خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
سینئر صحافی و اینکر کامران خان نے کہا ہے کہ ملک ایک ناکام ریاست کی طرف بڑھ رہا ہے، اہم فیصلوں میں تاخیر تباہی لاسکتی ہے۔ اپنے تازہ ترین وی لاگ میں کامران خان کا کہنا تھا کہ ملک کو ناکام ریاست قرار دینے کیلئے باقاعدہ کوئی سرکاری اعلان نہیں ہوگا، تاہم حالات اور واقعات اس کی گواہی دے رہے ہیں کہ ملک اس جانب بڑھ رہا ہے، اسی پس منظر میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس جمعہ کے روز ہوا، کل یہ اجلاس دوبارہ ہوگا، کل کا اجلاس فیصلوں کی بیٹھک ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اجلاس ایسے وقت میں ہورہا ہے جب پاکستان ایک ناکام ریاست کی چلتی پھرتی تصویر بن چکا ہے،اس اجلاس سے قبل آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی سربراہی میں کور کمانڈر کانفرنس ہوئی، اس کانفرنس میں تباہ کن ملکی معیشت کا ملکی سلامتی و دفاع پر خطرناک اثرات پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا، اس کانفرنس میں ملک پر تازہ دم دہشت گردی کی یلغار کی بھی تصدیق کی گئی جس سے نمٹنے کیلئے ایک رد الفساد یا ضرب عضب جیسے فوجی آپریشن کی ضرورت ہے۔ کامران خان نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ افسوس آج پاکستان میں کسی قسم کا سیاسی اتحاد ملکی سلامتی کی خاطر بھی ناممکن نظر آرہا ہے، ملک ڈوبتا ہے تو ڈوبے،ملک دیوالیہ ہوتا ہے تو ہوجائے،اسی لیے میں پاکستان کو ایک ناکام ریاست کی دلخراش تصویر قرار دے رہا ہوں۔ انہوں نے عسکری قیادت سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ فوج کے علاوہ کسی کی سکت نہیں کہ سیاسی قوتوں کو مجبو رکرے چاہے انہیں ایک کمرے میں محصور ہی کیوں نا کرنا پڑے،اورمسائل کے حل کا فارمولا تجویز دیں، دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے نیا ایکشن پلان بنے،اہم فیصلوں میں ایک دن کی تاخیر نہیں ہونی چاہیے ورنہ تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا۔
پنجاب کے شہر راولپنڈی سے اعلی سرکاری افسر کا روپ دھار کر عوام کو لوٹنے والا جعل ساز گرفتار کرلیا گیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق راولپنڈی پولیس نے عامر نامی شہری کی درخواست پر چوہدری شہباز نامی کو گرفتار کیا، ملزم وزیراعلی پنجاب کا پرنسپل سیکرٹری اور پروٹوکول آفیسر بن کر عوام کو نوکری دلوانے اور سرکاری محکموں میں پھنسے کام نکلوانے کیلئے ہزاروں روپے اینٹھتا تھا۔ درخواست گزار عامر کے مطابق ملزم نے اسے ریلوے میں نائب قاصد کی نوکری دلوانے کیلئے 50 ہزار روپے لیے اور کچھ دن بعد باقاعدہ اپوائنٹمنٹ لیٹر بھی دیا، جب درخواست گزار متعلقہ دفتر پہنچا تو معلوم ہوا کہ لیٹر جعلی ہے۔ پولیس نے عامر کی درخواست پر مقدمہ درج کرکے ملزم کو گرفتار کیا تو اس کے قبضے سے ایک جعلی کارڈ برآمد ہوا جس پر وزیراعلی پنجاب سیکریٹریٹ ، ملزم کا نام، تصویر اور وزیراعلی پنجاب کا پرنسپل سیکرٹری درج تھا، ملزم کے قبضے سے جعلی اپوائنٹمنٹ لیٹرز اور دیگر شواہد بھی برآمد ہوئے۔ ملزم کی گرفتاری کے بعد کیس سے متعلق میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے ایس ایچ او کینٹ سردار محمد عاصم نے کہا کہ ملزم جعلی فون کالز کے ذریعے اعلی سرکاری افسران سے بات چیت کرکے سادہ لوح عوام کو اپنے چنگل میں پھنساتا اور نوکری دلانے یا سرکاری محکموں میں پھنسے کام نکلوانے کیلئے پیسے وصول کرتا تھا اور پھر ان کا نمبر بلاک کردیتا، ملزم اب تک1900 کے قریب لوگوں کو اپنی جعل سازی کا نشانہ بناچکا تھا۔
گزشتہ شب اختتام پزیر ہونے والا سال 2022 پاکستان کیلئے سیاسی و معاشی لحاظ سے بدترین ثابت ہوا اور اس وقت ملک مالی طور پر دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔ تفصیلات کے مطابق کورونا وائرس کے اثرات سے سنبھلتی معیشت کو سال میں پہلا بڑا دھچکا بدترین سیلاب سے لگا ، تاریخی سیلاب نے پاکستان کو 30 ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا جس میں 15 ارب ڈالر کا نقصان صرف زرعی شعبے کو ہوا، سیلاب سے لڑکھڑاتی معیشت کو سیاسی بحرانوں نے آلیا اور ایک منتخب حکومت کو مبینہ طور پر "رجیم چینج " کے ذریعے گھر بھیج کر ملک کی تمام سیاسی جماعتیں اقتدار میں آگئیں۔ بین الاقوامی اور اندرونی وجوہات کی وجہ سے تنزلی کاشکار معیشت دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑی نا ہوسکی، روپے کے مقابلے میں ڈالر نے ایسی اونچی اڑان بھری کہ کسی کی پکڑ میں نا آیا، مہنگائی کی شرح23اعشاریہ 8 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، اور زرمبادلہ کے ذخائر 8 سال کی کم ترین سطح 11اعشاریہ496ارب ڈالر پر آگئے۔ ملک میں اس سال کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 51اعشاریہ 4 فیصد کمی دیکھی گئی، اسٹیٹ بینک نے طلب کم کرنے اور افراط زر پر قابو پانے کیلئے شرح سود میں اضافہ کردیا جو اس وقت 16 فیصد ہے۔ حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ملکی امپورٹس میں 16اعشاریہ2 فیصد کمی آئی اوراس سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی 57 فیصد تک کم ہوگیا مگر دوسری جانب خام مال، اسپیئر پارٹس،مشینری اور دیگر سازوسامان کی قلت کے باعث ملک میں پیداور پر منفی اثرات مرتب ہوئے، ادویات کی قلت اور مختلف شعبوں میں پروڈکشن پلانٹس کی بندش دیکھنے کو ملی۔
بلوچستان میں سول سیکرٹریٹ میں درجہ سوئم اور چہارم کی نوکریاں 15 سے 40 لاکھ روپے میں فروخت ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ٹوئٹر پر سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے اپنی ہی پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ آج بلوچستان کے سول سیکرٹریٹ میں نائب قاصد اور ڈرائیورز کے عہدے کے لیے 15 لاکھ اور اسٹینوگرافر کی پوسٹ کے لیے 40 لاکھ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ جام کمال خان نے کہا کہ جو لوگ ایس اینڈ جی اے ڈی چلا رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کیا ہو رہا ہے، ان عہدوں پر تعینات ہونے والے لوگ سرمایہ کار ہوں گے نہ کہ ملازم۔ سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ایک غریب آدمی نے کسی سے کہا ہے کہ وہ اسے ڈرائیور کی نوکری دلوائے کہ وہ قرض لے گا اور ادائیگی کرے گا، باقی اس کی تنخواہوں سے وصول کیا جائے، ان کی تنخواہ میں سے صرف 10 ہزار روپے انہیں دیے جائیں تاکہ وہ اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکے،آج اس ماحول اور حال کے کچھ لوگ ذمہ دار ہیں اور ان سب کو پتا بھی ہے۔
1944ء میں اسلم اور فضل محمود نامی اشخاص نے فیصل آباد میں 19 کنال زمین دھنا سنگھ نامی فرد کو فروخت کی تھی جو قیام پاکستان کے بعد بھارت منتقل ہو گیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق زمین سے متعلقہ پاکستان کے قیام سے پہلے کے 78 سالہ پرانے تنازعے کی سماعت آج لاہور ہائیکورٹ میں جسٹس محمد اقبال اور مزمل اختر شبیر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کی ہے۔ عدالتی سماعت کے بعد کیس کے حوالے سے 14 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا گیا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے سول کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ درخواست کے مطابق 1944ء میں اسلم اور فضل محمود نامی اشخاص نے فیصل آباد میں 19 کنال زمین دھنا سنگھ نامی فرد کو فروخت کی تھی جو قیام پاکستان کے بعد بھارت منتقل ہو گیا تھا۔ 1951ء میں فضل محمود کے بیٹے خالد محمود نے زمین کی فروخت پر سول کورٹ میں اپنے والد اور دھنا سنگھ پر دعویٰ دائر کیا تھا جس نے دھنا سنگھ کی غیرحاضری پر زمین کا فیصلہ 1952ء میں خالد محمود کے حق میں دیا تھا۔ خالد محمود کے نام زمین منتقل کے فیصلے کو منسوخ کرنے کیلئے زمین کی فروخت میں شامل دوسرے شخص اسلم کے بیٹے نجیب نے 1962ء میں درخواست دی جسے منظور کر لیا گیا تھا اور خالد محمود نے فیصلے کے خلاف اپیل کی جو مسترد کر دی گئی اور نجیب کے ورثاء نے 2018ء میں سول عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کے لیے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دی تھی۔ لاہور ہائیکورٹ نے 14 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلے میں قرار دیا ہے کہ قیام پاکستان سے بعد بھارت منتقل ہونے والے غیرمسلموں کی زمین سنٹرل گورنمنٹ آف پاکستان کی ملکیت تھیں اور خالد محمود نے 1951ء میں بدنیتی پر مبنی دعویٰ سول کورٹ میں سنٹرل گورنمنٹ کو فریق بنائے بغیر دائر کیا تھا۔ زمین وقف املاک بورڈ پاکستان کی ملکیت تھی، سول کورٹ کا آرڈر غیرقانونی تھا اس لیے دونوں درخواست گزاروں کا زمین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) لاہور اور چیف سیٹلمنٹ کمشنر کو معاملے کو دیکھنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے ضروری کارروائی کی جائے جبکہ 2 رکنی بنچ کی طرف سے لاہور ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرنے پر مرحوم نجیب اسلم کے وارثان پر 2 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کر دیا گیاہے۔
ایک مین ہول پر 1لاکھ 15سو روپے کا خرچ دکھایا گیا ہے، اتنی تعداد میں مین ہولز بنانے کی کیا ضرورت پڑی؟: اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی تفصیلات کے مطابق سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ورہنما پاکستان تحریک انصاف حلیم عادل شیخ نے سندھ ہائوس اسلام آباد میں کرپشن کے حوالے سے آڈٹ رپورٹ کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر شیئر کر دیا ہے۔ ٹویٹر پر حلیم عادل شیخ نے رپورٹ شیئر کرتے ہوئے اپنے پیغام میں لکھا کہ: بدنام زمانہ سندھ ہائوس اسلام آباد کرپشن ہائوس میں تبدیل ہوچکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کی عوام کا لوٹا ہوا پیسہ چھپانے کیلئے سندھ ہائوس اسلام آباد میں 40 لاکھ 50 ہزار روپے سے بڑی تعداد میں مین ہولز بنائے گئے۔ ایک مین ہول پر 1لاکھ 15سو روپے کا خرچ دکھایا گیا ہے، اتنی تعداد میں مین ہولز بنانے کی کیا ضرورت پڑی؟۔ ایک اور ٹویٹر پیغام میں حلیم عادل شیخ نے اپنے پیغام میں لکھا کہ: سندھ ہائوس اسلام آباد کی اوریجنل ڈیزائن اور بناوٹ کے مطابق اس میں ڈرینج کا مسئلہ تو نہیں ہو سکتا اور نہ ہی اصل نقشے میں کہیں مین ہولز کا نشان موجود ہے۔ اپوزیشن لیڈر سندھ اسمبلی نے مزید کہا کہ کیا سندھ کا پیسہ ان مین ہولز میں چھپایا گیا؟ یا لوٹوں کو چھپانے کیلئے مین ہولز بنائے گئے؟ سپیشل آڈٹ رپورٹ کے مطابق سندھ ہائوس اسلام آباد میں سال 2016-17ء سے 2018-19ء کے دوران 40 لاکھ 50 ہزار روپے بڑی تعداد میں مین ہولز بنانے پر خرچ کیے گئے ہیں جس کی ادائیگی النور کنسٹرکشن کمپنی نامی کمپنی کو کی گئی تھی۔معاملہ کو 31 اگست 2020 کو مینجمنٹ کے سامنے اٹھایا گیا تھا اور 29 ستمبر 2020ء کو اجلاس میں آڈٹ رپورٹ کا ریکارڈ تصدیق کرنے کیلئے مینجمنٹ کو متعلقہ ڈیٹا فراہم کرنے کا کہا گیا تھا۔
وفاقی حکومت نے سوشل میڈیاپر معیشت کے حوالےسے منفی پراپیگنڈہ کرنے والے صارفین کےخلاف گھیرا تنگ کرنے کی تیاری شروع کردی ہے۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف کی زیر صدارت قومی سلامتی کااجلاس ہوا جس میں ملکی معیشت کوسنبھالنےکیلئے مختلف پہلوؤں پر غور کیا گیا،اس موقع پر وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے شرکاءکو معیشت کی تازہ ترین صورتحال کے حوالے سے بریفنگ دی اور پاکستان کے دیوالیے ہونے کے تمام خدشات و خبروں کی تردید کی اور کہا کہ آئندہ چند ہفتوں میں معیشت درست سمت کی جانب چل پڑے گی۔ اجلاس میں ملک کے دیوالیہ ہونے سے متعلق سوشل میڈیا پر کیے جانے والے منفی پراپیگنڈے کا بھی جائزہ لیا گیا اور اس حوالے سے پی ٹی آئی رہنماؤں کےبیانات کا بھی جائزہ لیا گیا،شرکاء نے اس پراپیگنڈے کو دشمن کا ایجنڈا قرار دیتے ہوئےغیر ملکی ایجنڈےکا حصہ بننے والے سوشل میڈیا صارفین کے خلاف کارروائی کی تجویز دی۔ اس حوالے سے پیر کو ہونے والے قومی سلامتی کمیٹی کےاجلاس میں ملکی سلامتی و معیشت کے حوالے سے مرتب کی گئی گائیڈ لائنزکی منظوری دے گی،اجلاس میں ملک میں دوبارہ سے سر اٹھانے والی دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک نیا ایکشن پلان بھی پیش کیا جائے گا اور دہشت گردوں کے خلاف آپریشن اور کارروائیوں کی منظوری بھی دی جائے گی۔
میرا رب العزت پر ایمان اور اپنی قوم پر اعتماد ہےکہ تحریک انصاف بلاشبہ 2023 میں انتخاب کے ذریعے ایک مضبوط حکومت قائم کرے گی اور پاکستان کو بحرانوں کی اس دلدل، جس میں امپورٹڈ سرکار اور اسکے سرپرستوں نے ملک کو دھکیلا ہے، سے نجات دلوانے کیلئے ٹھوس ڈھانچہ جاتی اصلاحات متعارف کروائے گی۔ عمران خان کا نئے سال کے موقع پر پیغام عمران خان نے اپنے ٹویٹر پیغام میں کہا کہ سال 2022:”بیک وقت بہترین اور بدترین تھا“۔ذاتی مفاد میں گُندھی ایک سازش کے ذریعے بہترین معاشی کارکردگی دکھانے والی حکومت کو ہٹایا گیا اور پاکستان کو مجرموں کے ایک گروہ کے حوالے کر دیا گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس گروہ نےمعیشت زمیں بوس کی،خود کو NRO-2 دیا اور نیب قانون میں ترامیم کے ذریعے تمام وائیٹ کالر کریمینلز کیلئے لوٹ مار کے دروازےکھول دیے۔ یہ سال بہترین یوں تھا کہ اسی دوران میں نے اہلِ پاکستان کو ایک قوم کے سانچےمیں ڈھلتے دیکھا۔ انہوں نے مزید لکھا کہ الیکشن کمیشن اور مقتدرہ کی مکمل پشتیبانی سے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے یکجا ہو کر تحریک انصاف کیخلاف صف آراء ہونے کے باوجود تحریک انصاف غیر معمولی عوامی تائید و حمایت سے 75% ضمنی انتخابات میں فتحیاب رہی اور اس نےخود کو صحیح معنوں میں ایک قومی جماعت کےطور پر منظم کیا۔ آجکل قومی منظرنامے پر، خصوصاً دیوالیہ پن کے امکانات کے باعث چھائی مایوسی کے باوجود میرا رب العزت پر ایمان اور اپنی قوم پر اعتماد ہےکہ تحریک انصاف بلاشبہ 2023 میں انتخاب کے ذریعے ایک مضبوط حکومت قائم کرے گی اور پاکستان کو بحرانوں کی اس دلدل، جس میں امپورٹڈ سرکار اور اسکے سرپرستوں نے ملک کو دھکیلا ہے، سے نجات دلوانے کیلئے ٹھوس ڈھانچہ جاتی اصلاحات متعارف کروائے گی۔
ایک اندازے کے مطابق لاہور سے سالانہ 1 لاکھ 25 ہزار جبکہ پنجاب بھر سے 6 لاکھ سے زائد شہریوں کا کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) حاصل کیا جاتا ہے۔ تفصیلات کے صوبہ پنجاب کے شہریوں کا کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) پولیس اہلکاروں کی طرف سے غلط استعمال کیے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے جبکہ پولیس کے تفتیشی افسران حساس کال ڈیٹل ریکارڈ ملزمان پکڑنے کیلئے استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو تنگ کرنے کیلئے بھی استعمال کر رہے ہیں۔ آئی پنجاب کی طرف سے شہریوں کے ریکارڈ کو محفوظ بنانے کیلئے ہدایات جاری کی گئی ہیں جس کے مطابق سی ڈی آر کا غلط استعمال روکنے کیلئے نئے ایس او پیز جاری کر دیئے گئے ہیں۔ پولیس افسران کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ ایف آئی آر کے بغیر موبائل کالز کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا جائے گا جبکہ نامزد ملزمان کا کال ڈیٹیل ریکارڈ لینے کیلئے تفتیشی افسر اپنے ضلعی دفاتر میں رابطہ کرینگے۔ سی ڈی آر لیک ہونے پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کو ذمہ دار سمجھا جائے گا اور متعلقہ کمپنی کے ساتھ ایس پی انویسٹی گیشن بھی رابطے میں ہونگے جبکہ ایل میل کے ذریعے کسی بھی ملزم کا ڈیٹا درکار ہو گا تو کال ڈیٹیل ریکارڈ حاصل کیا جائے گا۔ تفتیشی حکام کو متعلقہ دفتر سے سی ڈی آرز وصولی کی آگاہی دی جائے گی اور ہر 2 مہینوں بعد ریجنل پولیس آفیسرز کی طرف سے سی ڈی آرز کا آڈٹ کرنے کے ساتھ ساتھ سی ڈی آرز کی مدد سے گرفتار ملزمان کی تفصیلات آئی جی پنجاب کو فراہم کرنی ہونگی جبکہ کسی بھی عام شہری کے فون کے ڈیٹا کیلئے ان سے اجازت بھی لینی پڑے گی۔ ایک اندازے کے مطابق لاہور سے سالانہ 1 لاکھ 25 ہزار جبکہ پنجاب بھر سے 6 لاکھ سے زائد شہریوں کا کال ڈیٹیل ریکارڈ (سی ڈی آر) حاصل کیا جاتا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق تفتیشی افسران بہت سے عام شہریوں کے موبائل فونز کی سی ڈی آرز دینے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ آئی جی پنجاب کی طرف سے جاری نئے ایس او پیز ایڈیشنل آئی جی انویسٹی گیشنز کی سربراہی میں 4 رکنی کمیٹی نے تیار کیے ہیں۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کا معاملہ مزید لٹک گیا ہے، ہائیکورٹ میں الیکشن کمیشن، وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کی اس حوالے سے درخواستیں سماعت کیلئے مقرر ناہوسکیں۔ نجی خبررساں ادارے کے صحافی ثاقب بشیر نے مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیر 2 جنوری کی کاز لسٹ جاری کردی ہے ، الیکشن کمیشن اوروفاقی حکومت اپنی جن درخواستوں پرآج سماعت کی خواہش مند تھی انہیں پیر کو بھی سماعت کیلئے مقرر نہیں کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست بھی مقرر نہیں کی گئی ہے، جس کے بعد یہ معاملہ پیر تک لٹک گیا ہے۔ خیال رہے کہ پی ٹی آئی نےاسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے چیف الیکشن کمشنر کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دائر کی تھی، رہنما پی ٹی آئی علی نواز اعوان نے درخواست جمع کرواتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمشنر اپنا کام کرنے میں ناکام رہے ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ خود کو پی ڈی ایم میں شامل کرلیں۔
ملک میں بیروزگاری اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے،اس کا اندازہ اسلام آباد پولیس میں ہونے والی بھرتیوں کے تحریری امتحان دینے کیلئے آنے والے امیدواروں کی تعداد دیکھ کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد پولیس نے محکمہ میں 1ہزار667 بھرتیوں کیلئے درخواستیں وصول کی تھیں، ملک بھر سے 30 ہزار سے زائد مر د وخواتین امیدواروں نے ان آسامیوں کیلئے درخواستیں جمع کروائیں، اسلام آباد پولیس نے امیدواروں کے انتخاب کیلئے تحریری امتحان کا انعقاد کیا اور اس کیلئے اسلام آبادکےا سٹیڈیم کا انتخاب کیا گیا۔ اسلام آباد پولیس نے امتحان دینے کیلئےجمع ہونے والے امیدواروں کی تصاویر اور ویڈیوز مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ پر جاری کیں اور بتایا کہ مجموعی طور پر 30ہزار سے زائدامیدوار تحریری امتحان دینے کیلئے پہنچے،تصاویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اسٹیڈیم ان امیدواروں سے کھچا کھچ بھر گیا ہے۔ ترجمان اسلام آباد پولیس کے مطابق تحریری امتحان پاس کرنے والے امیدواروں کو سیلکشن کےدیگر مراحل میں سے گزرنا ہوگا، تمام مراحل میں بہترین اہلیت کے حامل امیدواروں کو اسلام آباد پولیس میں بھرتی کیا جائے گا
پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب میں ہارس ٹریڈنگ کے معاملے پر پیپلزپارٹی کے دو رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کرنےکا اعلان کردیا ہے۔ تفصیلات کےمطابق یہ اعلان پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما فواد چوہدری نے کیا اور کہا کہ ہماری دو اراکین اسمبلی فرحت فاروق اور راشدہ بیگم نے میڈیا پر آکر واضح طور پرکہا کہ شرجیل انعام میمن اور ناصر علی شاہ نے ہم سےرابطہ کیا اور ووٹ کے بدلے پیسوں کی آفر کی۔ فواد چوہدری نے کہا کہ یہ حرکت ایک کرپٹ پریکٹس ہے اور انتہائی سنگین جرم ہے، لہذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پنجاب میں شرجیل میمن اور ناصر حسین شاہ کے خلاف ہارس ٹریڈنگ کے تحت مقدمات درج کیے جائیں۔ اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہم عدالت سے درخواست کرتےہیں کہ اس معاملےکا جائزہ لیتے ہوئے فیصلہ لے اورتب تک چیف الیکشن کمشنر کو کام سے روکا جائے۔ رہنما پی ٹی آئی نے کہا کہ گزشتہ روز قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا ،آپ سنجیدگی کا اندازہ لگائیں کہ ملک میں سب سے زیادہ دہشت گردی سے متاثر صوبے کو اس اجلاس میں دعوت ہی نہیں دی گئی۔
رہنما تحریک انصاف فواد چودھری کا کہنا ہے کہ امپورٹڈ حکومت کو ملک پر مسلط کرنے کا کھیل تباہ کن ثابت ہوا ہے کیونکہ اس سے تمام معاشی اشاریے منفی ہو گئے ہیں۔ سابق وفاقی وزیر نے کہا کہ 2022 کا سال معیشت کیلئے تباہ کن رہا اس سال میں ملک پر امپورٹڈ حکومت کو مسلط کرنے کا کھیل معیشت کیلئے تباہ کن رہا کیونکہ اس دوران تمام شعبے کے معاشی اشاریے منفی ہو گئے تھے۔ فواد چودھری نے مزید کہا کہ معیشت کی تباہی کی ایک بنیادی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ دوسری جانب معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ڈالرز کی قلت کے باعث ایل سیز نہ کھلنے سے 12 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا، متعدد ٹیکسٹائل، فارما، آٹو، اسٹیل انڈسٹریز بند ہونے سے ہزاروں افراد بے روزگار ہوئے، مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ملکی معیشت کو سب سے بڑا مسئلہ ایل سیز کا نہ کھلنا رہا، جس سے ٹیکسٹائل، فارما، آٹو اور اسٹیل انڈسٹریز بند ہونا شروع ہوئیں اور لاکھوں افراد بے روزگار ہوئے۔ ڈالرز کی قلت نے ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، مہنگائی نے بھی پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ ماہرینِ معیشت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2023ء میں بھی ملکی معیشت دباؤ کا شکار رہے گی اور فوری طور پر بہتری کا کو ئی امکان نہیں ہے۔
امریکی دارالحکومت میں پاکستانی سفارت خانے کی ملکیتی عمارت کے لیے سب سے زیادہ بولی لگانے والے برخان ورلڈ انویسٹمنٹ کے شہل خان ہیں اور وہ اس بولی کے ممکنہ فاتح بھی ہوں گے۔ غیر ملکی میڈیا کے مطابق خیال کیا جاتا ہے کہ شہل خان نے جائیداد کے لیے 68 لاکھ ڈالرز کی پیشکش کی تھی، برکھان ورلڈ واشنگٹن میں ہے اور ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرتی ہے جن کے بارے میں ان کا موٹو ہے کہ ایسے منصوبوں پر رقم خرچ کی جائے جس سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔ جبکہ اس جگہ پر ایک عبادت گاہ بنانے کے خواہشمند صیہونی گروپ نے دوسری سب سے بڑی بولی لگائی، تیسری بولی لگانے والی ایک امریکی سرمایہ کاری کمپنی تھی جو بظاہر بھارت نژاد امریکی شہریوں کو بھی ملازمت دیتی ہے۔ بولی پر عملدرآمد کا عمل شروع ہو گیا ہے جس کی تشریح اس طرح کی جا سکتی ہے کہ اب یہ عمارت سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو ہی دی جائے گی۔ پاکستانی میڈیا کی جانب سے کیے گئے سوال کے جواب میں برخان ورلڈ کے نمائندے ڈیوین اوریگو گویرا نے بھی تصدیق کی کہ اس پراپرٹی کے لیے سب سے زیادہ بولی شہل خان نے جمع کرائی تھی۔ کمپنی کے نمائندے ڈیوین اوریگو گویرا نے جواب میں کہا کہ شہل خان اس عمارت کو امن کا مرکز بنانا چاہیں گے اور اسے امریکن یونیورسٹی کے خان انسٹی ٹیوٹ آف اکنامک سیکیورٹی اینڈ پیس سے بھی منسلک کیا جائے گا۔
گیس کی لوڈشیڈنگ کے باعث پاکستان کے دور افتادہ علاقوں میں لوگ قدرتی گیس پلاسٹک کے تھیلوں میں ذخیرہ کر رہے ہیں جوکہ کسی بھی طرح اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے، اس پر صوبہ خیبرپختونخوا میں پولیس نے متعدد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ خیبرپختونخوا کے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے بیان میں کہا کہ کرک میں گیس پائپ لائن سے تھیلیوں میں گیس بھرنے والوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اور سوئی گیس مشترکہ کارروائی کررہی ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد افراد کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔ معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ تھیلیوں میں گیس بھرنا اپنی جان پر کھیلنے کے مترادف ہے۔ کرک کے عوام سے اپیل ہے کہ اس خطرناک عمل سے دور رہیں۔ چارسدہ اور کرک کے علاقوں میں اس طرح سے شہریوں کے پلاسٹک تھیلوں میں گیس بھرنے کی اطلاعات اور میڈیا رپورٹس ہیں تاہم اس علاقے کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ لکڑیوں پر کھانا بناتے تھے اور اب ان کی بھی عدم دستیابی کے باعث وہ اس طرح کرنے پر مجبور ہیں۔ تفصیلات کے مطابق اس طرح کے پلاسٹک بیگز کو نوزل لگی ہوتی ہے جس کو انتہائی پریشر کے ساتھ کسی غبارے کی طرح بھرا جاتا ہے جو کہ کسی بھی وقت پھٹ کر کسی بڑے حادثے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس پلاسٹک بیگ کو کمپریسر کی مدد سے ایک گھنٹے میں بھرا جاتا ہے۔
سویابین کے کنٹینرز پورٹ پر پھنسے ہونے کے باعث مرغی کی فیڈ تیار کرنے والی فیکٹریاں کئی ماہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔ تفصیلات کے مطابق میسرز ہائی ٹیک فیڈ زپرائیویٹ لمیٹڈ لاہور نے اپنے ملازمین کو مطلع کیا ہے کہ کاروباری عدم استحکام بجلی و گیس کی لوڈ شیڈ نگ و نرخوں میں روز بروز اضافہ ، خام مال کی قیمتوں میں بے پناہ اضافه و عدم دستیابی ، در آمدات پر پابندی ، بینکوں کی جانب سے مارک اپ میں ہوشربا اضافہ اور پولٹری فیڈز کی فروخت میں کمی کے باوجود فیکٹری مالکان فیکٹری کو چلاتے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتے رہے ہیں لیکن اب مزید نقصان برداشت کرنا فیکٹری مالکان کے لئے ممکن نہ رہا ہے اس لئے فیکٹری مالکان نے فیکٹری کو مستقل بنیادوں پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کمپنی انتظامیہ نے ملازمین کو بلا امتیاز اپیل کی ہے کہ وہ 1 ماہ کے اندر اندر اپنے لئے کسی دیگر ملازمت کا انتظام کر لیں بعد میں فیکٹری مالکان کسی بھی قسم کی ادائیگی کرنے کے ذمہ دار نہ ہونگے یعنی فیکٹری میں کام کرنے والے تمام ملازمین مورخہ 2023-01-31 سے فارغ تصور ہونگے اور فیکٹری مالکان مورخہ 2023-01-31 تک ملازمین کو تنخواه و دیگر واجبات بمطابق قانون ادا کرنے کے پابند ہونگے۔ اسی حوالے سے صدر پولٹری ایسو سی ایشن اشرف چوہدری کا کہنا ہے کہ سوبا بین کی عدم دستیابی کے باعث رائیونڈ روڈ لاہور پر واقع بڑی فیڈ فیکٹری بند کی جا رہی ہے جبکہ کئی چھوٹی فیڈ ملز بند کر دی گئی ہیں۔ اشرف چوہدری کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ کی اجازت کے باوجود سویابین سے بھرے کنٹینرز کا پورٹ پر پھنسے رہنا حیران کن ہے۔ صدر پولٹری ایسو سی ایشن کا مزید کہنا ہے کہ مچھلی سے حاصل فیڈ بہت مہنگی ہے، ہر کمپنی مچھلی سے فیڈ تیار نہیں کر سکتی۔
یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کی جانب سے لگائی پابندی ختم کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے: وزیراعظم کو بریفنگ تفصیلات کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیرصدارت پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز اور ہوابازی کے امور پر اجلاس ہوا جس میں وفاقی وزیر ہوابازی خواجہ سعد رفیق، وفاقی وزیر قانون وانصاف اعظم نذیر تارڑ، وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال اور وفاقی سیکرٹری ہوابازی ڈویژن ومنصوبہ بندی شریک ہوئے۔ اجلاس میں پاکستان کے ہوائی اڈوں کی تین بڑے ہوائی اڈوں ، جناح انٹرنیشنل کراچی،اسلام آباد انٹرنیشنل اور علامہ اقبال انٹرنیشنل لاہور کی پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت آؤٹ سورسنگ پر وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی۔ وزیراعظم شہباز شریف کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ پی آئی اے کی فلیٹ میں 4 نئے اے 320 جہاز شامل کیے گئے ہیں اور ہفتہ وار 330 فلائٹس آپریٹ کر رہی ہیں جبکہ یورپین یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی کی جانب سے لگائی پابندی ختم کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم نے آئوٹ سورسنگ کا عمل شفاف عمل کے ذریعے شروع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے خصوصی کمیٹی تشکیل دے دی جس کی صدارت وہ خود کرینگے۔ اجلاس میں بریفنگ کے دوران ویراعظم شہباز شریف کو بتایا گیا کہ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز نے رواں سال 172 بلین روپے کا ریونیو حاصل کیا جو پی آئی اے کی اب تک کی تاریخ کا سب سے بڑا ریونیو ہے۔ پی آئی اے کی برانڈ امیج بہتر بنانے کیلئے منصوبہ تیار، لاہور اور کراچی ایئرپورٹس کے لائونجز کو اپ گریڈ کیا گیا جبکہ پی آئی اے کی فلیٹ میں وائیڈ باڈی ایئرکرافٹس کو بھی شامل کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم شہباز نے پاکستان میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری بڑھانے کیلئے بین الاقوامی ساکھ رکھنے والے انٹرنیشنل آپریریٹرز کی خدمات حاصل کرنے کا کہا، پہلے مرحلے میں ملک کے 3 بڑے ہوائی اڈوں کراچی، لاہورا ور اسلام کو انٹرنیشنل آپریٹرز کے ذریعے چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ انٹرنیشنل آپریٹرز ان اداروں کو چلانے میں 20 سے 25 سال کی مدت کیلئے مدد دینگے، ساتھ ہی ورلڈ بینک کے زیرانتظام ادارے انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن (آئی ایف سی) کی معاونت لینے کی بھی منظوری دی گئی۔ ہوائی اڈوں پر انٹرنیشنل آپریٹرز عالمی معیار کے مطابق غیرملکی سرمایہ کاری سے جدت اور بہتری لانے کی خدمات بھی فراہم کرینگے۔ اجلاس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ اتھارٹی کو ضابطے کی کارروائی شروع کرنے کی ہدایت دی گئی۔ واضح رہے کہ دنیا کے 44 ممالک میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ فارمولے کے تحت ہوائی اڈوں کا انتظام چلایا جا رہا ہے برطانیہ، امریکہ، بحرین، بھارت اور برازیل ودیگر شامل ہے۔
تنور مالکان نے روٹی کی قیمت 25 روپے اور نان کی قیمت 35 روپے مقرر کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ تنور مالکان نے لاہور کی ضلعی انتظامیہ کو خط ارسال کیا جس میں روٹی اور نان کی قیمت بڑھانے کی درخواست کی گئی ہے۔ تنور مالکان نے خط میں کہا ہے کہ سادہ روٹی کی قیمت 14 روپے سے بڑھا کر 25 روپے اور نان کی قیمت 24 روپے سے بڑھا کر 35 روپے رکھی جائے۔ تاہم ضلعی انتظامیہ نے نان روٹی کی قیمت میں اضافے سے انکار کر دیا ہے۔ نتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ اضافہ جائز نہیں ہے، اس لیے فی الحال قیمت نہیں بڑھائی جاسکتی۔ تنورمالکان کا کہنا تھا کہ 15 کلو آٹےکا تھیلا 1900 روپے کا ہوگیا، فائن میدے کی 80 کلو کی بوری 10ہزار800 روپےکی ہوگئی اس لیے قیمت میں اضافے کی اجازت مانگی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نان بائی ایسوسی ایشن کے آئندہ اجلاس میں نان اور روٹی کی قیمت بڑھانے پر غور کیا جائے گا۔
اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے سے عوام کی پہنچ میں نہیں رہیں اور حکومت اداروں میں تنخواہوں، مراعات اور پنشن کا بوجھ بھی عوام پر ڈال رہی ہے۔ تفصیلات کے مطابق مقامی وکیل کی طرف سے سپریم کورٹ آف پاکستان میں دلچسپ درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ درخواست گزار کی طرف سے استدعا کی گئی ہے کہ ملک کے موجودہ معاشی حالات کے پیش نظر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی مراعات اور پنشن میں کٹوتی کی جائے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی مراعات وپنشن میں کٹوتی کرنے کی درخواست ذوالفقار بھٹہ ایڈووکیٹ کی طرف سے 3,184 کے تحت دائر کی گئی ہے۔ درخواست گزار کی طرف سے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو فریق بنانے کے ساتھ انہیں اعلیٰ عدلیہ کے علاوہ دیگر اداروں میں دی جانے والی مراعات وپنشنز پر نظرثانی کی ہدایت کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ملک میں جاری معاشی بحران کے باعث اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھنے سے عوام کی پہنچ میں نہیں رہیں اور حکومت کی طرف سے اداروں میں تنخواہوں، مراعات اور پنشن کا بوجھ بھی عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ برے معاشی حالات کے باعث ملک بھر میں عوام خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں، آئین کے آرٹیکل 38 میں عوام کی آمدن اور خرچ میں تفریق کو ختم کرنے کا کہا گیا ہے جبکہ اعلیٰ عدلیہ کے ججز کو ریٹائرمنٹ کے بعد روزانہ کی بنیاد پر 24 ہزار روپے پنشن دینے کے ساتھ 300 لیٹر پٹرول بھی دیا جا رہا ہے اس لیے ملکی معاشی بحران سے نپٹنے کیلئے مراعات اور تنخواہوں پر نظرثانی کی جانی چاہیے۔
ممبران قومی اسمبلی کے ساتھ نامناسب رویے پر یوٹیوبرز کا پارلیمنٹ ہاؤس میں داخلہ بند کر دیا گیا۔ یوٹیوبرز پر پابندی پارلیمنٹیرینز کے ساتھ نامناسب رویے کے پیش نظر لگائی گئی ہے۔ تفصیلات کے مطابق سینیٹر روبینہ خالد نے شکایت کی تھی کہ بعض یوٹیوبرز نے پارلیمنٹ کے گیٹ پر ان سے سوالات کیے اور مرضی کے جواب نہ ملنے پر غیرمناسب اور تضحیک آمیز رویہ اختیار کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ پارلیمینٹ ہاؤس میں یوٹیوبرز کے داخلے پر پابندی سینیٹر روبینہ خالد کی شکایت پر لگائی گئی ہے۔ پارلیمنٹ سیکر ٹریٹ نے معاملہ پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کو ریفر کیا ہے۔ جواب میں پی آراے نے اسمبلی سیکر ٹریٹ کو آگاہ کیا کہ جو لوگ پی آراے کے ممبرز نہیں ان پر تنظیمی ڈسپلن لاگو نہیں کر سکتے پی آراے نے اس معاملے میں کسی کارروائی سے گریز کیا ہے۔ دوسری جانب پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے بھی تین روز قبل یوٹیوبرز کے کمیٹی کی کوریج کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ چیئرمین پی اے سی کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ اب صرف الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ صحافی ہی پبلک اکاونٹس کمیٹی کے اجلاس کی کوریج کر سکتے ہیں اس لیے یوٹیوبرز کے کمیٹی اجلاس میں آنے اور اجلاس کی کوریج پر پابندی عائد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی اے سی میں بعض اوقات حساس معاملات زیربحث آتے ہیں باضابطہ صحافی ان معلومات کو پیشہ وارانہ اصولوں کے مطابق رپورٹ کرتے ہیں ’لیکن اس طرح کے یوٹیوبرز ایسی حساس معلومات کو غیرذمہ دارانہ طریقے سے رپورٹ کرتے ہیں جو کسی صورت مناسب نہیں۔ چیئرمین پی اے سی نورعالم خان کا کہنا تھا کہ یوٹیوبرز کسی قانون اور قاعدے کے تحت پارلیمانی کمیٹیوں کی کوریج کا استحقاق بھی نہیں رکھتے اس لیے ہمارے فیصلے سے کسی کا بنیادی حق یا استحقاق مجروح نہیں ہوا۔