پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے پہلے سال کی تکمیل کے موقع پر رواں مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ میں 460 ارب روپے سے زائد کے ریونیو شارٹ فال کے باوجود پارلیمنٹیرینز کی متنازع ترقیاتی اسکیموں کو بحال کر دیا ہے۔ یہ اسکیمیں ابتدائی ششماہی میں شروع نہیں ہو سکی تھیں، لیکن اب ان کے لیے مختص بجٹ میں نمایاں اضافہ کر دیا گیا ہے۔
ایک بڑے اقدام کے تحت حکومت نے ’پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے پروگرام‘ (ایس اے پی) کے تحت ان سیاسی اسکیموں کے لیے مختص 25 ارب روپے کے بجٹ کو بڑھا کر تقریباً 50 ارب روپے کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت حکومتی اراکین پارلیمنٹ کو فنڈز کی فوری تقسیم یقینی بنانے کے لیے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے اصولوں میں نرمی کی گئی ہے۔
پارلیمانی کمیٹی نے اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے گزشتہ مالی سال کے غیر استعمال شدہ 30 ارب روپے کو آگے منتقل کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔ تاہم، حکومت نے پارلیمنٹیرینز کو خوش رکھنے کے لیے اس اقدام کو آگے بڑھایا اور فنڈز کے اجرا کا فیصلہ کیا، جو کہ گزشتہ ہفتے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں تقریباً 300 فیصد اضافے کے بعد ایک اور اہم پیش رفت ہے۔
حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ زیادہ تر ترقیاتی اسکیمیں پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کے ذریعے مکمل کی جاتی تھیں اور اب اس ادارے کو ختم کر دیا گیا ہے، اس لیے یہ کام پاکستان انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (پی آئی ڈی سی ایل) کو سونپا جائے گا، جو وزارت ہاؤسنگ کے تحت کام کرے گی۔
ڈپٹی وزیراعظم اسحٰق ڈار کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی غلام مصطفیٰ شاہ نے گزشتہ مالی سال کے فنڈز کی دوبارہ منظوری کے لیے خطوط لکھے تھے۔
گزشتہ مالی سال میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پارلیمنٹیرینز کے ترقیاتی پروگرام کے لیے 91 ارب روپے مختص کیے تھے، جن میں سے 61 ارب روپے نگران حکومت کے آنے سے قبل جاری کیے جا چکے تھے، جبکہ مالی سال کے اختتام تک 57 ارب روپے استعمال ہو سکے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما چاہتے تھے کہ باقی 34 ارب روپے بھی اس سال کے دوران خرچ کیے جائیں، تاہم اسحٰق ڈار نے وضاحت کی کہ پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت گزشتہ سالوں کے غیر استعمال شدہ فنڈز کو دوبارہ مختص کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اجلاس میں بتایا کہ حکومت نے پی ایس ڈی پی کے تحت مالی سال 25-2024 کے لیے ایس اے پی کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ تاہم وزارت منصوبہ بندی کی ویب سائٹ پر پی ایس ڈی پی میں اس کے لیے 25 ارب روپے مختص دکھائے گئے ہیں، جس کے باعث فنڈز کی تقسیم اور منظوری کے حوالے سے ابہام پایا جاتا ہے۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایس اے پی فنڈز متعلقہ وفاقی وزارتوں، ڈویژنز اور صوبائی حکومتوں کو جاری کیے جا سکتے ہیں، اور وزارت منصوبہ بندی نے 48.37 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دے دی۔
اس کمیٹی میں 27 ارکان شامل تھے، جن میں 16 اراکین پارلیمنٹ، 7 وفاقی سیکریٹریز اور 4 صوبائی نمائندے شامل تھے۔ پارلیمانی اراکین میں راجا پرویز اشرف، شازیہ مری، سردار یوسف زمان، ریاض الحق، جاوید حنیف خان، خالد مگسی، اعجاز الحق اور طارق فضل چوہدری شامل تھے۔
48 ارب 37 کروڑ روپے میں سے 28 ارب 87 کروڑ روپے پنجاب کے لیے مختص کیے گئے، سندھ کے لیے 15 ارب 25 کروڑ روپے، بلوچستان کے لیے 2 ارب 25 کروڑ روپے، خیبر پختونخوا کے لیے ایک ارب 25 کروڑ روپے اور اسلام آباد کے لیے 75 کروڑ روپے منظور کیے گئے۔
ذرائع کے مطابق منصوبہ بندی کمیشن نے تقریباً 40 ارب روپے کی تقسیم کی منظوری دے دی ہے، جس سے حکومت کی مالیاتی حکمت عملی میں سیاسی ترجیحات کے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔
حکومت نے ترقیاتی پروگرام کے تحت مالی سال کی پہلی ششماہی میں صرف 148 ارب روپے خرچ کیے ہیں، جو کہ ایک ہزار 100 ارب روپے کے بجٹ کا صرف 10.45 فیصد بنتا ہے۔
یہ استعمال پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں بھی کم ہے، جب نگران حکومت کے تحت 6 ماہ میں 150 ارب روپے خرچ کیے گئے تھے، جو سالانہ بجٹ کا 16 فیصد بنتا تھا۔
نسبتاً زیادہ اخراجات کے باوجود گزشتہ مالی سال کے آخر تک پی ایس ڈی پی کا استعمال 635 ارب روپے سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا، اور اس سال بھی ترقیاتی پروگرام کے 600 ارب روپے سے تجاوز کرنے کا امکان کم نظر آ رہا ہے۔
وزارت خزانہ کے طے کردہ قواعد کے مطابق دسمبر کے آخر تک پی ایس ڈی پی کا کم از کم 35 فیصد، یعنی 385 ارب روپے خرچ ہونا چاہیے تھا، مگر اصل اخراجات اس ہدف سے کہیں کم رہے، جو حکومت کے ترقیاتی منصوبوں پر سوالات اٹھاتے ہیں۔