جج اپنی اہلیہ اور بچوں کے معاملات کا ذمہ دار نہیں ہوتا،تحریری فیصلہ

4qaziisa.jpg

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس میں تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔

خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے کیس کے مختصر فیصلے کے 9 ماہ 2 دن بعد 45 صفحات پر مشتمل کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔

تحریری فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کے 10 رکنی لارجر بینچ نے 6 -4 کے تناسب سے جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا اور سرینا عیسیٰ کی نظر ثانی کی درخواستیں منظور کرلیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کا ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکھٹا کیا گیا، مرکزی کیس میں ان کا موقف بھی ٹھیک سے نہیں سنا گیا، سرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کےدوران پورا حق نہیں دیا گیا تھا، شفاف ٹرائل ہرخاص و عام کا حق ہے تاہم جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نیں کیا جاسکتا۔


تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ کسی ایک جج کے خلاف کارروائی سے پوری عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھتا ہے ، کسی بھی معاملے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو از خود نوٹس لینے کی ہدایات اس کی آزادی کے خلاف ہے، آئین کی روشنی میں سرکاری افسران جج کے خلاف شکایات نہیں کرسکتے، چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ درحقیقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک شکایت ہی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایف بی آر کوتحقیقات کا حکم دینا غلط فیصلہ تھا، ججز کے خلاف کارروائی صدر مملکت کی سفارش پر صرف سپریم جوڈیشل کونسل کرسکتی ہے۔

تحریری فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مؤقف کو بھی شامل کیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اہلیہ کے ٹیکس معاملات میں انہیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں نہیں بھیجا جاسکتا کیونکہ سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف جج تک محدود ہے۔


فیصلے میں کہا گیا کہ کھلی عدالت شیشے کے گھروں جیسی ہوتی ہیں، ججز بڑے بڑے لوگوں کے خلاف کھل کر فیصلہ دیتے ہیں ، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر ایف بی آر کے خلاف اپیل اثر انداز نہیں ہوگی۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ممکن تھا ایف بی آر کی رپورٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو برطرف کردیا جاتا، سرینا عیسیٰ کی ایف بی آر کے خلاف اپیل منظور ہوجاتی، تاہم برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کے فیصلے تک قاضی فائزعیسیٰ ریٹائر ہوچکے ہوتے، یہ بھی ممکن تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر کی رپورٹ تسلیم ہی نہ کرتی۔

فیصلے کے مطابق اس عدالت سمیت کوئی بھی جج قانون سے بالاتر نہیں ہے، تاہم کسی کو بھی چاہے وہ اس عدالت کا جج ہی کیوں نہ ہو اسے قانونی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ، ہر شہری کو آئین اپنی آزادی، ساکھ اور جائیداد سے متعلق حق دیتا ہے اور آئین کا آرٹیکل 9 سے 28 ہر شہری کے بنیادی حق کا تحفظ کرتا ہے۔
 

arifkarim

Prime Minister (20k+ posts)
4qaziisa.jpg

سپریم کورٹ آف پاکستان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نظر ثانی کیس میں تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے۔

خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے کیس کے مختصر فیصلے کے 9 ماہ 2 دن بعد 45 صفحات پر مشتمل کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا ہے جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا اضافی نوٹ بھی شامل ہے۔

تحریری فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ کے 10 رکنی لارجر بینچ نے 6 -4 کے تناسب سے جسٹس قاضیٰ فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کے حق میں فیصلہ سنایا اور سرینا عیسیٰ کی نظر ثانی کی درخواستیں منظور کرلیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے اہلخانہ کا ٹیکس ریکارڈ غیر قانونی طریقے سے اکھٹا کیا گیا، مرکزی کیس میں ان کا موقف بھی ٹھیک سے نہیں سنا گیا، سرینا عیسیٰ کو اہم ترین معاملے پر سماعت کےدوران پورا حق نہیں دیا گیا تھا، شفاف ٹرائل ہرخاص و عام کا حق ہے تاہم جج کی اہلیہ ہونے پر سرینا عیسیٰ کو آئینی حقوق سے محروم نیں کیا جاسکتا۔


تحریری فیصلے میں مزید کہا گیا کہ کسی ایک جج کے خلاف کارروائی سے پوری عدلیہ کی آزادی پر سوال اٹھتا ہے ، کسی بھی معاملے میں سپریم جوڈیشل کونسل کو از خود نوٹس لینے کی ہدایات اس کی آزادی کے خلاف ہے، آئین کی روشنی میں سرکاری افسران جج کے خلاف شکایات نہیں کرسکتے، چیئرمین ایف بی آر کی رپورٹ درحقیقت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک شکایت ہی تھی۔

سپریم کورٹ نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ایف بی آر کوتحقیقات کا حکم دینا غلط فیصلہ تھا، ججز کے خلاف کارروائی صدر مملکت کی سفارش پر صرف سپریم جوڈیشل کونسل کرسکتی ہے۔

تحریری فیصلے میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مؤقف کو بھی شامل کیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ اہلیہ کے ٹیکس معاملات میں انہیں مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا، سرینا عیسیٰ کے ٹیکس کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں نہیں بھیجا جاسکتا کیونکہ سپریم جوڈیشل کونسل کا دائرہ اختیار صرف جج تک محدود ہے۔


فیصلے میں کہا گیا کہ کھلی عدالت شیشے کے گھروں جیسی ہوتی ہیں، ججز بڑے بڑے لوگوں کے خلاف کھل کر فیصلہ دیتے ہیں ، سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر ایف بی آر کے خلاف اپیل اثر انداز نہیں ہوگی۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ممکن تھا ایف بی آر کی رپورٹ پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو برطرف کردیا جاتا، سرینا عیسیٰ کی ایف بی آر کے خلاف اپیل منظور ہوجاتی، تاہم برطرفی کے بعد اپیل میں کامیابی کے فیصلے تک قاضی فائزعیسیٰ ریٹائر ہوچکے ہوتے، یہ بھی ممکن تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل ایف بی آر کی رپورٹ تسلیم ہی نہ کرتی۔

فیصلے کے مطابق اس عدالت سمیت کوئی بھی جج قانون سے بالاتر نہیں ہے، تاہم کسی کو بھی چاہے وہ اس عدالت کا جج ہی کیوں نہ ہو اسے قانونی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا ، ہر شہری کو آئین اپنی آزادی، ساکھ اور جائیداد سے متعلق حق دیتا ہے اور آئین کا آرٹیکل 9 سے 28 ہر شہری کے بنیادی حق کا تحفظ کرتا ہے۔
ہیرا منڈی سپریم کورٹ سے زیادہ عظیم لگ رہی ہے
 

باس از باس

MPA (400+ posts)
??????

گڈ ون۔۔۔

جج کی اہلیہ جہاں مرضی سے چدوا کے بچے لا کے جج کے حساب میں لکھتی رہے جج قطعا ذمہ دار نہی۔۔۔

جج اپنی اہلیہ کے یاروں اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی جائیدادوں میں مزے تو کر سکتا ہے لیکن ذمہ داری کوئی نہی

بھوسڑی کے یہ بھی ایک دلالی مافیا ہے
 

Altruist

Minister (2k+ posts)
Why those judges who think the father is not responsible for the assets of the minor, as well as the wife, are still sitting in the Supreme court. All those judges have something to hide and must be investigated.

Any judge who thinks himself above the law has no right to judge anyone else and must be removed from his post.
 

concern_paki

Chief Minister (5k+ posts)
PAKISTAN MAIN INSAAF NA KABHI THA NA KABHI HOGA, NOW CLEAN CHIT TO EVERYONE NAWAZ ZARDARI, ONLY REQUIREMENT TO PAKISTAN IS BLOODY REVOLUTION AGAINST THIS SYSTEM WHICH PROTECTS POWERF PEOPLE AND CATCHES AND PUNISH COMMON PEOPLE