امریکا میں پاکستان سے تعلق رکھیں والے ڈاکٹر محی الدین نے ملک کا نام سر فخر سے بلند کردیا،ڈاکٹر نے مریض کو کامیابی سے خنزیر کا دل لگادیا،یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل اسکول میں ڈاکٹر محی الدین نے کامیاب سرجری کی۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ میڈیکل اسکول میں ڈاکٹر محی الدین نےجینیاتی طور پر تبدیل شدہ خنزیر کا دل لگایا،تین روز قبل ٹرانسپلانٹ کیا گیا،امریکا سے تعلق رکھنے والے ستاون سالہ ڈیوڈ بینیٹ دنیا کے پہلے انسان بن گئے،جن میں خنزیر کا دل لگایا گیا۔
ڈاکٹر محی الدین نے کہا کہ انسان میں خنزیر کا دل بہتر کام کررہاہے،کامیاب سرجری پر خوش ہیں، ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی انسان میں خنزیر کا دل لگایا گیا ہو،مریض میں خنزیر کے دل کے ٹرانسپلانٹ پر ایک کروڑ پچھتر لاکھ پاکستانی روپے خرچہ آیا۔
بی بی سی کے مطابق مریض نے اپنے آپریشن سے پہلے گفتگو میں کہا تھا کہ انہیں پتا ہے یہ اندھیرے میں تیر چلانے کے مترادف ہے مگر ان کے لیے یہ آخری چوائس تھی کہ موت کو قبول کریں یا پھر ٹرانسپلانٹ کرائیں۔
نجی ادارے سے گفتگو میں ڈاکٹر نے بتایا کہ ابتدائی تجربات میں بندر کا دل لگایا جاتا تھا لیکن بندر کا دل پیوند کاری کے لیے مفید ثابت نہ ہوا جبکہ خنزیر پر ہونے والا تجربہ خاصی کامیاب رہا ہے۔
1984 میں امریکی سرجن لیونارڈ لی بیلی نے پیدائشی طور پر دل کی بیماری میں مبتلا بچے میں بیبون دل کی پیوند کاری کی تھی جسے بے بی فے کے طور پر جانا جاتا ہے جبکہ یہ بچہ سرجری کے عمل کے بعد 20 دن تک زندہ رہا تھا۔
درمیانی دہائیوں میں زینو ٹرانسپلانٹیشن کے میدان میں ہونے والی پیشرفت کی وجہ سے انسانی جسم میں جانوروں کے اعضا کو پیوند کرنے کا عمل نسبتاً زیادہ کامیاب رہا جبکہ اس عضو کے طویل عرصے تک کام کرنا ایک بڑا چیلنج تھا۔
زینو ٹرانسپلانٹیشن کی کامیابی میں رکاوٹ نے سائنسدانوں کوکئی سالوں تک پریشان کیا جو 2014 میں امریکی تجربے کے بعد بدل گیا جبکہ اس تجربے میں بابون کے پیٹ سے جڑا ہوا ایک خنزیر کا دل تقریباً تین سال تک زندہ رہا تھا۔
ڈاکٹر محی الدین زینو ٹرانسپلانٹیشن ریسرچ میں کارڈیک زینو ٹرانسپلانٹیشن پروگرام کے ڈائریکٹر ہیں جبکہ انہوں نے اپنی زندگی کے 30 سال یہ جاننے میں گزار دیے ہیں کہ ہارٹ ٹرانسپلانٹ کی ضرورت والے ٹرمینل مریضوں کے زندہ رہنے کے امکانات کو کیسے بڑھایا جائے۔