سوشل میڈیا کی خبریں

سینئر تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کے حج کے حوالے سوشل میڈیا پر بحث چل پڑی,حج سرکاری تھا یا نہیں اس معاملے پر شیعب صہبائی نے بات کی جس پر عاصمہ شیرازی نے لکھاشاہین صہبائی صاحب! آپ کے لیے بہت عزت تھی، افسوس اب نہیں رہی۔ سرکاری حج میں نے کیا نہیں اور جو کیا اس کے پیسے ادا کیے، رسیدیں موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مولا علی کا قول ہے دوست وضاحت مانگتا نہیں، دشمن یقین کرتا نہیں اس لیے یہ معاملہ اللہ پر چھوڑا ہے۔ باقی شکر ہے میں نے کینیڈا کا سفیر لگنے کے لیے کسی حکومت کی سفارشیں نہیں کیں۔ اب آپ صحافی سے ٹرول بن چکے ہیں وقت گزاری کے لیے اچھا مشغلہ ہے۔ سو لگے رہیں۔ جوابی ٹوئٹ پر شاہین صہبائی نے لکھا عاصمہ ، میں معذرت خواں ہوں کے جو ٹویٹ میں آپکو پرسنل میسج کرنا چاہ رہا تھا کیونکہ آپکے بہت فولوور ہیں اور آپ مجھے فالو نہیں کرتیں اسلئے میری ٹویٹ پبلک میں چلی گئی، مگر پھر میں نے سوچا ایک مخلص مشورہ ہی دیا ہے . مجھے نہیں معلوم تھا آپ اپنے خرچے پر حج کرنے گئی تھیں - قابل تحسین بات تھی - انہوں نے مزید کہا کہ آپکو جیو سے اے آر وائی میں لانے اور آپکا خاص خیال رکھنے پر مجھے فخر ہے اور آپکی پرسنل زندگی میں بھی ضیاء صاحب آمر متین اور دوستوں سے مل کر آپکا جیون ساتھی ہم نے مل کر چنا - آپ خوش رہیں - انہوں نے کہا آپ کہتی ہیں رسیدیں ہیں تو مجھے یقین ہے ہونگی مگر آپکا مطیع اللہ جان کے ساتھ انٹرویو ہے - جو مانگتا ہے رسید دکھا کر چپ کرا دیں - یا پیسے ابھی بھی دے دیں - مجھے کوئی آپ سے شکوہ نہیں - میں اپنی اننگ کھیل چکا اور آجکل آپ کا وقت ہے - انہوں نے مزید کہا کہ میں نے اپنی ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی ہے آپ باقی لوگوں کو خاموش کر سکتی ہیں - الله آپکا اور مدثر کا خیال رکھے گا - باقی یہ کینیڈا والی بات محض ایک پی پی والوں کا الزام تھا جو الزام ہی ہے - مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ویسے بھی میں امریکی شہری ہو کر پاکستان کا سفیر کہیں نہیں لگ سکتا مگر یہ سوچنے والوں کے لئے بات ہے ان کا کہنا تھا کہ - آپ خوش رہیں اور الله آپکو مزید ترقی دے - میرے پاس اگر کوئی موقع آیا میں آپکی مزید مدد کرونگا اگر ہو سکا - شکریہ ایک صارف نے عاصمہ شیرازی کی پرانی ویڈیو نکالی اور لکھا عاصمہ باجی آج , میں نے سرکاری حج نہیں کیا,عاصمہ باجی چند سال قبل,شوہر کے ہمراہ سرکاری حج کرنے کا دفاع کررہی ہیں۔ فرخ شہزاد نے بھی کلپ شیئر کرتے ہوئے لکھایا تب آپ جھوٹی تھیں یا اب,ایون فیلڈ کی رسیدیں تو کوئی دکھا نہیں پایا، لیکن آپ رسیدیں منہ پر ماریں اور سچ کو آشکار کر ہی دیں تا کہ یہ سرکاری حج کا معمہ حل ہو جائے۔ امجد اقبال اعوان نے لکھامحترمہ عاصمہ شیرازی صاحبہ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے سرکاری پیسوں اور سہولیات سے حج کیا جب حج واپسی پر آپ پر تنقید ہوئی تو آپ نے کہا کہ میں نے حج کے پیسے جمع کرا دئیے ہیں لیکن پروٹوکول اور سہولیات کو تو آپ نے انجوائے کیا حج ٹوٹل اپنی کمائی اور مشقت کے ساتھ مقبول حج ہے انہوں نے مزید کہا کہ باقی اگر شاہین صہبائی صاحب نے وہی بات کی ہے جو لیبل لگ جائیں وہ انسان کا ساری زندگی پیچھا کرتے ہیں جب آپ ایک صحافی سے پارٹی کے ترجمان بنیں گی تو پھر اسی طرح تنقید ہوگی اور پھر اسی طرح سب کہیں کے کہ آپ صحافی سے زیادہ ٹرولر بن گئیں ہیں,معذرت کے ساتھ.
وزیر دفاع خواجہ آصف نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان جیل میں نوکیا 3300 استعمال کرتے ہیں جو دنیا کا سب سے محفوظ ترین موبائل سمجھا جاتا ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ عمران خان جیل میں اتنے اکیلے نہیں ہیں سارا دن میڈیا سے گفتگو کرتے ہیں۔ہمیں تو جیل میں گفتگو کیلئے کوئی نہیں ملتا تھا مشقتی سے ہی بات کرتے تھے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ عمران خان اور جنرل فیض حمید کا معاملہ زیادہ عرصہ معلق نہیں رہے گا، چند دنوں یا ہفتوں میں معاملات حتمی شکل اختیار کرلیں گے۔ سوشل میڈیا صارفین کا اس پر کہنا تھا کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور یہ ابھی تک نوکیا 3300 میں پھنسے ہیں صحافی طارق متین نے طنز کیا کہ نوکیا 3300 محفوظ فون ہوتا ہے اخروٹ توڑو کیل ٹھونکو ۔ جھوٹ بولنے والے کے بے فکر ہو کے پھینک کے مارو احمد ابوبکر نے تبصرہ کیا کہ نوکیا 3300 پرانا فون۔۔۔۔کیا بچگانہ گفتگو ہے، ایسے مہمان کو روزانہ سکرین پر مسلط کرنا سمجھ سے بالاتر ہے تنولی کا کہنا تھا کہ اس بیان کے بعد آئی فون اور سام سنگ موبائل کی مارکیٹ گر گئی اور ہر طرف نوکیا 3300 کی آواز ہے۔ جمیل فاروقی نے ردعمل دیا کہ نوکیا 3300 سے "عالمی ریکٹ" چلانے والا آئی فون والوں کو سمجھ نہیں آرہا سید بخاری کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف کے اس دعوی پر کہ نوکیا 3300 جیلوں میں بھی کام کرتا ہے،جہاں سگنل نہیں ہوتے۔ نوکیا والے خود بھی حیران ہیں؟ صابر شا کر نے ردعمل دیا کہ ریحانہ امتیاز ڈار سے ہارےہوئےفارم47کےوزیردفاع نے اہم ترین انکشاف کردیااوربتایا کہ عمران خان جیل میں دنیاکےبہترین حساس اورمحفوظ ترین کمیونی کیشن کےآلات استعمال کررہاہے اورجیل کی کال کوٹھڑی سےایک عالمی نیٹ ورک چلا رہا ہے اور اس آلے کا نام ہے نوکیا فون 3300 ارشد کا کہنا تھا کہ نوکیا 3300 وہ ڈیوائس ہے جو جیل میں جیمرز کی موجودگی میں بھی کام کرتی ہے سلمان حیدر نے سوال اٹھایا کہ کیا وزارت دفاع نوکیا 3300 کو پکڑ سکتی ہے ؟ اکبر نے تبصرہ کیا کہ خواجہ آصف کی بونگی کا مطلب ہے کہ عمران خان نے 500 روپے کے موبائل فون نوکیا 3310 سے پوری ریاست کو نچایا ہوا ہے جنکا پوری جیل پر قبضہ ہے جنکے پاس کمیونیکیشن intercept کرنے لئے اربوں روپے کا بجٹ ہے جنکے انڈر ملک کی ساری مشینری اور ادارے ہیں امیتاز اعوان نے تبصرہ کیا کہ یہ بندہ اس قابل ہے کہ اسے وزیر دفاع لگایا جائے۔ ان پڑھ جاہل لوگوں کو ہمارے اوپر مسلط کر دیا گیا ہے۔ نوکیا 3300 کو فوت ہوئے بھی مدت ہو گئی ہے۔ خواجہ کو اب یاد آیا۔ خان صاحب صحیح فرماتے یہ اتنے پڑھے لکھے نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صرف بونگیاں مار سکتے ہیں۔
پنجاب کی یونویرسٹیوں کے وائس چانسلرز کی تعیناتی کے لیے وزیراعلی پنجاب مریم نواز نے9 جامعات کے امیدواروں کے انٹریوز مکمل کرلیے ہیں۔ ذرائع کے مطابق11 جامعات کے امیدواروں کو وائس چانسلرز کے انٹرویوز کے لیے بلایا گیا تھا9 امیدواروں کو پنجاب کی جامعات کے لیے منتخب کرلیا گیا جبکہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور یونیورسٹی آف نارووال کے امیدواروں کو وزیراعلی پنجاب نے مسترد کردیا۔ ذرائع کے مطابق پنجاب یونیورسٹی لاہور، یونیورسٹی آف انجینیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی( یو ای ٹی )لاہور، بہاالدین زکریا یونیورسٹی ملتان، یونیورسٹی آف انجینیرنگ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ای ٹی) ٹیکسلا اور خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان کے وائس چانسلرز سمیت9 جامعات کے وائس چانسلرز کو فائنل کرلیا گیا ہے جن کے نوٹیفکیشنز کچھ دن بعد جاری کردئیے جائیں گے۔ سوشل میڈیا صارفین اس پر مریم نواز کا مذاق اڑارہے ہیں اور طنزیہ تبصرے کررہے ہیں۔ ثمینہ پاشا نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ سنا ہے جو مزار اقبال پر اردو میں دو سطریں نہیں لکھ سکیں وہ یونیورسٹیز کے وائس چانسلر کا"میرٹ " چیک کر کے ان کی تعیناتی کرنے جا رہی ہیں۔ ! ٹھیک ہو گیا صحافی طارق متین نے خبر شئیر کرکے اپنے دلچسپ تاثرات کا اظہار کیا کامران کا کہنا تھا کہ لگتا ہے ان وائس چانسلرز کو اُن کے گناہوں کی سزا تو دنیا میں "کے کی" کی صورت میں مل گئی ہے۔۔۔ بشارت راجہ نے ردعمل دیا کہ ایک خاتون جو تاریخ میں فکشن کا مطالعہ کرتی ہے وہ پی ایچ ڈی لوگوں کا انٹرویو کر رہی ہے ۔۔سبحان اللہ فیاض شاہ نے تبصرہ کیا کہ قیامت کی نشانیاں ہیں۔وہ عورت جسے باپ کی سفارش پر میڈیکل کالج میں داخلہ ملا لیکن پھر بھی ڈاکٹر نہ بن سکی۔ جو کا اور کی کا سیدھا جملہ نہیں لکھ سکتی وہ وائس چانسلرز کے لیے پروفیسرز کے انٹرویوز کر رہی ہے جمی ورک نے لکھا کہ پروفیسرز حاضر ہوں، میٹرک پاس سی ایم ان کے انٹرویوز کرے گی۔ سحرش مان نے تبصرہ کیا کہ محترمہ امیدواران سے پہلا سوال یہی پوچھیں گی کہ بتائیں ”کی اور کے“سے آگے کیا لکھتے ہیں ۔؟جنہوں نے بتا دیا وہ پاس ،جنہوں نہ بتایا وہ فیل سجادچیمہ کا کہنا تھا کہ اسکی اپنی تعلیم کتنی ہے جو یہ وائس چانسلرز کے انٹرویو کرنے چلی ہے
سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو شہید کی قبر پر جیالوں کی نعرے بازی کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس پر صارفین کی جانب سے ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے، بینظیر بھٹو کی صاحبزادی بختاور بھٹو نے تنقید کرنے والوں کو جواب بھی دیدیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہورہی ہےجس میں پیپلزپارٹی کے کارکنان کو بینظیر بھٹو کی قبر پر نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے،کارکنان بینظیر کے حق میں ایک نظم کے انداز میں نعرے بازی کرتے ہوئے اپنی محبت و عقیدت کا اظہار کررہے ہیں۔ اس ویڈیو کو صحافی و وی لاگر وجاہت سعید خان نے پوسٹ کیا اور تنقید کی جس کے بعد اس ویڈیو پر ردعمل آنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بینظیر کی صاحبزادی بختاور بھٹو زرداری نے اس تنقید پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کچھ لوگ اپنی زندگی میں وہ کارنامے سرانجام دیتے ہیں کہ انہیں مرنے کے بعد بھی عوام کا پیار حاصل رہتا ہے، جبکہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو باتھ رومز میں تصاویر بنوالیتے ہیں اور شائد اپنے خاندان والوں کو بھی یاد نہیں رہے اور تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں بھی ان کا نام نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس ویڈیو پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا، بلال ذیشان نے کہا کہ یہ ویڈیو دیکھیں اور رب کا شکر اداکریں کہ آپ جیالے نہیں ہیں۔ مطیع اللہ نے کہا کہ جہالت کے گڑھ پی ٹی آئی اور ان سے جڑے ٹاؤٹ ایسے ہیں جنہیں آج تک لیڈر اور آمریت میں فرق نہیں سمجھ آیا، واش روم کی صحافت کرنے والا کیا جانے عقیدت اور محبت کا درجہ کیا ہے، بدقسمتی یہی ہے کہ اس ملک میں جرنیلوں کی گود میں بیٹھنے والے آج صحافی بنے بیٹھے ہیں۔ ایک صارف نے کہا کہ سندھ کے شہری علاقوں کا سارا بجٹ دیہاتوں کے نام پر خود کھا جانے کے بعد پیپلزپارٹی نے ورکرز کو نیا منجن بیچ دیا کہ بینظیر آئے گی تو تمہاری حالت بدلے گی ورنہ نہیں۔ صبیح کاظمی نے سوال کیا کہ محترمہ کی قبر پر یہ کیا ہورہا ہے؟ تنویر اعوان نے کہا کہ پی ایس ایف کے نعرے اپنی جگہ مگر قبر پر کھڑے ہوکر اللہ کی تلاوت کرنی چاہیے تاکہ روح کو ایصال ثواب پہنچ سکے، خود بھی قبر کا خوف کرنا چاہیے اور تالیاں بجانے سے گریز کرنا چاہیے۔ فوزیہ صدیقی نے کہا کہ یہ جاہل ہوگ ہیں اور ان سے بڑے جاہل وہ جو ان کے سرپرست ہیں۔ سرفراز برگری نے کہا کہ "اب تو آجا آجا بینظیر" نعرے پیپلزپارٹی کارکنان کی جانب سے کراچی میں اکتوبر 2007 حملے کے بعد متعارف کروایا گیا تھا۔ صہیب ایس ودھو نے کہا کہ یہ اپنے لیڈر سے محبت کا اظہار کرنے کا طریقہ ہے، شدت پسند ذہنیت رکھنے والے اس چیز کو سمجھ نہیں سکتے۔
نجی چینل کی صحافی تنزیلہ مظہر نے پروفیسر ریاض کی گرفتاری کا دفاع کیا اور کہا کہ پاکستان میں ہر ایشو پر سازشی تھیوریز ہیں ۔ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ریاض احمد کو پولیس کے حراست میں لینے کو بھی کسی سازش سے جوڑنے کے کوشش کی جارہی ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ ان کی حراست کو جسٹس جہانگیری کا معاملے سے جوڑا جا رہا ہے وہ دو ہزار سترہ میں بھی تفتیش کے لئے پولیس کی حراست میں رہے اس وقت تو جسٹس جہانگیری کاُکوئی معاملہ نہیں تھا ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ذرائع کے مطابق ان سے دہشت گردی سے جڑے شکوک و شبہات پر تفتیش کی جا رہی ہے ۔ شک کسی پر بھی ہو سکتا ہے تفتیش کرنے کا حق بھی قانون ریاستی اداروں کو دیتا ہے اگر ان پر شکوک بے بنیاد ہوئے تو باہر آ جائیں گے انشاءاللہ جلدی ۔ تنزیلہ مظہر نے کہا کہ اگر اس عمل میں کوئی غیر قانونی طریقہ اپنایا گیا ہے اس کی پر زور مذمت کریں مگر ریاستی اداروں کو ہر بات پر اتنا متنازعہ نا بنائیں کہ کسی بھی غیر قانونی عمل پر ریاست کے ہاتھ پاؤں باندھ دیے جائیں ۔ اس پر صحافی ماجد نظامی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض 2017 میں ایک پریس کانفرنس کے لیے پریس کلب جا رہے تھے تو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دعوی کیا تھا کہ ان سے لائسنس کے بغیر لوڈڈ پستول برآمد ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ڈان اخبار نے اس بھونڈے الزام اور گرفتاری کے خلاف اداریہ بھی لکھا تھا۔ جس طرح 7 سال بعد حکومت کو ڈاکٹر ریاض کی گرفتاری اچانک یاد آ گئی ہے، تو لگے ہاتھ ڈان اخبار کی انتظامیہ کو بھی دھر لیں کہ وہ دہشت گردوں کی سہولت کار ہے۔۔۔ صحافی نعمت خان نے کہا کہ یونیورسٹی سنڈیکیٹ کا اجلاس ہوتا ہے، جس میں ڈگری منسوخی کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ اس اجلاس سے کئی گھنٹے قبل، ڈاکٹر ریاض صاحب ایک تفصیلی ٹویٹ کرکے بیرونی مداخلت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ اس کے بعد، انہیں غائب کر دیا جاتا ہے، جس کی وجہ سے اسے سیدھے طور پر ڈگری کے معاملے میں غیرقانونی حراست یا اغوا سمجھا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دوسری طرف، ڈاکٹر ریاض کو 2017 میں نہیں بلکہ 2018 میں رینجرز نے کراچی پریس کلب کے سامنے سے اٹھایا تھا۔ مقصد انہیں پروفیسر ظفر حسن عارف کی بازیابی کے لیے پریس کانفرنس کرنے سے روکنا تھا۔ انکے مطابق اس سے چند دن قبل، پریس کلب پر پریس کانفرنس منسوخ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، لیکن پریس کلب نے ایسا نہیں کیا۔ اس وقت ڈاکٹر ریاض پر دہشت گردوں سے تعلق کا کوئی الزام نہیں تھا؛ وہ ایک استاد کے لیے آواز اٹھا رہے تھے، اور اس استاد کا جرم ایم کیو ایم میں شمولیت تھا۔
گلوکار جواد احمد نے کئی سال پہلے سیاست میں قدم رکھا اور اپنی جماعت برابری پارٹی بنائی لیکن انہیں وہ پذیرائی نہ مل سکی جو عمران خان کو ملی، جواد احمد ہر الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں لیکن ہر الیکشن میں ہی چند سو یا چند ہزار ووٹ لیکر ضمانت ضبط کرالیتے ہیں لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔ جواد احمد گراونڈ کی بجائے سوشل میڈیا پر زیادہ متحرک ہوتے ہیں اور انکا ٹارگٹ سابق وزیراعظم عمران خان ہیں، اپنے ایکس اکاؤنٹ پر عمران خان اور پی ٹی آئی رہنماؤں کے خلاف گھٹیا اور غلیظ زبان کا استعمال انہوں نے اپنا معمول بنالیا ہے۔ پاکستان میچ ہار جائے تو جواد احمد عمران خان پر لعنت بھیجتے ہیں، کوئی دہشتگردی کا واقعہ ہو یا کچھ بھی جس کا تعلق عمران خان سے نہ ہو وہ عمران خان پر لعنت بھیجنا نہیں بھولتے اور عمران خان کو جھوٹا، ذاتی، شرابی قرار دیتے ہوئے ذاتی حملوں پر اتر آتے ہیں۔ ایک طرف تو جواد احمد کا ہر وقت کا معمول عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماؤں پر ذاتی حملے، گھٹیا زبان ہے تو دوسری جانب انکی رائے سے اختلاف کرنیوالے صحافی بھی ان سے محفوظ نہیں۔ پہلے انکا ٹارگٹ عمران خان تھے لیکن اب تحریک انصاف کی خواتین بھی انکا ہدف ہیں۔عائشہ بھٹہ، شاندانہ گلزار، زرتاج گل کا خصوصی ہدف ہیں جن کے ہر ٹویٹ کو قوٹ کرکے انہیں جھوٹا، مکار، جاہل قراردیتے ہیں۔ جواد احمد کی اس قسم کی زبان پر عائشہ بھٹہ کی برداشت جواب دے گئی اور ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ویسے تو جواد احمد کی ساکھ نوجوانی کے زمانے سے ہی گِری ہوئی ہے لیکن اس اسٹیج پر بیروزگاری کے مسائل کا سامنا کرنے کی وجہ سی جواد احمد کا ذہنی مرض شدت اختیار کر گیا ہے۔ انہوں ے مزید کہا کہ اسے لگتا ہے پاکستان تحریکِ انصاف کی خواتین کی کردارکشی اور ان کے ساتھ گالم گلوچ سے جواد احمدکا روزگار چل سکتا ہے تو اچھی بات ہے۔ اس پر جواد احمد غصے میں آگئے اور عائشہ بھٹہ کو مکار، جاہل، بدتمیز، بے غیرت کہتے ہوئے دھمکیوں پر اتر آئے اور کہا کہ بکواس نہ کرو مکار اور بدتمیز عورت۔ خبردار جو مجھ پر جھوٹا الزام لگایا۔ میں نے کبھی کسی عورت کی کردار کشی نہیں کی۔ وہ عمران بےغیرت بدزبان گالم گلوچیا ہے جو عورتوں کی کردار کشی کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر سیاست میں آئی ہو تو عورت کارڈ مت کھیلو۔ میرے ساتھ بدتمیزی تم نے شروع کی تھی۔ اگر تم مجھ سے اس بات پر بدتمیزی کرو گی کہ میں نے تمئارے مذہبی منافق قسم کے بدکار، کرپٹ اور جھوٹے لیڈر عمران کی اصلیت لوگوں کو دکھائی ہے تو پھر اس کے جواب کے لیے بھی تیار رہا کرو۔ طارق متین نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اس بے غیرت کی کوئی گندی ویڈیو ہے ان کے پاس ۔ بلاک کر رہا ہوں میں اسے
این اے 79 گوجرانوالہ کی سیٹ تحریک انصاف سے چھین لی گئی ہے اور تحریک انصاف کے ایم این اے احسان اللہ ورک کو 23000 ووٹ مسترد کرکے ہروادیا گیا ہے جس پر سوشل میڈیا پر کافی لے دے ہورہی ہے۔ آٹھ فروری الیکشن میں اس حلقے سے مجموعی طور پر 9300 ووٹس مستردہوئے تھے مگر ن لیگ کے امیدوار کوجتوانے کیلئے مزید 14 ہزار ووٹ مسترد کئے گئے۔ سوشل میڈیا صارفین سوال اٹھارہے ہیں کہ 8 فروری الیکشن کی رات پولنگ عملے، ن لیگ، تحریک انصاف کے پولنگ ایجنٹس کے سامنے گنتی ہوئی تھی، اس وقت تو 9300 ووٹ مسترد ہوئے مگر اس بار اکٹھے ہی 14000 ووٹ مسترد کروادئیے گئے؟ اس پر صحافی صابر شاکر اور ن لیگ کے حامی سمجھے جانیوالے صحافی فخردرانی کے درمیان بحث چھڑ گئی۔ثاقب بشیر نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس پر فخردرانی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کا دفاع کیا اپنے ٹوئٹر پیغا میں فخر درانی نے کہا کہ اگر مفروضے پر ہی چلنا ہے تو پھر یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ جتنے ووٹوں سے ایک امیدوار ہارا تھا اتنے یا اس سے زیادہ ہی ووٹ مسترد کرکے اسکو جان بوجھ کر ہروایا گیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ماضی میں ایسا ہوتا رہا قاسم سوری کے حلقے میں اسکے مخالف کو 52 ہزار ووٹ مسترد کرکے ہروایا گیا تھا۔ یہ پرانا طریقہ واردات رہا ہے۔اسی لیےری کاونٹنگ میں پھر حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے فخردرانی کے اس دعوے پر حیرت کا اظہار کیااور کہا کہ قاسم سوری کو تو ووٹ ہی 26 ہزار سے کم پڑا تھا تو پھر اسے 52 ہزار ووٹ مسترد کرکے کیسے جتوایا گیا؟متعدد سوشل میڈیا صارفین قاسم سوری کے دعوے کی حقیقت سامنے لے آئے۔ الیکشن 2018 میں این اے 265 کوئٹہ میں قاسم خان سوری نے لشکری رئیسانی کو 5 ہزار کے قریب ووٹوں سے ہرایا تھا، اس الیکشن میں مجموعی طور پر ایک لاکھ 14 ہزار ووٹ پول ہوئے تھے جبکہ مسترد ووٹوں کی تعداد 3422 ہے۔ قاسم سوری نے 25979 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ لشکری رئیسانی نے 20394 ووٹ اور محمودخان اچکزئی نے 11487 ووٹ حاصل کئے تھے۔ رزلٹ مرتب کرنیوالے فارم 49 کے مطابق اس حلقے میں 52 ہزار نہیں بلکہ 3422 ووٹ مسترد ہوئے تھے قاسم سوری کے حلقے کے 52 ہزار ووٹوں کی حقیقت یہ ہے کہ یہ ووٹ غیر تصدیق شدہ ووٹ تھے جن کے انگوٹھوں کے نشانات کی نادرا سے تصدیق نہیں ہوسکی تھی اور سپریم کورٹ فیصلے کے مطابق انہیں جعلی ووٹ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ نادرا کے پاس متعدد لوگوں کے انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا مربوط نظام نہیں ہے یہ 52 ہزار ووٹس بھی قاسم سوری کو نہیں پڑھے تھے بلکہ قاسم سوری کو اس سے آدھے سے یعنی 26 ہزار ووٹ پڑے تھے۔۔ یہ ایسے ووٹس ہیں جو قاسم سوری، لشکری رئیسانی، محمودخان اچکزئی، راحیلہ درانی اور دیگر امیدواروں کے ہیں۔
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جس میں پنجاب پولیس کی ایک گاڑی نظر آ رہی ہے، جس کی نمبر پلیٹ پر 804 درج ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک پولیس اہلکار قیدیوں کی بس کے پیچھے کھڑا ہے اور اسکی نمبر پلیٹ پر 804 لکھا ہوا ہے۔ پولیس اہلکار خوشی سے گاڑی کی نمبر پلیٹ پر اشارے کرتا ہے جبکہ بیک گراؤنڈ میں ایک گانا "قصے عشق دے دیکھے " چل رہا ہے اور 804 سے والہانہ محبت کا اظہار کررہا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے مطابق اس پولیس اہلکار کا نام یاسر ہے اور اسے معطل کردیا گیا ہے جبکہ بس کو بھی گراؤنڈ کردیا گیا ہے صحافی محمر عمیر کے مطابق بس نمبر 804 کے ساتھ ویڈیو بنانے کے جرم پر لاہور پولیس کے اہلکار یاسر کو معطل کردیا گیا۔ یادرہے کہ یہ نمبر 804 تحریک انصاف کے سپورٹرز کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ سابق وزیر اعظم عمران خان کو جیل جانے کےبعد قیدی کا نمبر" 804" الاٹ کیا گیا تھ اور یہ ایک مشہور اصطلاح بن چکی ہے۔ اسی نمبر سے متعلق شرٹس، ٹوپیاں اور دیگر سامان بھی مارکیٹ میں دستیاب ہے، اور اس پر گانے بھی تخلیق کیے جا رہے ہیں۔804 پر سب سے زیادہ ملکو نامی گلوکار کا گانا "نک دا کوکا" مقبول ہوا تھا
نعیم پنجوتھہ نے میڈیا سے گفتگو میں انکشاف کیا ہے کہ بشری بی بی نے جج سے کہا کہ چھت سے چوہے آتے ہیں،پہلے بھی متعدد بار شکایت کر چکی ہیں لیکن سنوائی نہیں ہوئی،پرانے کمرے ہیں اور چوہے اتنے زیادہ تعداد میں ہیں کہ واک کریں تب بھی پیروں میں آتے ہیں۔ نعیم پنجوتھہ کے مطابق آج جب دوبارہ سے بشری بی بی نے کہا تو جج نے جواب دیا آپ ان چوہوں کے ساتھ فٹ بال کی طرح کھیلیں۔ تحریک انصاف کے ایم این اے شاہد خٹک نے اس پر ردعمل دیا کہ ہم نے قومی اسمبلی کے فلور پر انہیں کہا ہے کہ کہ اتنا کرو جو کل آپ برداشت کر سکو، آگر آپ آج بشری بی بی پر چوہے چھوڑ رہے ہیں تو کل پھر یہ گلہ نہ کرنا ہمارے سیل میں چوہے کیوں چھوڑے؟ زبیر علی کان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے جج صاحب چوہوں کے ساتھ کھیلتے کھیلتے جج بن گیے ہیں ارسلان بلوچ کا کہنا تھا کہ ذہنیت چیک کرو اس جج کی اور اب سوچو کیا یہ انصاف کرے گا؟ ایک ایکس صارف نے مزاحیہ انداز اپناتے ہوئے لکھا کہ لگتا ہے جج کا تعلق فیصل آباد سے ہے۔ سیدہ حرا نے سوال کیا کہ کیا یہ جج نواز شریف، زرداری یا کسی اور کی بیوی بیٹی کو ایسا کہہ سکتا ہے؟ ایڈووکیٹ عاصم نے عمران خان کے وکیل نعیم پنجوتھا کی بات کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بھی جج کبھی ایسی بات نہیں کر سکتا اور اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو سب وکیل جانتے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جج کو پتا ہوتا کہ وکلا ساتھ ہیں اور وہ ایسی کوئی بھی بات برداشت نہیں کریں گے تو جج کیسے ایسی بات کرسکتا ہے؟ واضح رہے کہ بشریٰ بی بی نے بیرک میں چوہے ہونے کی جج کو شکایت کر کی اور کہا کہ نماز پڑھتی ہوں تو چوہے چھت سے گرتے ہیں ، جس پر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے کہا کہ یہ معاملہ پہلی بار ہمارے علم میں آیا ہے اور ہم اسے دیکھ لیتے ہیں۔
سافٹ وئیر اپڈیٹ فیل؟ عون علی کھوسہ کی پہلی ویڈیو نے دھوم مچادی۔۔ دیگر سوشل میڈیا صارفین بھی عون علی کھوسہ کے نقش قدم پر چل پڑے حال ہی میں اپنے پیروڈی گانے بل بل پاکستان بنانے والے یوٹیوبر عون علی کھوسہ نے بازیاب ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر اپنی دلچسپ ویڈیو جاری کی۔ عون علی کھوسہ نے 'دِل دِل پاکستان' کی پیروڈی 'بِل بِل پاکستان' بنائی تھی جس میں پاکستان میں بجلی کے بھاری بھرکم بلوں کی مزاحیہ انداز میں منظر کشی کی گئی تھی۔ گانا منظرِ عام پر آنے کے بعد اُنہیں 14 اور 15 اگست کی رات لاہور میں اُن کے گھر سے مبینہ طور پر نامعلوم افراد اُنہیں اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ عون علی کھوسہ کے اغوا کے بعد نہ صرف یہ ویڈیو ڈیلیٹ کروائی گئی بلکہ کچھ دن نامعلوم افراد نے انہیں محبوس رکھا اور پھر چھوڑدیا۔ عون علی کھوسہ نے بازیابی کےبعد گھر پہنچنے کے بعد اپنی پہلی دلچسپ ویڈیو جاری کی جو ایک خاموش پیغام ہے۔ اس ویڈیو کے شروع میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عون علی کھوسہ ڈرے ہوئے ہیں، انکا سانس پھولا ہوا ہےانکے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہیں لیکن پھر اچانک ہی وہ شرارتی انداز میں مسکرانے لگتے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق یہ خاموش پیغام ان لوگوں کیلئے ہے جوڈرانے پر تلے ہوئے ہیں عون علی کھوسہ کی اس ویڈیو کے بعد ٹک ٹاکرز نے بھی ایسی ہی ویڈیوز بنانا شروع کردی ہیں جو سوشل میڈیا پر کافی وائرل ہورہی ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کے مطابق اب لوگ خوف کے بت توڑچکے ہیں اور ب ڈر مسکراہٹ اور قہقہتوں میں تبدیل ہورہا ہے سوشل میڈیا صارفین کے مطابق عون علی کھوسہ نے ایک نیا ٹرینڈ شروع کردیا ہے
سوشل میڈیا پر ایک نیا موضوع زیر بحث آگیا ہے، یہ بحث قومی ہیرو ارشد ندیم کے ایک صحافی کو سوال کا جواب دیئے بغیر روانہ ہونے پر شروع ہوئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کو 40 سال بعد اولمپکس میں گولڈ میڈل جتوانے والے قومی ہیرو ارشد ندیم کی ایک ویڈیو اس وقت سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہورہی ہے، ویڈیو میں ارشد ندیم کو ایک صحافی کو سوال کا جواب دیئے بغیر روانہ ہوتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ارشد ندیم کہیں جانے کیلئے اپنے گھر سے نکل رہے ہوتے ہیں کہ ایک وی لاگر یا صحافی ارشد ندیم سے سوال کرتا ہے کہ آپ کو چیمپئن بن کر کیسا لگ رہا ہے، ارشد ندیم اس سوال کا جواب دیے بغیر تیزی سے آگے بڑھ جاتے ہیں جس پر صحافی دوبارہ سوال کرتا ہے اور پوچھتا ہے کہ آپ جواب کیوں نہیں دے رہے۔ ارشد ندیم صحافی سے کہتے ہیں کہ انہیں دیر ہورہی ہے، اس ویڈیو کے وائرل ہونے پر سوشل میڈیا پر بحث شرو ع ہوگئی ہے، صارفین اس معاملے پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کررہے ہیں، کچھ صارفین اسے ارشد ندیم کا غرور قرار دے رہے ہیں تو کچھ بغیر وقت لیے قومی ہیرو سے سوال جواب کرنے پر صحافی کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔ صحافی و وی لاگر سلمان درانی نے ارشد ندیم کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ایک یا دو سوالوں کے جواب دینے پر ارشد ندیم صاحب چھوٹے نہیں ہوجاتے، یہ صحافی لاہور سے آپ کےگاؤں میاں چنوں صرف آپ کا انٹرویو لینے آیا تھا، آپ کو اس کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا۔ صوفیہ نامی صرف نے کہا کہ ارشد ندیم کے تو بہت نخرے ہیں، ویسے انہوں نے شاہین آفریدی کے بچے کیلئے ٹویٹ کردی تھی اور ان کے پاس ٹائم نہیں ہے۔ عمر قریشی نے کہا کہ کسی کے گھر میں بغیر اجازت گھس کر انٹرویو دینے کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا، یہ کہاں کی صحافت ہے؟ فیضان لاکھانی نے کہا کہ پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا رپورٹر نے ارشد ندیم سے انٹرویو کیلئے وقت لیا تھا یا بس یونہی پہنچ گیا؟ اگر یونہی پہنچا تو گفتگو کیلئے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں، کسی ایتھلیٹ کو اس طرح راہ چلتے روک کر سوال کرنا مناسب نہیں ہوتا اور اس کے شکوہ تو بالکل بھی نہیں بنتا۔ انجم اقبال نے کہا کہ تصویر کا ایک رخ دیکھ کر فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے، صبح شام انٹرویوز دے دے کر ارشد ندیم تھک چکے ہیں، ہر کسی کو انٹرویو دیا، ہر کسی کے ساتھ ہنس کر ملے، اب ایک آدھ بار تھکاوٹ سے جواب نہیں دے سکا تو کیا ہوگیا، آپ نے اس کے زوال کی داستانیں لکھنا شروع کردیں۔
گزشتہ دنوں بلوچستان میں دہشتگردی کے دل دہلادینے والے واقعات ہوئے ، موسیٰ خیل میں 23 پنجابیوں کو بی ایل اے کے دہشتگردوں نے گولیاں مار کر قتل کردیا اس واقعے پر پاکستانیوں نے انتہائی غم وغصے کا اظہار کیا اور حکومت سے روک تھام اور ایسے عناصر کے قلع قمع کا مطالبہ کیا لیکن دوسری طرف اسکی آڑ میں لسانیت پھیلانے والے بھی متحرک ہوگئے اور وہ پنجاب میں چلنے والے کوئٹہ ہوٹلز کے پیچھے پڑگئے کوئٹہ ہوٹل والوں کی لاہور سمیت مختلف شہروں میں کئی برانچز ہیں اور یہ اپنے خستہ اور لچھے دار پراٹھے اور مزیدار چائے کی وجہ سے مشہور ہیں اور انکے چائے پراٹھا کی قیمتیں بھی انتہائی مناسب ہیں جو ایک عام مزدور کی پہنچ میں ہیں۔ اس کمپین میں ن لیگ کے حامی صحافی اور سپورٹرز پیش پیش تھے جن میں ایک صحافی نجم ولی خان سب سے آگے آگے تھے، نجم ولی خان ایک چھوٹے سے نجی چینل پر پروگرام کرتے تھے مگر مسلم لیگ ن کی حکومت نے اب اسے پی ٹی وی پر اینکر کی نوکری دیدی ہے جبکہ ماضی میں وہ ریلوے میں بطور پی آر تعینات رہے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں نجم ولی نے کہا کہ میں نے 2020 میں توہین آمیز خاکوں کے خلاف فرانس کی کمپنی ٹوٹل کا بائیکاٹ کیا۔ کبھی اس سے پٹرول نہیں ڈلوایا اور اسے پاکستان سے بھاگنا پڑا۔ آج میں بی ایل اے کی دہشت کردی پر نہ کسی کو گولی مار سکتا ہوں نہ شہروں سے نکال سکتا ہوں مگر میں بطور احتجاج ہر کوئٹہ ہوٹل کا بائیکاٹ کرتا ہوں۔ وسیم جنجوعہ کا کہنا تھا کہ آج سے پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک ریاستی ادارے (پی ٹی وی ) کا ملازم یوں سر عام صوبائیت کو ہوا دے کر ملک میں مزید آگ بھڑکانے والی باتیں کرے گا۔بلوچستان میں پیش آئے سانحے کے بعد چند مخصوص اکاؤنٹس سے اسطرح کی ٹویٹس تواتر سے کی جا رہی ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں اور انکا ایجنڈا کیا یے؟ عدیل حبیب نے تبصرہ کیا کہ ابھی آج کا سوشل میڈیا دیکھا ہے ، ٹاؤٹ صحافی اس وقت بلوچوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کی کوشش کر رہے ہیں. یہ ایک organized campaign لگ رہی ہے. مجھے پتہ ہے، آپ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا. آپ ان سے کہیں زیادہ شاطر اور سمارٹ ہیں. بلوچ ہمارے بھائی ہیں! رائے ثاقب کھرل کا کہنا تھا کہ دہشت گرد صرف دہشت گرد ہوتا ہے، ہم سب کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔ کوئٹہ ہوٹل اور ایسے اورکاروباروں خلاف کمپین ایک لغو اور گھٹیا کمپین ہے۔ نفرتیں ختم کریں الٹی سیدھی کمپینز مت کریں۔ عدنان عامر نے ردعمل دیا کہ نسل پرست ہمیشہ غلط معلومات کیوں رکھتے ہیں؟ کوئٹہ ہوٹل بلوچستان کے پشتون چلاتے ہیں۔ نفرت پھیلانا آسان ہے اور بکتا بھی ہے، ذرا سوچئے احمد وڑائچ نے لکھا کہ کوئٹہ ہوٹل میں ہزاروں مزدور حق حلال کی کھاتے ہیں۔ نہ ان کو کسی حکومت نے ریلوے میں بھرتی کرنا ہے، نہ PTV کی لاکھوں کی نوکری ملنی ہے۔ حرام کھانے والے سانڈوں کو اگنور کریں، کوئٹہ ہوٹل جائیں، پراٹھے کے ساتھ گڑ والی چائے کا لطف لیں۔ اسلام آباد، پنڈی والوں کیلئے میری طرف سے آفر۔ شاعر احمد فرہاد کا کہنا تھا کہ آپ مریم نواز کے اس چپراسی اور جاتی امرا کے چوکیدار کی دماغی حالت ملاحظہ کیجے۔جس شخص کو میں پندرہ ہزار کی نوکری پر نہ رکھوں اسے فوطہ برداری پر بارہ لاکھ ماہانہ پر پی ٹی وی میں ملازم رکھا گیا ہے۔ ڈاکٹر شہباگل نے تبصرہ کیا کہ کچھ لوگوں کو کوئٹہ ہوٹل کا بائیکاٹ کرنے کی باتیں کرتے دیکھا۔ یہ بکواس ہے۔ ایسے اقدامات سے نفرت بڑھے گی کم نہیں ہو گی۔ پنجابیوں کے خون سے کھیلی گئی ہولی یقیناً دردناک افسوسناک ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں دکھ میں ہم بھول جائیں کہ عام بلوچی ہمارا بھائی ہے۔اتحاد کی فضا پیدا کریں سالار سلطانزئی نے تبصرہ کیا کہ یہ سرکاری چینل پر ملازم ہے اور موجودہ لاڈلوں میں سے ہے. اس سوچ کی ترویج سے صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ آپسی خانہ جنگی سے ملک کو توڑنے کی کوششوں میں ہیں. نوٹ: کوئٹہ ہوٹل پشتونوں کے ہیں بلوچ بھائیوں کے نہیں. امجد خان نے سوال کیا کہ کوئٹہ ہوٹل والوں کا کیا قصور ؟؟؟
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر سینئر صحافی حامد میر و عمران ریاض خان کے درمیان ارشد شریف کے قتل کیس کے حوالے سے مکالمہ ہوا ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے ارشد شریف قتل کیس میں جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیے جانے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ سب کو معلوم ہے کہ ارشد شریف کو ایجنسیوں نے ہراساں کیا، کیا حالات تھے جس کی وجہ سے ارشد کو ملک چھوڑنا پڑا، ارشد شریف نے ملک چھوڑ کر نہیں جانا تھا کیونکہ اس کے پاس تو کسی ملک کا ویزہ بھی نہیں تھا۔ حامد میر کے اس ٹویٹ پر سینئر صحافی و تجزیہ کار عمران ریاض خان نے ردعمل کا اظہار کیا اور کہا کہ جس وقت ارشد شریف اور ہم سب پر ظلم ہورہا تھا تو کوئی ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا، بہت سے دوست تو آج بھی بہت کچھ بھگت رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی تمام اختلافات کے باوجود اظہار رائے اور صحافیوں کے بنیادی حقوق پر سب کو اکھٹا ہونا چاہیے، کئی صحافی تو ایسے بھی ہیں جو آج بھی جلاوطنی اور تکلیف کی زندگی گزاررہے ہیں۔ حامد میر نے عمران ریاض خان کے اس شکوے کا جواب دیتے ہوئے جواب شکوہ کیا اور کہا کہ جب عمران خان کے دور پر مجھ پر کئی ماہ کی پابندی لگائی گئی اور شہر شہر غداری کے پرچے دائر ہورہے تھے تب میرے ساتھ بھی بہت کم لوگ کھڑے تھے۔ حامد میر نے کہا کہ آپ درست کہتے ہیں کہ مشکل وقت میں کم لوگ ہی کسی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، تاہم مشکل وقت آخر کار کٹ ہی جاتا ہے، تاہم مشکل وقت میں مدد کرنے والے یاد نہیں رہتے بلکہ پیچھے سے وار کرنے والے زیادہ یاد رہتے ہیں۔
وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں کسی بڑے آپریشن کی ضرورت نہیں یہ دہشت گرد صرف ایک ایس ایچ او کی مار ہیں، دہشت گردوں کو جلد ایک ’’اچھا میسج‘‘ مل جائے گا۔ یہ بات انہوں نے کوئٹہ آمد کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان سردار سرفراز بگٹی کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ سوشل میڈیا صارفین نے اس بیان پر محسن نقوی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اگر دہشتگرد ایک ایس ایچ او کی مار ہیں تو نئے آپریشن کیلئے 20 ارب روپے کی منظوری کی کیا ضرورت ہے اور لاکھوں کی فوج رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ سوشل میڈیا صارفین کی اکثریت محسن نقوی کے بیان کا مذاق اڑاتی رہی اور اسے ایک ناکام وزیرداخلہ اور ناکام چئیرمین پی سی بی قرار دیا۔ احمد فرہاد نے ردعمل دیا کہ میری حکومت اور مقتدر حلقوں سے گزارش ہے کہ محسن نقوی کو فوری پر بلوچستان کے سب سے خطرناک علاقے میں بطور ایس ایچ او تعینات کیا جائے تا کہ وہ امن و امان کی بگڑتی صورت حال پر قابو پا سکیں۔ اینکر عمران خان کا کہنا تھا کہ موصوف شائد سیاسی دہشتگردوں کی بات کر رہے ہیں ورنہ ابھی چند دن پہلے ایک نئے آپریشن کے لیے 20 ارب کی منظوری نہ دی جاتی بلکہ 4 پولیس والوں کو مزید SHO لگا دیا جاتا۔ عیسیٰ نقوی نے ردعمل دیا کہ صرف 1 ایس ایچ او۔۔۔ آپکا ویژن ہے سر! معاذ نے ردعمل دیا کہ جناب کچے کے ڈاکو تو پکڑے جاتے نہیں ہیں بس باتوں کے سوائے کچھ نہیں کیا اور دوسری بات آپ پہلے پی ٹی آئی کے لوگوں کو تو دہشت گرد ملک دشمن بنانے سے فرصت ملے تو کچھ کریں۔ملک کےسب اداروں کو پی ٹی آئی کے پیچھے لگایا ہوا۔ ارم زعیم کا کہنا تھا کہ ناکام ترین آئین شکن نگران وزیر اعلیٰ ناکام ترین PCB چیئرمین ناکام ترین وزیر داخلہ نا عوام میں کوئی حیثیت، نا کوئی سیاسی حیثیت ایک سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ 24 سال سے دہشتگردوں کے نام پر اربوں ڈالر کا بجٹ کھا گئے۔ غریب عوام کو یہہ کر تہہ لگا دی۔ اب ایک ایس ایچ او کی مار ہیں۔ ایک اور سوشل کا کہنا تھا کہ محسن نقوی کے خیال میں اگر ایس ایچ او کسی سیاسی جماعت کے سپورٹروں سے نمٹ سکتا ہے تو دہشتگردوں سے بھی نمٹ سکتا ہے ، محسن نقوی کو وزیرداخلہ بنانے والوں کی جے ہو ۔ امجد اعوان کا کہنا تھا کہ پھر یہ عزم استحکام آپریشن اور آج بیس ارب روپیہ جو حکومت نے منظور کیا ہے یہ سب کس کے لئے ایک ایس ایچ او اختیار دیں اور قوم کا پیسہ اور وقت بچائیں محسن نقوی صاحب
پاکستان میں کرپشن,دھوکا دہی اور مسائل معمول کی بات ہوگئی,پیٹرول پمپ پر بھی عوام کو دھوکا دیا جانے لگا, گزشتہ چند سالوں سے انٹرنیٹ پر اس طرح کے بے شمار واقعات سامنے آتے رہتے ہیں,جس میں سیکیورٹی کیمروں کی موجودگی کے باوجود پٹرول پمپ پر عوام کو لوٹا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس میں پیٹرول پمپ پر کام کرنے والا ایک ملازم موٹر سائیکل میں پیٹرول ڈالتے وقت مشین کو چھیڑتا ہے لیکن جیسے ہی اسے ویڈیو بننے کا علم ہوتا ہے تو وہ مشین سے اپنا ہاتھ فوری طور پر اٹھا لیتا ہے اور ساتھ کھڑے ملازم کو اشارہ کرتا ہے کہ اس کی ویڈیو بنائی جا رہی ہے۔ اسد ملک نامی صارف نے ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ پیٹرول ڈلواتے وقت احتیاط کریں اور اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ ایک صارف نے اس واقعہ پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ چوری، بے ایمانی اور 2 نمبری ہمارا قومی کلچر بن چکی ہے۔ سمیرا گل لکھتی ہیں کہ پیٹرول پمپ پر کام کرنے والے ان ملازمین کو پیٹرول کی بچت کے لیے ہیرا پھیری کرنے کا کیا فائدہ ہو گا کیونکہ ان کو تنخواہ تو اتنی ہی ملے گی لیکن اس جرم کے بدلے یہ جہنم خرید رہے ہیں۔ ایک صارف نے سوال کیا کہ اس کے علاوہ پیٹرول پمپس والے کن کن طریقوں سے فراڈ کرتے ہیں اور ایسا کون سا طریقہ اپنایا جائے کہ پیٹرول پورا ملے لیکن کوئی پیٹرول پمپ والا فراڈ نہ کر سکے۔ صارفین کا تنقید کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہ ورکرز خود مزدور اور غریب طبقے سے ہی تعلق رکھتے ہیں لیکن اس کے باوجود غریب عوام کا استحصال کرنے سے باز نہیں آتے۔
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان کھیلے گئے راولپنڈی ٹیسٹ میں قومی کرکٹ ٹیم کی شکست کے بعد جہاں سابق پاکستانی کھلاڑیوں کی طرف سے قومی ٹیم کی کارکردگی اور پاکستان کرکٹ بورڈ کی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہیں غیرملکی کھلاڑی بھی خاموش نہ رہ سکے۔ انگلینڈ کےسابق کھلاڑی کیون پیٹرسن نے ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں لکھا کہ پاکستان میںکرکٹ کو کیا ہو گیا ہے؟ جس پر کسی پاکستانی صارف نے اسے نحوست اور کسی نے ملکی سیاست کا شاخسانہ قرار دے دیا۔ کیون پیٹرسن نے اپنے پیغام میں حیرت کا اظہار کرتے لکھا: پاکستان میں کرکٹ کو کیا ہو گیا ہے؟ جب میں نے پاکستان سپرلیگ میں شرکت کی تھی تو اس کا معیار شاندار تھا۔ پاکستان سپرلیگ میں ایک سے بڑھ کر ایک کھلاڑی تھا اور نوجوان کھلاڑیوں کا ایک جادو تھا، وہاں پر اب کیا ہو رہا ہے؟ ایک سوشل میڈیا صارف نے اسے نحوست قرار دیتے ہوئے لکھا: کیون بھائی نحوست چھائی ہے۔ آسیب کا سایہ ہے۔ اب آپ کو کیا بتائیں! ایک صارف نے وزیراعظم شہبازشریف اور لیگی رہنما رانا مشہود احمد خان کا جملہ ' آپ کا ویژن ہے سر' شیئر کرتے ہوئے لکھا: یہ ہو رہا ہے! ایک صارف نے لکھا: ہمارے ملک کی کرکٹ ہمارے ملک کے حالات کا آئینہ دار ہے، ہم برباد ہو چکے ہیں! ایک صارف نے لکھا: اپریل 2022ء میں ہونے والی رجیم چینج نے ہمارے ملک میں ہر چیز کو برباد کر دیا ہے، جب سے رجیم چینج ہوئی ہے کرکٹ سمیت ہر شعبے میں ہمارا ملک تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ ایک صارف نے لکھا: ہمارا ہر کھلاڑی قومی کرکٹ ٹیم کا کپتان بننا چاہتا ہے، جب ہمارے کھلاڑی جیتنے کے لیے ہمارے کپتان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوں گے، قائدانہ صلاحیتوں کا فقدان ہو گا، کھلاڑی ایسے کھیل رہے ہوں گے جیسے کہ پریکٹس میچ ہے، کیچ ڈراپ ہوں گے، فیلڈنگ خراب ہو گی تو یہی کچھ ہو گا! صبا شیخ نے لکھا: سیاست ہو رہی ہے، سیاست نے پاکستان کرکٹ کو تباہ کر دیا ہے! فرزانہ چودھری نے لکھا: پاکستان کرکٹ بورڈ میں نیپوٹزم کے ساتھ ساتھ تسلسل کے ساتھ سیاسی تعیناتیاں ہو رہی ہیں، نااہلی اور غیرپیشہ ورانہ افراد کی بھرتیوں کے باعث پاکستان کرکٹ کا یہ حال ہو گیا ہے! عدیل راجہ نے لکھا: پاکستان کرکٹ کو محسن نقوی ہوا ہے! یاد رہے کہ راولپنڈی ٹیسٹ میچ میں بنگلہ دیش نے قومی کرکٹ ٹیم کو پہلی دفعہ 10 وکٹوں سے شکست دے کر تاریخی فتح حاصل کی تھی، ٹیسٹ سیریز کے پہلے میچ میں قومی کرکٹ ٹیم دوسری اننگز میں صرف 146 رنز بنانے کے بعد آئوٹ ہو گئی تھی۔ بنگلہ دیش کو دوسری اننگز میں ٹیسٹ میچ جیتنے کے لیے صرف 30 رنز کا ہدف ملا تھا جو اس نے بغیر کسی نقصان کے حاصل کر لیا تھا۔
فیس بک اکاؤنٹ سے کارساز واقعہ کی ملزمہ نتاشہ کے حق اور مقتولین کے اہلخانہ کے خلاف غلیظ مہم کا ڈراپ سین ہو گیا۔ اکاؤنٹ جعلی نکلا۔ جس لڑکی کے نام سے اکاؤنٹ بنا کر نتاشہ کے حق میں مہم چلائی جا رہی تھی وہ لڑکی سامنے آ گئی اور اس اکاؤنٹ سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کیا کہ میں تو فیس بک استعمال ہی نہیں کرتی۔ کسی نے میری تصویر اٹھا کر جعلی اکاؤنٹس بنا کر یہ سب پوسٹ کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر کارساز حادثے کی ملزمہ نتاشہ کی حمایت میں اس اکاؤنٹ سے متنازع مواد شیئر کیا گیا، کچھ خواتین نے بھی ملزمہ کو واقعہ سے بری الذمہ قرار دیتے ہوئے مرنے والوں کو توہین کی، ان پیغامات کو لے کر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آرہا تھا۔ زرفشان نقوی نامی اکاؤنٹ کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں گالیاں دیتے ہوئےکہا گیا کہ متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ ملزمان نے ان سے رابطہ نہیں کیا، تو ان سے رابطہ کیوں کیا جائے، سب سے پہلے تو نتاشہ کے خلاف سوشل میڈیا پر چلنے والی نفرت آمیز مہم روکی جائے،یہ ایسے لوگ ہیں کہ ایک لڑکی جو پہلے سے ڈپریشن اور دیگر بیماریوں کا شکار ہے کہ خلاف مہم چلارہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اتنے فرسٹریٹڈ اور ذہنی بیمار لوگ ہیں کہ واقعے کو ایک حادثہ ماننے کو تیار نہیں ہیں، نتاشہ کو جیل نہیں علاج کی ضرورت ہے، ہم دیت کے نام پر ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں دیں گے، تم سب لالچی ہو، لوگ چیک کیش کرواتے ہیں مگر تم لوگ اپنی لاشیں کیش کروانے کی کوشش کررہے ہیں، کچھ شرم کرو۔ زرفشان نقوی نے اپنی دوسری پوسٹ میں کہا کہ چلیں مان لیں کہ مقتولہ ایک لاکھ روپے مہینہ کمالیتی تھی، اب نتاشہ کی فیملی انہیں 5 کروڑ دیت کی مد میں ادا کرنے کی پیشکش کررہی ہے، اگر مقتولہ زندگی کے 42 سال کمائے تب جاکر وہ پانچ کروڑ وپے کما سکے گی، متاثرہ خاندان کیلئے بہتر ہے کہ وہ اس آفر کو قبول کریں اور اپنی زندگی بہتر کرلیں، اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر ساری عمر ترستے اور پچھتاتے ہوئے گزرے گی۔ زرفشان نقوی نے فیس بک پر اپنی پوسٹ میں لکھا کہ وہ کہتے ہیں کہ نتاشہ کو پولیس کی حراست سے نکال کر دکھائیں، اسے اپنی زندگی جیل میں گزارنی ہوگی، مگر میں کہتی ہوں کہ اگر وہ باہر نکل آئی تو کیا آپ لوگ برداشت کرلو گے کیونکہ وہ بہت جلد باہر ہوگی۔ اس پوسٹ کے ردعمل میں ان کی ذہنیت کی مزید خواتین کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سڑکوں پر ہزاروں لوگ ٹریفک حادثوں میں جاں بحق ہوجاتے ہیں، مگران کا رونا شروع ہوجاتا ہے کہ غریب کو انصاف نہیں ملتا، یہ ایک حادثہ ہے، اس واقعہ کو اتنا ہائی لائٹ کیوں کیا جارہا ہے، زیادہ سے زیادہ اس معاملے کودیت دے کر ختم کیا جائے۔ ایسی مزید خواتین نے بھی نتاشہ کی حمایت اور متاثرہ خاندان کی توہین کرتے ہوئے جملے کسے اور موقف اپنایا کہ متاثرہ خاندان اب پیسے کیلئے اس معاملے کو اچھال رہا ہے۔ اس معاملے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے اظہار افسوس کیا گیا، ھدیٰ نے کہا کہ ایک کہتا ہے کہ شہزادی دوبارہ تخت پر بیٹھے گی،یہ لوگ جس انداز میں ملزمہ کی حمایت اور متاثرہ خاندان سمیت پوری قوم کی بے عزتی کررہی ہے یہ ناقابل یقین ہے۔ ایک صارف نے زرفشان نقوی کی کچھ ویڈیوز اور تصاویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ لوگ معصوم لوگوں کی موت کا جشن منارہے ہیں، حکومت کو ایسے نمک حراموں کو ملک بدر کردینا چاہیے۔ اداکارہ مشی خان نے کہا کہ زرفشاں نقوی کی ہمت دیکھو یہ مرنے والوں پر گلاس لہرارہی ہے، اس غیر سنجیدگی کا اندازہ لگائیں، استغفراللہ۔ طارق متین نے گل احمد کے آفیشل اکاؤنٹ کو ٹیگ کرتے ہوئے پوچھا کہ اگر یہ آپ کی ملازمہ ہیں تو کیا ان کے خلاف اس رویے پر کوئی کارروائی کیجائے گی؟ جو مارے گئے وہ انسان تھے، اس جاہلانہ رویے پر ان کو سزا دی جائے۔
پاکستان کرکٹ ٹیم کو بنگلہ دیش کے ہاتھوں تاریخی شکست کے بعد سوشل میڈیا پر صحافیوں اور صارفین کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے، صارفین و صحافیوں نے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کو آڑے ہاتھوں لے لیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق راولپنڈی ٹیسٹ میں بنگلہ دیش نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دس وکٹوں سے شکست دے کر تاریخ رقم کردی ہے،قومی ٹیم کی اس بدترین شکست پر عوام شدید غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں،اس معاملے پر صحافیوں کی جانب سے چیئرمین پی سی بی کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ردعمل دیتے ہوئے طنز کیا اور کہا کہ محسن نقوی کی زیر صدارت کرکٹ بورڈ نے ہنگامی اجلاس میں بنگلہ دیش کی ٹیم سے بلا واپس لینے کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ سینئر تجزیہ کار ارشاد بھٹی نے کہا کہ پاکستان گھر میں پہلی اننگز خود ڈکلیئر کرکے ہار گیا، یہ محسن نقوی کی بابرکت انٹری ہوئی ہے تب سےکرکٹ کا سوا ستیاناس ہوا ہے۔ بھارتی صحافی وکرانت گپتا نے کہا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم بری سے بدترین ہوتی جارہی ہے، چار پیسرز کے ساتھ اپنے ہوم گراؤنڈ میں کھیلتے ہوئے ان کی بیٹنگ لائن بنگلہ دیشی اسپنرز کے سامنے ٹک نا سکی۔ عمران ریاض خان نے میچ رزلٹ میں کی گئی ایڈیٹنگ کی ایک تصویر شیئر کی اور کہا کہ الیکشن کمیشن کا رزلٹ، المشہور فارم 47۔ دوسری ٹویٹ میں انہوں نے رانا مشہود اور شہباز شریف کی "آپ کا وژن " والی تصویر شیئر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب وژن کا کمال ہے۔ شعیب جٹ نے کہا کہ ملک کے حالات ہوں یا کرکٹ بورڈ کے، جناب سے ٹھیک ہورہے ہیں؟ انہوں نےد وسری ٹویٹ میں کرکٹ ٹیم کی آرمی ٹریننگ سینٹر میں ٹریننگ کی تصویر شیئر کی اور کہا کہ اس کے بعد پاکستان ٹیم اٹھ نا سکی۔ صحافی اجمل جامی نے کہا کہ ان کے ملک کے حالات خراب ہیں ، ٹیم کا ایک اہم کھلاڑی مقدمے میں نامزد ہے مگر ٹیم نے اس سب کو ذہن پر سوار نہیں کیا، انہوں نےایک فلیٹ وکٹ پر پاکستانی ٹیم کو آؤٹ کلاس کردیا۔ رضوان غلزئی نے کہا کہ محسن نقوی کی ٹیم بنگلہ دیش سے بھی ہار گئی، یہ آدمی ایک چینل نہیں چلا سکتا اور پورا ملک اس کے حوالے کرکے بیڑہ غرق کردیا گیا ہے۔ ارم ضعیم نے بھی بنگلہ دیش کی جیت کو پاکستانی جیت میں تبدیل کرنے کی ایڈیٹنگ تصویر شیئر کی اور کہا کہ سکندر سلطان نے مسئلہ حل دیا، آئی سی سی ویب سائٹ سے نتیجہ غائب کردیا گیا ہے ۔ زبیر علی خان نے محسن نقوی کی ماضی کے آرمی چیف سے حلف لینے کی ایڈیٹڈ تصویر شیئر کی اور کہا کہ سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جہاں جہاں بھی ہاتھ ڈالتے ہیں بدترین کارکردگی کے نقوش چھوڑ جاتے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما مزمل اسلم نے کہا کہ میچ بچانے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ رنز کو ری کاؤنٹنگ کی طرف لے جایا جائے۔ اینکر ثمینہ پاشا نے کہا کہ اگر قاضی صاحب سے رابطہ کیا جاتا تو نوبت یہاں تک نا آتی، بنگلہ دیشی ٹیم سے بلا ہی لے لیتے مسئلہ ہی نا ہوتا۔ بشارت راجا نے کہا کہ محسن نقوی نے رنز کی ری کاؤنٹنگ کیلئے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسد سلطان نے بھی اس معاملے کو رانا مشہود اور شہباز شریف کے"آپ کا وژن" سے متعلق پوسٹ سے جوڑ دیا۔ احمد فرہاد نے کہا کہ انوکھے لاڈلے محسن نقوی کو وزیر اعلیٰ بنوا کر پہلے صوبے کا سکون برباد کروایا گیا، پھر انہیں وزیر داخلہ بنا کر ملک کو سولی پر چڑھایا گیا اور آخر میں چیئرمین پی سی کا جنازہ نکلوایا گیا، اس بندے سے اچھی تباہی کوئی اور نہیں کرسکتا۔ عدنان عادل نے پوچھا کہ کرکٹ میں فارم 47 کیوں نہیں ہوتا؟ ایک صارف نے کہا کہ معیشت نہیں چل رہی، کرکٹ نہیں چل رہی، دفاع ، استحکام، سفارت، حکومت اور مہنگائی کچھ بھی کنٹرول نہیں ہورہا مگر توسیع کی لڑائی کیلئے لڑلڑ کر پاگل ہورہے ہیں۔
کراچی میں کار ساز حادثے کی ملزمہ کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں محترمہ حادثے کے بعد ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ"تم میرے باپ کو نہیں جانتے"۔ تفصیلات کے مطابق چند روز قبل کراچی میں کارساز روڈ سے ایک گاڑی کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار باپ اور بیٹی جاں بحق ہوگئے تھے ، گاڑی کی ڈرائیور خاتون کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہےجو حادثے کے بعد جمع ہونے والے افراد میں سے کسی نے ریکارڈ کی ہے۔ ویڈیو میں خاتون کو اتنے بڑے حادثے کے بعد ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، ان کے تاثرات اورگفتگو سے کسی بھی طرح کی شرمندگی یا ندامت کا عنصر نظر نہیں آرہا اور وہ ہجوم میں موجود لوگوں اور رینجرز اہلکار کے سامنے ڈٹ کر کھڑی نظر آرہی ہے۔ ویڈیو میں ملزمہ نتاشہ کو کسی فرد کے سامنے دھمکیاں دیتے ہوئے بھی سنا جاسکتا ہے، نتاشہ کہتی ہے "تم میرے باپ کو نہیں جانتے"۔ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد عوام کی جانب سے ملزمہ کی ذہنی حالت اور اس کی ڈھٹائی پر افسوس کا اظہار کیا جارہا ہے، صارفین نے مذکورہ ویڈیو پر دل کھول کر تبصرے بھی کیے اور قانون پر سوالات بھی اٹھائے۔ خیال رہے کہ کراچی میں اسٹیڈیم کے قریب چند روز قبل ایک تیز رفتار گاڑی نے متعدد موٹرسائیکلوں کو ٹکر ماری اور ایک دوسری گاڑی سے ٹکرا کر الٹ گئی، حادثے میں گاڑی مکمل طور پر تباہ ہوگئی تاہم گاڑی چلانے والی خاتون مکمل طور پر محفوظ رہی، حادثے میں باپ بیٹی جاں بحق اور 5 افراد زخمی ہوگئے تھے
علیمہ خان کی بشریٰ بی بی سے متعلق گزشتہ روز لیک ہونیوالی مبینہ وٹس ایپ چیٹ پر سوالات اٹھ گئے۔۔ چیٹ پر جو وقت بتایا گیا تھا عمران خان اس وقت جیل میں نہیں تھے۔ تفصیلات کے مطابق عمران خان کی پہلی گرفتاری 9 مئی 2023 کو ہوئی، 11مئی کو رہائی ملی۔ دوسری گرفتاری 5 اگست 2023 کو ہوئی۔ علیمہ خان کا یہ مبینہ میسج 23 جون 2023 کا ہے، جب عمران خان جیل میں نہیں تھے اور آزاد تھے، زمان پارک والے اپنے گھر میں رہائش پذیر تھے۔ وٹس ایپ چیٹ کے مطابق بشریٰ بی بی کی طرف سے بیان کی گئی فرضی گفتگو میں عمران خان نے جیلر سے کہا کہ انہیں پتہ ہے جیلر پر انہیں مارنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے، اگر انہیں مارا گیا تو عوام جیلر کو نہیں چھوڑیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ بشریٰ بی بی سے منسوب پیغام میں کہا گیا کہ عمران خان نے کہا وہ جانتے ہیں کہ ان کی ساری باتیں عاصم منیر سن رہا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر عمران خان جیل میں تھے تو بشریٰ بی بی نے کون سی جیل میں عمران خان سے ملاقات کی ؟ کون سا جیلر ملاقات میں موجود تھا؟ صحافی احمد وڑائچ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جیو، اے آروائی ، دنیا، سما سب نے 23 جون 2023 والا اسکرین شاٹ چلا دیا، کسی نے پوچھا نہیں کہ اس دن عمران خان قید نہیں تھا، جیل نہیں تھا تو کون سی ملاقات کی بات ہو رہی؟ افسوسناک صحافی ثاقب بشیر نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ صحافت گئی گھاس چرنے ۔۔۔ گرفتاری 5 اگست 2023 کی واٹس میسجز 23 جون 2023 کے ۔۔ وہ بھی عمران خان کے جیل حالات متعلق ۔۔ جب ابھی گرفتاری بھی نہیں ہوئی تھی ۔۔ پورا دن بریکنگ ہوتی رہی تجزیے تبصرے سب ہو چکے ۔۔۔ کسی نے میسج دیکھنا بھی گوارا نا کیا صحافی شہزاداقبال نے بھی اس پر کافی سوالات اٹھائے اور کہا کہ چیٹ پر جو وقت درج ہے اس وقت تو عمران خان جیل سے باہر تھے۔ عطاء تارڑ شہزاداقبال کے سوالوں کے جوابات دینے میں ناکام رہے اور کہا کہ میں اس وٹس ایپ چیٹ کا وقت نہیں بتاسکتا۔

Back
Top