خبریں

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں ووٹرز کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔ ملک میں مجموعی طور پر ووٹرز کی تعداد 13 کروڑ 26 لاکھ 68 ہزار 515 ہو گئی ہے، جن میں مرد ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 12 لاکھ 75 ہزار 222 اور خواتین ووٹرز کی تعداد 6 کروڑ 13 لاکھ 93 ہزار 293 ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک میں مرد ووٹرز کی شرح 53.72 فیصد اور خواتین ووٹرز کی شرح 46.2 فیصد ہے۔ اسلام آباد میں ووٹرز کی تعداد 11 لاکھ 70 ہزار 744 ہے، جن میں مرد ووٹرز 6 لاکھ 13 ہزار 118 اور خواتین ووٹرز 5 لاکھ 57 ہزار 626 ہیں۔ بلوچستان میں ووٹرز کی تعداد 55 لاکھ 37 ہزار 699 ہے، جہاں مرد ووٹرز 31 لاکھ 1 ہزار 640 اور خواتین ووٹرز 24 لاکھ 36 ہزار 59 ہیں۔ خیبر پختونخوا میں ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 25 لاکھ 89 ہزار 371 ہے، جن میں مرد ووٹرز 1 کروڑ 22 لاکھ 84 ہزار 853 اور خواتین ووٹرز 1 کروڑ 3 لاکھ 4 ہزار 518 ہیں۔ پنجاب میں ووٹرز کی تعداد 7 کروڑ 55 لاکھ 45 ہزار 995 ہے، جن میں مرد ووٹرز 4 کروڑ 24 لاکھ 11 ہزار 112 اور خواتین ووٹرز 3 کروڑ 53 لاکھ 4 ہزار 883 ہیں۔ اس کے علاوہ سندھ میں ووٹرز کی تعداد 2 کروڑ 78 لاکھ 24 ہزار 706 ہے، جہاں مرد ووٹرز 1 کروڑ 50 لاکھ 34 ہزار 499 اور خواتین ووٹرز 1 کروڑ 27 لاکھ 90 ہزار 207 ہیں۔
وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا اور رکن قومی اسمبلی شیر افضل مروت کے درمیان سیز فائر کرادیا۔ پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق، سلمان اکرم راجا اور شیر افضل مروت کے درمیان اختلافات پر وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے دونوں رہنماؤں سے رابطہ کیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ نے دونوں رہنماؤں کو تحمل سے کام لینے کی نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف بیانات سے پارٹی کو نقصان پہنچے گا۔ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ ایک دوسرے کے خلاف بیانات سے صرف مخالفین کو فائدہ ہوگا، جس پر شیر افضل مروت نے وزیر اعلیٰ کو اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کیا۔ ذرائع کے مطابق، علی امین گنڈاپور کی مداخلت پر دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف مزید بیانات نہ دینے کی یقین دہانی کرائی۔ شیر افضل مروت نے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے رابطے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ چند روز قبل علی امین گنڈاپور نے ان سے رابطہ کیا تھا اور سیز فائر کرنے کا کہا تھا۔ واضح رہے کہ چند روز قبل شیر افضل مروت اور سلمان اکرم راجا نے میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف بیانات دیے تھے، جس پر پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی ہدایت پر پارٹی نے شیر افضل مروت کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان اور بشریٰ بی بی کی توشہ خانہ ٹو کیس میں بریت کی درخواستوں پر ایف آئی اے کو نوٹس جاری کردیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے توشہ خانہ ٹو کیس میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کی بریت کی درخواستوں کی سماعت کی۔ عدالت نے ایف آئی اے کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 28 جنوری تک جواب طلب کرلیا۔ عمران خان کے وکیل بیرسٹر سلمان صفدر نے درخواست کی کہ توشہ خانہ ٹو کیس کے ٹرائل پر حکمِ امتناعی جاری کیا جائے۔ جسٹس راجہ انعام امین منہاس نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس موقع پر کرمنل کارروائی کو روکے رکھنے کی کوئی عدالتی نظیر موجود نہیں۔ دوسرے فریق کو سننے کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے گا۔ ہم آپ کی درخواست پر نوٹس جاری کرتے ہیں اور دوسرے فریق سے بھی جواب طلب کریں گے۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے مختلف عدالتی فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن کا موقف ہے کہ تحفہ وصول کیا گیا تھا اور اس کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ضمانت کی دو درخواستوں پر بھی حکم جاری ہوچکا ہے اور ٹرائل کورٹ کو کارروائی روکنے کا حکم دیا جائے۔ جسٹس انعام امین منہاس نے کہا کہ ٹرائل کورٹ میں فرد جرم عائد ہوچکی ہے اور گواہوں کے بیانات بھی ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نوٹس جاری کرکے دوسرے فریقین سے بھی جواب مانگ لیتے ہیں اور جلد سماعت کی جائے گی۔ اس پر سلمان صفدر نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہاں سے کچھ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ بریت کی درخواست لے کر آئے ہیں اور ہم ٹرائل کورٹ کو ہدایت دے سکتے ہیں کہ وہ کارروائی جلد مکمل کرے۔ وکیل نے کہا کہ ٹرائل بہت تیزی سے چل رہا ہے اور اگر بلایا جائے تو وہ پیش ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ روزانہ کی بنیاد پر سماعت بھی ہوسکتی ہے اور استدعا کی کہ ٹرائل کورٹ کو حتمی فیصلہ کرنے سے روکا جائے اور کیس کسی دوسرے بینچ کو بھیجا جائے۔ بیرسٹر سلمان صفدر نے مزید کہا کہ اس سے پہلے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اس کیس سے متعلق پانچ درخواستوں کی سماعت کی تھی، اس لیے یہ مناسب ہوگا کہ بریت کی درخواستیں بھی وہی عدالت سنے۔ جسٹس انعام امین منہاس نے جواب دیا کہ وہ ضمانت کی درخواستیں تھیں اور یہ معاملہ مختلف ہے، اس لیے یہ عدالت کیس کی سماعت کرے گی اور آپ کیس کے میرٹس پر دلائل دیں۔ عدالت نے کیس کی سماعت 28 جنوری تک ملتوی کردی۔
اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے انکشاف کیا ہے کہ اپوزیشن پارلیمنٹ کی کارروائی کو روکے رکھنا چاہتی ہے۔ جیو نیوز کے پروگرام "کیپٹل ٹاک" میں گفتگو کرتے ہوئے سردار ایاز صادق نے کہا کہ اپوزیشن کی قیادت نے مذاکراتی کمیٹی کو ہدایت دی ہے کہ قومی اسمبلی میں معمول کی کارروائی جاری نہ رہنے دی جائے۔ انہوں نے بتایا کہ جب ارکان اپنے حلقوں کے مسائل پر بات کرنا چاہتے ہیں، اپوزیشن کورم کی کمی کی نشاندہی کر دیتی ہے۔ سردار ایاز صادق نے مزید کہا کہ ان کے پاس مصدقہ اطلاعات ہیں کہ اپوزیشن نے مذاکرتی کمیٹی کو ہدایت دی ہے کہ اسمبلی کی کارروائی معمول کے مطابق جاری نہ رکھی جائے۔ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ اپوزیشن کے ارکان گزشتہ پیر سے مسلسل احتجاج کر رہے ہیں، اور وہ طے شدہ مذاکرات کے باوجود عوام کے مسائل پر بات کرنے کا وقت نہیں دے رہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی نے 2014 کے دھرنوں کا بھی ذکر کیا، جب پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ اس وقت انھیں کہا گیا تھا کہ اسمبلی اجلاس فوراً ملتوی کر دیا جائے کیونکہ ارکان کو خطرہ ہو سکتا ہے، لیکن وہ اجلاس جاری رکھتے ہوئے خطرہ مول لے رہے تھے۔ سردار ایاز صادق نے اس دوران کہا کہ انہیں دھمکیاں مل رہی تھیں اور بتایا گیا تھا کہ پارلیمنٹ میں کیلوں والے ڈنڈوں کے ساتھ حملہ کیا جائے گا، تاہم وہ اپنی جگہ پر بیٹھے رہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ان کی ٹینشن اور اضطراب کا اندازہ لگانا مشکل تھا، لیکن وہ آخرکار اجلاس جاری رکھنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ستمبر 2024 میں پارلیمنٹ میں 11 ارکان کو گرفتار کیا گیا، جن کے بارے میں وضاحت نہیں کی جا سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت اسی وقت محفوظ ہو سکتی ہے جب ہم سب اس کا سنجیدہ خیال رکھیں گے۔ سردار ایاز صادق نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے دوران ان کے ارکان کو ایوان میں پیش نہیں کیا جاتا تھا، لیکن ان کی لیڈرشپ نے کبھی پروڈکشن آرڈر کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ انہوں نے اسحاق ڈار کا ذکر کیا اور کہا کہ وہ پی ٹی آئی کمیٹی کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اپنے قائد سے ملاقات کر سکیں۔ آخر میں، انہوں نے اختر مینگل سے بات چیت کی بات کی اور کہا کہ وہ انہیں اسمبلی سے استعفیٰ نہ دینے کی ترغیب دے رہے ہیں، اور ان کی کوشش ہے کہ وہ انہیں منالیں۔
موسمیاتی تبدیلی کے اثرات دنیا بھر میں محسوس کیے جا رہے ہیں، اور پاکستان کے لیے یہ چیلنج خاص طور پر سنگین ثابت ہو رہا ہے، جس کی ایک نمایاں مثال "لیشمینیاسس" کی حالیہ وبا ہے۔ اس مہلک بیماری کی بنیادی وجہ ریت کی مکھی (انڈور سینڈ فلائی) کے کاٹنے سے ہوتی ہے، اور اس کی موجودگی کے باعث متاثرہ افراد کو جسمانی اور نفسیاتی دونوں طور پر کجھ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شبنم بی بی، ایک 19 سالہ خاتون، جن کا چہرہ لیشمینیاسس کی وجہ سے متاثر ہوا ہے، اس بیماری کی خوفناک حقیقت کا سامنا کر رہی ہیں۔ وہ اپنے چہرے کے زخم کی وجہ سے غیر یقینی حالت میں ہیں، جس نے انہیں اپنے بچوں سے علیحدہ کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ ان کا حال یہ ہے کہ وہ خوف سے اپنے بچوں کے پاس جانے سے کتراتی ہیں، کیونکہ انہیں حیرت ہے کہ آیا یہ بیماری ان کے بچوں میں منتقل ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی ایکٹیویٹی منیجر حلیمہ خالد کے مطابق، لیشمینیاسس ایک نظرانداز کی جانے والی بیماری ہے جو غریب کمیونٹیز کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔ ابتدائی علامات میں خارش والی گلٹی شامل ہوتی ہے، جس کا فوری علاج نہ ہونے پر یہ صورت حال کی شدت بڑھا دیتی ہے۔ خیبرپختونخوا میں یہ بیماری خاص طور پر بڑھتی ہوئی آب و ہوا کے اثرات، جیسے طویل خشک سالی اور ہیٹ ویو کے نتیجے میں تیزی سے پھیل رہی ہے۔ حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، 2018 کے بعد سے لیشمینیاسس کے کیسز میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے صحت عامہ کا بحران پیدا ہو چکا ہے۔ صوبے کے مختلف حصوں میں روزانہ کی بنیاد پر متاثرہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد نے صحت کی سہولیات کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ لیشمینیاسس سے متاثرہ افراد، خصوصاً خواتین اور بچے، ذہنی دباؤ اور الگ تھلگ ہونے کی صورت حال میں مبتلا ہیں۔ ناظمہ حبیب کے مطابق، یہ بیماری چہرے پر داغ چھوڑتی ہے، جس کی وجہ سے متاثرین میں خود اعتمادی میں کمی اور سماجی بدنامی کا احساس بڑھتا ہے، خاص طور پر ایسی ثقافت میں جہاں خوبصورتی کی اہمیت زیادہ ہو۔ ڈاکٹر قیصر جمال کا کہنا ہے کہ اس بیماری کو کنٹرول کرنے کے لیے عوامی آگاہی، بہتر صحت کے نظام کی فراہمی اور بروقت علاج ضروری ہیں۔ متاثرین کی مدد کے لیے مفت ادویات کی فراہمی اور تشخیص کے نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ اس بیماری کے منفی اثرات پر قابو پایا جا سکے۔ پاکستان میں لیشمینیاسس کی وبا ایک ایسے تناظر میں اہمیت اختیار کر چکی ہے جہاں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مختلف بیماریوں کا پھیلاؤ ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ صحت عامہ کے نظام کو ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مؤثر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، تاکہ نہ صرف جسمانی صحت بلکہ ذہنی صحت کو بھی بہتر بنایا جا سکے۔
سینیٹ میں وزارت خارجہ کی جانب سے پیش کی گئی تفصیلات کے مطابق، سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے 2019 میں کیے گئے دورے کے بعد سے 2024 تک 7 ہزار 208 پاکستانی قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے۔ بیرون ملک قید پاکستانیوں کی تعداد پر سینیٹ کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اس وقت تقریباً 23 ہزار 456 پاکستانی مختلف ممالک کی جیلوں میں قید ہیں، جن میں سب سے زیادہ قیدی خلیجی ممالک کی جیلوں میں ہیں۔ وزارت خارجہ نے مزید وضاحت کی کہ 2019 میں سعودی عرب نے 545، 2020 میں 892، 2021 میں 916، 2022 میں 1 ہزار 331 اور 2023 میں 1 ہزار 394 پاکستانی قیدیوں کو رہا کیا۔ اسی طرح، 2024 کے دوران 2 ہزار 130 قیدی رہا کیے جا چکے ہیں۔ وزارت خارجہ نے یہ بھی واضح کیا کہ قیدیوں کی مسلسل آمد اور ملک بدری کی وجہ سے معافی پر جانے والے قیدیوں کی صحیح تعداد کا تعین مشکل ہے۔ بیرون ملک قید پاکستانیوں کی تفصیلات دیتے ہوئے یہ بھی بتایا گیا کہ سعودی عرب میں 12 ہزار 156، متحدہ عرب امارات میں 5 ہزار 292، یونان میں 811 اور قطر میں 338 پاکستانی قید ہیں۔ وزات خارجہ کے اس اعداد و شمار نے پاکستانی قیدیوں کی عالمی صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔
بلوچستان کے ضلع ژوب کے سرحدی علاقے سمبازہ میں ایک افغان شہری کی لاش، جو دہشت گردی میں ملوث تھا، کو افغان حکام کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ یہ کارروائی پاک فوج کے تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری کردہ تفصیلات کے مطابق کی گئی۔ ہلاک ہونے والے دہشت گرد کی شناخت محمد خان خیل کے نام سے ہوئی، جو 11 جنوری کو سیکیورٹی فورسز کے ایک آپریشن میں مارا گیا تھا۔ پچھلے روز اس کی لاش افغان حکام کے سپرد کی گئی۔ آئی ایس پی آر نے کہا ہے کہ یہ واقعہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ افغان شہری پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ ادارے نے امید ظاہر کی کہ افغان حکومت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکنے میں کامیاب ہوگی۔ واضح رہے کہ حال ہی میں سیکیورٹی فورسز نے بلوچستان کے ساتھ ملحقہ پاک افغان بارڈر پر دراندازی کی کوشش کو ناکام بنا کر 5 مسلح خوارج کو ہلاک کیا تھا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، سیکورٹی فورسز نے ضلع ژوب کے سمبازہ علاقے میں دراندازوں کے ایک گروہ کی موجودگی کا پتہ لگایا اور اس کے بعد مؤثر کارروائی کرتے ہوئے ان کی کوشش کو ناکام بنایا۔
شیراکوٹ کے علاقے میں معمولی تلخ کلامی کے نتیجے میں پولیس انسپکٹر سیف اللہ نیازی کو قتل کر دیا گیا۔ پولیس کے مطابق، ملزم عدیل نے تلخ کلامی پر طیش میں آکر فائرنگ کی اور انسپکٹر کو قتل کر دیا۔ ڈولفن ٹیم نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو حراست میں لیا اور شیراکوٹ پولیس کے حوالے کر دیا۔ ترجمان ڈولفن فورس نے بتایا کہ فائرنگ کی آواز سن کر ٹیم موقع پر پہنچی اور ملزم عدیل کی فرار ہونے کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ ملزم کے قبضے سے اسلحہ برآمد کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ملزم عدیل کے مطابق روز ماں بہن کی گالیاں دیتا تھا۔ تنگ آکر اسی انسپکٹر کے پسٹل سے اسے قتل کیا۔اس نے ہمارا جینا حرام کیا ہوا تھا۔ ملزم عدیل موٹر مکینک ہے جہاں مقتول انسپکٹر رہتا تھا یہ وہی دوکان پر کام کرتا تھا، اسکے مطابق اس نے انسپکٹر کے پستول سے ہی اسے قتل کیا۔ ڈی آئی جی آپریشنز فیصل کامران جائے وقوعہ پر پہنچے اور حالات کا جائزہ لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق یہ افسوسناک واقعہ معمولی تلخ کلامی کے نتیجے میں پیش آیا۔ ملزم عدیل کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور قانونی کارروائی جاری ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انسپکٹر سیف اللہ نیازی نے قانون پر عمل درآمد کی کوشش کرتے ہوئے اپنی جان قربان کی۔ ان کے خاندان کے ساتھ مکمل ہمدردی ہے اور لاہور پولیس ان کے غم میں شریک ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز نے کہا کہ پولیس ہمیشہ فرض کی ادائیگی کے دوران اپنی جان خطرے میں ڈالتی ہے۔ لاہور پولیس اپنے شہید افسران کی قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی اور فرض کی راہ میں قربانی دینے کا سلسلہ جاری رکھے گی۔ انسپکٹر سیف اللہ نیازی بابو صابو چیک پوسٹ کے انچارج کے طور پر تعینات تھے۔
نارتھ کراچی کے بیت النعم اپارٹمنٹ کے رہائشی 7 سالہ صارم کے اغوا، زیادتی، اور قتل کا دل دہلا دینے والا واقعہ سامنے آیا ہے۔ پولیس سرجن کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق، صارم کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، اس کی گردن کی ہڈی توڑ دی گئی، اور گلا دبا کر قتل کیا گیا۔ رپورٹ اینٹی وائلنٹ کرائم سیل پولیس کو فراہم کی گئی ہے۔ ایس ایس پی اینٹی وائلنٹ کرائم سیل انیل حیدر نے تصدیق کی کہ صارم کو 5 روز قبل قتل کر کے لاش پھینکی گئی تھی۔ پولیس سرجن ڈاکٹر سمیعہ نے کہا کہ ابتدائی رپورٹ کے مطابق صارم کے ساتھ زیادتی اور گلا دبانے کے باعث ہلاکت ہوئی، تاہم کیمیکل ایگزامینیشن کی حتمی رپورٹ ابھی آنا باقی ہے۔ صارم، جو بیت النعم اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا، 7 جنوری کو مدرسے سے واپسی کے دوران لاپتہ ہو گیا تھا۔ اس کی گمشدگی کی رپورٹ بلال کالونی پولیس اسٹیشن میں درج کی گئی تھی۔ پولیس نے اپارٹمنٹ کے زیرِ زمین پانی کے ٹینک، فلیٹس، اور مشتبہ مقامات کی تلاشی لی، لیکن کوئی سراغ نہ ملا۔ بالآخر، 18 جنوری کو صارم کی لاش اپارٹمنٹ کے زیر زمین پانی کے ٹینک سے برآمد ہوئی۔ اس کے بعد پولیس نے دوبارہ علاقے کا معائنہ کیا اور سرچ آپریشن کے دوران اظہر نامی ایک مشتبہ شخص کو حراست میں لیا، جبکہ کچھ شواہد بھی قبضے میں لیے گئے جن کا کیمیکل تجزیہ کیا جا رہا ہے۔ صارم تین بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھا، اور اس کے انتقال کے بعد اپارٹمنٹ میں سوگ کی فضا چھائی ہوئی ہے۔ اس کے والدین اپنے بیٹے کے اس دلخراش انجام پر غم سے نڈھال ہیں اور حقیقت قبول کرنے سے قاصر ہیں۔
لاہور ہائی کورٹ میں ریپ کے الزام میں گرفتار ملزم واجد علی کی ضمانت کی درخواست اور اینٹی ریپ ایکٹ کے نفاذ کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ میں جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ شامل تھے۔ دوران سماعت، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی رپورٹ کا جائزہ لیا اور استفسار کیا کہ کیا واقعی پنجاب میں ہر منٹ میں ایک ریپ کا واقعہ پیش آ رہا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے وضاحت کی کہ ڈیڑھ لاکھ کیسز رجسٹر ہوئے ہیں لیکن یہ سب ریپ کے کیسز نہیں ہیں۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے رپورٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں ہر 15 منٹ میں ایک ریپ رپورٹ ہو رہا ہے، اور یہ صورتحال بھارت سے بھی زیادہ سنگین دکھائی دیتی ہے۔ تاہم، ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ان کیسز میں سے 30 فیصد جھوٹے مقدمات درج کرائے گئے ہیں۔ عدالت نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو فوری طلب کیا۔ سماعت کے دوران، ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پنجاب میں اینٹی ریپ ایکٹ کے تحت 150 خصوصی یونٹ کام کر رہے ہیں، جبکہ تمام ضلعی سینٹرز میں خواتین اہلکار تعینات کی گئی ہیں۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے استفسار کیا کہ آیا ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے 32 ہزار کٹس فراہم کی گئی ہیں؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ عدالتی احکامات پر کئی خامیوں کو دور کر دیا گیا ہے۔ آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ سیف سٹی اتھارٹی کے تعاون سے ورچوئل پولیس اسٹیشن قائم کیا گیا ہے، جہاں متاثرہ خواتین ای میل، کال یا واٹس ایپ کے ذریعے شکایات درج کرا سکتی ہیں۔ مزید بتایا گیا کہ 2,100 خواتین اہلکاروں کو خصوصی تربیت دی گئی ہے، جبکہ 880 تفتیشی افسران کی تقرری کی گئی ہے جن کی کم از کم تعلیم گریجویشن ہے۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ اینٹی ریپ ایکٹ پر مکمل عمل درآمد ضروری ہے اور ان کیسز کی تفتیش کے لیے افسران کی معیاری تربیت کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صنفی تشدد کے کیسز کی تحقیقات میں ٹراما سے متعلق معلومات کو شامل کیا جائے۔ سماعت کے دوران، میاں داؤد ایڈووکیٹ کی ایک دن کے استثنیٰ کی درخواست پر سوال اٹھایا گیا۔ میاں داؤد نے وضاحت دی کہ یہ ان کے دفتر کی غلطی تھی اور عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسے رویے سے عدالتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے۔ آخر میں، چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ جرائم کے خاتمے کے لیے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔
پنجاب اسمبلی نے پتنگ بازی پر مکمل پابندی کے بل کی منظوری دے دی، جس کے تحت خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ پنجاب میں پتنگ بازی کی روک تھام کے لیے "ترمیمی ایکٹ 2024" منظور کیا گیا ہے، جس کے تحت پتنگ بازی کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے۔ اس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کم از کم 3 سال اور زیادہ سے زیادہ 7 سال قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ قانون کے مطابق پتنگ بازی، پتنگوں کی تیاری، فروخت اور نقل و حمل پر 5 لاکھ سے 50 لاکھ روپے تک جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ پابندی کا اطلاق دھاتی تاروں، نائلون کی ڈوری، تندی، اور تیز دھار مانجھے کے ساتھ دیگر متعلقہ مواد پر بھی ہوگا۔ پتنگ بازی کے لیے سامان کی تیاری اور نقل و حمل مکمل طور پر ممنوع ہوگی۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے کو 3 سے 5 سال قید یا 20 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ پتنگ بنانے یا نقل و حمل کرنے والوں کو 5 سے 7 سال قید یا 50 لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر کسی بچے کو پتنگ بازی کرتے ہوئے پکڑا گیا تو پہلی مرتبہ 50 ہزار روپے جرمانہ اور دوبارہ پکڑے جانے پر 1 لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔
صحافی انصار عباسی کے مطابق کہ ایک اعلیٰ سرکاری ذریعے نے انکشاف کیا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی پی ٹی آئی رہنماؤں کے ساتھ حالیہ ملاقات کے بارے میں وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی تھی۔ ذریعے کے مطابق، وزیراعظم کو آگاہ کیا گیا تھا کہ یہ ملاقات کسی طے شدہ شیڈول کے تحت نہیں ہوئی بلکہ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے آرمی چیف سے خصوصی ملاقات کی درخواست کی تھی، جو مختلف سیاسی رہنماؤں کے ساتھ امن و امان کے حوالے سے ہونے والی گفتگو کے بعد ہوئی۔ ذرائع کے مطابق، آرمی چیف نے علی امین گنڈا پور اور پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی کی باتیں سنیں، لیکن جب سیاسی معاملات پر گفتگو کی گئی تو آرمی چیف نے واضح طور پر کہا کہ ایسے معاملات پر حکومت سے رابطہ کیا جائے۔ وزیراعظم سے قریبی تعلق رکھنے والے ذریعے نے یہ بھی بتایا کہ آرمی چیف نے ان رہنماؤں کو سیاسی معاملات میں شامل ہونے سے معذرت کرلی تھی۔ بیرسٹر گوہر نے اس ملاقات کی ابتدائی طور پر تردید کی تھی، لیکن بعد میں عمران خان کے بیان کے بعد اعتراف کیا کہ علی امین گنڈا پور کے ہمراہ انہوں نے جنرل عاصم منیر سے ملاقات کی تھی۔ عمران خان نے اس ملاقات کو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست مذاکرات کا ایک مثبت قدم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ پارٹی کے مسائل اور مطالبات جنرل عاصم منیر کے سامنے پیش کیے گئے۔ تاہم، بیرسٹر گوہر نے بعد میں وضاحت دی کہ ملاقات میں صرف سیکیورٹی امور پر بات ہوئی، لیکن اس سوال کا جواب نہیں دیا کہ وہ ان امور پر گفتگو کے لیے وزیراعلیٰ کے ساتھ کیوں موجود تھے۔ نون لیگی رہنماؤں بشمول رانا ثناء اللہ اور عرفان صدیقی نے اس ملاقات پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی مسائل پر بات چیت کی حوصلہ افزائی نہیں کی جانی چاہیے۔ عمران خان کی تصدیق سے قبل دی نیوز نے رپورٹ کیا تھا کہ بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈا پور نے تین اہم شخصیات کے ساتھ خصوصی ملاقات کی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بیک چینل مذاکرات کا سلسلہ جاری رہے گا، اور اگلی ملاقات میں ایک وفاقی وزیر اور دو دیگر اہم شخصیات بھی شامل ہوں گی۔ ان ملاقاتوں کے نتائج کا انحصار پی ٹی آئی کی پالیسیوں اور سیاسی حکمت عملی پر ہوگا۔
مراکش میں کشتی حادثے میں بچ جانے والے پاکستانیوں نے انکشاف کیا ہے کہ کشتی کو حادثہ پیش نہیں آیا تھا بلکہ کشتی میں قتل عام کیا گیا۔ مراکش میں ہونے والے کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں کے ابتدائی بیانات ریکارڈ کرلیے گئے ہیں، جن میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ یہ کوئی معمولی حادثہ نہیں بلکہ ایک منظم قتل عام تھا۔ متاثرہ لوگوں نے واضح طور پر کہا کہ انسانی اسمگلروں نے انہیں چند روز تک کھلے سمندر میں روکے رکھا اور تاوان طلب کیا۔ جن مسافروں نے تاوان ادا کیا، انہیں چھوڑ دیا گیا، جبکہ جو افراد تاوان دینے میں ناکام رہے، انہیں ہتھوڑوں سے مار کر سمندر میں پھینک دیا گیا۔ ذرائع کے مطابق یہ بیانات ایک چار رکنی تحقیقاتی ٹیم نے ریکارڈ کیے ہیں، جو پاکستان سے مراکش پہنچی ہے۔ اس ٹیم میں ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ، ڈائریکٹر نارتھ ایف آئی اے، وزارت خارجہ اور انٹیلی جنس بیورو کے نمائندے شامل ہیں۔ متاثرین نے بتایا کہ کشتی میں سوار بیشتر افراد سرد موسم اور تشدد کے باعث ہلاک ہوئے، اور کشتی میں کھانے پینے کی سخت قلت کا سامنا بھی تھا۔ بیانات میں مزید کہا گیا کہ یہ کشتی بین الاقوامی انسانی اسمگلنگ کے ریکٹ کے زیر نگرانی تھی، جس میں سینیگال، موریطانیہ اور مراکش کے اسمگلروں کا کردار شامل تھا۔ اس ہولناک واقعہ کی تفصیلات نے نہ صرف پاکستانی معاشرے میں تشویش پیدا کی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی انسانی حقوق کی ناقابل برداشت خلاف ورزیوں کا معاملہ اٹھایا ہے۔ حکومت پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے مراکش کے لیے تحقیقی ٹیم بھیجنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ اس واقعے کی مکمل تحقیق کی جا سکے۔ یہ خدمات اس دشوار وقت میں متاثرین اور ان کے خاندانوں کو انصاف فراہم کرنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ یہ انکشافات اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی اسمگلنگ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے، جس کا فوری تدارک کرنا ناگزیر ہے۔
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کو حالیہ دنوں میں تکنیکی عملے کی کمی کی مشکلات کا سامنا ہے۔ ایک سال کے دوران 110 ایئرکرافٹ انجینئرز اور ٹیکنیشنز مستعفی ہو چکے ہیں، جن میں 45 انجینئرز اور 65 ٹیکنیشنز شامل ہیں۔ مزید برآں، پی آئی اے کے پاس مزید 40 ایئرکرافٹ انجینئرز اور ٹیکنیشنز کے استعفے زیر التوا ہیں۔ اس صورتحال کے باعث، طیاروں کی مرمت کا کام موجودہ عملے پر دگنا بوجھ ڈال رہا ہے۔ پی آئی اے نے اشارہ دیا ہے کہ یہ انجینئرز اور ٹیکنیشنز گزشتہ دو سال کے دوران اپنی نوکریاں چھوڑ رہے ہیں، جس کی ایک بڑی وجہ بیرون ملک ہوابازی کی صنعت میں تجربہ کار افراد کی بڑھتی ہوئی طلب ہے۔ پی آئی اے کی انتظامیہ کے مطابق، مہنگائی کے پیش نظر گزشتہ کئی سالوں سے تنخواہوں میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا ہے، اور انتظامیہ اس بات کا ادراک رکھتی ہے کہ تنخواہوں میں اضافے کی ضرورت ہے۔ پی آئی اے کی انتظامیہ نے تنخواہوں میں اضافے کے لیے حکومت اور بورڈ سے منظوری حاصل کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھی ہیں۔ یہ صورتحال پی آئی اے کی آپریشنل صلاحیت اور خدمات پر اثر انداز ہو سکتی ہے، اور یہ ایئر لائن کے مسافروں کے تجربے کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ انتظامیہ کو اس مسئلے کے حل کے لیے ہنگامی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ مزید تکنیکی عملے کی کمی سے بچا جا سکے۔
لوئر کرم: تجارتی قافلے پر فائرنگ اور اہلکاروں کی شہادت کے بعد سیکیورٹی فورسز بگن علاقے میں داخل ہوچکی ہیں جہاں سرچ آپریشن جاری ہے۔ حکومت کی جانب سے بگن میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور ایف سی قلعے سے شیلنگ کی بھی اطلاعات ہیں۔ پولیس ذرائع کے مطابق، سیکیورٹی فورسز نے پہاڑوں پر دہشتگردوں کے مورچوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ آج رات تک دیگر علاقوں میں بھی سرچ آپریشن جاری رہے گا۔ یہ آپریشن دہشتگردوں اور لوٹ مار میں ملوث افراد کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب، لوئر کرم میں ٹل پاراچنار مین شاہراہ آج 110ویں روز بھی ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند ہے، جس کے باعث مقامی لوگ ضروری اشیاء کی عدم دستیابی کی وجہ سے فاقوں کا شکار ہیں۔ ذرائع کے مطابق، لوئر کرم کے چار ویلج کونسلز میں آپریشن کا منصوبہ ہے اور فورسز نے کئی مورچوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ مقامی قبائل، خاص طور پر طوری بنگش قبائل، سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ یکطرفہ فوجی آپریشن کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ انہوں نے حکومت کو آج شام چھ بجے تک ڈیڈ لائن دی ہے۔ قبائل نے واضح کیا ہے کہ اگر راستے نہیں کھولے جاتے اور سیکیورٹی کو یقینی نہیں بنایا جاتا تو وہ امن معاہدے سے لاتعلقی کا اعلان کریں گے اور اپنے لائحہ عمل کو خود تیار کریں گے۔ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بنکرز کی مسماری کا عمل تاخیر کا شکار ہے، تاہم اب تک آٹھ بنکرز کو مسمار کیا جا چکا ہے۔ مزید یہ کہ راستوں کی طویل بندش کی وجہ سے دو مزید بچے دم توڑ گئے ہیں، جس کے بعد جاں بحق بچوں کی تعداد 157 ہوگئی ہے۔ میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر سید میر حسن جان کا کہنا ہے کہ صرف ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال پاراچنار میں 38 بچے جاں بحق ہوئے ہیں۔ یہ تمام صورتحال لوئر کرم میں عوام کی زندگیوں کو سخت متاثر کر رہی ہے اور مقامی انتظامیہ کو فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ سلامتی اور انسانی حقوق کا تحفظ کیا جا سکے۔
کچھ دن پہلے مریم سٹوڈنٹس کے سامنے نواز بشریٰ بی بی پر گھٹیا جملے بازی کررہی تھیں او آج سٹوڈنٹس کو کہہ رہی تھیں کہ چاہے میرا بدترین مخالف ہی کیوں نہ ہو، میں کبھی نہیں کہوں گی کہ آپ کسی کو گالی نکالو، بُرے برُے القابات سے نوازو کیونکہ میں آپ کی ماں ہوں جس روز القادر کیس کا فیصلہ آیا اسی روز مریم نواز نے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ القادر یونیورسٹی میرے پاس آگئی ہے، اب وہاں مذہب کی تعلیم دی جائے گی، جادو ٹونا کرنا نہیں سکھایا جائے گا۔ ماضی میں بھی مریم نواز بشریٰ بی بی کو مختلف القابات سے نوازتی رہیں، کبھی پنکی پیرنی کبھی جادوگرنی جبکہ عمران خان سے متعلق بھی کئی بار نازیبا الفاظ کا استعمال کرچکی ہیں۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ مریم نوازچاہے میرا بدترین مخالف ہی کیوں نہ ہو، میں کبھی نہیں کہوں گی کہ آپ کسی کو گالی نکالو، بُرے برُے القابات سے نوازو کیونکہ میں آپ کی ماں ہوں، اس پر مہر بخاری نے مریم نواز کا کلپ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ میں مریم نواز کی بہت قدر کرتی ہوں۔ معاشرے کے نوجوانوں کو حیا اور احترام کی تلقین کرنا، کسی بھی عورت کا نام نہ لینا، عزت کرنا قابلِ بحث ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ واقعی وقت کی ضرورت ہے۔تاہم، اسے اپنے کالے جادو کو روکنا چاہیے جو وہ تبلیغ کر رہی ہے۔ آپ جو تبلیغ کرتے ہیں اس پر عمل کرنا سب سے اہم ہے۔
لوئر کرم میں تجارتی قافلے پر فائرنگ اور اہلکاروں کی شہادت کے بعد سیکیورٹی فورسز بگن میں داخل ہو چکی ہیں اور ایک بڑے سرچ آپریشن کا آغاز کر دیا ہے۔ بگن میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے، جبکہ ایف سی قلعے سے شیلنگ بھی کی گئی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق فورسز نے پہاڑوں پر دہشت گردوں کے مورچوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے، اور آج رات تک دیگر علاقوں میں بھی سرچ آپریشن متوقع ہے جو دہشت گردوں اور لوٹ مار میں ملوث افراد کے خلاف کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب، کرم میں ٹل-پاراچنار مین شاہراہ آج 110ویں روز بھی ہر قسم کی آمد و رفت کے لیے بند ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کو اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا ہے اور وہ فاقوں پر مجبور ہیں۔ ذرائع کے مطابق لوئر کرم کے چار ویلج کونسلز میں آپریشن کیا جائے گا، اور فورسز نے کئی مورچوں پر کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ پولیس کے مطابق، فورسز کی بھاری نفری لوئر کرم میں موجود ہے۔ ذرائع کے مطابق، لوئر کرم کے مکین آپریشن کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، اور مظاہرین کا کہنا ہے کہ یکطرفہ فوجی آپریشن ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا۔ طوری بنگش قبائل نے آج شام چھ بجے تک حکومت کو ایک ڈیڈ لائن دی ہے۔ قبائل نے کہا ہے کہ امن معاہدے کے بعد اب تک دس سے زیادہ خلاف ورزیاں ہو چکی ہیں، لیکن حکومت نے کوئی ایکشن نہیں لیا۔ اگر راستوں کو نہیں کھولا گیا اور تحفظ کو یقینی نہیں بنایا گیا تو وہ امن معاہدے سے لاتعلقی کا اعلان کریں گے اور معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے پر اپنا لائحہ عمل خود تیار کریں گے۔ ضلعی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بنکرز کی مسماری کا عمل تاخیر کا شکار ہے، اور دونوں فریقین کے اب تک آٹھ بنکرز مسمار کیے جا چکے ہیں۔ دوسری جانب راستوں کی طویل بندش کے باعث دو مزید بچے دم توڑ گئے ہیں، جس کے بعد جاں بحق بچوں کی تعداد 157 ہو گئی ہے۔ میڈیکل سپرنٹینڈنٹ ڈاکٹر سید میر حسن جان نے بتایا کہ 38 بچے صرف ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال پاراچنار میں جاں بحق ہوئے ہیں۔
بلوچستان کے ضلع کیچ کی تحصیل تربت میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا ہے، جہاں مسلح افراد نے پولیس چوکی پر حملہ کیا اور اسے آگ لگا دیا۔ معلومات کے مطابق، موٹرسائیکلوں پر سوار عسکریت پسند تربت شہر کے نواح میں موجود پولیس چوکی پر پہنچے اور اہلکاروں کو اسلحے کے زور پر یرغمال بنایا۔ بعد ازاں، انہوں نے پولیس افسران سے ریڈیو اور دیگر سامان بھی چھیننے کے علاوہ چوکی میں توڑ پھوڑ کی اور اسے آگ لگا دی۔ پولیس حکام کے مطابق، "چیک پوسٹ مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہے۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ حملے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور فرنٹیئر کور (ایف سی) کے اہلکار جائے وقوعہ پر پہنچ گئے، تاہم حملہ آور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ رپورٹ کے مطابق، اس واقعے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بعد میں سیکیورٹی فورسز نے حملے میں ملوث شدت پسندوں کی تلاش کے لیے آپریشن شروع کردیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ جنوری کے اوائل میں تربت میں ایک بس میں دھماکہ ہوا تھا، جس کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق اور 32 زخمی ہوئے تھے۔ بلوچستان کے انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی) کے دفتر کی تعلقات عامہ کی افسر رابعہ طارق نے ڈان ڈاٹ کام کو اموات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ دھماکے کی نوعیت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے، تاہم مکمل تفصیلات تحقیقات کے بعد ہی فراہم کی جائیں گی۔ حملے کی ذمہ داری بلوچستان کی کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی تھی۔
پاکستان قومی ایئر لائن (پی آئی اے) کی دمام سے ملتان جانے والی فلائٹ پی کے 150 کی لاہور ایئرپورٹ پر غلط لینڈنگ کے معاملے کی ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پائلٹ نے کنٹرول روم کی ہدایات کو نظر انداز کیا تھا۔ رپورٹس کے مطابق، پائلٹ نے مقرر کردہ رن وے کی جگہ دوسرے رن وے پر طیارہ اتار دیا۔ بورڈ آف سیفٹی انویسٹی گیشن نے اس واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے، جس میں پائلٹ اور فرسٹ افسر کے بیانات ریکارڈ کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے یورین سیمپلز اور دیگر ٹیسٹ بھی کیے گئے ہیں۔ ابتدائی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ طیارے کا پائلٹ ایک میل دوری پر ہونے کے باوجود اے ٹی سی کنٹرولر کی ہدایت کو نظر انداز کرتے ہوئے غلط رن وے پر لے آیا۔ اے ٹی سی نے پائلٹ کو رن وے نمبر 36 آر پر لینڈنگ کی ہدایت کی تھی، لیکن پائلٹ نے اس ہدایت کے باوجود دوسرے رن وے پر طیارہ اتارا، جس کے نتیجے میں مسافروں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی۔ قومی ایئر لائن کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ اے ٹی سی کی ہدایت کو نظر انداز کرنے اور فلائٹ سیفٹی کے قواعد کی خلاف ورزی کے باعث دونوں پائلٹ کو گراؤنڈ کر دیا گیا ہے۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب دھند کے باعث پرواز کی منزل ملتان کے بجائے لاہور ایئرپورٹ پر ہنگامی لینڈنگ کی گئی۔ اس واقعے نے ایئر لائن کی سیکیورٹی اور سروس کی کیفیت پر سوالات اٹھا دیے ہیں، اور پی آئی اے کو اپنی داخلی پروسیجرz کی جانچ کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
چیچہ وطنی: صوبہ پنجاب کے شہر چیچہ وطنی کے علاقے کاسووال کے قریب چک 8/14-ایل میں جمعہ کے خطبے کے دوران امام مسجد کی جانب سے توہین مذہب اور فرقہ واریت پر اکساتی تقریر کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ ڈان اخبار کے مطابق، سب انسپکٹر محمد مشتاق کی شکایت پر کاسووال پولیس نے جامعہ عثمانیہ کے امام کے خلاف پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعات 295 اے (مذہبی گروہ کی بدنیتی پر مبنی توہین)، 298 (توہین اہل بیت اور صحابہ کرام) اور پنجاب ساؤنڈ سسٹم (ریگولیشنز) ایکٹ 2015 کی دفعہ 6 کے تحت مقدمہ دائر کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، امام نے گاؤں کی جامعہ عثمانیہ مسجد میں جمعے کا خطبہ دیتے ہوئے ایک خاص فرقے کے خلاف نفرت انگیز زبان کا استعمال کیا جس کے بعد ان کی تقریر مقامی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کی گئی۔ یہ ویڈیو وائرل ہونے کے نتیجے میں متاثرہ فرقے میں بے چینی پھیل گئی۔ کاسووال کے ایس ایچ او، ذیشان بشیر نے بتایا کہ پولیس کو ویڈیو کی معلومات ملی جس کے بعد انہوں نے فوراً گاؤں کا رخ کیا اور صورتحال پر قابو پانے کی کوشش کی۔ ضلعی پولیس افسر (ڈی پی او) رانا طاہر نے ڈان کو بتایا کہ ملزم موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا، تاہم پولیس نے گاؤں کے بزرگوں اور مذہبی رہنماؤں کی مشاورت سے امن قائم رکھنے کے لیے فوری کارروائی کی۔ یہ واقعہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ مذہبی جذبات کے حوالے سے حساسیت بڑھ رہی ہے اور مقامی انتظامیہ ایسے معاملات کی نگرانی کر رہی ہے تاکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھی جا سکے۔

Back
Top