تفصیلات کے مطابق فیصل آباد کے ڈی ایچ کیو ہسپتال میں مسیحی نرس نے الماری کے دروازے سے سٹکر اتاردیا جس پر شاید درود شریف یا قرآنی کلمات لکھے تھے، ہسپتال کے "امن پسند" مسلمانوں نے نرس کے اس اقدام کو بہت بڑا سنگین جرم قرار دیا اورمذکورہ نرس اور اس کی ساتھی نرس کی جان لینے کے درپے ہوگئے۔ پولیس نے بڑی مشکل سے ان نرسوں کو اپنی تحویل میں لے کر ان کی جان بچائی اور اب ان پر توہینِ مذہب کا مقدمہ درج ہوچکا ہے، آسیہ مسیح کی طرح یہ دونوں یا تو اپنی زندگی جیل میں گزاردیں گی یا پھر کوئی مردِ مجاہد ان کو قتل کردے گا۔۔
اس ویڈیو میں اس مردِ مجاہد کی گفتگو سنیے جو نرس کو گندی گندی گالیاں دے کر آقا کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کررہا ہے اور کھلے عام اعتراف کررہا ہے کہ اس نے چھری کے ساتھ نرس پر حملہ کیا اور اس کو جان سے مارنے کی کوشش کی۔ یہ بھی پاکستان یا پاکستان جیسے اسلامی ممالک میں ہی ممکن ہے کہ مذہب کے نام پر قتل یا اقدامِ قتل کی بھی نہ صرف چھوٹ ہے بلکہ اس کی داد دی جاتی ہے۔ کوئی مہذب ملک ہوتا تو اس لونڈے کو فوری طور پر گرفتار کرلیا جاتا ۔۔ مگر یہ تو پاکستان ہے، پاکستان میں وزیراعظم سے لے کر عام آدمی تک، سبھی ایسے ہیں، سبھی آقا کے نام پر ہر وقت دوسروں کی جان لینے کیلئے تیار بیٹھے رہتے ہیں۔
عمران خان نے جس طرح تواتر کے ساتھ اپنی تقاریر میں توہینِ مذہب اور توہینِ رسالت کے معاملے کو اچھالا ہے، اور تحریک لبیک جیسی شدت پسند تنظیموں کو نہ صرف کھلی چھوٹ دی ہے بلکہ ان کے ساتھ ریاستی سطح پر معاہدے کئے ، اس سے ملک میں شدت پسندی کو بڑھاوا ملا ہے، انتہا پسندوں کو طاقت ملی ہے، جب ملک کا وزیراعظم بیٹھ کر تحریک لبیک کا نام لے کر معذرت خوانہ لہجے میں گزارشیں کررہا ہو کہ ہم فرانس کے سفیر کو نکالنے کی کوشش کرررہے ہیں، آپ ہم پر رحم کریں، ہمیں تھوڑا وقت دیں، ملک کا وزیرداخلہ شیخ رشید ہر چوتھے روز پریس کانفرنس میں تحریک لبیک کا نام لے کر ان سے وقت مانگ رہا ہو تو ایسی شدت پسند تنظیموں کو طاقت اور حوصلہ تو اپنے آپ ملے گا۔ اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ تحریک لبیک جیسی شدت پسند تنظیموں کو وزیراعظم کی سطح تک پذیرائی دی گئی ہو، یہ عمران خان کا ہی کارنامہ ہے کہ اس نے ملکی وقار کو اس قدر مجروح کردیا ہے کہ وزارتِ عظمی کے منصب کو گرا کر تھڑے کی غنڈہ گرد جماعتوں کی سطح پر لے آیا ہے۔۔
ذرا (دوسری) ویڈیو میں ملاحظہ کریں کہ محض سٹکر اتارنے پر لوگوں کا کتنا بڑا ہجوم اکٹھا ہوکر اس عورت کا گلہ کاٹنے کیلئے اتاولا ہوا جارہا ہے، کیا کہیں سے بھی لگ رہا ہے کہ یہ انسانوں کا معاشرہ ہے، یا یہ لوگ انسان ہیں؟ ایسا لگ رہا ہے جیسے بہت سے جنگلی جانور اکٹھے ہوکر ہلہ کررہے ہوں۔۔۔
----------------------------------------------------------------------
FAISALABAD: Police have registered a case against two nurses of the District Headquarters (DHQ) Hospital on the charge of committing blasphemy.
Scores of hospital employees staged a protest demonstration on Friday against the two nurses while alleging that both committed blasphemy by removing a sticker with sacred inscription from a cupboard.
Some of the unruly agitators attacked the police van parked inside the hospital to get custody of one of the nurses but the police locked her inside the van to keep her safe from the the protesters.
A police officer said it had been reported that two nurses committed blasphemy on Thursday by removing a sticker in a ward where psychiatric patients are being treated.
Deputy Medical Superintendent Dr Mohammad Ali submitted an application to the Civil Lines police claiming that the allegation of blasphemy had been proved by the hospital committee. He said the head nurse had taken the removed sticker into her custody and she apprised him of the issue on Friday.
The hospital administration called police who immediately took the nurse into protective custody so that she could be moved to a safer place. Scores of people tried to get hold of her but police kept her inside the van.
Anti-riot police and Elite Force tackled the situation and a team led by Civil Lines DSP Rana Attaur Rehman after hectic struggle succeeded to move her from the hospital premises.
Among the protesters were clerics who demanded action against the prime suspect.
Police booked both nurses under section 295-B of the PPC.
Published in Dawn, April 10th, 2021
Blasphemy case registered against two nurses in Faisalabad
The nurses have been accused of removing a sticker with a sacred inscription from a cupboard.
www.dawn.com