خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے پہلے سال کی تکمیل کے موقع پر رواں مالی سال کے ابتدائی 7 ماہ میں 460 ارب روپے سے زائد کے ریونیو شارٹ فال کے باوجود پارلیمنٹیرینز کی متنازع ترقیاتی اسکیموں کو بحال کر دیا ہے۔ یہ اسکیمیں ابتدائی ششماہی میں شروع نہیں ہو سکی تھیں، لیکن اب ان کے لیے مختص بجٹ میں نمایاں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ ایک بڑے اقدام کے تحت حکومت نے ’پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے پروگرام‘ (ایس اے پی) کے تحت ان سیاسی اسکیموں کے لیے مختص 25 ارب روپے کے بجٹ کو بڑھا کر تقریباً 50 ارب روپے کر دیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت حکومتی اراکین پارلیمنٹ کو فنڈز کی فوری تقسیم یقینی بنانے کے لیے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے اصولوں میں نرمی کی گئی ہے۔ پارلیمانی کمیٹی نے اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے گزشتہ مالی سال کے غیر استعمال شدہ 30 ارب روپے کو آگے منتقل کرنے کے مطالبے کو مسترد کر دیا۔ تاہم، حکومت نے پارلیمنٹیرینز کو خوش رکھنے کے لیے اس اقدام کو آگے بڑھایا اور فنڈز کے اجرا کا فیصلہ کیا، جو کہ گزشتہ ہفتے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں تقریباً 300 فیصد اضافے کے بعد ایک اور اہم پیش رفت ہے۔ حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ چونکہ زیادہ تر ترقیاتی اسکیمیں پاکستان پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کے ذریعے مکمل کی جاتی تھیں اور اب اس ادارے کو ختم کر دیا گیا ہے، اس لیے یہ کام پاکستان انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (پی آئی ڈی سی ایل) کو سونپا جائے گا، جو وزارت ہاؤسنگ کے تحت کام کرے گی۔ ڈپٹی وزیراعظم اسحٰق ڈار کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی کہ چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی غلام مصطفیٰ شاہ نے گزشتہ مالی سال کے فنڈز کی دوبارہ منظوری کے لیے خطوط لکھے تھے۔ گزشتہ مالی سال میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے پارلیمنٹیرینز کے ترقیاتی پروگرام کے لیے 91 ارب روپے مختص کیے تھے، جن میں سے 61 ارب روپے نگران حکومت کے آنے سے قبل جاری کیے جا چکے تھے، جبکہ مالی سال کے اختتام تک 57 ارب روپے استعمال ہو سکے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما چاہتے تھے کہ باقی 34 ارب روپے بھی اس سال کے دوران خرچ کیے جائیں، تاہم اسحٰق ڈار نے وضاحت کی کہ پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کے تحت گزشتہ سالوں کے غیر استعمال شدہ فنڈز کو دوبارہ مختص کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے اجلاس میں بتایا کہ حکومت نے پی ایس ڈی پی کے تحت مالی سال 25-2024 کے لیے ایس اے پی کے لیے 50 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ تاہم وزارت منصوبہ بندی کی ویب سائٹ پر پی ایس ڈی پی میں اس کے لیے 25 ارب روپے مختص دکھائے گئے ہیں، جس کے باعث فنڈز کی تقسیم اور منظوری کے حوالے سے ابہام پایا جاتا ہے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ایس اے پی فنڈز متعلقہ وفاقی وزارتوں، ڈویژنز اور صوبائی حکومتوں کو جاری کیے جا سکتے ہیں، اور وزارت منصوبہ بندی نے 48.37 ارب روپے جاری کرنے کی منظوری دے دی۔ اس کمیٹی میں 27 ارکان شامل تھے، جن میں 16 اراکین پارلیمنٹ، 7 وفاقی سیکریٹریز اور 4 صوبائی نمائندے شامل تھے۔ پارلیمانی اراکین میں راجا پرویز اشرف، شازیہ مری، سردار یوسف زمان، ریاض الحق، جاوید حنیف خان، خالد مگسی، اعجاز الحق اور طارق فضل چوہدری شامل تھے۔ 48 ارب 37 کروڑ روپے میں سے 28 ارب 87 کروڑ روپے پنجاب کے لیے مختص کیے گئے، سندھ کے لیے 15 ارب 25 کروڑ روپے، بلوچستان کے لیے 2 ارب 25 کروڑ روپے، خیبر پختونخوا کے لیے ایک ارب 25 کروڑ روپے اور اسلام آباد کے لیے 75 کروڑ روپے منظور کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق منصوبہ بندی کمیشن نے تقریباً 40 ارب روپے کی تقسیم کی منظوری دے دی ہے، جس سے حکومت کی مالیاتی حکمت عملی میں سیاسی ترجیحات کے اثرات واضح نظر آتے ہیں۔ حکومت نے ترقیاتی پروگرام کے تحت مالی سال کی پہلی ششماہی میں صرف 148 ارب روپے خرچ کیے ہیں، جو کہ ایک ہزار 100 ارب روپے کے بجٹ کا صرف 10.45 فیصد بنتا ہے۔ یہ استعمال پچھلے سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں بھی کم ہے، جب نگران حکومت کے تحت 6 ماہ میں 150 ارب روپے خرچ کیے گئے تھے، جو سالانہ بجٹ کا 16 فیصد بنتا تھا۔ نسبتاً زیادہ اخراجات کے باوجود گزشتہ مالی سال کے آخر تک پی ایس ڈی پی کا استعمال 635 ارب روپے سے آگے نہیں بڑھ سکا تھا، اور اس سال بھی ترقیاتی پروگرام کے 600 ارب روپے سے تجاوز کرنے کا امکان کم نظر آ رہا ہے۔ وزارت خزانہ کے طے کردہ قواعد کے مطابق دسمبر کے آخر تک پی ایس ڈی پی کا کم از کم 35 فیصد، یعنی 385 ارب روپے خرچ ہونا چاہیے تھا، مگر اصل اخراجات اس ہدف سے کہیں کم رہے، جو حکومت کے ترقیاتی منصوبوں پر سوالات اٹھاتے ہیں۔
جنوری 2025 میں ملک میں دہشت گرد حملوں میں نمایاں اضافہ، دسمبر 2024 کے مقابلے میں 42 فیصد اضافہ ریکارڈ۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (پی آئی سی ایس ایس) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، جنوری میں ملک بھر میں کم از کم 74 دہشت گرد حملے ریکارڈ کیے گئے، جن کے نتیجے میں 91 افراد جاں بحق ہوئے۔ ان میں 35 سیکیورٹی اہلکار، 20 عام شہری اور 36 دہشت گرد شامل ہیں۔ مزید برآں، ان واقعات میں 117 افراد زخمی بھی ہوئے، جن میں 53 سیکیورٹی فورسز کے اہلکار، 54 عام شہری اور 10 دہشت گرد شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق، سیکیورٹی فورسز کی انسداد دہشت گردی کارروائیوں میں جنوری کے مہینے میں کم از کم 185 دہشت گرد مارے گئے۔ 2016 کے بعد کسی بھی مہینے میں دہشت گردوں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں دسمبر 2024 میں ہوئی تھیں، جب سیکیورٹی فورسز نے 190 دہشت گردوں کو ہلاک کیا تھا۔ جنوری 2025 میں دہشت گرد حملوں اور سیکیورٹی آپریشنز کے نتیجے میں مجموعی طور پر 245 افراد مارے گئے، جن میں 185 دہشت گرد، 40 سیکیورٹی اہلکار اور 20 عام شہری شامل تھے۔ خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا، جبکہ بلوچستان دوسرے نمبر پر رہا۔ خیبرپختونخوا کے آباد اضلاع میںخوارج نے 27 حملے کیے، جن میں 19 افراد ہلاک ہوئے، ان میں 11 سیکیورٹی اہلکار، چھ عام شہری اور دو دہشت گرد شامل تھے۔ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں 19 حملے کیے گئے، جن میں 46 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 13 سیکیورٹی اہلکار، 8 عام شہری اور 25 دہشت گرد شامل تھے۔ بلوچستان میں بھی دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا، جہاں کم از کم 24 حملوں میں 26 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 11 سیکیورٹی اہلکار، 6 عام شہری اور 9 دہشت گرد شامل ہیں۔ پنجاب میں دہشت گردوں کے دو حملوں میں ایک سیکیورٹی اہلکار زخمی ہوا، جنوری کے آخری دن ڈیرہ غازی خان کے علاقے جھنگی میں پولیس چیک پوسٹ پر بڑا حملہ کیا گیا، تاہم سیکیورٹی فورسز نے بغیر کسی جانی نقصان کے حملے کو پسپا کر دیا۔ سندھ اور اسلام آباد میں بھی ایک ایک حملہ ہوا، مگر کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔ جنوری میں بلوچستان میں دو خودکش دھماکے ہوئے، جن میں سے ایک کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے جبکہ دوسرے کی ذمہ داری کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کی۔ رپورٹ میں اغوا کے واقعات میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا، جن میں دہشت گردوں نے کم از کم 37 افراد کو اغوا کیا۔ ان میں سے 22 افراد کو خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت اور ٹانک میں پانچ مختلف واقعات میں اغوا کیا گیا، جبکہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں 15 افراد کو اغوا کیا گیا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی خیبرپختونخوا میں اغوا کے واقعات میں اضافہ خطے میں بگڑتی ہوئی سیکیورٹی صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے۔ سیکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں کارروائیاں تیز کر دیں۔ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع میں 67، اس کے آباد علاقوں میں 71 اور بلوچستان میں 47 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔ دونوں صوبوں میں متعدد انسداد دہشت گردی کے چھاپے مارے گئے، کیونکہ حکام دہشت گردوں کے بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سعودی عرب میں بغیر مناسب رجسٹریشن یا قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کسی دوسرے رجسٹرڈ تجارتی نام کو استعمال کرنے پر اب 15 ہزار ریال (11 لاکھ 15 ہزار پاکستانی روپے سے زائد) تک کا جرمانہ ہوگا۔ مقدس شہروں کے نام استعمال کرنے سے قبل بھی منظوری لینا لازم قرار دیا گیا ہے۔ گلف نیوز کی رپورٹ کے مطابق سعودی وزارت تجارت نے قواعد و ضوابط کے مسودے کو حتمی شکل دینے سے قبل استالہ پلیٹ فارم پر عوامی مشاورت کے لیے شائع کیا ہے۔ 17 ستمبر 2024 کو وزرا کی کونسل کے ذریعے منظور کردہ تجارتی نام قانون کے تحت ہر تاجر کو رجسٹرڈ تجارتی نام اپنانا ضروری ہوگا۔ قانون کے تحت کسی دوسرے تاجر کا محفوظ یا رجسٹرڈ تجارتی نام استعمال کرنے پر 10 ہزار ریال (ساڑھے 7 لاکھ پاکستانی روپے سے زائد) کا جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ مزید برآں، ممنوعہ تجارتی ناموں، جیسے سیاسی، فوجی یا مذہبی ناموں کو رجسٹر کرنے یا استعمال کرنے کی کوشش کرنے والے تاجروں کو 15 ہزار ریال تک جرمانے کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس قانون میں سختی سے ممانعت کی گئی ہے کہ کوئی بھی تجارتی نام مقامی، علاقائی یا بین الاقوامی تنظیموں سے مشابہ نہ ہو، سیاسی، مذہبی یا فوجی حوالہ جات پر مشتمل نہ ہو، امن عامہ یا اخلاقیات کی خلاف ورزی نہ کرے، یا کسی معروف ٹریڈ مارک سے مشابہت نہ رکھتا ہو۔ تجارتی ناموں میں سعودی عرب، شہروں، علاقوں اور عوامی مقامات کے نام شامل کرنے کے لیے بھی مخصوص شرائط رکھی گئی ہیں، جن کے تحت سرکاری اداروں سے مشابہت رکھنے والے ناموں کی اجازت نہیں ہوگی۔ خاص طور پر مکہ یا مدینہ کے ناموں کے استعمال کے لیے مکہ شہر اور مقدس مقامات کے لیے رائل کمیشن یا مدینہ ریجن ڈیولپمنٹ اتھارٹی سے پیشگی منظوری لینا ضروری ہوگا۔ قانون میں خلاف ورزیوں کو سنگین اور غیر سنگین جرائم میں تقسیم کیا گیا ہے، جس میں غیر سنگین خلاف ورزیوں پر ایک ہزار ریال (76 ہزار پاکستانی روپے) سے 5 ہزار ریال (پونے چار لاکھ پاکستانی روپے سے زائد) کے درمیان جرمانہ ہوگا۔ ان خلاف ورزیوں میں کاروباری دستاویزات، خط و کتابت یا تشہیری مواد پر تجارتی نام ظاہر کرنے میں ناکامی، اسٹور فرنٹ یا کاروباری احاطے پر تجارتی نام ظاہر نہ کرنا، پرانے نام کو حذف کرنے کے بعد مقررہ وقت میں نیا نام رجسٹر نہ کرانا اور تجارتی نام کو گمراہ کن یا غیر قانونی طریقے سے استعمال کرنا شامل ہیں۔ وزارت تجارت نے تجارتی نام سے متعلق خدمات کے لیے فیس بھی مقرر کی ہے، جس کے مطابق عربی میں تجارتی نام حاصل کرنے کی قیمت 200 سعودی ریال (تقریباً 15 ہزار پاکستانی روپے) جبکہ انگریزی میں ایک نام مختص کرنے کی قیمت 500 سعودی ریال (38 ہزار روپے سے زائد) ہوگی۔ ریزرویشن کی مدت میں توسیع یا تجارتی نام کی ملکیت منتقل کرنے کی فیس 100 ریال (7 ہزار 600 روپے) مقرر کی گئی ہے۔ ان ضوابط کی نگرانی کے لیے ایک جائزہ کمیٹی قائم کی گئی ہے جو تجارتی نام کی خلاف ورزیوں پر نظر رکھے گی اور جرمانے عائد کرے گی، جبکہ جرم کی شدت اور کاروبار کے سائز کے مطابق جرمانے کو ایڈجسٹ کرنے کا اختیار بھی رکھے گی۔
خیبرپختونخوا کے ضلع جمرود میں انسداد پولیو مہم کے ابتدائی روز افسوسناک واقعہ پیش آیا، جب نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے پولیو ٹیم پر فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں ٹیم کی حفاظت پر مامور پولیس کانسٹیبل عبدالخالد شہید ہوگئے۔ اس حملے کے باوجود علاقے میں انسداد پولیو مہم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پولیس ترجمان ظہیر احمد نے تصدیق کی کہ فائرنگ کا واقعہ جمرود کے علاقے گھنڈی میں سخی پل کے قریب پیش آیا، جہاں پولیو ٹیم معمول کے مطابق گھر گھر جا کر بچوں کو ویکسین پلانے میں مصروف تھی۔ اس دوران موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم حملہ آوروں نے ٹیم کو نشانہ بنایا، جس سے کانسٹیبل عبدالخالد موقع پر ہی شہید ہوگئے۔ ایک اور پولیس اہلکار زرمت خان نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس واقعے کے باوجود پولیو مہم جاری رہے گی اور حکام نے سیکیورٹی انتظامات مزید سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اس جان لیوا وائرس کے مکمل خاتمے کی کوششوں کو کامیاب بنایا جا سکے۔ پاکستان میں پولیو ورکرز کو ماضی میں بھی پرتشدد حملوں کا سامنا رہا ہے، خاص طور پر خیبرپختونخوا اور بلوچستان کے مختلف علاقوں میں، جہاں عسکریت پسند گروہ پولیو ویکسین کے خلاف پروپیگنڈا کرتے آئے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صرف 2024 کے دوران انسداد پولیو مہم کے دوران 20 افراد ہلاک اور 53 زخمی ہوئے، جن میں پولیو ورکرز، ان کے محافظ پولیس اہلکار اور دیگر متعلقہ افراد شامل تھے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے واقعے پر سخت افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ’ایکس‘ پر لکھا کہ وہ انسداد پولیو مہم کے عملے پر ہونے والے اس بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے شہید کانسٹیبل عبدالخالد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ بچوں کے محفوظ مستقبل کے لیے اپنی جان قربان کرنے والے اس بہادر اہلکار کو سلام پیش کرتے ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان دو ممالک میں شامل ہے جہاں پولیو کا وائرس اب بھی موجود ہے، دوسرا ملک افغانستان ہے۔ عالمی کوششوں کے باوجود، پاکستان میں پولیو کے مکمل خاتمے میں رکاوٹیں موجود ہیں، جن میں سیکیورٹی مسائل، ویکسین کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا، اور عوام میں پائی جانے والی ہچکچاہٹ شامل ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے رواں برس کی پہلی ملک گیر انسداد پولیو مہم کا آغاز اتوار کے روز کیا، جو 3 سے 9 فروری تک جاری رہے گی۔ اس مہم کے دوران ملک بھر میں لاکھوں بچوں کو ویکسین پلائی جائے گی، جبکہ دور دراز علاقوں میں بھی پولیو ٹیموں کی رسائی ممکن بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں۔ وزیراعظم نے گزشتہ سال کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ 2023 میں ملک میں پولیو کے 77 کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ کم از کم 90 اضلاع میں وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی گئی تھی۔ 2024 میں اب تک خیبرپختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پولیو کا پہلا کیس سامنے آچکا ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ ملک میں ابھی بھی وائرس کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا۔ پاکستان میں پولیو ورکرز اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر بچوں کو اس موذی مرض سے بچانے میں مصروف ہیں۔ حالیہ واقعے نے ایک بار پھر اس خطرناک جدوجہد کو نمایاں کیا ہے، جہاں پولیو کے خلاف جنگ صرف بیماری کے خلاف نہیں بلکہ دہشت گردی، جہالت اور خوف کے خلاف بھی لڑی جا رہی ہے۔
اسلام آباد: الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے انٹرا پارٹی انتخابات سے متعلق کیس کی سماعت 11 فروری کو مقرر کردی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر، رؤف حسن، درخواست گزار اکبر ایس بابر اور دیگر کو نوٹس جاری کردیے ہیں۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب 21 جنوری کو ہونے والی آخری سماعت میں پی ٹی آئی نے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت طلب کی تھی۔ پاکستان تحریک انصاف نے 9 جون 2022 کو اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کرائے تھے، تاہم ان انتخابات کو چیلنج کیے جانے کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال تک یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت رہا۔ نومبر 2023 میں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ان انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا۔ الیکشن کمیشن نے 23 نومبر 2023 کو اپنے فیصلے میں پی ٹی آئی کو اپنے انتخابی نشان ’بلّا‘ سے محروم ہونے سے بچنے کے لیے 20 دن کے اندر نئے انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا۔ اس فیصلے کا اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب عام انتخابات میں محض دو ماہ باقی تھے اور ملک بھر میں سیاسی جماعتیں اپنی انتخابی مہم چلا رہی تھیں۔ اپنے انتخابی نشان کو محفوظ رکھنے کے لیے پی ٹی آئی نے 10 دن سے بھی کم وقت میں 2 دسمبر 2023 کو دوبارہ انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کیا، لیکن 22 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے ایک بار پھر ان انتخابات کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پی ٹی آئی کو انتخابی نشان کے بغیر الیکشن لڑنے کے لیے مجبور ہونا پڑا، جو کسی بھی بڑی سیاسی جماعت کے لیے ایک منفرد اور مشکل صورت حال تھی۔ الیکشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں مؤقف اختیار کیا کہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل انٹرا پارٹی انتخابات کرانے کے لیے وفاقی الیکشن کمشنر کا تقرر نہیں کر سکتے تھے۔ اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدواروں کو آزاد حیثیت میں عام انتخابات میں حصہ لینا پڑا، اور پارٹی کو 3 مارچ 2024 کو ایک بار پھر اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کرانے پڑے۔ الیکشن کمیشن نے ان انتخابات پر بھی اعتراضات اٹھائے اور بغیر کسی تفصیل کے یہ معاملہ دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کردیا۔ پی ٹی آئی کی جانب سے اعتراضات اٹھانے پر الیکشن کمیشن نے پارٹی کے ساتھ ایک سوالنامہ شیئر کیا، جس میں تنظیمی ڈھانچے، انٹرا پارٹی انتخابات کے طریقہ کار اور پارٹی کی قانونی حیثیت سے متعلق وضاحت طلب کی گئی تھی۔ پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے سات سوالات کے تفصیلی جوابات جمع کروائے، جن میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ ان کے تازہ ترین انٹرا پارٹی انتخابات کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا جائے۔ پی ٹی آئی کے وفاقی چیف الیکشن کمشنر رؤف حسن نے اپنے جواب میں کہا کہ پی ٹی آئی ایک فعال سیاسی جماعت ہے اور الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 202 کے تحت الیکشن کمیشن میں باقاعدہ طور پر رجسٹرڈ ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ تو الیکشن ایکٹ 2017 اور نہ ہی الیکشن رولز 2017 میں کوئی ایسی شق موجود ہے جو کسی رجسٹرڈ سیاسی جماعت کو پانچ سالہ مدت ختم ہونے پر اپنے تنظیمی ڈھانچے سے محروم کردے۔ رؤف حسن نے الیکشن کمیشن کو یاد دلایا کہ 9 جون 2022 کو پی ٹی آئی نے اپنے انٹرا پارٹی انتخابات کرائے، تاہم 23 نومبر 2023 کو الیکشن کمیشن نے ہدایت دی کہ ان انتخابات کو پی ٹی آئی کے 2019 کے آئین کے تحت منعقد کیا جانا چاہیے تھا۔ اس ہدایت کے پیش نظر پی ٹی آئی نے 31 جنوری 2024 کو اپنی جنرل باڈی کا اجلاس طلب کیا، جس میں مطلوبہ منظوری حاصل کی گئی اور اس کے بعد 3 مارچ کو انٹرا پارٹی انتخابات منعقد کرائے گئے۔ پی ٹی آئی نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے 2 مارچ 2024 کو ان اقدامات کی توثیق کی تھی اور ہدایت دی تھی کہ انتخابات پارٹی آئین کے مطابق کرائے جائیں۔ تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد 3 مارچ 2024 کو پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات منعقد ہوئے اور تمام ضروری دستاویزات الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئیں۔ پی ٹی آئی کے مطابق وہ آج بھی ایک رجسٹرڈ سیاسی جماعت ہے اور آئین کے آرٹیکل 17، الیکشن ایکٹ 2017 اور الیکشن رولز 2017 کے تحت اپنے قانونی حقوق کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف کے امیدواروں کو عام انتخابات میں آزاد حیثیت میں حصہ لینا پڑا، جبکہ پارٹی کو کئی بار انٹرا پارٹی انتخابات کرانے پڑے۔ تاہم، الیکشن کمیشن کی جانب سے بار بار اعتراضات اٹھانے کے بعد اس معاملے کو 11 فروری کو ایک مرتبہ پھر سماعت کے لیے مقرر کردیا گیا ہے۔
امریکا میں فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن (ایف بی آئی) کے ملازمین کو 6 جنوری 2021 کو کیپیٹل ہل پر ہونے والے حملے سے متعلق تحقیقات میں کردار ادا کرنے پر ایک سخت سوال نامہ بھرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس اقدام کے بعد کئی افسران نے دفاتر خالی کرنا شروع کر دیے ہیں، جس سے بیورو میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق ایف بی آئی کے ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی ملازمت کی تفصیلات اور اس ہنگامے کی تحقیقات میں اپنی شمولیت سے متعلق سوالات کے جوابات جمع کرائیں۔ اس سلسلے میں ایک میمو میں واضح طور پر ہدایت دی گئی ہے کہ ملازمین کو سہ پہر 3 بجے تک اپنی تفصیلات فراہم کرنا ہوں گی۔ ایف بی آئی کے کرمنل انویسٹی گیشن ڈویژن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر چاڈ یاربرو نے ملازمین کو بھیجے گئے ای میل میں کہا کہ وہ ان سوالات کے جوابات کے حوالے سے پیش آنے والے خدشات سے آگاہ ہیں اور ان کے جوابات کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ ایف بی آئی کے ایک ترجمان نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ تاہم، بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم محکمہ انصاف اور ایف بی آئی کے ان افسران کو نشانہ بنا رہی ہے جنہوں نے 6 جنوری کے حملے میں ملوث افراد کے خلاف قانونی کارروائی میں حصہ لیا تھا۔ مزید برآں، قائم مقام ڈپٹی اٹارنی جنرل ایمل بوو نے مطالبہ کیا ہے کہ ایف بی آئی منگل کی دوپہر تک ان تمام ملازمین کی فہرست فراہم کرے، جنہوں نے 6 جنوری کے حملے سے متعلق تحقیقات میں حصہ لیا تھا۔ ایمل بوو نے ایف بی آئی کے آٹھ سینئر عہدیداروں کو ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا، جس میں میامی اور واشنگٹن ڈی سی کے فیلڈ دفاتر کے سربراہان بھی شامل ہیں۔ یہی نہیں بلکہ گزشتہ ہفتے محکمہ انصاف کے ان درجنوں پراسیکیوٹرز کو بھی برطرف کر دیا گیا جنہوں نے ٹرمپ کے خلاف مقدمات پر کام کیا تھا۔ ان مقدمات میں 2020 کے انتخابی نتائج کو تبدیل کرنے کی کوشش اور خفیہ سرکاری دستاویزات کے غلط استعمال کے الزامات شامل تھے۔ قانونی ماہر مارک زید نے ان برطرفیوں کو غیر قانونی اور خلافِ ضابطہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے ایمل بوو کو ایک خط میں متنبہ کیا کہ اگر ایف بی آئی کے ملازمین کے نام اور دیگر معلومات عام کی گئیں، تو ان کی سلامتی کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ ایف بی آئی کے قائم مقام ڈائریکٹر برائن ڈریسکول نے ایک ای میل کے ذریعے اپنے عملے کو مطلع کیا کہ ایمل بوو کی درخواست کے تحت ملک بھر کے ہزاروں ملازمین کی جانچ پڑتال ہو رہی ہے، جنہوں نے ان تحقیقات میں معاونت کی تھی۔ ایف بی آئی ایجنٹس ایسوسی ایشن کی ای میل کے مطابق کئی ملازمین نے اپنی ڈیسک خالی کرنا شروع کر دی ہیں۔ نیو یارک فیلڈ آفس کے انچارج اسسٹنٹ ڈائریکٹر جیمز ڈینیہی نے ایک ای میل میں لکھا: "آج ہم ایک ایسی جنگ میں خود کو کھڑا دیکھ رہے ہیں، جہاں ایماندار اور محنتی افسران کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، صرف اس لیے کہ انہوں نے قانون کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کیں۔"
لاہور ایئرپورٹ پر بے گناہ خاندان کو منشیات کے الزام میں پھنسانے والے ڈرگ گینگ کے 9 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جبکہ سعودی عرب میں حراست میں لیے گئے خاندان کے 5 افراد کو رہائی مل گئی ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق وزیر داخلہ کی خصوصی ہدایت پر اینٹی نارکوٹکس فورس (اے این ایف) کی ٹیم کی محنت اور کوششوں سے یہ کامیابی حاصل ہوئی، جس کے بعد متاثرہ خاندان کے 5 افراد کو واپس پاکستان لایا گیا۔ ان افراد نے 23 دسمبر کو سعودی عرب کا سفر کیا تھا، جہاں ان کا بیگ ٹیگ تبدیل کر کے انہیں منشیات کی اسمگلنگ کے جھوٹے الزامات میں پھنسا دیا گیا تھا۔ اینٹی نارکوٹکس فورس کے ڈائریکٹر جنرل، میجر جنرل عبدالمعید کے ہمراہ وزیر داخلہ محسن نقوی نے منشیات کیس سے رہائی پانے والے خاندان کے افراد سے ملاقات کی۔ محسن نقوی نے اس موقع پر کہا کہ "اے این ایف کی ٹیم نے دن رات محنت کی اور اس انٹرنیشنل گینگ کا سراغ لگا کر ملزمان کو گرفتار کیا۔ سعودی عرب کی حکومت نے بھی اس معاملے میں بھرپور تعاون کیا جس پر میں ان کا شکر گزار ہوں۔" وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ "اے این ایف کی ٹیم نے جو محنت کی ہے، اس کے لیے ان کو خصوصی ایوارڈز دیے جائیں گے۔ انہوں نے انتہائی مشکل حالات میں کیس لڑا اور اپنی جان خطرے میں ڈالی۔ اس طرح کا کیس کوئی بھی نہیں لڑتا۔" انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ملک میں منشیات کے خاتمے کے لیے اے این ایف کو مزید وسائل فراہم کیے جانے چاہیے۔ تفصیلات کے مطابق، لاہور کے علاقے مرغزار کالونی کی رہائشی فرحانہ اکرم اپنے 4 فیملی ممبرز کے ساتھ 23 دسمبر کو سعودی عرب گئیں۔ یہاں پر ڈرگ مافیا نے ایئرپورٹ کے عملے کی ملی بھگت سے فرحانہ اکرم کے بیگ کا ٹیگ تبدیل کیا اور اس میں منشیات چھپا کر سعودی حکام کے حوالے کر دیا۔ 30 دسمبر کو سعودی عرب میں فرحانہ اکرم اور ان کے خاندان کے افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ تاہم، اے این ایف نے اپنی تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے کیمروں کا جائزہ لیا اور تمام انٹری اور ایگزٹ پوائنٹس کا تفصیل سے معائنہ کیا۔ اس دوران اے این ایف نے ایک پورٹر کو حراست میں لے کر تفتیش کی، جس سے پورے گینگ کا سراغ ملا۔ اس کے بعد اے این ایف نے انٹرنیشنل ڈرگ گینگ کے سرغنہ سمیت 9 ملزمان کو گرفتار کر لیا، اور تمام شواہد سعودی حکام کے حوالے کیے جس کی وجہ سے خاندان کی رہائی ممکن ہوئی۔
پاکستان کے قومی احتساب بیورو (نیب) نے بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض، ان کے صاحبزادے، سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، اور دیگر 30 افراد کے خلاف قومی خزانے کو 700 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچانے کے الزام میں ریفرنس دائر کردیا ہے۔ یہ ریفرنس چئیرمین نیب لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نذیر احمد کی منظوری اور دستخط کے بعد کراچی کی نیب عدالت میں جمع کروایا گیا ہے۔ عدالت نے ریفرنس کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے ملزمان کو نوٹس بھی جاری کردیے ہیں۔ نیب کے مطابق، ملزمان پر الزام ہے کہ انہوں نے غیر قانونی طریقے سے بحریہ ٹاؤن کراچی کے لیے زمین پر قبضہ کرکے قومی خزانے کو 700 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا ہے۔ ریفرنس میں شامل ملزمان میں ملک ریاض، ان کے صاحبزادے، سابق وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، اُس وقت کے وزیر بلدیات اور موجودہ وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن، اور متعدد سرکاری افسران شامل ہیں۔ بحریہ ٹاؤن کراچی کی زمین غیر قانونی طور پر حاصل کرنے کی انکوائری 2015 کے آخر میں شروع کی گئی تھی، جسے بعد میں انویسٹی گیشن میں تبدیل کردیا گیا۔ دس سال بعد، اس ریفرنس کو عدالت میں داخل کیا گیا ہے۔ اس وقت ملک ریاض نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں گواہی کے لیے بلیک میل کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب، حکومتی اداروں کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کے دبئی میں شروع ہونے والے نئے پراجیکٹ کے لیے رقم منی لانڈرنگ کے ذریعے منتقل کی گئی ہے۔ نیب کی جانب سے فائل کردہ ریفرنس میں ملک ریاض اور ان کے صاحبزادے سمیت 33 ملزمان شامل ہیں۔ ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ملزمان نے مختلف قوانین اور سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے غیر قانونی طور پر زمین بحریہ ٹاؤن کراچی کے نام منتقل کی۔ نیب کے مطابق، 2013 میں سندھ اسمبلی سے ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی ایکٹ میں ترمیم کرکے قانون منظور کروایا گیا، جس کے چھ روز بعد ہی بحریہ ٹاؤن نے ضلع ملیر میں ہاؤسنگ پراجیکٹ بنانے کا اعلان کیا۔ اسی سال نومبر میں حکومت سندھ نے ملیر کے 43 دیہات میں سروے کرنے اور رہائش کے لیے قابلِ استعمال بنانے کی غرض سے کام کا آغاز کرنے کی سمری منظور کی۔ نیب کا کہنا ہے کہ سابق وزیرِ بلدیات شرجیل انعام میمن نے سمری منظور کرنے کی غیر قانونی طور پر سفارش کی، جسے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منظور کیا۔ اس عمل کے بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے مفرور سابق ڈائریکٹر جنرل منظور قادر کی جانب سے بحریہ ٹاؤن کراچی میں بکنگ کی غیر قانونی اور خلاف ضابطہ اجازت دی گئی۔ بحریہ ٹاؤن کی اراضی سے متعلق سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے الاٹ کردہ 16 ہزار 986 ایکڑ زمین کے بجائے 19 ہزار 931 ایکڑ زمین پر تعمیرات کیں۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا تھا کہ اس معاملے میں پوری حکومتی مشینری نے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے غیرقانونی فوائد جمع کرنے میں کردار ادا کیا۔ نومبر 2023 میں سپریم کورٹ نے بحریہ ٹاؤن کو 460 ارب روپے جرمانہ ادا کرنے کا حکم دیا تھا، جو سپریم کورٹ میں جمع کرایا جانا تھا۔ تاہم، بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اس اکاؤنٹ میں محض 24 ارب 26 کروڑ روپے جمع کرائے گئے ہیں۔ بقیہ رقم جمع نہ کرانے پر بحریہ ٹاؤن سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کا بھی مرتکب ہوا ہے۔ بیرونِ ملک مقیم ملک ریاض نے حال ہی میں الزام عائد کیا تھا کہ انہیں حکومت کی جانب سے بلیک میل کیا جارہا ہے۔ 22 جنوری کو سوشل میڈیا پر جاری ایک بیان میں ملک ریاض نے نیب کی پریس ریلیز کو بلیک میلنگ قرار دیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ نیب کے پاس اس وقت بحریہ ٹاؤن کے مالک اور دیگر افراد کے خلاف دھوکہ دہی اور فراڈ کے کئی مقدمات زیر تفتیش ہیں۔ ملک ریاض نے اپنے بیان میں مزید کہا تھا کہ وہ ضبط سے کام لے رہے ہیں، لیکن ان کے دل میں ایک طوفان ہے۔ اگر یہ بند ٹوٹ گیا تو پھر سب کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔ نیب کے مطابق، ادارے کے پاس اس بات کے مضبوط شواہد موجود ہیں کہ ملک ریاض اور ان کے ساتھیوں نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر کراچی، تخت پڑی راولپنڈی، اور نیو مری میں سرکاری اور نجی اراضی پر بغیر این او سی قبضہ کیا۔ نیب نے الزام عائد کیا ہے کہ ملک ریاض نے بغیر اجازت نامے کے ہاؤسنگ سوسائٹیز قائم کرتے ہوئے لوگوں سے اربوں روپے کا فراڈ کیا ہے۔ کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملک ریاض کے خلاف ان کارروائیوں کا آغاز اس وقت کیا گیا جب سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف القادر ٹرسٹ کیس میں مبینہ طور پر ملک ریاض نے عمران خان کے خلاف گواہی دینے سے انکار کیا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس کیس کا تعلق 190 ملین پاؤنڈ کی اس رقم سے ہے جو برطانیہ نے سال 2019 میں ملک ریاض سے منی لانڈرنگ کے الزام میں برآمد کرکے پاکستان واپس بھجوائی تھی۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان اور امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مماثلتوں پر بین الاقوامی میڈیا میں کئی رپورٹس شائع ہو رہی ہیں۔ فاکس نیوز کے ایک حالیہ مضمون میں عمران خان کے سیاسی حالات کا موازنہ ڈونلڈ ٹرمپ سے کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں کو سیاسی انتقام کا سامنا ہے اور وہ خود کو نظام انصاف کا نشانہ سمجھتے ہیں۔ عمران خان کو حال ہی میں بدعنوانی کے الزامات میں پاکستانی عدالت نے قید کی سزا سنائی ہے۔ پاکستانی عدالت نے انہیں اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو 14 اور 7 سال قید کی سزا سنائی، جس کی بنیاد "القادر ٹرسٹ" اسکینڈل میں مبینہ بدعنوانی بتائی جاتی ہے۔ حکومت کے مطابق، یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مالیاتی اسکینڈل ہے، جبکہ عمران خان ان الزامات کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں۔ عمران خان کو 100 سے زائد مقدمات کا سامنا ہے، جن میں دہشت گردی، بغاوت، اور کرپشن جیسے الزامات شامل ہیں۔ پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطااللہ تارڑ نے فاکس نیوز سے بات کرتے ہوئے عمران خان پر لگنے والے الزامات کا دفاع کیا اور کہا کہ "190 ملین پاؤنڈ کا کیس پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا کرپشن اسکینڈل ہے۔ عمران خان نے سرکاری عہدے کا غلط استعمال کیا اور ایک بزنس ٹائیکون کو غیر قانونی فائدہ دیا۔" ان کے مطابق، اس اسکینڈل میں عمران خان اور ان کی اہلیہ کے خلاف ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی مختلف قانونی چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں انتخابی مداخلت اور کاروباری بدعنوانی کے الزامات شامل ہیں۔ ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ تمام الزامات سیاسی محرکات پر مبنی ہیں اور انہیں 2024 کے انتخابات سے دور رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کے خلاف مقدمات میں انتخابی دھاندلی، کاروباری ریکارڈ میں غلط بیانی اور خفیہ دستاویزات رکھنے کے الزامات شامل ہیں۔ دونوں رہنما عوام میں غیر معمولی مقبولیت رکھتے ہیں اور ان کی جماعتیں مضبوط عوامی حمایت کی حامل ہیں۔ عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ہی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ رکھتے ہیں اور اپنے خلاف قانونی کارروائیوں کو "وچ ہنٹ" (سیاسی انتقام) قرار دیتے ہیں۔ دونوں رہنماؤں نے اپنی گرفتاریوں اور قانونی کارروائیوں کو اپنی سیاسی مہم کا حصہ بنایا ہے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ دنیا کو ایسے مضبوط لیڈروں کی ضرورت ہے جو امن، جمہوریت اور انسانی حقوق کے چیمپیئن ہوں۔ ٹرمپ نے "میک امریکہ گریٹ اگین" کے نعرے سے امریکی سیاست میں تبدیلی لائی، جبکہ عمران خان نے "نیا پاکستان" کے نعرے کے تحت پاکستانی عوام کو متحرک کیا۔ عمران خان کی گرفتاری پر بین الاقوامی ردعمل ملا جلا رہا۔ کچھ مغربی ممالک نے پاکستان میں سیاسی آزادی کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے، جبکہ کچھ دیگر ممالک نے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔ عمران خان کو امریکی سیاسی حلقوں سے بھی حمایت مل رہی ہے۔ سابق امریکی سفیر رچرڈ گرنیل نے "فری عمران خان" کا نعرہ بلند کیا اور انہیں ٹرمپ جیسا لیڈر قرار دیا۔ عمران خان کے معاون خصوصی، ذوالفقار بخاری، کا کہنا ہے کہ "گرنیل کی ٹویٹ پاکستان میں بہت مقبول ہوئی، اور یہ ثابت کرتا ہے کہ عمران خان عالمی سطح پر ایک اہم شخصیت ہیں۔" 2023 میں ٹرمپ کی کامیابی کے بعد پاکستان میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ آیا امریکہ عمران خان کی رہائی کے لیے کوئی دباؤ ڈالے گا یا نہیں۔ عمران خان نے فاکس نیوز ڈیجیٹل کو بتایا کہ ان کی سیاسی جماعت "ایک جامع جماعت ہے جو پاکستان کے متنوع سماجی ڈھانچے کی نمائندگی کرتی ہے۔" انہوں نے وضاحت کی کہ اگرچہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ابتدا میں تعلیم یافتہ اشرافیہ کی جماعت سمجھا جاتا تھا، لیکن یہ تاثر "بہت جلد ختم ہو گیا۔" خان نے مزید کہا، "پی ٹی آئی ہر طبقے کے لوگوں سے ہم آہنگی رکھتی ہے – دیہی اور شہری، متوسط اور پسماندہ – اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری پالیسیاں شمولیت، میرٹ اور انصاف کو ترجیح دیتی ہیں۔" انہوں نے مزید کہا، "ہم تمام صوبوں، ذاتوں اور مذاہب کی نمائندگی کرتے ہیں، تاکہ ہر آواز پاکستان کے مستقبل کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر سکے۔ یہی جامعیت ہمیں سب سے بڑی قومی جماعت بناتی ہے، جو پاکستان کو مساوات اور انصاف کے اصولوں پر متحد کرتی ہے۔" لاہور کے ایک ویٹر زوہیر احمد نے فاکس نیوز ڈیجیٹل کو بتایا، "عمران خان تمام نسلی گروہوں اور مذہبی فرقوں کے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گئے ہیں۔ ہم نے کبھی ایسا لیڈر نہیں دیکھا جس کی جڑوں میں اتنی مضبوط عوامی حمایت ہو۔ یہی اس کی اصل خوبی ہے، اور ہمیں یقین ہے کہ وہ دوبارہ اقتدار میں آئیں گے اور ملک کو بہتر بنائیں گے۔" پاکستان کی غیر مستحکم سیاست میں، بعض تجزیہ کاروں نے مشاہدہ کیا ہے کہ "اللہ، فوج اور امریکہ" اقتدار کی کنجی ہیں۔ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے، جنوبی ایشیائی ملک میں یہ قیاس آرائیاں اور امیدیں بڑھ گئی ہیں کہ آیا وہ عمران خان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں گے۔ دونوں رہنماؤں کے درمیان دوستانہ تعلقات رہے ہیں، اور ٹرمپ نے 2020 میں ڈیووس میں ایک فورم کے دوران عمران خان کو "میرا بہت اچھا دوست" قرار دیا تھا۔ دونوں کی پہلی ملاقات جولائی 2019 میں واشنگٹن میں ہوئی تھی، جسے اس وقت پاک-امریکہ تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز سمجھا جاتا تھا۔ عمران خان نے فاکس نیوز کو بتایا کہ "پاکستان تحریک انصاف ایک ایسی جماعت ہے جو ملک کے ہر طبقے کی نمائندگی کرتی ہے۔ ہماری پالیسیوں میں شمولیت، میرٹ اور انصاف اولین ترجیحات ہیں۔" ان کے حامیوں کا ماننا ہے کہ وہ ملک کو دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان کے پاس قدرتی وسائل کی کمی نہیں، لیکن معیشت کو خود کفیل بنانے کے لیے حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ "ہمیں خیرات پر انحصار کرنے کے بجائے اپنی پیداوار اور وسائل کو عالمی مارکیٹ میں متعارف کروانے کی ضرورت ہے، تاکہ تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کیے جا سکیں۔" ان کے مطابق، "معاشی سفارت کاری میرے ایجنڈے کا بنیادی ستون ہوگی۔ زراعت، صنعتی ترقی، اور آئی ٹی کے شعبے میں بے پناہ مواقع موجود ہیں، جن سے ملک کو عالمی سطح پر ایک طاقتور معیشت بنایا جا سکتا ہے۔ عمران خان نے اپنے حامیوں اور مخالفین کو پیغام دیتے ہوئے کہا: "پاکستان کے عوام آج سے پہلے اتنے بیدار اور پُرعزم نہیں تھے۔ وہ بہت واضح طور پر دیکھ رہے ہیں کہ ان کے ملک میں کیا ہو رہا ہے اور جو طاقتیں اس میں ملوث ہیں، انہیں سمجھتے ہیں۔ مجھے پختہ یقین ہے کہ سچ اور انصاف بالآخر کامیاب ہوں گے۔ اور جب تک میری زندگی ہے، میں اس مقصد کے لیے اور ایسے پاکستان کے لیے جدوجہد کرتا رہوں گا جو اس کے عوام کی خواہشات اور امیدوں کی عکاسی کرے۔" عمران خان کی جانب سے ٹرمپ کو امریکی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد دی گئی، جس میں انہوں نے کہا کہ "عوام کی مرضی ہر سازش کے باوجود قائم رہی۔" اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دونوں رہنماؤں کے حامی ایک دوسرے کے حالات میں مماثلت دیکھ رہے ہیں۔ اب یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا عمران خان اپنی قانونی جنگ جیت کر دوبارہ اقتدار میں آ سکیں گے یا نہیں۔
دہشت گردوں اور ان کے غیر ملکی آقاؤں کے آلہ کاروں کو پوری طرح بے نقاب کیا جا چکا ہے، اور قوم کے تعاون سے پاک فوج انہیں شکست دے کر رہے گی، آرمی چیف۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف نے بلوچستان میں سیکیورٹی کی مجموعی صورتحال پر ایک جامع بریفنگ میں شرکت کی، جس میں سینئر عسکری اور انٹیلیجنس حکام بھی موجود تھے۔ اس دوران آرمی چیف کو بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائیوں کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا گیا۔ بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں ہونے والی کارروائیوں کے دوران 23 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، جب کہ سیکیورٹی فورسز کے 18 جوان شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ ان شہداء کی نماز جنازہ میں آرمی چیف جنرل عاصم منیر، گورنر اور وزیراعلیٰ بلوچستان نے شرکت کی۔ اس کے علاوہ انہوں نے سی ایم ایچ میں جا کر زخمی فوجی اہلکاروں کی عیادت بھی کی اور ان کے حوصلے اور بہادری کو سراہا۔ آرمی چیف نے دہشت گردی کے خلاف پاک فوج، سیکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس اداروں کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ جو بھی عناصر ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں، ان کا بھرپور قلع قمع کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ "جب بھی اور جہاں بھی ضرورت پڑی، دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے ہر ممکن کارروائی کی جائے گی۔" جنرل عاصم منیر نے مزید کہا کہ دہشت گردوں کو اندرونی اور بیرونی مدد حاصل ہے، اور یہ عناصر منافقت کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے درپردہ دشمنوں کے لیے کام کر رہے ہیں۔ تاہم پاک فوج اور قوم کی یکجہتی کے باعث ایسے دشمن کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ "غیر ملکی آقاؤں کے آلہ کار بن کر دہشت گردی کو ہوا دینے والے دوغلے عناصر سے آگاہ ہیں، شکار کے لیے شکاری کے ساتھ اور بچاؤ کے لیے شکار کے ساتھ چلنے والے ہمارے لیے کوئی اجنبی نہیں، نام نہاد دوست نما دشمن کچھ بھی کرلیں، انہیں پاک فوج کے سامنے شکست ہوگی۔" صدر مملکت آصف علی زرداری اور وزیراعظم شہباز شریف نے بھی اس دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ بلوچستان کے ضلع قلات میں یکم فروری کی رات سیکیورٹی فورسز نے ایک بڑا آپریشن کیا، جس میں دہشت گردوں نے سڑک بلاک کرنے کی کوشش کی۔ اس صورتحال پر فوری ردعمل دیتے ہوئے سیکیورٹی فورسز نے آپریشن کا آغاز کیا اور 12 دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔ تاہم اس دوران 18 فوجی جوان جام شہادت نوش کر گئے۔ اس کے بعد سیکیورٹی فورسز نے ہرنائی میں ایک اور کلیئرنس آپریشن کیا، جس میں مزید 11 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا۔
صادق آباد میں گاڑیوں، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کے ٹائر پنکچر کرنے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ڈپٹی کمشنر خرم پرویز نے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق، ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر (اے سی) راشد اقبال میواتی کی نگرانی میں میونسپل کمیٹی (ایم سی) کے چار ملازمین مختلف سڑکوں پر کھڑی گاڑیوں کے ٹائر پنکچر کر رہے ہیں، حالانکہ ڈرائیور ان میں موجود تھے۔ ویڈیو میں اے سی کو سرکاری گاڑی سے اتر کر ملازمین کو ہدایات دیتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ملازمین نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے بوڈکنز کا استعمال کر کے گاڑیوں، موٹر سائیکلوں اور رکشوں کے ٹائر پنکچر کیے، جس پر شہریوں نے شدید احتجاج کیا اور ضلعی انتظامیہ سے سوال کیا کہ تجاوزات کے خلاف آپریشن کی آڑ میں نجی املاک کو نقصان پہنچانے کا کیا جواز ہے؟ مرکزی انجمن تاجران کے جنرل سیکرٹری میاں احسان الحق اسد نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ انتظامیہ نے نہ صرف شہریوں کی بے عزتی کی بلکہ انہیں مالی نقصان اور ذہنی اذیت بھی دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انجمن تاجران قانونی کارروائی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ اس معاملے پر ڈپٹی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز کی جانب سے جاری کردہ ہینڈ آؤٹ کے مطابق، ڈی سی خرم پرویز نے ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل (اے ڈی سی جی) عرفان انور کو انکوائری افسر مقرر کیا ہے۔ اے ڈی سی جی نے ابتدائی کارروائی میں ایم سی کے ایک ملازم کو معطل کرتے ہوئے تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے اور افسران کے غیر ذمہ دارانہ رویے پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ انکوائری مکمل ہونے کے بعد متاثرہ گاڑیوں کے مالکان کو معاوضہ فراہم کیا جائے گا۔ تاہم، شہریوں نے اے سی راشد اقبال میواتی اور بعض دیگر ملازمین کے خلاف کارروائی نہ ہونے پر ضلعی انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
گھوٹکی کے کچے کے علاقے میں سندھ رینجرز اور پولیس نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے ڈاکوؤں کی جانب سے مال بردار کنٹینر اور اس کے عملے کو اغوا کرنے کی کوشش ناکام بنا دی۔ کارروائی کے دوران فائرنگ کا تبادلہ ہوا، جس میں کنٹینر کا ڈرائیور زخمی ہوگیا، جبکہ ڈاکو موقع سے فرار ہوگئے۔ ڈان نیوز کے مطابق، سندھ کے اندرون علاقوں میں کچے کے خطرناک جرائم پیشہ عناصر کے خلاف رینجرز اور پولیس کی کارروائیاں جاری ہیں۔ گھوٹکی میں ایم فائیو موٹر وے پر رونتی نیک موڑ کے قریب بچو بند کے راستے سے ڈاکوؤں نے ایک مال بردار کنٹینر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ پاکستان رینجرز سندھ کو خفیہ ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ 7 سے 8 مسلح ملزمان ایک بڑی واردات کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ جیسے ہی ڈاکوؤں نے کنٹینر کو روکا اور عملے کو اغوا کرنے کی کوشش کی، رینجرز اور پولیس کی پٹرولنگ ٹیمیں فوری طور پر موقع پر پہنچ گئیں۔ ڈاکوؤں نے سیکیورٹی فورسز کو دیکھتے ہی فائرنگ شروع کر دی، جس کے نتیجے میں کنٹینر کا ڈرائیور معمولی زخمی ہوا۔ تاہم، رینجرز اور پولیس کی جوابی کارروائی کے باعث مسلح ملزمان کنٹینر اور عملے کو چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہوگئے۔ سندھ رینجرز کے ترجمان نے بتایا کہ زخمی ڈرائیور اور دیگر عملے کو ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے بعد قریبی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ علاقے میں چھپے جرائم پیشہ افراد اور انہیں پناہ دینے والے بااثر عناصر کی نشاندہی کریں تاکہ قانون کی گرفت سے بچنے والے ملزمان کو گرفتار کیا جا سکے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ سندھ رینجرز اور پولیس کی مشترکہ ٹیمیں کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن جاری رکھیں گی تاکہ شاہراہوں پر مسافروں اور تجارتی قافلوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔
حکومت نے رئیل اسٹیٹ اور ہاؤسنگ سیکٹر کے لیے مراعاتی پیکیج تیار کر لیا ہے، جس کے تحت پہلی مرتبہ گھر خریدنے والوں کو مکمل ٹیکس چھوٹ دینے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ وزارت ہاؤسنگ کی 11 رکنی ٹاسک فورس نے 40 سے زائد سفارشات مرتب کر کے وزیراعظم شہباز شریف کو پیش کر دی ہیں۔ ان سفارشات میں رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر عائد ٹیکسوں پر نظر ثانی اور اس کی بحالی کے لیے مختلف اقدامات شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے ان سفارشات پر غور کے لیے 3 فروری کو ایک اہم اجلاس طلب کر لیا ہے، جس میں مجوزہ پالیسیز پر فیصلے کیے جائیں گے۔ حکومت کی جانب سے پیش کیے گئے پیکیج میں پہلی بار گھر خریدنے والوں کے لیے ٹیکس کی مکمل چھوٹ، رہائشی گھروں کے لیے تین منزلہ تعمیرات کی اجازت، پراپرٹی خرید و فروخت پر عائد وفاقی و صوبائی ٹیکسز پر نظرثانی، پراپرٹی فروخت کرنے پر ٹیکس 4 فیصد سے کم کر کے 2 فیصد کرنے اور خریدار پر عائد ٹیکس 4 فیصد سے کم کر کے 0.5 فیصد کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ پراپرٹی ٹرانزیکشنز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ختم کرنے، کم آمدنی والے افراد کے لیے ہاؤسنگ سبسڈی دینے اور ہاؤسنگ اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر ٹیکسز کو 14 فیصد سے کم کر کے 4 سے 4.5 فیصد تک لانے کی سفارش کی گئی ہے۔ پلان کے تحت رئیل اسٹیٹ ریگولیٹری اتھارٹی کو وزارت داخلہ سے نکال کر وزارت ہاؤسنگ کے تحت کرنے کی سفارش کی گئی ہے تاکہ شعبے کی نگرانی اور ترقی کے لیے مؤثر اقدامات کیے جا سکیں۔ حکومت نے گھروں کے لیے آسان قرضہ اسکیم کو بحال کرنے کی سفارش کی ہے، جس کے تحت 5 سے 20 سال کی مدت کے لیے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دینے کے اقدامات بھی شامل کیے گئے ہیں تاکہ ہاؤسنگ منصوبوں کی رفتار تیز کی جا سکے۔ حکومت نے ہاؤسنگ کے لیے قابل ٹیکس آمدن کی حد 5 کروڑ تک مقرر کرنے کی تجویز بھی پیش کی ہے، جس سے رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کے امکانات مزید بڑھیں گے۔ یہ پیکیج ملک میں ہاؤسنگ بحران کے خاتمے اور عام شہریوں کو اپنے گھر کی ملکیت حاصل کرنے میں مدد دینے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم سرکل پشاور نے کارروائی کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) سے بنائی گئی تصاویر شیئر کرنے والے ملزم کو گرفتار کر لیا۔ ایف آئی اے حکام کے مطابق، ملزم کو ضلع مردان کی تحصیل تخت بھائی سے گرفتار کیا گیا۔ تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ملزم سوشل میڈیا پر سیاسی شخصیات کے خلاف اے آئی سے تخلیق شدہ تصاویر اور مواد شیئر کر رہا تھا۔ حکام کے مطابق، ملزم کے خلاف سائبر کرائم قوانین کے تحت کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے اور مزید تفتیش جاری ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے شہید صحافی ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواست پر سماعت کی کازلسٹ منسوخ کردی ہے۔ ڈان نیوز کے مطابق، اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سینئر صحافی حامد میر کی درخواست پر 4 فروری کو سماعت کرنا تھی، لیکن رجسٹرار آفس نے درخواست کی کازلسٹ منسوخ کرکے کیس نو اسکوپ میں ڈال دیا۔ اس سے قبل بھی 7 نومبر 2024 کی سماعت کازلسٹ سے منسوخ کرکے کیس نو سکوپ لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے 27 اگست کو جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ اِسی نوعیت کی ایک اور درخواست دائر ہونے پر دونوں کیسز کو یکجا کر کے دوبارہ سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔ 24 اکتوبر کو معروف صحافی اور سینیئر اینکر پرسن ارشد شریف کے اہل خانہ نے تصدیق کی تھی کہ ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر قتل کردیا گیا ہے۔ ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ ’آج میں نے اپنا دوست، شوہر اور پسندیدہ صحافی کھو دیا، پولیس نے بتایا تھا کہ ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا ہے‘۔ وزیراعظم شہباز شریف نے کینیا کے صدر ولیم روٹو کو ٹیلی فون کرکے معروف صحافی ارشد شریف کے قتل کی غیرجانب دارانہ اور شفاف تحقیقات پر زور دیا تھا۔ وزارت خارجہ کی جانب سے ارشد شریف کی ناگہانی موت پر گہرے رنج اور سوگوار خاندان سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ کینیا میں پاکستانی حکام نے ارشد شریف کی میت کی شناخت کرلی ہے۔ 27 اکتوبر کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم احمد انجم نے غیرمتوقع ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد شریف کی وفات کے حوالے سے بڑے واقعات کے حقائق تک پہنچنا بہت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے اگست میں ایک خط جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ کالعدم ٹی ٹی پی سے الگ ہونے والا گروپ ارشد شریف کو نشانہ بنانا چاہتا ہے، ارشد شریف کو کسی نے دبئی جانے پر مجبور نہیں کیا تھا۔ 30 مئی کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے صحافی حامد میر کی جانب سے ارشد شریف کے قتل کی جوڈیشل کمیشن سے تحقیقات کرانے کی درخواست پر اٹارنی جنرل سے معاونت طلب کی تھی۔ اب کیس کی سماعت کی کازلسٹ منسوخ ہونے کے بعد اس معاملے کی سماعت کب ہوگی، اس بارے میں کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی ہے۔
کراچی کے محمد شاہ قبرستان میں قبریں بلیک میں فروخت کرنے والے دو گورکن کو گرفتار کر لیا گیا۔ بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جانب سے گورکن مافیا کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں، جن کے تحت ضلع وسطی کے مختلف قبرستانوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ آج نیوز کے مطابق میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کی ہدایت پر بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمہ قبرستان نے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ مل کر کارروائی کی۔ چھاپے کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ محمد شاہ قبرستان میں قبروں کی سرکاری قیمت سے زائد رقم وصول کی جا رہی تھی، جس پر فوری کارروائی کرتے ہوئے دو گورکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ میئر کراچی نے شہریوں سے اپیل کی ہے کہ تدفین کے لیے 14,300 روپے کا مقررہ نرخ ادا کریں اور اگر کسی بھی قبرستان میں زائد رقم طلب کی جائے تو فوری طور پر شکایت 1339 پر درج کرائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اقدام کا مقصد شہریوں کو سہولت فراہم کرنا اور قبرستانوں میں ہونے والی بدعنوانی کا خاتمہ کرنا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل حسن قبرستان میں بھی زائد قیمت وصول کرنے پر دو گورکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
سندھ کے وزیر برائے کھیل سردار محمد بخش مہر نے واضح اعلان کیا ہے کہ اگر سندھ کے کرکٹرز کو میرٹ کی بنیاد پر ان کا حق نہ ملا تو صوبہ اپنا الگ کرکٹ بورڈ بنانے پر مجبور ہوگا۔ یہ اعلان انہوں نے سندھ حکومت کی جانب سے منعقدہ صوبائی یوتھ کانفرنس کے افتتاح کے موقع پر کیا۔ اس موقع پر وزیر کھیل نے سندھ کے نوجوان کھلاڑیوں کے مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کرکٹ صرف پنجاب اور خیبرپختونخوا تک محدود نہیں، بلکہ سندھ میں بھی ٹیلنٹ موجود ہے، جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ سردار محمد بخش مہر کا کہنا تھا کہ سندھ کے کھلاڑیوں کے ساتھ مسلسل امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔ قومی ٹیم میں منتخب ہونے والے سندھ کے کرکٹرز کو زیادہ تر مواقع نہیں دیے جاتے اور وہ ڈگ آؤٹ میں بیٹھے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ انہوں نے کرکٹ کے نظام میں بہتری اور سندھ کے کھلاڑیوں کو مناسب مواقع فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیر کھیل سندھ نے چیمپئنز ٹرافی 2025 کے حوالے سے بھی اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ سندھ حکومت اس ایونٹ کا شایان شان استقبال کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ امید ہے قومی ٹیم اپنے اعزاز کا بھرپور دفاع کرے گی اور شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی۔ وزیر کھیل نے مزید اعلان کیا کہ صوبائی یوتھ کانفرنس کو ضلعی سطح تک توسیع دی جائے گی تاکہ نوجوانوں کو زیادہ مواقع فراہم کیے جا سکیں اور ان کے مسائل براہ راست سنے جا سکیں۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے کہا ہے کہ اب تک بانی پی ٹی آئی کے لیے امریکہ سے کوئی فون کال موصول نہیں ہوئی، مذاکرات کے حوالے سے بھی وہی بہتر بتا سکتے ہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے محسن نقوی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے پہلے بھی ایسی ہی تاریخیں مقرر کی تھیں، لیکن سوشل میڈیا پر چلنے والی خبریں حقائق پر مبنی نہیں ہوتیں۔ انہوں نے پی ٹی آئی سے درخواست کی کہ 8 فروری کو جلسہ نہ کرے۔ محسن نقوی نے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات ہیں اور جلد اس کے مثبت نتائج نظر آئیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ امریکہ میں کئی کانگریس اراکین سے ملاقاتیں ہوئیں، جو دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ نادرا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے وزیر داخلہ نے اعلان کیا کہ نادرا کے ساتھ مل کر ملک بھر میں پاسپورٹ کے نئے کاؤنٹرز بنائے جا رہے ہیں تاکہ عوام کو طویل قطاروں سے نجات ملے۔ ان کا کہنا تھا کہ 14 شہروں میں یہ کاؤنٹرز قائم کیے جا رہے ہیں، جس سے عوام کو سہولت میسر آئے گی۔ مزید برآں، انہوں نے بتایا کہ پاسپورٹ کے مسائل حل کرنے کے لیے پاسپورٹ اتھارٹی قائم کی جا رہی ہے اور کچھ اصلاحات کے اثرات عوام کو نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ ایف آئی اے میں بھی جلد بڑی اصلاحات متعارف کرائی جائیں گی، تاکہ عوام کو بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ محسن نقوی کے ٹھینگا دکھانے پر عون علی کھوسہ نے سوال کیا کہ ٹھینگا دکھانے والے کارکردگی کب دکھائیں گے؟
امریکی محکمہ انصاف نے نیدرلینڈ پولیس کے تعاون سے پاکستان میں موجود ایک آن لائن نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 39 ویب سائٹس اور ان کے سرورز کو ضبط کر لیا ہے۔ یہ نیٹ ورک ہیکنگ اور آن لائن فراڈ میں معاون ٹولز کی فروخت میں ملوث تھا اور اسے ایک گروہ چلا رہا تھا جس کا سربراہ صائم رضا عرف "ہارٹ سینڈر" بتایا جا رہا ہے۔ محکمہ انصاف کے مطابق، صائم رضا 2020 سے ان سائبر کرائم ویب سائٹس کے ذریعے فشنگ ٹول کٹس اور دیگر دھوکہ دہی میں مدد دینے والے سافٹ ویئرز بین الاقوامی جرائم پیشہ گروہوں کو فروخت کر رہا تھا۔ ان گروہوں نے ان ٹولز کا استعمال کرکے امریکا میں متعدد افراد کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں 30 لاکھ ڈالر سے زائد کا مالی نقصان ہوا۔ صائم رضا کے زیر انتظام ویب سائٹس آن لائن مارکیٹ پلیس کے طور پر کام کر رہی تھیں جہاں فشنگ کٹس، اسکام پیجز، اور ای میل ایکسٹریکٹرز جیسے ٹولز فروخت کیے جا رہے تھے۔ ان ویب سائٹس پر نہ صرف یہ ٹولز آسانی سے دستیاب تھے بلکہ صارفین کو ان کے استعمال کی تربیت بھی فراہم کی جاتی تھی۔ ویب سائٹس پر یوٹیوب ویڈیوز کے لنکس دیے گئے تھے جن میں سکھایا گیا تھا کہ ان ٹولز کو کس طرح جعلسازی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، جس سے تکنیکی مہارت نہ رکھنے والے مجرم بھی آسانی سے سائبر کرائم میں ملوث ہو سکتے تھے۔ محکمہ انصاف کی رپورٹ کے مطابق، یہ ٹولز کاروباری ای میل کمپرمائز (BEC) اسکیمز میں استعمال ہوتے تھے، جہاں مجرم متاثرہ کمپنیوں کو کسی جعلی اکاؤنٹ میں رقم منتقل کرنے پر مجبور کرتے تھے۔ اس کے علاوہ، صارفین کے لاگ اِن کریڈینشلز چرا کر مزید فراڈ کیے جاتے تھے۔ ایف بی آئی ہیوسٹن فیلڈ آفس اس کیس کی تحقیقات کر رہا ہے، جبکہ امریکی محکمہ انصاف نے نیدرلینڈز کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی معاونت کو سراہا ہے۔ محکمہ انصاف کے کرمنل ڈویژن، سدرن ڈسٹرکٹ آف ٹیکساس کے اٹارنی، اور ایف بی آئی حکام کے مطابق، ان ویب سائٹس کی بندش کا مقصد سائبر مجرموں کی سرگرمیوں میں خلل ڈالنا اور سائبر کرائم کے لیے ان ٹولز کے پھیلاؤ کو روکنا ہے۔
راولپنڈی: 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس سے متعلق تصاویر اور پہنچنے والے نقصان کے تخمینے کی رپورٹ عدالت میں پیش کر دی گئی۔ نو مئی جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت کے جج امجد علی شاہ نے کی، جس دوران بانی پی ٹی آئی عمران خان کو کمرہ عدالت میں پیش کیا گیا۔ اس کیس میں مزید دو گواہان کے بیانات قلم بند کیے گئے، جن میں کانسٹیبل عمران اور ایس ڈی او اویس شاہ شامل ہیں۔ گواہ کانسٹبل عمران نے جی ایچ کیو حملہ کیس کی تصاویر عدالت میں پیش کیں، جبکہ گواہ اویس شاہ کی جانب سے جی ایچ کیو گیٹ پر توڑ پھوڑ کا تخمینہ رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ جی ایچ کیو گیٹ پر توڑ پھوڑ سے 7 لاکھ 80 ہزار روپے کا نقصان ہوا۔ جی ایچ کیو حملہ کیس کے شواہد پر مشتمل 13 یو ایس بیز بھی عدالت میں جمع کروائی گئیں، اور عدالت نے کہا کہ وکلا صفائی یو ایس بی کی کاپیاں حاصل کر سکتے ہیں۔ عدالت نے اضافی رپورٹس ملزمان کو نہ دینے پر ایس ایس پی آپریشنز کو طلب کیا۔ یہ رپورٹس ایف آئی اے، پیمرا، انٹرنل سکیورٹی اور پی آئی ڈی کی ہیں۔ ایس ایس پی آپریشنز سماعت کے دوران عدالت نہ پہنچ سکے، جس پر عدالت نے پولیس کو آئندہ سماعت سے پہلے اضافی رپورٹس وکلا صفائی کو دینے کی ہدایت کی۔ ساتھ ہی بشریٰ بی بی کی 26 نومبر کے 31 مقدمات میں عبوری ضمانت میں 8 فروری تک توسیع کر دی۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے 9 مئی جی ایچ کیو حملہ کیس 6 فروری تک ملتوی کر دیا، جبکہ جج امجد علی شاہ نے 8 فروری سے قبل بشریٰ بی بی کو 31 مقدمات میں شامل تفتیش کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ 8 فروری کو بشریٰ بی بی کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے۔

Back
Top