خبریں

رانی پور: طاقت اور پیسہ کا اثر ظاہر ہوا جب فاطمہ فرڑو کے قتل کے معاملے میں مقتولہ کی ماں شبنم نے ملزمان سے صلح کر لی۔ وکیل قربان ملانو نے عدالت میں مدعی کی جانب سے تصفیے کا تحریری بیان پیش کیا۔ ایڈووکیٹ قربان ملانو کے مطابق، شبنم فرڑو نے کیس ختم کرنے کی استدعا کی ہے اور وہ عدالت میں ملزمان سے صلح ہونے کا بیان دے چکی ہے۔ انہوں نے عدالت سے ملزمان کو ضمانت دینے کی استدعا بھی کی ہے۔ فورتھ ایڈیشنل سیشن جج نے سماعت سترہ فروری تک ملتوی کر دی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ صلح نامہ رقم اور دباؤ کے باعث ہوئی ہے۔ سماعت کے بعد بچی کی والدہ میڈیا سے بچتے بچاتے عدالت سے روانہ ہوئیں، جبکہ ملزمان کے وکیل نے حلف نامہ جمع کرانے کی تصدیق کی۔ معاملے کے چار ملزمان، پیر اسد شاہ، حنا شاہ، فیاض شاہ اور امتیاز جیل میں ہیں۔ ذرائع کے مطابق، پیسہ لین دین کی اطلاعات پہلے سے آ رہی تھیں اور بااثر افراد کی مداخلت کے باعث مدعی نے پہلے بھی صلح کا بیان جمع کرایا تھا۔ بچی کے والدین نے کئی بار دباؤ ڈالے جانے کا انکشاف کیا تھا۔ واقعے کا پس منظر: 16 اگست 2023 کو خیرپور میں واقعہ پیش آیا جہاں بااثر پیر کی حویلی میں کمسن ملازمہ فاطمہ فرڑو پراسرار طور پر جاں بحق ہو گئی۔ اسے بغیر پوسٹ مارٹم کے دفن کر دیا گیا تھا، اور پولیس نے بغیر میڈیکل اور پوسٹ مارٹم کے کیس داخل دفتر کیا تھا۔ ابتدائی طور پر، بچی کے والدین نے بیان دیا تھا کہ ان کی بیٹی مرشد کے گھر میں کام کرتی تھی اور غربت کی وجہ سے وہ خود اپنی بچی کو وہاں چھوڑ کر آئے تھے، اور وہ بیماری کی وجہ سے فوت ہوئی ہے۔ پیر کے گھر میں بچی کی لاش کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کے بعد یہ واقعہ میڈیا کے سامنے آیا۔ بچی کی والدہ شبانہ نے ابتدائی طور پر مقدمہ درج کرانے سے انکار کیا تھا۔ بعد ازاں، پوسٹ مارٹم رپورٹ نے ظاہر کیا کہ فاطمہ کی موت طبعی نہیں بلکہ اس پر تشدد کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق، اس کے جسم پر نیل کے نشانات، خون بہنا، سوجن اور زخموں کے آثار تھے جو موت سے پہلے کے تھے۔ انتظامیہ حرکت میں آئی اور ملزمان کی گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ متوفی بچی کے والدین کے بیانات کی روشنی میں مقدمہ درج کیا گیا۔ مرکزی ملزم اسد شاہ کو پولیس کے حوالے کیا گیا، اور ڈسپینسر امتیاز میراسی کو بھی گرفتار کیا گیا۔ حویلی میں کام کرنے والی ایک اور سابقہ ملازمہ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی، جس میں لڑکی نے الزام عائد کیا کہ اگر وہ حویلی سے نہ بھاگتی تو مار دی جاتی۔
اسلام آباد: حکومت نے اسمارٹ واچز، فٹنس ٹریکرز اور دیگر پہننے کے قابل اسمارٹ ڈیوائسز کو سائبر سیکیورٹی کے لیے ایک بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے نیشنل ٹیلی کام اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی سیکیورٹی بورڈ نے ایک ایڈوائزری جاری کی ہے۔ ایڈوائزری میں بتایا گیا ہے کہ کابینہ ڈویژن نے حساس مقامات پر ان ڈیوائسز کے استعمال پر پابندی کی سفارش کی ہے۔ ذرائع کے مطابق، سائبر سیکیورٹی ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ یہ ڈیوائسز سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہیں کیونکہ وہ خفیہ معلومات کو افشاں کرنے کے لیے استعمال کی جا سکتی ہیں اور حساس مقامات پر ان کا استعمال سائبر حملوں کا باعث بن سکتا ہے۔ ایڈوائزری میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ ان ڈیوائسز سے ڈیٹا لیک اور غیر مجاز ٹریکنگ کا خطرہ ہے۔ اس لیے، ان ڈیوائسز کے استعمال سے قبل ان کے تصدیقی میکانزم کا جائزہ لینا لازمی ہے۔ خاص طور پر حساس اجلاسوں اور آپریشنز والے مقامات پر ان ڈیوائسز کے استعمال پر پابندی لگانے کی سفارش کی گئی ہے۔
افغانستان: طالبان حکومت میں لڑکیوں کی تعلیم کے معاملے پر اندرونی اختلافات کے باعث تقسیم کی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ سینئر وزیر اور نائب وزیر خارجہ شیر محمد عباس استانکزئی نے تعلیم پر پابندی کی مذمت کی اور اس کو شریعت کے خلاف قرار دیا، جس کے نتیجے میں انہیں افغانستان سے فرار ہونا پڑا۔ شیر محمد عباس استانکزئی نے ایک مدرسے کی تقریب میں واضح کیا کہ لڑکیوں پر تعلیم کی پابندی لگانا شریعت کے منافی ہے۔ ان کے اس بیان کے بعد طالبان کے سپریم لیڈر نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا تھا، لیکن شیر عباس نے ملک چھوڑ دیا اور اب وہ متحدہ عرب امارات میں موجود ہیں۔ استانکزئی نے طالبان قیادت پر زور دیا کہ وہ افغان لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دیں، ان کا کہنا تھا کہ اس پالیسی کی وجہ سے افغانستان بین الاقوامی برادری سے الگ تھلگ ہو رہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ 20 ملین خواتین کے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے، جو کہ ملک کی 40 ملین آبادی کا نصف ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں یہ بات بھی اٹھائی کہ کیا یہ فیصلے ہم سب کے لیے نہیں ہوں گے؟ انہوں نے لڑکیوں کو ان کے بنیادی حقوق سے محروم کرنے پر سوال اٹھایا، ان کو وراثتی حقوق اور شادی کے معاملات میں بھی بے بسی کا شکار بتایا۔ یہ واقعہ طالبان کی حکومت میں ایک بڑی تقسیم کی علامت ہے، جہاں ایک جانب تعلیم پر پابندی کی حمایت کی جا رہی ہے، تو دوسری جانب اس کی مخالفت بھی ہو رہی ہے۔
اوکاڑہ: اوکاڑہ کے تھانہ بی ڈویژن پولیس نے ایک شخص علی رضا کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے جس نے سوشل میڈیا پر ایک جھوٹی خبر پھیلائی۔ پولیس کے مطابق، ملزم نے واٹس ایپ گروپ "سٹی اوکاڑہ" میں ایک جعلی پیغام شیئر کیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ 10 سے 11 مشتبہ افراد نے ایک نجی ہوٹل میں اسلحہ کے زور پر نقدی لوٹ لی۔ لیکن جب پولیس موقع پر پہنچی تو انہوں نے اس واقعہ کی تصدیق نہیں کی جا سکی۔ ہوٹل کے مالک نے بھی ایک ویڈیو پیغام میں اس خبر کی تردید کی اور اسے فیک نیوز قرار دیا۔ ترجمان پولیس نے عوام کو متنبہ کیا کہ سوشل میڈیا پر کسی بھی خبر کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق ضرور کریں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ بے بنیاد اور جعلی خبریں نہ صرف معاشرے میں بے چینی اور افراتفری پھیلاتی ہیں بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کام میں بھی رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی جانب سے آرمی چیف کو لکھے گئے خط کی وصولی کی تردید کی ہے، اور کہا کہ آرمی چیف کو ایسا کوئی خط موصول نہیں ہوا اور نہ ہی اسٹبلشمنٹ کو اس خط میں کوئی دلچسپی ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق، اس خط کے حوالے سے میڈیا رپورٹس سے معلومات حاصل ہوئیں۔ ذرائع نے تحریک انصاف کی جانب سے اس معاملے کو ایک اور ناکام سیاسی حربہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی نے خط کے حوالے سے ایک اور ناکام کوشش کی ہے۔ سیکیورٹی ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ کسی بھی معاملے پر بات چیت سیاستدانوں کے ساتھ کی جائے گی۔ عمران خان کا آرمی چیف کے نام کھلا خط گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی جانب سے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو ایک کھلا خط لکھا گیا تھا۔ سوشل میڈیا ایکس سروس اکاؤنٹ سے جاری سابق وزیراعظم عمران خان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو لکھے گئے خط میں فوج اور عوام میں خلیج کی 6 نکات کی صورت میں نشاندہی کی گئی تھی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ فوج بھی میری ہے اور ملک بھی میرا ہے، ہمارے فوجی پاکستان کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ قوم فوج کے پیچھے کھڑی ہو لیکن افسوسناک امر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ سے فوج اور عوام میں خلیج دن بدن بڑھتی جا رہی ہے، اس کی کچھ بنیادی وجوہات ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کو اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام اور فوج کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے اور فوج کی بدنامی کو کم کیا جا سکے۔ عمران خان نے اپنے خط میں لکھا کہ فوج اور عوام کے درمیان فاصلوں کی سب سے بڑی وجہ 2024 کے انتخابات میں تاریخی دھاندلی اور عوامی مینڈیٹ کی سرعام چوری ہے جس نے عوام کے غصے کو ابھارا ہے، جس انداز میں ایجنسیاں پری پول دھاندلی اور نتائج کنٹرول کرنے کے لیے سیاسی انجینیئرنگ میں ملوث رہیں اس نے قوم کے اعتماد کو شدید ٹھیس پہنچائی ہے، صرف 17 نشستیں جیتنے والی پارٹی کو اقتدار دے کر اردلی حکومت مسلط کردی گئی۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے خط میں لکھا کہ دوسری وجہ 26 ویں آئینی ترمیم ہے، جس طرح 26 ویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدلیہ کو کنٹرول کرنے کی غرض سے ملک میں آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، اس کے خلاف پاکستانی عوام میں شدید نفرت پائی جارہی ہے۔ سابق وزیراعظم نے مزید لکھا کہ میرے مقدمات ’پاکٹ ججز‘ کے پاس لگانے کے لیے ناصر جاوید رانا نے فیصلے کو ملتوی کیا، عدالتوں میں جاری ’کورٹ پیکنگ‘ کا مقصد یہی ہے کہ عمران خان کے خلاف مقدمات من پسند ججز کے پاس لگا کر اپنی مرضی کے فیصلے لیے جا سکیں، اس سب کا مقصد میرے خلاف مقدمات میں من پسند فیصلے، انسانی حقوق کی پامالی اور انتخابی فراڈ کی پردہ پوشی ہے تاکہ عدلیہ میں کوئی شفاف فیصلے دینے والا نہ ہو۔ انہوں نے لکھا کہ تیسری وجہ ’پیکا‘ جیسا کالا قانون ہے، الیکٹرانک میڈیا پر پہلے ہی قبضہ کیا جا چکا ہے، اب پیکا کی صورت میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر بھی قدغن لگا دی گئی ہے، اس سب کی وجہ سے پاکستان کا جی ایس پی پلس اسٹیٹس بھی خطرے میں ہے، انٹرنیٹ میں خلل کی وجہ سے ہماری آئی ٹی انڈسٹری کو 1.72 بلین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوچکا ہے اور نوجوانوں کا کیریئر تباہ ہو رہا ہے۔ عمران خان نے لکھا کہ چوتھی اہم وجہ ملک کی سب سے بڑی اور مقبول جماعت پر ریاستی دہشت گردی کا سلسلہ مسلسل جاری ہے، ہمارے لیڈران اور کارکنان کی چادر چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے ایک لاکھ سے زیادہ چھاپے مارے گئے، 20 ہزار سے زیادہ کارکنوں اور سپورٹرز کی گرفتاریاں کی گئیں، انہیں اغوا کیا گیا، لوگوں کے خاندانوں کو ہراساں کیا گیا اور تحریک انصاف کو کچلنے کی غرض سے مسلسل انسانی حقوق کی پامالی کی جارہی ہے جس نے عوامی جذبات کو مجروح کیا ہے۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے خط میں مزید لکھا کہ پانچویں بڑی وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام کی بدولت معیشت کا برا حال ہے جس نے عوام کو مجبور کردیا ہے اور وہ پاکستان چھوڑ کر اپنے سرمائے سمیت تیزی سے بیرون ملک منتقل ہورہے ہیں، معاشی عدم استحکام اپنی انتہا پر ہے، گروتھ ریٹ صفر ہے اور پاکستان میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، کسی بھی ملک میں قانون کی حکمرانی اور عدل کے بغیر سرمایہ کاری ممکن نہیں ہوتی، جہاں دہشت گردی کا خوف ہو وہاں کوئی سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں ہوتا، سرمایہ کاری صرف تب آتی ہے جب ملک میں عوامی امنگوں کی ترجمان حکومت قائم ہو اس کے علاوہ سب کلیے بے کار ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ چھٹی بڑی وجہ تمام اداروں کا اپنے فرائض چھوڑ کر سیاسی انتقام کی غرض سے تحریک انصاف کو کچلنے کا کام کرنا ہے، میجر، کرنل سطح کے افراد کی جانب سے عدالتی احکامات کی دھجیاں بکھیرنے کا سلسلہ جاری ہے، عدلیہ کے فیصلوں کو جوتے کی نوک پر رکھا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے پوری فوج پر نزلہ گر رہا ہے، پرسوں اے ٹی سی کے جج نے عدالت میں میری اہلیہ کو شامل تفتیش ہونے کا حکم دیا اس کے باوجود کے وہ آنا چاہتی تھیں کسی نادیدہ قوت نے اس کو سبوتاژ کیا۔ عمران خان نے مزید کہا کہ بحیثیت سابق وزیراعظم میرا کام اس قوم کی بہتری کے لیے ان مسائل کی نشاندہی ہے جس کی وجہ سے فوج مسلسل بدنامی کا شکار ہو رہی ہے، میری پالیسی پہلے دن سے ایک ہی ہے یعنی فوج بھی میری اور ملک بھی میرا، ملکی استحکام اور سلامتی کے لیے ناگزیر ہے کہ فوج اور عوام کے درمیان کی خلیج کم ہو اور اس بڑھتی خلیج کو کم کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے اور وہ ہے فوج کا اپنی آئینی حدود میں واپس جانا، سیاست سے خود کو علیحدہ کرنا اور اپنی معین کردہ ذمہ داریاں پوری کرنا اور یہ کام فوج کو خود کرنا ہوگا ورنہ یہی بڑھتی خلیج قومی سلامتی کی اصلاح میں فالٹ لائنز بن جائیں گی۔
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت نے ایران کے ساتھ مال کے بدلے مال کی تجارت (بارٹر سسٹم) کے حوالے سے اہم تجاویز پیش کی ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس میں تاجر نمائندوں نے انکشاف کیا کہ اس وقت 600 سے زائد ٹرک ایران بارڈر پر روکے ہوئے ہیں، جبکہ حکام ان سے امپورٹ آرڈرز کی فراہمی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر انوشہ رحمان نے اس موقع پر بھارت کے طرز عمل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ بھارتی بینک ایران کو اپنی مقامی کرنسی میں ادائیگی کرتے ہیں، پاکستان کو بھی اس طریقہ کار پر غور کرنا چاہیے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت کا اجلاس سینیٹر انوشہ رحمان کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں ایران کے ساتھ بارٹر سسٹم کے تحت تجارت کے امکانات اور اس سلسلے میں درپیش مشکلات پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے اجلاس میں بتایا کہ بارٹر ٹریڈ کے تحت پاکستان سے غذائی اشیاء ایران برآمد کی جا رہی ہیں، لیکن اس نظام میں کئی پیچیدگیاں موجود ہیں۔ صدر ڈرائی فروٹ ٹریڈرز ایسوسی ایشن حاجی فوجان نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ بارٹر ٹریڈ میں کافی مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت ایران بارڈر پر 600 سے زائد ٹرک روکے ہوئے ہیں، جنہیں امپورٹ آرڈرز فراہم کرنے کا کہا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورتحال تاجروں کے لیے بڑی پریشانی کا باعث بنی ہوئی ہے۔ سیکرٹری تجارت جواد پال نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے 2016 میں تمام درآمدات کے لیے الیکٹرانک امپورٹ فارم (ای آئی ایف) لازمی قرار دیا تھا۔ تاہم، سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے اس پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بارٹر ٹریڈ میں کوئی ادائیگی نہیں ہوتی، اس لیے ای آئی ایف فارم کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ حکام وزارت تجارت نے کمیٹی کو بتایا کہ تاجر اپنا مال وی بوک میں بارٹر کے طور پر ڈکلیئر نہیں کرتے۔ اگر وہ ایسا کریں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ 2023 سے اب تک صرف ایک بارٹر ٹریڈ ڈکلیئر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاجر کسٹمز میں ایک درخواست جمع کروا سکتے ہیں، جس کے بعد ان کا مال بارٹر کے طور پر ڈکلیئر کر دیا جائے گا۔ سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ بارٹر ٹریڈ کے موجودہ ایس آر او کو فعال بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ گزشتہ دو سال سے اس نظام کے تحت تجارت میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر پہلے ہی ایک ذیلی کمیٹی قائم کی گئی ہے، جو اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لے گی۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بارٹر ٹریڈ میں تاجروں کو لچک دی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ تاجر اپنے مال کے بدلے میں جو چاہیں خرید سکتے ہیں، اور بعد ازاں تبدیلی کی اجازت ہونی چاہیے۔ سینیٹر انوشہ رحمان نے بھارت کے طرز عمل کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ بھارت کے تین بڑے بینک ایران کو اپنی مقامی کرنسی میں ادائیگی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو بھی اس طریقہ کار پر غور کرنا چاہیے۔ انہوں نے اس معاملے کو قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے حوالے کرنے کی تجویز پیش کی۔ سیکرٹری تجارت نے بتایا کہ وزارت تجارت میں پاکستان کسٹمز کے افسران کی تعداد زیادہ ہے، جبکہ کامرس اینڈ ٹریڈ گروپ کے افسران کا تناسب کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت تجارت کے اہم عہدوں پر اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی جانب سے تعیناتی کی جاتی ہے۔ سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ٹیکنیکل ماہرین کی کمی کے باعث پاکستان نے بعض آزاد تجارتی معاہدے کیے ہیں، جن سے فائدے کے بجائے نقصان ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو ٹیکنیکل شعبوں میں ماہرین کی تعیناتی پر توجہ دینی چاہیے۔ اجلاس کے آخر میں سینیٹر انوشہ رحمان نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے اس معاملے پر مزید بات چیت کی جائے گی، تاکہ بارٹر ٹریڈ کے نظام کو بہتر بنایا جا سکے۔
پیکا قانون سے متعلق سعد رفیق نے حکومت کو بڑا مشورہ دےدیا ان کا کہنا تھا کہ فیک نیوزبہت بڑا مسئلہ بن چکا ھےجسکا علاج لازم ھے لیکن کسی حکومت کے پاس شہریوں پر شکنجہ کسنے کے لا محدود اختیارات نہیں ہونے چاہئیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پیکا قانون پر نمائندہ میڈیا تنظیموں سے مشاورت کی جاۓ ۔اس قانون کے تحت بناۓ جانے والے ٹربیونلز کے فیصلوں کیخلاف اپیل کا حق ہائیکورٹس کو دیا جاۓ خواجہ سعد ریفق کا کہنا تھا کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے سٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے پیکا قانون میں ضروری ترامیم لانا مثبت اقدام ہوگا انہوں نے مزید کہا کہ یاد رھے قوانین کی چھڑی ھمیشہ وقت بدلنے کے ساتھ اسے بنانے والوں کیخلاف استعمال ھوتی ھے
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔۔ سب سے زیادہ مقدمات کا فیصلہ دینے والے جج بن گئے اسلام آباد ہائیکورٹ کی ویب سائٹ کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب سب سے زیادہ مقدمات یعنی 409 مقدمات کا فیصلہ دینے والے جج بن گئے۔ دوسرے نمبر پر چیف جسٹس عامر فاروق ہیں جنہوں نے 256 مقدمات کا فیصلہ دیا جبکہ جسٹس محسن اختر کیانی نے 161 ، جسٹس بابر ستار نے 128، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے 97مقدمات کا فیصلہ دیا جسٹس ارباب محمد طاہر نے 66 ، جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے 38 جبکہ جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے 30 ججمنٹس دیں دوسری جانب لاہور ہائیکورٹ سے اسلام آباد ہائیکورٹ ٹرانسفر ہونیوالے جج جسٹس سرفراز ڈوگر لاہور ہائیکورٹ میں 59 مقدمات کا فیصلہ دے چکے ہیں ، انکے بارے میں خیال کیا جارہا ہے کہ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے متوقع چیف جسٹس ہونگے۔
کراچی ایئرپورٹ پر ایف آئی اے کی کارروائی، گداگری میں ملوث 10 افراد گرفتار کراچی: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے کراچی ایئرپورٹ پر کارروائی کرتے ہوئے گداگری میں ملوث 10 افراد کو گرفتار کر لیا۔ ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق، یہ افراد سعودی عرب سے پاکستان پہنچے تھے اور انہیں گداگری میں ملوث ہونے کی وجہ سے سعودی حکام نے ڈی پورٹ کیا تھا۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزمان کا تعلق راجن پور، کشمور، نوشہرو فیروز، لاہور، پشاور، مہمند اور لاڑکانہ سے ہے۔ یہ افراد عمرہ ویزے پر سعودی عرب گئے تھے لیکن وہاں کئی ماہ سے گداگری میں ملوث تھے۔ ایف آئی اے کے مطابق، گرفتار ملزمان کو مزید قانونی کارروائی کے لیے انسدادِ انسانی اسمگلنگ سیل، کراچی منتقل کر دیا گیا ہے۔ ادارے کی جانب سے ملک کے تمام ایئرپورٹس پر سخت اسکریننگ کا عمل جاری ہے، جبکہ گداگری میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ مزید برآں، بیرونِ ملک سفر کرنے والے مسافروں کی مکمل جانچ پڑتال کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے۔
کراچی پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم اتھارٹی کی زمینوں پر تجاوزات کا انکشاف صحافی انصار عباسی کے مطابق کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) کی تقریباً ایک تہائی اراضی، جس کی مالیت اربوں روپے ہے، تجاوزات کی زد میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق، 1448 ایکڑ زمین پر غیر قانونی قبضہ ہے، جبکہ پورٹ قاسم اتھارٹی کی 30 ایکڑ زمین پر بھی غیر قانونی تعمیرات موجود ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان غیر قانونی قبضوں میں بعض حکمران سیاسی جماعتوں سے وابستہ شخصیات کی پشت پناہی کا بھی عنصر شامل ہے۔ اس کے علاوہ، وفاقی حکومت کی تقریباً 350 ایکڑ اراضی پر سندھ حکومت قابض ہے۔ وزارتِ دفاع کے مطابق، وزیرِاعظم شہباز شریف کو میری ٹائم سیکٹر کی بحالی کے منصوبے سے متعلق جو معلومات فراہم کی گئی ہیں، ان میں واضح کیا گیا ہے کہ ساحلی پٹی سے متصل قیمتی زمینوں پر تجاوزات اور بدحالی کے باعث کوئی مؤثر معاشی سرگرمی نہیں ہو رہی۔ وزیرِاعظم کے منظور کردہ ری ویمپنگ پلان کے تحت سندھ رینجرز اور دیگر متعلقہ اداروں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وفاقی ملکیتی زمین کو واگزار کرا کے اسے بندرگاہی کاروبار، ہائی رائز آپریشنز، گوداموں کی تعمیر اور تجارتی منصوبوں کے لیے استعمال میں لایا جائے۔ زمین کی ملکیت اور تجاوزات کے مسائل کراچی پورٹ ٹرسٹ کی مجموعی اراضی 8644 ایکڑ پر مشتمل ہے، جس میں سے 1098 ایکڑ پر مختلف نوعیت کی تجاوزات ہیں۔ ان تجاوزات کو تین اقسام میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: عارضی تجاوزات – چھپڑا ہوٹل، دکانیں، کیبن، غیر قانونی پارکنگ اور مویشی فارمز۔ مستقل تجاوزات – مکانات، دکانیں، مساجد، مدارس اور گودام۔ غیر قانونی تعمیرات – ایسی زمین جو لیز یا الاٹمنٹ پر دی گئی، لیکن اس پر مقررہ حد سے زیادہ توسیع کر لی گئی۔ کلفٹن میں کے پی ٹی کی 350 ایکڑ زمین پر سندھ حکومت کے قبضے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، کئی کچی آبادیاں جیسے سلطان آباد، مچھر کالونی، صالح آباد، ہجرت کالونی، یونس آباد اور دیگر علاقوں میں غیر قانونی طور پر آباد کی جا چکی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، 1993 میں اُس وقت کے وزیرِاعظم کے حکم پر بابا جزیرہ اور کاکا پیر کی زمین مخصوص رہائشی مقاصد کے لیے مختص کی گئی تھی، مگر اس کے بعد سندھ حکومت نے غیر قانونی طریقے سے سرکاری سندیں جاری کرنا شروع کر دیں، جس سے مسائل مزید پیچیدہ ہو گئے۔ قانونی پیچیدگیاں اور عملدرآمد میں رکاوٹیں کے پی ٹی نے زمین واگزار کرانے کے لیے 2011 میں سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر رکھی ہے، تاہم دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ سندھ پولیس اور دیگر متعلقہ ادارے مکمل تعاون نہیں کر رہے، جس کی وجہ سے تجاوزات کے خلاف کارروائی مؤثر ثابت نہیں ہو رہی۔ 2002 میں پورٹ سیکیورٹی فورس آرڈیننس کے تحت بندرگاہی علاقوں میں قانونی نگرانی اور کارروائی کے لیے دو مجسٹریٹس کی تعیناتی کی شق شامل کی گئی تھی، لیکن حیران کن طور پر تاحال کوئی مجسٹریٹ مقرر نہیں کیا گیا۔ پورٹ قاسم اتھارٹی کی زمین پر قبضہ پورٹ قاسم اتھارٹی، جس کی مجموعی اراضی 13,770 ایکڑ پر مشتمل ہے، اس کی 30 ایکڑ زمین پر بھی تجاوزات قائم ہیں۔ گلشن بینظیر ٹاؤن شپ اسکیم اور نارتھ ویسٹ انڈسٹریل زون کے قریب 22 ایکڑ زمین پر بھی غیر قانونی تعمیرات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سندھ حکومت کا مؤقف وزیرِاعلیٰ سندھ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ فی الحال کے پی ٹی اور سندھ حکومت کے درمیان زمین کے تنازع سے مکمل آگاہ نہیں ہیں، لہٰذا فوری طور پر کسی وضاحتی بیان کا اجرا ممکن نہیں۔
بہاولپور: ضلع لودھراں کا ایک شخص جو کہ کچے کے ڈکیتوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا، 25 دن بعد گھر واپس آ گیا، جبکہ اس کے خاندان نے اس کی غیر موجودگی میں نماز جنازہ پڑھ چکے تھے۔ ڈان نیوز کے مطابق پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ حکیم شعیب قریشی، جو ضلع لودھراں کے جلال پور پیروالا کا رہائشی تھا، کو کے کے ڈکیٹوں نے اکتوبر 2024 میں تاوان کے لیے اغوا کر لیا تھا۔ جب ڈکیتوں کو مہینوں تک اس کے خاندان سے تاوان نہیں ملا، تو انہوں نے گزشتہ مہینے شعیب کی لاش کی ایک تصویر بھیجی، جس میں اس کا جسم چادر میں لپٹا ہوا دکھایا گیا تھا۔ تاوان نہ ملنے پر گھر والوں کو بتایا کہ انہوں نے شہری کو قتل کردیا اور لاش دریا میں پھینک دی ہے۔ کفن میں لپٹی تصویر بھی بھیجی۔تصویر دیکھنے اور ڈکیتوں سے اس کے قتل کی اطلاعات ملنے کے بعد، خاندان نے اس کی موت کا سوگ منایا اور تقریباً 25 دن پہلے اس کی نماز جنازہ ادا کی۔ جب حکیم شعیب جمعے کے روز گھر واپس آیا، تو اس کے گھر پر جشن منایا گیا اور اس کے رشتہ دار بڑی تعداد میں اسے مبارکباد دینے کے لیے ملنے آئے۔ ضلع لودھراں کا رہائشی اپنے جنازے کے25دن بعد زندہ سلامت گھر لوٹ آیا۔شہری کو مبینہ طور پر کچے کے ڈاکوؤں نے اغوا کیا۔
فیصل چوہدری نے کہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں کو نیشنل ایجنڈا پر آنے کی دعوت دی ہے۔ اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل چوہدری ایڈووکیٹ نے آج جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت جلدی ختم کی گئی، عدالت کے اندر قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، بشری بی بی کو آج عدالت میں پیش نہیں ہونے دیا گیا، کمرہ عدالت میں آج بھگدڑ مچی اچانک پولیس اہلکار باہر بھاگے، نادیدہ قوتوں نے آج ساری سماعت کو سبوتاژ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بشری بی بی کو آج عدالت میں پیش نہیں ہونے دیا گیا، ان کے خلاف درج مقدمات میں شامل تفتیش بھی نہیں ہونے دیا گیا۔ہم اے ٹی سی عدالت میں جائینگے اس پر عدالت سے بات کرینگے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے کہا ہے قوم کا مینڈیٹ چوری کرنے والے کے خلاف آرٹیکل چھ لگنا چاہیئے، قاضی فائز عیسی نے فراڈ الیکشن کو تحفظ دیا، پی ٹی آئی کے ساڑھے 3 سو لوگوں کی ضمانت ہوئی لیکن کل انہیں دیگر جیلوں میں منتقل کیا گیا، ملک میں آئین معطل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا ہم ملک کی خاطر مذاکرات میں بیٹھے، حکومت بچی کھچی آزادی کو سلب کرنا چاہتی ہے، بانی نے کہا آج آزادی اظہار رائے کو دہشتگردی بنا دیا گیا ہے، ہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط کیساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں، کورٹ پیکنگ نہیں ہونی چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پی ٹی آئی سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں کو مخصوص نشستیں ملنی چاہیئں، بدقسمتی ہے پاکستان میں الیکشن فراڈ کرکے اپوزیشن کو مخصوص نشستوں سے محروم رکھا گیا۔
وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ سیاسی نفرت سے پاکستان بدنام ہو رہا ہے۔ برمنگھم میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ پاکستان کو بڑی معاشی طاقت بنائیں گے، اقتصادی میدان میں پاکستان اڑان بھر رہا ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ مضبوط معیشت ہی کسی بھی ملک کی سلامتی کی ضامن ہے، علم و ٹیکنالوجی ہی دنیا کی اصل طاقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو مشکل کی گرداب سے نکالنے کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ وفاقی وزیر نے مزید کہا کہ نفرت پر مبنی سیاست کا خاتمہ ضروری ہے، معاشرے سے سیاسی نفرت کا خاتمہ باہمی یک جہتی سے ہی ممکن ہے۔ احسن اقبال نے یہ بھی کہا کہ اوور سیز کمیونٹی کو ذمے دارانہ سوچ کو فروغ دینا چاہیے۔
پاکستان تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے صدر جنید اکبر نے کہا ہے کہ آئندہ پارٹی کے لانگ مارچ میں یہ فرق ہوگا کہ پہلے قیادت اداروں کے ساتھ رابطے میں تھی، لیکن اس بار اگر لانگ مارچ کے لیے نکلے تو کسی سے کوئی بات نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ گرفتار ہوئے تو شاہراہ ریشم، پاک افغان شاہراہ، موٹروے اور جی ٹی روڈ مکمل بند کر دیں گے۔ خیبر پختونخوا کے ضلع ملاکنڈ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جنید اکبر نے کہا کہ انہیں کوئی پی ٹی آئی کی سیاست نہ سکھائے، کیونکہ وہ گراس روٹ لیول سے آئے ہیں۔ انہوں نے بانی چیئرمین عمران خان سے کہا تھا کہ ان کی جگہ کسی ایسے شخص کو صوبے کا صدر بنائیں جس کا وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے ساتھ اچھا تعلق ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ جس دن وہ اپنی بات پر کھڑا نہ ہو سکے، اس دن پی ٹی آئی کی صدارت چھوڑ دیں گے۔ وہ پی ٹی آئی میں پیسوں کے عوض عہدے دینے کے کلچر کو ختم کریں گے اور پی ٹی آئی کی تنظیم سازی کے لیے بانی چیئرمین عمران خان سے کوئی ہدایت نہیں ملی۔ جنید اکبر نے کہا کہ موجودہ تنظیمیں ہی کام کریں گی جب تک انہیں کوئی ہدایات نہیں ملتیں۔ جو لوگ پارٹی کے جلسوں پر پیسے لگاتے ہیں، پھر وہ کرپشن بھی کرتے ہیں۔ 8 فروری کے احتجاج کے لیے وہ کسی منتخب ممبر کو بندے لینے کا ٹارگٹ نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کے رہنما، جو پارٹی کے جلسوں اور احتجاج پر کروڑوں روپے لگاتے ہیں، پھر وہ کماتے بھی ہیں۔ جنید اکبر نے کہا کہ وہ اس کلچر کو ختم کریں گے، جہاں پیسے لگا کر کمائی کی جاتی ہے۔ اب یہ نہیں چلے گا، جو انویسٹ کرتا ہے، وہ کمیشن بھی لیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 9 مئی کے بعد جس طرح ورکرز کو رلایا گیا ہے، وہ بات وہ کبھی نہیں بھولیں گے۔ جب بھی اختیار ملا، ان سب کو نشان عبرت بنائیں گے۔ یہ ان کا وعدہ ہے۔ جنید اکبر نے شہباز شریف کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اگر کل ان کی حکومت آئی تو آپ کے بچے بھی روئیں گے۔ جنید اکبر نے مزید کہا کہ اگر ان کی حکومت میں شہباز شریف کے بچے نہ روئے تو وہ پی ٹی آئی کو چھوڑ دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پہلے اور آئندہ لانگ مارچ میں بڑا فرق ہوگا، کیونکہ پہلے قیادت اداروں کے ساتھ رابطے میں تھی، لیکن اس بار اگر لانگ مارچ نکلا تو کسی سے کوئی بات نہیں کی جائے گی۔ اگر وہ گرفتار ہوئے تو شاہراہ ریشم، پاک افغان شاہراہ، موٹروے اور جی ٹی روڈ مکمل بند کر دیں گے۔
جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کے لیے 10 ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کی منظوری دے دی۔ رپورٹ کے مطابق، عدالتوں میں ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کی زیر صدارت جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کا اجلاس منعقد ہوا۔ اجلاس میں پشاور ہائی کورٹ میں ایڈیشنل ججز کی تعیناتی کے معاملے پر تفصیلی غور کیا گیا، جہاں 9 خالی آسامیوں کے لیے 40 نام زیر غور آئے۔ ذرائع کے مطابق، جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے 10 ایڈیشنل ججز کی منظوری دے دی۔ منظور شدہ ناموں میں فرح جمشید، انعام اللہ خان، اور قاضی جواد احسان اللہ شامل ہیں، جبکہ مدثر امیر، ثابت اللہ، اور اورنگزیب کو بھی ایڈیشنل جج تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔ اجلاس میں مزید عبد الفیاض، صلاح الدین، صادق علی، طارق آفریدی، اور اورنگزیب خان کو بھی ایڈیشنل جج تعینات کرنے کی منظوری دی گئی۔ یاد رہے کہ گزشتہ روز چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیے کسی دوسری ہائی کورٹ سے جج لانے کی ممکنہ کوشش کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے صدر مملکت اور چیف جسٹس کو خط لکھے تھے۔ خط میں ججز نے مطالبہ کیا کہ دوسری ہائی کورٹ سے نہ تو جج لایا جائے اور نہ ہی چیف جسٹس تعینات کیا جائے، بلکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے تین سینئر ججز میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس مقرر کیا جائے۔ عدالتی ذرائع کے مطابق، اس خط کی کاپیاں صدر پاکستان، چیف جسٹس پاکستان، سندھ ہائی کورٹ، لاہور ہائی کورٹ، اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی ارسال کی گئی ہیں۔ خط میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ کسی دوسری ہائی کورٹ سے جج لانے کے لیے Meaningful Consultation ضروری ہے، اور اس کے لیے وجوہات فراہم کرنا بھی لازم ہے۔ مزید برآں، اسلام آباد ہائی کورٹ کے مقابلے میں لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد دو لاکھ سے زائد ہے، ایسے میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی سینیارٹی کو کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
بحریہ ٹاؤن کے مالک، ملک ریاض کو جان سے مارنے کی دھمکی کا مقدمہ ان کے سیکیورٹی آفیسر، کرنل (ر) خلیل الرحمان کی مدعیت میں تھانہ آبپارہ میں درج کر لیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ درج ہونے والی ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ ملک ریاض سے ای میل کے ذریعے 50 بٹ کوائن بطور بھتہ طلب کیے گئے، جو ملکی کرنسی میں تقریباً 1 ارب 42 کروڑ روپے بنتے ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق، 12 جنوری کو ملک ریاض سے بھتہ ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا، اور عدم ادائیگی کی صورت میں انہیں، ان کے صاحبزادے اور خاندان کے دیگر افراد کو جانی نقصان پہنچانے کی دھمکی دی گئی۔ ایف آئی آر کے متن میں سیکیورٹی آفیسر کرنل (ر) خلیل الرحمان نے بتایا کہ دھمکی آمیز ای میل کے بعد ایک مشکوک شخص ملک ریاض کی بیٹی کے ریڈ زون میں واقع گھر، جہاں وہ خود بھی قیام پذیر ہیں، کی ریکی کے لیے آیا۔ اس شخص نے گھر کی تصاویر اور ویڈیوز بھی بنائیں۔ مزید یہ کہ ملک ریاض کے ریڈ زون سے ملحقہ گھر کی ریکی اور تصاویر لینے کی فوٹیج بھی سامنے آئی ہے، جس میں ایک شخص کو ان کے گھر کی تصاویر اور ویڈیوز بناتے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق، اس معاملے کی تفتیش کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ 21 جنوری کو قومی احتساب بیورو (نیب) نے ایک بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا کہ ملک ریاض "عدالتی مفرور" ہیں اور خبردار کیا کہ بحریہ ٹاؤن کے دبئی پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کو "منی لانڈرنگ" تصور کیا جائے گا۔ ملک ریاض اس وقت دبئی میں مقیم ہیں، اور نیب کے مطابق، حکومتِ پاکستان قانونی ذرائع سے ان کی حوالگی کے لیے متحدہ عرب امارات سے رابطے میں ہے۔ نیب کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ ادارے کے پاس مضبوط شواہد موجود ہیں کہ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی (راولپنڈی) اور نیو مری میں نہ صرف سرکاری بلکہ نجی اراضی پر بھی ناجائز قبضہ کیا اور بغیر اجازت ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کیں۔ مزید یہ کہ وہ عوام سے دھوکہ دہی کے ذریعے بھاری رقم وصول کر رہے ہیں۔ نیب کے مطابق، ملک ریاض 190 ملین پاؤنڈ کیس میں عدالت اور نیب دونوں کو مطلوب ہیں اور انہیں مفرور قرار دیا جا چکا ہے۔
کراچی: صارم قتل کیس کی تفتیش کے دوران ایک بڑا انکشاف ہوا ہے جہاں نارتھ کراچی میں واقع مدرسے کے مؤذن کے کمرے سے جنسی استعمال کے لیے استعمال ہونے والی ادویات برآمد ہوئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق، پولیس نے مؤذن حارث کے گھر پر چھاپہ مارا جس کے نتیجے میں یہ ادویات ملیں۔ مزید برآمد ہونے والی چیزوں میں حارث کے موبائل سے نازیبا ویڈیوز بھی شامل ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ مؤذن حیدرآباد میں ایک بچے سے رابطے میں تھا اور اسے غلط میسجز بھی بھیجتا تھا۔ صارم کی قتل کے بعد اب تک قاتل کی عدم گرفتاری پر صارم کے اہل خانہ اور علاقہ مکینوں نے پاور ہاؤس پر احتجاج کیا۔ تفتیشی پولیس نے بتایا کہ معلم حارث اس وقت حراست میں ہے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ فارنزک لیب نے مزید وقت مانگا ہے کیونکہ صارم کے جسم سے لیے گئے سیمپلز سے تاحال کوئی کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ یاد رہے کہ 20 جنوری کو پولیس افسر نے تصدیق کی تھی کہ صارم کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ عباسی شہید ہسپتال کے میڈیکو لیگل آفیسر نے پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بچے سے جنسی تشدد کی نشاندہی کی تھی۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ صارم کے جسم پر 12 زخم تھے، جن میں سے 11 موت سے پہلے لگائے گئے تھے۔ صارم کی لاش 18 جنوری کو پانی کے ٹینک سے برآمد ہوئی تھی جب اہل علاقہ نے بدبو کی شکایت کی تھی۔ اس واقعے نے سوشل میڈیا پر بھی کافی شور مچایا جس کے بعد گورنر سندھ نے صارم کے گھر جا کر اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا تھا۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'ساحل' کی رپورٹ کے مطابق، 2024 میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے کیسز کی تعداد بہت زیادہ رہی ہے، جن میں جنسی زیادتی، اغوا، گمشدگی، اور کم عمری کی شادیاں شامل ہیں۔
اسلام آباد: سینٹ میں ایک جعلی افسر کی جانب سے اہم شخصیات کو بلیک میل کرنے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ شخص، جو خود کو سرکاری ایجنسی کا افسر ظاہر کرتا تھا، نوکریوں کے جھانسے میں لوگوں کو لوٹ رہا تھا۔ سینٹ سیکرٹریٹ نے اس معاملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سینٹ کے اعلیٰ افسر کی مدعیت میں تھانہ سیکرٹریٹ میں ملزم کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔ انکوائری افسر محمد اکبر صدیق نے بتایا کہ ملزم شیگان جمشید، جو ریٹائرڈ میجر کا بیٹا ہے، نے اپنی ایک دوست خاتون کو سینٹ میں نوکری دلوائی تھی۔ انکوائری افسر کے مطابق، ایف آئی اے نے ملزم کو کروڑوں روپے کے فراڈ کے مقدمے میں گرفتار کیا ہے۔ ملزم ایجنسی کا جعلی کارڈ استعمال کرکے سینٹ سیکرٹریٹ سے کام کرواتا رہا ہے۔ یہ واقعہ سینٹ کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ اندرونی سیکیورٹی کے معیارات پر سوالیہ نشان بھی لگاتا ہے۔
اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے امریکا کی جانب سے پاکستان سمیت دیگر ممالک کے لیے امداد کی عارضی بندش پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے اپنے امدادی پروگرام کو 90 دن کے لیے معطل کیا ہے تاکہ ان کا جائزہ لیا جا سکے، تاہم امید ہے کہ یہ پروگرام جلد ہی دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔ ہفتہ وار بریفنگ کے دوران انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے 80 ہزار افغان پناہ گزینوں کو بیرون ممالک ری سیٹلمنٹ کے لیے منتقل کیا ہے، جبکہ 40 ہزار افغان پناہ گزین ابھی بھی پاکستان میں ری سیٹلمنٹ کے لیے موجود ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکا اپنے وعدے کے مطابق ان کی ری سیٹلمنٹ میں مدد کرے گا۔ شفقت علی خان نے افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ گروہ افغانستان میں چھوڑے گئے جدید امریکی ہتھیاروں کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال کر رہے ہیں، جس کے شواہد ان کے پاس موجود ہیں۔ انہوں نے کابل حکومت سے ان ہتھیاروں کے استعمال کو روکنے کا مطالبہ کیا۔ ترجمان نے مراکش کشتی واقعہ کو نازک معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نعشوں کی شناخت کا عمل جاری ہے اور 22 زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے امریکی کاروباری وفد کے دورے کو معمول کا دورہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ وزارت خارجہ کی طرف سے پراسیس نہیں کیا جا رہا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات کو بہتر کرنا چاہتا ہے۔ ترجمان نے فیک نیوز کے خطرے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ یہ معاشرے کے لیے خطرناک ہے اور ملتان میں پکڑی گئی سمز کے حوالے سے وزارت داخلہ سے بہتر ردعمل مل سکتا ہے۔ آخر میں، انہوں نے ایک امریکی خاتون کی پاکستان آمد پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ مقامی قوانین کی رو سے کارروائی کی جا رہی ہے اور قانونی ویزہ رکھنے والوں کو واپس نہیں بھیجا جا سکتا۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی ذیلی قائمہ کمیٹی خزانہ کے اجلاس میں چیئرمین ایف بی آر راشد لنگڑیال نے بتایا کہ ٹیکس قوانین ترمیمی بل صرف ڈھائی فیصد افراد کو متاثر کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بل کے تحت پراپرٹی سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو اپنی آمدن کے ذرائع ظاہر کرنا ہوں گے۔ اجلاس میں بحث کے دوران راشد لنگڑیال نے کہا کہ پاکستان میں 10 ارب روپے سے زائد اثاثے رکھنے والوں کی تعداد محض 12 ہے اور پراپرٹی میں بہت زیادہ انڈر ویلیوایشن ہوتی ہے۔ انہوں نے گزشتہ برس کی 1.695 ملین ٹرانزیکشنز کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ان میں سے 93 فیصد کی ویلیو 50 لاکھ روپے سے کم تھی، جبکہ 3.8 فیصد ٹرانزیکشنز ایک کروڑ روپے سے کم تھیں۔ چیئرمین ایف بی آر نے آن لائن ڈیکلریشن کے لیے ایک ایپ تیار کرنے کی بات کی، جس کے ذریعے جائیداد کی خریداری سے ایک گھنٹہ قبل ڈیکلریشن جمع کرائی جا سکے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر ٹیکس شدہ آمدن کو پراپرٹی سیکٹر میں استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ اس سے ان ڈیکلیئرڈ سرمائے کا استعمال بڑھ جاتا ہے۔ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بلال اظہر کیانی نے تجویز دی کہ ترمیمی بل میں ٹیکس فائلرز کی اہلیت کی تعریف کو واضح کیا جائے۔ ریئل اسٹیٹ انوسٹمنٹ ٹرسٹس کے چیئرمین عارف حبیب نے پانچ کروڑ روپے تک کی سرمایہ کاری پر پوچھ گچھ نہ کرنے کی تجویز پیش کی، جس سے انہوں نے پراپرٹی سیکٹر میں رجسٹریشن اور سرمایہ کاری میں اضافے کا امکان ظاہر کیا۔ عارف حبیب نے ترمیمی بل کے مسودے کو خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے سرمایہ دبئی کی طرف منتقل ہوا ہے۔ انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ پراپرٹی رجسٹریشن کے وقت ہی ٹیکس فائلر کی معلومات حاصل کی جائیں۔ آباد حسن بخشی نے ایف بی آر کے ڈیٹا کو پرانا قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی ویلیو ایشن کی وجہ سے پراپرٹی کی قیمت بڑھ چکی ہے اور ان کے مطابق ترمیمی بل سے 60 فیصد لوگ متاثر ہوں گے، نہ کہ صرف ڈھائی فیصد۔ یہ اجلاس بلال اظہر کیانی کی صدارت میں ہوا جس میں نااہل ٹیکس فائلرز پر جائیداد کی خریداری کی پابندی کے معاملے پر تفصیلی بحث کی گئی۔

Back
Top