خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے باہر 10 سالہ اغوا شدہ بچے کی عدم بازیابی پر احتجاجی دھرنا آج چوتھے روز بھی جاری ہے۔ متاثرہ خاندان اور تاجروں کی جانب سے احتجاج کا یہ سلسلہ بچے کی بازیابی تک جاری رکھنے کا اعلان کیا گیا ہے، جبکہ وکلا تنظیموں نے بھی عدالتی کارروائی کے بائیکاٹ کا اعلان کردیا ہے۔ 10 سالہ مصور کاکڑ کو نامعلوم افراد نے جمعہ کے روز اسکول جاتے ہوئے اغوا کرلیا تھا، اور اب تک پولیس یا دیگر حکام کی جانب سے کوئی مثبت پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ اہلخانہ کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے بچے کو بازیاب نہیں کرایا جاتا، احتجاج ختم نہیں کیا جائے گا۔ دھرنے کی وجہ سے اسمبلی کے باہر تعظیم چوک پر ٹریفک کی روانی شدید متاثر ہے، جس کے باعث شہر کی مختلف شاہراہوں پر ٹریفک جام ہوچکا ہے۔ شہریوں، طلبہ، اور دفاتر جانے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ احتجاج کے شرکا نے حکام سے فوری کارروائی اور بچے کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کیا ہے، بصورت دیگر احتجاج مزید شدت اختیار کرنے کا امکان ہے۔
اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے انکشاف کیا ہے کہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی معیشت کی 14 ماہ میں بحالی پر حیرت کا اظہار کیا ہے۔ نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے بتایا کہ حکومت نے معاشی اصلاحات کے اپنے ایجنڈے پر آئی ایم ایف کے ساتھ تفصیلی بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ پروگرام مکمل طور پر پاکستان کا اپنا ہے، جس میں آئی ایم ایف صرف معاونت فراہم کر رہا ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق امریکا میں ایشین ڈیولپمنٹ بینک، ورلڈ بینک، اور آئی ایم ایف سمیت متعدد مالیاتی اداروں کے نمائندوں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب، چین، ترکیہ، برطانیہ اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خزانہ کے ساتھ بھی مثبت مذاکرات کیے گئے۔ ان ملاقاتوں میں گورنر اسٹیٹ بینک اور سیکریٹری خزانہ بھی شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی اصلاحاتی اقدامات کے نتیجے میں معیشت نے درست سمت میں سفر شروع کیا ہے۔ مہنگائی کی شرح میں نمایاں کمی ہوئی ہے، جو 38 فیصد سے کم ہوکر 7 فیصد تک آگئی ہے۔ اسی بنیاد پر پالیسی ریٹ بھی 22 فیصد سے گھٹ کر 15 فیصد پر آگیا ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق عالمی مالیاتی اداروں اور ریٹنگ ایجنسیوں نے پاکستانی معیشت پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سب ہمیں یہی کہہ رہے ہیں کہ آپ نے میکرو اکنامک استحکام حاصل کیا ہے، اب اس کو مزید بہتر کریں۔ محمد اورنگزیب نے کہا کہ حکومت تمام شعبوں میں اصلاحات جاری رکھے گی اور مقررہ اہداف کے حصول پر توجہ دے گی۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وزیراعظم جلد عوام کے سامنے معاشی روڈ میپ پیش کریں گے، جس سے مزید ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔ وزیر خزانہ نے یقین دہانی کرائی کہ معیشت کی بہتری کے لیے کیے جانے والے اقدامات ملک کے مفاد میں ہوں گے اور حکومت اپنی اصلاحاتی حکمت عملی پر قائم رہے گی۔
اسلام آباد کے پوش ای۔11 سیکٹر میں سینئر بیوروکریٹس، بشمول اعلیٰ پولیس افسران، کو دو دہائیاں پرانی قیمت پر پلاٹس الاٹ کیے گئے ہیں، جو موجودہ مارکیٹ ریٹ کا صرف 1.5 فیصد بنتا ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق دستاویزات کے مطابق، نیشنل پولیس فاؤنڈیشن (این پی ایف) نے چھ پلاٹس سابق سیکرٹری داخلہ اور چھ پولیس افسران کو الاٹ کیے، جن میں خیبر پختونخوا کے آئی جی اختر حیات خان، پنجاب کے آئی جی ڈاکٹر عثمان انور، اور دیگر سینئر افسران شامل ہیں۔ ہر پلاٹ کی قیمت 1.57 ملین روپے مقرر کی گئی، جبکہ موجودہ مارکیٹ ویلیو ایک کنال پلاٹ کے لیے تقریباً 100 ملین روپے ہے۔ اسی طرح، این پی ایف نے ایک پلاٹ سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کو بھی سیکٹر او۔9 میں صرف 500,000 روپے میں الاٹ کیا، حالانکہ اس کی مارکیٹ ویلیو تقریباً 30 ملین روپے تھی۔ این پی ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر صابر احمد نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ الاٹمنٹ فاؤنڈیشن کی پالیسی کے مطابق کی گئی ہے۔ ان کے مطابق، وہ پلاٹس جو کئی دہائیوں سے خالی پڑے تھے اور جن کے مالکان سے کوئی رابطہ نہیں تھا، انہیں منسوخ کر کے پولیس سروس کے اہل افسران کو الاٹ کیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک اصل الاٹی، سابق ڈی آئی جی شاہد اقبال، نے اسلام آباد کی سول کورٹ میں مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کا پلاٹ منسوخ کر کے این پی ایف کے ڈائریکٹر ڈی آئی جی محسن علی کو دے دیا گیا۔ ان کے مطابق، این پی ایف انتظامیہ نے ان کی الاٹمنٹ بحال کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ کئی پولیس افسران نے اس عمل کو "من پسند افراد کے لیے انتخاب" قرار دیا ہے۔ سابق ایڈیشنل انسپکٹر جنرل سلیم اللہ خان نے، جو چند سال پہلے این پی ایف میں قانونی مشیر رہ چکے ہیں، کہا کہ جب انہوں نے ای۔11 میں پلاٹ کے لیے درخواست دی تو انہیں یہ کہہ کر انکار کر دیا گیا کہ کوئی پلاٹ دستیاب نہیں۔ ان کا الزام ہے کہ این پی ایف نے اپنے من پسند افسران کو نوازنے کے لیے اصل الاٹیوں کے پلاٹس منسوخ کیے۔ سابق سیکرٹری داخلہ افتاب اکبر درانی کو بھی ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے پہلے ایک پلاٹ الاٹ کیا گیا۔ دستاویزات کے مطابق، ریٹائرمنٹ سے چند دن قبل سابق سیکرٹری نے ایک اسٹاچوٹری ریگولیٹری آرڈر (ایس آر او) جاری کیا، جس سے این پی ایف کو مزید خودمختاری دی گئی اور اس کے بورڈ کی تشکیل کو تبدیل کیا گیا۔ اس نئے ایس آر او کے مطابق، این پی ایف کے منیجنگ ڈائریکٹر کی مدت تین سال کے لیے مقرر کی گئی، جو ایک اور مدت کے لیے بڑھائی جا سکتی ہے، جبکہ 1975 کے پرانے ایس آر او میں اس کی گنجائش نہیں تھی۔ یہ معاملہ ملک میں بیوروکریسی کے طرز عمل اور وسائل کی تقسیم پر سنگین سوالات اٹھا رہا ہے، جہاں عوامی وسائل کو محدود تعداد میں افراد کے لیے مختص کیا جا رہا ہے۔
سیالکوٹ میں بہو زارا کے قتل کے اندوہناک واقعے میں اہم پیش رفت سامنے آئی ہے، جہاں ملزمہ صغراں نے حسد اور نفرت میں اپنی بہو کو قتل کرنے کا اعتراف کر لیا ہے۔ پولیس کے مطابق ملزمہ نے یہ بھی قبول کیا کہ بہو پر لگائے گئے کردارکشی کے الزامات جھوٹے تھے اور قتل کی منصوبہ بندی ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھی۔ قتل کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ صغراں نے اپنی بیٹی یاسمین اور نواسے قاسم کے ساتھ مل کر بہو زارا کو قتل کیا۔ ملزمہ کے اعتراف کے مطابق، اس کے حسد اور نفرت نے اسے اس حد تک لے گیا کہ اس نے زارا کے کردار پر جھوٹے الزامات لگا کر طلاق دلوانے کی کوشش کی، اور ناکامی پر قتل کا منصوبہ بنایا۔ ڈیڑھ ماہ قبل جب زارا پاکستان واپس آئی، تو ملزمان نے پہلے اس کا قتل کیا اور پھر لاش کے ٹکڑے کر کے شناخت چھپانے کے لیے چہرے کو آگ لگا دی۔ لاش کے ٹکڑے پانچ بوریوں میں ڈال کر نالے میں پھینک دیے گئے۔ پولیس کے مطابق، قتل کی منصوبہ بندی میں لاہور کے رہائشی نوید کو بھی شامل کیا گیا، جسے اٹلی بھجوانے کا لالچ دے کر سازش میں شریک کیا گیا۔ پولیس نے قتل کیس کے چار ملزمان کو گرفتار کر لیا ہے، جبکہ دو مزید افراد زیرِ حراست ہیں۔ مرکزی ملزم نوید کو ڈیوٹی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا، جہاں اسے ایک روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ کیس میں ملوث دیگر ملزمان صغراں، یاسمین، اور عبداللہ کو بھی عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ زارا، گوجرانوالہ کے پولیس اے ایس آئی شبیر احمد کی بیٹی تھی، جس کی شادی چار سال قبل اپنے خالہ زاد قدیر سے ہوئی تھی۔ شادی کے بعد قدیر نے سعودی عرب میں مقیم ہوتے ہوئے اپنی بیوی کے اکاؤنٹ میں پیسے بھجوانا شروع کیے، جس کے بعد ساس اور بہو کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ ملزمہ صغراں نے اعتراف کیا کہ اس کی ذاتی نفرت اور حسد کی وجہ سے نہ صرف زارا کی جان گئی بلکہ اس کے بیٹی اور نواسہ بھی مصیبت میں پھنس گئے۔ پولیس نے کیس میں مزید دفعات شامل کر کے تحقیقات جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے، جبکہ متاثرہ خاندان انصاف کا منتظر ہے۔
ملتان: پاکستان کسان اتحاد نے حکومت کی جانب سے عائد کردہ زرعی ٹیکس کے خلاف شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ملک گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ کسان اتحاد کے مرکزی صدر خالد محمود کھوکھر نے ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ دسمبر کے مہینے میں تمام زرعی تنظیمیں مل کر مظاہرے کریں گی۔ تاہم، انہوں نے واضح کیا کہ یہ احتجاج کسی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں ہوگا بلکہ خالصتاً کسانوں کے مسائل کے حل کے لیے ہوگا۔ خالد محمود کھوکھر نے کہا کہ زراعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، لیکن بدقسمتی سے حکمران اس اہم شعبے کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گندم کی قیمت نہ ملنے اور حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے زراعت کی شرح نمو منفی میں چلی گئی ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ رواں سال گندم کی کاشت میں 30 فیصد کمی کا خدشہ ہے، جو ملکی فوڈ سیکیورٹی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ زراعت کی موجودہ صورتحال اور حکومتی پالیسیوں کے باعث کسان شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ کسان اتحاد نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ زرعی ٹیکس فوری واپس لے اور کسانوں کے مسائل کے حل کے لیے عملی اقدامات کرے، بصورت دیگر احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کیا جائے گا۔
اسلام آباد: وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک سے دہشت گردوں کا مکمل خاتمہ ہونے تک ان کے خلاف جنگ جاری رکھی جائے گی۔ ضلع قلات کے علاقے شاہِ مردان میں سیکیورٹی فورسز پر دہشت گردوں کے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے وزیرِ اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم اپنے بہادر جوانوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ملکی بقاء کی خاطر افواج پاکستان کے جوانوں اور ان کے اہل خانہ کی لازوال قربانیاں ہیں، اور ہم سب اپنے شہداء اور ان کے اہل خانہ پر فخر کرتے ہیں۔ وزیرِ اعظم نے سیکیورٹی فورسز کے افسران اور جوانوں کو چھ دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے اور چار کو زخمی حالت میں گرفتار کرنے پر سراہا۔ انہوں نے دہشت گردوں کا بہادری سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کرنے والے سات جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ وزیرِ اعظم نے شہداء کے اہلِ خانہ سے گہرے دکھ کا اظہار کیا اور ان کے لیے صبر جمیل کی دعا کی۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز بلوچستان کے ضلع قلات میں سیکیورٹی فورسز کی چوکی پر ہونے والے حملے میں سات اہلکار شہید ہو گئے، جبکہ جوابی کارروائی میں چھ دہشت گرد ہلاک اور چار زخمی ہوئے۔
لندن: برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی نے رکن پارلیمنٹ کم لیڈبیٹر کو لکھے گئے ایک خط میں پاکستان میں سابق وزیراعظم عمران خان کی گرفتاری، عدالتی عمل اور انسانی حقوق کی صورتحال پر تفصیلی تبصرہ کیا ہے۔ یہ خط 16 اکتوبر کو کم لیڈبیٹر کے سوالات کے جواب میں تحریر کیا گیا، جس میں عمران خان کی گرفتاری اور پاکستان کی سیاسی صورتحال پر وضاحت طلب کی گئی تھی۔ ڈیوڈ لیمی نے اپنے خط میں واضح کیا کہ پاکستان کا عدالتی نظام اس کا داخلی معاملہ ہے، لیکن برطانوی حکومت نے پاکستانی حکام کو یاد دلایا ہے کہ انہیں اپنے بین الاقوامی معاہدوں کے تحت بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ "ہم نے زور دیا ہے کہ پاکستانی حکام کو شفاف عدالتی عمل، منصفانہ ٹرائل، اور انسانی وقار کی حفاظت کے اصولوں پر عمل کرنا چاہیے، اور یہ بات عمران خان سمیت تمام شہریوں پر یکساں لاگو ہوتی ہے۔" برطانوی وزیر خارجہ نے پاکستان میں فوجی عدالتوں کے ممکنہ استعمال پر خاص تشویش ظاہر کی، خاص طور پر عمران خان کے کیس کے تناظر میں۔ ان کا کہنا تھا کہ فوجی عدالتیں شفافیت اور آزاد نگرانی سے محروم ہوسکتی ہیں، جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ "ہمیں فی الحال پاکستانی حکام کی طرف سے یہ اشارے نہیں ملے ہیں کہ عمران خان کو فوجی عدالت میں پیش کیا جائے گا، لیکن ہم صورتحال کا بغور جائزہ لے رہے ہیں۔" ڈیوڈ لیمی نے پاکستان میں آزادی اظہار اور سیاسی اجتماع پر عائد پابندیوں پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاسی مخالفت کو دبانے کے اقدامات جمہوری اصولوں کے منافی ہیں۔ انہوں نے کہا، "ہم پاکستانی حکام کو یہ باور کراتے رہتے ہیں کہ خیالات کے آزادانہ اظہار، بغیر دھمکی یا غیر ضروری پابندی کے، جمہوریت کا ایک لازمی جزو ہیں۔" لیمے نے اپنے خط میں انکشاف کیا کہ برطانوی وزارت خارجہ کے وزیر، فیلکنر، نے پاکستان کے انسانی حقوق کے وزیر، اعظم نذیر تارڑ، کے ساتھ اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فیلکنر جلد پاکستان کا دورہ کریں گے اور انسانی حقوق، جمہوری اصولوں اور سیاسی حقوق پر بات چیت کریں گے۔ مزید یہ کہ وہ برطانیہ واپسی پر کم لیڈبیٹر اور دیگر دلچسپی رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ پاکستان میں حالیہ آئینی ترامیم کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ یہ ترامیم پاکستان کا داخلی معاملہ ہیں۔ تاہم، انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ایک آزاد اور خودمختار عدلیہ، جو ریاست کے دیگر اداروں کو چیک اور بیلنس کر سکے، ایک مضبوط اور فعال جمہوریت کے لیے ناگزیر ہے۔ ڈیوڈ لیمی نے اپنے خط میں یقین دلایا کہ برطانیہ پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنے اور مختلف شعبوں میں تعاون جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ "برطانیہ پاکستان کے ساتھ انسانی حقوق، جمہوریت، اور قانونی عمل کے معاملات پر کام جاری رکھے گا۔" برطانوی وزیر خارجہ کے اس خط کے جواب میں، عمران خان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنا ردعمل دیا۔ انہوں نے کہا، "پاکستانی عوام کی جانب سے میں پارلیمنٹ کے ان تمام اراکین اور ہاؤس آف لارڈز کے معزز اراکین کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے عمران خان کی غیر قانونی قید اور پاکستان میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال پر تشویش ظاہر کی۔" انہوں نے برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ لیمی کے جواب کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا، "پاکستان کے عوام ایک غیر منتخب جابرانہ حکومت کے اقدامات کی وجہ سے ناقابل تصور تکالیف کا سامنا کر رہے ہیں۔ آزاد اور منصفانہ انتخابات اور قانون کی حکمرانی، جو ایک آزاد عدلیہ پر مبنی ہو، جمہوریت کی بنیاد ہیں۔ پاکستانی عوام اپنی جمہوریت کے لیے جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔"
پاکستان نے پہلی بار امریکی کپاس کی خریداری میں سبقت حاصل کی ہے، جس کی بڑی وجہ ملک میں مقامی فصل کی توقع سے کم پیداوار اور خراب موسم کے باعث معیار کا متاثر ہونا ہے۔ امریکی محکمہ زراعت کی ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال پاکستان نے مجموعی طور پر 11 لاکھ 92 ہزار بیلز (ہر بیل کا وزن 160 کلوگرام) درآمد کی ہیں، جو دنیا میں کسی بھی ملک کی سب سے زیادہ مقدار ہے۔ ڈان اخبار کی رپورٹ ے مطابق اس فہرست میں پاکستان کے بعد ویتنام دوسرے نمبر پر ہے، جس نے 9 لاکھ 60 ہزار بیلز درآمد کی ہیں، جبکہ ترکیہ 6 لاکھ 70 ہزار بیلز کے ساتھ تیسرے اور سوئٹزرلینڈ 6 لاکھ 50 ہزار بیلز کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں۔ میکسیکو، چین اور بھارت بالترتیب پانچویں، چھٹے اور ساتویں نمبر پر ہیں۔ پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اس سال تقریباً 55 لاکھ بیلز کپاس درآمد کرنے کا امکان ہے۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان نے امریکا، برازیل اور دیگر ممالک سے 30 سے 35 لاکھ بیلز خریدنے کے معاہدے کیے ہیں۔ کاٹن جنرز فورم کے چیئرمین احسان الحق کے مطابق مقامی کپاس پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد ہونے کی وجہ سے ملز مالکان ٹیکس فری درآمدات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مقامی فصل کی قیمتیں گرنے سے کاشتکاروں کو نقصان ہو رہا ہے، جبکہ بھارتی دھاگے دبئی کے ذریعے پاکستانی مارکیٹ میں پہنچ رہے ہیں، جس سے مقامی صنعت مزید دباؤ کا شکار ہو رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق خراب موسمی حالات اور ملکی کپاس کی کم پیداوار نے درآمدی کپاس پر انحصار بڑھا دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں کی پالیسیوں اور بین الاقوامی معاہدوں نے بھی امریکی کپاس کی بڑی مقدار میں خریداری کی راہ ہموار کی ہے۔ یہ رجحان نہ صرف مقامی کپاس کی پیداوار کے لیے چیلنجز پیدا کر رہا ہے بلکہ ملکی معیشت پر بھی اثر ڈال رہا ہے، جہاں درآمدات کے باعث زر مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
اسلام آباد: جیل میں قیدیوں کے لیے سیاسی گفتگو پر پابندی کو کالعدم قرار دینے کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سنگل بنچ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل دائر کر دی گئی ہے۔ چیف کمشنر اسلام آباد نے جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے انٹراکورٹ اپیل میں اس حکم کو آئین سے متصادم قرار دینے کی استدعا کی ہے۔ انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کل ہوگی جس کی سربراہی چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز کریں گے۔ چیف کمشنر اسلام آباد نے اپیل میں سنگل بنچ کے فیصلے پر حکم امتناعی کی درخواست بھی کی ہے اور یہ موقف اختیار کیا ہے کہ حتمی فیصلے تک اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے۔ جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان نے اپنے فیصلے میں جیل میں قیدیوں کی ملاقاتوں میں سیاسی گفتگو پر پابندی کو غیر آئینی قرار دیا تھا، جسے اب چیف کمشنر اسلام آباد کی جانب سے شیر افضل مروت اور دیگر کو فریق بناتے ہوئے اپیل میں چیلنج کیا گیا ہے۔
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں آئینی اور عمومی بینچز کے دائرہ اختیار پر سوالات اس وقت سامنے آئے جب جی ایچ کیو کے نیشنل لاجسٹک سیل (این ایل سی) نے آئینی تشریح کا معاملہ اٹھاتے ہوئے ایک درخواست جمع کرائی۔ یہ معاملہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ کے سامنے زیر سماعت تھا، جس نے این ایل سی انتظامیہ کے خلاف 50 درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق این ایل سی کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ چونکہ اس کیس میں آئین کے آرٹیکل 240، 260، اور 212 کی تشریح شامل ہے، اس لیے معاملے کو آئینی بینچ کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے تھا۔ تاہم، جسٹس شاہ کے دو رکنی بینچ نے درخواست گزار کے وکیل، راجہ سیف الرحمٰن کی اس اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کر لیا۔ یہ معاملہ این ایل سی کی اس اپیل کے گرد گھومتا ہے جس میں فیڈرل سروس ٹریبونل (ایف ایس ٹی) کے اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا جس کے تحت این ایل سی ملازمین کو سول سرونٹس کا درجہ دیا گیا۔ درخواست میں کہا گیا کہ ایف ایس ٹی نے آئینی آرٹیکل 240 اور 242 کو مدنظر رکھے بغیر ملازمین کو سول سرونٹ قرار دیا، جو کہ ایک غلط تشریح تھی۔ درخواست میں کہا گیا کہ 26ویں آئینی ترمیم کے تحت آئین کے آرٹیکل 191-اے (4) کا اطلاق ہوتا ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ میں زیر التوا تمام اپیلیں فوری طور پر آئینی بینچ کو منتقل ہو جاتی ہیں۔ مزید کہا گیا کہ "26ویں ترمیم، قانون کے طے شدہ اصولوں، اور ایف ایس ٹی کی جانب سے آرٹیکل 212، 260، 240، اور 242 کی غلط تشریح کو مدنظر رکھتے ہوئے، حتمی فیصلہ سنانے سے گریز کیا جائے اور معاملے کو آئینی بینچ کے سامنے دوبارہ سماعت کے لیے پیش کیا جائے۔" یہ بھی ذکر کیا گیا کہ حکومت نے حال ہی میں سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ میں ترمیم کی ہے۔ اس کے سیکشن 2-اے کے تحت اگر کسی معاملے میں یہ سوال پیدا ہو کہ آیا اسے آئینی بینچ کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے، تو آرٹیکل 191-اے کی شق 4 کے تحت تشکیل شدہ کمیٹی ایک واضح حکم کے ذریعے اس کا تعین کرے گی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے درخواست پر فیصلہ محفوظ ہونے کے بعد، قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ آئینی تشریح کے حوالے سے اہم نظیر قائم کر سکتا ہے۔
لاہور ایئرپورٹ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے معروف بزنس مین اور سفائر انرجی آئی پی پی کے مالک شاہد عبداللہ کو بیرون ملک روانہ ہونے سے روک دیا۔ ذرائع کے مطابق شاہد عبداللہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل تھا، جس کے تحت انہیں دبئی جانے سے منع کیا گیا۔ ایف آئی اے امیگریشن حکام نے ان کے پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات اپنی تحویل میں لے لیے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق شاہد عبداللہ کے خلاف اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کے تحت ایک انکوائری جاری ہے، جس کی وجہ سے ان کا نام ای سی ایل میں شامل کیا گیا تھا۔ معروف کاروباری شخصیت کی بیرون ملک روانگی کو روکنے کے اس اقدام کو مختلف حلقوں میں خاصی توجہ حاصل ہوئی ہے۔ اس حوالے سے مزید تحقیقات جاری ہیں تاکہ قانونی کارروائی آگے بڑھائی جا سکے۔
لاہور پولیس نے تاوان کے لیے اغوا کے ایک ہائی پروفائل کیس میں کارروائی کرتے ہوئے اسپیشل برانچ کے ایک اہلکار سمیت تین افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔ پولیس نے مغوی کو بحفاظت بازیاب کروا کر تاوان کی رقم بھی برآمد کر لی۔ پولیس کے مطابق چند روز قبل دھرم پورہ انڈر پاس کے قریب سے نعیم ساجد کو گن پوائنٹ پر اغوا کیا گیا۔ نعیم کام سے واپسی پر اپنے گھر جا رہے تھے کہ چار افراد نے انہیں زبردستی اغوا کر لیا۔ ملزمان نے نعیم کو محمود بوٹی کے علاقے میں قید رکھا، جہاں اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اغوا کاروں نے 21 لاکھ روپے تاوان وصول کرنے کے بعد مغوی کو ویلنشیا ٹاؤن کے علاقے میں چھوڑ دیا۔ گرفتار ہونے والے ملزمان میں وقاص، نعمان، محسن اور اسپیشل برانچ کے ایک اہلکار شامل ہیں۔ پولیس نے ان کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے مزید تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تاکہ اس گروہ کے دیگر ممکنہ ساتھیوں کو بھی گرفتار کیا جا سکے۔ یہ واقعہ قانون نافذ کرنے والے اداروں میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔ شہریوں نے اغوا میں ملوث افراد کی فوری گرفتاری پر پولیس کی کارروائی کو سراہا ہے۔
اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداوار کے اجلاس میں وفاقی وزیر رانا تنویر حسین نے یوٹیلیٹی اسٹور کارپوریشن میں بڑے پیمانے پر بے ضابطہ بھرتیوں کا انکشاف کیا۔ وفاقی وزیر نے بتایا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کے 11 ہزار ملازمین میں سے 3 ہزار ملازمین سابق وزیر اعلیٰ پنجاب منظور وٹو کے دور میں صرف تحصیل دیپالپور سے بھرتی کیے گئے تھے۔ یہ اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں کمیٹی کے چیئرمین عون عباس کی زیر صدارت منعقد ہوا، جس میں وزارت صنعت و پیداوار کی رائٹ سائزنگ کے منصوبے پر گفتگو کی گئی۔ کمیٹی چیئرمین نے سوال کیا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کے ملازمین کی موجودہ صورتحال کیا ہے۔ اس پر رانا تنویر نے وضاحت کی کہ یوٹیلیٹی اسٹورز میں 5 ہزار مستقل ملازمین ہیں، جنہیں برخاست نہیں کیا جائے گا، جبکہ 6 ہزار ڈیلی ویجز ملازمین بھی کام کر رہے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے دریافت کیا کہ دیپالپور سے اتنی بڑی تعداد میں بھرتیاں کس نے کیں؟ جواب میں رانا تنویر نے بتایا کہ یہ بھرتیاں منظور وٹو کے دور وزارت اعلیٰ میں کی گئیں۔ وزارت صنعت و پیداوار کے حکام نے بتایا کہ وزارت کے تحت 29 ذیلی ادارے کام کر رہے ہیں، جن میں سے 5 اداروں کو نجکاری کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ حکام نے مزید کہا کہ کچھ اداروں کو ضم کیا جا رہا ہے تاکہ حکومت پر ان کا بوجھ کم کیا جا سکے۔ رانا تنویر نے انکشاف کیا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن کی بندش کی تجاویز پر وزارت نے مخالفت کی تھی۔ تاہم، اگست میں اس ادارے کو نجکاری فہرست میں شامل کیا گیا اور نجکاری کمیشن نے اس عمل کے لیے فنانشل ایڈوائزر بھی ہائر کر لیا ہے۔ وزیر کے مطابق، ملک بھر کے 4300 یوٹیلیٹی اسٹورز میں سے 2400 نقصان میں چل رہے ہیں، جن میں بلوچستان اور گلگت بلتستان کے اسٹورز بھی شامل ہیں۔
وزارت داخلہ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو ایک خط کے ذریعے ہدایت دی ہے کہ ملک میں غیر قانونی وی پی اینز (ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس) کو فوری طور پر بند کرنے کے اقدامات کیے جائیں۔ وزارت داخلہ کے مطابق، وی پی اینز کا غیر مجاز استعمال نہ صرف سیکیورٹی کے لیے خطرہ ہے بلکہ اسے مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گرد وی پی اینز کے ذریعے اپنی شناخت چھپاتے ہیں، غیر قانونی بینکنگ ٹرانزیکشنز کرتے ہیں، اور دہشت گردی سے جڑے منصوبوں میں مدد لیتے ہیں۔ مزید برآں، وزارت داخلہ نے نشاندہی کی کہ وی پی اینز کو فحش اور توہین آمیز مواد تک رسائی کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے، جو سماجی اقدار اور قوانین کے خلاف ہے۔ خط میں پی ٹی اے سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ غیر قانونی وی پی اینز کو بلاک کرنے کے لیے فوری اور مؤثر حکمت عملی اپنائے تاکہ ملک میں انٹرنیٹ کے محفوظ اور ذمہ دارانہ استعمال کو یقینی بنایا جا سکے۔
پاکستان میں محکمہ پاسپورٹ کی فیس میں اضافہ، 50 ارب روپے سے زائد کا ریونیو جمع پاکستان میں محکمہ پاسپورٹ نے حالیہ دنوں میں پاسپورٹ فیس میں اضافہ کیا ہے، جس کے بعد اس محکمے کو ایک "پیسہ چھاپنے والی مشین" کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے۔ نئی فیس پالیسی کے تحت، محکمہ پاسپورٹ نے 50 ارب روپے سے زائد کا ریونیو اکٹھا کیا ہے، جو کہ ایک بڑا مالی اضافہ سمجھا جا رہا ہے۔ محکمہ پاسپورٹ نے اپنے مختلف خدمات کے لیے فیسوں میں اضافہ کیا ہے، جس کا مقصد سرکاری خزانے میں اضافی آمدنی فراہم کرنا ہے۔ اس فیصلے کے بعد، عوام کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا ہے، کیونکہ عام شہریوں کا کہنا ہے کہ یہ فیسیں غیر معقول اور بوجھل ہیں۔ محکمہ پاسپورٹ کی جانب سے اکھٹا ہونے والا یہ ریونیو بنیادی طور پر نئے پاسپورٹ کی فیس، تجدید، اور دیگر متعلقہ خدمات سے آیا ہے۔ یہ ریونیو حکومت کے لیے ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ ان اضافی فیسوں سے سفر کرنا مزید مشکل ہو جائے گا۔ حکومت نے اس اضافے کو اہمیت دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قدم ملک کے اقتصادی حالات کے پیش نظر ضروری تھا، لیکن عوامی ردعمل نے اس پر سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ محکمہ پاسپورٹ کی فیس میں اضافے سے نہ صرف غریب بلکہ متوسط طبقہ بھی متاثر ہوگا۔ مجموعی طور پر یہ معاملہ سرکاری پالیسی اور عوامی سہولت کے درمیان ایک توازن تلاش کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔
لندن میں وزیر دفاع خواجہ آصف کے ساتھ پیش آنے والے واقعے پر حکومت پاکستان نے سخت نوٹس لیا ہے۔ پاکستانی حکام نے لندن میں موجود پاکستانی ہائی کمیشن کو برٹش ٹرانسپورٹ پولیس سے رابطہ کر کے معاملے کی تفصیلات جاننے اور تحقیقات کروانے کی ہدایت دی ہے۔ ذرائع کے مطابق، یہ واقعہ منگل کے روز ہیتھرو ایئرپورٹ کے قریب پیش آیا، جہاں ایک نامعلوم شخص نے وزیر دفاع کو نہ صرف گالیاں دیں بلکہ چاقو حملے کی دھمکی بھی دی۔ واقعے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد پاکستانی حکام نے اسے سنجیدگی سے لیا ہے اور ہائی کمیشن کو ضروری اقدامات اٹھانے کا کہا ہے۔ واضح رہے کہ خواجہ آصف ان دنوں لندن میں موجود ہیں جہاں ان کی سابق وزیر اعظم نواز شریف اور مریم نواز سے ملاقات بھی متوقع ہے۔
فیصل آباد میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے گودام سے سگریٹ کے سیکڑوں کاٹن چوری ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ ایف بی آر حکام کے مطابق، گودام میں غیر ادا شدہ ایکسائز ڈیوٹی اور اسمگل شدہ سگریٹ کا اسٹاک محفوظ کیا گیا تھا، جس کے اچانک غائب ہونے پر تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ ایف بی آر نے اس معاملے کی مکمل جانچ کے لیے ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دی ہے جو چوری کے اصل محرکات اور ملوث افراد کا پتہ لگانے کی کوشش کرے گی۔ ذرائع کے مطابق، گودام کی نگرانی پر مامور دو اہلکاروں کو چوری میں ملوث ہونے کے شبے میں حراست میں لے لیا گیا ہے اور ان سے مزید تفتیش جاری ہے۔ مزید تحقیقات سے معلوم ہوگا کہ آیا اس چوری میں کوئی اور عوامل بھی شامل ہیں یا یہ صرف داخلی غفلت کا نتیجہ ہے۔ ایف بی آر کے گودام سے سگریٹ کی یہ چوری ایک سنگین معاملہ تصور کیا جا رہا ہے، جس پر جلد از جلد کارروائی کی توقع ہے۔
اسلام آباد: پاکستان میں چینی منصوبوں پر کام کرنے والے شہریوں کی حفاظت کے لیے بیجنگ نے اپنی سیکیورٹی فورسز تعینات کرنے پر زور دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق، کراچی میں حالیہ بم دھماکے کے بعد چین نے پاکستان سے اپنے شہریوں کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے مشترکہ سیکیورٹی مینجمنٹ سسٹم کے قیام کا مطالبہ کیا ہے۔ رائٹرز کے مطابق، پاکستان میں چینی شہریوں پر حملے کے بعد بیجنگ کی ناراضی میں اضافہ ہوا ہے۔ پانچ پاکستانی سیکیورٹی اور حکومتی ذرائع نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ چین چاہتا ہے کہ پاکستان میں موجود چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے چینی اہلکاروں کو تعینات کرنے کی اجازت دی جائے، مگر پاکستان نے اس مطالبے پر اتفاق نہیں کیا۔ یہ مطالبہ اس وقت سامنے آیا جب کراچی میں ایک کار بم دھماکے میں دو چینی انجینیئرز ہلاک ہوگئے، جو تھائی لینڈ میں چھٹی گزار کر سی پیک منصوبے پر واپس آرہے تھے۔ ذرائع کے مطابق چین نے پاکستان کے ساتھ مشترکہ سیکیورٹی نظام کے قیام کے لیے باقاعدہ مذاکرات کی تجویز دی ہے۔ اس حوالے سے ایک تحریری تجاویز اسلام آباد کو بھیجی گئی ہے، جس میں یہ شرط شامل ہے کہ دہشت گردی کے واقعات سے نمٹنے کے لیے دونوں ممالک ایک دوسرے کی سرزمین پر مشترکہ کاروائیاں بھی کرسکیں گے۔ تاہم پاکستانی حکام نے اس شرط کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے چین سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ براہ راست شمولیت کی بجائے انٹیلیجنس اور نگرانی کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرے۔ دونوں ممالک نے متفقہ طور پر ایک مشترکہ حکمت عملی ترتیب دینے کی ضرورت کو تسلیم کیا ہے، لیکن پاکستان نے چینی سیکیورٹی اہلکاروں کی زمینی سیکیورٹی میں شمولیت پر اب تک کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ چین کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس حوالے سے باضابطہ مذاکرات سے لاعلمی کا اظہار کیا، مگر کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ تعاون مضبوط کرنے اور اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے مشترکہ کوششیں جاری رکھے گا۔ ادھر پاکستانی وزارت داخلہ نے اس معاملے پر تبصرے سے انکار کر دیا ہے۔ کراچی ایئرپورٹ کے قریب ایک حملے میں سیکیورٹی کے سنگین نقائص سامنے آئے ہیں، جس میں دھماکے کے لیے 100 کلوگرام بارود سے بھری گاڑی کو تقریباً 40 منٹ تک بغیر کسی چیکنگ کے باہر ہی کھڑا رہنے دیا گیا۔ بعد میں یہ گاڑی چینی انجینیئرز کے قافلے سے ٹکرا دی گئی۔ اس حملے کو چینی وزیراعظم لی کیانگ کے پاکستان دورے سے صرف ایک ہفتہ قبل پیش آنے والے ایک سنگین سیکیورٹی نقض کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں ممکنہ طور پر اندرونی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ حملہ آوروں کو انجینیئرز کے روٹ اور سفر کے بارے میں معلومات حاصل تھیں، جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ حملہ اندرونی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ چین نے اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے پاکستان کی کوششوں کی عوامی طور پر حمایت کی ہے، لیکن اندرونی سطح پر مایوسی کا اظہار بھی کیا ہے۔ حالیہ اجلاسوں میں چین نے پاکستان کے سامنے اس بات کا ثبوت پیش کیا کہ حالیہ چند مہینوں میں پاکستان نے کئی مرتبہ متفقہ سیکیورٹی پروٹوکولز کی خلاف ورزی کی۔ پاکستانی حکام نے تسلیم کیا کہ چین کی طرف سے مسلسل دباؤ موجود ہے۔ پاکستان میں سی پیک منصوبوں پر کام کرنے والے چینی باشندے اکثر بلوچ علیحدگی پسند گروہوں کا نشانہ بنتے ہیں، جو بیجنگ کو پاکستان کے ساتھ مل کر بلوچستان کے وسائل کے استحصال کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان جاری مذاکرات میں ایک نئی حفاظتی حکمت عملی کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے، جس سے دونوں ممالک کے شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے اور دہشت گردانہ حملوں کو مؤثر طور پر روکا جا سکے۔
پنجاب حکومت نے اسموگ کی شدت میں اضافے کو روکنے کیلئے نئی حکمت عملی تیار کرنی شروع کردی ہے، اس حکمت عملی میں دیگر تجاویز کے ساتھ ساتھ نومبر سے جنوری تک شادیوں پر بھی پابندی عائد کرنے کی تجویز پر غور کیا جارہا ہے۔ لاہور ہائیکورٹ نے حکومت پنجاب کو اسموگ کے بڑھتے ہوئے مسئلے پر قابو پانے کے لیے ایک جامع اور مستقل 10 سالہ پالیسی تیار کرنے کی ہدایت کی ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ اسموگ کو طویل مدتی بنیادوں پر کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کو مزید موثر اور مربوط بنانا ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ہی حکومت پنجاب نے اسموگ کی شدت میں اضافے کو روکنے کے لیے نومبر، دسمبر اور جنوری کے مہینوں میں شادیوں کی تقریبات پر پابندی کی پالیسی تیار کرنے کا بھی عندیہ دیا۔ لاہور ہائیکورٹ میں اسموگ سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس شاہد کریم نے کہا کہ حکومت پنجاب نے اس مسئلے پر پہلے کی نسبت بہتر اقدامات کیے ہیں، لیکن اسموگ کے مسئلے کا حل ایک مستقل پالیسی کی صورت میں ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر اس سال ستمبر میں اسموگ نظر آنا شروع ہوئی ہے تو اگلے سال یہ اگست میں بھی پہنچ سکتی ہے، جس پر وفاقی حکومت کو بھی اس معاملے میں شامل ہونا پڑے گا۔ جسٹس شاہد کریم نے لاہور میں جاری بڑے تعمیراتی منصوبوں کے بارے میں بھی خبردار کیا اور کہا کہ اسموگ کے موسم میں کسی قسم کی تعمیراتی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے استفسار کیا کہ حکومت کی اسپیڈو بسوں سے کتنا دھواں خارج ہو رہا ہے اور کیا اس پر کوئی کنٹرول کیا جا رہا ہے؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ جو گاڑیاں دھواں چھوڑیں گی، ان کو سڑک پر نہیں آنے دیا جائے گا۔ عدالت نے مزید کہا کہ اس وقت جو اسموگ لاہور میں موجود ہے، وہ جنوری تک برقرار رہ سکتی ہے اور حکومت کو اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ عدالت نے اس حوالے سے حکومت کے سامنے تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 16 نومبر تک ملتوی کر دی۔ اس دوران ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے ایک نئی پالیسی تیار کی ہے جس کے تحت اگلے سال نومبر، دسمبر اور جنوری میں شادی ہالز کو بند کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاکہ فضائی آلودگی اور اسموگ کی شدت میں کمی لائی جا سکے۔ جسٹس شاہد کریم نے اس تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس کے علاوہ دیگر اقدامات بھی کر سکتی ہے، جیسے کہ صرف ایک شادی کی تقریب منعقد کرنے کی پالیسی پر غور کیا جائے تاکہ معاشرتی تقسیم میں بھی کمی آئے۔ اسی دوران وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ موٹر وے پولیس نے اس مہینے میں اسموگ کے باعث 18 ہزار سے زائد چالان کیے اور 45 ملین روپے کے جرمانے عائد کیے ہیں۔ تاجر برادری کے وکیل نے مال روڈ پر دکانوں کو رات دیر تک کھلا رکھنے کی اجازت دینے کی استدعا کی، جس پر عدالت نے کہا کہ اس وقت ایمرجنسی کی صورت حال ہے اور پوری دنیا میں دکانیں شام 5 بجے بند ہو جاتی ہیں۔ دوسری جانب لاہور سمیت پنجاب بھر میں اسموگ کی شدت برقرار ہے، اور لاہور کے ایئرکوالٹی انڈیکس نے 700 پوائنٹس کا ریکارڈ توڑتے ہوئے دنیا کے سب سے آلودہ شہروں میں پہلی پوزیشن حاصل کی ہے۔ اسموگ کی وجہ سے موٹر وے کے مختلف سیکشنز کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے اور اسکولوں میں تدریسی عمل 12ویں جماعت تک آن لائن منتقل کر دیا گیا ہے۔ محکمہ ماحولیات نے تمام سرکاری محکموں کو اسموگ کے اثرات کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ہدایت کی ہے، جن میں کار پولنگ اور ورک فرام ہوم کے طریقہ کار کو اپنانا شامل ہے۔ اسموگ کی اس سنگین صورتحال میں حکومت اور عدالت دونوں کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ فوری اور طویل مدتی بنیادوں پر اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کریں۔
پنجاب پولیس کا نیا اسکینڈل: 171 کانسٹیبلز کی بھرتیوں کے ریکارڈ میں غفلت، آڈیٹر جنرل کی رپورٹ نے پردہ فاش کر دیا لاہور: پنجاب پولیس کی ایک اور مبینہ بدعنوانی کا راز آڈیٹر جنرل کی رپورٹ 2023-24 میں بے نقاب ہو گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق 171 کانسٹیبلز کی بھرتیوں کے ریکارڈ کو چھپایا گیا، جس سے بھرتی کے عمل میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کی روشنی میں یہ معاملہ پنجاب اسمبلی میں پیش کر دیا گیا ہے۔ آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈی پی او ننکانہ صاحب نے 171 کانسٹیبلز اور لیڈی کانسٹیبلز کی بھرتیوں کا ریکارڈ فراہم نہیں کیا۔ یہ بھرتیاں بی پی ایس 07 کے اسکیل پر کی گئی تھیں، لیکن ان کا ریکارڈ دفتر میں نہ تو موجود ہے اور نہ ہی آڈیٹر کے حوالے کیا گیا۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اس غفلت کی وجہ سے بھرتیوں کے عمل میں سنگین بے قاعدگیاں اور شکوک و شبہات پیدا ہوئے ہیں۔ آڈیٹر جنرل نے نشاندہی کی ہے کہ کمزور انتظامی نگرانی اور داخلی کنٹرول کی کمی کی وجہ سے یہ خرابی سامنے آئی ہے، جو پولیس کے بھرتی کے عمل پر سوالات اٹھاتی ہے۔ اس اسکینڈل کے سامنے آنے کے بعد پنجاب حکومت اور پولیس انتظامیہ پر مزید دباؤ بڑھ گیا ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات کر کے اس میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کریں۔ یہ رپورٹ نہ صرف پولیس کے اندرونی انتظامی مسائل کو اجاگر کرتی ہے بلکہ اس کے ذریعے پنجاب حکومت کے اس اہم شعبے میں شفافیت کی ضرورت کو بھی واضح کرتی ہے۔ رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد، اپوزیشن نے پنجاب حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ اس اسکینڈل کی تحقیقات جلد از جلد مکمل کی جائیں تاکہ اصل حقائق سامنے آ سکیں اور قصورواروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔

Back
Top