خبریں

محکمہ داخلہ پنجاب نے کچے کے ڈاکوؤں کے سر کی قیمت کی دوسری فہرست جاری کر دی دوسری فہرست میں کچے کے ڈاکوؤں کے سر کی قیمت 50 لاکھ اور 25 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ محکمہ داخلہ نے کچے کے 40 خطرناک ڈاکوؤں کے نام، تصاویر اور سر کی قیمت جاری کیں جس کے مطابق 50 لاکھ سر کی قیمت والے ڈاکوؤں میں حبیب، قربان، فرحت، عیسیٰ، متارا، ایوب، شیرا، عالمگیر، غلام قادر، موج علی، فیاض، ہزارہ، چھالو بکھرانی، وزیر الیاس، شاہو منڈا، ابراہیم، شاہد، منیر الیاس، جمیل اور عاشق شامل ہیں۔ فہرست کے مطابق 20ڈاکوؤں کے سر کی قیمت 50 لاکھ اور 20 کی 25 لاکھ روپے مقرر کی گئی ہے۔ 25 لاکھ سر کی قیمت والے ڈاکوؤں میں یعقوب، شاہنواز، بشو، چھوٹو، عبدالستار، ملوک، دوست محمد، بہادر، ظفر عرف ظفر، شبیر، نواب، صابر دین، ستار، عبدالغنی، شاہ مراد، فوج علی، نذیر، یاسین، وقار اور حمزہ شامل ہیں۔ محکمہ داخلہ پہلے بھی 20 خطرناک ڈاکوؤں کے سر کی قیمت 1 کروڑ روپے مقرر کر چکا ہے
کئی بڑے تنازعات کا شکار چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی مدت ملازمت آج یعنی 26 جنوری کو ختم ہو گئی ہے۔ سکندر سلطان راجہ کا چار سالہ دور گذشتہ چیف الیکشن کمشنرز کے مقابلے میں زیادہ تر تنازعات کے گرد گھومتا رہا۔ ایک جانب پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی اس وقت کی حکومت نے ان کی تعیناتی کی حمایت کی اور پھر وہی ان کی سب سے بڑی مخالف بن گئی۔ چیف الیکشن کمشنر سے تحریک انصاف کا تنازعہ ڈسکہ الیکشن پر شروع ہوا تھا جہاں تحریک انصاف کے جیتے ہوئے امیدوار علی اسجد ملہی کو الیکشن کمیشن نے تسلیم کرنے سےا نکا رکردیا اور دوبارہ الیکشن کا حکم دیا۔ اسکے بعد چیف الیکشن کمشنر کا تنازعہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور ممنوعہ فنڈنگ کیس پر ہوا ۔ علاوہ ازیں تحریک انصاف کے انٹراپارٹی الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کی زیرقیادت ممبران نے تحریک انصاف کو بلے کے نشان سے محروم کردیا۔ چیف الیکشن کمشنر اور بعدازاں قاضی فائز عیسیٰ کے اس فیصلے کی وجہ سے تحریک انصاف کو بینگن، مولی، چارپائی، فاختہ، کلاک، بطخ جیسے نشانات پر الیکشن لڑنا پڑا۔ آٹھ فروری الیکشن میں تحریک انصاف کی واضح برتری کو ختم کرنے کاالزام بھی چیف الیکشن کمشنر کے سر آتا ہے اور انکی اس رات خفیہ ملاقات کا بہت چرچا ہے جس کے بعد الیکشن کے نتائج تبدیل ہوتے رہے۔ اس رات نتائج میں غیرمعمولی تاخیر ہوئی اور اس رات ان کا الیکشن کمیشن سے اچانک چند گھنٹوں کے لیے غائب ہو جانا بھی آج تک واضح نہیں۔ علاوہ ازیں الیکشن کے بعد بھی تحریک انصاف سے نشستیں چھیننے کا سلسلہ جاری رہا اور کئی ایم این ایز دوبارہ گنتی کے نام پر سیٹوں سے محروم کردئیے گئے۔ چیف الیکشن کمشنر کی مدت ملازمت اگرچہ ختم ہوگئی ہے مگر اسکے باوجود وہ کام جاری رکھیں گے۔ وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا تقرر آئین کے مطابق ہوگا اور آئین اجازت دیتا ہے جب تک نئی تعیناتی نہیں ہوتی یہ کام جاری رکھ سکتے ہیں۔ اس پر صحافی فہیم اختر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ،ممبر سندھ نثار درانی اور ممبر بلوچستان شاہ محمد جتوئی کی پانچ سالہ آئینی مدت مکمل ہوگئی اب عدت شروع ہے
سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں احساس پروگرام کی سربراہ اور معاون خصوصی ڈاکٹر ثانیہ نشتر فوربز میگزین کی "فوربز اوور 50 گلوبل" فہرست میں شامل ہوگئی ہیں۔ فوربز نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ ثانیہ نشتر عوامی صحت کے سب سے اہم کاموں میں سے ایک انجام دے رہی ہیں:** Gavi، عالمی ویکسین الائنس کی سی ای او کے طور پر، نشتر کی ذمہ داری ہے کہ وہ 2026 سے 2030 کے درمیان کم آمدنی والے ممالک میں 50 کروڑ بچوں کو ویکسین فراہم کرنے کے ادارے کے ہدف کو پورا کریں۔ وہ 2024 میں اس عہدے پر فائز ہوئیں، اس سے قبل وہ پاکستانی حکومت میں سینیٹر اور وزیر اعظم کی خصوصی معاون کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔ عالمی جریدے فوربز کا مزید کہنا تھا کہ طبی تعلیم اور پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر، ثانیہ نشتر نے 1996 میں پاکستان کی پہلی خاتون کارڈیالوجسٹ بن کر شہرت حاصل کی۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ انہیں "امیر لوگوں سے گھنٹوں ان کے ہائی بلڈ پریشر کے بارے میں بات کرنے" میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اور دو سال بعد انہوں نے پاکستان میں صحت کے عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے غیر منفعتی تنظیم **ہارٹ فائل** کی بنیاد رکھی۔ انکے مطابق ثانیہ نشتر کا یہ سفر نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ مہارت کو ظاہر کرتا ہے بلکہ عوامی صحت کے شعبے میں ان کی گہری وابستگی اور خدمت کے جذبے کو بھی عکس کرتا ہے۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ فوربز میگزین کی "فوربز اوور 50 گلوبل" فہرست میں شامل ہونے پر بے حد شکرگزار ہوں، جہاں میں متاثر کن اور راہنماؤں کے ساتھ شامل ہوں۔ انہوں نے مزید کہا کہ Gavi کے سی ای او کے طور پر "عوامی صحت کے سب سے اہم کاموں میں سے ایک" کی خدمت کرنا ایک اعزاز ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر ثانیہ نشتر تحریک انصاف کی سابق سینیٹر رہ چکی ہی اور عمران خان کے دور حکومت میں وہ احساس پروگرام سمیت کئی اہم پراجیکٹس کی سربراہ رہ چکی ہیں۔ ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے نہ صرف احساس پروگرام کو کامیابی سے چلایا بلکہ مفت علاج کیلئے صحت پروگرام، دسترخوان پروگرام، غریب افراد کیلئے پناہ گاہوں میں بھی انکی معاونت شامل ہے۔
ناروال میں کاشتکاروں کو اپنی فصل کی مناسب قیمت نہ ملنے پر ایک کسان نے منفرد احتجاج کرتے ہوئے 50 من گوبھی مفت تقسیم کر دی۔ نجی چینل اے آر وائی نیوز کے مطابق، صادق آباد کے ایک کاشتکار نے سبزی منڈی میں گوبھی سے بھری گاڑی خالی کر دی اور ساری سبزی ہوا میں اچھال کر لوگوں میں مفت بانٹ دی۔ صادق آباد کے اس مایوس کاشتکار کا کہنا تھا کہ منڈی میں گوبھی کی قیمت محض دو روپے فی کلو ہے، جبکہ فصل تیار کرنے میں اُن کا خرچہ 30 سے 40 ہزار روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ کاشتکار مدثر عمر نے کہا کہ گوبھی کو دو روپے فی کلو کے بھاؤ پر بیچنے سے بہتر ہے کہ اسے غریبوں میں مفت تقسیم کر دوں۔ اُنہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ کھاد اور بجلی پر سے ٹیکس ختم کیا جائے، تاکہ کاشتکاروں کے اخراجات میں کمی آ سکے۔ یہ واقعہ کاشتکاروں کے مسائل اور فصلوں کی کم قیمت کے باعث ہونے والی مالی مشکلات کو اجاگر کرتا ہے۔ دوسری جانب ایک اور کسان کی ویڈیو وائرل ہورہی ہے جو گوبھی کی قیمت کم لگنے پر سر پر گوبھی کا پھول مار مار کراحتجاج کررہا ہے۔ اسکا کہنا ہے کہ اس موسم میں سبزی گوبھی کی قیمت بہت گر گئی ہے 14 روپے کلو منڈی کا ریٹ ہے ۔ واضح رہے کہ لاہور میں گوبھی اس وقت انتہائی کم نرخوں پر مل رہی ہے، گوبھی کی قیمت 20 روپے سے 40روپے فی کلو عام سبزی کی دکانوں پر مل رہی ہے جبکہ منڈی میں ریٹ انتہائی کم ہے۔
حب آٹو کراس ریلی 2025 کے دوران ایک المناک حادثے میں رضاکار ٹریفک مارشل دانش زخمی ہونے کے بعد انتقال کر گئے۔ واقعے کے بعد منتظمین نے فوری طور پر ریلی کو ملتوی کرنے کا اعلان کر دیا۔ تفصیلات کے مطابق، یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب ڈرائیور طارق خان کی گاڑی کنٹرول سے باہر ہو گئی اور ٹریک کے قریب کھڑے رضاکار دانش سے ٹکرا گئی۔ گاڑی کی تیز رفتار اور قابو سے باہر ہونے کی وجہ سے دانش کو شدید چوٹیں آئیں، جن میں ریڑھ کی ہڈی اور سر کی چوٹیں شامل تھیں۔ حادثے کے فوری بعد دانش کو قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا، لیکن وہ اپنی جان بچانے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ریسکیو 1122 کے عہدیدار حسان خان نے بتایا کہ گاڑی میں حفاظتی سامان کی وجہ سے ڈرائیور طارق خان کو معمولی چوٹیں آئیں، لیکن بدقسمتی سے دانش کی حالت تشویشناک تھی۔ انہوں نے بتایا کہ حادثے کی وجہ تیز رفتاری اور گاڑی کا کنٹرول کھو دینا تھا۔ واقعے کے بعد ریلی کے منتظمین نے فوری طور پر تمام سرگرمیاں معطل کر دیں اور مزید تحقیقات کا اعلان کیا۔ انہوں نے دانش کے خاندان کے ساتھ مکمل تعاون کا بھی یقین دلایا۔ ریلی کے شرکا اور انتظامیہ نے دانش کی موت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ حب آٹو کراس ریلی 2025 کے شرکا اور ناظرین کے لیے یہ واقعہ ایک صدمے سے کم نہیں تھا۔ منتظمین نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ اس المناک واقعے کے بعد خاندان کے ساتھ ہمدردی کا مظاہرہ کریں اور ریلی کی مستقبل کی سرگرمیوں کے بارے میں مزید اعلان کا انتظار کریں۔ یہ واقعہ ایک بار پھر خطرناک کھیلوں کے دوران حفاظتی اقدامات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ منتظمین نے زور دیا ہے کہ آنے والی ریلیوں میں حفاظتی انتظامات کو مزید بہتر بنایا جائے گا تاکہ ایسے واقعات کو مستقبل میں روکا جا سکے۔
ضلع خیبر کے علاقے باغ میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں چار خارجی دہشت گرد ہلاک ہوگئے جن میں ایک اہم رنگ لیڈر عزیر الرحمٰن عرف قاری اسمٰعیل بھی شامل تھا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق، سیکیورٹی فورسز نے دہشت گردوں کی موجودگی کی خفیہ اطلاع کے بعد یہ کارروائی کی۔ ہلاک ہونے والوں میں رنگ لیڈر عزیر الرحمٰن عرف قاری اسمٰعیل کے علاوہ رنگ لیڈر مخلص بھی شامل تھا جو سیکورٹی فورسز سے مقابلے میں مارا گیا۔ یہ واقعہ اس وقت سامنے آیا جب دو روز قبل بلوچستان کے ضلع ژوب میں بھی سیکیورٹی فورسز نے افغانستان سے دراندازی کی کوشش ناکام بناتے ہوئے 6 خارجی دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ 22/23 جنوری کی رات کو ایک گروپ پاکستان-افغانستان سرحد سے دراندازی کرنے کی کوشش میں تھا۔ سیکورٹی فورسز نے ضلع ژوب کے علاقے سمبازہ میں انہیں ٹریس کر کے ناکام بنایا اور چھ دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ ہلاک ہونے والوں سے بھاری مقدار میں اسلحہ، گولہ بارود اور دھماکا خیز مواد بھی برآمد ہوا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، پاکستان نے افغانستان کی عبوری حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سرحد پر مؤثر بارڈر مینجمنٹ کو یقینی بنائے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے توقع ظاہر کی ہے کہ افغان عبوری حکومت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے گی اور خوارج کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے افغان سرزمین کا استعمال نہیں کرنے دے گی۔
حکومت نے گزشتہ سال فریضہ حج ادا کرنے والے عازمین کے لیے تقریباً 40 ہزار روپے واپس کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نجی ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر مذہبی امور چودھری سالک نے بتایا کہ رقوم کی واپسی عازمین کی کیٹیگری کے مطابق ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس سال حجاج کو اتنی ہی قیمت پر زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں گی، جس کا مطلب ہے کہ ہر حاجی کو تقریباً 40 ہزار روپے واپس ملیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پرانی قیمت پر منیٰ میں اضافی سہولتیں دی جائیں گی۔ وزیر مذہبی امور نے بتایا کہ اس سال حج کے دوران حجاج کو تین وقت کا کھانا مہیا کیا جائے گا، اور منیٰ میں اس دفعہ روم کولر کی جگہ ائیر کنڈیشنڈ خیمے فراہم کیے جائیں گے۔ گزشتہ سال کے برعکس، اس سال منیٰ میں کپڑے کے خیموں کی جگہ جپسم کے بنے خیمے دیئے جائیں گے، جو حجاج کے لیے ایک بڑی سہولت ہوگی۔ اس کے علاوہ، عازمین کو "روڈ ٹو مکہ" کی سہولت بھی حاصل ہوگی۔
راولپنڈی کی ایک عدالت نے سوشل میڈیا کے ذریعے مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں چار مجرمان کو سزائے موت سنائی ہے۔ تفصیلات کے مطابق یہ فیصلہ ایڈیشنل سیشن جج محمد طارق ایوب نے سنایا۔ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کی جانب سے پراسیکیوٹر ملک سکندر اور مدعی مقدمہ شیراز فاروقی کی جانب سے ایڈووکیٹ راجا عمران خلیل عدالت میں پیش ہوئے۔ سزا پانے والے مجرمان میں رانا عثمان، اشفاق علی، سلمان سجاد اور واجد علی شامل ہیں۔ عدالت نے مجرمان کو مختلف سیکشنز کے تحت سزا سنائی: سیکشن 295 سی کے تحت سزائے موت سیکشن 295 بی کے تحت ہر ایک کو 10 سال قید سیکشن 295 اے کے تحت ہر ایک پر 10 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی حکم دیا کہ مجرمان کو ان کی موت تک پھانسی دی جائے۔ یاد رہے کہ یہ مقدمہ پیکا کے سیکشن 11 کے تحت اکتوبر 2022 میں درج کیا گیا تھا۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) نے قومی اسمبلی میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز (ترمیمی) بل 2025 کی منظوری پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بل بنیادی حقوق کو محدود کرتا ہے۔ ایچ آر سی پی کے چیئرمین اسد اقبال بٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ ریاست کے ڈیجیٹل اظہارِ رائے کے تحفظ کے حوالے سے پسماندہ ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے، اگر یہ بل قانون بن جاتا ہے، تو یہ سیاسی کارکنوں، انسانی حقوق کے مدافعت کاروں، صحافیوں اور اختلاف رائے رکھنے والوں کو نشانہ بنانے کا ایک اور ذریعہ بن سکتا ہے، کیونکہ یہ ریاستی اداروں پر تنقید کو مؤثر طریقے سے جرم قرار دے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بل کے سیکشن اے 26 میں 'جعلی یا جھوٹی خبروں' پر زور دینا تشویش کا باعث ہے، کیونکہ اس بل کا متن 'جعلی خبروں' کی واضح تعریف فراہم نہیں کرتا اور اس کے بجائے عوام میں 'خوف، گھبراہٹ، بدنظمی یا انتشار' جیسے مبہم نتائج کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، تین سال تک کی قید کی سزا غیر ضروری طور پر سخت ہے۔ اسد اقبال بٹ کا کہنا تھا کہ ڈیجیٹل مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے چار نئی اتھارٹیز کے قیام سے غیر ضروری اور غیر متناسب پابندیاں عائد ہوں گی، جو اظہارِ رائے اور رائے کی آزادی کو مزید محدود کر دیں گی۔ اس کے ساتھ ہی، سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹریبونل میں اپیلوں کو براہ راست سپریم کورٹ میں لے جانے اور اس ٹریبونل کے حکومتی نامزد ممبران پر مشتمل ہونے کی تجویز بھی باعثِ تشویش ہے، کیونکہ یہ عدالتی نگرانی کو کم اور انتظامی کنٹرول کو بڑھانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایچ آر سی پی نے حکومت کو یاد دہانی کرائی کہ ڈیجیٹل آزادیوں کو پہلے ہی مختلف قوانین اور پالیسیوں کے ذریعے زیادہ تر ریگولیٹ کیا جا چکا ہے، جس کے نتیجے میں لوگوں کے حقِ معلومات اور کنیکٹیویٹی کو نقصان پہنچا ہے، جو کہ اکیسویں صدی کی جمہوریت کے لیے ضروری ہیں۔ اس بل کو سینیٹ میں پیش کرنے سے قبل کھلے اور تفصیلی مباحثے کی ضرورت ہے۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور نے صحت کارڈ میں لائف انشورنس اسکیم شامل کرنے کا اہم فیصلہ کیا ہے۔ جمعہ کے روز اس اسکیم کے نفاذ کے لیے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے گئے۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ نے کہا کہ خیبرپختونخوا لائف انشورنس اسکیم شروع کرنے والا پہلا صوبہ بن گیا ہے۔ وزیراعلیٰ نے وضاحت کی کہ اسکیم کے تحت 60 سال تک عمر کے خاندان کے سربراہ کی وفات کی صورت میں 10 لاکھ روپے دیے جائیں گے، جبکہ 60 سال سے زائد عمر کے خاندان کے سربراہ کے انتقال پر 5 لاکھ روپے کی رقم فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ خیبرپختونخوا کابینہ کے اجلاس میں وزیراعلیٰ نے تمام منصوبوں کو مقررہ وقت کے اندر مکمل کرنے کی ہدایت جاری کی۔ کابینہ نے سالانہ ترقیاتی پروگرام میں گھروں کی سولرائزیشن کے منصوبے کو شامل کرنے کی بھی منظوری دی۔
بیرسٹر گوہر علی نے کہا ہے کہ اگر حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات کے نتیجے میں 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر کمیشن قائم نہیں کیا جا رہا، تو ہم نے حکومت کے ساتھ صرف رسمی ملاقات یا فوٹو سیشن کے لیے بیٹھنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا۔ جوڈیشل کمپلیکس کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے ہونے والے احتجاج سے متعلق ایک مقدمہ درج ہوا، جس میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئیں۔ اس مقدمے میں درخواست ضمانت پر سماعت جاری ہے، اور جج نے امید ظاہر کی ہے کہ اگلی سماعت، جو 4 تاریخ کو ہے، اس پر کیس ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ متعدد وکلاء کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں، جن میں پیشیاں بھی ہو رہی ہیں۔ بیرسٹر گوہر علی کا کہنا تھا کہ مذاکرات ایک بہترین حل ہیں اور ہم نے یہ تحفظات کے باوجود خلوص نیت کے ساتھ شروع کیے تھے۔ لیکن حکومت کی جانب سے ہمارے ساتھ زیادتی کی گئی، اور ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی کو جن حالات میں سزا دی گئی، وہ انتہائی قابل افسوس ہیں۔ اس کے باوجود خان صاحب نے صرف دو مطالبات کے تحت مذاکرات کی بات کی تھی۔ مذاکرات کا پہلا دور 23 دسمبر کو ہوا، دوسرا 2 جنوری کو، اور تیسرا 16 جنوری کو طے پایا۔ اس دوران ہم نے حکومت کو کہا تھا کہ وہ سات دن کے اندر واضح کریں کہ کمیشن بنانے جا رہے ہیں یا نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کمیشن کے حوالے سے ججز، ٹی او آرز، مدت اور دیگر نکات طے ہونا ضروری تھے، لیکن حکومت کی طرف سے کوئی پیش رفت نہیں کی گئی، جو ان کی نیت پر سوالیہ نشان لگاتی ہے۔ بیرسٹر گوہر علی نے کہا کہ اگر کمیشن قائم نہیں کیا جا رہا، تو ہم حکومت کے ساتھ صرف رسمی ملاقات کے لیے نہیں بیٹھ سکتے۔ ان حالات کے پیش نظر خان صاحب نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ پاکستان تحریک انصاف ایک سیاسی جماعت ہے اور دیگر تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار تھی۔ خان صاحب نے خود مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل دی، لیکن حکومتی رویے کے باعث یہ عمل آگے نہ بڑھ سکا۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا کے خلاف ایک ریفرنس دائر کیا گیا ہے، جو اسسٹنٹ اٹارنی جنرل شیراز ذکا کی جانب سے پیش کیا گیا۔ ریفرنس میں کہا گیا ہے کہ نجی کمپنی بنام وزارت پٹرولیم کا مقدمہ سات سال سے جسٹس شمس محمود مرزا کی عدالت میں زیر التوا ہے۔ ہر سماعت پر وہ درخواست گزار کمپنی کے حق میں حکم امتناع میں توسیع کرتے آ رہے ہیں۔ ریفرنس کے مطابق، گزشتہ ڈیڑھ سال میں اس کیس کی تین سماعتیں مقرر ہوئیں، لیکن جسٹس شمس نے مبینہ طور پر درخواست گزار کو فائدہ پہنچانے کے لیے فیصلہ نہیں دیا۔ کیس 40.1 کروڑ روپے کی پیٹرولیم لیوی سے متعلق ہے، جس کی وجہ سے حکومت پاکستان کو نقصان اٹھانا پڑا۔ ایف آئی اے کی انکوائری کے مطابق، جسٹس شمس کے حکم امتناع کی وجہ سے اس معاملے پر ہونے والی تفتیش معطل ہو چکی ہے۔ ریفرنس میں مزید الزام لگایا گیا ہے کہ جسٹس شمس محمود مرزا نے جان بوجھ کر کیس کا فیصلہ محفوظ کیا اور 20 روز تک کیس فائل اپنے پاس رکھی۔ اس تاخیر کو ان کی نااہلیت اور مبینہ بددیانتی قرار دیا گیا ہے۔ ریفرنس میں درخواست کی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جسٹس شمس محمود مرزا کو عہدے سے ہٹایا جائے۔ اس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد کسی بھی جج کو نااہلی ثابت ہونے پر عہدے سے برطرف کیا جا سکتا ہے۔
پاکپتن میں واٹس ایپ گروپ ایڈمن گرفتار، وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی توہین کا الزام ڈان نیوز کے مطابق ، پاکپتن میں ایک واٹس ایپ گروپ کے ایڈمن کو جمعہ کے روز گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے "پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016" (PECA) کی خلاف ورزی کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے خلاف ایک توہین آمیز پوسٹ اپنے گروپ میں شیئر کرنے کی اجازت دی۔ جمعرات کو درج ہونے والی فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) کے مطابق، ایک پوسٹ جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے خلاف توہین آمیز اور "گندی زبان" استعمال کی گئی تھی، واٹس ایپ گروپ میں اپ لوڈ کی گئی۔ ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ ملزم نے جان بوجھ کر ایک غیر اخلاقی اور توہین آمیز پوسٹ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی، جبکہ گروپ ایڈمن، یہ جانتے ہوئے کہ یہ پوسٹ غیر اخلاقی، توہین آمیز اور غیر قانونی ہے، اسے ڈیلیٹ کرنے کے بجائے گروپ کے دیگر ممبران کو اسے دیکھنے کا موقع دیا۔ ایف آئی آر میں مزید کہا گیا کہ گروپ ایڈمن عوام کے درمیان "افراتفری پھیلانے" کی کوشش کر رہا تھا۔ ملزم اور گروپ ایڈمن کے خلاف "پیکا" کی سیکشن 20 (قدرتی شخص کی عزت کے خلاف جرائم) اور پاکستان پینل کوڈ کی سیکشن 509 (عزت پر حملہ یا جنسی ہراسانی) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ دریں اثنا، پاکپتن کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) جاوید چدڑ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے گروپ ایڈمن کی گرفتاری کی تصدیق کی۔ یہ پاکپتن میں پیکا ایکٹ کے تحت درج ہونے والا پہلا کیس ہے۔ ڈی پی او چدڑ نے کہا، "ایک ملزم نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف ایک بدنیتی پر مبنی اور توہین آمیز پوسٹ واٹس ایپ گروپ میں شیئر کی۔ گروپ ایڈمن کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔" بیان کے مطابق، ڈی پی او نے پوسٹ کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد نوٹس لیا اور فرید نگر پولیس کو ہدایت دی کہ وہ گروپ ایڈمن اور پوسٹ اپ لوڈ کرنے والے مشتبہ شخص کو ٹریک کر کے گرفتار کریں۔ بیان کے اختتام میں کہا گیا، "مزید تحقیقات جاری ہیں۔" 2016 میں متعارف کرایا گیا پیکا قانون اپنے نفاذ کے بعد سے وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنتا رہا ہے اور اسے بنیادی طور پر اختلاف رائے کو دبانے کے لیے ایک کالا قانون قرار دیا گیا ہے۔ گزشتہ آٹھ سالوں کے دوران اس کا کثرت سے استعمال سیاستدانوں، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور یہاں تک کہ عام سیاسی کارکنوں کے خلاف کیا گیا ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی نے ملک کے سائبر کرائم قوانین میں ایک متنازع ترمیمی بل منظور کیا، جس پر پی ٹی آئی کے قانون سازوں اور صحافیوں نے واک آؤٹ کیا۔ بل میں ایک نئی شق، سیکشن 26(A)، شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے جو آن لائن "جعلی خبروں" کے مجرموں کو سزا دے گی۔ اس میں کہا گیا: "جو بھی جان بوجھ کر کسی بھی معلوماتی نظام کے ذریعے ایسی معلومات پھیلائے، عوامی نمائش کرے یا منتقل کرے جس کے بارے میں اسے علم ہو یا یقین کرنے کی معقول بنیاد ہو کہ وہ جھوٹی یا جعلی ہیں اور عوام یا معاشرے میں خوف، گھبراہٹ یا بدنظمی پیدا کرنے کا باعث بن سکتی ہیں، اسے تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔"
اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) نے اعلان کیا ہے کہ گزشتہ ہفتے ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایس بی پی کے مطابق، 17 جنوری کو ختم ہونے والے ہفتے میں زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر 27 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کم ہو کر 16 ارب 18 کروڑ 93 لاکھ ڈالر رہ گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق، سرکاری ذخائر میں یہ کمی آئی ہے کہ اب یہ ذخائر 11 ارب 44 کروڑ 87 لاکھ ڈالر کی سطح پر آگئے ہیں۔ اس کے علاوہ، کمرشل بینکوں کے پاس 4 ارب 74 کروڑ ڈالر کے ذخائر موجود ہیں۔ یہ اعلامیہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے جاری کیے گئے اعداد و شمار پر مبنی ہے جس میں 17 جنوری کو زرمبادلہ کے مجموعی ذخائر کا حجم ریکارڈ کیا گیا ہے۔
لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر (سی ٹی او) اطہر وحید نے اعلان کیا ہے کہ اب لاہور میں موٹرسائیکل چلانے والے اور ان کے ساتھ پیچھے بیٹھنے والے دونوں کے لیے ہیلمٹ پہننا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔ اطہر وحید نے اس بات کی وضاحت کی کہ گاڑی چلاتے وقت، ڈرائیور کے ساتھ ساتھ ساتھ بیٹھنے والا بھی سیٹ بیلٹ لگائے گا۔ ان کے مطابق، ہیلمٹ لازمی کرنے کا فیصلہ ہیڈ انجری کے بڑھتے واقعات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ سی ٹی او نے مزید بتایا کہ یہ قوانین آج سے ہی نافذ العمل ہوں گے اور ٹریفک پولیس لاہور ان ہدایات پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ موٹرسائیکل چلانے والا اور پیچھے بیٹھنے والا دونوں ہی ہیلمٹ کا استعمال کریں گے۔
پی آئی اے کے پانچ فضائی میزبان اسمگلنگ میں ملوث، درجنوں موبائل فون برآمد دبئی سے ملتان آنے والی پی آئی اے کی پرواز کے عملے کے پانچ ممبران کو اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ کسٹمز حکام نے اسمگل شدہ 78 بیش قیمت موبائل فون برآمد کیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، کسٹمز نے ایک خفیہ اطلاع پر کارروائی کرتے ہوئے دو ایئر ہوسٹس، نشاط اور صدف ناصر سے 24 موبائل فونز برآمد کیے۔ ان کی تفتیش کے بعد، ان کی نشاندہی پر تین مرد میزبان، عمران، خالد اور سینئر پرسن فیصل پرویز کو ہوٹل سے واپس بلایا گیا اور ان سے مزید 54 فونز برآمد کیے گئے۔ کسٹمز کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان تمام فضائی میزبانوں کو حراست میں لے کر مزید تفتیش اور قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ گزشتہ برس اکتوبر میں بھی پی آئی اے کا ایک فضائی میزبان، فیصل مجید، ٹورنٹو سے اسلام آباد آنے والی پرواز پی کے 782 پر 16 مہنگے موبائل فونز اسمگل کرتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی نے پیکا ایکٹ میں ترمیم کا متنازع بل منظور کر لیا ہے۔ یہ بل وفاقی وزیر رانا تنویر نے پیش کیا تھا، جس کے تحت ایک نئی شق 1 اے شامل کی گئی ہے۔ اس شق کے تحت "سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی" قائم کی جائے گی، جو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ریگولیٹ کرنے اور سہولت فراہم کرنے کی ذمہ دار ہوگی۔ ترمیمی بل کے مطابق یہ اتھارٹی سوشل میڈیا صارفین کے تحفظ اور ان کے حقوق کو یقینی بنائے گی۔ اس کے علاوہ، یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن، معیارات کے نفاذ اور خلاف ورزی کی صورت میں تادیبی کارروائی کرنے کی مجاز ہوگی۔ اتھارٹی کو غیر قانونی مواد ہٹانے اور متعلقہ فرد یا ادارے کو 24 گھنٹے میں درخواست دینے کا پابند بنانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہوگی، جن میں سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، اور چیئرمین پیمرا بطور ایکس آفیشو اراکین شامل ہوں گے۔ چیئرمین کے لیے کم از کم بیچلرز ڈگری اور متعلقہ شعبے میں 15 سال کا تجربہ لازمی ہوگا۔ چیئرمین اور 5 اراکین کو 5 سالہ مدت کے لیے تعینات کیا جائے گا۔ حکومت نے اس اتھارٹی میں صحافیوں کو بھی نمائندگی دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 5 اراکین میں 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، ایک سافٹ ویئر انجینئر، وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل، اور نجی شعبے سے ایک آئی ٹی ماہر شامل ہوں گے۔ اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں بھی اس کے دفاتر قائم کیے جائیں گے۔
راولپنڈی: 2 وکلا کو قتل کرنے والے پولیس کمانڈو کو 3 مرتبہ سزائے موت سنا دی گئی۔ عید الفطر سے ایک دن قبل سیشن عدالت میں 2 وکلا کو قتل کرنے کے کیس میں پولیس کمانڈو کانسٹیب انتظار شاہ کو 3 مرتبہ سزائے موت سنا دی گئی۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے فیصلہ سنایا، مجرم کو 10 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی ادا کرنا ہوگا۔ اپنے فیصلے میں عدالت نے کہا کہ مجرم پولیس اہلکار کو اس وقت تک پھانسی پر لٹکائے رکھا جائے جب تک موت نہ آ جائے۔ عدالت نے مجرم کو 2 وکلا ملک اسرار اور ذوالفقار احمد ایڈووکیٹس کے قتل میں دو مرتبہ سزائے موت سنائی، دہشت گردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کے تحت جرم ثابت ہونے پر بھی پھانسی کی سزا دی گئی۔ مجرم نے 2024 میں عید سے ایک دن قبل عدالت میں پیش دو وکلا کو فائرنگ کر کے قتل کیا تھا، مجرم کو سزا کے بعد اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا۔ مجرم پولیس کانسٹیبل کو پولیس ملازمت سے بھی برطرف کر دیا گیا۔
اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے سوشل میڈیا کے قوانین کو سخت کرنے کے لیے پیکا ایکٹ ترمیمی بل پاس کر دیا، جس کے بعد پی ٹی آئی کی رکن زرتاج گل اجلاس سے واک آؤٹ کر گئیں۔ ایکسپریس نیوز کے مطابق، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی راجہ خرم نواز کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ راجہ خرم نواز نے ارکان کو بتایا کہ آج کے ایجنڈے میں پریوینشن آف الیکٹرانک کرائم ایکٹ (پی کا) میں مزید ترامیم کا بل شامل ہے۔ جمشید دستی نے سوال اٹھایا کہ ہنگامی اجلاس بلانے کی کیا ضرورت تھی؟ ملک میں کالے قوانین لائے جا رہے ہیں، کشتی حادثے پر ڈی جی ایف آئی اے کو استعفی دینا چاہیے۔ زرتاج گل نے کہا کہ یکدم اجلاس بلالیا گیا ہے، جب کہ سیشن ابھی جاری ہے۔ کالے قوانین کے لیے اتنی جلد بازی کی جاتی ہے۔ سیکریٹری داخلہ کے اجلاس میں نہ آنے پر ارکان برہم ہوئے، جس پر چیئرمین نے کہا کہ فوری طور پر سیکریٹری داخلہ کو بلایا جائے۔ جمشید دستی نے کہا کہ ملک میں اس بل سے زیادہ دیگر مسائل چل رہے ہیں، جیسے کشتی حادثے میں ہمارے لوگوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ ڈی جی ایف آئی اے کہاں ہیں، ایف آئی اے کیا کر رہی ہے؟ زرتاج گل نے کہا کہ اس بل کو پاس کروانے کی اتنی جلدی کیوں ہے؟ حکومت کے جو کرتوت سوشل میڈیا پر بتائے جاتے ہیں، اس کے جواب میں پہلے حکومت نے فائر وال لگائی، لیکن اس سے کام نہیں چلا، تو اب یہ بل لے کر آئے ہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کو کسی کا اکاؤنٹ پسند نہ آئے اور اس کی فیملی کو اٹھا لیا جائے۔ بعد ازاں کمیٹی نے بل پاس کر دیا، تاہم زرتاج گل کمیٹی اجلاس سے واک آؤٹ کر گئیں۔
سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس میں اٹارنی جنرل کے دلائل کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا۔ بینچز کے اختیارات کے کیس کو سماعت کے لیے مقرر نہ کرنے پر توہینِ عدالت کیس کی سماعت جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل بینچ نے کی۔ ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ نذر عباس نے شوکاز نوٹس کا جواب عدالت میں جمع کروا دیا۔ ذرائع کے مطابق، ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے عدالت سے شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کی۔ نذر عباس نے کہا کہ انہوں نے عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی اور عدالتی حکم پر بینچ بنانے کے معاملے پر نوٹ بنا کر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔ سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ ہمارے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں ججز کمیٹی کیس واپس لے سکتی تھی؟ عدالتی معاون وکیل حامد خان نے کہا کہ کچھ ججز کو کم اختیارات ملنا اور کچھ کو زیادہ، ایسا نہیں ہو سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ سوال الگ ہے، اگر ہم آرٹیکل 191 اے کی تشریح کا کیس سنتے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا تھا، ہمارے سامنے کیس ججز کمیٹی کے واپس لینے سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس امین الدین خان ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کرے تو معاملہ فل کورٹ میں جا سکتا ہے، اس سوال پر معاونت فراہم کی جائے۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ بظاہر اس معاملے پر کنفیوژن موجود ہے۔ جسٹس عقیل عباسی نے حامد خان سے سوال کیا کہ آپ آرٹیکل 191 اے کو کیسے دیکھتے ہیں؟ ماضی میں بینچز ایسے بنے جیسے معاملات پر رولز بنانا سپریم کورٹ کا اختیار تھا، اب سپریم کورٹ کے کچھ اختیارات ختم کر دیے گئے ہیں، 26ویں آئینی ترمیم کا سوال آجائے گا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا کسی ملک میں بینچز عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو بناتا ہے؟ کوئی ایک مثال ہو؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ بینچز عدلیہ کے بجائے ایگزیکٹو بنائے ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 191 اے کے تحت آئینی بینچ جوڈیشل کمیشن بنائے گا۔ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ 191 اے کو سامنے رکھیں تو کیا یہ اوور لیپنگ نہیں ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے اختیارات کو کمزور نہیں کر سکتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اگر کمیٹی جوڈیشل آرڈر فالو نہیں کرتی تو پھر کیا ہوگا؟ عدالتی معاون وکیل حامد خان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے پاس آئینی بینچ کے کیسز مقرر کرنے کا اختیار ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ راجہ عامر کیس میں بھی فل کورٹ بنا تھا۔ حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے علاوہ ہر عدالت کے دائرہ اختیار کا فیصلہ کر سکتی ہے، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار کو کم نہیں کر سکتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل 2 اے کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کیس واپس لے سکتی ہے یا نہیں؟ کیا پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کر سکتی ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کرنے والی صورتِ حال نہیں ہونی چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ رولز 1980ء کے تحت فل کورٹ چیف جسٹس بنائیں گے یا پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی؟ کیا جوڈیشل آرڈر سے فل کورٹ کی تشکیل کے لیے معاملہ ججز کمیٹی کو بھجوایا جا سکتا ہے؟ وکیل حامد خان نے کہا کہ پارلیمنٹ عدلیہ کے اختیارات بڑھا سکتی ہے، کم نہیں کر سکتی، آرٹیکل 191 اے میں آئینی بینچز کا ذکر ہے، سپریم کورٹ میں ایک آئینی بینچ کا ذکر نہیں، کم از کم 5 ججز پر مشتمل ایک آئینی بینچ ہو سکتا ہے، اس صورتِ حال میں 3 آئینی بینچز بن سکتے ہیں، جو سینئر ہو گا وہی بینچ کا سربراہ ہو گا، آرٹیکل 191 اے ججز کمیٹی کے سیکشن 2 اے سے ہم آہنگ نہیں اس لیے خلاف آئین ہے۔ عدالتی معاون احسن بھون نے کہا کہ آئین میں 26ویں ترمیم میں اختیارِ سماعت طے کر دیے گئے ہیں، آئین اور قانون کی آئینی حیثیت کا جائزہ آئینی بینچ ہی لے سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے حکم میں یہ لکھا ہے کہ 191 اے قانون کے مطابق ہے یا نہیں، بھون صاحب دنیا کی کوئی مثال بتا دیں جہاں بینچ عدلیہ کے سوا کوئی اور بناتا ہو، ہم تو صرف اس سوال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ معاون وکیل احسن بھون نے کہا کہ آرٹیکل 191 اے میں پارلیمنٹ نے ترمیم کی ہے، آئین ہے تو اس پر آپ کو عمل کرنا ہو گا، آپ اس کا جائزہ بھی نہیں لے سکتے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین کے بنیادی ڈھانچے اور عدلیہ کی آزادی کے خلاف ترمیم کو ہم دیکھ بھی نہیں سکتے؟ اگر جائزے کی جسارت کی کہ 191 اے قانونی ہے یا نہیں تو کیا کیس واپس لیا جا سکتا ہے؟ جسٹس عقیل عباسی نے کہا کہ جوڈیشل آرڈر جوڈیشل آرڈر سے ہی ختم ہو سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آپ یہ دلیل دے رہے ہیں کہ اگر بینچ غلطی سے سن بھی رہا ہو تو اس بینچ سے چھین لیں۔ وکیل احسن بھون نے کہا کہ ایسی صورت میں آپ یہ معاملہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوائیں گے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کمیٹی تو ایک ایگزیکٹو کمیٹی ہے۔ عدالتی معاون وکیل احسن بھون نے کہا کہ یہ ایک آئین کی اسکیم ہے، 26ویں ترمیم ہے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر فل کورٹ کا فیصلہ ہے، فل کورٹ بنانے کی ابھی جس کیس کی مثال بیرسٹر صلاح الدین نے دی، موجودہ آئینی اسکیم میں ان کا اطلاق نہیں ہوتا وہ بے کار ہو چکے ہیں، جناب جسٹس منصور اس ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، اب آپ اس میں بیٹھیں یا نہیں یہ آپ کی مرضی ہے، آئینی بینچ کی تشکیل جوڈیشل کمیشن پاکستان نے کی ہے، آپ بھی کمیشن میں جج نامزد کرتے ہیں۔

Back
Top