خبریں

سابق نیوز اینکر اور معروف میزبان فرح اقرار نے ایک پوڈ کاسٹ میں شرکت کے دوران اپنی ذاتی زندگی اور کیریئر کے حوالے سے کئی دلچسپ انکشافات کیے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے شوہر اور معروف اینکر پرسن اقرار الحسن انہیں ماہانہ 3 سے 5 لاکھ روپے خرچہ دیتے ہیں۔ فرح اقرار نے پوڈ کاسٹ میں اپنے کیریئر کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ نوکری کر رہی تھیں، تو ان کی ماہانہ تنخواہ 5 لاکھ روپے تھی۔ انہوں نے کہا کہ خواتین کو عام طور پر مردوں کے مقابلے میں کم تنخواہ دی جاتی ہے، یہاں تک کہ جب دونوں ایک ہی کام کر رہے ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی تنخواہ میں یہ اضافہ فوری نہیں ہوا تھا، بلکہ اس میں کئی سالوں کا تجربہ شامل تھا۔ میزبان کے سوال پر کہ کیا اقرار الحسن انہیں ماہانہ خرچہ دیتے ہیں، فرح اقرار نے جواب دیا کہ ہر مہینے انہیں مختلف رقم ملتی ہے، لیکن یہ ماہانہ خرچہ 3 سے 5 لاکھ روپے تک ہو جاتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ فی الحال کرائے کے گھر میں رہ رہی ہیں، جس کے بلز بہت زیادہ آتے ہیں، اور اس کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اقرار الحسن کی تعریف کرتے ہوئے فرح اقرار نے کہا کہ وہ کنجوس نہیں ہیں، بلکہ بہت شاہ خرچ ہیں۔ فرح اقرار نے اپنی شادی کے حوالے سے بھی بات کی۔ انہوں نے بتایا کہ شادی سے پہلے وہ اور اقرار الحسن ایک ہی جگہ کام کرتے تھے، اور اقرار ان کے کام کی تعریف کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ رشتے کی بات بھی اقرار الحسن نے ہی کی تھی، جس پر ان کے والد فوراً راضی ہو گئے۔ فرح اقرار نے کہا کہ ان کی شادی کو 13 سال ہو چکے ہیں، اور وہ دونوں بہت خوشحال زندگی گزار رہے ہیں۔ فرح اقرار نے شادی کے بعد لوگوں کی باتوں کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ لوگ کہتے تھے کہ انہوں نے پیسے کے لیے شادی کی ہے، اور کچھ عرصے بعد یہ علیحدہ ہو جائیں گے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کا رشتہ مزید مضبوط ہوا، اور ان کی اور اقرار الحسن کی اچھی دوستی ہے۔ واضح رہے کہ فرح اقرار معروف اینکر پرسن اور انویسٹی گیٹو جرنلسٹ اقرار الحسن کی دوسری اہلیہ ہیں۔ فرح اقرار خود بھی ایک مشہور اور باصلاحیت پاکستانی ٹیلی ویژن میزبان اور سابق نیوز اینکر ہیں۔ انہوں نے کئی مشہور نیوز اور انٹرٹینمنٹ چینلز میں بطور ہوسٹ کام کیا ہے۔ فی الحال، وہ لاہور میں مقیم ہیں اور اپنا یوٹیوب چینل کامیابی کے ساتھ چلا رہی ہیں، جہاں وہ روزانہ وی لاگ پوسٹ کرتی ہیں۔
سرگودھا: پنجاب کے ضلع سرگودھا میں بیرون ملک نوکری کے جھانسے کے ذریعے ایک 22 سالہ لڑکی کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ واقعے کے بعد لڑکی کو تشویشناک حالت میں ڈی ایچ کیو اسپتال پہنچایا گیا، جہاں اس کا طبی علاج جاری ہے۔ سرگودھا پولیس کے مطابق، واقعے کی تفصیلات سامنے آئی ہیں کہ لڑکی کو ثمر بٹ نامی ملزم نے بیرون ملک بھجوانے کے لیے انٹرویو دلوانے کا بہانہ بنایا تھا۔ لڑکی کے والد امان اللہ نے پولیس میں درخواست دائر کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ثمر بٹ اور اس کے 4 ساتھیوں نے لڑکی کو ایک نامعلوم مقام پر لے جا کر اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ حالت غیر ہونے پر ملزمان لڑکی کو ڈی ایچ کیو اسپتال چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ واقعے کی اطلاع ملتے ہی ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) سرگودھا سمیت دیگر افسران تھانہ جھال چکیاں پہنچ گئے۔ ڈی پی او سرگودھا نے بتایا کہ ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپہ مار ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں اور تمام مجرموں کو جلد از جلد عدالت کے سامنے لانے کے لیے فوری کارروائی کی جا رہی ہے۔ پولیس کے مطابق، لڑکی نواب کالونی کی رہائشی ہے اور اسے بیرون ملک نوکری کے جھانسے میں پھنسا کر اس کے ساتھ سنگین جرائم کا ارتکاب کیا گیا۔ پولیس نے تھانہ جھال چکیاں میں لڑکی کے والد کی درخواست پر مقدمہ درج کر لیا ہے اور ملزمان کے خلاف قانونی کارروائی تیز کر دی گئی ہے۔ اس واقعے نے علاقے میں شدید غم و غصہ پیدا کر دیا ہے، جبکہ سماجی حلقوں نے مجرموں کے خلاف سخت سزا کی مانگ کی ہے۔ پولیس نے عوام کو یقین دلایا ہے کہ وہ ملزمان کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔ واقعے کی تفتیش جاری ہے، اور پولیس نے مزید تفصیلات کا انتظار کرتے ہوئے ملزمان کی گرفتاری کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھا رکھے ہیں۔
بلوچستان کے ضلع بولان میں کوئٹہ-سبی شاہراہ پر دو مختلف مقامات پر سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان ایک گھنٹے سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی جھڑپ میں 3 دہشت گرد ہلاک ہو گئے۔ جھڑپ کے بعد رات گئے شاہراہ کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق، سیکیورٹی فورسز نے پیر غائب اور آب گم کے درمیان سفر کے دوران عسکریت پسندوں کی جانب سے یرغمال بنائے گئے مسافروں کو بھی کامیابی سے رہا کروا لیا۔ واقعے کے دوران دہشت گردوں نے جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر شاہراہ کو بلاک کر دیا تھا اور مسافروں کی چیکنگ شروع کر دی تھی۔ بلوچستان کے پارلیمانی سیکریٹری میر لیاقت علی لہری کے قافلے کو بھی دہشت گردوں نے روکا اور ان کے محافظین سے اسلحہ چھین لیا۔ میر لیاقت علی لہری نے بتایا کہ مسلح افراد کے ایک گروپ نے ہائی وے پر ان کی گاڑیوں اور محافظین کو روکا اور سیکیورٹی گارڈز سے ہتھیار حوالے کرنے کو کہا۔ انہوں نے کہا کہ محافظین نے مزاحمت کی، لیکن غیر یقینی صورتحال اور نقصان سے بچنے کے لیے ان کی ہدایت پر ہتھیار حوالے کر دیے۔ حکام نے سڑک کی بندش کے دوران قبائلی بزرگ فرید رئیسانی کے مبینہ قتل کی تردید کرتے ہوئے وضاحت کی کہ وہ کوئٹہ میں اپنے گھر پر محفوظ اور صحت مند ہیں۔ صورتحال کی اطلاع ملتے ہی سیکیورٹی فورسز موقع پر پہنچ گئیں اور علاقے کو گھیرے میں لے لیا۔ سیکیورٹی حکام کے مطابق، فورسز اور عسکریت پسندوں کے درمیان ایک گھنٹے سے زائد عرصے تک شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس کے دوران 3 دہشت گرد مارے گئے۔ فائرنگ کے تبادلے کے دوران سیکیورٹی فورسز کی گاڑیوں کو نقصان پہنچا، جبکہ دہشت گرد فرار ہونے پر مجبور ہو گئے۔ سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا اور بندوق کی نوک پر یرغمال بنائے گئے مسافروں کو رہا کرا لیا۔ حکام کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز پہاڑوں میں فرار ہونے والے دہشت گردوں کا تعاقب کر رہی ہیں۔ کوئٹہ-سبی شاہراہ کو 4 گھنٹے بعد ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ ایک سینئر پولیس افسر رانا دلدار نے بتایا کہ جس علاقے میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا، وہاں سے ایک لاش اور 4 زخمیوں کو ڈسٹرکٹ ہسپتال مچھ لایا گیا۔ جاں بحق ہونے والے کی شناخت نبی داد کے نام سے ہوئی، جبکہ زخمیوں میں صفی اللہ، امان اللہ، غلام رسول اور امین اللہ شامل ہیں۔ سیکیورٹی فورسز نے علاقے میں کارروائی جاری رکھی ہوئی ہے اور دہشت گردوں کے ممکنہ حملوں کو روکنے کے لیے اضافی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
تفتیشی اداروں نے مصطفیٰ قتل کیس کی تحقیقات میں اہم پیش رفت کرتے ہوئے منشیات کی خرید و فروخت میں ایک بین الاقوامی ڈرگ چین کے ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے۔ ایف آئی اے نے منی لانڈرنگ اور سائبر کرائم سے متعلق تفتیش کا آغاز کر دیا ہے، جبکہ اسپیشل انویسٹی گیشن یونٹ منشیات کے نیٹ ورک کو بے نقاب کرنے میں مصروف عمل ہے۔ تفتیشی ذرائع کے مطابق، منشیات کی ترسیل میں کئی کوریئر کمپنیز کے بھی ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔ مصطفیٰ قتل کیس کے ایک ملزم ارمغان کے منشیات استعمال کرنے کا معاملہ سامنے آنے کے بعد متعدد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ تفتیش کے دوران ملزم ساحر نے اہم انکشافات کیے ہیں۔ ساحر نے بتایا کہ وہ ارمغان کے ذریعے مصطفیٰ سے ملا تھا۔ ساحر نے ارمغان سے اپنے رابطوں کی تفصیلات بھی تفتیشی حکام کو فراہم کی ہیں۔ تفتیشی ٹیم نے ملزم کا کال ڈیٹا ریکارڈ بھی حاصل کیا ہے، جس میں ارمغان سے رابطوں کے ثبوت ملے ہیں۔ تفتیشی حکام کا کہنا ہے کہ منشیات کا یہ نیٹ ورک مصطفیٰ کے قتل سے براہ راست جڑا ہو سکتا ہے۔ ملزم سے تفتیش جاری ہے، اور مزید شواہد اکٹھا کیے جا رہے ہیں۔ اس کیس میں بین الاقوامی ڈرگ چین کے ملوث ہونے کے باعث یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ تفتیشی اداروں کا کہنا ہے کہ وہ منشیات کے نیٹ ورک کو مکمل طور پر بے نقاب کرنے اور مصطفیٰ کے قتل کے پیچھے کارفرما عناصر کو سامنے لانے کے لیے پرعزم ہیں۔ اس سلسلے میں بین الاقوامی سطح پر تعاون کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ تفتیش کے مطابق، منشیات کی ترسیل میں کوریئر کمپنیز کے استعمال نے اس معاملے کو اور بھی گمبھیر بنا دیا ہے۔ اب تک کی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نیٹ ورک نہ صرف منشیات کی تجارت میں ملوث ہے بلکہ ممکنہ طور پر دیگر مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی اس کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔ تفتیشی ٹیمیں اس سلسلے میں مزید کارروائی کے لیے تیار ہیں۔
لاہور: مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تحقیقات کے دوران مشہور ٹی وی اداکار ساجد حسن کے بیٹے ساحر حسن کا نام سامنے آیا ہے، جس پر منشیات فروشی کے الزامات میں مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ اسپیشلائزڈ انویسٹی گیشن یونٹ (ایس آئی یو) پولیس کے مطابق، ساحر حسن کو ڈیفنس فیز 6 کے پوش علاقے سے گرفتار کیا گیا، جہاں سے اس کے قبضے میں 50 لاکھ روپے مالیت کی منشیات برآمد ہوئی۔ ایس آئی یو پولیس کے مطابق، ساحر حسن نے تفتیش کے دوران اعتراف کیا کہ وہ گزشتہ دو سال سے منشیات فروخت کر رہا ہے۔ ملزم نے بتایا کہ وہ بازل اور یحییٰ نامی منشیات فروشوں سے ڈرگز حاصل کرتا تھا اور انہیں شہر کے پوش علاقوں میں فروخت کرتا تھا۔ ساحر حسن نے یہ بھی بتایا کہ وہ ارمغان نامی شخص کو بھی منشیات فروخت کرتا تھا، جو مصطفیٰ عامر قتل کیس میں ملوث ہے۔ ملزم ساحر حسن کے خلاف منشیات کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، اور اسے حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ایس آئی یو پولیس نے کہا کہ ساحر حسن کی گرفتاری اور تفتیش سے منشیات کے نیٹ ورک کو توڑنے میں مدد ملے گی، جبکہ مصطفیٰ عامر قتل کیس میں مزید انکشافات کی توقع ہے۔ یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا ہے جب مصطفیٰ عامر قتل کیس کی تحقیقات جاری ہیں، جس میں ارمغان نامی ملزم پہلے ہی حراست میں ہے۔ ساحر حسن کی گرفتاری نے اس کیس کو ایک نئی جہت دے دی ہے، اور اب تحقیقاتی ٹیم اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ کیا ساحر حسن کا تعلق قتل کیس سے بھی ہے۔ مشہور اداکار ساجد حسن کے بیٹے کی گرفتاری نے میڈیا اور عوامی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ اب تک کی معلومات کے مطابق، ساحر حسن کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے، اور اس کیس میں مزید انکشافات کا انتظار ہے۔
لاہور: سروسز اسپتال لاہور میں پولیس اہلکاروں کی جانب سے سزائے موت کے ایک قیدی کے لیے خصوصی دعوت کا انکشاف ہوا ہے، جس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ملوث اہلکاروں کو حراست میں لے لیا ہے۔ پولیس کے مطابق، جوڈیشل ونگ کے اہلکاروں نے مجرم اشفاق عرف کھڈا کو کوٹ لکھپت جیل سے سروسز اسپتال لایا، جہاں انہوں نے اس کے اہلِ خانہ کو بھی وارڈ میں بلا لیا۔ ایف آئی آر کے مطابق، اسپتال کے وارڈ میں مجرم کے لیے لذیذ کھانے کا انتظام کیا گیا، جبکہ تفریحی ماحول بھی بنایا گیا۔ یہ غیر قانونی سرگرمی پولیس اہلکاروں کی جانب سے رشوت لے کر کی گئی، جس کے بعد ان کے خلاف مقدمہ درج کر کے انہیں حراست میں لے لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اشفاق عرف کھڈا قتل کے ایک مقدمے میں 25 سال قید کی سزا کاٹ رہا ہے اور کوٹ لکھپت جیل میں قید ہے۔ پولیس کے مطابق، ملوث اہلکاروں نے مجرم کو غیر قانونی طور پر اسپتال لے جا کر اسے پروٹوکول اور خصوصی سہولیات فراہم کیں، جو کہ قوانین کے خلاف ہے۔ اس واقعے نے پولیس کے اندر موجود بدعنوانی کو یک بار پھر عیاں کر دیا ہے۔ پولیس حکام نے اس معاملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایسے اقدامات قانون کی خلاف ورزی ہیں اور انہیں کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملوث اہلکاروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے گی اور انہیں سخت سزا دی جائے گی۔
کاٹھور: رمضان المبارک کی آمد سے قبل متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی جانب سے سندھ اور بلوچستان کے مستحقین میں حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق راشن کی تقسیم کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ یو اے ای کے قونصل جنرل ڈاکٹر بخیت عتیق الرومیتی نے کاٹھور میں راشن کی تقسیم کا افتتاح کیا۔ یو اے ای کی جانب سے اس سال رمضان المبارک کے موقع پر 3 ہزار سے زائد مستحق خاندانوں میں راشن تقسیم کیا جائے گا۔ یہ مہم شیخہ فاطمہ بنت مبارک کی ہدایت پر شروع کی گئی ہے، جو ہر سال پاکستان کے غریب اور مستحق خاندانوں کی مدد کے لیے خصوصی اقدامات کرتی ہیں۔ قونصل جنرل ڈاکٹر بخیت عتیق الرومیتی نے کہا کہ "ہر سال کی طرح اس بار بھی سندھ اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں ہزاروں خاندانوں کو راشن فراہم کیا جائے گا۔" انہوں نے بتایا کہ یو اے ای نے گزشتہ 18 برسوں سے پاکستان بھر میں رمضان المبارک کے موقع پر راشن تقسیم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ راشن کی تقسیم کے دوران حفظان صحت کے تمام اصولوں کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ راشن کٹ میں ایک خاندان کے لیے 40 کلو آٹا، 20 کلو چاول، 10 کلو چینی، 10 کلو دالیں، کھجور، نمک، مصالحہ جات، بچوں کا دودھ اور مشروبات شامل ہیں۔ قونصل جنرل نے کہا کہ "یو اے ای ہمیشہ ہر تہوار پر اپنے پاکستانی بہن بھائیوں کو یاد رکھتا ہے۔ ہماری کوشش ہے کہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں غریب اور مستحق خاندانوں کو خوراک کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔" یو اے ای کی جانب سے یہ اقدام پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دوستانہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے کی ایک کڑی ہے۔ رمضان المبارک کے موقع پر یہ راشن مہم سندھ اور بلوچستان کے علاوہ ملک کے دیگر علاقوں میں بھی جاری رہے گی، جس سے ہزاروں خاندانوں کو فائدہ پہنچے گا۔ مستحقین نے یو اے ای کی اس کاوش کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے اقدامات سے انہیں رمضان المبارک کے دوران اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملتی ہے۔
امریکی انتظامیہ نے غیر ملکی امداد کے منجمد فنڈز میں سے 5.3 ارب ڈالر جاری کیے ہیں، جن میں پاکستان میں امریکی حمایت یافتہ پروگرام کے لیے 397 ملین ڈالر بھی شامل ہیں روزنامہ جنگ کے مطابق یہ فنڈز خاص طور پر پاکستان کے ایف-16 طیاروں کے استعمال کی نگرانی سے متعلق ہیں، تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ یہ طیارے دہشت گردی کے خلاف آپریشنز میں استعمال ہوں، نہ کہ بھارت کے خلاف۔ امریکی کانگریس کے عہدیدار کے مطابق، یہ نگرانی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ پاکستان ان طیاروں کو صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں استعمال کرے۔ اس کے علاوہ، یو ایس ایڈ کے پروگرام کے لیے 100 ملین ڈالر سے کم فنڈز بھی جاری کیے گئے ہیں۔ جاری کیے گئے فنڈز زیادہ تر سیکیورٹی اور انسداد منشیات کے شعبوں میں ہیں، جبکہ انسانی امداد کا حصہ بہت محدود ہے۔ یہ اقدامات ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے غیر ملکی امداد کو محدود کرنے کی پالیسی کے تحت کیے گئے ہیں۔ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے غیر ملکی امداد کو روکنے کے احکامات جاری کیے گئے تھے، جن کے تحت اب یہ فنڈز جاری کیے گئے ہیں۔ یہ اقدامات دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اور سلامتی کے معاملات پر اثر انداز ہو سکتے ہیں، خاص طور پر خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تناظر میں۔
کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) میں مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل کیس کی سماعت کے دوران تفتیشی افسر نے اہم انکشافات پیش کیے ہیں۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ جائے وقوعہ پر کارپٹ پر لگے خون کے نمونے کا ڈی این اے مدعیہ مقدمہ سے میچ کر گیا ہے، جبکہ ملزم ارمغان کے کمرے کے کارپٹ پر موجود دو خون کے نمونوں میں سے ایک نامعلوم خاتون کا ڈی این اے بھی ملا ہے۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملزمان نے انٹروگیشن کے دوران بتایا کہ واقعے سے ایک روز قبل زوما نامی لڑکی کو بھی اسی کمرے میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ زوما نامی لڑکی کا پتہ لگانے کے لیے ملزمان کی نشاندہی ضروری ہے، تاکہ اس کا بلڈ سیمپل لے کر ڈی این اے ٹیسٹ کیا جا سکے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل کیس میں مارشا اور انجلینا نامی دو لڑکیوں کا نام بھی سامنے آ چکا ہے۔ تفتیش میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ ملزم ارمغان بوٹ بیسن، کلفٹن، درخشان اور ساحل تھانے میں درج متعدد مقدمات میں مفرور ہے۔ تفتیشی افسر نے عدالت سے درخواست کی کہ ملزم کے خلاف ان مقدمات میں بھی کارروائی کی جائے۔ تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم ارمغان غیر قانونی کال سینٹر اور وئیر ہاؤس چلا رہا تھا، جبکہ اس کے دیگر ساتھیوں، جن میں نعمان سمیت دیگر افراد شامل ہیں، کی تلاش جاری ہے۔ اس کے علاوہ، ملزم ارمغان کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات کی بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ یاد رہے کہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر نے 14 فروری کو پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ مقتول مصطفیٰ عامر 6 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے سے لاپتا ہوا تھا، اور اس کی والدہ نے اگلے روز بیٹے کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی تھی۔ 25 جنوری کو مقتول کی والدہ کو ایک امریکی نمبر سے 2 کروڑ روپے تاوان کی کال موصول ہوئی، جس کے بعد مقدمے میں اغوا برائے تاوان کی دفعات شامل کرکے کیس کو اینٹی وائلنٹ کرائم سیل (اے وی سی سی) کے حوالے کر دیا گیا۔ 9 فروری کو اے وی سی سی نے ڈیفنس میں واقع ملزم کی رہائش گاہ پر چھاپہ مارا، تاہم ملزم نے پولیس پر فائرنگ کر دی، جس سے ڈی ایس پی اے وی سی سی احسن ذوالفقار اور ان کا محافظ زخمی ہو گئے۔ کئی گھنٹوں کی کوشش کے بعد ملزم کو گرفتار کیا گیا۔ پولیس نے ملزم کا جسمانی ریمانڈ لینے کے لیے انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا، لیکن جج نے ملزم کو عدالتی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے خلاف سندھ پولیس نے عدالتِ عالیہ میں اپیل دائر کی۔ ابتدائی تفتیش میں ملزم نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے مصطفیٰ عامر کو قتل کرکے لاش ملیر میں پھینک دی، تاہم بعد میں وہ اپنے بیان سے منحرف ہو گیا۔ بعد میں اے وی سی سی، سٹیزنز پولیس لائژن کمیٹی (سی پی ایل سی) اور حساس ادارے کی مشترکہ کارروائی میں ملزم کے دوست شیراز کو گرفتار کیا گیا، جس نے اعتراف کیا کہ ارمغان نے اس کی مدد سے 6 جنوری کو مصطفیٰ کو گھر میں تشدد کرکے قتل کیا اور لاش کو اس کی گاڑی میں حب لے جا کر نذر آتش کر دیا۔ تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم ارمغان کے خلاف مزید مقدمات میں کارروائی کی جائے، جبکہ زوما نامی لڑکی کی تلاش کے لیے ملزمان کی مدد درکار ہے۔ کیس کی سماعت جاری ہے، اور عدالت نے تفتیشی افسر کی درخواست پر غور کرتے ہوئے مزید کارروائی کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
جیکب آباد، سندھ: دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک جیکب آباد میں تازہ اور صاف پانی کی فراہمی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غیر ملکی امداد منجمد کیے جانے کے بعد شدید خطرے میں پڑ گئی ہے۔ جیکب آباد میں گرمی کی شدت کئی بار 50 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتی ہے، جس کے باعث پانی کی قلت اور ہیٹ اسٹروک جیسے سنگین مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ 2012 میں، امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) نے سندھ کی میونسپل سروسز کو بہتر بنانے کے لیے 66 ملین ڈالر کی گرانٹ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اس منصوبے میں 22 کلومیٹر دور نہر سے پانی پمپ کرنے اور فلٹریشن پلانٹ کی مرمت شامل تھی۔ تاہم، ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے امداد پر عائد پابندی کے باعث اس منصوبے کے لیے مختص 15 لاکھ ڈالر کی رقم روک دی گئی ہے، جس کے نتیجے میں یہ منصوبہ چند ماہ کے اندر ناکام ہونے کے خطرے سے دوچار ہے۔ مقامی رہائشی طفیل احمد (25 سال) کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے جیکب آباد کے لوگوں کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موسم سرما میں بھی درجہ حرارت 30 ڈگری سینٹی گریڈ سے تجاوز کر جاتا ہے، جس کے باعث پانی کی دستیابی زندگی اور موت کا مسئلہ بن چکی ہے۔ غیر منافع بخش تنظیم ’ہینڈز‘ کے مطابق، یہ منصوبہ روزانہ 15 لاکھ گیلن (57 لاکھ لیٹر) صاف پانی فراہم کرتا ہے، جو شہر کے تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد کی ضروریات پوری کرتا ہے۔ تنظیم کے سی ای او شیخ تنویر احمد نے بتایا کہ امداد کی معطلی کے بعد منصوبے کے 47 عملے کو گھر بھیجنا پڑا ہے، جن میں پانی کی صفائی اور بنیادی ڈھانچے کی دیکھ بھال کرنے والے ماہرین بھی شامل ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر کوئی دوسرا فنڈر سامنے نہ آیا تو یہ منصوبہ اگلے چند مہینوں میں مکمل طور پر ناکارہ ہو جائے گا۔ یہ منصوبہ اب مقامی حکومت کے پاس ہے، جس کے پاس تکنیکی مہارت اور وسائل کی کمی کے باعث اسے چلانا مشکل ہو رہا ہے۔ شیخ تنویر احمد نے کہا کہ اگر پانی کی فراہمی منقطع ہو گئی تو جیکب آباد کے لوگوں کے لیے زندہ رہنا ناممکن ہو جائے گا، کیونکہ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ یہ مسئلہ اس وقت اور گمبھیر ہو گیا ہے جب جرمن واچ کے کلائمیٹ رسک انڈیکس 2022 کے مطابق، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے۔ حالانکہ پاکستان عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، لیکن یہاں کے لوگ موسمیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات برداشت کر رہے ہیں۔ جیکب آباد کا پانی کا نظام 2010 کے سیلاب میں بھی بری طرح متاثر ہوا تھا، جس کے باعث صوبے میں 1,800 افراد ہلاک اور 2 کروڑ سے زائد شہری بے گھر ہوئے تھے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق، سندھ میں گزشتہ سال اوسط سے 52 فیصد کم بارشیں ہوئی ہیں، اور آنے والے مہینوں میں معتدل خشک سالی کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ اس صورتحال میں، جیکب آباد کے لوگوں کی زندگیوں کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ پانی کا یہ بحران لاکھوں افراد کے لیے تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
کراچی: سینیٹر فیصل واؤڈا نے کہا ہے کہ میں چیخ چیخ کر یہ بات کہہ رہا تھا کہ ٹرمپ کے آنے سے کچھ نہیں ہوگا، ویسے بھی پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ بانی عمران خان جیل میں رہیں۔ گرینڈ الائنس میں شامل تمام بڑی پارٹیاں حکومت کے ساتھ ہیں۔ یہ بات انہوں نے کسٹمز ایجنٹس کی پریس کانفرنس کے اختتام پر کہی۔ قبل ازیں کسٹمز ایجنٹس نے پریس کانفرنس کی، اس دوران فیصل واؤڈا بھی پہنچے اور کہا کہ میں کسٹم ایجنٹس کے ساتھ یکجہتی کرنے نہیں آیا، بلکہ آپ کا مسئلہ حل کرنے آیا ہوں۔ یہ پڑھیں: کسٹمز ایجنٹس کا 25 فروری سے غیرمعینہ مدت کے لیے کام بند کرنے کا اعلان۔ انہوں نے کہا کہ آپ بروز بدھ سینیٹ کی فنانس کمیٹی میں تشریف لائیں، سلیم مانڈوی والا اس کے چیئرمین ہیں۔ ہر مسئلے کے حل کے لیے فوج کو پکارا جا رہا ہے، جب اکثریت کے مسائل فوج نے حل کرنے ہیں تو اس کی تعریف تو کیا کریں۔ فیصل واؤڈا نے کہا کہ سالانہ 4800 ارب روپے کا نقصان انتہائی قابلِ تشویش ہے، میڈیا کا کردار انتہائی اہم رہا ہے اور میڈیا اس طرز کے مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ کسٹمز ایجنٹس کے معاملے پر وزیرِ خزانہ اور وزیر مملکت سے بات کروں گا اور ہم اس میں ملوث افسر پر بھی کارروائی کریں گے۔ ابھی تو میری ٹائم کے محض فائل کو ہاتھ لگا کر 60 سے 70 ارب روپے کی بدعنوانی پکڑی گئی ہے، ہوم ورک مکمل کرکے نام بھی سامنے لائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ میں چیخ چیخ کر یہ بات کہہ رہا تھا کہ ٹرمپ کے آنے سے کچھ نہیں ہوگا، ویسے بھی پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ بانی عمران خان جیل میں رہیں۔ گرینڈ الائنس میں شامل تمام بڑی پارٹیاں حکومت کے ساتھ ہیں، کوئی گرینڈ الائنس یا ہنگامہ احتجاج نظر نہیں آ رہا۔ ایک سمجھوتے کے تحت پی ٹی آئی والے بانی کو جیل میں رکھے ہوئے ہیں، سیاستدان بے ایمان، مکار، فنکار اور چور ہیں۔
انسپکٹر جنرل پنجاب پولیس، عثمان انور، نے ایک انٹرویو میں اپنے پسندیدہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے بارے میں دلچسپ جواب دیا۔ عثمان انور نے یوٹیوب پلیٹ فارم "دی کرنٹ" کے لیے دیے گئے ایک انٹرویو میں اس سوال کا جواب دیا کہ عثمان بزدار، شہباز شریف یا پرویز الہٰی، ان میں سے آپ کے پسندیدہ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کون ہیں؟ اس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ ان کا کوئی پسندیدہ وزیرِ اعلیٰ نہیں ہے، کیونکہ جو بھی پنجاب کا موجودہ وزیرِ اعلیٰ ہوتا ہے، وہی ان کے لیے پسندیدہ ہوتا ہے۔ عثمان انور نے مزید کہا کہ پولیس اہلکاروں کے لیے کسی وزیرِ اعلیٰ یا وزیرِ اعظم کا پسندیدہ ہونا ضروری نہیں ہوتا، ہر موجودہ وزیرِ اعلیٰ اور وزیرِ اعظم ان کے لیے پسندیدہ ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پولیس اہلکار ان معاملات میں بالکل واضح ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ انٹرویو آئی جی پنجاب نے گزشتہ سال دیا تھا۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے کیس اسائنمنٹ اینڈ مینجمنٹ سسٹم کا افتتاح کر دیا۔ افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ ہم نے ایک ایسا نظام متعارف کرایا ہے جس کے ذریعے بدعنوانی کی نظر ہونے والے پیسے کو دوبارہ خزانے میں واپس لایا جائے گا۔ بدعنوان عناصر سے ہر پائی وصول کر کے اسے عوامی فلاح کے کاموں پر خرچ کیا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نئے نظام کے تحت سندھ ہائی کورٹ نے صرف ایک دن میں 24 ارب روپے کے مقدمات کے فیصلے کیے ہیں، اور یہ رقم اب قومی خزانے میں جمع کی جائے گی۔ وزیرِ اعظم کا یہ بھی کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایسی مزید رقوم کو بھی قومی خزانے میں واپس لایا جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ٹربیونلز، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں کھربوں روپے کے مقدمات زیرِ التواء ہیں، اور واجب الادا ٹیکس کی ہر پائی عوام کی امانت ہے۔
پاک افغان فورسز کے درمیان گزشتہ رات شروع ہونے والی کشیدگی بدستور برقرار ہے اور طورخم سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق سرحد پر تجارتی سرگرمیاں اور پیدل آمدورفت ابھی تک معطل ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ طورخم سرحدی گزرگاہ پر حالات اس وقت کشیدہ ہوئے جب افغان فورسز نے سرحد کے متنازع علاقے میں چیک پوسٹ کی تعمیر شروع کی۔ پاکستانی فورسز نے افغان اہلکاروں کو تعمیراتی کام روکنے کا کہا، جس کے بعد افغان فورسز نے مورچے سنبھال لیے۔ اس سرحدی کشیدگی کے باعث علاقے میں سیکیورٹی کو مزید سخت کر دیا گیا ہے، اور دونوں ممالک کے درمیان بارڈر بند ہے۔
سپریم کورٹ نے اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹ کے کیس میں نادرا اور الیکشن کمیشن سے دو ہفتوں میں تفصیلی جواب طلب کر لیا۔ عدالت نے کہا کہ یہ بتایا جائے کہ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ووٹنگ کے حوالے سے اب تک کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔ کیس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل نے اوورسیز پاکستانیوں کی ووٹنگ کو غیر محفوظ قرار دیتے ہوئے کہا کہ 35 حلقوں میں ای ووٹنگ کی گئی ہے اور ان کی رپورٹ سینٹ کمیٹی میں جمع کروا دی گئی ہے۔ اس پر ڈائریکٹر آئی ٹی نے عدالت کو بتایا کہ ای ووٹنگ سسٹم پر ایک سے تین گھنٹے تک سنجیدہ حملے ہوئے ہیں اور ہیکنگ کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ اگر اتنا بڑا خطرہ ہے تو ای ووٹنگ سسٹم کی حفاظت کے لیے فائر وال کیوں نہیں ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ سینیٹرز نے ای ووٹنگ کرانے سے انکار کیا تھا اور اس کے لیے بین الاقوامی ماہرین کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اگر ہیکنگ ہو رہی ہے تو پورا نظام خطرے میں ہے کیونکہ اب سب کچھ انٹرنیٹ پر ہی ہوتا ہے۔ ڈائریکٹر آئی ٹی نے مزید کہا کہ اگر ہر اوورسیز پاکستانی کو رسائی دی گئی تو ہیکنگ کے خطرات میں اضافہ ہو جائے گا۔ پی ٹی آئی کے بانی عزیر بھنڈاری نے کہا کہ انہیں الیکشن کمیشن پر اعتماد نہیں کیونکہ اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے نہیں دیا جا رہا۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تمام ووٹ آپ کے ہوں گے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ جا چکی ہے، آپ بھی پارلیمنٹ جائیں۔ وکیل عارف چوہدری نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون بنا چکی ہے، اب سپریم کورٹ کو فیصلہ کرنا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے جواب دیا کہ پھر پارلیمنٹ کو بند کر دیا جائے، جس پر عارف چوہدری نے کہا کہ سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو چلانے کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پھر سوال کیا کہ اگر ای سسٹم ناکام ہوا تو کیا سپریم کورٹ پر اس کی ذمہ داری ڈالی جائے گی؟ سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی رپورٹس فریقین کو فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی۔
شنگھائی: رات کے وقت جب دو پاکستانی میڈیکل طالب علم یوسف خان اور رفیق اللہ شنگھائی کے ریلوے سٹیشن پر اترے تو ان کی نظر ایک غیر معمولی منظر پر پڑی۔ چند پولیس اہلکار ایک ادھیڑ عمر شخص کے گرد جمع تھے جو زمین پر بے ہوش پڑا تھا۔ عام آدمی شاید اس منظر کو دیکھ کر آگے بڑھ جاتا، لیکن یوسف اور رفیق نے ایسا نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ میڈیکل کالج کے آخری سال کے طالب علم ہونے کے ناطے انہوں نے فوراً صورتحال کا جائزہ لیا۔ رفیق نے بتایا کہ اس شخص کی نبض کمزور تھی، سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی اور دل کی دھڑکن بھی غیر معمولی طور پر سست تھی۔ ان علامات سے واضح ہو گیا کہ اسے دل کا دورہ پڑا ہے اور فوری امداد نہ ملنے کی صورت میں اس کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ سٹیشن پر کوئی طبی سہولت موجود نہ تھی اور ایمبولنس بھی دور دور تک نظر نہ آ رہی تھی۔ ایسی صورتحال میں یوسف اور رفیق نے بغیر وقت ضائع کیے کارڈیو پلمونری ریسسٹیشن (سی پی آر) شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یوسف نے اس شخص کی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالنا شروع کیا اور وقفے وقفے سے منہ سے سانس دی، جبکہ رفیق نے ان کی معاونت کی۔ چند ہی منٹوں میں اس شخص کی سانس بحال ہونے لگی اور حالت بہتر ہونا شروع ہو گئی۔ یہ سارا واقعہ شنگھائی ریلوے سٹیشن کے سی سی ٹی وی کیمروں میں محفوظ ہو گیا۔ یہ دونوں طالب علم، جو چین کی گائن میڈیکل یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں، اس رات سیاحت کے لیے شنگھائی پہنچے تھے۔ ان کی اس بہادری نے دیکھتے ہی دیکھتے انہیں چین میں ہیرو بنا دیا۔ چینی میڈیا نے ان کا انٹرویو کیا، جبکہ پاکستان میں چین کے سفارت خانے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ان کی تعریف میں پوسٹ شیئر کی۔ سفارت خانے نے لکھا، "پاکستانی طالب علم یوسف خان اور رفیق اللہ نے شنگھائی میں ایک شخص کی جان بچا کر قابل تحسین مثال قائم کی۔ ان کے فوری اور پیشہ ورانہ اقدام کی ہر طرف تعریف ہو رہی ہے۔" چین کے سوشل میڈیا اور میڈیا نے بھی انہیں "ہیرو" قرار دیا، جبکہ ان کے تعلیمی ادارے گائن میڈیکل یونیورسٹی نے انہیں تعریفی اسناد دینے کا اعلان کیا۔ پولیس سے اجازت اور جذبہ خدمت:بی بی سی سے گفتگو میں یوسف اور رفیق نے بتایا کہ وہ خیبر پختونخوا کے ضلع سوات سے تعلق رکھتے ہیں۔ یوسف نے واقعے کو یاد کرتے ہوئے کہا، "ہم نے چند دن پہلے سیاحت کا منصوبہ بنایا تھا۔ رات گئے جب ہم شنگھائی سٹیشن پر اترے تو دیکھا کہ ایک شخص زمین پر گرا ہوا ہے اور پولیس اہلکار اس کے گرد کھڑے ہیں۔ میں نے رفیق سے کہا کہ ہمیں دیکھنا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے۔" چین میں بغیر اجازت طبی امداد دینا قانونی طور پر ممنوع ہے، اور یہ بات انہیں تعلیم کے دوران بتائی جا چکی تھی۔ تاہم، انہوں نے قریب کھڑے پولیس افسر سے رابطہ کیا اور اپنے میڈیکل طالب علم ہونے کی شناخت بتائی۔ افسر نے ان کی بات سن کر فوراً اجازت دے دی۔ سی پی آر کی بدولت جان بچائی:رفیق نے اس شخص کی نبض چیک کی اور فوری طور پر سی پی آر شروع کرنے کا مشورہ دیا۔ یوسف نے ہاتھوں سے چھاتی کو دبایا اور سانس بحال کرنے کی کوشش کی۔ چند منٹوں کی محنت کے بعد اس شخص کی حالت سنبھلنے لگی۔ تقریباً 15 سے 20 منٹ بعد ایمبولنس بھی پہنچ گئی، لیکن تب تک وہ خطرے سے باہر تھا۔ عینی شاہدین اور پولیس اہلکاروں نے ان کی اس کاوش کو سراہا۔ یوسف نے بتایا، "پولیس افسر جو ہمیں اجازت دینے میں ہچکچاہٹ کر رہے تھے، آخر میں سب سے زیادہ خوش تھے اور بار بار شکریہ ادا کر رہے تھے۔" پاکستانی ثقافت اور جذبہ خدمت:رفیق نے بتایا کہ ان کے والد ڈاکٹر ہیں اور انہوں نے سوات کے مشکل حالات میں بھی لوگوں کی خدمت کی۔ ان کی بہنیں اور یوسف کے بھائی بھی ڈاکٹر ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہمارے پشتون کلچر اور خاندانی تربیت نے ہمیں سکھایا کہ مشکل وقت میں لوگوں کی مدد کرنا ہمارا فرض ہے۔ اس شخص کو اس حال میں چھوڑ کر جانا ہمارے لیے ممکن نہ تھا۔" یہ واقعہ سی سی ٹی وی فوٹیج کی بدولت وائرل ہو گیا، اور دونوں طالب علموں کی بہادری کی داستانیں چین سے لے کر پاکستان تک گونج رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بعد میں انہیں معلوم ہوا کہ وہ شخص اب مکمل طور پر صحت یاب ہو چکا ہے، جو ان کے لیے سب سے بڑی خوشی کی بات تھی۔
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اور ریاستی اداروں کیخلاف سوشل میڈیا پر پراپیگنڈا کرنیوالے ملزمان کیخلاف تین مقدمات درج کرلیے گئے۔ پولیس کے مطابق مقدمات میں پیکاایکٹ سمیت دیگر سنگین دفعات شامل کی گئی ہیں، تھانہ شاہدرہ، شاہدرہ ٹاؤن اورکوٹ لکھپت میں مقدمات کا اندراج کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق ملزمان نے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے وزیراعلیٰ پنجاب کی جعلی ویڈیوز بنائیں، سوشل میڈیا پرملک دشمن عناصر کے ایجنڈے کو پروموٹ کرنے کے لیے ویڈیوز بنائی گئیں، مخصوص جماعت نے جعلی ویڈیوز بنا کر انتشار پھیلانے کی سازش کی۔ دوسری جانب وزیراعلی پنجاب سے متعلق فنی ویڈیو پر شہری کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت وہاڑی میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے بورے والا میں پیکا ایکٹ کے تحت محمد علی کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا اور انہیں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ محمد علی بورے والا معصوم شاہ روڈ کا رہائشی ہے ۔اس نے نواز شریف اور وزیر اعلی مریم نواز کے خلاف نازیبا فنی ویڈیو بنائی تھی ۔
کراچی میں اغوا کے بعد دوست کے ہاتھوں قتل کیے جانے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کیس میں حیران کن انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ پولیس حکام کے مطابق گرفتار ملزم ارمغان نے دورانِ تفتیش قتل کا اعتراف کرلیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ملزم ارمغان نے تفتیش کے دوران انکشاف کیا کہ اس نے پہلے فولڈنگ راڈ سے مصطفیٰ کے ہاتھ اور پیر پر وار کرکے زخمی کیا، پھر اپنی رائفل سے تین فائر کیے، تاہم یہ گولیاں مصطفیٰ کو نہیں لگیں بلکہ محض وارننگ کے لیے چلائی گئیں۔ ملزم نے مزید انکشاف کیا کہ 8 فروری کو پولیس کے چھاپے کے دوران وہ بنگلے میں پولیس کے داخلے کو دیر سے دیکھ سکا۔ اگر وہ بروقت دیکھ لیتا تو پولیس سے فائرنگ کا تبادلہ طویل ہوسکتا تھا۔ مصطفیٰ کی گاڑی وہ خود خیابان محافظ سے دریجی تک ڈرائیو کرکے لے گیا تھا۔ ملزم کے مطابق مصطفیٰ کے منہ پر ٹیپ لگائی گئی اور ہاتھ پاؤں باندھ دیے گئے۔ جب مصطفیٰ کی گاڑی کو آگ لگائی گئی، اس وقت وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں زندہ تھا۔ ذرائع کے مطابق پولیس نے ملزم کے بیان کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی کی ہے اور اس کے "پلان بی"، شیروں اور فارم ہاؤس سے متعلق بھی تحقیقات جاری ہیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ارمغان نشہ فروخت کرنے اور خود استعمال کرنے میں ملوث تھا۔ بعد میں اس نے کال سینٹر کا کاروبار شروع کیا۔ دورانِ تفتیش ارمغان کے گھر سے ایک خاتون کا ڈی این اے ملا، جس کی شناخت ہوچکی ہے۔ مذکورہ لڑکی نیو ایئر نائٹ پر ارمغان کے تشدد سے زخمی ہوئی تھی، اور پولیس اب اس کی تلاش میں ہے۔ پولیس کے مطابق مصطفیٰ کو تشدد، فولڈنگ راڈ کے وار، فائرنگ یا جلانے کے ذریعے قتل کیا گیا، تاہم اصل حقائق پوسٹ مارٹم اور ڈی این اے رپورٹ کے بعد ہی واضح ہوں گے۔ تفتیش کے دوران پولیس نے ملزم ارمغان قریشی کا جعلی شناختی کارڈ بھی برآمد کرلیا۔ اس نے "ثاقب ولد سلمان علی" کے نام سے جعلی شناختی کارڈ بنوا رکھا تھا، جس میں اس کے اصل شناختی کارڈ کی تفصیلات شامل کی گئی تھیں۔ پولیس حکام کے مطابق ملزم کی نشاندہی پر رات گئے اے وی سی سی پولیس نے اس کے گھر پر چھاپہ مارا اور مزید شواہد اکٹھے کیے۔ ان شواہد کا باریک بینی سے جائزہ لیا جارہا ہے۔ تاہم، ابھی تک آلہ قتل یا آلہ ضرب برآمد نہیں ہوسکا، اور اس کی تلاش جاری ہے۔
کراچی کے اسٹیل ٹاؤن تھانے کی پولیس نے ایک انوکھی کارروائی کرتے ہوئے 4 مرحوم افراد کے خلاف توڑ پھوڑ کا مقدمہ درج کرلیا۔ تفصیلات کے مطابق اسٹیل ٹاؤن کے علاقے میں پانی کی قلت کے خلاف شہریوں نے احتجاج کیا تھا، جس کے دوران کچھ افراد نے توڑ پھوڑ کی۔ تاہم، پولیس نے مقدمہ درج کرتے ہوئے کئی سال قبل وفات پا جانے والے حاجی محمد شر، مراد، نظر محمد اور عطا محمد جوکھیو کو بھی شامل کردیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 95 سالہ بزرگ شہری کے خلاف بھی توڑ پھوڑ کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، جس پر علاقے کے مکینوں نے شدید احتجاج کیا ہے۔ وکیل کبریٰ جوکھیو کا مؤقف وکیل کبریٰ جوکھیو نے پولیس کی اس غیر معمولی کارروائی کے خلاف عدالت سے رجوع کرلیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سراسر زیادتی ہے اور وہ یہ کیس بغیر کسی فیس کے لڑیں گی۔ عوامی ردعمل علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ پہلے ہی پانی کی قلت سے پریشان ہیں، اور جب اپنے حق کے لیے احتجاج کرتے ہیں تو پولیس مقدمات درج کرکے مزید مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ شہریوں نے اعلیٰ حکام سے اس غیر منطقی اقدام کا نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
سابق وزیراعلی پرویز خٹک نے جمعیت علما اسلام میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے جس کا اعلان وہ 22 فروری کو کریں گے۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق پرویز خٹک نے مولانا فضل الرحمان سے ملاقات کی اور جمیعت علماء اسلام میں شمولیت کا اعلان کیا۔اس موقع پر پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک بھی موجود تھے۔ ملاقات میں پرویز خٹک اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان طویل مشاورت ہوئی۔ پرویز خٹک 22 فروری کو مانکی شریف نوشہرہ میں مولانا فضل الرحمان کے ہمراہ پریس کافرنس میں شمولیت کا اعلان کریں گے۔ خیال رہے کہ پرویز خٹک نے 1988 میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے کیریئر شروع کیا تھا،اسکے بعد پی پی شیر پاؤ، قومی وطن پارٹی کا حصہ رہے۔ بعدازاں پرویز خٹک 2012 میں تحریک انصاف کا حصہ بنے، 2013 میں وہ وزیراعلیٰ بنے جبکہ الیکشن 2018 میں وہ وزیر دفاع رہے۔ نو مئی واقعے کے بعد پرویز خٹک نے تحریک انصاف چھوڑدی اور 2023 میں تحریک انصاف پارلیمنٹیرین بنائی، نوشہرہ کی تمام سیٹیں ہار گئے۔ اب مولانا کے قافلے کا حصہ بنیں گے

Back
Top