خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے دیہی خواتین کی معاشی خودمختاری اور فلاح و بہبود کے لیے ایک بڑا قدم اٹھاتے ہوئے انہیں مفت گائے اور بھینسیں فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد دیہی خواتین کو باعزت روزگار فراہم کرنا اور ان کی معیشت کو مضبوط بنانا ہے۔ مریم نواز نے کہا کہ پنجاب کی "دھی رانیوں" کے لیے یہ پیکج تاریخی نوعیت کا ہے، جس کے تحت 12 اضلاع کی 11 ہزار دیہی خواتین کو 2 ارب روپے کی لاگت سے گائے اور بھینسیں دی جائیں گی۔ یہ اقدام ان خواتین کو نہ صرف روزگار کے مواقع فراہم کرے گا بلکہ پنجاب کے لائیواسٹاک سیکٹر کو بھی تقویت دے گا۔ منصوبے کے تحت ملتان، خانیوال، لودھراں، وہاڑی، بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، لیہ، مظفر گڑھ، راجن پور، اور کوٹ ادو کی دیہی خواتین کو مفت گائے اور بھینسیں دی جائیں گی۔ مریم نواز نے مزید کہا کہ سی ایم لائیو اسٹاک کارڈ کے ذریعے 80 ہزار مویشی پال فارمرز کو 27 ہزار روپے فی جانور بلا سود قرض فراہم کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ، رجسٹرڈ ڈیلرز سے 2 لاکھ 70 ہزار روپے تک ونڈا، منرل مکسچر، اور سائلج خریدنے کی سہولت بھی دی جائے گی، جو چار ماہ کی مساوی اقساط میں بلاسود ادا کی جا سکے گی۔ لائیواسٹاک کارڈ کے ذریعے چار لاکھ جانور میٹ ایکسپورٹ کے لیے تیار کیے جائیں گے۔ مویشیوں کی دیکھ بھال اور نگرانی کے لیے اینیمل آئیڈنٹیٹی ٹریس ایبلٹی سسٹم نافذ کیا گیا ہے، اور فارمرز کے لیے ایک ہیلپ لائن بھی فعال کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، آن لائن رجسٹریشن کی سہولت بھی دستیاب ہوگی۔ یہ منصوبہ دیہی خواتین کو مالی خودمختاری دینے کے ساتھ پنجاب کی معیشت کو بھی فروغ دے گا۔ پنجاب میں لائیواسٹاک سیکٹر کی ترقی نہ صرف دیہی علاقوں کے لیے بلکہ صوبے کی مجموعی معیشت کے لیے بھی ایک اہم سنگ میل ثابت ہوگی۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) گوجرانوالہ زون نے انسانی اسمگلنگ کے خلاف بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے جعلی ویزے بنانے والی فیکٹری پر چھاپہ مارا اور دو ملزمان کو گرفتار کر لیا۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق، یہ کارروائی شادمان کالونی میں خفیہ اطلاع پر کی گئی، جہاں جعلی ویزے اور دیگر سفری دستاویزات بنانے کا نیٹ ورک چلایا جا رہا تھا۔ گرفتار ملزمان کی شناخت ضیاالرحمٰن اور اعجاز احمد کے نام سے ہوئی ہے، جو ملک کے مختلف علاقوں میں ایجنٹس کے ذریعے شہریوں کو جعلی ویزے فراہم کرتے تھے۔ ترجمان ایف آئی اے کے مطابق، ملزمان جعلی پاسپورٹ، ویزا اسٹیکرز، اور دیگر سفری دستاویزات کی تیاری اور فروخت میں ملوث تھے۔ ان کے قبضے سے بڑی تعداد میں جعلی ویزا اسٹیکرز برآمد کیے گئے جن میں یورپ کے 96، چین کے 18، برطانیہ کے 41، امریکا کے 12 اور دیگر ممالک جیسے برازیل، انڈونیشیا، ترکیہ، سربیا، یونان، سویڈن، مالٹا، کروشیا، اسپین، پرتگال اور یو اے ای کے جعلی ویزا اسٹیکرز شامل ہیں۔ چھاپے کے دوران ملزمان سے 20 پاکستانی اور 31 غیر ملکی پاسپورٹ، 95 جعلی اسٹامپس، جعلی رہائشی کارڈز، بینک ڈپازٹ سلپس، امیگریشن اسٹامپس، لیمینیشن مشینیں اور دیگر سامان بھی برآمد ہوا۔ مزید برآمد ہونے والی اشیاء میں چیمبر آف کامرس کے جعلی کارڈز، اسٹوڈنٹ کارڈز، موبائل فونز، اور جعلی دستاویزات بنانے میں استعمال ہونے والی مشینیں شامل ہیں۔ ایف آئی اے کے مطابق، گرفتار ملزمان ایک منظم نیٹ ورک کا حصہ ہیں جو مختلف ایجنٹس کے ساتھ مل کر انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہے۔ یہ نیٹ ورک سادہ لوح شہریوں کو بھاری رقوم کے عوض جعلی سفری دستاویزات فراہم کرکے دھوکہ دیتا تھا۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے گوجرانوالہ زون عبدالقادر قمر نے چھاپہ مار ٹیم کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے کہا کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔ انہوں نے کہا کہ انٹیلی جنس بنیادوں پر منظم گینگز کے خلاف کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے اور دیگر ملزمان کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔ ڈائریکٹر نے مزید کہا کہ کسی کو بھی معصوم شہریوں کی زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ٹھوس شواہد کی بنیاد پر گرفتار ملزمان کو قرار واقعی سزائیں دلوائی جائیں گی۔ ایف آئی اے نے گرفتار ملزمان کے خلاف تفتیش کا آغاز کر دیا ہے اور مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے جاری ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما عاطف خان نے ایک ٹویٹ میں ٹرمپ کے خود ساختہ ترجمان ساجد تارڑ کے دعوؤں پر سوال اٹھایا، جن میں وہ خود کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشیر کہتے ہیں۔ عاطف خان نے امریکی سفیر رچرڈ گرنیل کو ٹیگ کرتے ہوئے حقیقت معلوم کرنے کی درخواست کی۔ عاطف خان نے رچرڈ گرنیل سے سوال کیا کہ ساجد سالوں سے جھوٹا دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ صدر ٹرمپ کے مشیر ہیں۔ پاکستان کے انتخابات کے قریب، انہوں نے مرکزی دھارے کے میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے یہ بیانیہ پھیلایا کہ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ عمران خان یا پاکستان کو ترجیح نہیں دے گی، اور اس طرح پاکستانی امریکیوں کو ریپبلکنز کو ووٹ دینے سے روکنے کی کوشش کی۔ آج کے ایک مرکزی ٹی وی پروگرام میں، پاکستان میں اپنے آقاؤں کو خوش کرنے کے لیے انہوں نے دعویٰ کیا کہ سفیر رچرڈ گرنیل کا ٹرمپ انتظامیہ میں کوئی بڑا عہدہ نہیں ہے اور یہ بھی کہا کہ دیگر لوگوں کی طرح انہیں بھی لابیسٹ کے ذریعے متاثر کیا گیا ہے۔ حقیقت واضح کرنے کے لیے، میں نے ریپبلکن نیشنل کمیٹی کے ایک سینئر عہدیدار سے براہ راست تصدیق کی کہ نہ صرف وہ کبھی صدر ٹرمپ کے مشیر نہیں رہے، بلکہ انہیں اعلیٰ سطحی ریپبلکن تقریبات میں شرکت کی اجازت بھی نہیں ہے۔ رچرڈ گرنیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ساجد تارڑ جھوٹے ہیں اور ان کے دعوے آسانی سے جانچے جا سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ آخری بار ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کب تھے، یہ بھی واضح نہیں۔ رچرڈ گرنیل نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ یہ آدمی جھوٹا ہے۔ وہ آخری بار ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اور مار-اے-لاگو میں کب تھا؟ ان دھوکے بازوں کو چیک کرنا آسان ہے۔
یونان کشتی حادثے میں ایف آئی اے کے 31 افسران اور اہلکاروں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایف آئی اے نے یونان کشتی حادثے کی تحقیقات کے دوران 31 اہلکاروں کو مشتبہ قرار دے دیا ہے۔ مشتبہ اہلکاروں کے نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ان افسران میں فیصل آباد ایئرپورٹ کے 19، سیالکوٹ ایئرپورٹ کے 3 اور لاہور ایئرپورٹ کے 2 افسران شامل ہیں۔ اسلام آباد ایئرپورٹ کے 2 اور کوئٹہ ایئرپورٹ کے 5 افسران بھی مشتبہ ہیں۔ تمام 31 افسران یونان کشتی حادثے میں لوگوں کو بیرون ملک بھجوانے میں ملوث پائے گئے ہیں۔
پاکستان کے تیل اور گیس کے شعبے میں غیر یقینی صورتحال کے باعث کویت کی کمپنی کویت فارن پیٹرولیم ایکسپلوریشن کمپنی (KUFPEC) نے اپنی سرمایہ کاری نکالنے کا آغاز کر دیا ہے۔ کویت فارن پیٹرولیم ایکسپلوریشن کمپنی (KUFPEC)، جو پاکستان میں تیل اور گیس کے ذخائر کی تلاش میں مصروف تھی، نے اپنی سرمایہ کاری نکالنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ کمپنی نے اپنے اثاثے پاکستان ایکسپلوریشن لمیٹڈ کو تقریباً 6 کروڑ ڈالر میں فروخت کر دیے ہیں۔ وزارت توانائی کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق، غیر ملکی کمپنیوں کے اس فیصلے کی بنیادی وجہ گیس کے شعبے میں بڑھتا ہوا سرکلر ڈیٹ ہے، جو اس وقت 2700 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ سرکلر ڈیٹ کے مسئلے نے غیر ملکی سرمایہ کاروں میں مایوسی پیدا کر دی ہے، جبکہ 2012 کی ای اینڈ پی (Exploration & Production) پالیسی میں ترامیم کی منظوری میں 12 ماہ کی تاخیر نے بھی اس فیصلے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ کویتی کمپنی نے پاکستان میں مختلف بلاکس میں اپنی سرمایہ کاری فروخت کرنے کے بعد ان فنڈز کو دوسرے ممالک میں منتقل کرنے کی حکمت عملی اپنائی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ گیس کے شعبے میں بڑھتے ہوئے مسائل، پالیسیز میں تاخیر اور حکومتی اقدامات کی کمی کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاروں کا اعتماد متاثر ہو رہا ہے۔ کویتی کمپنی کے اس فیصلے نے دیگر غیر ملکی کمپنیوں کے لیے بھی ایک مثال قائم کی ہے، جو ممکنہ طور پر اپنی سرمایہ کاری پر نظرثانی کر سکتی ہیں۔
کُرم میں قیامِ امن کے لیے گرینڈ جرگے میں فریقین کے درمیان معاہدہ طے پا گیا۔ کُرم میں قیامِ امن کے لیے فریقین نے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں، معاہدے کے متن کے مطابق کُرم میں اسلحہ استعمال کرنے والے فریق پر جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ 2008 میں طے مری معاہدے پر عمل کیا جائے گا، معاہدے کے تحت فریقین کو اسلحہ جمع کرانا پڑے گا، واضح رہے کہ کُرم میں امن و امان کے قیام کے لیے 3 ہفتوں سے جرگہ جاری تھا۔ یاد رہے کہ جرگہ ممبران کی تعداد مکمل نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ روز معاہدے پر دستخط نہیں ہو سکے تھے۔ اب دونوں فریقین معاہدے کے نکات پر متفق ہو گئے ہیں۔
کراچی: کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں 2017 میں بجلی کے کھمبے سے کرنٹ لگنے سے جان کی بازی ہارنے والے کمسن اذہان کے والدین کو چھ سال بعد انصاف مل گیا۔ والد خلیق الدین صدیقی نے عدالت کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ہرجانے کی رقم جماعت اسلامی کے فلاحی ادارے، الخدمت کو عطیہ کرنے کا اعلان کیا، اور اس طرح ایک منفرد روایت قائم کی۔ آٹھ سالہ اذہان کے والد نے مظلوموں کو پیغام دیا کہ وہ ظلم کے خلاف لڑتے رہیں اور کبھی ہمت نہ ہاریں۔ تفصیلات کے مطابق، 23 اگست 2017 کو کراچی کی ماڈل کالونی میں تیز بارش کے دوران کرنٹ والے کھمبے نے آٹھ سالہ اذہان کی جان لے لی۔ اذہان کے والد، خلیق الدین صدیقی نے 2018 میں اس واقعے پر دو مقدمات دائر کیے تھے، جس کے بعد 24 دسمبر 2018 کو کراچی کی مقامی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کے الیکٹرک کے خلاف ہرجانے کا حکم دیا۔ عدالت نے کے الیکٹرک کو حکم دیا کہ وہ اذہان کے لواحقین کو 48 لاکھ 19 ہزار روپے کا ہرجانہ ادا کرے۔ خلیق الدین صدیقی نے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ 21 سال سے دبئی میں مقیم تھے اور بچوں کی تعلیم بھی وہاں تھی۔ 2017 میں عید کی چھٹیاں گزارنے پاکستان آئے تھے، جہاں اذہان کا حادثہ پیش آیا۔ انہوں نے بتایا کہ بارش کے دوران اذہان کو کرنٹ لگ گیا اور وہ جان کی بازی ہار گیا۔ "میرا بچہ عید کے قریب ہی دنیا سے چلا گیا، اور میں اس حادثے کے بعد سے تقریباً ساڑھے سات سال سے انصاف کے لیے لڑ رہا تھا۔" خلیق الدین صدیقی نے مزید کہا کہ وہ بہت خوش ہیں کہ عدلیہ نے انصاف فراہم کیا، اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ فیصلہ تحریری طور پر بھی انہیں دیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ "کے الیکٹرک کی طرف سے 44 شکایات کے باوجود کسی نے نہیں سنا، مگر میرے بچے کی موت کے آدھے گھنٹے بعد وہاں گاڑی پہنچی اور مسئلہ حل کر دیا۔ کیا کسی کی جان جانے کے بعد ہی کام کیا جائے گا؟ کیا کسی کی موت ضروری ہے تاکہ کام شروع کیا جائے؟" خلیق الدین نے اذہان کے آخری الفاظ یاد کرتے ہوئے کہا کہ "جب میں دبئی جا رہا تھا تو اذہان نے کہا تھا، 'بابا مجھے چھوڑ کر مت جائیں، مجھے سوٹ کیس میں چھپ کر لے جائیں'۔ اگر مجھے پتہ ہوتا کہ اذہان شہید ہو جائے گا، تو میں اسے اپنے ساتھ لے آتا، لیکن میں اس وقت اس بات کو سمجھ نہ سکا۔" انہوں نے کہا کہ اس حادثے کے بعد ان کی بیوی شدید صدمے میں مبتلا ہو گئی تھی، اور وہ ڈیڑھ سال تک اپنے دوسرے بچوں کی دیکھ بھال کرتے رہے۔ "اگرچہ میری اہلیہ کو میری سب سے زیادہ ضرورت تھی، مگر اس وقت میں ان کے ساتھ نہیں تھا۔" اذہان کے بڑے بھائی دانیال صدیقی نے بھی اذہان کی یادیں تازہ کیں اور بتایا کہ اذہان کو جانوروں سے بہت محبت تھی، اور وہ عید پر ان کے ساتھ وقت گزارنے کے لیے پاکستان آیا تھا۔ "اب جب بھی بارش ہوتی ہے، ہماری والدہ باہر نہیں جانے دیتی ہیں، کیونکہ وہ اذہان کو یاد کرتی ہیں۔"
پشاور: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے ملٹری کورٹ سے سویلین کو سزائیں دینے کے خلاف پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرنے کا اعلان کردیا۔ پارٹی کے رہنما علی زمان ایڈوکیٹ نے کہا کہ انصاف لائر فورم پشاور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرے گی، ملٹری کورٹ میں ورکروں کو سزائیں غلط دی گئیں ہیں، وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے کہنے پر رٹ دائر کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان فیصلوں کو کالعدم قرار دیا جائے گا اور سزا پانے والے جلد رہا ہوں گے، جیلوں میں قید تمام قائدین اور کارکنان کی جلد رہائی کے لئے قوم سے دعائیں کرنے کی اپیل ہے۔ پشاور: انصاف لائر فورم پشاور، اسلام آباد اور پنجاب میں بھی رٹ دائر کریں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ دنوں فوجی عدالتوں کی جانب سے 9 مئی 2023 کے پرتشدد واقعات میں ملوث 85 افراد کو سزائیں سنائی گئی تھیں، ان سزا یافتہ افراد پر گزشتہ سال عمران خان کی گرفتاری کے بعد احتجاج، توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ کے مقدمات درج کیے گئے تھے۔
وفاقی کابینہ نے پاکستانی شہریت کے قوانین میں اہم ترامیم کی منظوری دیتے ہوئے ملک میں کم از کم پانچ سال قیام کو شہریت کے حصول کے لیے لازمی قرار دے دیا ہے۔ یہ فیصلہ وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں کیا گیا، جہاں ملک میں شہریت اور پاسپورٹ سے متعلق قوانین میں تبدیلیاں زیر غور آئیں۔ اجلاس کے دوران کابینہ نے فیصلہ کیا کہ بیرون ملک جا کر بھیک مانگنے والے افراد کے پاسپورٹ ضبط کیے جائیں گے اور ان پر بھاری جرمانے بھی عائد کیے جائیں گے۔ یہ اقدام قومی وقار کو تحفظ دینے اور غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وفاقی کابینہ نے شہریت کے لیے پاکستان میں قیام کی مدت کے حوالے سے واضح قانون متعارف کرایا ہے۔ نئے فیصلے کے تحت پاکستان میں بطور مہاجر یا سفارت کار قیام کی مدت شہریت کے لیے قابل قبول نہیں ہوگی۔ یہ ترامیم خصوصاً ان افغان خواتین کی پاکستانی مردوں سے شادیوں کے قانونی اثرات کے تناظر میں کی گئی ہیں، جن کے حوالے سے قانونی پیچیدگیاں پیدا ہو رہی تھیں۔
فیصل امین گنڈا پور نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے خیبر پختونخوا کی حکومت کی گورننس پر کیے گئے تبصروں کو بلا جواز اور حقیقت کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت نے کئی چیلنجز کے باوجود شاندار کامیابیاں حاصل کی ہیں اور عوامی خدمت کے مختلف شعبوں میں مثالی کام کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کا بجٹ 103 ارب روپے کے سرپلس کے ساتھ مکمل ہوا، جو آئی ایم ایف کے مقرر کردہ 45 ارب روپے کے ہدف سے دو گنا سے زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ، مالی سال کے پہلے نصف میں صوبے نے اپنے بجٹ اہداف کا 75 فیصد حاصل کر لیا، جو مستحکم مالیاتی نظم و نسق کی عکاسی کرتا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ خیبر پختونخوا حکومت کے پاس اس وقت 150 سے 200 ارب روپے کی نقد رقم موجود ہے، جو صوبے کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ فیصل امین گنڈا پور نے عوامی خدمت کے حوالے سے کہا کہ صحت کارڈ پروگرام کے تحت 30.3 ارب روپے خرچ کیے گئے ہیں، جس سے لاکھوں افراد کو مفت صحت کی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے فنڈز کا اجرا بھی تاریخی سطح پر ہے، جس سے مختلف علاقوں میں تعمیر و ترقی کے منصوبے مکمل ہو رہے ہیں۔ انہوں نے وفاقی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے خیبر پختونخوا کے 1500 ارب روپے غیر قانونی طور پر روک رکھے ہیں، جس کی وجہ سے صوبے کو مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود، خیبر پختونخوا حکومت نے ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی منصوبے اپنے وسائل سے جاری رکھے ہیں، حالانکہ وفاقی حکومت نے ضم شدہ اضلاع کے لیے مختص 8.6 ارب روپے میں سے ایک روپیہ بھی جاری نہیں کیا۔ کرم کے حالیہ بحران پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ بنیادی طور پر زمین کے تنازعات کا نتیجہ ہے، جسے بعض عناصر فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے فوری اقدامات کرتے ہوئے اسپتالوں کو 12.8 ٹن ادویات فراہم کیں، اور ہیلی کاپٹرز کے ذریعے سینکڑوں مریضوں کو وہاں سے نکالا گیا۔ مزید برآں، حکومت نے مقامی عوام کے لیے 2000 میٹرک ٹن سبسڈائزڈ گندم فراہم کی تاکہ بحران کی شدت کو کم کیا جا سکے۔ انہوں نے خیبر پختونخوا میں شہداء کے لیے کیے جانے والے اقدامات کو بھی نمایاں کیا۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا واحد صوبہ ہے جو نہ صرف پولیس بلکہ تمام سیکیورٹی فورسز کے شہداء کے لیے خصوصی پیکجز فراہم کرتا ہے۔ ان پیکجز میں شہداء کے بچوں کو ملازمتیں، شہداء کے خاندانوں کو مفت پلاٹ، اور مالی معاونت شامل ہیں۔ فیصل امین گنڈا پور نے دیگر صوبوں سے سوال کیا کہ کیا کوئی اور صوبہ، جو خیبر پختونخوا سے زیادہ وسائل رکھتا ہے، ان اقدامات کی برابری کر سکتا ہے؟ انہوں نے اپنے بیان کے آخر میں طنزیہ انداز میں سوال کیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر خیبر پختونخوا حکومت کی کارکردگی پر تنقید کرتے ہیں، لیکن کیا وہ اپنے پسندیدہ ٹک ٹاکر وزیر اعلیٰ پنجاب کی ناقص کارکردگی پر تبصرہ کرنا پسند کریں گے؟
ڈی جی آئی ایس پی آر کا دہشت گردی کے حوالے سے حالیہ بیان نہ صرف حقائق کے برعکس بلکہ گمراہ کن ہے۔ عمران خان اور ان کی کابینہ نے کبھی افغانستان سے تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی واپسی اور آبادکاری کے حوالے سے کسی پالیسی کی منظوری نہیں دی۔ مراد سعید نےڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کو حقائق کے منافی قرار دے دیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیان کے جواب میں مراد سعید نے اپنے تفصیلی بیان میں کہا کہ ''ڈی جی آئی ایس پی آر کا دہشت گردی کے حوالے سے حالیہ بیان نہ صرف حقائق کے برعکس بلکہ گمراہ کن ہے۔ عمران خان اور ان کی کابینہ نے کبھی افغانستان سے تحریک طالبان پاکستان کی واپسی اور آبادکاری کے حوالے سے کسی پالیسی کی منظوری نہیں دی۔ مراد سعید نے مزید کہا کہ یکم جولائی 2021 کو امریکہ کے افغانستان سے انخلا سے قبل عسکری قیادت نے پارلیمان کو تین نکات پر بریفنگ دی، جن میں امریکی انخلاء کے پاکستان کے امن و امان پر اثرات، خطے میں طاقت کے توازن کے معاملات، اور عالمی سطح پر طاقت کی سیاست کے ممکنہ اثرات شامل تھے۔ اکتوبر 2021 میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے اگلے روز عسکری قیادت ایک پانچ نکاتی پلان منظوری کے لیے وزیراعظم عمران خان کے پاس لے کر آئی۔ اس پلان کا عنوان تو مذاکرات کا طریقہ کار تھا، مگر اس کے نکات طالبان کی واپسی سے متعلق تھے۔ مراد سعید کے مطابق کابینہ کے کئی اراکین، بشمول میرے، نے اس منصوبے پر اعتراضات اٹھائے، لیکن عسکری قیادت ان اعتراضات کا کوئی تسلی بخش جواب دینے میں ناکام رہی اور منصوبے کی فوری منظوری پر اصرار کیا گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے ایسے کسی بھی پلان کی منظوری دینے سے انکار کیا جس سے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کابینہ کے اجلاس میں موجود تمام وزراء گواہ ہیں کہ میں نے عسکری قیادت کے منصوبے پر سوالات اٹھائے اور جن خدشات کا اظہار کیا، وہ بعد میں درست ثابت ہوئے۔ رجیم چینج کے بعد جون 2022 میں پی ڈی ایم حکومت کی منظوری سے پہلا وفد افغانستان بھیجا گیا، جس سے سب کو لاعلم رکھا گیا۔ مراد سعید نے مزید کہا کہ جب دہشت گردی کی واپسی کے متعلق میں نے سوالات اٹھائے تو حکومت اور آئی ایس پی آر نے ایسی کسی پیش رفت سے لاعلمی کا اظہار کیا اور مجھ پر پراپیگنڈہ کرنے کا الزام لگایا۔ اس کے بعد پہلے دبے لفظوں میں اور پھر کھلے عام مجھے دھمکیاں دی گئیں۔ ریاستی اداروں کی نیت بھانپتے ہوئے، میں نے عوام سے رجوع کیا اور ایک پرامن تحریک کے ذریعے اپنے علاقوں کو ان عناصر سے خالی کرایا۔ تاہم مجھے بتایا گیا کہ یہ انخلا عارضی تھا اور حالات بہتر ہونے سے پہلے میرے خلاف اقدامات کیے جائیں گے۔ مراد سعید کے مطابق حقائق یہی ہیں کہ عمران خان کے دور میں نہ کوئی ڈرون حملہ ہوا، نہ دہشت گرد آئے، اور نہ ہی کسی غلط پالیسی کی منظوری دے کر قوم کو نئی جنگ کا ایندھن بنایا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے آج پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا 2021 میں کس کی ضد تھی کہ بات چیت کرکے ان کو سیٹیل کیا جائے، بات چیت کی اس ضد کی قیمت خیبرپختونخوا ادا کر رہا ہے، بجائے اس پر بیانیہ بنانے کے خیبرپختونخوا میں گڈ گورننس پر توجہ دیں، ایسے ہر مسئلہ کا حل بات چیت سے ہوتا تو دنیا میں جنگ اور غزاوت نہ ہوتے، ایسے رویے کی قیمت پوری قوم دیتی ہے، بجائے اس پر بیانہ بنائیں، سیاسیت کریں، گڈ گورننس کیوں نہ کریں، انہوں نے کیونکہ گڈ گورننس پر توجہ نہیں دینی اس لیے اس پر سیاسیت کرنی ہے۔
اُس وقت کی فوجی قیادت نے ہمیں دہشت گردوں کو معاشرے میں شامل کرنے کو ان کی اصلاح کے لیے بہترین حل کے طور پر پیش کیا تھا- ٹی ٹی پی سے مذاکرات سے متعلق ڈی جی آئی ایس پی آر کے سوال پر مونس الہی اور سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان بھی بول پڑے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے آج پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا 2021 میں کس کی ضد تھی کہ بات چیت کرکے ان کو سیٹیل کیا جائے، بات چیت کی اس ضد کی قیمت خیبرپختونخوا ادا کر رہا ہے، بجائے اس پر بیانیہ بنانے کے خیبرپختونخوا میں گڈ گورننس پر توجہ دیں، ایسے ہر مسئلہ کا حل بات چیت سے ہوتا تو دنیا میں جنگ اور غزاوت نہ ہوتے، ایسے رویے کی قیمت پوری قوم دیتی ہے، بجائے اس پر بیانہ بنائیں، سیاسیت کریں، گڈ گورننس کیوں نہ کریں، انہوں نے کیونکہ گڈ گورننس پر توجہ نہیں دینی اس لیے اس پر سیاسیت کرنی ہے۔ مونس الہی نے ڈی جی آئی ایس پی آر کے دعوے پر ان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر صاحب، میں پارلیمنٹ میں موجود تھا جب اُس وقت کی فوجی قیادت نے ہمیں خطاب کیا اور ایک تفصیلی پریزنٹیشن دی، جس میں دہشت گردوں کو معاشرے میں شامل کرنے کو ان کی اصلاح کے لیے بہترین حل کے طور پر پیش کیا گیا۔ پی ڈی ایم کے موجودہ کئی اراکینِ اسمبلی بھی وہاں موجود تھے۔ خالد خورشید خان نے کہا بالکل درست، میں بھی وہاں موجود تھا۔ پارلیمنٹ میں دو اجلاس ہوئے، ایک اس وقت جب تحریک انصاف حکومت میں تھی اور دوسرا اس وقت جب شہباز شریف وزیرِاعظم تھے۔ بطور وزیرِاعلیٰ گلگت بلتستان میں نے دونوں اجلاسوں میں شرکت کی۔ اظہر مشوانی نے پاکستان میں ٹی ٹی پی کی واپسی سے متعلق اپنے تفصیلی ٹویٹ میں کہا یہ عمل رجیم چینج کے بعد 2022 کی گرمیوں میں شروع ہوا اور یہ عمران خان کا نہیں بلکہ جنرل باجوہ کا منصوبہ تھا۔ اکتوبر 2021 میں وزیرِاعظم عمران خان کی زیرِ صدارت ایک میٹنگ میں جنرل باجوہ نے یہ تجویز پیش کی، جس پر مراد سعید، شیریں مزاری، اور پیر نورالحق قادری نے کھل کر مخالفت کی۔ بعد ازاں خیبر پختونخوا کے اراکینِ قومی اسمبلی نے بھی بریفنگ کے دوران اس منصوبے کی مخالفت کی، جس کے باعث یہ معاملہ وقتی طور پر رک گیا۔ رجیم چینج کے بعد جون 2022 میں ایک وفد افغانستان بھیجا گیا۔ اس پر مراد سعید نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ خیبر پختونخوا حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر یہ وفد کیسے بھیجا گیا۔ جولائی 2022 میں مالاکنڈ اور سوات کے علاقوں میں تحریک طالبان پاکستان (TTP) کے لوگ نظر آنے لگے، جس پر مراد سعید نے عوامی امن تحریک شروع کی اور انہیں واپس جانے پر مجبور کیا۔ اس وقت کے وزیرِداخلہ نے دعویٰ کیا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور کوئی طالبان سوات میں نہیں آئے۔ ان واقعات کے بعد مراد سعید کو اسٹیبلشمنٹ اور TTP کی ہٹ لسٹ پر رکھ دیا گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کو عمران خان پر الزام لگانے کی بجائے ادارے کے ریکارڈ کا جائزہ لینا چاہیے تاکہ حقائق سامنے آ سکیں۔ رضی طاہر نے کہا مئی 2022 میں تحریک انصاف کی حکومت نہیں تھی لیکن باجوہ اور فیض ڈاکٹرائن جاری تھی، جسے پارلیمنٹیرینز نے مسترد کیا۔ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پہلا سیز فائر معائدہ پی ٹی آئی کی حکومت جانے کے ایک ماہ بعد ہوا۔ اب اس سیز فائر کا جواب کس سے لینا ہے؟ پھر نومبر 2022 تک یہ سیز فائر رہا، اسی دوران مراد سعید نے الزام عائد کیا تھا کہ سوات میں دہشتگرد واپس آرہے ہیں۔ کڑیوں سے کڑیاں ملائیں۔ حقیقت کھل جائے گی۔ اس سیز فائر معاہدے کا ہونا شیریں مزاری کے دعوے کو درست قرار دیتا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے ٹی ٹی پی کی دوبارہ آبادکاری سے اختلاف کیا تھا اور پھر ہماری حکومت چلی گئی محمد عمیر نے کہا ٹی ٹی پی کی واپسی پی ڈی ایم دور میں جاری رہی، باجوہ، فیض بریفنگ دیتے رہے۔ اپنے ادارے کی اصلاح اور غلطیاں تسلیم کرنے کی بجائے ایسے شخص پر الزامات لگائے جارہے جس کے نام پر بھی پابندی ہے۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے ذمہ دار یحیی خان کو سرکاری پروٹوکول میں دفنایا گیا اور قوم کا ہیرو ایم ایم عالم جبری طور ادارے سے نکالا گیا۔ ڈی جی صاحب اپکا ادارہ ٹھیک ہونے تک کچھ ٹھیک نہیں ہوگا یہی حقیقیت ہے یہی سچ ہے
پاکستان میں وفاقی ریاستی ملکیتی سرکاری اداروں کی ششماہی کارکردگی رپورٹ کے مطابق جولائی تا دسمبر 2023 کے دوران ان اداروں نے 147 ارب روپے کے نقصانات کیے، جبکہ 2014 سے 2023 تک یہ نقصانات مجموعی طور پر 5900 ارب روپے تک پہنچ گئے ہیں۔ خسارے پر قابو پانے کے لیے حکومت نے ان چھ ماہ میں 436 ارب روپے کی مالی مدد فراہم کی۔ اس دوران سرکاری اداروں نے 45 فیصد اضافے کے ساتھ 510 ارب روپے کا مجموعی منافع حاصل کیا، جس میں سے 249 ارب روپے کا منافع پاکستان ساورن ویلتھ فنڈ میں شامل اداروں کا تھا۔ منافع کمانے والے بڑے اداروں میں او جی ڈی سی ایل نے سب سے زیادہ 113.2 ارب روپے کمائے، پی پی ایل نے 68.7 ارب اور نیشنل پاور پارکس مینجمنٹ نے 36.2 ارب روپے کا منافع حاصل کیا۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں نے چھ ماہ کے دوران مجموعی طور پر 408 ارب روپے کے نقصانات کیے۔ ان میں این ایچ اے 151.3 ارب روپے کے نقصان کے ساتھ سب سے نمایاں رہا، جبکہ کوئٹہ الیکٹرک کمپنی نے 56.2 ارب اور پی آئی اے نے 51.7 ارب روپے کا نقصان کیا۔ دیگر خسارے میں جانے والے اداروں میں پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی 39 ارب، پاکستان ریلویز 23.6 ارب، سکھر الیکٹرک پاور کمپنی 20.9 ارب، اسٹیل ملز 14.4 ارب اور آئیسکو 12.1 ارب روپے کے نقصان کے ساتھ شامل ہیں۔ مزید یہ کہ رپورٹ کے مطابق، جولائی تا دسمبر 2023 کے دوران سرکاری اداروں نے 14 فیصد اضافے کے ساتھ 200 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا۔
پاکستان نے افغان صوبے پکتیکا میں فضائی کارروائی کرتے ہوئے دہشت گرد تنظیم کے اہم کمانڈرز سمیت 71 سے زائد خوارج کو ہلاک کر دیا۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کی رپورٹس کے مطابق اس کارروائی میں دہشت گردوں کے 4 اہم مراکز کو تباہ کیا گیا، جن میں خودکش جیکٹ بنانے کی ایک فیکٹری بھی شامل تھی۔ پاکستانی سکیورٹی ذرائع کے مطابق یہ کارروائی خفیہ معلومات کی بنیاد پر کی گئی، جس میں دہشت گردوں کے اہم ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا جبکہ ان کے اطراف میں موجود عام آبادی کو نقصان سے محفوظ رکھا گیا۔ کارروائی کے دوران دہشت گرد تنظیم کے میڈیا سیل ’عمر میڈیا سیل‘ کو بھی تباہ کر دیا گیا، جو دہشت گردوں کی پروپیگنڈا سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق کارروائی کے دوران تنظیم کے چار اہم کمانڈرز، شیر زمان عرف مخلص یار، اختر محمد عرف خلیل، اظہار عرف حمزہ، اور شعیب چیمہ کے ٹھکانے بھی تباہ کر دیے گئے۔ ان تمام کمانڈرز کا تعلق ان گروہوں سے تھا جو پاکستان اور خطے میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ افغان طالبان حکومت نے اس کارروائی پر سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ افغان وزارت خارجہ نے کابل میں پاکستانی ناظم الامور کو طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ افغان حکام نے دعویٰ کیا کہ اس فضائی کارروائی میں 46 سویلین ہلاک ہوئے اور پاکستانی طیاروں نے افغان حدود کی خلاف ورزی کی۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پاکستانی بمباری مشرقی صوبے پکتیکا کے ضلع برمل کے چار علاقوں میں کی گئی، جس میں 46 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کارروائی کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ افغان حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے اعتراضات اور پاکستان کے دعوے کے درمیان صورتحال مزید پیچیدہ ہوتی جا رہی ہے۔
وفاقی وزیر برائے اطلاعات عطا تارڑ نے حالیہ بیان میں فوجی عدالتوں کے حوالے سے عالمی سطح پر جاری لابنگ اور اس کے تناظر میں حکومتی موقف پر روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر لابنگ کی جا رہی ہے، تاہم حکومت اس حوالے سے اپنے بین الاقوامی ترقیاتی شراکت داروں کو قائل کرنے کی کوشش کرے گی کہ ان عدالتوں کی کارروائیاں عالمی قوانین کے تقاضوں کے عین مطابق ہیں۔ عطا تارڑ نے اپنے بیان میں کہا کہ فوجی عدالتوں کے خلاف ملک کے اندر اور باہر ایک منفی بیانیہ تشکیل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان عدالتوں کی کارروائیوں میں اپیل کے تمام قانونی فورمز دستیاب ہیں اور تحریک انصاف کو اس معاملے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ ان کے مطابق، فوجی تنصیبات پر حملوں کے مقدمات ملٹری کورٹس میں ہی چلائے جاتے ہیں، اور یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی نہیں۔ عطا تارڑ نے تحریک انصاف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بانی پی ٹی آئی خود اپنے دور حکومت میں فوجی عدالتوں کے حق میں بیانات دیتے رہے ہیں، لیکن آج وہ اسی نظام پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے اپیل کی کہ سیاسی جماعتیں اس معاملے پر سیاست کرنے سے گریز کریں اور قانونی طریقہ کار کو تسلیم کریں۔ وزیر اطلاعات نے سانحہ 9 مئی کے پس منظر میں کہا کہ اس واقعے میں ملوث 25 افراد کو فوجی عدالتوں نے 2 سے 10 سال تک کی سزائیں سنائی ہیں۔ یہ سزائیں ملٹری کورٹس کے دائرہ اختیار کے تحت دی گئی ہیں، جو کہ فوجی تنصیبات پر حملوں جیسے حساس معاملات میں قانونی کارروائی کے لیے قائم کی گئی ہیں۔ عطا تارڑ نے تسلیم کیا کہ امریکا، برطانیہ اور یورپی یونین نے فوجی عدالتوں کی سزاؤں پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم، حکومت ان خدشات کو دور کرنے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوجی عدالتوں کی کارروائی شفاف اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہوتی ہے اور حکومت اس تاثر کو ختم کرنے کے لیے سفارتی ذرائع استعمال کرے گی۔ وزیر اطلاعات کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت بین الاقوامی سطح پر فوجی عدالتوں کے بارے میں پائے جانے والے تحفظات کو دور کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ اس مقصد کے لیے انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ پارٹنرز کے ساتھ گفت و شنید جاری ہے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ فوجی عدالتوں کا عمل قانونی اور شفاف ہے۔
بھکر میں خواتین کے ساتھ زیادتی کرکے ان کی ویڈیوز بنانے والے جعلی پیر کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق، اللہ بخش نامی اس جعلی پیر کو شیر گڑھ کے علاقے سے گرفتار کیا گیا اور اس کے خلاف تھانہ حیدر آباد تھل میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ مقدمے کے متن میں کہا گیا ہے کہ جعلی پیر خواتین کو ان کے خاوند کو منانے، اولاد حاصل کرنے اور مطلوبہ محبوب سے شادی کرنے جیسے مقاصد کے لیے جادو ٹونہ کے بہانے پھریبھرتا تھا۔ وہ ان خواتین کے ساتھ زیادتی کرتا تھا اور اس دوران ان کی ویڈیوز بھی بنا لیتا تھا۔ پولیس نے مزید تحقیقات کے لیے زیادتی کی ویڈیوز کی ایک یو ایس بی بھی برآمد کر لی ہے اور اس کیس کی تفصیلات جاننے کے لیے تحقیقات جاری ہیں۔ اس واقعے نے علاقے میں موجود خواتین کی حفاظت کے حوالے سے سنجیدگی پیدا کردی ہے۔
کوئٹہ کے نواحی علاقے مغربی بائی پاس پر گیس پائپ لائن کو دھماکا خیز مواد سے اڑانے کے نتیجے میں آگ بھڑک اٹھی، جس کے باعث بلوچستان کے مختلف علاقوں میں گیس کی سپلائی معطل ہو گئی۔ واقعے کے نتیجے میں نہ صرف شہری زندگی متاثر ہوئی بلکہ علاقے میں خوف و ہراس بھی پھیل گیا۔ پولیس کے مطابق، یہ واقعہ بروری تھانے کی حدود میں پیش آیا، جہاں ایک پل کے نیچے سے گزرنے والی 18 انچ قطر کی گیس پائپ لائن میں دھماکے کے بعد آگ بھڑک اٹھی۔ دھماکے کے بعد پائپ لائن میں لگی آگ نے بڑے شعلوں کی شکل اختیار کر لی۔ فوری طور پر پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچی اور فائر بریگیڈ کے عملے کو طلب کیا گیا۔ دو فائر ٹینڈرز نے ایک گھنٹے کی جدوجہد کے بعد آگ پر قابو پایا۔ ایس ایچ او بروری محمود خروٹی کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ یہ واقعہ تخریب کاری کا نتیجہ ہے اور گیس پائپ لائن کو دھماکا خیز مواد کے ذریعے تباہ کیا گیا۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ مغربی بائی پاس پر موجود 18 انچ قطر کی مین گیس سپلائی لائن دھماکے کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے، جس کے باعث کوئٹہ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں گیس کی فراہمی معطل ہوگئی ہے۔ متاثرہ علاقوں میں کچلاک، زیارت، بوستان، یارو، کربلا، ہرمزئی، پشین، اور کوئٹہ کے علاقے بشمول ایئرپورٹ روڈ، نواکلی، جناح ٹاؤن، خائزی، اے ون سٹی، اور ہزار گنجی شامل ہیں۔ سوئی سدرن گیس کمپنی کے حکام نے بتایا کہ متاثرہ لائن کی مرمت کے لیے انتظامیہ صورتحال کا بغور جائزہ لے رہی ہے۔ مرمتی کام کو جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور صارفین کو اس حوالے سے جلد آگاہ کیا جائے گا۔ حکام نے اس پریشانی پر صارفین سے معذرت کا اظہار کیا ہے۔ گیس کی فراہمی معطل ہونے سے سرد موسم میں شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ گھریلو صارفین، ہوٹل مالکان، اور دیگر کاروبار گیس کی بندش سے متاثر ہو رہے ہیں، جبکہ متبادل ایندھن کے حصول میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
بلوچستان کے علاقے دشت میں بدھ کے روز ایک قطری شہری کے قافلے پر ہونے والے ریموٹ کنٹرول بم حملے کے نتیجے میں دو سکیورٹی اہلکار شہید اور چار زخمی ہو گئے۔ یہ حملہ تلور کے شکار کے لیے جانے والے قطری شہری کے قافلے کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کو نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا۔ انڈیپنڈینٹ اردو کی رپورٹ کے مطابق اسسٹنٹ کمشنر دشت عبد الحمید کورائی نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکہ خیز مواد پہلے سے نصب تھا اور اسے نامعلوم افراد نے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے فعال کیا۔ لیویز فورس کے مطابق، حملے میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے نائیک زمان اور لانس نائیک عمر ظہور شہید ہو گئے، جبکہ چار دیگر اہلکار شدید زخمی ہوئے۔ زخمی اہلکاروں کو فوری طور پر تربت ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں ان کا علاج جاری ہے۔ دھماکہ خیز مواد کی نوعیت اور حملے کے طریقہ کار کے بارے میں مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے لیویز کے تھانہ انچارج محمد اکرم نے کہا کہ حملے کا بظاہر ہدف قطری شہری نہیں بلکہ ان کی حفاظت پر مامور سکیورٹی اہلکار تھے۔ قطری شہری کے قافلے میں 10 سے 12 افراد موجود تھے اور قافلے کی حفاظت کے لیے معمول کے مطابق چار سے پانچ گاڑیاں تعینات تھیں۔ یہ حملہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے جب بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں نمایاں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ان بڑھتے ہوئے حملوں کے پیش نظر نومبر میں وفاقی ایپکس کمیٹی نے نیشنل ایکشن پلان کے تحت بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف ایک جامع فوجی آپریشن کی منظوری دی تھی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں عسکریت پسند تنظیموں بشمول بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف)، مجید بریگیڈ، اور بلوچ راجی آجوہی سنگر (بی آر اے ایس) کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اجلاس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے قومی سلامتی کے تمام خطرات کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا تھا۔
صوبہ سندھ کے ضلع شکارپور میں ڈاکوؤں کی فائرنگ کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار شہید ہوگئے۔ یہ افسوسناک واقعہ کچے کے علاقے میں پیش آیا جہاں دونوں اہلکار ہوٹل پر چائے پینے کے لیے رکے تھے۔ شہید ہونے والے پولیس اہلکاروں کی شناخت الطاف بروہی اور عبدالقادر کلادی کے ناموں سے ہوئی ہے۔ پولیس حکام کے مطابق، دونوں اہلکار کچے کے علاقے میں اپنی ڈیوٹی پر تعینات تھے۔ جب وہ ہوٹل پر چائے کے لیے رکے، تو موقع پر موجود ڈاکوؤں نے ان پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں دونوں اہلکار موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ شہید اہلکاروں کی نعشوں کو ضروری کارروائی کے لیے شکارپور کے سول اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ واقعہ کی اطلاع ملتے ہی پولیس کی بھاری نفری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی اور علاقے کی ناکابندی کر دی گئی۔ پولیس نے ڈاکوؤں کی تلاش کے لیے سرچ آپریشن کا آغاز کر دیا ہے، تاہم تاحال کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ سندھ پولیس کے اہلکاروں کی شہادت پر صدیق جان نے کہا 'ان پولیس والوں کا نہ تو کوئی بڑا جنازہ پڑھنے جائے گا اور نہ ہی ان کی ٹی وی پر کوئی خبر چلے گی، کیونکہ ان کی شہادت پر خبریں چلانے سے پی ٹی آئی کے خلاف بیانیہ نہیں بن سکتا' عابد نے کہا 'سندھ کے چار اضلاع شکار پور، کشمور ،جیکب آباد اور گھوٹکی ڈاکوؤں کی لگائی آگ میں جل رہے ہیں،لیکن راوی چین لکھ رہا ہے' کچے کے علاقے میں امن و امان کی صورتحال طویل عرصے سے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ یہ علاقے ڈاکوؤں کے گڑھ تصور کیے جاتے ہیں، جہاں جرائم پیشہ عناصر نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ مقامی آبادی کے لیے بھی ایک بڑا خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
اسلام آباد: پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے وی پی این سروس پرووائیڈرز کی رجسٹریشن دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس اقدام کے تحت، وی پی این فراہم کرنے والی کمپنیاں اب کلاس لائسنس برائے ڈیٹا سروسز حاصل کرنے کی پابند ہوں گی۔ لائسنس فیس ایک سے تین لاکھ روپے کے درمیان مقرر کی گئی ہے۔ پی ٹی اے حکام کے مطابق، یہ اقدام صارفین کی آن لائن سرگرمیوں کو ریگولیٹ کرنے اور ڈیٹا سیکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ رجسٹرڈ وی پی این سروس پرووائیڈرز کو پاکستان میں مقامی سطح پر ڈیٹا سینٹرز قائم کرنے اور مقامی ڈیٹا پروٹیکشن قوانین پر عملدرآمد کرنے کا پابند بنایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق، اس اقدام سے پی ٹی اے کو صارفین کے ڈیٹا اور براؤزنگ ہسٹری تک رسائی حاصل ہوگی، جو کہ سائبر حملوں کی نشاندہی اور ان کے تدارک میں مدد فراہم کرے گی۔ پی ٹی اے نے واضح کیا ہے کہ یہ فیصلہ اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت کے بعد کیا گیا ہے۔ پاکستان سافٹ ویئر ہاؤسز ایسوسی ایشن (P@SHA) نے اس رجسٹریشن کے لیے درخواست دی تھی تاکہ وی پی این سروسز کو ایک قانونی دائرے میں لایا جا سکے۔ حکومت کو لائسنس فیس کی مد میں اضافی آمدنی کی توقع ہے، جبکہ صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ اور نگرانی کے عمل کو مزید مضبوط بنایا جائے گا۔ تاہم، اس اقدام کے حوالے سے پرائیویسی کے حامیوں اور سروس فراہم کرنے والوں کے تحفظات بھی سامنے آسکتے ہیں، جن کا تاحال مکمل احاطہ نہیں کیا گیا۔

Back
Top