بنایا جا سکے۔
سندھ حکومت نے دوران ملازمت انتقال کر جانے والے سرکاری ملازمین کے بچوں کے لیے ملازمت کا کوٹہ ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد سندھ کابینہ نے اس پالیسی کو ختم کرنے کی منظوری دے دی اور اس حوالے سے باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اب صوبہ سندھ میں "فوتی کوٹہ" کے تحت مزید بھرتیاں نہیں کی جائیں گی۔ اس پالیسی کے خاتمے سے سرکاری ملازمین کے بچوں یا شریک حیات کو سرکاری ملازمت دینے کی روایت کا اختتام ہو گیا ہے، جو کئی دہائیوں سے رائج تھی۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے حالیہ حکم کی روشنی میں کیا گیا، جس میں عدالت نے سرکاری ملازمین کے بچوں کے لیے مختص تمام پالیسیاں، پیکیجز اور کوٹے کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔ عدالت نے اکتوبر میں جنرل پوسٹ آفس (جی پی او) کی اپیل منظور کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کے 2021 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جسٹس نعیم افغان نے کیس کا 11 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے وزیر اعظم پیکیج فار ایمپلائمنٹ پالیسی، اس سے متعلقہ تمام دفاتر کے احکامات، اور سندھ سول سرونٹس رولز 1974 کے سیکشن 11۔اے کو بھی غیر قانونی قرار دے دیا۔ یہ پالیسی کا خاتمہ صرف سندھ تک محدود نہیں رہا بلکہ پنجاب حکومت بھی پہلے ہی دورانِ سروس وفات پانے والے سرکاری ملازمین کے بچوں کے لیے مختص ملازمت کے کوٹے کو ختم کر چکی ہے۔ پنجاب حکومت نے جولائی میں رول 17۔اے ختم کرتے ہوئے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس کے تحت سرکاری ملازم کے انتقال کی صورت میں ایک بیٹے، بیٹی یا بیوہ کو سرکاری ملازمت دی جاتی تھی۔ اس فیصلے سے بھی ہزاروں خاندان متاثر ہوئے جو سرکاری ملازمتوں کے منتظر تھے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دیگر صوبوں میں بھی اسی نوعیت کے اقدامات متوقع ہیں، جبکہ اس پالیسی کے خاتمے پر عوامی اور سیاسی حلقوں میں ملا جلا ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ کچھ حلقے اسے قانونی مساوات کے اصول کے تحت مثبت اقدام قرار دے رہے ہیں، جبکہ دیگر کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ایسے خاندانوں کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے جن کے معاشی حالات دوران ملازمت کفیل کے انتقال کے بعد مزید خراب ہو جاتے ہیں۔ یہ پالیسی ختم ہونے کے بعد یہ سوال اہم ہو گیا ہے کہ حکومت ایسے خاندانوں کے لیے متبادل امدادی نظام یا سماجی تحفظ کے منصوبے کب متعارف کرائے گی تاکہ متاثرہ خاندانوں کی مالی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔
پام آئل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود پاکستان میں برانڈڈ گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ صارفین کے لیے یہ صورتحال باعث تشویش ہے کیونکہ درآمدی لاگت میں کمی کے باوجود قیمتوں میں کوئی خاص کمی نہیں کی گئی۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، ایک ریٹیلر نے بتایا کہ برانڈڈ گھی اور کوکنگ آئل کی قیمت میں 80 روپے فی کلو اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد قیمت 570 روپے فی لیٹر تک جا پہنچی ہے۔ بعض معروف برانڈز کی قیمت میں یہ اضافہ 100 روپے فی کلو گرام تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پاکستان بناسپتی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پی وی ایم اے) کے چیئرمین شیخ عمر ریحان کے مطابق، عالمی منڈی میں پام آئل کی قیمتیں 1,285 ڈالر فی ٹن سے کم ہو کر 1,185 ڈالر تک آگئی ہیں، جس کے نتیجے میں مقامی مارکیٹ میں پام آئل کی قیمت 19,000 روپے سے کم ہو کر 16,500 روپے فی من ہو گئی ہے۔ شیخ عمر ریحان نے وضاحت کی کہ قیمتوں میں یہ کمی ابھی تک برانڈڈ گھی اور کوکنگ آئل کی قیمتوں میں مکمل طور پر ظاہر نہیں ہوئی کیونکہ بڑی کمپنیوں کو اپنی پرنٹنگ، ڈسٹری بیوشن اور مارکیٹنگ نیٹ ورکس کو ایڈجسٹ کرنے میں وقت لگتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ برانڈڈ آئٹمز کا مارکیٹ شیئر صرف 5 فیصد ہے، تاہم، توقع ہے کہ جلد ہی قیمتوں میں مزید کمی ہوگی۔ پاکستان سالانہ تقریباً 50 لاکھ ٹن گھی اور کوکنگ آئل استعمال کرتا ہے، جس میں سے 35 لاکھ ٹن پام آئل انڈونیشیا اور ملائیشیا سے درآمد کیا جاتا ہے۔ مالی سال 2024 کے ابتدائی 5 ماہ میں پاکستان نے 1.26 ارب ڈالر مالیت کا 13.19 لاکھ ٹن پام آئل درآمد کیا، جو گزشتہ سال اسی مدت میں 1.17 ارب ڈالر مالیت کے 12.48 لاکھ ٹن سے زیادہ ہے۔ شیخ عمر ریحان نے بتایا کہ پی وی ایم اے کے ایک وفد نے ملائیشیا کے قونصل جنرل ہرمن ہارڈیناٹا بن احمد سے ملاقات کی اور ملائیشیا کی حکومت سے درخواست کی کہ پاکستان کے لیے پام آئل پر ایکسپورٹ ڈیوٹی کم کی جائے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ایف ٹی اے) کے تحت 15 فیصد ڈیوٹی رعایت دیتا ہے، لیکن ملائیشیا نے اب تک پاکستان کی برآمدات پر اسی نوعیت کی رعایت نہیں دی۔ ملائیشین قونصل جنرل ہرمن ہارڈیناٹا نے یقین دہانی کرائی کہ پام آئل کی درآمدات کے حوالے سے تجاویز کا جائزہ لیا جائے گا اور پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔ انہوں نے اندرون سندھ میں پام آئل کی شجرکاری کے منصوبوں میں تعاون کی بھی یقین دہانی کرائی تاکہ پاکستان میں پام آئل کی صنعت کو فروغ دیا جا سکے۔
حال ہی میں امریکہ نے پاکستان کے چار اہم دفاعی اداروں پر پابندیاں عائد کر دی ہیں، جن پر الزام ہے کہ وہ پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی ترقی میں مددگار ثابت ہو رہے تھے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر کے مطابق ان اداروں نے بیلسٹک میزائلوں کی لانچنگ کے لیے استعمال ہونے والی خصوصی وہیکل چیسز کی تیاری میں حصہ لیا تھا۔ امریکی حکام کے مطابق پابندی کا سامنا کرنے والے اداروں میں اسلام آباد کا نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس (NDC) اور کراچی کے تین ادارے، اختر اینڈ سن، ایفیلی ایٹس انٹرنیشنل، اور روک سائیڈ انٹرپرائزز شامل ہیں۔ یہ ادارے پاکستان کی میزائل ٹیکنالوجی کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں، خاص طور پر نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس، جو وزارت دفاع کے تحت کام کرنے والا ایک اہم دفاعی ادارہ ہے۔ پاکستان نے ان پابندیوں پر سخت ردعمل دیتے ہوئے انہیں متعصبانہ اور امتیازی قرار دیا۔ وزارت خارجہ نے امریکی اقدام کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان اپنے دفاعی معاملات میں کسی بھی بیرونی دباؤ کو قبول نہیں کرے گا اور اپنے قومی مفادات کا تحفظ جاری رکھے گا۔ ضمیر اکرم کے مطابق یہ پابندیاں پاکستان کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ماضی میں بھی امریکہ نے سپارکو اور نیسکام جیسے اہم اداروں پر پابندیاں عائد کی تھیں، لیکن یہ پاکستان کے میزائل یا جوہری پروگرام کو روکنے میں ناکام رہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے عائد کردہ یہ پابندیاں صرف علامتی نوعیت کی ہیں کیونکہ پاکستان کا میزائل پروگرام کسی بھی طرح امریکی ٹیکنالوجی پر انحصار نہیں کرتا۔ سابق وزیر دفاع جنرل ریٹائرڈ نعیم لودھی نے ان پابندیوں کو سیاسی مقاصد پر مبنی قرار دیا۔ ان کے مطابق امریکہ کی یہ حکمت عملی عالمی سیاست میں اپنے اہداف حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی پابندیاں پاکستان کو متبادل ذرائع تلاش کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں اور ممکن ہے کہ یہ اقدام پاکستان کو مشرقی بلاک (چین اور روس) کی طرف مزید جھکا دے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے ماضی میں بھی عالمی پابندیوں کے باوجود ایٹمی پروگرام کو کامیابی سے مکمل کیا تھا، اور آج پاکستان کی جوہری اور میزائل ٹیکنالوجی دنیا کی بہترین ٹیکنالوجیز میں شمار ہوتی ہے۔ شیریں مزاری نے اس معاملے کو اسرائیل سے جوڑتے ہوئے کہا کہ یہ پابندیاں امریکہ کی اسرائیل نواز پالیسیوں کا حصہ ہیں، جن کا مقصد پاکستان پر دباؤ ڈالنا ہے تاکہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے اور اپنے میزائل پروگرام کو محدود کرے۔ انہوں نے امریکہ کے اس الزام کو مسترد کیا کہ پاکستان کے طویل فاصلے والے میزائل امریکہ کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ ولسن سینٹر میں ساؤتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل کوگل مین کے مطابق یہ پابندیاں ایک بڑی سفارتی پیش رفت ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ڈیولپمنٹ کمپلیکس کسی نجی کمپنی کے بجائے ایک سرکاری ادارہ ہے، اور اس پر پابندی عائد کرنا پاکستانی ریاست کو براہ راست نشانہ بنانے کے مترادف ہے۔ مزید یہ کہ امریکی محکمہ تجارت کے بیورو آف انڈسٹری اینڈ سکیورٹی نے اکتوبر 2024 میں بھی پاکستان کے میزائل پروگرام میں معاونت کرنے والی 16 کمپنیوں کو بلیک لسٹ میں شامل کیا تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکہ پاکستان کی دفاعی ترقی پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے اور اسے محدود کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں جب پاکستان کو امریکی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ ماضی میں بھی کئی بار امریکہ نے دفاعی اور جوہری اداروں پر پابندیاں لگائیں، جن میں سپارکو، نیسکام، اور دیگر اہم ادارے شامل ہیں۔ لیکن پاکستان نے ان پابندیوں کے باوجود اپنے جوہری پروگرام اور میزائل ٹیکنالوجی میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ ان پابندیوں سے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام پر کوئی بڑا فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ پروگرام پہلے ہی سے مکمل طور پر خود انحصاری پر مبنی ہے۔ تاہم یہ پابندیاں سفارتی سطح پر پاکستان کے لیے مشکلات ضرور پیدا کر سکتی ہیں، خاص طور پر جب امریکہ کی یہ کوشش ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی حکمت عملی پر نظرثانی کرے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرے۔ پاکستان کے لیے اب اہم چیلنج یہ ہے کہ وہ ان پابندیوں کے باوجود اپنی دفاعی ترقی جاری رکھے اور بین الاقوامی سطح پر اپنے مفادات کا تحفظ کرے۔ امریکہ کے ساتھ تعلقات کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی میں کس حد تک خود مختاری برقرار رکھتا ہے اور عالمی دباؤ کا مقابلہ کیسے کرتا ہے۔
پشاور میں خیبرپختونخوا کی اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ کُرم کے علاقے میں قیام امن کے لیے تمام بنکرز ختم کیے جائیں گے اور اسلحے کے خاتمے کے لیے مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔ اجلاس کی مشترکہ صدارت وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے کی، جس میں کور کمانڈر پشاور لیفٹیننٹ جنرل عمر بخاری اور آئی جی خیبرپختونخوا اختر حیات گنڈاپور سمیت اعلیٰ سول و عسکری حکام نے شرکت کی۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ کُرم میں پائیدار امن کے قیام کے لیے بنکرز کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ کمیٹی نے قرار دیا کہ اسلحے کی موجودگی اور بنکرز کی تعمیر مقامی امن کے لیے شدید خطرہ ہیں، جنہیں فوری طور پر ختم کرنا ضروری ہے۔ اس سلسلے میں امن کمیٹیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ جلد از جلد یہ عمل مکمل کریں۔ اپیکس کمیٹی نے کُرم کے قبائلی علاقوں میں امن و امان کے قیام کے لیے تمام فریقین سے اسلحہ جمع کرنے کا متفقہ فیصلہ کر لیا ہے۔ کمیٹی کے اجلاس میں یہ طے پایا کہ دونوں فریق حکومت کی ثالثی میں معاہدے پر دستخط کریں گے اور یکم فروری تک تمام اسلحہ انتظامیہ کے پاس جمع کرا دیا جائے گا۔ اجلاس کے فیصلے کے مطابق، دونوں فریقین رضاکارانہ طور پر اسلحہ جمع کرنے کے لیے 15 دنوں میں اپنا لائحہ عمل پیش کریں گے۔ اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ یکم فروری تک علاقے میں قائم تمام بنکرز مسمار کیے جائیں گے تاکہ خطے میں مستقل امن قائم کیا جا سکے۔۔ اجلاس میں کُرم کے عوام کو فوری طور پر ادویات اور دیگر ضروری اشیا کی بروقت فراہمی یقینی بنانے کا بھی اعلان کیا گیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے یقین دہانی کرائی کہ علاقے میں کسی قسم کی قلت یا انسانی بحران پیدا نہیں ہونے دیا جائے گا۔ امن و امان کے قیام کے لیے قائم گرینڈ جرگہ کے اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور کمیٹی کو صلح کے عمل کو تیز کرنے کی ہدایت دی گئی۔ اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ جرگہ سے مسلسل رابطے میں رہا جائے گا تاکہ امن کے قیام کو پائیدار اور مضبوط بنایا جا سکے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے وفاقی حکومت سے اپیل کی کہ صوبے میں امن و امان کے قیام کے لیے مزید مؤثر اقدامات کیے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں امن و امان کی بحالی حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اس کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے اجلاس کے دوران یقین دہانی کرائی کہ وفاقی حکومت خیبرپختونخوا میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی صلاحیت کو بڑھانے میں ہر ممکن تعاون فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ملک بھر میں امن و امان کی بحالی کے لیے پرعزم ہیں اور تمام سطحوں پر اقدامات جاری رہیں گے۔ اجلاس سے قبل وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کی ایوان وزیر اعلیٰ میں ملاقات بھی ہوئی، جہاں صوبے کی امن و امان کی صورتحال اور کُرم میں قیام امن کے لیے کیے جانے والے اقدامات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ نے وزیر داخلہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کی بھرپور حمایت پر شکریہ ادا کیا۔ محسن نقوی نے کہا کہ وفاقی حکومت خیبرپختونخوا میں امن کے قیام کے لیے صوبائی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرے گی اور کسی بھی صورت میں امن عامہ کو خراب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ اجلاس کے اختتام پر تمام شرکاء نے اس عزم کا اظہار کیا کہ کُرم میں پائیدار امن کے قیام کے لیے مشترکہ اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔
راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے جی ایچ کیو گیٹ حملہ کیس میں وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سینیٹر شبلی فراز سمیت مزید 14 ملزمان پر فرد جرم عائد کردی۔ ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا جس کے بعد سماعت 21 دسمبر تک ملتوی کردی گئی۔ جمعرات کو انسداد دہشت گردی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں کیس کی سماعت کی۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان، علی امین گنڈا پور، شبلی فراز، شاہ محمود قریشی، شہریار آفریدی سمیت درجنوں ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔ سماعت کے دوران عدالت نے اہم فیصلے کرتے ہوئے تمام پیش ہونے والے ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی۔ ان ملزمان میں علی امین گنڈا پور، شبلی فراز، شاہ محمود قریشی، شہریار آفریدی، کنول شوذب، شبیراعوان، لطاسب ستی، عمر تنویر بٹ، تیمور مسعود ملک، سعد علی خان، سکندر زیب، فہد مسعود، زوہیب آفریدی اور راجہ ناصر محفوظ شامل ہیں۔ عدالت نے تمام ملزمان کی جانب سے صحت جرم سے انکار کے بعد کیس کی مزید سماعت 21 دسمبر تک ملتوی کردی۔ یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت نے 16 دسمبر کو شیریں مزاری سمیت مزید 9 ملزمان پر بھی فرد جرم عائد کی تھی۔ ان میں راجا راشد حفیظ، خادم حسین، ذاکر اللہ، عظیم اللہ خان، میجر طاہر صادق، مہر محمد جاوید، اور چوہدری آصف شامل تھے۔ یہ کیس 9 مئی 2023 کے ان واقعات سے متعلق ہے جب القادر ٹرسٹ کیس میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک گیر احتجاج شروع ہوا تھا۔ لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بھی 9 مئی جلاؤ گھیراؤ کے 4 مقدمات میں شاہ محمود قریشی، عمر سرفراز چیمہ اور دیگر کے خلاف جیل ٹرائل کی سماعت کی۔ عدالت نے کوٹ لکھپت جیل میں مقدمات کی سماعت کرتے ہوئے کارروائی 12 جنوری تک ملتوی کردی۔

Back
Top