خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
اسلام آباد: حکومت کی مذاکراتی کمیٹی کے ترجمان اور سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر، سینیٹر عرفان صدیقی نے پی ٹی آئی کی جانب سے مذاکرات کے خاتمے کے اعلان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف نے اسپیکر اور مذاکراتی کمیٹی کی توہین کرتے ہوئے پورے مذاکراتی عمل کو ایک تماشے میں تبدیل کر دیا ہے۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے مذاکرات کے خاتمے کے حوالے سے ابھی تک اسپیکر قومی اسمبلی کو باضابطہ طور پر آگاہ نہیں کیا، حالانکہ اسپیکر نے 28 جنوری کو مذاکراتی کمیٹی کا اجلاس پہلے سے طے شدہ امور کے تحت طلب کر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ 28 تاریخ کو مذاکرات میں شریک ہو، بیٹھ کر اپنی بات کرے اور ہمیں سننے کا موقع دے۔ عرفان صدیقی کا کہنا تھا کہ حکومت نے کبھی یہ نہیں کہا کہ جوڈیشل کمیشن نہیں بنایا جائے گا، بلکہ ہم مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات صبر اور تحمل کے ساتھ آگے بڑھائے جاتے ہیں، لیکن پی ٹی آئی کا مذاکرات سے یکطرفہ طور پر دستبردار ہونا اس بات کا اشارہ دیتا ہے کہ ان کے ذہن میں شاید کوئی اور منصوبہ موجود ہے۔ انہوں نے کہا، "ہم نے کبھی مذاکرات ختم نہیں کیے۔ اگر ایک طرف سے مذاکرات ختم کر دیے گئے ہیں تو ہم کس سے بات کریں؟ کیا ہم کمرے میں بیٹھ کر دیواروں سے بات کریں؟" سینیٹر عرفان صدیقی نے مزید کہا کہ حکومت نے ہمیشہ سے مسائل کے حل کے لیے بات چیت کو ترجیح دی ہے، لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے غیر سنجیدہ رویہ مذاکراتی عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ مذاکراتی عمل کسی بھی سیاسی بحران کا واحد قابل عمل حل ہے، اور حکومت اس بات پر یقین رکھتی ہے کہ سیاسی مسائل کو گفت و شنید کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ عرفان صدیقی نے تحریک انصاف کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی پالیسی پر نظرثانی کرے اور مذاکراتی عمل میں واپس آئے تاکہ قومی مسائل کے حل کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کیا جا سکے۔
حکومتِ پنجاب کا تھیٹرز میں بے حیائی پھیلانے والی اداکاراؤں اور فنکاروں پر تاحیات پابندی عائد کرنے کا فیصلہ، تھیٹرز میں فحش مواد یا بے حیائی پر مبنی ڈراموں اور ڈانس کی اجازت نہ دیں، ورنہ ان کے تھیٹرز کے لائسنس منسوخ کر دیے جائیں گے، تھیٹرز مالکان کو خبردار کر دیا گیا۔ اے آر وائی نیوز کے مطابق وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب عظمیٰ بخاری نے تھیٹرز مالکان کے ساتھ ایک اہم ملاقات میں یہ فیصلہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہوتے ہوئے تھیٹرز میں بے حیائی پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، وہ تھیٹرز کو فیملی تھیڑز بنانا چاہتی ہیں۔ جہاں صرف سماجی موضوعات پر مبنی ڈرامے اور تعلیمی مواد پیش کیا جائے گا۔ عظمیٰ بخاری نے کہا کہ جو تھیٹرز بے حیائی پھیلانے کا ذریعہ بنیں گے، ان کے لائسنس فوری طور پر منسوخ کر دیے جائیں گے۔ انہوں نے پنجاب آرٹس کونسل کو ہدایت کی کہ وہ تمام تھیٹرز مالکان سے انڈر ٹیکنگ لیں کہ وہ اپنے تھیٹرز میں صرف معیاری اور تعلیمی مواد ہی پیش کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت جلد ہی تھیٹرز کے لیے نئی قانون سازی کرے گی، جس کے تحت تھیٹرز میں پیش کیے جانے والے ڈراموں اور دیگر پروگرامز کو سماجی اقدار کے مطابق ہونا ضروری ہوگا۔ انہوں نے زور دیا کہ تھیٹرز کو عوامی رہنمائی کا ذریعہ بنانا چاہیے، نہ کہ بے حیائی پھیلانے کا۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ پنجاب حکومت نے تھیٹرز میں بے حیائی کے خلاف کارروائی کی ہو۔ سال 2023 میں نگراں پنجاب حکومت نے فیصل آباد اور گجرانوالہ میں فحش ڈانس دکھانے والے تھیٹرز بند کروا دیے تھے۔ اس وقت کے وزیر اطلاعات و ثقافت عامر میر نے آرٹس کونسل کے سربراہان کو بھی ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا تھا، کیونکہ وہ فن کے نام پر فحاشی پھیلانے والے مافیا کو تحفظ دے رہے تھے۔ عامر میر نے اس موقع پر کہا تھا کہ آرٹس کونسل کے نئے افسران کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ تھیٹرز میں پیش کیے جانے والے ڈراموں کی سخت مانیٹرنگ کریں۔ انہوں نے متعلقہ شعبوں سے وابستہ افراد کو متنبہ کیا تھا کہ اگر کہیں سے بھی اس قسم کی شکایت موصول ہوئی تو سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
وفاقی حکومت نے صنعتی شعبے کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کر لیا ہے، تاہم گھریلو صارفین کے لیے گیس کی قیمتیں برقرار رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) نے کیپٹو پاور پلانٹس کے لیے گیس ٹیرف میں اضافے کی منظوری دے دی، جس کا اطلاق یکم فروری 2025 سے ہوگا۔ ای سی سی کی جانب سے منظور کیے گئے اعلامیے کے مطابق کیپٹو پاور پلانٹس کے لیے گیس کی قیمت میں 500 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو اضافہ کیا گیا ہے۔ پہلے یہ قیمت 3,000 روپے تھی، جسے اب بڑھا کر 3,500 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مقرر کیا گیا ہے۔ اعلامیے کے مطابق گھریلو صارفین اور دیگر صنعتوں کے لیے گیس کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی، تاکہ عوام کو مہنگائی کے مزید بوجھ سے بچایا جا سکے۔ تاہم صنعتی شعبے، خصوصاً کیپٹو پاور پلانٹس کو بڑھتے ہوئے توانائی کے نرخوں کا سامنا کرنا ہوگا، جو ممکنہ طور پر پیداواری لاگت میں اضافے کا سبب بنے گا۔ یہ فیصلہ ملک میں جاری گیس کی قلت اور بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ صنعتی شعبے میں گیس کے نرخ بڑھانے سے گیس کی تقسیم اور سپلائی کے نظام میں بہتری لائی جا سکے گی، اور توانائی کی طلب و رسد میں توازن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم صنعتی شعبے کے نمائندوں نے اس فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گیس کے نرخوں میں اضافہ کاروباری لاگت بڑھانے کے ساتھ ساتھ برآمدی صنعتوں پر منفی اثر ڈال سکتا ہے، جو پہلے ہی مہنگی توانائی اور عالمی منڈی میں مسابقتی چیلنجز کا سامنا کر رہی ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے خاموشی سے تصدیق کی ہے کہ جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کے لیے معاون وزیر خارجہ ڈونلڈ لو 17 جنوری 2025 کو اپنی مدت مکمل ہونے کے بعد عہدہ چھوڑ چکے ہیں۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، یہ اقدام ان کی مدت پوری ہونے پر ہوا ہے، نہ کہ برطرفی کی وجہ سے، تاہم پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اسے اپنی علامتی فتح اور حکومتی پالیسی میں معمولی تبدیلی سے تعبیر کر سکتی ہے۔ ڈونلڈ لو کا دور پاکستان کے لیے انتہائی متنازع رہا، جس میں سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے "غیر ملکی سازش" کے الزامات اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی شامل رہی۔ لو نے 15 ستمبر 2021 کو یہ عہدہ سنبھالا تھا اور اس سے قبل وہ کرغیزستان اور البانیہ میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دے چکے تھے۔ ان کے دور میں پاکستان اور امریکا کے تعلقات کا محور "سائفر گیٹ" کہلایا جانے والا تنازع بنا، جس میں عمران خان نے ڈونلڈ لو اور پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید خان کے درمیان ہونے والی مبینہ گفتگو کو امریکی مداخلت کا ثبوت قرار دیا تھا۔ مارچ 2022 میں عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ ڈونلڈ لو انہیں اقتدار سے ہٹانے کی سازش میں ملوث ہیں۔ انہوں نے ایک سفارتی کیبل (جسے "سائفر" کا نام دیا گیا) کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس میں لو کی جانب سے پاکستانی فوجی قیادت اور سیاسی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں کا ذکر تھا۔ یہ کیبل پاکستانی سیاست میں غیر ملکی مداخلت کے بیانیے کا مرکز بن گیا اور پی ٹی آئی کے کارکنوں نے امریکا بھر میں احتجاجی ریلیاں نکال کر لو کے استعفے کا مطالبہ کیا۔ امریکی حکومت نے ان الزامات کو ہمیشہ "بے بنیاد" قرار دیا، لیکن یہ تنازع دونوں ممالک کے تعلقات پر گہرا اثرانداز ہوا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے لو کی رخصتی کو ایک اہم کامیابی کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، تاہم امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ اقدام دراصل نئی ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے محکمہ خارجہ کے تمام سینئر عہدیداروں کو عہدے چھوڑنے کی درخواست کا حصہ ہے۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ انتظامیہ صدر ٹرمپ کے سیاسی ایجنڈے کے مطابق نئے اہلکاروں کو تعینات کرنا چاہتی ہے۔ "سائفر گیٹ" کے نام سے مشہور اس تنازع نے پاکستانی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں گرم بحث کا آغاز کیا، جس میں عمران خان کی برطرفی کو امریکی مداخلت سے جوڑا گیا۔ ڈونلڈ لو کی رخصتی کے ساتھ ہی یہ باب بھی بند ہوا، لیکن اس کے اثرات پاکستانی سیاست پر طویل عرصے تک نظر آئیں گے۔ ماہرین کے مطابق، لو کا دور پاک امریکا تعلقات میں ایک پیچیدہ موڑ ثابت ہوا، جس نے دونوں ممالک کے درمیان اعتماد کی کمی کو واضح کیا۔ پی ٹی آئی کے موقف کے برعکس، امریکی حکومت کے اندرونی ذرائع بتاتے ہیں کہ ڈونلڈ لو کی رخصتی کوئی انفرادی واقعہ نہیں، بلکہ انتظامیہ کی جانب سے ایک بڑے پیمانے پر عہدیداروں کی تبدیلی کا حصہ ہے۔ یہ اقدام نئی پالیسیوں اور ترجیحات کے تحت اہلکاروں کی تعیناتی کی جانب اشارہ کرتا ہے
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سیاست کا مقصد صرف ایک شخص کو ریلیف دلانا ہے اور ان کے مسائل کا حل نکالنے میں کوئی دلچسپی نہیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی کی موجودہ حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ جماعت اپنے نظریے سے محروم ہوچکی ہے اور صرف ذاتی مفادات کے لیے متحد ہے۔ خواجہ آصف نے نجی ٹی وی چینل "آج نیوز" کے پروگرام 'روبرو' میں میزبان شوکت پراچہ سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے واضح کیا کہ انہوں نے پہلے ہی پیش گوئی کی تھی کہ پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کامیاب نہیں ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی مشروط مذاکرات چاہتی ہے، جو ہمیشہ ناکام ہوتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی کے رہنما ایک دوسرے کی گردن کاٹنے کے درپے ہیں، اور ان کے اندرونی مفادات انہیں تقسیم کیے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے عوام کو امن اور ریلیف ملنا چاہیے، لیکن صوبائی حکومت اپنی بنیادی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام رہی ہے۔ خواجہ آصف نے خیبر پختونخوا حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اسلام آباد پر تین بار حملہ کر چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی پی ٹی آئی نے دارالحکومت تک مارچ کی دھمکی دی تھی، لیکن ان کا احتجاج کا نیا اعلان بھی گزر جائے گا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ پی ٹی آئی رہنماؤں کی ملاقات کے بعد کوئی بھی گرینڈ اپوزیشن الائنس مسلم لیگ (ن) کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہوگا۔ سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا کہ اپوزیشن کے اتحاد کے بغیر حکومت کے خلاف مؤثر تحریک چلانا ممکن نہیں۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمان سے اپیل کی کہ وہ تمام اپوزیشن جماعتوں کا غیر رسمی اجلاس بلائیں تاکہ قومی ایجنڈا طے کیا جا سکے۔ پی ٹی آئی رہنما علی احمد خان نے اراکین اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت مناسب نہیں ہے، حالانکہ کچھ ممبران اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ علی احمد خان نے کہا کہ جنید اکبر ایک ایماندار اور بے خوف رہنما ہیں جو عمران خان کے سامنے دل کی بات کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جنید اکبر نے ایک پارٹی میٹنگ کے دوران اختلافات کے باعث پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ عمران خان کے قریبی اور قابل اعتماد رہنماؤں میں سے ہیں۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے وکلا نے 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف اپیل کا ڈرافٹ تیار کر لیا ہے۔ اپیل کا یہ ڈرافٹ عمران خان سے اڈیالہ جیل میں شیئر کیا گیا، جہاں ان سے مشاورت کے بعد اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، 190 ملین پاؤنڈ کیس میں برطانوی عدالت کے فیصلے کے ایک پیراگراف 45 کو بھی عمران خان کی اسلام آباد ہائیکورٹ کے لئے تیار اپیل میں ایک گراؤنڈ کے طور پر لیا گیا ہے ۔ پی ٹی آئی کے وکیل سلمان صفدر نے بتایا کہ 190 ملین پاؤنڈ ریفرنس میں اپیل کا ڈرافٹ 20 صفحات پر مشتمل ہے، جسے عمران خان اور بشریٰ بی بی کے وکلا نے تیار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اپیل کا ڈرافٹ عمران خان سے اڈیالہ جیل میں شیئر کیا گیا، جہاں ان سے تفصیلی مشاورت کی گئی۔ وکلاء کی ٹیم نے بتایا کہ 24 سے 48 گھنٹے کے اندر سزا کے خلاف اپیل دائر کر دی جائے گی۔ سلمان صفدر نے مزید کہا کہ عمران خان نے اپیل میں برطانوی عدالت کے فیصلے کو شامل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ برطانوی عدالت نے اس معاملے میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں پایا تھا، جسے وکلاء نے اپیل میں اہم ثبوت کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ این سی اے کی پروسیڈنگز کو بھی اپیل میں شامل کیا جائے گا، کیونکہ ان کے خیال میں یہ کیس سیاسی بنیادوں پر چلایا گیا ہے۔ وکیل سلمان صفدر نے القادر ٹرسٹ کیس پر بھی تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس بھی ایک سے دو سماعتوں میں ختم ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس کیس میں ثبوت اور فیصلے کے درمیان واضح تضاد ہے، جس کی وجہ سے یہ کیس بہت کمزور ہے۔ انہوں نے اس کیس کو سائفر کیس سے تشبیہ دی، جس میں بھی الزامات کو ثابت نہیں کیا جا سکا تھا۔ واضح رہے کہ 17 جنوری کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قائم احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا نے 190 ملین پاؤنڈ کے ریفرنس میں عمران خان کو مجرم قرار دیتے ہوئے 14 سال قید کی سزا سنائی تھی، جب کہ بشریٰ بی بی کو 7 سال قید کی سزا دی گئی تھی۔ عدالت نے عمران خان پر 10 لاکھ روپے اور بشریٰ بی بی پر 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔ جرمانے کی عدم ادائیگی کی صورت میں عمران خان کو مزید 6 ماہ اور بشریٰ بی بی کو 3 ماہ کی قید کی سزا بھگتنا ہوگی۔ احتساب عدالت نے فیصلے میں القادر یونیورسٹی کو سرکاری تحویل میں لینے کا بھی حکم دیا تھا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ یونیورسٹی غیر قانونی طور پر حاصل کی گئی زمین پر تعمیر کی گئی تھی، جس کی وجہ سے اسے سرکاری تحویل میں لیا جائے گا۔ 190 ملین پاؤنڈ یا القادر ٹرسٹ کیس میں الزام لگایا گیا تھا کہ عمران خان اور بشریٰ بی بی نے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) کی جانب سے حکومتِ پاکستان کو بھیجے گئے 50 ارب روپے کو قانونی حیثیت دینے کے عوض بحریہ ٹاؤن لمیٹڈ سے اربوں روپے اور سیکڑوں کنال مالیت کی اراضی حاصل کی تھی۔ الزامات کے مطابق، یہ رقم قومی خزانے میں جمع کی جانی تھی، لیکن اسے بحریہ ٹاؤن کراچی کے 450 ارب روپے کے واجبات کی وصولی میں ایڈجسٹ کر دیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی اپیل دائر کرے گی اور عدالت سے انصاف کی امید رکھتی ہے۔ عمران خان اور بشریٰ بی بی کے وکلاء کا ماننا ہے کہ یہ کیس سیاسی بنیادوں پر چلایا گیا ہے، اور انہیں امید ہے کہ
قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی نے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہ اور مراعات کو وفاقی سیکرٹری کے برابر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والی اجلاس میں کمیٹی نے ایم این ایز اور سینیٹرز کی تنخواہ اور مراعات میں اضافے کی متفقہ منظوری دی۔ ذرائع کے مطابق، ایم این اے اور سینیٹرز کی تنخواہ اور مراعات 5 لاکھ 19 ہزار روپے ماہانہ مقرر کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ اسپیکر ایاز صادق نے فنانس کمیٹی کی سفارشات وزیراعظم شہباز شریف کو بھجوا دی ہیں۔ تنخواہوں اور مراعات کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور ن لیگ سمیت دیگر جماعتیں ہم آواز ہیں۔ ذرائع کے مطابق، پی ٹی آئی کے 67 اراکین نے بھی تنخواہوں میں اضافے کا تحریری مطالبہ کیا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ تمام کٹوتیوں کے بعد وفاقی سیکرٹری کی تنخواہ اور الاؤنسز 5 لاکھ 19 ہزار روپے ماہانہ ہیں۔ اراکین پارلیمنٹ کو سہولیات بھی وفاقی سیکرٹری کے مساوی حاصل ہوں گی۔ پارلیمانی ذرائع کے مطابق، اراکین پارلیمنٹ نے 10 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ کا مطالبہ کیا تھا، لیکن اسپیکر ایاز صادق نے اس تجویز کو مسترد کر دیا
واشنگٹن: امریکا نے یوکرین سمیت دنیا کے تقریباً تمام ممالک کو دی جانے والی امداد کو عارضی طور پر روک دیا ہے۔ اس اقدام کے تحت صرف ہنگامی خوراک کی امداد اور اسرائیل اور مصر کے لیے فوجی فنڈنگ کو استثنیٰ دیا گیا ہے۔ امریکی میڈیا کے مطابق، یہ امدادی پروگرام 90 دن کے لیے معطل کیے گئے ہیں، اور ان پروگراموں کا جائزہ لے کر ان میں تبدیلی یا مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ وزیر خارجہ مارکو روبیو ذاتی طور پر کریں گے۔ امریکی میڈیا کے مطابق، محکمہ خارجہ نے تمام سفارتی اور قونصل مشنز کو حکم نامہ جاری کیا ہے، جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ تمام امدادی پروگرام فوری طور پر معطل کر دیں اور اس ضمن میں تمام کام بند کر دیے جائیں۔ اس حکم نامے کا اطلاق پہلے سے منظور شدہ تمام پروگراموں پر ہوگا، تاہم ہنگامی غذائی امداد اور چند دیگر امور کو جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ معطل کیے گئے پروگراموں میں یوکرین، تائیوان اور اردن کی امداد بھی شامل ہے۔ دسمبر 2024 کے اختتام پر صدر جو بائیڈن نے یوکرین کے لیے 2.5 ارب ڈالر کے ہتھیار بھیجنے کا وعدہ کیا تھا، جس میں سوا ارب ڈالر کے ہتھیار امریکی گوداموں میں موجود تھے، جبکہ باقی سوا ارب ڈالر کے ہتھیار کنٹریکٹ کے ذریعے تیار کر کے بھیجے جانے تھے۔ یوکرین کے خلاف امداد روکے جانے سے امریکا اور روس کو یوکرین جنگ ختم کرنے میں آسانی ہونے کا امکان ہے۔ اسی طرح، دسمبر ہی میں سابق صدر بائیڈن نے تائیوان کے لیے 571.03 ملین ڈالر کی دفاعی امداد منظور کی تھی، جس پر چین نے شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ امکان ہے کہ تائیوان کی امداد منجمد کر کے چین سے بہتر ڈیل کی کوشش کی جائے گی۔ محکمہ خارجہ کے اس اقدام سے جارج بش جونئیر کے دور سے جاری افریقا میں ایڈز کے خلاف اینٹی ریٹرووائرل ڈرگز کا پروگرام بھی متاثر ہوگا۔ امریکا نے 2023 میں مختلف ممالک کو 64 ارب ڈالر کی امداد دی تھی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق، یہ امریکی امداد خارجہ پالیسی کے ہتھیار کے طور پر استعمال کی جاتی ہے۔ پاکستان کے حوالے سے، امریکی ایجنسی برائے عالمی ترقی کے مطابق، 2022 میں آنے والے سیلاب کے متاثرین کی امداد کے لیے 2022 اور 2023 کے دوران 80 ملین ڈالر کی امداد دی گئی۔ بیورو آف ہیومینیٹرین اسسٹینس کے مطابق، 2023 میں پاکستان کو 4 کروڑ 30 لاکھ 29 ہزار 722 ڈالر کی امداد دی گئی، جبکہ 2024 میں یہ رقم کم ہو کر ایک کروڑ 69 لاکھ 40 ہزار ڈالر رہ گئی تھی۔ 2024 میں 16 ملین ڈالر کی رقم ارلی ریکوری، ڈیزاسٹر رسک میں کمی اور صلاحیتیں بہتر بنانے سے متعلق امور کے لیے دی گئی تھی۔ ثقافتی ورثہ کو محفوظ بنانے سے متعلق امور میں مدد دینے کے لیے یو ایس مشن پاکستان نے 2025 کے لیے ایک خصوصی پروگرام کا اعلان کیا تھا۔ اس پروگرام کے تحت تاریخی عمارتوں، آثار قدیمہ کے مقامات، میوزیم کلیکشنز اور روایتی ثقافتی چیزوں کو تحفظ دینے کے لیے 25 ہزار سے 5 لاکھ ڈالر تک کی رقم دی جانی تھی۔ تاہم، اس پروگرام کا مستقبل اب واضح نہیں ہے۔ محکمہ خارجہ نے ابھی تک اس خبر کی تصدیق نہیں کی ہے، لیکن میڈیا رپورٹس کے مطابق، اس حکم نامے سے محکمہ خارجہ کے ملازمین میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ حکام سے کہا گیا ہے کہ جب تک جائزہ لے کر منظوری نہیں دی جاتی، کوئی نیا امدادی پروگرام شروع نہ کیا جائے یا موجودہ پروگرام کو توسیع نہ دی جائے۔
ملک بھر میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے، اور اب یہ مسلسل آٹھویں ہفتے تک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ حالیہ ایک ہفتے میں چینی کی اوسط قیمت میں 4 روپے 14 پیسے فی کلو کا اضافہ ہوا ہے، جس کے بعد چینی کی اوسط قیمت 145 روپے 50 پیسے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔ چینی کی قیمتوں میں اضافے کی ایک بڑی وجہ وفاقی کابینہ کی جانب سے اکتوبر میں مزید 5 لاکھ میٹرک ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دینا ہے۔ اس فیصلے کے بعد نومبر کے آخر سے چینی کی قیمتوں میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوا، جو اب تک جاری ہے۔ چینی کی برآمد کی اجازت نے مقامی مارکیٹ میں سپلائی کو متاثر کیا، جس کے نتیجے میں قیمتیں بڑھنے لگیں۔ ادارہ شماریات پاکستان کی جانب سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق، ملک بھر میں چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ حالیہ ہفتے میں چینی کی اوسط قیمت میں 4 روپے 14 پیسے فی کلو کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ گزشتہ ہفتوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہے، جو مارکیٹ میں چینی کی قلت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کی وجوہات میں حکومتی پالیسی، موسمی حالات، اور ذخیرہ اندوزی شامل ہیں۔ اضافی برآمدات کی اجازت نے مقامی مارکیٹ میں چینی کی طلب و رسد کے توازن کو متاثر کیا ہے۔ ذخیرہ اندوزوں نے صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کی، جس سے قیمتیں مزید بڑھ گئیں۔ گنے کی پیداوار میں کمی اور کرشنگ سیزن کی تاخیر نے بھی قیمتوں میں اضافے کو ہوا دی ہے۔ چینی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے عوام کے لیے مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ گھریلو استعمال کے علاوہ چینی کی مہنگائی نے مٹھائیوں اور دیگر اشیاء کی قیمتوں کو بھی متاثر کیا ہے، جس سے عام آدمی کی خریداری کی صلاحیت مزید کم ہو رہی ہے۔ خاص طور پر رمضان المبارک کے قریب ہونے کی وجہ سے چینی کی طلب میں اضافے کا خدشہ ہے، جس سے قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ چینی کی سپلائی کو بہتر بنانے، ذخائر کو بروقت ریلیز کرنے اور برآمدات پر پابندی لگانے جیسے اقدامات سے قیمتوں میں استحکام لایا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، چینی ملوں اور تاجروں کے درمیان ہونے والی مصنوعی قلت کو روکنے کے لیے سخت نگرانی کی ضرورت ہے۔ اگر حکومت کی جانب سے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو چینی کی قیمتوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ خاص طور پر رمضان المبارک کے دوران چینی کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے، جس کی وجہ سے قیمتیں مزید بڑھ سکتی ہیں۔ عوام کی جانب سے حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے موثر اقدامات کرے، تاکہ عام آدمی کو ریلیف مل سکے۔
اسلام آباد: وزیر دفاع خواجہ آصف نے ملک بھر میں قائم بحریہ ٹاؤنز اور ان کے بانی ملک ریاض کے اثاثوں کی قومی سطح پر تحقیقات کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ریاست نے 25 سال بعد ملک ریاض پر ہاتھ ڈال دیا ہے، اور اب ان کے بچنے کے امکانات نہایت محدود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب حالات ایسے بدل چکے ہیں کہ ملک ریاض کے لیے بچنے کا کوئی راستہ نہیں بچا، اور یہ خوش فہمی بھی نہ رکھی جائے کہ مستقبل میں کوئی سیاسی یا قانونی ریلیف حاصل ہوگا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ملک ریاض کے غیر قانونی اثاثوں اور سرگرمیوں پر اب کسی بھی فورم پر ان کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں ہوگا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ متحدہ عرب امارات کے ساتھ پاکستان کا ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ موجود ہے، اور اس کے تحت ملک ریاض کو پاکستان واپس لا کر ان کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ وقت گزر گیا جب ملک ریاض پر ہاتھ ڈالنا ممکن نہیں تھا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ جو بھی پاکستانی بحریہ ٹاؤن کے منصوبے میں غیر قانونی طور پر پیسہ لگائے گا، اسے اپنے سرمائے کے ضیاع اور قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے میڈیا اور دیگر اداروں پر بھی شدید تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک ریاض کے جرائم میں میڈیا بھی برابر کا شریک رہا ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاکستان میں میڈیا مالکان اپنے گریبانوں میں جھانکنے کے بجائے ایسے افراد کے حق میں خاموش رہتے ہیں جو انہیں مالی فائدے پہنچاتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ ملک ریاض کے خلاف بات کرنے پر ماضی میں پابندیاں تھیں اور ان کے خلاف بیانات یا رپورٹس کو دبایا جاتا رہا، لیکن اب احتساب کا عمل وہاں تک بھی پہنچ چکا ہے جہاں پہلے کسی کا تصور بھی نہیں تھا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ بحریہ ٹاؤن کے تحت ہونے والی ٹرانزیکشنز غیر قانونی ہیں، اور ان منصوبوں میں یتیموں، بیواؤں اور غریبوں کی زمینوں پر قبضے کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض نے اپنے کاروباری اثرورسوخ سے گزشتہ تین دہائیوں میں پورے پاکستان میں زمینیں خریدیں اور ان پر ہاؤسنگ سوسائٹیاں قائم کیں، لیکن یہ سب کچھ قانونی اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہوا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس سارے معاملے میں کئی اہم شخصیات کے نام شامل ہیں جو پردے کے پیچھے ہیں۔ پریس کانفرنس کے دوران وزیر دفاع نے ایک پرانی ویڈیو کا ذکر کیا جس میں ملک ریاض کہتے ہیں کہ وہ پاکستان سے باہر کاروبار کرنا حرام سمجھتے ہیں۔ لیکن آج وہ دبئی میں بڑے پروجیکٹس لانچ کرنے پر فخر کرتے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ یہ رویہ دولت کی ہوس کا عکاس ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ لوگ اپنے بیانات اور دعووں سے کس طرح مکر جاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں صحافت آزاد نہیں رہی، اور میڈیا مالکان کسی بھی ایسے کاروباری شخص کے خلاف بیانات نشر نہیں کرتے جن سے ان کے مفادات وابستہ ہوں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ صحافی حضرات پیکا قوانین پر تو احتجاج کرتے ہیں، لیکن میڈیا مالکان کے کردار پر کبھی سوال نہیں اٹھاتے۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں کو میڈیا میں سافٹ ٹارگٹ بنایا جاتا ہے، لیکن میڈیا مالکان کے مفادات کے خلاف جانے والے بیانات کو سنسر کردیا جاتا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ملک ریاض کے خلاف موجودہ اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ریاست اب غیر قانونی سرگرمیوں کے خلاف سخت موقف اپنانے پر تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک ریاض کے معاملے پر 25 سال تک خاموشی کیوں رہی، اس پر بھی بحث ہونی چاہیے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ جب ملک ریاض کے غیر قانونی منصوبوں کے بارے میں انہوں نے سوالات اٹھائے تو انہیں سیاسی اور ادارہ جاتی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ خواجہ آصف نے پریس کانفرنس کے آخر میں اس بات پر زور دیا کہ ملک میں دوغلا پن ختم کیے بغیر جمہوریت اپنی اصل روح کے مطابق بحال نہیں ہوسکتی۔ انہوں نے کہا کہ سیاست، صحافت اور عدلیہ میں موجود دوہرے معیار کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس وقت تک مثبت تبدیلی ممکن نہیں جب تک ان مسائل کو دیانت داری سے حل نہ کیا جائے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اعلان کیا ہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اپنی مدت ملازمت کے اختتام کے بعد بھی 26ویں آئینی ترمیم کے تحت اپنے فرائض انجام دیتے رہیں گے، جب تک کہ ان کے جانشین کی تقرری کا عمل مکمل نہ ہو جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق، اس نوعیت کے حالات میں چیف الیکشن کمشنر اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتے ہیں۔ اعظم نذیر تارڑ نے اپنے بیان میں کہا کہ ماضی میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے آئینی عہدوں پر تقرریوں کے عمل کو ڈیڑھ سال تک روکے رکھا گیا تھا، جس کے نتیجے میں کئی اہم آئینی اور ادارہ جاتی معاملات تعطل کا شکار ہوئے۔ انہوں نے واضح کیا کہ حکومت آئین کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کا عمل مکمل کرے گی اور اس دوران موجودہ چیف الیکشن کمشنر اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں گے۔ چند روز قبل اپوزیشن لیڈر نے اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔ اپوزیشن نے زور دیا کہ یہ کمیٹی جلد از جلد قائم کی جائے تاکہ آئندہ انتخابات کی شفافیت اور آئینی تقاضے پورے کیے جا سکیں۔ یاد رہے کہ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی مدت ملازمت 26 جنوری کو مکمل ہو رہی ہے۔ آئین کے مطابق، نئے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان مشاورت سے کی جاتی ہے۔ تاہم، اگر مشاورت میں تاخیر ہو تو موجودہ چیف الیکشن کمشنر اپنی ذمہ داریاں اس وقت تک نبھا سکتے ہیں جب تک ان کے جانشین کی تقرری نہیں ہو جاتی۔ وفاقی وزیر قانون نے 26ویں آئینی ترمیم کے تحت موجودہ چیف الیکشن کمشنر کے تسلسل کی قانونی حیثیت پر روشنی ڈالی۔ یہ ترمیم ایسے حالات کے لیے راستہ فراہم کرتی ہے جہاں تقرری کے عمل میں تاخیر ہو جائے اور ادارے کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے موجودہ عہدیداروں کو کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ اعظم نذیر تارڑ نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت آئینی تقاضوں کے تحت اس معاملے کو حل کرے گی اور تمام ضروری مشاورت مکمل کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس بات کو یقینی بنائے گی کہ انتخابات کے لیے تمام اقدامات شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوں۔
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں قرآن پاک کے ضعیف اوراق اور قدیم نسخوں کو محفوظ رکھنے والے مشہور مرکز 'جبل نورالقرآن' سے نامعلوم افراد نے 120 قیمتی اور نادر نسخے چوری کر لیے۔ یہ مرکز مذہبی اوراق کی بے حرمتی سے بچانے کے لیے عالمی سطح پر پہچانا جاتا ہے اور اس کی تاریخی و دینی اہمیت کو مدنظر رکھتے ہوئے واقعے نے عوامی اور مذہبی حلقوں میں گہری تشویش پیدا کردی ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، یہ واقعہ منگل اور بدھ کی درمیانی شب (21 اور 22 جنوری) پیش آیا۔ تھانہ بروری پولیس نے جبل نور القرآن کے انچارج اجمل خان کی مدعیت میں ایف آئی آر درج کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ ایف آئی آر کے مطابق، نامعلوم افراد نے غار کے شو کیسز کے شیشے توڑ کر 120 قدیم قرآن پاک کے نسخے چرا لیے۔ اجمل خان کے بیان کے مطابق، وہ بدھ کی صبح جب 10 بجے مرکز پہنچے تو غار کے دروازے کا تالا ٹوٹا ہوا اور 12 شو کیسز کے شیشے ٹوٹے ہوئے پائے گئے۔ واقعے کے بعد پولیس نے شواہد جمع کر کے نامعلوم ملزمان کی تلاش شروع کر دی ہے، تاہم تاحال کسی قسم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔ جبل نور کمیٹی کے رکن، بالاج لہڑی نے بتایا کہ چوری شدہ نسخوں میں ہاتھ سے لکھے گئے نادر قرآن پاک اور احادیث کے قیمتی مجموعے شامل ہیں۔ ان نسخوں کو مختلف ممالک سے لایا گیا تھا اور یہ مرکز میں نہایت حفاظت سے رکھے گئے تھے۔ ان نسخوں کی مذہبی اور تاریخی اہمیت کے پیش نظر، ان کی چوری کو ایک بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔ جبل نور القرآن کوئٹہ کے مضافات میں چلتن پہاڑی سلسلے میں واقع ایک منفرد مرکز ہے، جہاں قرآن پاک کے ضعیف اوراق، بوسیدہ نسخے، اور دیگر دینی کتب کو محفوظ رکھنے کے لیے سرنگیں بنائی گئی ہیں۔ 1992 میں میر عبد الصمد لہڑی نے اس کام کا آغاز کیا، جو اب ان کے خاندان کی دوسری اور تیسری نسل تک منتقل ہو چکا ہے۔ یہ منصوبہ ایک سرنگ سے شروع ہوا تھا اور اب یہاں 100 سے زائد سرنگیں موجود ہیں، جن میں ڈھائی سے تین کروڑ تک قرآن پاک اور دیگر دینی کتب محفوظ کی جا چکی ہیں۔ یہ مرکز دینی اوراق کی بے حرمتی سے بچانے کے لیے ایک مثال بن چکا ہے اور یہاں دنیا بھر سے نادر نسخے محفوظ کیے جاتے ہیں۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں اور جلد ملزمان کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ تفتیشی ٹیمیں مرکز کے عملے اور قریبی علاقوں میں موجود افراد سے معلومات جمع کر رہی ہیں تاکہ کسی بھی قسم کا سراغ لگایا جا سکے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما جنید اکبر کو قومی اسمبلی میں بلا مقابلہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا چیئرمین منتخب کر لیا گیا۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں نے ان کے نام پر اتفاق ظاہر کرتے ہوئے انہیں یہ اہم ذمہ داری سونپی۔ ڈان نیوز کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور قومی اسمبلی میں چیف وہپ طارق فضل چوہدری نے جنید اکبر کا نام تجویز کیا، جس کی سینیٹر افنان اللہ سمیت دیگر اراکین نے تائید کی۔ دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے بھی ان کے نام کی حمایت کی۔ طارق فضل چوہدری نے اس موقع پر کہا کہ حکومت نے ایک اصولی فیصلہ کرتے ہوئے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ اپوزیشن کو دینے کا فیصلہ کیا۔ چیئرمین منتخب ہونے کے بعد جنید اکبر نے اپنے خطاب میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ اس ذمہ داری کو بہتر انداز میں نبھانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تعیناتی ان کے لیے ایک اعزاز ہے اور وہ سینئر اراکین کی رہنمائی میں پی اے سی کے امور کو شفاف اور مؤثر انداز میں چلانے کا عزم رکھتے ہیں۔ جنید اکبر نے بتایا کہ ان کی نامزدگی پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ہدایت پر کی گئی ہے، اور وہ پارٹی کے اعتماد پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس سے قبل پاکستان تحریک انصاف نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے لیے پانچ نام حکومت کو تجویز کیے تھے۔ پی ٹی آئی کے چیف وہپ عامر ڈوگر نے مسلم لیگ (ن) کے طارق فضل چوہدری کو ایک خط ارسال کیا، جس میں جنید اکبر، شیخ وقاص اکرم، عمر ایوب خان، عامر ڈوگر، اور خواجہ شیراز محمود کے نام شامل تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جنید اکبر کی تقرری ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکراتی عمل تعطل کا شکار ہے۔ پی ٹی آئی کے بانی اور چیئرمین عمران خان نے اپنی جماعت کو حکومت کے ساتھ مذاکرات کے چوتھے سیشن میں شرکت سے روک دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے بیرسٹر گوہر نے اعلان کیا تھا کہ ان کی جماعت 28 جنوری کو حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل کا حصہ نہیں بنے گی کیونکہ حکومت کی جانب سے ان کے مطالبے پر تحقیقاتی کمیشن تشکیل نہیں دیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی عدم سنجیدگی کے باعث مزید مذاکرات کا حصہ بننا ممکن نہیں۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کا چیئرمین منتخب ہونا کسی بھی پارلیمانی نظام میں شفافیت اور احتساب کے عمل کو مضبوط بنانے کا اہم حصہ ہے۔ پی اے سی حکومت کے مالیاتی امور اور اخراجات پر نظر رکھنے کا اہم ادارہ ہے، اور اس کا قیام قومی خزانے کے استعمال کے جائزے کے لیے کیا جاتا ہے۔
سندھ پولیس کے مبینہ رویے اور ہراسانی سے نالاں چینی سرمایہ کاروں نے سندھ ہائیکورٹ سے تحفظ فراہم کرنے کی درخواست دائر کر دی ہے۔ سندھ ہائیکورٹ کے آئینی بینچ نے اس درخواست پر سماعت کی، جس میں چینی سرمایہ کاروں نے عدالت کو پولیس کی جانب سے ہراسانی اور بھتہ خوری کے الزامات سے آگاہ کیا۔ درخواست گزاروں نے عدالت سے اپیل کی کہ اگر انہیں تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو وہ سندھ چھوڑ کر لاہور یا اپنے وطن واپس جانے پر مجبور ہو جائیں گے۔ چین سے تعلق رکھنے والے چھ سرمایہ کاروں نے ایڈووکیٹ پیر رحمان محسود کے توسط سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ وہ وزیراعظم پاکستان، آرمی چیف اور دیگر اعلیٰ حکام کی دعوت پر پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے آئے تھے۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ سندھ پولیس کی جانب سے انہیں مسلسل ہراساں کیا جا رہا ہے اور ان سے رشوت طلب کی جا رہی ہے۔ چینی سرمایہ کاروں نے شکایت کی کہ ایئرپورٹ سے لے کر رہائش گاہ تک ان سے بھاری رشوت طلب کی جاتی ہے، اور اگر رشوت نہ دی جائے تو انہیں گھنٹوں انتظار کرایا جاتا ہے۔ مزید برآں، بلٹ پروف گاڑیوں کے نام پر غیر ضروری تاخیر کی جاتی ہے اور رشوت دینے کے بعد پولیس اپنی گاڑیوں میں انہیں رہائش گاہ تک پہنچاتی ہے۔ درخواست میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان کی رہائش گاہوں پر سیکیورٹی کے نام پر تالے ڈال دیے جاتے ہیں اور ان کی آزادانہ نقل و حرکت کو محدود کر دیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال کاروباری میٹنگز میں رکاوٹ ڈالتی ہے، اور کبھی کبھار تو پولیس اہلکار خود ان کی گاڑیوں پر حملہ کرتے ہیں اور گاڑیوں کے شیشے توڑ دیتے ہیں۔ نقل و حرکت کی سہولت کے لیے 30 سے 50 ہزار روپے رشوت وصول کی جاتی ہے۔ چینی سرمایہ کاروں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ایکسپو سینٹر میں تین چینی خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی گئی، جس کے بعد وہ چین واپس چلی گئیں۔ اس کے علاوہ، ملیر کے علاقے میں سکھن تھانے کی حدود میں چینی شہریوں کی سات فیکٹریوں کو بھی سیل کر دیا گیا، جس سے ان کے کاروبار کو شدید نقصان پہنچا۔ چینی سرمایہ کاروں نے عدالت سے استدعا کی کہ ان کے حقوق کا تحفظ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کیا جائے۔ درخواست میں وفاقی وزارت داخلہ، چیف سیکریٹری سندھ، آئی جی سندھ، ہوم سیکریٹری سندھ، سی پیک سیکیورٹی کے اسپیشل یونٹ کے سربراہ، ملیر پولیس کے حکام اور چینی سفارت خانے سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔ عدالت نے چینی سرمایہ کاروں کی درخواست پر متعلقہ حکام سے چار ہفتوں میں جواب طلب کر لیا ہے۔ درخواست گزاروں نے واضح کیا کہ اگر انہیں تحفظ فراہم نہ کیا گیا تو وہ سندھ میں مزید سرمایہ کاری کرنے کے بجائے یا تو لاہور منتقل ہو جائیں گے یا واپس چین لوٹ جائیں گے۔ ان کے مطابق، پولیس کا یہ رویہ نہ صرف ان کے کاروبار بلکہ پاکستان میں سرمایہ کاری کے مجموعی ماحول پر بھی منفی اثر ڈال رہا ہے۔
پاکستان میں ہنرمند افرادی قوت کے بیرون ملک جانے کے رجحان میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے، جہاں روزانہ تقریباً 2000 پاکستانی بہتر روزگار کی تلاش میں ملک چھوڑ رہے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ پانچ سالوں میں 35 لاکھ 50 ہزار ہنرمند پاکستانی روزگار کی خاطر بیرون ملک جا چکے ہیں، جو ملک کے انسانی وسائل کے لیے ایک اہم چیلنج کی نشاندہی کرتا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق، پانچ سال کے دوران 13,500 سے زائد ڈاکٹرز نے بیرون ملک روزگار اختیار کیا، جبکہ طب سے جڑے کل 43,500 افراد نے دوسرے ممالک میں نوکریاں حاصل کیں۔ اسی طرح، ایوی ایشن کے شعبے سے وابستہ 238 پائلٹس نے بھی بیرون ملک ملازمت کو ترجیح دی۔ انجینئرنگ کے میدان میں بھی ہنرمند افراد کی بڑی تعداد ملک سے باہر جا رہی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں 32,000 سے زائد پروفیشنل انجینئرز نے بیرون ملک روزگار کے مواقع تلاش کیے، جبکہ 24,000 اکاؤنٹنٹس نے بھی اسی عرصے کے دوران غیر ملکی ملازمتوں کو ترجیح دی۔ ملک کی لیبر کلاس میں بھی یہ رجحان واضح ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، گزشتہ پانچ سالوں میں 10 لاکھ سے زائد لیبر کلاس کے افراد بیرون ملک گئے، جن میں 10 لاکھ ڈرائیور، 6 لاکھ عام مزدور، اور 5 لاکھ ہیئر کٹر اور سیکورٹی گارڈ شامل ہیں۔ اس بڑے پیمانے پر افرادی قوت کے ملک چھوڑنے کی وجوہات میں معاشی عدم استحکام، ملکی معیشت میں روزگار کے محدود مواقع، اور بیرون ملک بہتر تنخواہوں اور سہولیات کی کشش شامل ہیں۔ ماہرین کے مطابق، یہ رجحان پاکستان کی معیشت کو مختصر مدت میں ترسیلات زر کی صورت میں فائدہ پہنچا سکتا ہے، لیکن طویل مدتی طور پر یہ ہنر مند افراد کی کمی کی وجہ سے ملکی ترقی کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اعدادوشمار اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ہنرمند اور تعلیم یافتہ طبقے کی بیرون ملک روانگی نہ صرف پاکستان کے معاشی نظام بلکہ صحت، انجینئرنگ، اور دیگر اہم شعبوں کے لیے بھی ایک بڑا چیلنج بنتی جا رہی ہے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کا اجلاس چیئرپرسن پلوشہ خان کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا، جس میں ایلون مسک اور ان کی کمپنی اسٹار لنک کے پاکستان میں ممکنہ آپریشنز سے متعلق امور پر تفصیلی بات چیت کی گئی۔ اجلاس میں کمیٹی ارکان نے اسٹار لنک کی درخواست، پاکستان مخالف بیانات، اور حکومتی پالیسیاں زیر بحث لائیں۔ پلوشہ خان نے اجلاس میں ایلون مسک کے حالیہ بیانات پر گہری تشویش کا اظہار کیا، جنہیں پاکستان مخالف قرار دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ایلون مسک کی سرگرمیاں قومی مفادات کے خلاف ہیں، جس کے تناظر میں ان کی کمپنی اسٹار لنک کے لائسنس کے اجرا پر غور کرنا مناسب نہیں۔ سینیٹر افنان اللہ نے مزید سخت موقف اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ایلون مسک پہلے پاکستان سے معافی مانگیں، پھر اسٹار لنک کے لائسنس پر کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے برطانوی حکومت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایلون مسک کے الزامات کو وہاں مسترد کر دیا گیا ہے، لہٰذا ایسی کمپنی کو پاکستان میں کام کرنے کی اجازت دینے سے پہلے تمام معاملات کی چھان بین ضروری ہے۔ چیئرمین پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں اسپیس پالیسی پر ماضی میں خاطر خواہ کام نہیں ہوا تھا۔ 2023 میں پہلی بار نیشنل اسپیس پالیسی منظور کی گئی، جس کے تحت اسپیس ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسٹار لنک نے فروری 2022 میں پی ٹی اے لائسنس کے لیے درخواست دی تھی، جو وزارت داخلہ کےپاس سکیورٹی کلیئرنس کے لیے گیا، وزارت داخلہ کی طرف سے اسٹار لنک کی کلیئرنس نہیں آئی۔ اب سیکیورٹی کلیئرنس کے لیے وزارت آئی ٹی کو بھیجا گیا ہے۔ یہ معاملہ فی الحال اسپیس ریگولیٹری اتھارٹی کے زیر غور ہے، اور اس اتھارٹی کی منظوری کے بعد ہی پی ٹی اے لائسنس جاری کر سکے گا۔ اجلاس کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ اسٹار لنک نے حکومتی قوانین پر عملدرآمد کرنے اور حکومتی ہدایات پر سروس بند کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے۔ کمپنی نے وعدہ کیا ہے کہ وہ حکومتی پالیسیوں کو بائی پاس نہیں کرے گی اور تمام ٹریفک کو گیٹ ویز کے ذریعے گزارے گی۔ چیئرمین پی ٹی اے نے واضح کیا کہ جب تک حکومتی کلیئرنس مکمل نہیں ہو جاتی، اسٹار لنک کو لائسنس جاری نہیں کیا جا سکتا۔ اس دوران کمیٹی نے اسپیس ریگولیٹری اتھارٹی کے حکام کو آئندہ اجلاس میں طلب کیا تاکہ وہ اس معاملے پر مزید تفصیلی بریفنگ دے سکیں۔ کمیٹی کے رکن انوشہ رحمٰن نے وزارت آئی ٹی پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وزارت نے پیکا ایکٹ کی ذمہ داری وزارت داخلہ کو منتقل کر دی ہے اور دیگر اہم کاموں سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت آئی ٹی ہر مسئلے کے لیے الگ ریگولیٹری باڈی بنا رہی ہے، جو اس کے ناکافی کارکردگی کا ثبوت ہے۔ اجلاس کے دوران سینیٹر افنان اللہ نے پرائیوٹ ممبر بلز کے حوالے سے احتجاج کیا اور کہا کہ ان کے بلز کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزارت آئی ٹی حکومت کی نئی قانون سازی پالیسی کو جواز بنا کر بلز کو آگے بڑھانے سے گریز کر رہی ہے۔ وزارت کے حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ ڈیٹا پروٹیکشن بل پر مشاورت جاری ہے اور کچھ اسٹیک ہولڈرز کی تجاویز کو شامل کیا جا رہا ہے۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ ڈیٹا پروٹیکشن بل پر پبلک ہیئرنگ منعقد کی جائے گی تاکہ اس پر عوامی رائے لی جا سکے۔
اسلامی تعلیمات کے مطابق انسانی جان کی حفاظت کو اولین ترجیح دی گئی ہے، اور اس حوالے سے علمائے کرام نے ایک متفقہ فتویٰ جاری کرتے ہوئے ہوائی فائرنگ، پتنگ بازی اور ون ویلنگ جیسے خطرناک اعمال کو غیر شرعی قرار دے دیا ہے۔ علمائے کرام نے اپنے فتوے میں واضح کیا کہ ہر وہ عمل جو انسانی جان کو خطرے میں ڈالے، اسلام میں ممنوع ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہوائی فائرنگ، پتنگ بازی اور ون ویلنگ نہ صرف انسانی جان کے لیے خطرناک ہیں بلکہ یہ اعمال خودکشی کے مترادف ہیں۔ اسلام خود کو کسی بھی قسم کی ہلاکت میں ڈالنے سے سختی سے روکتا ہے۔ علمائے کرام نے فتوے میں قرآن پاک اور احادیث کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ انسانی جان کو نقصان پہنچانے والے اعمال شریعت کے اصولوں کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالی نے انسان کو زندگی کی نعمت عطا کی ہے اور اس کی حفاظت کو لازم قرار دیا ہے۔ فتوے میں مزید کہا گیا کہ ہوائی فائرنگ، پتنگ بازی اور ون ویلنگ جیسے اعمال نہ صرف کرنے والے کی اپنی جان کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں بلکہ دیگر افراد کی زندگیاں بھی ان سے متاثر ہو سکتی ہیں۔ ایسے اعمال معاشرتی مسائل اور حادثات کا سبب بنتے ہیں، جو اسلامی معاشرت کے اصولوں کے منافی ہیں۔ علمائے کرام کے مطابق اسلام میں جان لیوا سرگرمیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہوائی فائرنگ کی وجہ سے اکثر شادی بیاہ اور خوشی کے مواقع پر جانی نقصان کے واقعات رونما ہوتے ہیں، جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ اسی طرح پتنگ بازی میں دھاتی دھاگوں کا استعمال اور ون ویلنگ کی خطرناک حرکات نوجوانوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف نے گورنر خیبر پختونخوا فیصل کنڈی کو اسلام آباد میں سرکاری گھر الاٹ کر دیا۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور اور گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی کے درمیان تلخیوں میں اضافہ ہو گیا ہے، جس کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف نے گورنر کے پی کو اسلام آباد میں سرکاری گھر الاٹ کر دیا ہے۔ یہ تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے پختونخوا ہاؤس اسلام آباد کی گورنر انیکسی میں گورنر فیصل کریم کنڈی کے داخلے پر پابندی عائد کر دی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی مداخلت کے بعد وفاقی حکومت نے گورنر خیبر پختونخوا کو اسلام آباد میں ایک سرکاری گھر الاٹ کیا اور اس گھر کو باضابطہ طور پر گورنر ہاؤس کا درجہ بھی دے دیا۔ ذرائع کے مطابق، گورنر ہاؤس پشاور سے ضروری فرنیچر، کچن کا سامان، اور عملے کو اسلام آباد منتقل کر دیا گیا ہے تاکہ گورنر فیصل کریم کنڈی کو کسی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے 21 لاکھ کا بجلی بل آنے کے بعد گورنر خیبرپختونخواہ فیصل کریم کنڈی کے ڈیرہ اسماعیل خان والے ذاتی گھر کو بھی سرکاری رہائش گاہ قرار دیدیا گیا تھا۔
وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں پیکا (پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) ترمیمی بل 2025 پیش کر دیا ہے۔ اس بل کے تحت ایک نئی "سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی" قائم کی جائے گی جو ملک میں سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ، غیر قانونی مواد کی روک تھام، اور صارفین کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔ بل کے مطابق، سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں اس کے ذیلی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ اتھارٹی کو یہ اختیارات دیے جائیں گے کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو رجسٹر کرے اور ان کے معیارات طے کرے۔ اتھارٹی کو رجسٹریشن منسوخ کرنے، غیر قانونی مواد کے خلاف کارروائی کرنے، اور صارفین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کا بھی اختیار ہوگا۔ اتھارٹی کا دائرہ کار وسیع ہوگا، جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ مشاورت، غیر قانونی مواد کو ہٹانے کی ہدایت، اور صارفین کی شکایات کا ازالہ شامل ہوگا۔ متاثرہ افراد کے لیے لازم ہوگا کہ وہ غیر قانونی سرگرمیوں کی اطلاع 24 گھنٹے کے اندر اتھارٹی کو دیں۔ نئی ترمیم کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اتھارٹی سے رجسٹر کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے بل میں جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ جھوٹی خبر پھیلانے والے شخص کو 3 سال قید یا 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ، چیئرمین اتھارٹی کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ غیر قانونی مواد کو فوری طور پر بلاک کرنے کی ہدایت دے۔ اتھارٹی نظریہ پاکستان کے برخلاف مواد، شہریوں کو قانون توڑنے پر اکسانے والے مواد، اور قومی سلامتی یا ریاستی اداروں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہوگی۔ مسلح افواج، پارلیمنٹ، اور صوبائی اسمبلیوں کے خلاف مواد کو ہٹانے کا اختیار بھی اتھارٹی کو دیا گیا ہے۔ اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہوگی، جن میں سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، اور چیئرمین پیمرا بطور ایکس آفیشو اراکین شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ ویئر انجنیئر، وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل، اور نجی شعبے سے تعلق رکھنے والا آئی ٹی ماہر بھی اراکین میں شامل ہوں گے۔ اتھارٹی کے چیئرمین کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ بیچلرز ڈگری کے حامل ہوں اور متعلقہ شعبے میں کم از کم 15 سال کا تجربہ رکھتے ہوں۔ چیئرمین اور دیگر اراکین کی تعیناتی پانچ سال کے لیے ہوگی، اور وہ کسی بھی دوسرے کاروبار میں ملوث نہیں ہو سکیں گے۔ بل کے تحت سوشل میڈیا سے متعلق مسائل کے فوری حل کے لیے ایک "سوشل میڈیا شکایت کونسل" بھی قائم کی جائے گی۔ یہ کونسل 5 اراکین اور ایک ایکس آفیشو رکن پر مشتمل ہوگی۔ کونسل کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ صارفین کی شکایات کا بروقت ازالہ کرے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قانون کے دائرے میں لائے۔ بل کے مطابق، وفاقی حکومت ایک "سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل" قائم کرے گی۔ اس ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہوگا، جبکہ دیگر اراکین میں ایک صحافی اور ایک سافٹ ویئر انجنیئر شامل ہوں گے۔ ٹربیونل کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے خلاف تادیبی کارروائی کرے اور صارفین کی شکایات کا ازالہ کرے۔ ٹربیونل کے فیصلوں کو سپریم کورٹ میں 60 دن کے اندر چیلنج کیا جا سکے گا۔ بل میں ایک قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کی بھی تجویز دی گئی ہے، جس کا مقصد غیر قانونی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی تحقیقات کرنا ہوگا۔ اس ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوگا، جس کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوگی۔ ایجنسی کے افسران کو پولیس کے مساوی اختیارات حاصل ہوں گے، اور اس کے قیام کے بعد ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر دیا جائے گا۔ بل میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پر شائع نہیں کیے جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ، پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حذف شدہ مواد کو دوبارہ سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنا ممنوع ہوگا۔
ملک ریاض نیب کے ریڈار پر آ گئے، نیب ملک ریاض کو فراڈ اور مفرور قرار دیتے ہوئے عوام کو ان کے دبئی والے ہاؤسنگ پراجیکٹ میں سرمایہ کاری سے روک دیا۔ نیب کے ترجمان کے مطابق، ادارے کے پاس بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور دیگر افراد کے خلاف دھوکہ دہی اور فراڈ کے کئی مقدمات زیر تفتیش ہیں۔ ترجمان نیب نے بتایا کہ نیب کے پاس مضبوط شواہد موجود ہیں کہ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی، اور نیو مری میں سرکاری اور نجی اراضی پر بغیر این او سی قبضہ کیا۔ ملک ریاض نے بغیر اجازت نامے کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کرتے ہوئے لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا۔ مزید برآں، ملک ریاض نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر پشاور اور جام شورو میں بھی زمینوں پر ناجائز قبضے کر کے اور بغیر این او سی کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کیں۔ نیب کے ترجمان کے مطابق، ملک ریاض اب بھی لوگوں سے دھوکہ دہی کے ذریعے بھاری رقوم وصول کر رہا ہے اور اس وقت این سی اے کے مقدمے میں عدالتی مفرور ہے جو کہ عدالت اور نیب دونوں کو مطلوب ہے۔ نیب نے بحریہ ٹاؤن کے پاکستان کے اندر بے شمار اثاثے پہلے ہی ضبط کر لیے ہیں اور ملک ریاض کے مزید اثاثہ جات کو ضبط کرنے کے لیے بلا توقف قانونی کارروائی کرنے جا رہا ہے۔ نیب کے ترجمان نے مزید کہا کہ ملک ریاض اس وقت دبئی میں مقیم ہے اور وہاں پر بھی لگژری اپارٹمنٹ کی تعمیرات کے حوالے سے ایک نیا پروجیکٹ شروع کیا ہے۔ عوام کو تنبیہ کی جاتی ہے کہ وہ اس پروجیکٹ میں کسی قسم کی سرمایہ کاری سے گریز کریں کیونکہ ایسا کرنے سے یہ منی لانڈرنگ کے زمرے میں آ سکتا ہے اور پروجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ حکومت پاکستان بھی فوری طور پر دبئی کی حکومت سے رابطہ کر کے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرے گی تاکہ معصوم لوگوں کو دھوکہ دہی اور غیر قانونی فعل سے محفوظ رکھا جا سکے۔

Back
Top