خبریں

معاشرتی مسائل

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None

طنز و مزاح

Threads
0
Messages
0
Threads
0
Messages
0
None
سندھ کے علاقے تھرپارکر کے گاؤں پبھوہار میں ایک درخت سے دو بہنوں کی لٹکی ہوئی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ تھرپارکر کے علاقے پبھوہار میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا، جہاں درخت سے دو بہنوں کی لٹکی ہوئی لاشیں ملی ہیں۔ پولیس کے مطابق ان کی شناخت 14 سالہ وینتی اور 16 سالہ ہیماوتی کے نام سے ہوئی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں بہنوں کی لاشیں درخت سے لٹکی ہوئی تھیں اور واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں۔ اس حوالے سے مزید معلومات اکھٹی کی جا رہی ہیں تاکہ واقعہ کی اصل وجوہات کا پتہ چل سکے۔ پولیس نے کیس کی مزید تفتیش شروع کر دی ہے اور عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر کسی کے پاس اس واقعہ سے متعلق معلومات ہوں تو وہ پولیس سے رابطہ کریں۔
سربراہ آئینی بینچ جسٹس امین الدین خان نے سپریم کورٹ میں آئینی مقدمات کی سماعت کے لیے مقدمات کا تعین، بینچ فکسنگ کمیٹی اور ہائیکورٹ کے کیسز سمیت دیگر اہم اقدامات کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ آئینی مقدمات کے حوالے سے ہونے والے اجلاس میں آرٹیکل 191 (اے) کے تحت مقدمات کی کلرکوڈنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق، اجلاس جسٹس امین الدین خان کے چیمبر میں منعقد ہوا جس میں رجسٹرار سپریم کورٹ سلیم خان سمیت دیگر اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔ اجلاس میں آئینی مقدمات بشمول بنیادی حقوق کے مقدمات کے لیے موجودہ طریقہ کار اور آئندہ کا لائحہ عمل پیش کیا گیا۔ اجلاس میں سینئر ریسرچ افسر مظہر علی خان کو آرٹیکل 199 کے تحت مقدمات کی جانچ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اس کے علاوہ، آئینی مقدمات کی سماعت اور بینچز کی تشکیل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، جس میں جسٹس امین الدین خان اور دو سینئر ججز شامل ہوں گے۔ اجلاس میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ آئینی بینچز کمیٹی کا ایک رکن بیرون ملک ہونے کے باعث فی الحال دستیاب نہیں، اس لیے آئندہ اجلاس کمیٹی کے ارکان کی مکمل دستیابی پر بلایا جائے گا۔ واضح رہے کہ 5 نومبر کو چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کی سربراہی میں ہونے والے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے اجلاس میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔ اس اجلاس میں آئینی بینچز کے لیے ججز کی نامزدگی پر غور کیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان کی تقرری کے حق میں 12 رکنی کمیشن کے 7 ارکان نے ووٹ دیا تھا جبکہ 5 ارکان نے مخالفت کی تھی۔ چیف جسٹس نے آئینی بینچ کے لیے مخصوص مدت کے تعین کا بھی مشورہ دیا تھا۔ اجلاس کے دوران 7 رکنی آئینی بینچ کی تشکیل کے حق میں ووٹنگ ہوئی، جس میں اکثریت نے بینچ کے قیام کی حمایت کی۔
پاکستان میں ٹوئٹر پر 216 دنوں سے جاری پابندی پر سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کے بیٹے عواب علوی نے شدید ردعمل دیا ہے۔ عواب علوی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ٹوئٹر پر پابندی نہ صرف معلومات کے اہم ذرائع کو محدود کر رہی ہے بلکہ اس کا مقصد عوامی آوازوں کو خاموش کرنا ہے۔ عواب علوی نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ پاکستانی حکومت نے یہ پابندی لگا کر عالمی سطح پر خبروں کے ایک اہم ذریعے سے خود کو الگ کر لیا ہے، جبکہ دلچسپ بات یہ ہے کہ مقامی میڈیا بھی بریکنگ نیوز کے لیے ٹوئٹر پر انحصار کرتا ہے۔ ان کے مطابق، اس پابندی سے ملک کی معاشی صورتحال پر بھی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، پاکستان کو ٹوئٹر پر پابندی سے 911 ملین ڈالر (تقریباً 262 ارب روپے) کا نقصان ہو چکا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کی پالیسیاں، جو ترقی کی بجائے زوال کی طرف لے جا رہی ہیں، پاکستان کی میڈیا انڈسٹری کے مستقبل کے لیے خطرہ بن سکتی ہیں۔ عواب علوی نے یہ بھی نشاندہی کی کہ روایتی میڈیا اپنی اثرپذیری کھو رہا ہے جبکہ سوشل میڈیا جدید معلومات اور خبروں کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بن چکا ہے۔ عواب علوی نے ٹوئٹر کے مالک ایلون مسک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کیسے انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں ٹوئٹر کو استعمال کیا جبکہ روایتی میڈیا پرانے خیالات میں الجھا رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستانی حکومت جدید مواصلات کے طریقوں کو اپنانے کے بجائے روایتی میڈیا پر انحصار کرتی رہی، تو میڈیا کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
اسلام آباد: اسپیشل انویسٹمنٹ فیسلیٹیشن کونسل (SIFC) نے اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں موجود پرانی سرکاری رہائش گاہوں کی جگہ بلند و بالا عمارتیں تعمیر کرنے کے منصوبے پر کام شروع کر دیا ہے، جس سے قومی خزانے میں اربوں روپے کی آمدنی متوقع ہے۔ ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے سیکٹرز F-6، G-6 اور G-7 میں ایک منزلہ سرکاری رہائش گاہیں واقع ہیں۔ ان میں سے F-6 میں اعلیٰ سرکاری افسران کے لیے کشادہ مکانات موجود ہیں جن میں خدام کے کوارٹرز بھی شامل ہیں۔ حکومتی عہدیداروں کے مطابق اگر ان ایک منزلہ رہائش گاہوں کو مسمار کر کے بلند و بالا عمارتیں تعمیر کی جائیں تو زمین کا وسیع حصہ بچایا جا سکتا ہے، جس سے اسلام آباد کی زمینوں کا موثر استعمال ممکن ہوگا۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق صرف G-6/1 کے ایک ذیلی سیکٹر میں 86 ایکڑ زمین پر سرکاری رہائش گاہیں تعمیر کی گئی ہیں، جبکہ ان عمارتوں کو عمودی تعمیرات کے ذریعے نو ایکڑ میں سمیٹا جا سکتا ہے، جس سے 77 ایکڑ قیمتی زمین آزاد ہو گی جس کی مالیت 52 ارب روپے سے زائد ہے۔ یہ معاملہ پچھلے دو دہائیوں سے زیر بحث رہا، تاہم اس پر ابھی تک کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا۔ گزشتہ ہفتے SIFC نے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (CDA) سے اس معاملے پر رائے طلب کی، خصوصاً G-6/1 کے حوالے سے۔ ذرائع کے مطابق، پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس (PIDE) کے ایک تحقیقی مضمون "ڈیڈ کیپیٹل" نے SIFC کی توجہ حاصل کی۔ لہذا، CDA سے اس معاملے پر تفصیلی رائے مانگی گئی ہے۔ PIDE کی تحقیق کے مطابق اسلام آباد میں 86 ایکڑ زمین پر واقع سرکاری رہائش گاہوں کو چھ بلند و بالا عمارتوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے جس سے 77 ایکڑ زمین آزاد ہوگی، اور 55.2 ارب روپے کی آمدنی متوقع ہے جبکہ ملکی جی ڈی پی میں 0.09 فیصد اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ SIFC کے مراسلے میں کہا گیا ہے کہ "ریاستی زمین کا موثر انتظام شہری ضروریات کو پورا کرنے اور شہر کی ترقی کے لیے ضروری ہے۔ غیر استعمال شدہ زمین مالی بوجھ بن جاتی ہے اور معاشی امکانات کو محدود کرتی ہے۔ پاکستان میں شہری مراکز کے قریب بڑی مقدار میں زمین ہے جو غیر موثر طور پر استعمال ہو رہی ہے۔" ذرائع کے مطابق، SIFC کا منصوبہ ابتدائی مراحل میں ہے اور CDA کی جانب سے رائے موصول ہونے کے بعد مزید کارروائی کی جائے گی۔
اسلام آباد: پاکستان نے چین سے 3.4 ارب ڈالر کے قرضے کی واپسی میں دو سال کی توسیع کی درخواست کی ہے۔ یہ قرضہ آئی ایم ایف پروگرام کے دوران میچور ہو رہا ہے اور اس کی ری شیڈولنگ پاکستان کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے قبل پاکستان چین سے 16 ارب ڈالر کے انرجی قرضے کی ری شیڈولنگ کی درخواست بھی کر چکا ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق سامنے آئی ہے، جنہوں نے بتایا کہ اس قرضے کی ری شیڈولنگ کا مقصد پانچ ارب ڈالر کے بیرونی فنانسنگ خسارے کو پورا کرنا ہے، جس کا ذکر آئی ایم ایف نے ستمبر 2024 میں اپنے پیکیج پر دستخط کے دوران کیا تھا۔ اس قرضے کی ری شیڈولنگ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت قرض کی پائیداری کے حوالے سے بھی اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان نے چین کے ایکزیم بینک سے لیے گئے قرضے کی واپسی میں توسیع کی درخواست کی ہے، جو کہ سرکاری ضمانت پر لیا گیا تھا اور اس میں زیادہ تر رقم ریاستی ملکیتی اداروں نے حاصل کی تھی۔ پاکستان نے گزشتہ ڈیڑھ سال میں یہ دوسری بار چین سے اس قرضے کی مدت بڑھانے کی درخواست کی ہے۔ وزارت خزانہ کے ترجمان قمر عباسی نے اس سوال پر کوئی ردعمل نہیں دیا کہ آیا چین اس ری شیڈولنگ پر راضی ہو چکا ہے یا نہیں، تاہم ذرائع کے مطابق چین ہمیشہ خاموشی سے پاکستان کی مدد کرنے والا رہا ہے، اور اس بار بھی چین سے معاونت کی توقع کی جا رہی ہے۔ ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق، ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ چینی ایکزیم بینک کے قرضے کی میچورٹی 2024 کے اکتوبر سے 2027 کے ستمبر تک ہے۔ اس قرضے میں 75 کروڑ ڈالر کا حصہ رواں مالی سال میں میچور ہو رہا ہے، جس کی ری شیڈولنگ پاکستان اور آئی ایم ایف کے لیے انتہائی اہم ہے تاکہ یہ تصدیق کی جا سکے کہ سات ارب ڈالر کا پروگرام مکمل طور پر فنڈڈ ہے اور پاکستان کا قرضہ پائیدار رہنے کے قابل ہے۔ ذرائع کے مطابق، آئی ایم ایف کی ٹیم سوموار کو اسلام آباد پہنچے گی اور پانچ روزہ قیام کے دوران پروگرام کی اب تک کی کارکردگی اور پیشرفت کا جائزہ لے گی۔ آئی ایم ایف بورڈ کے شیڈول کے مطابق سات ارب ڈالر کے پروگرام کا پہلا جائزہ مارچ 2025 میں ہونا تھا، لیکن آئی ایم ایف ٹیم کا قبل از وقت دورہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سات ارب ڈالر کے پروگرام پر فریقین کی بات چیت میں کچھ خامیاں ہو سکتی ہیں۔ پاکستان کی جانب سے چین سے قرض کی ری شیڈولنگ کی یہ درخواست، آئی ایم ایف کے پروگرام کی کامیابی کے لیے اہمیت رکھتی ہے، اور اس سے پاکستان کی معاشی پوزیشن کی پائیداری کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کی جانب سے پی ٹی آئی کے گزشتہ ماہ کے احتجاج کے دوران 120 افغان باشندوں کو گرفتار کیے جانے سے متعلق دعوے پر اہم سوالات اٹھ گئے ہیں، اس دعوے کے حوالے سے نا صرف اسلام آباد پولیس بلکہ محسن نقوی کی اپنی وزارت داخلہ بھی کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کرسکی۔ اسلام آباد: وزیر داخلہ محسن نقوی کے دعوے پر سوالات اٹھ گئے ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کے دو روزہ احتجاج کے دوران گزشتہ ماہ 120 افغان شہریوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔ وزارت داخلہ اور اسلام آباد پولیس کے افسران ابھی تک اس دعوے کی تصدیق کے لیے کوئی ٹھوس شواہد فراہم نہیں کر سکے۔ پانچ اکتوبر کو وزیر داخلہ محسن نقوی نے اسلام آباد پولیس کے انسپکٹر جنرل علی ناصر رضوی کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کے دوران دعویٰ کیا تھا کہ 4 اکتوبر کو پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران 120 افغان شہریوں کو گرفتار کیا گیا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ کل رات جو جھڑپیں ہوئی ہیں، ان میں 120 افغان شہری گرفتار ہوئے ہیں، جو کہ ایک الارمنگ چیز ہے۔ محسن نقوی نے اسی دعوے کو اگلے دن ایک اور میڈیا بریفنگ میں دہرایا، لیکن ان دعووں کی تصدیق کے لیے وزارت داخلہ اور اسلام آباد پولیس کی جانب سے کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔ جیو فیکٹ چیک نے 7 اکتوبر سے 4 نومبر تک وزارت داخلہ اور اسلام آباد پولیس کے سینیئر حکام سے وزیر داخلہ کے دعوے کی تصدیق کے لیے متعدد بار رابطہ کیا، لیکن کسی بھی درخواست پر کوئی جواب نہیں ملا۔ 7 اکتوبر کو جیو فیکٹ چیک نے وزارتِ داخلہ کے ڈائریکٹر جنرل میڈیا قادریار ٹوانہ سے رابطہ کیا، تاہم انہوں نے اس معاملے کے حوالے سے اسلام آباد پولیس سے رابطہ کرنے کی ہدایت کی۔ اسی دن اسلام آباد پولیس کے ترجمان تقی جواد نے کہا کہ اس حوالے سے وزارت داخلہ سے رابطہ کیا جائے۔ تاہم، جب جیو فیکٹ چیک نے بار بار اس معاملے پر درخواست کی، تو تقی جواد نے صرف یہ کہا کہ گرفتار افغان شہریوں کا ڈیٹا عدالت میں پیش کرنے کے بعد شیئر کیا جائے گا، اور ان کا دعویٰ تھا کہ "سرکاری ادارہ کوئی بیان دیتا ہے تو وہ کسی بنیاد پر ہی دیتا ہے، ہم کوئی سیاسی لوگ نہیں ہیں کہ بے بنیاد بیان دے دیں۔" متعدد بار جیو فیکٹ چیک کی جانب سے کی جانے والی متعدد درخواستوں کا کوئی جواب نہیں آیا۔ 31 اکتوبر کو دوبارہ رابطہ کرنے پر تقی جواد نے کہا کہ "ڈیٹا صرف وزارتِ داخلہ جاری کر سکتی ہے" اور وزارت خارجہ سے رابطہ کرنے کی تجویز دی۔ جب جیو فیکٹ چیک نے وزارتِ داخلہ کے قادر یار ٹوانہ سے دوبارہ رابطہ کیا، تو ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیا۔ وزارت خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے بھی اس معاملے پر کوئی معلومات فراہم نہیں کیں۔ اسلام آباد پولیس کے سینیئر حکام، محمد ارسلان شہزاد (سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، آپریشنز) اور علی رضا (ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس، آپریشنز) کی جانب سے بھی جیو فیکٹ چیک کی درخواستوں کا کوئی جواب نہیں آیا۔ وزیر داخلہ کے دعوے کے باوجود، نہ تو وزارت داخلہ اور نہ ہی اسلام آباد پولیس اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویزی شواہد فراہم کر سکی ہیں۔ اس کے علاوہ، جیو فیکٹ چیک کی جانب سے متعدد بار رابطہ کرنے کے باوجود حکام نے اس معاملے میں مکمل طور پر خاموشی اختیار کی ہے۔ اب تک اس معاملے کی تحقیقات اور شواہد کی فراہمی کا انتظار کیا جا رہا ہے۔
جیکسن ٹریفک پولیس افسر کے دفتر میں بچوں سے زیادتی کرنے والا شخص ٹریفک پولیس کا ہی ایک اہلکار نکلا کراچی: کیماڑی پولیس افسر کے دفتر میں بچوں سے زیادتی کرنے کا ایک المناک معاملہ سامنے آیا ہے۔ ملزم ارسلان، جو ٹریفک پولیس کا اہلکار ہے، نے جیکسن ٹریفک پولیس افسر کے دفتر میں دو بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔ ذرائع کے مطابق متاثرہ بچے سلطان آباد کے رہائشی ہیں۔ اہلکار ارسلان نے بچوں کی ویڈیو بھی بنائی تھی۔ واقعے کا مقدمہ جیکسن تھانے میں درج ہے۔ ملزم ارسلان عدالت سے ضمانت مسترد ہونے کے بعد فرار ہوگیا تھا۔ متاثرہ خاندان کا کہنا ہے کہ ملزم ارسلان انہیں اب بھی سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہا ہے اور علاقے میں کھلے عام گھوم رہا ہے۔ پولیس کی کارروائی زیر سوال پولیس نے ایف آئی آر میں اہلکار ارسلان کی شناخت ظاہر نہیں کی۔ اس معاملے نے پولیس کی کارروائی کو زیر سوال کیا ہے۔ حکومت سے مطالبہ متاثرہ خاندان نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ملزم کو فوری گرفتار کیا جائے اور انہیں انصاف دلایا جائے۔
خیبرپختونخوا: محکمہ ایکسائز کے سابق افسران کے قبضے میں 70 سے زائد قیمتی سرکاری گاڑیاں موجود ہونے کا انکشاف ہوا ہے پشاور: خیبرپختونخوا میں محکمہ ایکسائز کے سابق افسران کے قبضے میں 70 سے زائد قیمتی سرکاری گاڑیاں ہونے کا انکشاف ہوا ہے، جس کے بعد محکمہ نے کارروائی کا آغاز کر دیا ہے۔ محکمہ ایکسائز کے ذرائع نے آج نیوز کو موصول ہونے والی دستاویزات میں بتایا ہے کہ سابق افسران نے ان گاڑیوں کو غیرقانونی طور پر اپنے ساتھ لے لیا ہے۔ دستاویزات کے مطابق، سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) عاطف الرحمٰن کے پاس تین، سابق سیکرٹری ایکسائز اسلام زیب کے پاس چار، سابق ڈی جی ثاقب رضا کے پاس تین، عادل شاہ کے پاس تین اور سابق سیکرٹری اقبال حیدر کے پاس چار گاڑیاں موجود ہیں۔ اسی طرح، سابق ڈی جی ایکسائز ظفر اسلام نے بھی تین گاڑیاں اپنے ساتھ لے رکھی ہیں۔ اس کے علاوہ، سابق افسران شاہ فہد، رفیق مہمند، محمد طاہر، عبدوالی منصور، ارشد مشرف مروت، یوسف کریم، سید مظہرعلی شاہ، عطاءالرحمٰن، ظاہر شاہ، محمد اکبر، نسیم خان، خالد مطیع اللہ، شاہ نواز، انعام گنڈاپور اور فضل الہیٰ نے بھی ایک ایک گاڑی اپنے قبضے میں رکھی ہوئی ہے۔ محکمہ ایکسائز نے ان گاڑیوں کی واپسی کے لیے کارروائی شروع کر دی ہے۔ اس سلسلے میں افسران کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور گاڑیاں واپس نہ کرنے کی صورت میں ریکوری کا عمل جاری رکھا جائے گا۔ محکمہ ایکسائز کے حکام نے واضح کیا ہے کہ اس عمل میں کسی قسم کی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی اور وزیراعلیٰ کے احکامات پر ہر صورت میں سرکاری گاڑیوں کی واپسی یقینی بنائی جائے گی۔ ایکسائز ذرائع نے یہ بھی انکشاف کیا کہ کچھ گاڑیاں چھاپے کے دوران پکڑی گئیں، تاہم اعلیٰ افسران کی مداخلت پر ان گاڑیوں کو واپس کر دیا گیا۔ اس وقت دو سرکاری گاڑیاں خصوصی اسکواڈ کی جانب سے پکڑ کر ویئر ہاؤس میں پارک کی گئی ہیں، جبکہ دیگر گاڑیوں کی ریکوری کا عمل جاری ہے۔
وفاقی حکومت کا ہائی کورٹ کے ججز کی تنخواہوں اور ہاؤس رینٹ الاؤنس میں اضافہ اسلام آباد: وفاقی حکومت نے ہائی کورٹ کے ججز کی تنخواہوں اور ہاؤس رینٹ الاؤنس میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے، جس کا نوٹیفکیشن وزارت قانون و انصاف نے جاری کر دیا ہے۔ یہ فیصلہ قائم مقام صدر سید یوسف رضا گیلانی کے دستخط سے کیا گیا ہے، جس کے تحت ہائی کورٹ کے ججوں کے ہاؤس رینٹ میں اضافہ کیا گیا ہے۔ نوٹیفکیشن کے مطابق، ہائی کورٹ کے ججز کا ہاؤس رینٹ 65 ہزار روپے سے بڑھا کر 3 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ کر دیا گیا ہے، جبکہ ججوں کا اعلیٰ عدالتی الاؤنس بھی 342,431 روپے سے بڑھا کر ایک کروڑ 90 ہزار روپے کر دیا گیا ہے۔ اس اضافے کے ساتھ ساتھ، ہائی کورٹس سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ اپنے ججز کے لیے "گاڑیوں کے حوالے سے ایک جامع پالیسی" تیار کریں جس میں ایندھن، دیکھ بھال، ڈرائیور کی خدمات اور بین بینچ سفر شامل ہو۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ اضافے کے بعد ہائی کورٹ کے جج کی مجموعی تنخواہ 20 لاکھ روپے سے تجاوز کر جائے گی، جو کہ ایک اہم مالی اضافہ ہے۔ اطلاعات کے مطابق، اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزارت قانون سے درخواست کی تھی کہ ججز کے ہاؤس رینٹ میں اضافہ کیا جائے، خاص طور پر اسلام آباد میں مکانات کے کرایوں میں اضافے کے بعد یہ اقدام ضروری ہو گیا تھا۔
اسلام آباد: وفاقی حکومت نے عارضی آسامیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وفاقی حکومت نے ملک بھر میں عارضی نوعیت کی تمام آسامیوں کو فوری طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزارت خزانہ کے مطابق، کابینہ ڈویژن کی جانب سے 3 ستمبر کو جاری کیے گئے سرکلر میں تمام وزارتوں اور ڈویژنوں کو ہدایت دی گئی تھی کہ عارضی آسامیوں کو بند کیا جائے۔ یاد رہے کہ 27 اگست 2024 کو کابینہ نے عارضی آسامیوں کو ختم کرنے سے متعلق اہم فیصلہ کیا تھا، جس پر اب عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لیے فنانس ڈویژن نے ایک آفیشل میمورنڈم جاری کیا ہے۔ اس میمورنڈم میں تمام وزارتوں اور محکموں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنے زیر انتظام اداروں میں کابینہ کے فیصلے پر مکمل عمل کریں۔ پاکستان میں مختلف سرکاری محکموں میں چوکیدار، مالی، سکیورٹی گارڈز اور نائب قاصد جیسی عارضی آسامیوں پر بھرتی کی جاتی ہے، جنہیں اب ختم کرنے کی پالیسی متعارف کرائی گئی ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق اس فیصلے کا مقصد سرکاری محکموں میں اضافی اخراجات کو کم کرنا اور وسائل کی مؤثر تقسیم کو یقینی بنانا ہے۔
ملک بھر میں دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی کارروائیاں، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں عسکریت پسندوں کا اثر و رسوخ مزید بڑھادیاہے۔ اسلام آباد: اکتوبر 2024 کے دوران ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات میں تشویشناک اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، خاص طور پر خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں جہاں عسکریت پسندوں کا اثر و رسوخ بڑھنے کی واضح علامات سامنے آئی ہیں۔ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز (پی آئی پی ایس) کی جانب سے جاری کردہ ماہانہ سیکیورٹی رپورٹ میں یہ اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، اکتوبر 2024 میں ملک بھر میں مجموعی طور پر 48 دہشت گرد حملے ہوئے، جن میں سب سے زیادہ حملے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ریکارڈ کیے گئے۔ خیبر پختونخوا میں 35 اور بلوچستان میں 9 حملے ہوئے، جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عسکریت پسند ان دونوں صوبوں کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں سرگرم ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ حملے جغرافیائی اور سماجی و سیاسی عوامل کی وجہ سے ان علاقوں میں آسانی سے کیے جا رہے ہیں، جہاں دہشت گردوں کو عوامی حمایت یا جنگی میدان میں سہولت مل سکتی ہے۔ سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی کے کچھ اہم لیکن محدود واقعات ہوئے، جن میں دونوں صوبوں میں 2،2 حملے شامل ہیں، جو عسکریت پسندوں کی جانب سے اپنے مضبوط گڑھوں سے باہر اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کو ظاہر کرتے ہیں۔ خاص طور پر، کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) کی جانب سے کراچی میں چینی شہریوں پر کیے جانے والے خودکش حملے نے پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کو نقصان پہنچانے کی سوچی سمجھی حکمت عملی کو اجاگر کیا ہے۔ اسی طرح، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گرد بلوچستان کے پختون بیلٹ اور پنجاب کے ملحقہ اضلاع میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کی اس لہر کے باوجود، سیکیورٹی فورسز کی جانب سے سخت ردعمل بھی سامنے آیا ہے، جس کے نتیجے میں 15 مختلف اضلاع میں 84 عسکریت پسندوں کی ہلاکت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے اقدامات اور حکمت عملی فعال ہیں۔ اکتوبر 2024 میں مجموعی طور پر 100 افراد ہلاک ہوئے، جن میں 52 سیکیورٹی اہلکار، 36 عام شہری اور 12 عسکریت پسند شامل ہیں۔ ستمبر میں ہونے والے حملوں کے نتیجے میں 54 افراد کی ہلاکت ہوئی تھی۔ خیبر پختونخوا میں ہونے والے 35 حملوں میں بنوں، کرم، ڈیرہ اسمٰعیل خان، شمالی وزیرستان اور اورکزئی جیسے علاقوں میں متعدد بڑے حملے شامل ہیں، جن میں 64 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں 49 سیکیورٹی اہلکار تھے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے 9 واقعات کے دوران 30 افراد کی ہلاکت ہوئی، جن میں 21 کان کن شامل تھے، جو ڈوکی میں ہونے والے ایک حملے کے نتیجے میں جاں بحق ہوئے۔ بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے)، بلوچستان لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) اور دیگر بلوچ باغی گروہ صوبے میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں میں تیزی کے باوجود، سیکیورٹی فورسز نے مؤثر کارروائیاں کیں اور دہشت گردوں کی زیادہ تر کارروائیوں کو ناکام بنایا۔ ان حملوں کے باوجود، سیکیورٹی ادارے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دہشت گردی کی روک تھام کے اقدامات جاری رہیں تاکہ عوام کو مزید نقصان نہ پہنچ سکے۔
سینیٹ کمیٹی کا او لیول کی اردو کتاب میں پختونوں کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس پر سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔ اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم نے او لیول کی اردو کتاب میں پختونوں کے بارے میں توہین آمیز ریمارکس پر شدید تشویش اور ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر بشریٰ انجم بٹ کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں اس معاملے پر تفصیل سے گفتگو کی گئی، جس میں سینیٹر بلال احمد خان نے کتاب کی دستیابی پر مایوسی کا اظہار کیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس کتاب پر پابندی لگانے کے لیے قانونی کارروائی شروع کر دی گئی ہے، اور مصنف نے تحریری معافی بھی جمع کرا دی ہے۔ سینیٹر بلال احمد خان کے اعتراضات پر چیئرپرسن نے اس بات پر زور دیا کہ وفاقی حکومت کو تعلیمی مواد کی نگرانی میں فعال کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ اس قسم کے مواد کی اشاعت روکی جا سکے۔ سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے اجلاس میں کہا کہ اس طرح کے مواد سے نفرت انگیز تقاریر کی ترویج ہوتی ہے اور بچوں پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ انہوں نے سفارش کی کہ وزارت تعلیم تمام صوبوں کو اس کتاب کو واپس لینے کی ہدایت دے تاکہ آئندہ کسی بھی مصنف یا پبلشر کو منفی اور غیر مناسب مواد کی اشاعت کا خیال نہ آئے۔ کمیٹی نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مصنف کو اس معاملے کی وضاحت پیش کرنی چاہیے اور انہیں اگلے اجلاس میں جوابدہ ہونا چاہیے۔ سینیٹر بشریٰ انجم بٹ نے مزید کہا کہ اس اقدام سے دیگر مصنفین اور پبلشرز کے لیے ایک واضح پیغام جائے گا کہ اس طرح کے مواد کی اشاعت کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ یہ معاملہ سینیٹر بلال احمد خان نے 18 اکتوبر کو سینیٹ کے اجلاس میں اٹھایا تھا، جس کے بعد کمیٹی نے اس پر غور کرنے کا فیصلہ کیا۔
اسلام آباد – وزیراعظم شہباز شریف نے کابینہ اجلاس میں اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب اور قطر کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان سے آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کے شعبے کے لیے لاکھوں افراد کی ضرورت کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ سعودی عرب میں آئی ٹی سیکٹر کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان سے افرادی قوت کی فراہمی پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم نے سعودی ولی عہد سے ملاقات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ محمد بن سلمان نے پاکستان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور باہمی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے علاوہ، سعودی سرمایہ کاری ٹیم نے پاکستان میں سولر، معدنیات، زراعت اور دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ جلد ہی ایک پاکستانی وفد سعودی عرب روانہ ہوگا تاکہ مزید پیشرفت کی جا سکے۔ شہباز شریف نے اپنے دورہ قطر کے بارے میں بتایا کہ یہ بھی انتہائی کامیاب رہا۔ امیر قطر کے ساتھ ملاقات میں دونوں ممالک کے مابین معاشی تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔ وزیراعظم نے بتایا کہ قطر میں آئی ٹی پارک کے قیام کی تجویز پر بات چیت ہوئی ہے، جس سے پاکستان کے آئی ٹی ماہرین کو مزید مواقع فراہم ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی کی ٹیم بھی پاکستان کا دورہ کرے گی تاکہ مائننگ اور آئی ٹی سمیت مختلف شعبوں میں ممکنہ سرمایہ کاری کے منصوبے طے کیے جا سکیں۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ یہ دونوں دورے پاکستان کے لیے معاشی ترقی اور روزگار کے نئے مواقع کے دروازے کھولیں گے، خاص طور پر آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پاکستانی ماہرین کو عالمی سطح پر اپنی صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے گا۔
اسلام آباد: مشہور ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر کے ہنی ٹریپ اور اغوا برائے تاوان کے کیس میں 12 ملزمان کو عدالت نے گناہ گار قرار دے دیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق، انسداد دہشتگردی عدالت میں کیس کی سماعت جج منظرعلی گل کی سربراہی میں ہوئی، جہاں آمنہ عروج اور حسن شاہ سمیت دیگر ملزمان کو پیش کیا گیا۔ جوڈیشل ریمانڈ کی میعاد ختم ہونے پر ان ملزمان کو جیل سے عدالت لایا گیا۔ پولیس نے اس کیس کا چالان پراسیکیوشن میں جمع کروا دیا ہے، جس میں آمنہ اور حسن کے علاوہ 10 دیگر ملزمان کا ذکر کیا گیا ہے۔ تفتیشی افسر کے مطابق، مقدمے کی مزید سماعت کے بعد چالان عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ عدالت نے آمنہ اور دیگر ملزمان کے جوڈیشل ریمانڈ میں 14 دن کی توسیع کر دی ہے اور انہیں 9 نومبر کو دوبارہ پیش ہونے کا حکم دیا۔ یاد رہے کہ خلیل الرحمان قمر کو اغوا کرنے والی خاتون سمیت گینگ کے افراد کو پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ خلیل الرحمان نے بیان میں کہا کہ وہ بیماری کی وجہ سے رات میں ملاقاتیں کرتے ہیں۔ ڈی آئی جی عمران کشور نے بتایا کہ خلیل الرحمان کا موبائل ڈیٹا بازیافت کرنے کے بعد ملزمہ آمنہ کو گرفتار کیا گیا، جس نے باقی ملزمان تک پہنچنے میں مدد کی۔ بلیک میلنگ کے اس گروہ میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق، ملزمہ آمنہ گوجرانوالہ کی رہائشی ہے اور ہائی پروفائل افراد کو جھانسہ دے کر رقم بٹورنے کی سرگرمیوں میں ملوث تھی۔
پی انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کیلئے بولی کی تقریب آج منعقد کی گئی جس میں ایک کنسورشیم کی طرف سے توقع سے انتہائی کم بولی لگائے جانے پر ترجمان پی آئی اے نے اسے بدقسمتی قرار دے دیا ہے۔ ترجمان پی آئی اے عبداللہ حفیظ خان نے نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے پروگرام نیوز انسائٹ وِد عامر ضیاءمیں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے عمل سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں تاہم اتنی کم بولی آنا بدقسمتی ہے، پی آئی دے دنیا کے چند پرانے اداروں میں سے ایک منافع بخش ادارہ ہے۔ عبداللہ حفیظ کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کو ہولڈنگ کمپنی اور پی آئی اے سیل میں تبدیل کرنے کے بعد پچھلی 2 دہائیوں سے پی آئی اے کی بیلنس شیٹ پر موجود قرضہ جات جن کی وجہ سے ادارہ خسارے میں تھا وہ ختم کر دیئے گئے ہیں۔ پی آئی اے ایک بار پھر سے کلین کمپنی کے طور پر ابھری ہے اور اس وقت بھی آپریٹنگ سطح پر ایک منافع بخش ادارہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کے لندن ہیتھرو روٹ کی قدر 100 ملین ڈالر ہے جو 30 ارب روپے کے قریب بنتی ہے جس میں 33 جہاز، اثاثہ جات اور پراپرٹیز شامل ہیں۔ ادارے کے پاس 17اے 320طیارے ہیں جن میں سے کی قیمت 120 سے 150 ملین ڈالر کے قریب ہے، نئے A-320 جہاز کی قیمت 30 ارب روپے سے زائد ہے تو پرانے جہازوں کی قیمت تھوڑی کم ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ بولی میں کنفیوژن مائنڈسیٹ کے دوران ہوئی کیونکہ پی آئی اے بین الاقوامی ادارہ ہے جسے چلانے کیلئے بیرونی سرمایہ درکار ہوتا ہے لیکن غیرملکی سرمایہ کار اس سارے عمل سے دور رہے، جو آئے وہ کمپنی کی بکس اور اثاثوں کی پہچان نہیں کر سکے۔ نجکاری کمیشن کی کوشش تھی کہ دوست ملک ہم سے رابطہ کریں لیکن ابتدائی طور پر آنے والی 8 کمپنیوں میں کوئی بھی مغربی ملک یا غیرملکی کمپنی شامل نہیں تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں پھر نئے سرے سے کام شروع کرنا پڑے گا اور پھر سے شروع سے تیار کرنی پڑے گی، واضح رہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ پھر التوا کا شکار ہو گیا ہے جو موجودہ حکومت اور پالیسی سازوں کیلئے دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ نجکاری کے عمل میں واحد بولی دہندہ کمپنی بلیو ورلڈ نے قیمت 10 ارب روپے لگائی جو کم سے کم قابل قبول رقم 85 ارب روپے سے 75 ارب کم ہے۔ پی آئی اے کی طرف سے منظورشدہ دیگر 5 سرمایہ کاروں نے بولی میں حصہ نہیں لیا، پی آئی اے کی تقسیم کے بعد کھاتوں میں موجود کل اثاثہ جات کی مالیت 165 ارب ہے جس کے 60 فیصد حصص فروخت کیلئے پیش کیے گئے جن کی مالیت 99 ارب روپے ہے۔ پی آئی اے کی ناکام بولی نجکاری کمیشن کی حکمت عملی اور کارکردگی پر بڑا سوالیہ نشان ہے کیونکہ سوا سوال پر محیط نجکاری کا یہ عمل کسی نتیجے پر منتج نہیں ہوا۔ نجکاری کمیشن اور تکنیکی مشیر کی طرف سے مہیا کیے گئے غلط اعدادوشمار پر مقامی سرمایہ کار نالاں نظر آئے اور پی آئی اے کے سالانہ اکائونٹس کا آڈٹ کروانے کے بعد بھی بولی کے عمل میں شامل نہیں ہوئے۔ سینئر صحافی عامر ضیاء کے ایک سرمایہ کار سے رابطہ کرنے پر انہیں بتایا کہ وہ پی آئی اے کے بین الاقوامی روٹس بارے غیریقینی صورتحال اور قرضوں کے حجم میں ابہام کی وجہ سے بولی لگانے سے دور رہے اور واحد بولی دہندہ وہ تھا جس کا ریئل سٹیٹ کے علاوہ کسی شعبے میں تجربہ نہیں، بولی دہندہ کی طرف سے غیرسنجیدہ بولی لگائی گئی جو پی آئی اے کے ایک جہاز کی قیمت سے بھی کم تھی۔
سعودی عرب میں بوئنگ 777 طیاروں کی جدہ سے ریاض ٹرکوں کے ذریعے بذریعہ سڑک منتقل کرنے کے بعد اب پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک مسافر بردار طیارے کو بذریعہ سڑک ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق سڑک کے راستے نیو بابر کارگو موورز نامی کمپنی کے ٹرک کے ذریعے ایک مسافر بردار طیارہ کراچی سے حیدرآباد پہنچایا گیا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں طیارے کو بذریعہ سڑک ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کا پہلا آپریشن ہے۔ مسافر بردار طیارے کو کراچی سے حیدرآباد منتقل کرنے کے لیے خصوصی ٹرک اور ٹرالی کو استعمال کیا گیا اور طیارے کو تربیتی مقاصد کے لیے حیدرآباد میں واقع سول ایوی ایشن ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں منتقل کیا جا رہا ہے۔ ہمایوں خالد نامی ٹرانسپورٹر نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا کہ اس طیارے کا وزن 40 ٹن اور لمبائی 110 فٹ ہے ، ناکارہ جہاز بوئنگ 737 ہے جس میں 240 لوگوں کے سفر کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ ہمایوں خالد کا کہنا تھا کہ بوئنگ 737 کو رات گئے کراچی ایئرپورٹ سے سپرہائی منتقل کیا گیا ہے جہاں سے اسے حیدرآباد کے سول ایوی ایشن ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ میں پہنچایا جائےگا۔ موٹروے پولیس کے مطابق طیارہ پروٹوکول کے تحت منتقل کیا جا رہا ہے اس دوران موٹروے بلاک نہیں ہو گی اور ٹرک کو سڑک کی ایک سائیڈ پر چلایا جائے گا، طیارے کی دوسرے شہر منتقلی کے دوران نجی کمپنی کا عملہ اور سول ایوی ایشن کا عملہ ساتھ رہے گا۔ یاد رہے کہ چند دن پہلے سعودی عرب میں 3 پرانے بوئنگ 777 طیارے جدہ سے ریاض بذریعہ سڑک منتقل کیے گئے تھے جس کی تصاویر سوشل میڈیا ویب سائٹس پر وائرل ہوئی تھیں۔ مسافر بردار طیاروں نے جدہ سے 1ہزار کلومیٹر کا سفر 12 دنوں میں طے کیا تھا اور ریاض پہنچے، سعودی عرب کے مقامی لوگوں نے طیاروں کی تصاویر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر شیئر کی تھیں جو صارفین کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ملتان میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ کے دوران انگلینڈ ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان بین سٹوکس کے گھر پر نقاب پوش گینگ نے ڈکیتی کی واردات کر کے قیمتی اشیاء چرا لیں۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر اپنے طویل پیغام میں انگلینڈ ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے 33 سالہ کپتان بین سٹوکس نے بتایا کہ گھر پر ڈکیتی کی واردات کے دوران کے گھر والوں کو کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا تاہم واردات کے دوران میرے گھر سے چور بہت سی قیمتی اشیاء اٹھا کر لے گئے ہیں۔ بین سٹوکس کا اپنے پیغام میں ملزموں کو پکڑوانے میں مدد کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات 17 اکتوبر 2024ء کی رات بہت سے نقاب پوش لوگوں نے کیسل ایڈن میں واقع میں گھر پر چوری کی واردات کی۔ چور زیورات کے ساتھ قیمتی سامان بھی چرا کر لے گئے جن میں بہت سی چیزوں سے میرے اور میرے خاندان کے جذبات جڑے ہیں ، یہ نقصان ناقابل تلافی ہے۔ اپنے پیغام میں چوروں کی شناخت میں مدد کی اپیل کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس جرم کی سب سے بھیانک بات یہ تھی کہ یہ واردات اس وقت کی گئی جب میری بیوی اور 2 بچے گھر میں موجود تھے، شکر ہے کہ میرے اہل خانہ کو کسی قسم کا جانی نقصان نہیں ہوا۔ میرے اہل خانہ پر اس واقعے کا برا اثر پڑا ہےاور صرف یہ سوچ کر اطمینان کے کہ صورتحال اس سے زیادہ کتنی خراب ہو سکتی تھی؟ بین سٹوکس نے اپنے پیغام میں لکھا کہ گھر سے چوری کی گئی کچھ چیزوں کی تصاویر آپ کے ساتھ شیئر کر رہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ آسانی سے شناخت ہو جائے اور ان لوگوں کو تلاش کیا جا سکے جو اس کے ذمہ دار ہیں۔ تصویریں شیئر کرنے کا مقصد ان چیزوں کا حاصل کرنا نہیں بلکہ ان لوگوں کو پکڑا ہے جنہوں نے چوری کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی کے پاس بھی اس واقعے سے متعلقہ معلومات ہیں تو ہمارے ساتھ رابطہ کریں اور آخر میں پولیس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے میرے پاکستان میں ہونے کے باوجود بھرپور مدد کی۔ پولیس نے میرے ملک سے باہر ہونے کے باوجود اہل خانہ کی انتہائی مدد کی اور واردات میں ملوث لوگوں کو تلاش کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کرنے پر ان کا شکرگزار ہوں۔ واضح رہے کہ بین سٹوکس کے گھر پر چوری کی واردات 17 اکتوبر کو پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان ملتان میں کھیلے گئے ٹیسٹ میچ کے دوران کی گئی جب ان کی بیوی اور بچے گھر پر موجود تھے۔ بین سٹوکس کی طرف سے سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر میں گھڑی اور قیمتی ہاروں کی تصاویر شامل تھیں جو ان کے گھر سے چوری کر لی گئیں۔
ملک بھر میں بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں اور انتظامیہ ایسے افراد کو قانون کی گرفت میں لانے میں ناکام نظر آتی ہے ایسا ہی ایک واقعہ آج سندھ ہائیکورٹ میں پیش آیا جہاں پر زیادتی کا ملزم ضمانت مسترد ہونے کے بعد عدالت سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ ذرائع کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں 10 سالہ معصوم بچی سے جنسی زیادتی کے ملزم کی ضمانت کے کیس کی سماعت ہوئی، عدالت نے ملزم سکول ہیڈماسٹر کی درخواست ضمانت مسترد کردی تاہم وہ عدالت سے فرار ہو گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں کراچی کے علاقے مواچھ گوٹھ میں ایک 10 سالہ معصوم بچی سے جنسی زیادتی کا ملزم سکول ہیڈماسٹر محمد حنیف ضمانت پر ہے جس کے خلاف درخواست گزار کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ اس نے اپنی ضمانت کا ناجائز فائدہ اٹھا کر مقدمہ کے مدعی بچی کے والد کے خلاف جھوٹا مقدمہ درج کروا دیا ہے۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ملزم جنسی زیادتی کا شکار ہونے والی 10 سالہ بچی کے والد پر جھوٹا مقدمہ کرنے کے علاوہ اہل خانہ کو ہراساں کر رہا ہے اور مقدمہ واپس لینے کیلئے دبائو ڈال رہا ہے اس لیے ملزم کی ضمانت مسترد کی جائے۔ عدالت نے کیس کی سماعت کے بعد ملزم کی درخواست ضمانت مسترد کر دی جس کے بعد ملزم محمد حنیف عدالت سے فرار ہو گیا۔ استغاثہ کے مطابق 10 سالہ بچی سے زیادتی کرنے کا واقعہ رواں برس ماہ جون 2024ء میں سکول میں پیش آیا تھا جہاں سے ملزم محمد حنیف نے بچی کی والدہ کو فون کر کے کہا تھا کہ بچوں کو سکول بھیجوں میں عیدی دینی ہے۔ والدہ نے ملزم کے فون کے بعد اپنی بچی کو سکول بھیج دیا جہاں پر ملزم محمد حنیف نے بچی کے ہاتھ پائوں باندھ کر اسے زیادتی کا نشانہ بنایا اور موقع سے فرار ہو گیا اور ضمانت پر تھا۔
ملکی خزانے پر بوجھ ودیگر مسائل میں جکڑی ہوئی قومی ایئرلائن پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز ـ(پی آئی اے) کی نجکاری میں کسی کمپنی کی طرف سے دلچسپی کا اظہار نہیں کیا گیا، نجکاری کے لیے صرف ایک بولی دہندہ باقی رہ گیا ہے جس کے بعد نجکاری میں ممکنہ طور پر تاخیر ہونے کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی نجکاری کے لیے بولی لگانے کی آخری سے ایک دن پہلے تک صرف ایک کنسورشیم کی طرف سے پیشگی کوالیفیکیشن دستاویزات جمع کروائی گئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کے پرانے جہاز، 200 ارب کا قرضہ اور دیگر مسائل میں پھنسے ہونے کی وجہ سے بولی دہنگان کی خواہش ہے کہ حکومت ادارے کے کم حصص کے بجائے 100 فیصد حصص فروخت کرے تاکہ مکمل کنٹرول ملنے کے بعد ادارے کو درپیش چیلنجز پر مکمل اختیارات کے ساتھ قابو پایا جائے تاہم اب پی آئی اے کی نجکاری میں ممکنہ طور پر تاخیر کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کی طرف سے ابتدائی طور پر 6 کنسورشیم کو بولی لگانے کا اہل قرار دیا گیا تھا تاہم نجکاری کے عمل سے 5 کنسورشیم کے پیچھے ہٹنے کے بعد صرف ایک بولی دہندہ باقی رہ گیا ہے۔ دوسری طرف نجکاری کمیشن کی طرف سے 31 اکتوبر تک پی آئی اے کی نیلامی کیلئے تیاریاں کی جا رہی ہیں اور میڈیا سمیت اہم سٹیک ہولڈرز کو مدعو کر لیا گیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی نیلامی کی تیاریاں کرنے کے ساتھ ساتھ پی آئی اے حکام کا سٹینڈ بائی پر رہنے کا مشورہ دیا گیا ہے، اس سے پہلے ابتدائی طور پر حکومت کی طرف سے جون 2024ء تک نجکاری منصوبہ بنایا گیا تھا، حکومت نے معاملے میں تاخیر ہونے کی وجہ سے نجکاری کی ڈیڈلائن کو اکتوبر تک بڑھا دیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی طرف سے نئے قرض پروگرام کے حصول کیلئے قومی خزانے پر بوجھ پی آئی اے جیسے سرکاری اداروں کی نجکاری کو ترجیح دینے کا کہا گیا تھا۔ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کارپوریشن لمیٹڈ کو گزشتہ برس 75 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا جس کے بعد واجبات بڑھ کر 825 ارب تک پہنچ چکے ہیں جبکہ پی آئی اے کے مجموعی اثاثوں کی مالیت 161 ارب روپے ہے۔
عالمی بینک کی طرف سے پیشگوئی کی گئی ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کے باوجود تیل کی پیداوار بڑھنے سے اگلے برس عالمی اجناس کی قیمتیں 5 برسوں کی کم ترین سطح پر آ جائیں گی۔ عالمی بینک کی طرف سے تازہ ترین کموڈٹی مارکیٹس آئوٹ لک(سی ایم او) رپورٹ جاری کر دی گئی ہے جس میں کہا گیا کہ اس کم کے باوجود اجناس کی مجموعی قیمتیں کورونا وبا پھیلنے سے پہلے کے 5 برسوں کے مقابل 30 فیصد زیادہ رہیں گی۔ رپورٹ کے مطابق انفرادی اجناس کی قیمتوں کے ملے جلے تخمینے ہیں تاہم سپلائی میں بہتری کی وجہ سے قیمتوں میں مجموعی طور پر میں کمی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ آئندہ برس تک تیل کی عالمی سطح پر یومیہ سپلائی 12 لاکھ بیرل کی اوسط طلب سے بڑھنے کی توقع ہے اور ایسا اس سے پہلے صرف 2 دفعہ کرونا وبا پھیلنے کی وجہ سے شٹ ڈائون اور 1998 میں تیل کی قیمتیں کم ہونے کے دوران دیکھنے میں آیا تھا۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق تیل کی ضرورت سے زیادہ فراہمی جزوی طور پر چین میں رونما بڑی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہے جہاں برقی گاڑیاں اور مائع قدرتی گیس (ایل این جی) پر چلنے والے ٹرکوں کی فروخت میں اضافہ ہوا اور گزشتہ برس کے مقابلے میں صنعتی پیداوار میں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پٹرولیم مصنوعات برآمد کرنے والے ملکوں کی تنظیم (اوپیک پلس) یا اس اتحاد میں شامل نہ ہونے والے ملکوں کی طرف سے بھی تیل کی پیداوار میں اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔ اوپیک پلس بذات نے بذات خود پٹرولیم مصنوعات کی پیداوار میں اضافی صلاحیت برقرار رکھی ہے جس کی اس وقت یومیہ پیداوار 70 لاکھ بیرول کے قریب ہے جو کرونا وبا پھیلنے والے دور سے دوگنا ہے۔ رپورٹ میں عالمی اجناس کی قیمتیں 2024ء سے 2026ء کے دوران 10 فیصد تک گرنے کا امکان ظاہر کیا گیا ہے جبکہ رواں برس اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 9 فیصد اور 2025ء میں 4 فیصد تک مزید گرنے کا امکان ہے جو 2015ء سے 2019ء کے درمیان قیمتوں کی اوسط کے مقابلے میں تقریباً 25 فیصد زیادہ ہوں گی۔ 2025ء میں توانائی کی قیمتوں میں 6 فیصد اور 2025ء میں مزید 2 فیصد کمی واقع ہو گی، خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں کمی کی وجہ سے مرکزی بینکوں کو بڑھتی ہوئی مہنگائی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں بڑھتے ہوئے مسلح تنازعات توانائی فراہمی میں خلل کی وجہ سے توانائی وخوراک کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنتی ہیں جس سے مہنگائی پر قابو پانے میں مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔

Back
Top