Relationship between Sahaba and Ahl Bayt

Pakistani1947

Chief Minister (5k+ posts)
That is absolutely true, but this goes against your cult and what your scholars preach who say on the day of judgement moula Ali will be the judge. ( Astaghfirullah)
أستغفر الله - أستغفر الله - أستغفر الله - أستغفر الله
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)

ان ناسمجھ لوگوں سے پوچھو تمہارے عقیدے کے مطابق تمہارے خیالی اماموں کو زمین آسمان کی ہر چیز کا علم تھا مگر رسول اللہ جن پر وحی نازل ہوتی تھی وہ اپنی زندگی میں دوست دشمن میں تمیز نہ کر سکے - أستغفر الله ہ
ابلیس ہزاروں برس فرشتوں کی صف میں موجود رہا تماری بات سے تو سب سے پہلے نعوذ بااللہ سب سے پہلے تو بات الله پر آتی ہے کے آپ نے ابلیس کو کیوں فرشتوں کی صف میں رکھا ؟
حضرت نوح حضرت لوط کی ازواج کے بارے کیا خیال ہے ؟

حضرت آدم کے بتوں نے کیا کیا ایک دوسرے کے ساتھ ایک دوسرے کو قتل کیا الله نے اس کا سدباب کیوں نہیں کیا ؟
اتنے انبیا قتل کر دیے تم جیسے دشمن خداؤں نے الله کو معلوم نہیں تھا نعوذ بااللہ کے اپنے انبیا کی حفاظت کا سوچ لیتے ؟
الله کے گھر کو یذید کی فوج نے پامال کیا پھر حجاج بن یوسف دونوں تیرے امیر نہوں نے کعبہ کو جلایا الله تو سب جانتا تھا پھر کیوں نہیں روکا ؟ نعوذ بااللہ تیری باتوں سے تو خدا کی خدائی پر سوال اٹھتا ہے
وہابیوں یاد رکھو جنت ایسے ہی نہیں ملنی الله نے یہ حکمت عملی رکھی ہے وہ قادر بھی ہے خبیر بھی ہے اس نے انسان کو اختیار دیا کے حق اور باطل کی تمیز کرے

نعوذ بااللہ کن کا الله ہاتھ پاؤں رکھتا ہو یعنی کے جسم رکھتا ہے جب کے ہمارا الله وہ ہے جو جسم سے بے نیاز ہے جو کسی جسم میں سما جاے وہ خوارج نواصب کا تو خدا ہو سکتا ہے مسلمانوں کا نہیں تم لوگوں میں اور یہود نصارا میں کوئی فرق نہیں

is42xzb.jpg

XzcYoRE.png


استغفراللہ یہ ہے وہابیوں کا خدا جو جسم میں سما جاتا ہے اور مسلمانوں کا خدا وہ ہے جو جسم سے بے نیاز ہے جو سما جاے وہ خدا ہو ہی نہیں سکتا استغفراللہ
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)
بیبی فاطمہ کا ابو بکر سے ناراض ہونا مولا علی عمر کو پسند نہیں کرتے تھے صحیح بخاری
صحیح بخاری
کتاب: غزوات کا بیان
باب: باب: غزوہ خیبر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4240

حدیث نمبر: 4240 - 4241
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُقَيْلٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّ فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام بِنْتَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ،‏‏‏‏ وَفَدَكٍ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،‏‏‏‏ قَالَ:‏‏‏‏ لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ، ‏‏‏‏‏‏إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْمَالِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَ عَلَيْهَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ مِنْهَا شَيْئًا، ‏‏‏‏‏‏فَوَجَدَتْ فَاطِمَةُ عَلَى أَبِي بَكْرٍ فِي ذَلِكَ فَهَجَرَتْهُ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمْ تُكَلِّمْهُ حَتَّى تُوُفِّيَتْ، ‏‏‏‏‏‏وَعَاشَتْ بَعْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ دَفَنَهَا زَوْجُهَا عَلِيٌّ لَيْلًا، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يُؤْذِنْ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَصَلَّى عَلَيْهَا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ لِعَلِيٍّ مِنَ النَّاسِ وَجْهٌ حَيَاةَ فَاطِمَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا تُوُفِّيَتِ اسْتَنْكَرَ عَلِيٌّ وُجُوهَ النَّاسِ فَالْتَمَسَ مُصَالَحَةَ أَبِي بَكْرٍ وَمُبَايَعَتَهُ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ يَكُنْ يُبَايِعُ تِلْكَ الْأَشْهُرَ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ أَنِ ائْتِنَا وَلَا يَأْتِنَا أَحَدٌ مَعَكَ كَرَاهِيَةً لِمَحْضَرِ عُمَرَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عُمَرُ:‏‏‏‏ لَا وَاللَّهِ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهِمْ وَحْدَكَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ:‏‏‏‏ وَمَا عَسَيْتَهُمْ أَنْ يَفْعَلُوا بِي، ‏‏‏‏‏‏وَاللَّهِ لآتِيَنَّهُمْ، ‏‏‏‏‏‏فَدَخَلَ عَلَيْهِمْ أَبُو بَكْرٍ فَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ فَقَالَ:‏‏‏‏ إِنَّا قَدْ عَرَفْنَا فَضْلَكَ وَمَا أَعْطَاكَ اللَّهُ وَلَمْ نَنْفَسْ عَلَيْكَ خَيْرًا سَاقَهُ اللَّهُ إِلَيْكَ، ‏‏‏‏‏‏وَلَكِنَّكَ اسْتَبْدَدْتَ عَلَيْنَا بِالْأَمْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَكُنَّا نَرَى لِقَرَابَتِنَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَصِيبًا حَتَّى فَاضَتْ عَيْنَا أَبِي بَكْرٍ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا تَكَلَّمَ أَبُو بَكْرٍ قَالَ:‏‏‏‏ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَقَرَابَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أَصِلَ مِنْ قَرَابَتِي، ‏‏‏‏‏‏وَأَمَّا الَّذِي شَجَرَ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ مِنْ هَذِهِ الْأَمْوَالِ فَلَمْ آلُ فِيهَا عَنِ الْخَيْرِ، ‏‏‏‏‏‏وَلَمْ أَتْرُكْ أَمْرًا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُهُ فِيهَا إِلَّا صَنَعْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ عَلِيٌّ لِأَبِي بَكْرٍ:‏‏‏‏ مَوْعِدُكَ الْعَشِيَّةَ لِلْبَيْعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَلَمَّا صَلَّى أَبُو بَكْرٍ الظُّهْرَ رَقِيَ عَلَى الْمِنْبَرِ فَتَشَهَّدَ وَذَكَرَ شَأْنَ عَلِيٍّ، ‏‏‏‏‏‏وَتَخَلُّفَهُ عَنِ الْبَيْعَةِ وَعُذْرَهُ بِالَّذِي اعْتَذَرَ إِلَيْهِ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَتَشَهَّدَ عَلِيٌّ، ‏‏‏‏‏‏فَعَظَّمَ حَقَّ أَبِي بَكْرٍ وَحَدَّثَ أَنَّهُ لَمْ يَحْمِلْهُ عَلَى الَّذِي صَنَعَ نَفَاسَةً عَلَىأَبِي بَكْرٍ وَلَا إِنْكَارًا لِلَّذِي فَضَّلَهُ اللَّهُ بِهِ وَلَكِنَّا نَرَى لَنَا فِي هَذَا الْأَمْرِ نَصِيبًا، ‏‏‏‏‏‏فَاسْتَبَدَّ عَلَيْنَا، ‏‏‏‏‏‏فَوَجَدْنَا فِي أَنْفُسِنَا، ‏‏‏‏‏‏فَسُرَّ بِذَلِكَ الْمُسْلِمُونَ وَقَالُوا:‏‏‏‏ أَصَبْتَ، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ الْمُسْلِمُونَ إِلَى عَلِيٍّ قَرِيبًا حِينَ رَاجَعَ الْأَمْرَ الْمَعْرُوفَ.

ترجمہ:
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا ‘ ان سے عقیل نے ‘ ان سے ابن شہاب نے ‘ ان سے عروہ نے ‘ ان سے عائشہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کی صاحبزادی فاطمہ ؓ نے ابوبکر صدیق ؓ کے پاس کسی کو بھیجا اور ان سے اپنی میراث کا مطالبہ کیا نبی کریم ﷺ کے اس مال سے جو آپ کو اللہ تعالیٰ نے مدینہ اور فدک میں عنایت فرمایا تھا اور خیبر کا جو پانچواں حصہ رہ گیا تھا۔ ابوبکر ؓ نے یہ جواب دیا کہ نبی کریم ﷺ نے خود ہی ارشاد فرمایا تھا کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ‘ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمد ﷺ اسی مال سے کھاتی رہے گی اور میں، اللہ کی قسم! جو صدقہ نبی کریم ﷺ چھوڑ گئے ہیں اس میں کسی قسم کا تغیر نہیں کروں گا۔ جس حال میں وہ آپ ﷺ کے عہد میں تھا اب بھی اسی طرح رہے گا اور اس میں (اس کی تقسیم وغیرہ) میں میں بھی وہی طرز عمل اختیار کروں گا جو آپ ﷺ کا اپنی زندگی میں تھا۔ غرض ابوبکر ؓ نے فاطمہ ؓ کو کچھ بھی دینا منظور نہ کیا۔ اس پر فاطمہ ؓ ابوبکر ؓ کی طرف سے خفا ہوگئیں اور ان سے ترک ملاقات کرلیا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ فاطمہ ؓ آپ ﷺ کے بعد چھ مہینے تک زندہ رہیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی ؓ نے انہیں رات میں دفن کردیا اور ابوبکر ؓ کو اس کی خبر نہیں دی اور خود ان کی نماز جنازہ پڑھ لی۔ فاطمہ ؓ جب تک زندہ رہیں علی ؓ پر لوگ بہت توجہ رکھتے رہے لیکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے دیکھا کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پھرے ہوئے ہیں۔ اس وقت انہوں نے ابوبکر ؓ سے صلح کرلینا اور ان سے بیعت کرلینا چاہا۔ اس سے پہلے چھ ماہ تک انہوں نے ابوبکر ؓ سے بیعت نہیں کی تھی پھر انہوں نے ابوبکر ؓ کو بلا بھیجا اور کہلا بھیجا کہ آپ صرف تنہا آئیں اور کسی کو اپنے ساتھ نہ لائیں ان کو یہ منظور نہ تھا کہ عمر ؓ ان کے ساتھ آئیں۔ عمر ؓ نے ابوبکر ؓ سے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائیں۔ ابوبکر ؓ نے کہا کیوں وہ میرے ساتھ کیا کریں گے میں تو اللہ کی قسم! ضرور ان کی پاس جاؤں گا۔ آخر آپ علی ؓ کے یہاں گئے۔ علی ؓ نے اللہ کو گواہ کیا ‘ اس کے بعد فرمایا ہمیں آپ کے فضل و کمال اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بخشا ہے ‘ سب کا ہمیں اقرار ہے جو خیر و امتیاز آپ کو اللہ تعالیٰ نے دیا تھا ہم نے اس میں کوئی ریس بھی نہیں کی لیکن آپ نے ہمارے ساتھ زیادتی کی (کہ خلافت کے معاملہ میں ہم سے کوئی مشورہ نہیں لیا) ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اپنی قرابت کی وجہ سے اپنا حق سمجھتے تھے (کہ آپ ہم سے مشورہ کرتے) ابوبکر ؓ پر ان باتوں سے گریہ طاری ہوگئی اور جب بات کرنے کے قابل ہوئے تو فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے رسول اللہ ﷺ کی قرابت کے ساتھ صلہ رحمی مجھے اپنی قرابت سے صلہ رحمی سے زیادہ عزیز ہے۔ لیکن میرے اور لوگوں کے درمیان ان اموال کے سلسلے میں جو اختلاف ہوا ہے تو میں اس میں حق اور خیر سے نہیں ہٹا ہوں اور اس سلسلہ میں جو راستہ میں نے نبی کریم ﷺ کا دیکھا خود میں نے بھی اسی کو اختیار کیا۔ علی ؓ نے اس کے بعد ابوبکر ؓ سے کہا کہ دوپہر کے بعد میں آپ سے بیعت کروں گا۔ چناچہ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر ابوبکر ؓ منبر پر آئے اور خطبہ کے بعد علی ؓ کے معاملے کا اور ان کے اب تک بیعت نہ کرنے کا ذکر کیا اور وہ عذر بھی بیان کیا جو علی ؓ نے پیش کیا تھا پھر علی ؓ نے استغفار اور شہادت کے بعد ابوبکر ؓ کا حق اور ان کی بزرگی بیان کی اور فرمایا کہ جو کچھ انہوں نے کیا ہے اس کا باعث ابوبکر ؓ سے حسد نہیں تھا اور نہ ان کے فضل و کمال کا انکار مقصود تھا جو اللہ تعالیٰ نے انہیں عنایت فرمایا یہ بات ضرور تھی کہ ہم اس معاملہ خلافت میں اپنا حق سمجھتے تھے (کہ ہم سے مشورہ لیا جاتا) ہمارے ساتھ یہی زیادتی ہوئی تھی جس سے ہمیں رنج پہنچا۔ مسلمان اس واقعہ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ نے درست فرمایا۔ جب علی ؓ نے اس معاملہ میں یہ
مناسب راستہ اختیار کرلیا تو مسلمان ان سے خوش ہوگئے اور علی ؓ سے اور زیادہ محبت کرنے لگے جب دیکھا کہ انہوں نے اچھی بات اختیار کرلی ہے۔

یہ اہل سنت بھائیوں کی سب سے بنیادی حدیث کی کتاب بخاری (شریف) سے ایک روائت ہے


جس میں واضح لکھا ہے کہ سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا نے میراث کا مطالبہ کیا

حضرت ابوبکر نے نہ دیا

سیدہ پوری زندگی ناراض رہیں اور رات کو دفن ہوئیں

اور مولا علی نےشیخین کو خبر ہی نہیں دی
اور بقول صحیح بخاری مولا علی عمر کو پسند نہیں کرتے تھے اس لیے کہا کے ابو بکر اکیلا اے

خود کو مسلمان کہلوانے والو یہ صحیح بخاری ہے بقول تم لوگوں کے یہ سب سے سچی کتاب ہے بعد از قران اور اس کی تمام روایات صحیح ہیں تو پھر دیکھ لو تمارے رسول کی بیٹی ناراض گئی اس دنیا سے ان لوگوں سے یاد رکھو کے جس سے فاطمہ ناراض ہوں اس سے رسول خدا ناراض ہیں

اب شیعہ کو مت کوسو کے شیعہ کیوں نہیں مانتے ان سب کو ہم اس سے راضی نہیں جس سے رسول خدا اور اس کی بیٹی ناراض گئی ہوں

 

Haideriam

Senator (1k+ posts)
حضرت ابو بکر کا افسوس
اے کاش میں فاطمہ ع کا دروازہ نہ توڑتا
کتاب الأموال، ابن قتيبہ دينوری نے کتاب الإمامۃ والسياسۃ، طبری نے اپنی تاريخ، ابن عبد ربہ نے کتاب العقد الفريد، مسعودی نے کتاب مروج الذهب، طبرانی نے کتاب المعجم الكبير، مقدسی نے کتاب الأحاديث المختاره، شمس الدين ذہبی نے کتاب تاريخ الإسلام میں ان تمام معتبر علماء نے ابوبکر کے اعتراف کرنے والی روایت کو بہت تھوڑے اختلاف کے ساتھ نقل کیا ہے۔
مجھے کسی شے پر کوئی افسوس نہیں ہے، مگر صرف تین چیزوں پر افسوس ہے کہ
اے کاش میں تین چیزوں کو انجام نہ دیتا، اور اے کاش کہ تین چیزوں کو انجام دیتا، اور اے کاش کہ تین چیزوں کے بارے میں رسول خدا سے سوال پوچھ لیتا، اے کاش میں فاطمہ کے گھر کی حرمت شکنی نہ کرتا،
اگرچہ اس گھر کا دروازہ مجھ سے جنگ کرنے کے لیے ہی بند کیا گیا ہوتا۔۔۔۔۔



01-1.jpg


1-5.jpg


2-3.jpg

3-2.jpg


4-2.jpg

5-2.jpg

6-2.jpg


7-2.jpg



8-2.jpg

10-2.jpg


9-2.jpg



12-2.jpg

11-2.jpg


خود کو مسلمان کہلوانے والو دیکھ لو یہ خود حضرت ابو بکر کے الفاظ ہیں جو ظلم آل رسول کے ساتھ امت نے کیا یہ اس آیت کے بعد ہے کے قران کہتا ہے قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى کے اے میرے حبیب ان سے کہدو مجھے کوئی اجر رسالت نہیں چاہیے سواے اسکے کے میرے اقربا کے ساتھ مودت کرو یہ قران کے حکم کے بعد امت نے کیا اگر یہ آیت نہ ہوتی تو بھی شائد اتنا ظلم نہیں ہوتا خوب اجر رسالت دیا اس امت نے
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)
کربلا میں یزید ملعون کے لشکر میں شریک صحابہ

وہ صحابہ جو لشکر یزید لعین میں تھے اور امام حسین علیہ السلام کے قتل میں شریک ہوئے

حیران کن انکشاف

اب کہاں گئی ان کی صحابیت
یا پھر خطائے اجتھادی کا فائدہ دیا جاے گا ؟؟؟
چند صحابہ کربلا میں لشکر یزید میں حاضر ہوئے اورفرزند رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قتل میں شریک ہوئے
ان میں سے 8 صحابہ کے نام ذکر ہو رہے ہیں
1۔كثير بن شهاب الحارثي

اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:
قال أبو نعيم الأصبهاني المتوفی : 430:
كثير بن شهاب البجلي رأئ النبي (ص)
کثیر بن شھاب نے نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تھا
تاريخ أصبهان ج 2 ص 136 دارالنشر : دار الكتب العلمية بيروت - 1410هـ-1990م ، الطبعةالأولى ،
تحقيق : سيد كسروي حسن

قال ابن حجر:
يقال ان له صحبة ... قلت ومما يقوي ان له صحبة ما تقدم انهم ما كانوا يؤمرون الا الصحابة وكتاب عمر اليه بهذا يدل على انه كان أميرا.
اس کے صحابی ہونے کا قوی احتمال ہے اس لیے کہ وہ فقط صحابہ ہی کو جنگ کی سپہ سالاری دیتے تھے۔
الإصابة في تمييز الصحابة ج 5
ص 571 نشر : دار الجيل بيروت.

2۔ حجار بن أبجر العجلي

ابن حجر عسقلانی نے اسے صحابی کہا ہے اور بلاذری نے اس کے خط کو جو اس نے امام حسین(ع) کو لکھا تھا، کو نقل کیا ہے:
حجار بن أبجر بن جابر العجلي له إدراك.
اس نے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے کو درک کیا ہے۔

الإصابة في تمييز الصحابة ج 2 ص 167 رقم 1957 ، دار النشر : دار الجيل بيروت

قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة . وحجار بن أبجر العجلي.

امام حسین(ع) کو جن بزرگان کوفہ نے خط لکھے ان میں سے ایک حجار ابن ابجر ہے۔

أنساب الأشراف ج 1 ص 411
وہ ایک ہزار کے لشکر کی سالاری کرتا ہوا کربلا پہنچا:
قال أحمد بن يحيى بن جابر البلاذری وسرح ابن زياد أيضاً حصين بن تميم في الأربعة الآلاف الذين كانوا معه إلى الحسين بعد شخوص عمر بن سعد بيوم أو يومين، ووجه أيضاً إلى الحسين حجار بن أبجر العجلي في ألف.
وہ کربلا میں ہزار سپاہیوں کے ہمراہ شریک ہوا۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 416

3. عبد الله بن حصن الأزدی
اس کے صحابی ہونے کے بارے میں
قال ابن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي المتوفي: 852: عبد الله بن حصن بن سهل ذكره الطبراني في الصحابة۔
طبرانی نے اسے صحابہ میں ذکر کیا ہے۔
الإصابة في تميز الصحابة ج 4 ص 61 رقم 4630، ، دارالنشر : دارالجيل بيروت

کربلا میں اس کا امام حسین(ع) کی توہین کرنا:
وناداه عبد الله بن حصن الأزدي: يا حسين ألا تنظر إلى الماء كأنه كبد السماء، والله لا تذوق منه قطرة حتى تموت عطشاً.
عبد اللہ ازدی نے کہا: اے حسین کیا تم پانی کی طرف نہیں دیکھ رہے لیکن خدا کی قسم اس میں سے ایک قطرہ بھی تم کو نہیں ملے گا حتی تم پیاسے ہی مرو گے۔
أنساب الأشراف ج 1ص 417
4. عبدالرحمن بن أبي سبرة الجعفی
اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:
قال ابن عبد البر المتوفي 463: عبد الرحمن بن أبى سبرة الجعفى واسم أبى سبرة زيد بن مالك معدود فى الكوفيين وكان اسمه عزيرا فسماه رسول الله صلى الله عليه وآلہ وسلم عبد الرحمن

اس کا نام عزیز تھا پھر رسول خدا(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا نام عبد الرحمن رکھا۔

الاستيعاب ج 2 ص 834 رقم 1419، نشر : دارالجيل بيروت.
اس کا قبیلہ اسد کی سربراہی کرنا اور امام حسین(علیہ السلام) کے قتل میں شریک ہونا
قال ابن الأثير المتوفي:630ھ وجعل عمر بن سعد علي ربع أهل المدينة عبد الله بن زهير الأزدي وعلي ربع ربيعة وكندة قيس بن الأشعث بن قيس وعلي ربع مذحج وأسد عبد الرحمن بن أبي سبرة الجعفي وعلي ربع تميم وهمدان الحر بن يزيد الرياحي فشهد هؤلاء كلهم مقتل الحسين.

وہ قبیلہ مذحج اور اسد کا سالار تھا اور کربلا میں حاضر ہوا۔

الكامل في التاريخ ج 3 ص 417 ، دارالنشر : دارالكتب العلمية - بيروت

5. عزرة بن قيس الأحمسی:
اس کے صحابی ہونے کے بارے میں:
قال ابن حجر أبوالفضل العسقلاني الشافعي المتوفي: 852: عزرة بن قيس بن غزية الأحمسي البجلي ... وذكره بن سعد في الطبقة الأولى۔

اس کو ابن سعد نے پہلے طبقے میں ذکر کیا ہے۔(یعنی صحابی تھا) الإصابة في تميز الصحابة ج 5 ص 125 رقم 6431، نشر : دار الجيل – بيروت.
اس نے امام حسين (ع) کو خط لکھا تھا:
قالوا: وكتب إليه أشراف أهل الكوفة. وعزرة بن قيس الأحمسی

اس نے امام حسین(ع) کو خط لکھا تھا۔
أنساب الأشراف ج 1ص 411
گھڑ سواروں کا سالار
وجعل عمر بن سعد. وعلى الخيل عزرة بن قيس الأحمسی۔
أنساب الأشراف ج 1 ص 419

وہ گھڑ سوار لشکر کا سالار تھا۔
شھداء کے سر لے کر ابن زیاد ملعون کے پاس گیا:
واحتزت رؤوس القتلى فحمل إلى ابن زياد اثنان وسبعون رأساً مع شمر... وعزرة بن قيس الأحمسي من بجيلة، فقدموا بالرؤوس على ابن زياد۔
أنساب الأشراف ج 1ص 424
6۔ عبـد الرحمن بن أَبْـزى:

له صحبة وقال أبو حاتم أدرك النبي صلى الله عليه وسلم وصلى خلفه۔
وہ صحابی ہے۔ ابوحاتم نے کہا ہے کہ اس نے نبی(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھی ہے۔
الإصابة - ابن حجر - ج 4 ص 239
قال امام ابوحنیفہ، امام شافعی اور امام مالک کے مطابق یزید پر لعنت کرنا جائز ہےنامور شافعی عالم دین شیخ سلیمان بن محمدبن عمر البیجرمی (متوفی 1221 ھ) لکھتے ہیں:أن للإمام أحمد قول بلعن یزید تلویحا وتصریحا وكذا للإمام مالك وكذا لْبي حنيف ولنا قول بذلك في مذهب إمامنا الشافعي وكان یقول بذلك الْستاذ البكري.ومن كلام بعض أتباعه في حق یزید ما لفره زادہ اللَّ خزیا ومنعه وفي أسفل سجين وضعه
یزید پر تلویح و تصریح طور پر لعنت کرنے کے متعلق امام احمد کے اقوال موجود ہيں اور یہی صورتحال امام مالک اور ابو حنيفہ کی بهی ہے اور ہمارے امام شافعی کا مذهب بهی یہی ہے اور البکری کا قول بهی یہی ہے۔ البکری کے بعض اتباع کرنے والوں نے کہا ہےکہ اللَّہ یزید کی بےعزتی ميں اضافہ کرے اور اسے جہنم کے نچلے ترین درجہ پر رکهے۔حاشیتہ البیجرمی، ج 12 ص 360

علامہ محمود آلوسی البغدادی) متوفی 1279 ھ( تفسیر روح المعانی، ج 26 ص 73 سورہ47 آیت 22 اور 23 کی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں
الذي یغلب على ظني أن الخبيث لم یكن مصدقا برسال النبي صلى اللَّ تعالى عليه وسلم ۔ وأنا أذهب إلى جواز لعن مثله على التعيين ولو لم یتصور أن یكون له مثل من الفاسقين والراهر أنه لم یتب واحتمال توبته أضعف من إیمانه ویلحق به ابن زیاد وابن سعد وجماع فلعن اللَّہ عز و جل عليهم أجمعين وعلى أنصارهم وأعوانهم وشيعتهم ومن مال إليهم إلى یوم الدین ما دمعت عين على أبي عبد اللَّہ الحسين

اور ميں وہی کہتا ہوں جو ميرے ذہن پر حاوی ہے کہ یزید خبيث نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( کی رسالت کی تصدیق نہيں کی۔ ۔ ميرے مطابق یزید جيسے شخص پر لعنت کرنا جائز ہے حالانکہ انسان یزید جيسے فاسق کا تصور بهی نہيں کرسکتا اور براہراس نے کبهی توبہ نہ کی اور اس کی توبہ کرنے کے امکانات ، اس کے ایمان کے امکانات سے بهی کم ہيں۔ یزید کے ساتھ ابن زیاد ، ابن سعد اور اس کی جماعت کو بهی شامل کرنا چاہيے۔ تحقيق، اللَّہ کی لعنت ہو ان تمام لوگوں پر، ان کے دوستوں پر، ان کے مددگاروں پر اور ان کی جماعت پر، قيامت تک اور اس وقت تک جب تک کہ ایک آنکھ بهی ابوعبداللَّہ الحسين ع کے لئے آنسو بہاتی ہے۔
حوالہ ۔تفسیر روح المعانی، ج 26 ص 72
 

famamdani

Minister (2k+ posts)
گوگل انپٹ ٹول کا آئیڈیا تو ہے مگر اردو کا ا سٹائل تھوڑا الگ سا ہے آپ کا
گوگل انپٹ ٹول کا آئیڈیا تو ہے مگر اردو کا ا سٹائل تھوڑا الگ سا ہے آپ کا
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)
رسول خدا (ص)نے حضرت فاطمہ ع کو فدک عطا کیا
آیت و آت ذا القربى حقه
سیوطی اہل سنت کا معروف عالم ہے، اس نے اپنی کتاب الدر المنثور میں اہل سنت کے چند علماء کے نام کو ذکر کیا ہے کہ جہنوں نے اپنی کتب میں ابو سعید کی روایت کو نقل کیا ہے:
و أخرج البزار و أبو یعلى و ابن أبی حاتم و ابن مردویه عن أبی سعید الخدری رضی الله عنه قال: لما نزلت هذه الآیة «و آت ذا القربى حقه» دعا رسول الله صلى الله علیه و سلم فاطمة فأعطاها فدك.
بزار، أبو یعلى، ابن أبی حاتم اور ابن مردویہ نے ابو سعید کے ذریعے سے اس واقعے کو نقل کیا ہے کہ ابو سعید نے کہا ہے کہ: جب آیت و آت ذا القربى حقه، نازل ہوئی تو رسول خدا نے اپنی بیٹی فاطمہ کو اپنے پاس بلا کر فدک انکو عطا کر دیا۔
السیوطی، عبد الرحمن بن الكمال جلال الدین (متوفی911هـ)، الدر المنثور، ج 5، ص 273، ناشر: دار الفكر – بیروت – 1993.
شوکانی نے ابن عباس کے ذریعے سے روایت کو نقل کیا ہے کہ جس میں رسول خدا (ص) کی طرف سے حضرت زہرا (س) کو فدک کے دئیے جانے کے بارے میں واضح طور پر بیان ہوا ہے:
و أخرج ابن مردویه عن ابن عباس قال لما نزلت (و آت ذا القربى حقه) أقطع رسول الله صلى الله علیه و سلم فاطمة فدك.
ابن مردویہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ: جب آیت ، و آت ذا القربى حقه، نازل ہوئی تو رسول خدا نے فدک کو فاطمہ کو دینے کے لیے الگ کر دیا۔
الشوكانی، محمد بن علی بن محمد (متوفی1255هـ)، فتح القدیر الجامع بین فنی الروایة و الدرایة من علم التفسیر، ج 3، ص 224، ناشر: دار الفكر – بیروت.




1-16.jpg


2-15.jpg



3-13.jpg
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)
[4:21 p.m., 2020-08-27] +92 332 2826718: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ مُحَمَّدُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ عُمَرَ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ إِذَا رَأَيْتُمُ الَّذِينَ يَسُبُّونَ أَصْحَابِي فَقُولُوا:‏‏‏‏ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى شَرِّكُمْ . قَالَ أَبُو عِيسَى:‏‏‏‏ هَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ، ‏‏‏‏‏‏لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، ‏‏‏‏‏‏وَالنَّضْرُ مَجْهُولٌ،‏‏‏‏ وَسَيْفٌ مَجْهُولٌ.

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو میرے اصحاب کو برا بھلا کہتے ہوں تو کہو: اللہ کی لعنت ہو تمہارے شر پر“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث منکر ہے، ہم اسے عبیداللہ بن عمر ( عمری ) کی روایت سے صرف اسی سند سے جانتے ہیں اور نضر اور سیف دونوں مجہول راوی ہیں۔

Jam e Tirmazi#3866

Status: ضعیف

ضعیف ہے خود ہی امام ترمذی بتا رہے ہیں
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)
گالی بھی باعث رحمت
??
صحیح مسلم




حدیث نمبر: 6616





حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اللهم إنما انا بشر، فايما رجل من المسلمين سببته، او لعنته، او جلدته، فاجعلها له زكاة ورحمة ".


‏‏‏‏ ابوہریرہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! میں آدمی ہوں تو جس مسلمان کو میں برا کہوں یا لعنت کروں یا ماروں، تو اس کو پاک کر دے اور اس پر رحمت کر

نوٹ:مزید احادیث صحیح مسلم انٹرنیشنل احادیث نمبرز 6616 سے 6630 ملاحظہ فرمائیں
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)
‍ ?حضرت عائشہ کی طرف سے اہل سنت کے ہاں جلیل القدر صحابی پر لعنت ??

?اہل سنت کے عظیم محدث حافظ اور امام حاکم نیشاپوری، اپنی کتاب المستدرک علی الصحیحین میں روایت لے کر آئے ہیں۔

اس روایت کو حاکم نیشاپوری اور حافظ ذھبی دونوں نے صحیح کہا ہے۔

?روایت کچھ یوں ہے۔?

✍ عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَتْ لِی عَائِشَةُ، رَضِیَ اللَّهُ عَنْهَا: «إِنِّی رَأَیْتُنِی عَلَى تَلٍّ وَحَوْلِی بَقَرٌ تُنْحَرُ» فَقُلْتُ لَهَا: لَئِنْ صَدَقَتْ رُؤْیَاکِ لَتَکُونَنَّ حَوْلَکَ مَلْحَمَةٌ، قَالَتْ: «أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّکَ، بِئْسَ مَا قُلْتَ» ، فَقُلْتُ لَهَا: فَلَعَلَّهُ إِنْ کَانَ أَمْرًا سَیَسُوءُکِ، فَقَالَتْ: «وَاللَّهِ لَأَنْ أَخِرَّ مِنَ السَّمَاءِ أَحَبُّ إِلَیَّ مِنْ أَنْ أَفْعَلَ ذَلِکَ» ، فَلَمَّا کَانَ بَعْدُ ذُکِرَ عِنْدَهَا أَنَّ عَلِیًّا رَضِیَ اللَّهُ عَنْهُ قَتَلَ ذَا الثُّدَیَّةِ، فَقَالَتْ لِی: «إِذَا أَنْتَ قَدِمْتَ الْکُوفَةَ فَاکْتُبْ لِی نَاسًا مِمَّنْ شَهِدَ ذَلِکَ مِمَّنْ تَعْرِفُ مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ» ، فَلَمَّا قَدِمْتُ وَجَدْتُ النَّاسَ أَشْیَاعًا فَکَتَبْتُ لَهَا مِنْ کُلِّ شِیَعٍ عَشَرَةً مِمَّنْ شَهِدَ ذَلِکَ قَالَ: فَأَتَیْتُهَا بِشَهَادَتِهِمْ ?فَقَالَتْ: لعَنَ اللَّهُ عَمْرَو بْنَ الْعَاصِ، فَإِنَّهُ زَعَمَ لِی أَنَّهُ قَتَلَهُ بِمِصْرَ


?مسروق کہتے ہیں کہ ایک دن عائشہ نے مجھے کہا کہ مین نے خواب دیکھا ہے کہ میں ایک بلند جگہ پر کھڑی ہوں اور میرے ارد گرد گائے ذبح ہورہے ہیں۔
میں نے کہا۔ اگر آپ کا خواب سچا ہے تو ضرور آپ کے ارد گرد لوگ قربانی ہوجائیں گے۔
عائشہ نے کہا کہ تمھارے شر سے اللہ کی پناہ۔
میں نے کہا کہ ممکن ہے کوئی ایسا واقعہ پیش آئے جو آپ کو ناگوار ہو۔
عائشہ نے کہا کہ اگر آسمان سے زمیں گرا دی جاوں میرے لئے بہتر ہے اس سے کہ میں ایسے واقعات کو انجام دوں۔
?کچھ وقت کے بعد عائشہ کے ہاں یہ بات ہوئی کہ ذو ثدیہ کو مولا علی نے قتل کیا ہے۔ عائشہ نے مجھے کہا کہ جب کوفے جاو تو مشاھیر کوفہ میں سے ذوثدیہ کے قتل کے عینی شاھدین اور گواہ کے نام لکھ کر مجھے بھیج دو۔
میں کوفہ گیا اور وہاں لوگوں کو کئی گروپوں میں دیکھا ہر گروپ سے دس دس عینی شاھدین کے نام عائشہ کو بھیج دئیے۔

?عائشہ نے کہا ۔ اللہ کی لعنت ہو عمرو بن عاص پر ۔ اس نے مجھے کہا تھا کہ ذو الثدیہ کو اس نے مصر میں قتل کیا ہے۔

?المستدرک علی الصحیحین.ج4 ص14.ط دار الکتب العلمیة

نتیجہ:

?صحابی عمرو بن عاص نے ام المومنین کو جھوٹ بولا۔

?ام المومنین نے عمرو بن عاص پر لعنت کی۔

اہل سنت سے سوال:

اگر صحابہ پر لعنت کرنا حرام ، فسق، کفر اور گناہ ہے تو کیا یہ فتوی ام المومنین عائشہ پر بھی لگ جائے گا یا یہ فتوے فقط اہل بیت سے محبت کرنے والوں کے لئے ہیں؟
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)
کیا بات ہے تیری ییعنی کنگ کے نام سے پوسٹ کیا اور ہلدیرام کے نام سے اسی پوسٹ کو لائیک کیا اور سمجھا لوگ نہیں پہچانے۔
چوتڑ شرما ضعف حدیثیں اور جھوٹی کہانیاں لگاتے ہو شرم نہیں آتی دیو بندی کم نجدی وہابی
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)

لندن برج صحاب آپ نے بھی خاص شیعہ کا طریقہ اپنایا ہے کہ ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق آگے بڑھا دو۔ یہاں بھی آپ نے وہی کم کیا ہے، جس حدیث کے بارے میں امام ترمزی نے خود لکھا ہے کا یہ حدیث ضعیف ہے اسے ہی آگے بڑھا دیا ، امام ترمزی کے کمنٹس کے بغیر - یہ سراسر بد دیانتی ہے جس کی امید ایک شیعہ ہی سے کی جا سکتی ہے جو ہر اس بات کو جس سے ان کا موقف کی حمایت ہوتی ہو آنکھ بند کر کے قبول کر لیتے ہیں - اس رویے سے وہ کسی اور کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ کبھی حق تک نہیں پہنچ سکتے۔

جو حدیث آپ نے قوٹ کی ہے وہ اسلام ٣٦٠ ایپ کے زریعے آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے - حدیث کے الفاظ نیچے بیان کئے گئے ہیں ، امام ترمزی کے کمنٹس کے ساتھ :ہ


میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس آئی، وہ رو رہی تھیں، میں نے پوچھا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ وہ بولیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے ( یعنی خواب میں ) آپ کے سر اور داڑھی پر مٹی تھی، تو میں نے عرض کیا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا: ”میں حسین کا قتل ابھی ابھی دیکھا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
Jam e Tirmazi – 3771-Islam360




حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کے ہاں حدیث کا علم ہجرت کے نو سو "٩٠٠" سال بعد شروع ہوا حوالہ - لہذا ان کے لیے روایات کی سند کی تصدیق کا عمل تقریبا نا ممکن تھا - سونے پہ سہاگہ شیعہ کے خیالی بارویں امام نے دو سو ساٹھ ہجری "٢٦٠" میں اس دنیا سے چھپنے کا فیصلہ کر لیا - حوالہ - لہذا جس وجہ کے سبب شیعہ نے حدیث کے علم کے فروغ اور حصول کیلئے کوئی کاوش نہ کی انہیں ان دیومالائی کتب کا ہی سہارا لینا پڑھا جو کہ شیعہ حدیث کی کتابوں کے نہ ہونے کے سبب لکھی گئیں- پھر جب ٩٠٠ ہجری کے بعد شیعہ حدیث کی کتابیں لکھی گئیں تو ان کی ترتیب کے لیے ان ہی دیومالائی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں مثال کے طور پر تاریخ طبری کا سہارا لیا گیا جبکہ تاریخ طبری کا مصنف خود اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتا ہے -حوالہ - کہ مجھے جو لوگوں نے روایت کیا میں نے لکھ لیا ان روایات کی سند کا میں ذمدار نہیں

بس اس کو اپنے ناڑے کے ساتھ باندھ لے جاہل مطلق تجھے اپنے مذھب کا پتہ نہیں اور شیعہ کتب پر بحث کرنے چلا ہے تجھے کچھ مہینے پہلے ہی اس کا منہ توڑ جواب دیا تھا پر تو بہت ہی گھٹیا نجس نجدی ہے وہی بار بار پیسٹ کر رہا ہے کیسے گھٹیا لوگوں سے واسطہ پڑا ہے استغفراللہ
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)

لندن برج صحاب آپ نے بھی خاص شیعہ کا طریقہ اپنایا ہے کہ ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق آگے بڑھا دو۔ یہاں بھی آپ نے وہی کم کیا ہے، جس حدیث کے بارے میں امام ترمزی نے خود لکھا ہے کا یہ حدیث ضعیف ہے اسے ہی آگے بڑھا دیا ، امام ترمزی کے کمنٹس کے بغیر - یہ سراسر بد دیانتی ہے جس کی امید ایک شیعہ ہی سے کی جا سکتی ہے جو ہر اس بات کو جس سے ان کا موقف کی حمایت ہوتی ہو آنکھ بند کر کے قبول کر لیتے ہیں - اس رویے سے وہ کسی اور کا نہیں بلکہ اپنا ہی نقصان کرتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ کبھی حق تک نہیں پہنچ سکتے۔

جو حدیث آپ نے قوٹ کی ہے وہ اسلام ٣٦٠ ایپ کے زریعے آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہے - حدیث کے الفاظ نیچے بیان کئے گئے ہیں ، امام ترمزی کے کمنٹس کے ساتھ :ہ


میں ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کے پاس آئی، وہ رو رہی تھیں، میں نے پوچھا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ وہ بولیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے ( یعنی خواب میں ) آپ کے سر اور داڑھی پر مٹی تھی، تو میں نے عرض کیا: آپ کو کیا ہوا ہے؟ اللہ کے رسول! تو آپ نے فرمایا: ”میں حسین کا قتل ابھی ابھی دیکھا ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے۔
Jam e Tirmazi – 3771-Islam360




حقیقت یہ ہے کہ شیعہ کے ہاں حدیث کا علم ہجرت کے نو سو "٩٠٠" سال بعد شروع ہوا حوالہ - لہذا ان کے لیے روایات کی سند کی تصدیق کا عمل تقریبا نا ممکن تھا - سونے پہ سہاگہ شیعہ کے خیالی بارویں امام نے دو سو ساٹھ ہجری "٢٦٠" میں اس دنیا سے چھپنے کا فیصلہ کر لیا - حوالہ - لہذا جس وجہ کے سبب شیعہ نے حدیث کے علم کے فروغ اور حصول کیلئے کوئی کاوش نہ کی انہیں ان دیومالائی کتب کا ہی سہارا لینا پڑھا جو کہ شیعہ حدیث کی کتابوں کے نہ ہونے کے سبب لکھی گئیں- پھر جب ٩٠٠ ہجری کے بعد شیعہ حدیث کی کتابیں لکھی گئیں تو ان کی ترتیب کے لیے ان ہی دیومالائی کتابوں اور تاریخ کی کتابوں مثال کے طور پر تاریخ طبری کا سہارا لیا گیا جبکہ تاریخ طبری کا مصنف خود اپنی کتاب کے دیباچے میں لکھتا ہے -حوالہ - کہ مجھے جو لوگوں نے روایت کیا میں نے لکھ لیا ان روایات کی سند کا میں ذمدار نہیں

فورم کے ممبرز اس خیالی مفکر کی پوسٹ کو دیکھیں یہ شخص حدیث غریب کو ضعییف حدیث بتا رہا ہے الله کی لعنت ہو جھوٹوں پر کتنے شرم کی بات ہے کے کوئی بات اپ کے مقصد کو پورا نہ کرے تو اس کو ضعییف قرار دے دو یہ ہسے تم لوگوں کا مذھب الله تم کو کبھی ہدایت نہیں دے گا کیوں کے تم رسالت مآب کے خاندان کے دشمن ہو امام ترمزی نے حدیث غریب لکھا اور یہ اس کو ضعییف حدیث لکھ رہا ہے یہ سمجھتا ہے دیو بندی وہابیوں کی طرح شیعان علی جاہل ہیں نجدی شعیان علی باب العلم کے پیروکار ہیں نہ کے جہلاء کے
علم حدیث میں غریب سے مراد وہ حدیث ہے جس کے سلسلہ اسناد میں کسی طبقہ میں روایت کا دارومدار صرف ایک راوی پر ہو،اگرچہ دوسرے طبقوں میں ،ایک سے زیادہ راوی بھی ہو سکتے ہیں۔ اسے حدیث مفرد بھی کہا جاتا ہے حدیث غریب کوفرد بھی کہتے ہیں پھرفرد کی دوقسمیں ہیں،
  • فردِ مطلق:یہ حدیث غریب ہے
  • فرد نسبی:یہ ہے کہ صحابی سے تومتعدد تابعی روایت کریں؛ لیکن اس کے بعد راوی کہیں ایک ہی رہ جائے؛
فرد اور غریب دونوں ہم معنی لفظ ہیں؛ مگرمحدثین عام طور پر فرد مطلق کوفرد اور فردِ نسبی کوغریب کہتے ہیں، ان کے ہاں یہ بات عجیب ہے کہ زمانہ تابعین میں تواس حدیث کو زیادہ راوی روایت کریں اور آگے کسی دور میں اس کاراوی ایک رہ جائے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایسی حدیث غریب ہونے کے باوجود صحیح ہی رہتی ہے، بشرطیکہ سند کا اتصال قائم ہو اور رواۃ کمزور نہ ہوں؛ سوکسی حدیث کا غریب ہونا اس کی صحت کے منافی نہیں ہے۔ حدیثِ غریب کی مندرجہ ذیل دو قسمیں ہیں:
  • غریبِ مطلق: جس حدیث کی اصل سند ہی میں غرابت ہو، وہ غریب ِ مطلق کہلاتی ہے۔ یعنی وہ حدیث جسے صرف ایک صحابی روایت کر رہے ہوں
  • غریبِ نسبی: یہ وہ حدیث ہے جس کے آغاز میں نہیں، بلکہ درمیان میں غرابت پائی جاتی ہواور صرف ایک راوی پایاجائے۔
نتیجہ کہیں سے بھی ثابت نہیں ہوتا کے حدیث غریب ضعییف حدیث ہوتی ہے لعن الله قوم الکاذبین
 

Haideriam

Senator (1k+ posts)
That is absolutely true, but this goes against your cult and what your scholars preach who say on the day of judgement moula Ali will be the judge. ( Astaghfirullah)
محمد ابن منصور کہتے ہیں کہ ہم احمد بن حنبل کے پاس تھے کہ ایک شخص نے اُن سے کہا کہ اے اباعبداللہ! مجھے اس حدیث کے بارے میں بتائیں جو حضرتِ علی علیہ السلام سے روایت کی گئی ہے:
اَنَا قَسِیْمُ النّٰارِوَالْجَنَّة
میں جنت اور دوزخ کو تقسیم کرنے والا ہوں
احمد بن حنبل نے جواب دیا:
وَمٰا تُنْکِرُوْنَ مَنْ ذٰا؟
تم اُس سے انکار کیوں کررہے ہو؟کیا تمہارے پاس یہ روایت نہیں پہنچی جس میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا ہے:
یٰا عَلِیُ: لا یُحِبُّکَ اِلَّا مُوٴْمِنٌ وَلَا یُبْغِضُکَ اِلَّا مُنَافِقٌ
یا علی ! تم سے محبت نہیں رکھے گا مگر مومن اور تم سے بغض نہیں رکھے گا مگر منافق
ہم نے کہا:ہاں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے ہی علی علیہ السلام کےبارےمیں فرمایا تھا۔ احمد بن حنبل نے کہا کہ اب بتاؤ کہ مرنے کے بعد مومن کی کونسی جگہ ہوتی ھے؟
ہم نے کہاجنت
احمد بن حنبل نے پھر پوچھا کہ بتاؤ کہ مرنے کے بعد منافق کی کونسی جگہ ہوتی ھے؟
ہم نے کہا جہنم
اس پر احمد بن حنبل نے کہا کہ پس علی جنت و جھنم کوتقسیم کرنےوالےھیں
فَعَلِیٌّ قَسِیْمُ النّٰارِ وَالْجَنَّة
حوالہ آثار الصادقین،جلد14،صفحہ44

عن علی رضی الله تعالی عنه أنا قسيم النار
حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے کہ: میں جہنم کو تقسیم کرنے والا ہوں۔
الفايق فی غريب الحديث جار الله زمخشری ج 3 ص 97

روی عن الأعمش عن موسی بن طريف عن عباية، قال سمعت عليا ( ع ) ، و هو يقول : أنا قسيم النار۔
روایت ہوئی ہے اعمش سے اور اس نے موسی ابن ظریف اور اس نے عبایہ سے کہ اس نے کہا ہے کہ: میں علی (ع) کو یہ ہمیشہ فرماتے ہوئے سنتا تھا کہ: میں جہنم کو تقسیم کرنے والا ہوں
شرح نهج البلاغه ابن ابی الحديد ج 2 ص 260 و ج 19 ص 140
عن عباية عن علی قال : أنا قسيم النار ، إذا كان يوم القيامة قلت هذا لک و هذا لی۔

حضرت علی (ع) سے نقل ہوا ہے کہ انھوں نے فرمایا کہ: میں جہنم کا تقسیم کرنے والا ہوں، جب قیامت کا دن ہو گا، میں جہنم سے کہوں گا کہ یہ بندہ تیرے لیے ہے اور وہ بندہ میرے لیے ہے۔
البدايه و النهايه ج 7 ص 392

یہی روایت مندرجہ ذیل اہل سنت کی کتب میں بھی ذکر ہوئی ہے
غريب الحديث ، ج 1 ، ص 377 ،
النهايه فی غريب الحديث ، ج 4 ، ص 61
المناقب، خوارزمی ، ص 41
كنز العمّال متقی هندی ج 13 ص 152
تاريخ مدينہ دمشق ج 42 ص 298

یھی روایت اشعارکی صورت میں
بہت سے شعراء نے صدیوں تک اس روایت سے اپنے اشعار میں استفادہ کیا کہ جس میں بعض کی طرف اشارہ کیا جارہا ہے

قسيم النار ذو خير وخير يخلصنا الغداة من السعير
فكان محمد في الدين شمسا علي بعد كالبدر المنير

خاتمه المستدرك ميرزاي نوري ج 3 ص 80،

حضرت علی علیہ السلام جہنم کے تقسیم کر نے والے صاحب خیر ہیں اور کتنا اچھا ہے کہ ہم کل قیامت میں جہنم سے نجات پائیں گے
پس حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سورج کی طرح ہیں اور انکے بعد علی علیہ السلام چودھویں کے چاند کی مانند ہیں

بشنوی نے کہا

فمدينة العلم التي هو بابها أضحي قسيم النار يوم مآبه
فعدوه أشقي البرية في لضي ووليه المحبوب يوم حسابه

پس علم کا شہر کہ جسکا دروازہ علی علیہ السلام ہیں۔ ظاہر ہے کہ روز قیامت وہی جہنم کا تقسیم کر نے والے ہوں گے۔
پس اسکا دشمن، قیامت میں شقی ترین مخلوق ہوگا اور اسکا دوست، قیامت میں دلعزیز ہوگا
مناقب ابن شهر آشوب ج 1 ص 314،

عمار بن تغلب نے کہا

علي حبه جنة قسيم النار والجنة
وصي المصطفي حقا إمام الانس والجنة .

مدينه المعاجز علامه بحراني ج 1 ص 260

حضرت علی علیہ السلام کی محبت زرہ ہے اور وہ جنت و جہنم کے تقسیم کر نے والے ہیں

اور علی علیہ السلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حقیقی وصی اور جا نشین ہیں اور جن و انس
کے رہنما و رہبر ہیں
Pakistani1947

الله کی لعنت ہو نواصب پر جو علی ابن ابی طالب کے فضائل جو ثابت شدہ ہیں پر حرف اٹھاتے ہیں اور منکر فضائل علی ابن ابی طالب ہیں یہ سب نواصب خوارج منکر حدیث مرزائی نجدی سب جہنم کی آگ کا ایندھن بنیں گے ان شا الله العزیز
 
Last edited: